Sunday, 26 June 2011

فتاوی sep-oct 2010

فضیلۃ الشیخ ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد
فتاوی
 
سوال:۔ ہوائی جہاز کے ذریعے عمرے کا سفر کرنے والے حضرات احرام کیسے اور کہاں سے باندھیں، کیونکہ اس طرح وہ میقات کے اوپر سے گزرتا ہے، ایسے حالات میں کس مقام سے عمرہ کی نیت کی جائے، کیا جدہ پہنچ کر احرام باندھاجا سکتا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں؟
جواب:۔ جس مقام سے حج یا عمرہ کی نیت کی جاتی ہے اسے میقات کہا جاتا ہے، احادیث میں مختلف مقامات کا ذکر ہے جن کی میقات کے طور پرتعیین کی گئی ہے مثلا: (۱)ذوالحلیفہ (۲) جحفہ، (۳) یلملم، (۴) قرن منازل، (۵) ذاتِ عرق۔
بر صغیرمیں رہنے والے حضرات کی میقات یلملم ہے جو یمن سے مکہ کے راستے پر ایک پہاڑ کا نام ہے، اسے آج کل سعدیہ کہا جاتا ہے،اگرکوئی انسان حج یا عمرہ کی نیت سے بذریعہ ہوائی جہاز مکہ مکرمہ آرہا ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ جب میقات کے اوپر سے گزرے تو وہاں سے عمرہ وغیرہ کی نیت کرکے تلبیہ کہنا شروع کردے۔ اسے جدہ پہنچنے تک احرام مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ جدہ میقات سے آگے ہے، اس کے بالمقابل نہیں ہے، حدیث میں ہے کہ اہل کوفہ اور بصرہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیرالمومنین! رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لئے قرن منازل کو میقات قراردیا ہے اور یہ میقات ہمارے راستے سے بہت دور ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم دیکھو کہ اس کے بالمقابل تمہارے راستہ میں کونسا مقام ہے، چنانچہ آپ نے ان کیلئے ذاتِ عرق میقات مقرر کردی۔
(صحیح بخاری، الحج:۱۵۳۱)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر سے معلوم ہوا کہ میقات کے بالمقابل جگہ کا وہی حکم ہے جو میقات کا ہے اس بناء پر اگر کوئی میقات کے اوپر سے گزررہا ہو تو اس کے بالمقابل اوپر والے مقام سے تلبیہ شروع کردے کیونکہ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عمرہ کرنے والا میقات کے بالمقابل خشکی میں ہو یا ہوا میں، یا سمندر میں یہی وجہ ہے کہ بحری جہاز سے آنے والے حضرات جب یلملم یا رابع کے بالمقابل آتے ہیں تو احرام باندھ لیتے ہیں بہر حال بذریعہ ہوائی جہاز سفر کرنے والے کے احرام کی درج ذیل چار صورتیں ہیں:
(۱) گھر میں غسل کرکے اپنے معمول کے کپڑے زیب تن کرے اوراگر چاہے تو وہ گھر ہی سے احرام پہن لے۔
(۲) اگر گھر میں احرام نہ باندھا ہو تو ہوائی جہاز میں اس وقت احرام باندھ لے جب ہوائی جہاز کا عملہ اس کے متعلق اعلان کرتا ہے، وہ تقریبا بالمقابل پہنچنے سے پندرہ منٹ پہلے اعلان کرتا ہے۔
(۳) جب ہوائی جہاز میقات کے بالمقابل پہنچے اور عملہ اس امر کا اعلان کر دے تو حج یا عمرہ کی نیت کرکے تلبیہ کہنا شروع کردے۔
(۴) اگر کوئی شخص غفلت یا بھول کے اندیشے کے پیش نظر ازراہ احتیاط میقات پر آنے سے پہلے احرام باندھ لے اور اس کی نیت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بہر حال عمرہ کرنے والے کو خبر دار رہنا چاہئے کہ جب بھی ہوائی جہاز کا عملہ اعلان کرے کہ ہم پندرہ منٹ بعد میقات کے بالمقابل پہنچ جائیں گے تو اسے بر وقت حج یا عمرہ کی نیت کر کے تلبیہ شروع کر دینا چاہئے بہتر ہے سوار ہوتے وقت ہی احرام کی نیت کرے اور تلبیہ کہنا شروع کردے۔ (واللہ اعلم)
سوال:۔ کیا میت کی طرف سے عمرہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں؟
جواب:۔ میت کی طرف سے ایصال ثواب کی وہی صورتیں مشروع ہیں جن کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے ہر عمل صالح کے ذریعے سے ایصال ثواب صحیح نہیں ہے عمرہ بھی ایک ایسا عمل ہے جس کے ایصال ثواب کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے نہیں ملتا، میت کی طرف سے صدقہ کرنا، حج کرنا اور دعا کرنا ایسے اعمال کئے جا سکتے ہیں اور ان کا فائدہ حدیث کی رو سے میت کو پہنچتا ہے میت کی طرف سے حج تو کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا یا رسول اللہ کیا میں اپنی ماں کی طرف سے حج کر سکتی ہوں جب کہ اس نے حج کرنے کی نذرمانی تھی اور حج کئے بغیر فوت ہو گئی ہے؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں!تو اس کی طرف سے حج کر سکتی ہے۔‘‘ (بخاری :الحج:۱۸۲۲)
امام بخاری نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’میت کی طرف سے نذر اور حج کی ادائیگی‘‘ (صحیح بخاری، الحج: باب نمبر۲۲)
لیکن کسی کی طرف سے حج کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان نے پہلے اپنا فریضہ حج ادا کرلیا ہو جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی سے کہا تھا: ’’پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے ادا کرنا۔‘‘ (ابو داؤد المناسک:۱۸۱۱)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے حج تو کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ حج کرنے والا پہلے اپنا فریضہ حج ادا کر چکا ہو لیکن میت کی طرف سے عمرہ کرنے کا ثبوت ہمیں قرآن وحدیث سے نہیں ملا اگر چہ کچھ اہل علم حج پر قیاس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے عمرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
سوال:۔ اکثر دیکھاجاتا ہے کہ کچھ نمازی رکعت پانے کیلئے دوڑ لگاتے ہیں ایسا کرنا انسانی وقار کے خلاف معلوم ہوتا ہے کیا رکعت پانے کے پیش نظر انسان دوڑ کر جماعت میں شامل ہو سکتا ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟
جواب:۔ جماعت میں شمولیت کیلئے جلدی کرنا اور تیز چل کر آنا ایک اچھی عادت ہے لیکن تیز دوڑ کر بھاگتے ہوئے آنا ممنوع ہے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کاارشاد گرامی ہے: ’’جب نمازکھڑی ہو جائے تو تم بھاگ کر مت آؤ بلکہ سکون ووقار کے ساتھ چل کر آؤ نماز کا جو حصہ پالو اسے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے مکمل کر لو‘‘۔ (صحیح بخاری: الجمعہ:۹۰۸)
امام بخاری نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ نماز کی طرف بھاگ کر نہ آئے بلکہ سکون ووقار کے ساتھ شمولیت کرے‘‘ ( صحیح بخاری الاذان باب:۲۱)
البتہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایسی تیز رفتاری میں کوئی حرج نہیں جو معیوب نہ ہواور نہ انسانی وقار کے منافی ہو ہمارے رجحان کے مطابق سکون ووقار کے ساتھ آنا اور جلد بازی نہ کرنا افضل ہے خواہ اس کی رکعت ہی فوت ہو جائے ۔ حدیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔

No comments:

Post a Comment