حافظ فوزان احمد:
’’ہم ترے فراق سے غمزدہ ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ راضی ہے تو میرا شدید ترین غم میرے لئے آسان ہے: مولانا مطيع الله مدني
’’کل یوم ہو فی شأن‘‘ اللہ تعالیٰ ہر دن ایک شان میں ہوتا ہے، کسی کو بے پناہ نعمتوں، بے پایاں مسرتوں سے نوازتا ہے، کسی کو بے حد وحساب غم واندوہ، بے انتہا درد وکرب میں مبتلا کرکے رونے بلکنے اور سسکنے کیلئے چھوڑ دیتا ہے، کسی کو حیات وزندگی عطا کرتا ہے، کسی کو موت کی آغوش میں پہونچا دیتا ہے۔ کسی کو انواع واقسا م کی دولت عطا کرتا ہے، کسی کو فقروفاقہ سے دوچار کرتا ہے،کسی کو صحت وسلامتی عطا کرتا ہے، کسی کو امراض وآہات کا شکار بنا دیتا ہے۔ ’’وللہ فی خلقہ شؤن‘‘۔’’ہم ترے فراق سے غمزدہ ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ راضی ہے تو میرا شدید ترین غم میرے لئے آسان ہے: مولانا مطيع الله مدني
کسی کو خوشی ملے، کوئی ہموم وغموم کا بارگران اٹھا کر آہوں، کراہوں میں مبتلا ہو، اسے کچھ پرواہ نہیں، وہ اللہ تعالیٰ تو غنی عن العالمین ہے۔ اسکی ذات غنی حمید ہے: وہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔
اللہ کا فضل واحسان ہے اور اسکا شکر گزار ہوں کہ مجھ پر اسکی نعمتیں بے شمار ہیں اس نے ہمیں بے پناہ مسرتوں سے نوازا ہے۔ دولت ایمان اور نعمت اسلام سے آراستہ کیا ہے عقیدۂ توحید کی لازوال دولت سے مالا مال کر رکھا ہے، دینی تعلیم سے آراستہ کیا ہے علم الکتاب والسنۃ کی فضیلت مآب دولت عطا کیا ہے، دنیوی نعمتوں اور فانی لذتوں سے بھی نصیب وافر عطا کیا ہے، اولاد کی نعمت عطا کی ہے۔
خوشیاں ہی خوشیاں تھیں دامن میں میرے
اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے ایک ایسا وقوعہ پیش آیا۔ جس نے مجھ پر غم واندوہ کا ایسا پہاڑ توڑدیا جسکی نظیر نایاب توبالکل نہیں مگر کم یاب ضرور ہے۔
۲۷؍جنوری ۲۰۱۱ء جمعرات کے دن میرے دل کے ٹکڑے جوان سال فرزند عزیز مکرم فوزان أحمد السنابلی کا دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے بحکم رب آنا فآنا انتقال ہو گیا۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ’’إن للہ ما أخذ ولہ ما أعطی‘‘وکل شےئی عندہ بمقدار۔
یہ خبر سن کر مجھ پر غم والم کا پہاڑ ٹوٹ گیا، میری خوشیوں کا سمندردردورنج کی کڑواہٹ اور تلخی سے آلودہ ہو گیا، گلشن حیات کی پر رونق بہار پر خزاں کا گہرا سیاہ بادل سایہ فگن ہو گیا میرے چاروں طرف مہیب اندھیرا چھاگیا، شب غم کی تاریکی اتنی شدید تھی کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا، والدۂ فوزان کی حالت کیا ہوئی ہوگی؟ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
البتہ ایک چراغ نہا خانہ دل میں پوری آب وتاب کے ساتھ روشن تھا،وہ تھا میرے ایمان وعقیدہ کا روشن چراغ، دل ودماغ میں توحید کی شمع فروزاں، ایمان بقضاء اللہوقدرہکا پرنور تابندہ درخشندہ فانوس جس سے دل ودماغ کی دنیا منور تھی اور معطر ومعنبر بھی ’’ان اللہ تعالیٰ قدر وماشاء فعل‘‘پر میرا ایمان مزید کامل ہوا، مجھ میں قضا وقدر پر تسلیم ورضا کی ایمانی خو مزید مستحکم ہوئی، عالم الغیب والشہادہ اور علام الغیوب کے علم کامل پر میرا ایمان پختہ سے پختہ تر ہوگیا۔ ’’ألا لہ الخلق والأمر‘‘اور ’’یفعل ما یشاء بہ‘‘ اور ’’فعال لما یرید‘‘ پر میرا ایقان واذعان خوب محکم ہوگیا، دل نے گواہی دی اور زبان نے اقرار کیا۔
’’آمنت باللہ وقضاۂ وقدرہ ماشاء اللہ کان ومالم یشأ لم یکن ‘‘ میں نے شرح صدر سے کہا : ’’اللہم لک الحمد علی ما قضیت ولک الشکر علی ما عافیت فانک تقضی ولا یقضی علیک والخیر کل الخیر فیما قضیت وقدرت علی۔ فإن الخیر بیدیک والشر لیس إلیک‘‘ لا راد لقضاۂ ولا معقب لحکمہ: میرا عقیدہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ واضح بات ہے کہ میرا غم انتہائی شدید ہے اظہار غم کا شرعی طریق ہے کہ آنکھ أشک بار ہو، دل آماجگاہ غم بن جائے اور فراق دل بند سے دل رنجیدہ ہوجائے اور ہم غموں کی تصویر بن جائیں۔
اس حتمی وقطعی وقوعہ پر میری آنکھوں سے سیل اشک روان ہوا، آہوں اور سسکیوں کا طویل سلسلہ رہا میرا دل غموں کا گہوارہ بن گیا۔اس عالم میں جس قدر اپنوں کو دیکھتا اور ان سے ملتا اسی قدر میری آنکھیں اشک باری کرتی تھیں۔ غم دل کو کھاتا تھا۔اور جگر کو چاٹتا تھا۔
میں اپنے لخت جگر فوزان أحمد سنابلی کے فراق سے خوب رنجور ہوا، مگر میں نے اپنے خالق ومالک اپنے رب کو راضی کرنے والی ہی بات زبان سے ادا کی ’’إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ۔ إن للہ ما أخذ ولہ ما أعطی۔ قدراللہ وماشاء فعل۔ ماشاء اللہ کان وما لم یشاء لم یکن۔ آمنت باللہ وقضاۂ وقدرہ وتوکلت علیہ۔ ألالہ الخلق والأمر ’’یفعل مایشاء‘‘ اور ایمان بالقدر اور صبر وتسلیم ورضا پر مشتمل کلمات کو ورد زبان بنائے رکھا۔
آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بھی امنڈتا رہا اور زبان پر کلمہ حمدوشکر بھی ساتھ جاری رہا، اپنے والدین، أم فوزان اور جملہ اقارب واحباب کو نوحہ وفغان سے روکتابھی رہا، آواز کے ساتھ رونے سے قطعی اجتناب کی تلقین ووصیت بھی جاری رکھا۔
مختلف دعائیں ورد زباں رہیں بالخصوص: ’’اللہم اجرنی فی مصیبتی وأخلف لی خیرا منہا‘‘ اے اللہ تو مجھے میری مصیبت میں مجھے بدلہ عطا کر اور اس سے بہتر جانشین عطا کر۔
درج ذیل سطور میں عزیزم حافظ فوزان أحمد السنابلی۔ رحمہ اللہ وغفر لہ۔کا سوانحی خاکہ اور سفر آخرت کی مختصر روداد قلمبند کی جا رہی ہے شاید کسی ماں باپ اور بیٹے کے لئے عبرت وموعظت کا نفع بخش اور فائدہ مند سامان بن جائے اور عبرت کا درس ثابت ہوجائے۔
ولادت: ماہ مبارک رمضان ۱۴۰۸ھ کی ۲۳ تاریخ مطابق ۱۱؍مئی ۱۹۸۸ء کو رات میں ہوئی جب مصلیان مسجد تراویح کی صلاۃ ادا کر رہے تھے۔ میں اس وقت جامعہ اسلامیہ مدینہ کا طالب تھا اور اس رات مکہ مدینے کے درمیان بغرض ادائیگی عمرہ سفر میں تھا۔ فوزان احمد کی ولادت سے میرے گھر میں مسرتوں کی باد بہاری چلنے لگی۔میرے والدین پورا خاندان اور اقارب مسرت و شادمانی سے مگن ہونے لگے۔ اس سے قبل ۱۹۸۵ء میں پہلی مولود بچی کا دو ماہ سے بھی کم عمر میں اور ۱۹۸۶ء میں ایک نو مولود بچے کا بعد از ولادت انتقال ہو چکا تھا۔ جب فوزان احمد سلمہ کی عمر چار سال کی ہوئی گاؤں کے مدرسہ میں تعلیم کا آغاز ہوا اور پھر مدرسہ تعلیم القرآن والسنۃ میں داخل ہوئے اور وہیں درجہ پنجم پاس کیا۔
دس سال کی عمر میں جامعہ التوحید بجوا کے شعبہ حفظ میں داخلہ لیا، وہیں پر چار سال میں حفظ اور دور مکمل کیا اور شہادۃ حفظ القرآن الکریم وتجویدہ سے سرفراز ہوئے، اس کے بعد ہندوستان کی عظیم شہرہ آفاق درسگاہ ’’جامعہ اسلامیہ سنابل‘‘ مرکزابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر نئی دہلی داخل ہوئے۔ کامل آٹھ سال گذار کر وہاں پر متوسطہ عالمیت اور فضیلت کا کورس مکمل کیا اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔شعبان ۱۴۳۱ھ میں عالیہ (فضیلت) کا کورس مکمل کیا۔
اور اس عظیم درسگاہ کے فاضل اساتذہ سے کسب فیض کیا جن میں : مولانا عزیز أحمد مدنی،مولانافضل الرحمن ندوی، مولاناعاشق علی اثری، مولانا عبدالبر مدنی، ڈاکٹر محمد مفضل مدنی، مولاناعبدالمنان مدنی، مولانا شکیل احمد مدنی، مولانا،شیخ ابوالمکارم ازیری ، ماسٹر ثروت وغیرہم نمایاں ہیں۔
میں نے عزیزم فوزان احمد کو حفظ قرآن کریم کی عظیم نعمت سے آراستہ کیا اور زمانہ تحفیظ اور تکمیل تحفیظ کے بعد سے اب تک علاقہ اور ممبئی اور اس کے باہر متعدد مساجد میں رمضان کے ماہ مبارک میں صلاۃ التراویح کی امامت کرتے رہے۔
فوزان کے علاوہ میرے دو لڑکے فرحان أحمد اور زہران أحمد بھی حفظ قرآن کی نعمت بے بہا سے آراستہ وپیراستہ ہیں یوں اللہ تعالیٰ نے مجھے عظیم سعادت عطا فرمائی ہے۔
میں ۱۹۸۳ء میں فراغت کے بعد مؤ آئمہ ضلع الہٰ آبادمیں تدریسی خدمت کی بجا آوری پر مامور ہوا تو وہاں پر مدرسہ محمدیہ کے ذمہ دار مولانا عبدالنور اثری رحمہ اللہ نے جامع مسجد اہل حدیث محلہ کوٹ میں امامت صلوات کے اہم ترین فریضہ پر مامور کیا ان دنوں مجھے کچھ زیادہ سورتیں نہیں یاد تھیں، مجھے یہ بات راس نہ آئی کہ میں چند ہی سورتیں روز بار بار دہراتا رہوں، عزم کیا کہ میں متعدد سورتیں یاد کرونگا طریقہ یہ اپنایا کہ روزانہ صلاۃ عشاء میں جدید یاد کردہ آیات کی تلاوت کرتا یوں قرآن کریم سے میرا تعلق اور شغف گہرا ہوتا گیا۔اور میں نے سال بھر میں پانچ چھ پارہ قرآن یاد کر لیا اور جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں بطور نصاب آٹھ پارہ یاد کرنا پڑا ۔یوں قرآن کا ایک اچھا خاصہ حصہ مجھے یاد ہے ۔وللہ الحمد
وہیں پر یہ قلق رہا کہ کاش میں حافظ قرآن ہوتا انھیں حالات میں میں نے اپنے دل میں یہ عزم بالجزم کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد کی نعمت عطا کی تو میں انھیں حافظ قرآن بناؤں گا۔
یوں میں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو حفظ قرآن کی فضیلت مآب راہ پر لگایا اور اللہ کے فضل واحسان سے میرے تین بڑے بچے حافظ قرآن کریم ہیں: ’’فالحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات‘‘
اس سال میں نے کوشش کرکے سعودی عرب کی حکومت کے زیر اہتمام’’ شاہ عبدالعزیز آل سعود بین الأقوامی عظیم مسابقہ قرآن کریم ‘‘منعقدہ مکہ مکرمہ میں ایک متسابق کی حیثیت سے عزیزم فوزان أحمد سلمہ کی شرکت کو یقینی بنا لینے میں کامیابی حاصل کرلی۔
چنانچہ مورخہ ۱۸؍دسمبر ۲۰۱۰ء کو وہ مکہ مکرمہ گئے وہاں پر عمرہ کی ادائیگی کی سعادت سے سرفراز ہوئے مدینہ طیبہ پہونچکر مسجد نبوی کی زیارت کی۔ یوں مسابقہ میں شرکت کے ساتھ ہی حرمین شریفین کے فیوض وبرکات سے حسب توفیق الٰہی مستفیض ہوئے۔
مسجد نبوی مدینہ طیبہ کی زیارت کے دوران جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں بغرض داخلہ انٹرویو دیا۔ جس میں کامیابی کی پوری توقع تھی، مدینہ سے واپسی کے بعد ایک دن کا قیام جدہ میں تھا، وہاں پر میرے عم زاد نوشاد أحمد مقیم حال جدہ سے ملاقات ہوئی۔ نوشاد احمد سلمہ نے اپنے بھتیجے کی بڑی عزت وقدر افزائی کی مختلف تحائف سے نوازا ۔ فجزاہ اللہ خیرا۔
۶؍جنوری کی فلائٹ سے دہلی واپس آئے اور وہاں سے ۸؍جنوری کو چل کر ۱۰؍جنوری کی صبح کو بڑھنی پہونچے جہاں پر میرا قیام ہے، اس وقت میری اہلیہ ام فوزان کی خوشیاں قابل دید تھیں۔ ہم دونوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ ان کی فراغت اور مسابقہ قرآن کریم مکہ مکرمہ میں شرکت کی خوشی میں شکرانہ کی دعوت کریں گے جس میں میرے خصوصی احباب ومتعلقین شریک ہوں۔ اس کا نفاد بھی نہ ہوا تھا کہ یہ غمناک وقوعہ پیش آگیا۔تمام احوال وکوائف سفر معلوم کرنے کے ساتھ ان کو ملے تحائف اور علمی کتابوں اور سی ڈی اور دیگر اشیاء کو دیکھنے کے ساتھ اظہار فرحت ومسرت کا ایک خاص سماں تھا۔ میں نے انٹرویو کا حال دریافت کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھا۔ کہ کیا سوال کیا گیا؟ آپ نے کیا جواب دیا؟ ویسے بفضل اللہ مجھے پوری توقع تھی کہ انکو کامیابی ملے گی اور ’’مجددین وعقیدہ یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ‘‘ میں اعلیٰ تعلیم کا موقعہ ملے گا۔ لیکن ’’وما تشاؤون إلا أن یشاء اللہ رب العالمین‘‘
اسی دوران وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے دادا دادی اور نانا نانی اور تمام خویش وأقارب سے ملاقات کیلئے ششہنیاں اور کولہوا گئے اور وہاں پر دور وزہ قیام کے بعد واپس میرے پاس بڑھنی آگئے۔ وہ یہاں شوال سے ہی میرے پاس تھے۔ مکہ جانے سے قبل میں نے ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ دلوادیا تھا جس میں انھیں خاطر جانکاری حاصل ہو چکی ہے۔پھر چند دن تک عزیزم مکرم ذاکرحسین سلمہ کے پاس رہ کر کمپیوٹر تعلیم میں کافی حد تک مہارت بہم پہونچا لی تھی۔
سفر مکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے اپنی والدہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ابو مجھے کہیں پر تدریس کے لئے مامور کردیں، میں نے احباب اور بعض اداروں کے ذمہ داران سے رابطہ کیا ۔ چونکہ درمیان تعلیمی سال آسامیاں کم ہی خالی رہتی ہیں۔ مجھے خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔
اس سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مجھے ان کے سعودی جامعات میں سے کسی میں داخلہ کی قوی امید تھی۔ اس لئے میں چاہتاتھا چند ماہ میرے ساتھ قیام کر لیں ورنہ اکثر تعلیم یافتہ حضرات تو عموما زندگی کا بیشتر حصہ والدین سے دور ہی گذارتے ہیں۔
دودھونیاں میں ایک نسواں اسکول کے ذمہ دار نے مجھ سے اور خود عزیزم فوزان أحمد سے یہ پیشکش کر چکے تھے کہ آپ ہمارے مدرسہ میں تدریس کا کام سنبھا لیں۔
چونکہ میرے عزائم کافی بلند تھے منصوبے عظیم تھے میری خواہش تھی کہ اگر یہ تدریس کاکام سنبھال لیں تو کسی عظیم درسگاہ کا انتخاب کیا جائے۔
ایک دن اسی مدرسہ کی معلمہ، جو میری شاگرد اور ام فوزان سے غایت درجہ مانوس ہے۔ أم فوزان کے پاس آئی اور اس نے اپنی خالہ ام فوزان سے زوردار سفارش کی کہ آپ مولانا(مطیع اللہ) سے کہہ دیں کہ فوزان بھیہ کوہمارے مدرسہ میں پڑھانے کی اجازت دیدیں۔ میں اس دن گھر پر موجود نہیں تھا۔ یہ غالباً ۲۰؍ جنوری کی بات ہے۔
میں جب گھر پہونچا تو ام فوزان نے اس بات کا تذکرہ مجھ سے کیا خود ان کی بات میں رضا مندی کی جھلک صاف نظر آرہی تھی، میں نے بھی ان سے اتفاق کرلیا، اور خاموش رہے۔ ۲۵؍جنوری کو دوپہر میں جب اپنے مدرسہ سے واپس آیا تو ’’مدرسہ فاطمۃ الزہراء‘‘ کے ناظم ماسٹر محبوب صاحب کو گھر پر موجود پایا سلام کے بعد انھوں نے کہاکہ آپ سے اجازت چاہئے۔ مولانا یعنی فوزان أحمد تیار ہیں۔میں نے کہا ضرور بغیر میری اجازت کے کیسے یہ کہیں جائیں گے؟
میں نے موصوف سے کچھ باتیں کیں میں نے کہاں کہ آپ یاد رکھیں یہ عارضی طور پر آپ کے مدرسہ میں رہ کر سال پورا کر دیں گے، انھوں نے کہاکیوں؟ میں اچھی تنخواہ دوں گا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں ان کو یہاں نہیں دیکھنا چاہتا ہوں، میں ان کو بہت بلندی پر لیجانا چاہتا ہوں میں انھیں باہر اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیجناچاہتا ہوں ۔ آپ نے فوزان احمد سے کہا ہے کہ کل چھبیس جنوری ہے بچوں کا پروگرام ہے آپ آجاےئے گا، وہ گئے اور بسلامت واپس آئے، خوش نظر آئے اپنے ماموں عبدالعلیم مقیم ممبئی سے رابطہ کیا کہ آپ کی موٹر سائیکل چاہئے، اجازت میں دیر نہ لگی، منصوبہ یہ تیار کیا کہ کل جمعرات دس بجے تک پڑھائی ہے۔ وہاں سے واپس آکر کولہوا جاؤں گا دوسرے روزموٹر سائیکل لیکر واپس آؤنگا۔
۲۷؍جنوری کی صبح ہوئی، میں بعد فجر چہل قدمی کرکے واپس آیا، آواز دیتا ہوں ’’بابو‘‘ یعنی فوزان اپنے کاغذات یعنی اسانید وغیرہ کا ایک سیٹ تیار کرکے مجھے دیدو فوٹو کاپی کروا کے، میں جامعۃ الملک سعود میں ارسال کردوں، جامعہ أم القری کے لئے صرف N.O.C.ورقہ بھیجنے کی ضرورت تھی، انھوں نے عبدالحمید صاحب طالب جامعہ ام القری کا ای۔میل ایڈریس نوٹ کروایا تاکہاس پرN.O.C. ورقہ بھیجا جا سکے۔
اسی وقت وہ تروتازہ، ہشاش وبشاش تھے، بظاہر کہیں سے وہ مضطرب یا مضمحل نظر نہیں آرہے تھے۔ مجھے ناشتہ دینے میں والدہ کی مدد کی اور خود کیچن میں ناشتہ کیا تیار ہوئے لباس زیب تن کیا۔ ان کو کسی رکشہ وغیرہ سے جاناتھا، کچھ پہلے نکلے، اپنی والدہ سے بولے امی! جا رہا ہوں ساتھ میں میرے چھوٹے بچے بھی نکلے۔ انھوں نے کسی موٹر سائیکل سوار سے لفٹ لی اور مدرسہ پہونچ گئے۔
وہاں پہونچکروہاں موجود اسٹاف سے سلام کلام کیا۔ ان لوگوں کا بیان ہے وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے ایک کمرے میں مطالعہ کتاب میں مصروف ہوئے انھیں پہلی گھنٹی میں صحیح بخاری کا درس دینا تھا۔ گھنٹی کا وقت قریب ہوا، وہاں کمرے میں بیٹھے تھے۔ اندرونی طورپر اضطراب محسوس کیا۔ کرسی لیکر کمرے سے باہر آئے، ماسٹر فہیم صاحب قریب ہوئے، فوزان نے ان سے کہا کہ میری طبیعت خراب لگتی ہے اور پھر نگاہ اوپر اٹھی اور کرسی پر غش کھا کر ایک جانب لڑھک گئے ماسٹر صاحب نے تھام لیا اور پھر ممکنہ طور پرجلدی ہی بڑھنی بلاک اسپتال لائے۔ اس سے قبل ہی حکم رب پورا ہو چکا تھا۔ اس کی مشیت اور اس کے اذن سے ملک الموت ان کی روح قبض کر چکا تھا۔ میرے ثمر�ۂ دل کوفرشتے موت کی آغوش میں پہونچا چکے تھے۔ فإنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
مجھے ابھی تک کچھ خبر نہ تھی۔ میں وقت مقررہ پر اپنے مدرسہ پرپہونچکر پہلی گھنٹی میں صحیح البخاری کا درس دے رہاتھا۔ نو بجکر چالیس منٹ پر گھنٹی ختم ہوئی، کلےۃ عائشہ صدیقہ میں مولاناوصی اللہ مدنی نے بلا رکھا تھا، دوسری گھنٹی خالی تھی، ہاتھوں میں بابو کے کاغذات کا سیٹ لیکر وہاں پہونچا۔ ابھی وہاں کے بعض مدرسین سے ملاقات ہوئی تھی، بابو کا ذکر نکل آیا، ان کی شادی سے متعلق ایک جملہ میری زبان سے ادا ہوا، فون کی گھنٹی بجی۔ حافظ عتیق الرحمن سلمہ محاسب مدرسہ خدیجۃ الکبری کی بڑھنی بلاک سے فون پر آواز آئی کہ آپ جلدی سے بلاک پر آجائیں فوزان کی طبیعت خراب ہے۔
چونکہ میں نے انکو توانا وتندرست روانہ کیا تھا، فوری طور پر میری زبان سے جملہ ادا ہوا کہ کیا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے؟ وہ بولے نہیں بس آپ آجاےئے، وہاں سے سرحد پر پہونچا جہاں میری بائیک کھڑی تھی فون کی گھنٹی دوبارہ بجی اور موصوف حافظ صاحب نے یہ خبر دینے میں کوئی دیر نہ لگا ئی کہ ’’فوزان نہیں ہیں‘‘ اس وقت میری حالت غیر ہو گئی اور جس اضطرابی کیفیت اور سراسیمہ حالت کا شکار ہوا میں خود اس کو قلمبند کرنے سے قاصر ہوں، اشارے سے وہاں موجود اشخاص کو بلاتا ہوں، ببلو بھائی نے میری طرف رخ کیا میں نے کہاں میری بائیک سے مجھے میرے گھر پہونچا دیجئے، انھوں نے کہا آےئے میری کار میں بیٹھئے میں نے وہاں عتیق الرحمن کمپیوٹر آپریٹر السراج کو کہا کہ مولانامحمد اسلم مدنی ؔ اور مولانا انیس الرحمن مدنیؔ کو فوراً میرے گھر بھیجئے۔
گھر کی طرف مڑا وہاں سامنے گاڑی کھڑی دیکھی لاش لانے والے ابھی گھر میں موجودمیری اہلیہ سے کسی بڑی چار پائی کا مطالبہ کر رہے تھے کہ میں پہونچ گیا، بہر حال لاش گاڑی سے نکالی گئی اور چارپائی پر ڈال دی گئی۔
اب ام فوزان کو معاملہ کا علم ہوا ، ان کی حالت دگرگوں ہوگئی، انھیں سنبھالنامیرے لئے کتنا مشکل تھاچند لمحوں میں خواتین کا جم غفیرپہونچا اور ان کے غم و الم میں شریک ہوئی اور سبھی کی آنکھیں اشکباری کر رہی تھیں۔میں نے آنکھیں پتھرانا پڑھااور سنا تھا، لیکن اس وقت میری آنکھیں پتھرا گئیں تھیں۔ رونے کی کوشش کے باوصف رونا نہیں آرہا تھا ادھر میرے مدرسہ کے ذمہ داران، اساتذہ ومعلمات وغیرہ اور دیگر احباب کو اطلاع ہو چکی تھی۔ چند لمحوں میں سب کی آمد ہوئی جب ان سب کو دیکھا تب جا کر میری آنکھوں سے آنسوؤں کا چشمہ رواں ہوا، گھر میں اہلیہ کی حالت حد درجہ قابل رحم تھی،وہ گریہ وزاری میں مبتلا تھیں۔
سبھی تعزیت کر رہے تھے، صبروسلوان کی وصیت کر رہے تھے مولانا عبداللہ مدنی، مولانا محمد اسلم مدنی مولانا انیس الرحمن مدنی اور مولانا عبدالمنان سلفی اور جملہ اساتذہ خدیجۃ الکبری وجامعہ سراج العلوم اور دیگر احباب تسلی کے کلمات ادا کر رہے تھے اکثر موجود حضرات مردوں کی آنکھیں پر نم تھیں۔
یہ حتمی وقوعہ کچھ ایسا ہی غم ناک اور کربناک تھا ساتھ ہی ظاہری طور پر آناً فاناً تھا کہ میرا وجود تو لرزنا ہی تھی، سبھی سننے والے لرز اٹھے، سبھی غم زدہ تھے اور میرے غم میں شریک بھی ادھر مولانا اسلم صاحب مدنی نے میرے کہنے کے مطابق مولانا محمدالیاس سلفی اور مولانا محمد عیسی بلال کو اولین اطلاع دیا کہ وہاں میرے بوڑھے والدین اور اقارب واحباب اور اہل قریہ کو اطلاع دیدیں گے اور وہاں پر ضروری انتظامات دیکھ لیں گے۔
ادھر میں نے گذارش کی کہ لاش اور ہمیں ششہنیاں بھیجوانے کا انتظام کردیں۔
فضیلۃ الشیخ عبداللہ مدنی صاحب اور تمام احباب نے اس مرحلہ کو آسان بنا دیا اور میں نے یہ بتلا دیا کہ عصر بعد صلاۃ جنازہ کی ادائیگی کا وقت ہوگا، کسی نوع کی تاخیر کی ضرورت نہیں ہے ہم یہاں سے روانہ ہوئے اور وہاں پر جب ہمارے گھر اور گاؤں میں اطلاع پہونچی تو ایک کہرام سا مچ گیا۔ڈومریا گنج سے میرے چھوٹے بھائی مولوی صفی اللہ مدنیؔ میرا بچہ زہران وغیرہ وہاں سے آئے اور ادھر تمام رشتہ دار بھی اور علاقہ وجوار میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
بابو عبدالعلیم صاحب نے اطہر علیم کو گاڑی لیکر لاش لانے کیلئے فوری طورپر روانہ کیا۔ادھر جب میں مع اہل وعیال بابو کی لاش کے ساتھ گھر پہونچا تو اس وقت کے منظر اور ماحول کی تصویر کشی سے میرا قلم عاجز ہے ہر طرف آہوں کراہوں اور سسکیوں کا راج تھا، پتھر دل انسان بھی آبدیدہ ہو رہا تھا۔ممبئی میں موجود میرے منجھلے بھائی مولوی ضمیرأحمد مدنیؔ میرے پھوپھازاد بھائی (فوزان أحمد کے ماموں رئیس، عبدالعلیم، حمدان اور میرے بچے فرحان کو اطلاع ملی، مدراس میں میری بہن اور بہنوئی کو یہ خبر مل گئی، سب پر یہ خبر صاعقہ بن کر گری، سب دم بخود ہوگئے رنج والم سے چور چور ہو گئے اور سبھوں نے ہم لوگوں کی تسلی وتعزیت کی خاطر فوری سفر کا ارادہ کیا اور گھر آئے۔ ان کی آمد پر گھر میں ایک بار پھر آہوں اور سسکیوں کا غم ناک سلسلہ رہا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرما۔
تجہیز وتکفین کا انتظام ہورہاتھا، بارہ بجے کے بعد ہم لوگ ششہنیاں پہونچے، سارا کنبہ اور رشتہ دار اور گاؤں والے موجود تھے ایک عجیب غم والم کا عالم تھا۔ میرے والدین اور بہنوں اور بچے کے نانا اور نانی کی حالت کس قدر قابل رحم تھی، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
غسل وتکفین کا مرحلہ طے ہوا۔ صلاۃ العصر کے بعد جنازہ اٹھایا گیا اور سواچار بجے سیکڑوں مسلمانوں نے جنمیں قابل ذکر تعداد اہل علم وفضل کی تھی۔فضیلۃ الدکتور الشیخ عبدالقیوم محمد شفیع البستوی ؍حفظہ اللہ وتولاہ امام وداعیہ وزارۃ الأوقاف قطر۔ جو چند یوم کے لئے گھر آئے ہوئے تھے۔ کی امامت میں صلوٰۃ جنازہ ادا کی اور پھر تدفین عمل میں آئی۔
اللّہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وأکرم نزلہ ووسع مدخلہ وأدخلہ الجنۃ۔
خصائل واخلاق:
انسان اس دنیا کے اندر اجتماعی زندگی میں اپنی عادات اور اخلاق سے پہچانا جاتا ہے۔ حسن اخلاق اور عمدہ خصلت کسی کو بھی دوسروں کے درمیان ممتاز قرار دےئے جانے کا ایک بہترین پیمانہ ہے۔ کسی کے اخلاق کی بہتری کا پیمانہ مختلف ہو سکتا ہے ایک ہی شخص کے حسن اخلاق اور قبح اخلاق کی شہادتیں جمع کے جا سکتی ہیں۔ ایک ہی شخص کے متعلق دو مختلف لوگوں کی متضاد رائے ہو سکتی ہے مثلاً ایک شخص اس کو حسن اخلاق کاپیکر اور شرافت کا منبع قرار دیتا ہے تو دوسرا شخص اسی کو بد اخلاقی اورخست و رزالت کا محور قرار دیتا ہے۔لیکن اسلام کی نظر میں حسن اخلاق کا حامل وہ ہے جس کے اخلاق وعادات اور خصائل اوصاف کی تحسین کتاب وسنت یعنی اسلامی شریعت کرتی ہو اور جس کے حسن کردار وگفتار کی گواہی عام لوگ دیتے ہوں اور یہ گواہی بھی کسی نفسانی اغراض اور ذاتی مفادات سے متاثر نہ ہو، اخلاقیات کے باب میں یہ نکتہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ انسان میزان شرع میں بہتر اور عمدہ ہو۔ کون سا انسان بہتر ہے؟ اس سلسلے میں نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’وہ مسلمان سب سے بہتر ہے جس کی زبان ودست سے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔ وہ بہتر ہے جو دوسروں کو کھانا کھلانے اور سلام کرنے اور صلاۃ (یعنی تہجد کی صلاۃ) ادا کرنے کا خوگر ہو وغیرہ۔ اخلاقیات کے باب میں دوسرا اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ وہ ضرور اخلاقی لحاظ سے بہتر ہے جس کو ایک بڑی بھاری جمعیت بااخلاق شریف اور بہتر کہتی ہو۔
عزیزم فوزان أحمد ایک ایسے نوجوان تھے۔ جن کا دس سالہ بچپن کا دور گھر گاؤں اور گورا مدرسہ میں گذرا۔ چار سال حفظ کے لئے بجوا مدرسہ میں مقیم رہے اور آٹھ سال کی بڑی مدت کا بیشتر حصہ جامعہ اسلامیہ سنابل میں عربی تعلیم کے حصول میں گذرا۔ صرف چھٹیوں میں چند یوم کے لئے گھر آتے اور وقت مقرر پر واپس اپنے جامعہ چلے جاتے۔ آٹھ سال سے رمضان المبارک کی طویل چھٹی میں وہ ممبئی جا کر تراویح کی امامت کرتے تھے۔ آخری بار انھوں نے گنگا پور نامی قصبہ، ضلع اورنگ آباد، مہاراشٹر۔ میں ماہ رمضان میں وہاں کی اہلحدیث مسجد میں امامت وخطابت اور تراویح کی امات کے ساتھ درس قرآن اور درس حدیث کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ ان کے کارگاہ حیات میں با ضابطہ قدم رکھنے کا وقت بھی نہ آیا تھا، عارضی طور پر تدریس کے لئے تیار ہوئے تھے کہ اجل محتوم کا وقت آگیا۔
حافظ فوزان أحمد کے جاننے والوں کی اجتماعی شہادت اور مجموعی تاثر ہے کہ وہ ذہن وفطین اور بہت سنجیدہ اور شریف تھے، سب سے خندہ پیشانی سے ملتے کسی سے سلام ودعا کے وقت ان کے لب پہ مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی۔
ان کے حفظ کے استاذ نے ہمیشہ ان کی تعریف وتحسین کی اور ان کے حق کلمات خیر فرمایا: ان کی جدائی پر وہ کافی سے زیادہ رنجیدہ نظر آئے اور ان کی ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں۔
مکۃ المکرمہ سے لوٹنے کے بعد بابو ان کے لئے ایک لائے تھے اور مجھ سے کہا کہ قاری صاحب کو ایک لباس اور یہ شماغ ہدیہ کیا جائے۔ کتنا خیال تھا حق استاذی کا؟ کتنی محبت تھی انھیں اپنے قاری صاحب سے؟ شاید اس کا کچھ علم خود قاری محمد صادق کو بھی ہے۔ ان کے جملہ اساتذہ ان سے خوش تھے۔ ان کی ذہانت اور سنجیدگی سے متاثر تھے۔ گنگا پور کے عبدالعلیم بھائی امجد بھائی، عبدالمبین ، اور احمد نگر نے حافظ فوزان کی شان میں تحسین آمیز کلمات فرمائے۔ بھائی عبدالعلیم نے کہا کہ اس کم عمری میں اس قدر ذہین سنجیدہ اور صالح اورباصلاحیت میں نے نہیں دیکھا، ان کے جتنے ساتھی تھے۔ ان میں سے کئی ایک نے اطلاع مرگ کے بعد مجھ سے فون پر رابطہ کیا صبروسلوان اور تعزیتی کلمات کہتے ہوئے اور ان کے حسن اخلاق کی گواہی تھی۔
گاؤں اور علاقہ وجوار کے اوران کے بنہال کے جملہ واقف کاروں نے تحسین آمیز کلمات سے انھیں یاد کیا۔ ان کے کمپیوٹر تعلیم کے استاذ (ذاکرحسین) صاحب نے کہا کہ یہ بہت خاص عمدہ کوالٹی کا جوان ہے حتی کہ اپنے....خلاصۃ القول یہ ہے کہ تمام لوگوں نے ان کی ثنا بیان کی۔
اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ اللہ لوگوں کے ان کی شان میں ثناء بالخیر کو قبول فرمائے اور اپنی رحمت اور فضل سے ان کے لئے جنت واجب کر دے (آمین)
میں مزید کیا کیا لکھوں۔ فوزان احمد کے لئے یہ سعادت کی بات ہے کہ حافظ قرآن، عالم وفاضل تھے، ابھی وفات سے بیس دن پہلے عمرہ ادا کرکے ارض حرمین سے واپس آئے تھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے نواز دے۔آمین۔ ان کا انتقال جمعرات کے دن ہوا۔
فوزان أحمد کے انتقال کا غم اتنا شدید ہے کہ مری فکروخیال کی دنیا میں شدید اضطراب ہے۔ میرے حواس پر غموں کا گہرا سایہ ہے، میں نے اور ام فوزان نے اپنی آنکھوں میں کیسے کیسے خواب سجائے تھے، کتنی حسین تمنائیں تھیں دل میں کتنی آرزوئیں پروان چڑھ رہی تھیں۔ لیکن اللہ کی مشےئت اوراس کے اذن سے سارے خواب، تمام تمنائیں اور کل آرزوئیں خاک میں مل گئیں۔’’إن اللہ یفعل ما یشاء‘‘ وما تشاؤن إلا أن یشاء اللہ إن اللہ کان علیما حکیما‘‘
انسان کمزور مخلوق ہے، مصائب سے گھبرا جاتا ہے شرعی حدود میں غم اور رنج کا اظہار طبعی امر ہے۔
شان ایمان ہے کہ مصیبت کے وقت صبروتسلیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعونوردزبان رکھنا۔ اللہ مجھے اور جملہ اقارب کوصبر جمیل کی توفیق دے۔
کلمات تشکر:
اس عظیم آزمائش کی گھڑی میں تمام احباب اور اخوان جماعت نے مجھے تسلی دی، میری تعزیت فرمائی دور صبروسلوان کی تلقین ووصیت کی حاضر ہونے والے جنازہ میں شریک ہوئے، جنھیں بعد میں خیر ہوئی انھوں نے بعد کے دنوں میں میرے پاس پہونچ کر تعزیت کی اور ہندو بیرون ہند سے میرے سیکڑوں احباب نے فون پر تعزیت فرمائی اور حقیر کو دعاؤں سے نوازا، فقد غابی کے لئے رحمت ومغفرت کی دعائیں کیں، میں ان تمام محسنین أحباب کا شکر گزار ہوں، اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا کرے۔ آمین۔***
No comments:
Post a Comment