مولانا وصی اللہ مدنیؔ
استاد کلیہ عائشہ صدیقہ، کرشنا نگر
* حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’من صام یوم عرفۃ، کان لہ کفارۃ سنتین، ومن صام یوما من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون یوما‘‘۔
جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تو یہ اس کے لئے دو سال کا کفارہ ہوگا اور جس نے ماہ محرم کے ایک دن کا روزہ رکھا تو اس کا ہر دن تیس دن کے برابر ہوگا۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ میں روایت کیا ہے اور بقول امام منذری ’’وہو غریب وإسنادہ لابأس بہ‘‘ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (یعنی ان کا اشارہ اسناد حدیث کی توثیق کی جانب ہے)
محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی نے امام منذری کے اس حکم پر تعاقب کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ضعیف الترغیب والترہیب، (۱؍۳۱۲)‘‘ میں اسے موضوع قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہذا خطاء فاحش لا أدری کیف وقع لہ؟....‘‘ یہ امام منذری کی بہت بڑی غلطی ہے مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس غلطی کے کیسے شکار ہو گئے، جب کہ اس حدیث کی سند میں ’’سلام الطویل‘‘ کذاب اور ’’لیث بن أبی سُلیم‘‘ جیسے مختلط راوی موجود ہیں۔۔۔‘‘۔
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ’’من أوسع علی عیالہ وأہلہ یوم عاشوراء، أوسع اللہ علیہ سائر سنتہ‘‘ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر (کھانے میں) کشادگی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال کشادگی کرے گا۔
اس حدیث کو امام بیہقی نے کئی سندوں سے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی استنادی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’وہذہ الأسانید وإن کانت ضعیفۃ ، فہی إذاضم بعضہا إلی بعض اخذت قوۃ‘‘ یعنی یہ تمام سندیں گرچہ ضعیف (کمزور) ہیں لیکن ایک دوسرے کو ملانے سے قوی ہو جاتی ہے۔
شیخ البانی نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ کہا ہے اور اس کی وارد تمام سندوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’وطرقہ کلہا واہےۃ وبعضہا أشد ضعفا من بعض‘‘ یعنی اس کی تمام سندیں واہی (کمزور) ہیں اور بعض سندیں ضعف کے اعتبار سے شدید ہیں (الضعیفۃ: ۶۸۲۴)
* معلوم یہ ہوا کہ مجرد کثرت طرق کی بناء پر بعض اہل علم کا اسے حسن کہنا اور اس پر عمل کرنے کی عام دعوت دینا درست نہیں ہے۔
* خطباء اور واعظین قوم کی زبان زد حدیث ’’وہو الیوم الذی استوت فیہ السفینۃ علی الجودی فصامہ نوح شکرا‘‘ یوم عاشوراء وہ دن ہے جس میں کشتی نوح علیہ السلام جودی پہاڑی پر ٹھہری تھی، چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا۔
اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند (۱۴؍۳۳۵) میں روایت کیا ہے لیکن سلسلہ اسناد میں ایک راوی عبدالصمد بن حبیب ہے جو ضعیف ہے اور دوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جو مجہول ہے۔
*’’ وفی یوم عاشوراء تاب اللہ عزوجل علی أدم علیہ السلام وعلی مدینۃ یونس، وفیہ ولد إبراہیم علیہ السلام‘‘
یوم عاشوراء کو اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی، اسی طرح یونس علیہ السلام کے شہر والوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے اسی دن خصوصی توجہ فرمائی اور اسی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند کے بارے میں امام ہیثمی نے (مجمع الزوائد :۳؍۱۸۸) میں لکھتے ہیں کہ اس میں ایک راوی ’’عبدالغفور‘‘ ہے جو متروک ہے۔
* حضرت ابن عباس مرفوعا بیان کرتے ہیں ’’صوموا یوم عاشوراء،وخالفوا فیہ الیہود، وصوموا قبلہ یوما أو بعدہ یوما‘‘ تم یوم عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا روزہ رکھو۔
اس حدیث کو امام احمد نے اپنی (مسند ا؍۲۴) اور بیہقی نے (السنن الکبریٰ ۴؍۲۸۷) میں روایت کیا ہے اس کی سند میں ’’ابن ابی لیلیٰ‘‘ اور’’ داؤدبن علی‘‘ دونوں راوی ضعیف ہیں، البتہ امام احمد شاکر کی تحقیق کے مطابق اس کی اسناد صحیح ہے جیسا کہ شیخ محترم ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد مدنی ؍ حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’زادالخطیب‘‘ (۱؍۸۰) میں نقل کیا ہے۔ واللہ أعلم
استاد کلیہ عائشہ صدیقہ، کرشنا نگر
ماہ محرم اور یوم عاشوراء سے متعلق
ضعیف وموضوع روایات
ہجری سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے، اس مہینے میں ہمارے نبی ﷺ نے نفلی روزوں کے علاوہ کسی اور چیز کا اہتمام کیا ہے نہ ہی اپنے اصحاب کو کرنے کا حکم ہی دیا ہے، اکثر خطباء ملت اور واعظین قوم جو اپنے سینے کے زور سے اس مہینے کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں ان کی تقریروں کا دارومدار امت میں منتشر ضعیف اور موضوع روایات ہیں جنھوں نے بدعتوں کو سنتوں میں تبدیل کر دیا ہے، متقدمین ومتاخرین محدثین کرام بالخصوص علامہ ابن الجوزی اور امام البانی نے ان ضعیف وموضوع حدیثوں کو اپنی اپنی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیا ہے افادۂ عام واصلاح کی خاطر ان میں سے بعض مشہور احادیث ضعیفہ و موضوعہ پیش خدمت ہیں:ضعیف وموضوع روایات
* حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’من صام یوم عرفۃ، کان لہ کفارۃ سنتین، ومن صام یوما من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون یوما‘‘۔
جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تو یہ اس کے لئے دو سال کا کفارہ ہوگا اور جس نے ماہ محرم کے ایک دن کا روزہ رکھا تو اس کا ہر دن تیس دن کے برابر ہوگا۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ میں روایت کیا ہے اور بقول امام منذری ’’وہو غریب وإسنادہ لابأس بہ‘‘ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (یعنی ان کا اشارہ اسناد حدیث کی توثیق کی جانب ہے)
محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی نے امام منذری کے اس حکم پر تعاقب کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ضعیف الترغیب والترہیب، (۱؍۳۱۲)‘‘ میں اسے موضوع قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہذا خطاء فاحش لا أدری کیف وقع لہ؟....‘‘ یہ امام منذری کی بہت بڑی غلطی ہے مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس غلطی کے کیسے شکار ہو گئے، جب کہ اس حدیث کی سند میں ’’سلام الطویل‘‘ کذاب اور ’’لیث بن أبی سُلیم‘‘ جیسے مختلط راوی موجود ہیں۔۔۔‘‘۔
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ’’من أوسع علی عیالہ وأہلہ یوم عاشوراء، أوسع اللہ علیہ سائر سنتہ‘‘ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر (کھانے میں) کشادگی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال کشادگی کرے گا۔
اس حدیث کو امام بیہقی نے کئی سندوں سے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی استنادی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’وہذہ الأسانید وإن کانت ضعیفۃ ، فہی إذاضم بعضہا إلی بعض اخذت قوۃ‘‘ یعنی یہ تمام سندیں گرچہ ضعیف (کمزور) ہیں لیکن ایک دوسرے کو ملانے سے قوی ہو جاتی ہے۔
شیخ البانی نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ کہا ہے اور اس کی وارد تمام سندوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’وطرقہ کلہا واہےۃ وبعضہا أشد ضعفا من بعض‘‘ یعنی اس کی تمام سندیں واہی (کمزور) ہیں اور بعض سندیں ضعف کے اعتبار سے شدید ہیں (الضعیفۃ: ۶۸۲۴)
* معلوم یہ ہوا کہ مجرد کثرت طرق کی بناء پر بعض اہل علم کا اسے حسن کہنا اور اس پر عمل کرنے کی عام دعوت دینا درست نہیں ہے۔
* خطباء اور واعظین قوم کی زبان زد حدیث ’’وہو الیوم الذی استوت فیہ السفینۃ علی الجودی فصامہ نوح شکرا‘‘ یوم عاشوراء وہ دن ہے جس میں کشتی نوح علیہ السلام جودی پہاڑی پر ٹھہری تھی، چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا۔
اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند (۱۴؍۳۳۵) میں روایت کیا ہے لیکن سلسلہ اسناد میں ایک راوی عبدالصمد بن حبیب ہے جو ضعیف ہے اور دوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جو مجہول ہے۔
*’’ وفی یوم عاشوراء تاب اللہ عزوجل علی أدم علیہ السلام وعلی مدینۃ یونس، وفیہ ولد إبراہیم علیہ السلام‘‘
یوم عاشوراء کو اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی، اسی طرح یونس علیہ السلام کے شہر والوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے اسی دن خصوصی توجہ فرمائی اور اسی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند کے بارے میں امام ہیثمی نے (مجمع الزوائد :۳؍۱۸۸) میں لکھتے ہیں کہ اس میں ایک راوی ’’عبدالغفور‘‘ ہے جو متروک ہے۔
* حضرت ابن عباس مرفوعا بیان کرتے ہیں ’’صوموا یوم عاشوراء،وخالفوا فیہ الیہود، وصوموا قبلہ یوما أو بعدہ یوما‘‘ تم یوم عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا روزہ رکھو۔
اس حدیث کو امام احمد نے اپنی (مسند ا؍۲۴) اور بیہقی نے (السنن الکبریٰ ۴؍۲۸۷) میں روایت کیا ہے اس کی سند میں ’’ابن ابی لیلیٰ‘‘ اور’’ داؤدبن علی‘‘ دونوں راوی ضعیف ہیں، البتہ امام احمد شاکر کی تحقیق کے مطابق اس کی اسناد صحیح ہے جیسا کہ شیخ محترم ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد مدنی ؍ حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’زادالخطیب‘‘ (۱؍۸۰) میں نقل کیا ہے۔ واللہ أعلم
No comments:
Post a Comment