Sunday 26 June, 2011

ڈاکٹر عبدالعزیز عبداللہ العمار ؍حفظہ اللہ کی نیپال میں تشریف آوری sep-oct 2010

مطیع اللہ حقیق اللہ المدنی
ڈاکٹر عبدالعزیز عبداللہ العمار ؍حفظہ اللہ کی
نیپال میں تشریف آوری
مورخہ۳۰؍ستمبر ۲۰۱۰ء ؁ بروز جمعرات؍فضیلۃ الدکتور الشیخ عبدالعزیز عبداللہ العمار ؍حفظہ اللہ وتولاہ وکیل وزارۃ الشؤن الاسلامیہ والاوقاف والدعوۃ والارشاد الریاض پہلی بار نیپال تشریف لائے، ان کے ہمراہ فضیلۃ الشیخ علی صالح بامقا؍حفظہ اللہ ملحق دینی سعودی ایمبسی ڈھاکہ بنگلہ دیش اور شیخ مبارک العنزی حفظہ اللہ بھی تھے۔
تربھون بین الاقوامی ہوائی اڈہ پر ان معزز مہمانوں کا ان کے شایان شان بھر پور استقبال کیا گیا۔ ان کے استقبال میں ایرپورٹ پر فضیلۃ الشیخ عبداللہ عبدالتواب مدنی رئیس مرکزالتوحید کرشنا نگر اور مدرسہ خدیجۃ الکبری کے استاذراقم مطیع اللہ حقیق اللہ مدنی اور مولانا عبدالقیوم صاحب مدنی موجودتھے۔
وزارت خارجہ اور وزارت مواصلات ومحنت کے سکریٹری صاحبان اور دیگر سرکاری اہل کار بھی ان کے استقبال کے لئے موجود تھے جہاز کی آمد پر مولانا مدنی اور سرکاری اہل کاروں نے ان کا خیر مقدم کیا پھر ان کو ہوٹل پہونچا دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دعاۃ کا اجتماع ہونا طے تھا، اس کیلئے شیخ عبداللہ صاحب مدنی حفظہ اللہ نے ایک ہال بک کر رکھا تھا۔
اسی ہال میں ڈاکٹر عبدالعزیز العمار کے ہمراہ دعاۃ کی میٹنگ شروع ہوئی۔
معزز مہمان کے ساتھ الشیخ علی صالح بامقا اور شیخ مبارک بھی حاضر تھے: اس پروگرام کی نظامت راقم السطورمطیع اللہ حقیق اللہ مدنی نے کی، مجلس کا آغاز میری تلاوت آیات سے ہوا، بعدہ مولانہ عبداللہ المدنی حفظہ اللہ نے مہمان گرامی کی خدمت سپاس نامہ پیش کیا، اس ترجیبی گفتگو میں جہاں مہمان گرامی کی آمد پر دلی مسرت کا اظہار تھا وہیں زور دار خیر مقدم بھی پیش کیا گیا، استقبالیہ میں نیپال اور نیپالی مسلمانوں اور وہاں کی موجودہ تعلیمی ودعوتی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے دعوتی احتیاجات کا تذکرہ کیا گیا۔
مہمان گرامی سے گذارش کی گئی کہ ملک میں کچھ مزید دعاۃ نیز مدارس نسواں میں تدریس اور خواتین میں دعوت واصلاح کیلئے خواتین داعیات کا تقرر کیا جائے، مہمان گرامی کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ وزیر الشؤن الاسلامیہ فضیلۃ العلامہ الفقیہ الشیخ صالح عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ تولاہ کی خدمت میں ارغمان سپاس پیش کیا جو مسلم امت کی فلاح وبہبود کیلئے شبانہ روز جدوجہد میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
خادم الحرمین الشریفین اور ان کی حکومت اور عوام کے لئے بھی تہ دل سے شکروسپاس کا اظہار کیا گیا جو پورے عالم اسلام اور مسلم امت کی تعلیمی وثقافتی اور دعوتی امور میں بہتری کیلئے ہر ممکن امداد وتعاون کرتے رہتے ہیں آپ نے گفتگو میں بتایاکہ الملحق الدینی بھی شکریہ کے لائق ہیں جو دعوتی مجال میں اپنی مساعی وقربانی پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر بدرالزماں نیپالی کو ’’کلمۃ الدعاۃ‘‘ پیش کرنے کی دعوت دی گئی، انہوں نے جامع انداز میں اپنی بات پیش کی آپ کے بعد شیخ حیدر علی الندوی نے مہمان کا شکریہ ادا کیا اور بعض تجاویز رکھیں۔
اس کے بعد شیخ علی صالح بامقا کو دعوت سخن دی گئی، آپ نے معذرت کی پھر دو لفظوں میں اپنی بات کہی، آخر میں ڈاکٹر عبدالعزیزالعمار ؍ حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی۔
انھوں نے بہت ہی جامعیت کے ساتھ اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور اپنی قیمتوں آرا ونصائح، مشورے وتجاویز سے نوازا۔ آپ کی گفتگو کا خلاصہ درج ذیل ہے:
مہمان گرامی ڈاکٹر عبدالعزیزالعمار وکیل الوزارۃ؍ حفظہ اللہ نے دعاۃ کے ساتھ اپنی اس ملاقات پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کیا اور شیخ عبداللہ عبدالتواب صاحب مدنی کی تعریف کرتے ہوئے ان کی دعوتی سرگرمیوں پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
آپ نے کہا: کہ برادرم عبداللہ مدنی ؍حفظہ اللہ نے ہمارا شاندار خیر مقدم کیا، ان کی کاوش کا نتیجہ تھا کہ وزارت خارجہ اور وزارت محنت ومواصلات سے متعلق سرکاری اہل کار ہمارے استقبال میں ہوائی اڈہ پر موجود تھے۔
میں بنگلہ دیش کے رسمی دورہ پر تھا یہاں شخصی طور پر آپ دعاۃ سے برائے ملاقات آیا ہوں، موجودہ حالات میں حکومت چاہتی ہے ہر کام قانونی طریق پر انجام پائے۔تاکہ کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو۔
ہمارے دین کی کچھ اساسی باتیں ہیں ان میں کوئی تغیر نہیں پیدا ہوسکتا ہے۔
کوئی مقصد وسیلہ کو درست نہیں قرار دے سکتا۔
چونکہ نیبال بنگلہ دیش کے تابع ہے اس ملک میں ہمارے دعوتی رفقاء ہیں میں صرف بہر ملاقات آیا ہوں۔
ایک اہم مسئلہ نیپال میں دعاۃ کی قلت کا ہے اہل علم حضرات اوراق و مستندات بھیجیں تاکہ ان پر غور کیا جائے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے دعوتی مجال میں ہم کیسے کام کریں؟
کچھ مسائل دعوت سے وابستہ ہیں نیزغیر مسلمین میں دعوت کا کام کیسے ہو؟
ماضی میں غیر مسلمین میں دعوتی نقص کے نتائج بد سامنے ہیں اس کی بنا پر ہندوستان، بلغاریہ ، رومانیہ وغیرہ ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئے۔
آپ نے اپنی گفتگو میں فرمایا: ہم دعاۃ کا طریق یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم سیاست واقتصاد وغیرہ موضوعات پر گفتگو کریں بلکہ دعوت کی اساس توحید وعقیدہ پر گفتگو مرکوز رکھیں۔
شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ کی دعوت کی کامیابی کا اصل راز یہ تھا کہ انھوں توحیدواعتقادی مسائل پراہتمام وتوجہ مبذول کیا بہت سارے دیگر مسائل کو چھوڑ رکھا، بعض علماء کشمیر آئے اور دعوت الی اللہ کا کام کیا دیگر بہت سارے امور وقضایا سے صرف نظر کیااس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ایک بات یہ ہے جس شحص میں خود کوئی بات حق اور درست ہواسی حق کے ذریعہ اس پر اپنی گرفت بناؤ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا:
جو شخص سنت سے محبت کا مدعی ہو اس کو سنت کے ذریعہ اپنی گرفت میں لو، میں دیو بند گیا وہاں علماء سے گفتگو ہوئی بعض اشیاء ومسائل میں ہمارا اختلاف رہا بعض کو سنت سے محبت کرنے والا دیکھا ایسے لوگوں کو سنت پرمبنی مسائل کے ذریعہ اپنا مدعو بناؤ کچھ لوگ ابن تیمیہ سے حقدوبغض رکھتے ہیں؟ حالانکہ انھوں نے ابن تیمیہ کو پڑھا ہی نہیں؟
آپ نے فرمایا: ہمارے پاس ایک اہم ہدف اور اعلی مقصد ہے لوگ ہمارے حاجت مند ہیں۔
ہمارے اندر کسی امام یا کسی خاص مذہب کے لئے عصبیت نہیں پائی جانی چاہئے۔بلکہ حق کی بالادستی ہمارا مطمح نظر ہونا چاہئے۔
اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ دین ودعوت کا کام کریں کسی امام ومذہب کی نسبت یہ اصل نہیں ہے۔
معاملات ومسائل زندگی میں تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں بہت سے جدید وسائل کا انبار ہے۔ہمیں نفع بخش وسائل سے استفادہ کرنا چاہئے؟ آپ نے فرمایا: اہل علم میں دعوتی اہلیت ہونی چاہئے بعض لوگ خریج الجامعات ہیں: مگر مطالعہ وبحث کا سلسلہ بالکل ختم رکھا ہے ایسے لوگوں سے کاردعوت کیونکر ہو سکتا ہے مشہورمثل ہے:’’من لاےأخذ لا یعطی‘‘ جو لے گا نہیں وہ دے گا کیا؟
پچھلے سال ’’مکانۃ الصحابۃ وعدالتہم‘‘کا مسئلہ دعاۃ کے سامنے پیش کیا گیاتھا اس سال بحث وصحافت وگفتگو وخطاب کیلئے چھ موضوعات دعاۃ کے لئے ارسال کئے جائیں گے۔
حرکت وعمل کی خاطر آپ دعاۃ میں آپسی مفاہمت ہونی چاہئے:
* مثلا احناف کی کتابوں میں احترام صحابہ کا مواد موجود ہے اس موضوع کے ذریعہ ہم احناف کے پاس پہونچ کر ان میں کام کر سکتے ہیں۔
* آپ نے ایک مسئلہ کی طرف یوں رہنمائی فرمائی:
کہ اس روئے زمیں پر ہم اکیلے نہیں ہیں لہذا وروں کے ساتھ تعاون کرنادین اور دعوت الی اللہ کے مفاد میں ضروری ہے، آپ نے فرمایا کہ میں وزیر الشؤن فضیلۃ العلامۃ الشیخ صالح عبدالعزیز آل الشیخ ؍حفظہ اللہ وتولاہ کا سلام آپ لوگوں تک پہونچا رہا ہوں۔
آخر میں خود ڈاکٹر موصوف نے دعاۃ سے کہا کہ آپ لوگ اپنے تاثرات وملاحظات سامنے رکھیں کسی کے پاس کچھ تجاویز ہوں تووہ انھیں پیش کریں۔
شیخ عبداللہ المدنی نے ایک اہم تجویز یہ رکھی کہ ایف ایم ریڈیو (F.M. Radio)کا نیپال میں دعوتی مقصد سے قیام عمل میں لایا جائے تاکہ دعاۃ اس کے ذریعہ محاضرات ودروس وافتاء وغیرہ کا کام انجام دیں، دوسری تجویز یہ تھی کہ مدارس نسواں میں کچھ داعیات کا تقرر عمل میں لایا جائے۔
مولانا عبدالقیوم المدنی نے یہ تجویزپیش کی کہقافلہ دعوت وارشاد کا اہتمام کیا جائے،کتب مراجع وفتاوی الشیخ ابن باز فتاوی الشیخ العثمین دعاۃ کے لئے مہیا کیا جائے۔
کاتماندو پر توجہ مبذول کی جائے کچھ اور داعی معین کئے جائیں تاکہ دعوتی کاز آگے بڑھ سکے نیزکاتماندو میں آفس بنائی جائے۔
آخر میں شیخ عبداللہ مدنی نے مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا اور مجلس کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔
***

No comments:

Post a Comment