Monday 27 June, 2011

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مقام عزیمت ودعوت Dec 2010

جناب ملک عبدالرشید عراقی
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
کا مقام عزیمت ودعوت
امام احمد بن حنبل کا پورا نام احمد بن محمد بن حنبل تھا۔ فقہ اسلامی کے چار ائمہ میں سے ایک ہیں۔ ربیع الاول ۱۶۴ھ ؁ مطابق نومبر ۷۸۰ء ؁ میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے کیا۔ ابتدائی تعلیم بغداد کے اساتذہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد بصرہ، کوفہ، مکہ، مدینہ، یمن، شام وغیرہ کا سفر کیا۔ ہر جگہ کے نامور محدثین سے استفادہ کیا اور ۲۰ سال کی عمر میں علوم اسلامیہ سے فراغت پائی۔
۱۸۷ھ ؁ میں حجاز کا پہلا سفر کیا، امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی اور ان سے فقہ واصول فقہ میں استفادہ کیا۔ امام احمد رحمہ اللہ کا شروع ہی سے حدیث کی طرف رجحان زیادہ تھا۔ چنانچہ ۲۰۴ھ ؁ میں جب ان کی عمر ۴۰ سال ہوئی تب حدیث کا درس دینا شروع کیا۔ یہ بھی ان کا کمال اتباع سنت تھا کہ انہوں نے عمر کے چالیسویں سال جو سن نبوت ہے، علوم نبوت کی اشاعت شروع کی۔ ان کے درس میں سامعین کی تعداد کئی ہزار سے متجاوز ہوتی تھی اور ان کی مجلس بڑی سنجیدہ اور پر وقار ہوتی تھی۔
زہدوتقوی:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی زندگی زہد وتوکل میں یکتائے روزگار تھی۔ امام یحیےٰ بن معین رحمہ اللہ جو ان کے ہم عصر تھے، ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ جیسا نہیں دیکھا۔ میں پچاس برس ان کے ساتھ رہا، انھوں نے کبھی ہمارے سامنے اپنی صلاح وخیر پر فخر نہیں کیا۔ خلیفۃ الاولیاء ۹؍۱۸۱)
علم وفضل:
امام شافعی رحمہ اللہ ان کے بڑے معترف اور قدردان تھے، بغداد سے جاتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ’’میں بغداد کو چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس حالت میں کہ وہاں احمد بن حنبل سے بڑھ کر کوئی متقی ہے، نہ کوئی فقیہ۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ ۲؍۱۸)
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ بھی فرمان ہے کہ احمد بن حنبل امام فی ثمان خصال: امام فی الحدیث، امام فی الفقہ، امام فی اللغۃ، امام فی القرآن، امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع، امام فی السنۃ (حیات امام احمد بن حنبل ابو زہرہ ص۳)
تواضع ومسکنت:
مسئلہ خلق قرآن میں ان کی ثابت قدمی کی وجہ سے تمام عالم اسلام ان کی شہرت سے معمور تھا۔ ہر طرف ان کی تعریف اور ان کے لئے دعا کا غلغلہ بلند تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تواضع اور مسکنت کے ساتھ ان کو رعب ووقار بھی اتنا بخشا کہ اہل حکومت اور فوجی وسپاہی بھی ان سے مرعوب ہو جاتے تھے اور ان کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔
تصانیف:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ ان کی تصانیف میں ان کی مشہور تصنیف ’’مسند احمد بن حنبل‘‘ ہے۔ جس کی وہ اپنی زندگی میں ترتیب وتبویب نہیں کر سکے تھے اور اس کی ترتیب وتبویب ان کے صاحبزادہ امام عبداللہ رحمہ اللہ نے کی۔ (بستان المحدثین ص ۲۶)
فتنہ خلق قرآن:
عباسی خلفاء کے دور میں عجمی روح کی کارفرمائی اور یونانی منطق وفلسفہ کے اثرات نے عربوں کے سادہ مذاق طبیعت کو بدل دیا اور وہ سادہ اور سہل دین حنیف پر عقیدہ رکھنے کے بجائے لا یعنی موشگافیوں اور فلسفہ وکلام کے غیر ضروری مباحث میں الجھ کر مختلف گروہوں میں بٹ گئے، ان میں فرقہ معتزلہ زیادہ مشہور ہے۔ اس نے دین کی حفاظت وخدمت کا کام بھی انجام دیا۔ لیکن اس کی بدولت مذہب میں نئے نئے اور بے بنیاد مسائل بھی پیدا ہوگئے۔ اس لئے محدثین کا مقصد احیائے سنت اور رد بدعت تھا۔معتزلہ کے عقائد وافکار کے خلاف صف آراء ہو گئے۔ معتزلہ کے ان مسائل میں خلق قرآن کا مسئلہ بھی تھا۔
خلیفہ ہارون الرشید کے زمانہ تک اس عقیدہ کو ماننے والے بہت کم لوگ تھے اور وہ بھی اپنے عقیدہ کا اعلان نہیں کرتے تھے۔ ہارون الرشید کے بعد مامون الرشید خلیفہ ہوا۔ مامون الرشید بڑا علم وادب نوازاور علماء وشعراء کا قدر دان تھا۔ اس کے عہد خلافت میں اس فتنہ کو عروج حاصل ہوا اور مامون الرشید کے بعد معتصم، اس کے بعد الواثق کے عہد میں اس فتنہ نے زور پکڑا۔ ان خلفاء کے معاون ابن ابی داؤد اور بشرالمریسی تھے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مامون الرشید، معتصم، الواثق اور ان کے معاون ومددگار ابن ابی داؤد اور بشر مریسی کے مختصر ا حالات درج کر دےئے جائیں۔
مامون الرشید:
مامون الرشید جس کا اصل نام عبداللہ تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید کا بیٹا تھا۔ اپنے بڑے بھائی امین الرشید کے بعد ۶؍صفر ۱۹۸ھ ؁ مطابق ۶اکتوبر ۸۱۳ء ؁ کو تخت نشین ہوا۔ علوم وفنون کا والہ وشیدا تھا، دارالحکمۃ قائم کیا۔ جس میں دوسرے ملکوں کے علماء جمع کیے۔ ان سے کتابیں لکھوائیں اور ترجمہ کروائیں، خاص طورپر سنسکرت اور یونانی زبانوں کی بیسیوں کتابیں اسی عہد میں عربی میں منتقل ہوئیں، یہ معتزلی خیالات کے شباب کا زمانہ تھا۔ منجملہ اور عقائد کے متعلق انہوں نے کہا کہ قرآن لفظا ومعنا مخلوق ہے۔ مامون نے اس نظریہ کی تائید کی، مامون الرشید نے ۸؍رجب ۲۱۸ھ ؁ مطابق ۳۰ جولائی ۸۳۳ء ؁ کو وفات پائی اور طرطوس میں دفن ہوا۔ (تاریخ الخلفاء از سیوطی)
معتصم باللہ:
مامون الرشید کے بعد اس کا چھوٹا بھائی المعتصم باللہ اس کا جانشین ہوا، اس کے عہد میں فتنہ خلق قرآن عروج پر تھا۔ معتصم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے عہد کو آٹھ کے عدد سے خاص لگاؤ رہا، مثلا: وہ ۸ شعبان ۱۸۰ء کو پیدا ہوا، وہ اپنے خاندان کا آٹھواں حکمران تھا، ۲۱۸ میں تخت پر بیٹھا۔ اس نے آٹھ جنگوں میں حصہ لیا۔ اس نے اپنے زمانہ حکومت میں آٹھ محل تعمیر کرائے۔ اس کے آٹھ بیٹے اور آٹھ بیٹیاں تھیں۔ آٹھ ہزار غلام اس کے محل میں رہتے تھے۔ اس نے ۸ سال اور ۸ ماہ حکومت کرنے کے بعد ۴۸سال کی عمر میں ۱۹ ربیع الاول ۲۲۷ھ مطابق ۵ فروری ۸۴۲ء ؁ کو انتقال کیا۔ انتقال کے بعد حکومت کے خزانے میں ۸۰ ہزار درہم اور ۸۰ لاکھ دینا ر موجود تھے۔ (تاریخ الخلفاء سیوطی)
الواثق باللہ:
معتصم کے بعد اس کا بیٹا الواثق باللہ خاندان عباسی کانواں خلیفہ ہوا۔ اس نے تقریبا پونے چھ سال حکومت کی، یہ بڑا عالم، فاضل اور صاحب بصیرت تھا۔ فتنہ خلق قرآن اس کے عہد میں بھی رہا۔ لیکن اس میں کچھ کمی آگئی تھی۔ ذی الحجہ ۲۳۲ھ ؁ مطابق اگست ۸۴۷ء میں انتقال کیا۔ (تاریخ الخلفاء سیوطی)
بشرالمریسی:بشرالمریسی عہد ہارون الرشید کا مشہور صاحب علم اور قاضی ابو یوسف کا شاگرد تھا۔ خلق قرآن کا عقیدہ دراصل جہم بن صفوان نے شروع کیا تھا اور بشر بھی اس کا ہمنوا ہو گیا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید کو جب معلوم ہوا کہ بشر مریسی بھی خلق قرآن کا قائل ہے تو اس نے قسم کھائی کہ اگر یہ شخص مجھ کو مل گیا تو میں اسے نہایت بیدردی سے قتل کرا ڈالوں گا۔ اس کا انتقال بغداد میں ۲۱۸ھ ؁ مطابق ۸۳۲ء ہوا۔ (تذکرہ ابولکلام ص ۴۰۸ حواشی)
ابن ابو داؤد:اس کا پورا نام احمد بن ابی داؤد تھا۔ ۱۶۰ھ مطابق ۷۷۶ء ؁ پیدا ہوا۔ اپنے علم وفضل اور معتزلی خیالات کے باعث مامون الرشید کا معتمد علیہ بن گیا۔ اور اس کے بعد المعتصم کے عہد میں قاضی کے عہدہ پر فائز ہوا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ساتھ حکومت وقت نے جو نارواسلوک کیا اس میں اس کا بڑا ہاتھ تھا۔ بلکہ فتنہ خلق قرآن کا بہت حد تک بانی ہی یہ تھا لیکن اس کا انجام بہت عبرت ناک ہوا۔ المعتصم کے بعد الواثق کے زمانے میں بھی یہ قاضی تھا۔ اس کے جانشین خلیفہ المتوکل نے اس کو قید کر دیا اور اس کی ساری جائیداد ضبط کر لی۔ اس کو رہائی تو مل گئی لیکن زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا۔ محرم ۲۴۰ھ مطابق جون ۸۵۴ء میں انتقال کر گیا۔ (تذکرۃ ابوالکلام ص ۴۰۸حواشی)
امام احمد ابتلاء وامتحان میں:
جب معتزلہ نے عقیدہ خلق قرآن کو کفر وایمان کا معیار بنا دیا اور اتفا قا مذہب اعتزال کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہو گئی تھی اور خلیفہ مامون الرشید اس مسئلہ کا پر جوش داعی اور مبلغ بن گیا۔ ۲۱۸ھ ؁ میں والی بغداد اسحاق بن ابراہیم کے نام ایک مفصل فرمان بھیجا۔ جس میں عامۃ المسلمین اور بالخصوص محدثین کرام رحمہ اللہ کی سخت مذمت اور حقارت آمیز تنقید کی۔ ان کو خلق قرآن کے عقیدہ سے اختلاف کرنے کی وجہ سے توحید میں ناقص، مردود الشہادۃ، ساقط الاعتبار اور شرارامت قرار دیا اور حاکم کو حکم دیا کہ جو لوگ اس مسئلہ کے قائل نہ ہوں ان کو ان کے عہدوں سے معزول کر دیا جائے اور خلیفہ کو اس کی اطلاع کی جائے۔
مامون الرشید کے اس فرمان کی نقلیں تمام اسلامی صوبوں کے گورنروں کو بھیجی گئیں اور گورنروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس فرمان پر فوری طور پر عمل کریں اور جو خلق قرآن کا قائل نہ ہو اس کو فورا اس کے عہدے سے ہٹادیا جائے۔
محدثین کی ایک جماعت نے خلق قرآن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کو مامون الرشید کے پاس بھیج دیا گیا۔ مامون الرشید نے ان سے خلق قرآن کے متعلق سوال کیا ان سب نے اس سے اتفاق کیا اور ان سب کو بغداد واپس بھیج دیا گیا مگر چار ائمہ کرام نے خلق قرآن کو تسلیم نہ کیا اور وہ اپنی رائے (عدم خلق قرآن) پر قائم رہے۔ یہ چار ائمہ کرام امام احمد بن حنبل، سجادہ، قواریری اور محمد بن نوح تھے۔ دوسرے دن سجادہ اور تیسرے دن قواریری نے بھی اپنی رائے سے رجوع کیا۔ صرف امام احمد بن حنبل اور محمد بن نوح باقی رہے۔
ان دونوں کی ابھی مامون الرشید کے سامنے پیشی نہیں ہوئی تھی کہ مامون کا انتقال ہو گیا۔ چنانچہ ان دونوں کو واپس بغداد بھیج دیا گیا۔ محمد بن نوح نے راستہ میں وفات پائی اور امام احمد بن حنبل تنہا بغداد پہنچ گئے۔ مامون الرشید نے اپنے جانشین معتصم کو وصیت کی تھی کہ وہ خلق قرآن کے مسئلہ پر سختی سے پابند رہے اور اس کی پالیسی پر عمل کرے۔ اور قاضی ابن ابی داؤد کو بدستور اپنا مشیر اور وزیر بنائے رکھے۔ چنانچہ معتصم نے ان دونوں وصیتوں پر پورا پورا عمل کیا۔
اب مسئلہ خلق قرآن کی مخالفت اور عقیدہ صحیحہ کی حمایت اور حکومت وقت کے مقابلہ کی ذمہ داری تنہا امام احمد بن حنبل کے اوپر تھی۔ وہ محدثین کے امام اور سنت وشریعت کے اس وقت امین تھے۔ چنانچہ امام صاحب کو بیڑیاں پہنا کر معتصم کے سامنے پیش کیا گیا۔ تین دن مسئلہ خلق قرآن پر مناظرہ ہوا اور مسئلہ خلق قرآن کے قائل لاجواب ہو گئے۔ امام صاحب کو ۲۸ کوڑے مارے گئے، ایک تازہ جلاد صرف دو کوڑے مارتا، دوسرا جلاد بلایا جاتا، آپ ہر کوڑے پر فرماتے: ’’اعطونی شےئا من کتاب اللہ او سنۃ رسولہ حتی اقول بہ‘‘’’میرے سامنے اللہ تعالی کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے کچھ پیش کرو تو میں اس کو تسلیم کرلوں ۔‘‘ (البدایہ والنہاےۃ ۱۰؍۳۳۶)
واقعہ کی تفصیلات امام احمد رحمہ اللہ کی زبان سے:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو خود تفصیل سے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : میں جب اس مقام پر پہنچا جس کا نام باب البستان ہے تو میرے لئے سواری لائی گئی اور مجھ کو سوار ہونے کا حکم دیا گیا۔ مجھے اس وقت کوئی سہارا دینے والا نہیں تھا اور میرے پاؤں میں بوجھل بیڑیاں تھیں، سوار ہونے کی کوشش میں کئی مرتبہ اپنے منہ کے بل گرتے گرتے بچا۔ آخر کسی نہ کسی طرح سوار ہوا اور معتصم کے محل میں پہنچا۔ مجھے ایک کوٹھڑی میں داخل کر دیا گیا اور دروازہ بند کر دیا گیا۔ آدھی رات کا وقت تھا اور وہاں کوئی چراغ نہیں تھا۔ میں نے نماز کے لئے مسح کرنا چاہا اور ہاتھ بڑھایا تو پانی کا ایک پیالہ اور طشت رکھا ملا، میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ اگلے دن معتصم کا قاصد آیا اور مجھے خلیفہ کے دربار میں لے گیا۔ معتصم بیٹھا ہوا تھا، قاضی القضاۃ ابن ابی داؤد بھی موجود تھا۔ اور ان کے ہم خیالوں کی ایک بڑی جمعیت تھی۔ ابو عبدالرحمان الشافعی بھی موجود تھے، اسی وقت دو آدمیوں کی گردنیں بھی اڑائی جا چکی تھیں۔ میں نے ابو عبدالرحمان الشافعی سے کہا کہ تم کو امام شافعی سے مسح کے بارے میں کچھ یا د ہے۔
ابن ابو داؤد نے کہا کہ اس شخص کو دیکھو کہ اس کی گردن اڑائی جانے والی ہے۔ اور یہ فقہ کی تحقیق کر رہا ہے۔ معتصم نے کہا کہ ان کو میرے پاس لاؤ ، وہ برابر مجھے بلاتا رہا، یہاں تک کہ میں اس کے بہت قریب ہو گیا۔ اس نے کہا بیٹھ جاؤ، میں بیڑیوں سے تھک گیا تھا اور بوجھل ہو رہا تھا، تھوڑی دیر کے بعد میں نے کہا کہ مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے؟ خلیفہ نے کہا، کہو، میں نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اللہ کے رسول نے کس چیز کی طرف دعوت دی ہے؟ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے کہا کہ لاالہ الا اللہ کی شہادت کی طرف۔ تو میں نے کہا تو میں اس کی شہادت دیتا ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کے جدا مجد ابن عباس رضی اللہ کی روایت ہے کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو انہوں نے ایمان کے بارے میں آپ سے سوال کیا، فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ ایمان کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، فرمایا اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی، اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ نکالنا، اس پر معتصم نے کہا: اگر تم میرے پیش رو کے ہاتھ میں پہلے نہ آگئے ہوتے تو میں تم سے تعرض نہ کرتا۔ پھر عبدالرحمن بن اسحاق کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے تم کو حکم نہیں دیا تھا کہ اس آزمائش کو ختم کرو۔ امام احمد کہتے ہیں کہ میں نے کہا، اللہ اکبر۔ اس میں تو مسلمانوں کے لئے کشائش ہے۔ خلیفہ نے حاضرین علماء سے کہا کہ ان سے مناظرہ کرو اور گفتگو کرو۔ (یہاں امام احمد بن حنبل اس مناظرہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں)
ایک آدمی بات کرتا اور میں اس کا جواب دیتا۔ دوسرا بات کرتا تو میں اس کا جواب دیتا، معتصم کہتا احمد! تم پر خدا رحم کرے، تم کیا کہتے ہو؟میں کہتا ہوں امیرالمومنین! مجھے کتاب اللہ یا سنت رسول ﷺ سے کچھ دکھاےئے تو میں اس کا قائل ہو جاؤں گا۔ معتصم کہتا ہے کہ اگر یہ میری بات قبول کرلیں تو میں اپنے ہاتھ سے ان کو آزاد کردوں اور اپنے لشکر کے ساتھ ان کے پاس جاؤں اور ان کے آستانہ پر حاضر ہوں، پھر کہتا احمد! میں تم پر بہت شفیق ہوں اور مجھے تمہارا ایسا خیال ہے جیسے اپنے بیٹے ہارون کا۔ تم کیا کہتے ہو؟ میں وہی جواب دیتا کہ مجھے کتاب اللہ یا سنت رسول ﷺ میں سے کچھ دکھاؤ تو میں قائل ہوں گا۔ جب بہت دیر ہو گئی تو بہت اکتا گیا اور کہا جاؤ، مجھے قید کر دیا اور میں اپنی پہلی جگہ پر واپس کر دیا گیا۔ اگلے دن پھر مجھے طلب کیا گیا اور مناظرہ ہوتا رہا اور میں سب کا جواب دیتا رہا۔ یہاں تک کہ زوال کا وقت ہو گیا جب اکتا گیا تو کہا ان کو لے جاؤ، تیسری رات کو میں سمجھا کہ کل کچھ ہو کر رہے گا، میں نے ڈوری منگوائی۔ اور اس سے اپنی بیڑیوں کو کس لیا اور جس آزار بند سے میں نے بیڑیاں باندھ رکھی تھیں اسے اپنے پائجامہ میں پھر ڈال دیا کہ کہیں کوئی سخت وقت آئے اور میں برہنہ نہ ہو جاؤں۔ تیسرے روز مجھے پھر طلب کیا گیا، میں نے دیکھا کہ دربار بھرا ہوا ہے، میں مختلف ڈیوڑھیاں اور مقامات طے کرتا ہوا آگے بڑھا۔ کچھ لوگ تلواریں لئے کھڑے تھے، کچھ لوگ کوڑے لئے۔ پہلے دو دنوں کے بہت سے لوگ آج نہیں تھے۔ جب معتصم کے پاس پہنچا، تو کہا بیٹھ جاؤ، پھر کہا ان سے مناظرہ کرو اور گفتگو کرو۔ لوگ مناظرہ کرنے لگے۔ میں ایک کا جواب دیتا، پھر دوسرے کا جواب دیتا، میری آواز سب پر غالب تھی، جب دیر ہو گئی تو مجھے الگ کر دیا گیا اور ان کے ساتھ تخلیہ میں کچھ بات کی، پھر ان کو ہٹادیا اور مجھے بلا لیا پھر کہا احمد! تم پر خدا رحم کرے۔ میری بات مان لو۔ میں تم کو اپنے ہاتھ سے رہا کر دوں گا، میں نے پہلا سا جواب دیا۔ اس پر اس نے برہم ہو کر کہا کہ ان کو پکڑو اورکھینچو اور ان کے ہاتھ اکھیڑ دو۔ معتصم کرسی پر بیٹھ گیا جلادوں اور تازیانہ لگانے والوں کو بلایا، جلادوں سے کہا آگے بڑھو، ایک آدمی آگے بڑھتا اور مجھے دو کوڑے مارتا۔ معتصم کہتا: زور سے کوڑے لگاؤ پھر وہ ہٹ جاتا اور دوسرا آتا، دو کوڑے لگاتا (۱۹) کوڑوں کے بعد معتصم میرے پاس آیا اور کہا کہ احمد! کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑے ہو! بخدا مجھے تمہارا بڑا خیال ہے۔ ایک شخص عجیف مجھے اپنی تلوار کے دستے سے چھیڑتا اور کہتا کہ تم ان سب پر غالب آنا چاہتے ہو۔ دوسرا کہتا، اللہ کے بندے! خلیفہ تمہارے سر پر کھڑا ہے۔ کوئی کہتا امیرالمومنین آپ روزے سے ہیں۔ آپ دھوپ میں کھڑے ہوئے ہیں۔ معتصم پھر مجھ سے بات کرتا اور میں اس کو وہی جواب دیتا پھر وہ جلاد کو حکم دیتا کہ پوری قوت سے کوڑے لگاؤ۔ امام کہتے ہیں کہ پھر اس اثناء میں میرے حواس جاتے رہے۔ جب میں ہوش میں آیا تو دیکھا کہ بیڑیاں کھول دی گئی ہیں۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم نے تم کو اوندھے منہ گرادیا، تم کو روندا۔ احمد کہتے ہیں کہ مجھ کو کچھ احساس نہیں ہوا۔ (تاریخ دعوت وعزیمت از مولانا ابوالحسن ندوی ۹۶۱۔۹۹، بحوالہ تاریخ الاسلام للذہبی ترجمہ امام احمد ص ۴۱۔۴۹)
امام احمد کی بے نظیر عزیمت واستقامت:
مولانا ابوالکلام آ زاد رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی عزیمت واستقامت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: تیسری صدی کے اوائل میں جب فتنہ اعتزال وتعمق فی الدین اور بدعت مضلہ، تکلم بالفلسفہ وانحراف عن اعتصام السنہ نے سر اٹھایا اور صرف ایک ہی نہیں بلکہ لگاتار تین عظیم الشان فرمانرواؤں یعنی مامون، متصم اور واثق باللہ کی شمشیر استبداد اور قہر حکومت نے اس فتنے کا ساتھ دیا۔ حتی کہ بقول علی بن مدینی کے فتنہ ارتداد ومنع زکوٰۃ (بعہد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ) کے بعد یہ دوسرا فتنہ عظیم تھا جو اسلام کو پیش آیا۔ تو کیا اس وقت علمائے امت اور ائمہ شریعت سے عالم اسلام خالی ہو گیا تھا۔ غور تو کرو۔ کیسے کیسے اساطین علم وفن اور اکابر فضل وکمال اس عہد میں موجود تھے۔ خود بغداد اہل سنت وحدیث کا مرکز تھا۔ مگر سب دیکھتے ہی رہ گئے اور عزیمت دعوت وکمال مرتبہ وراثت نبوت وقیام حق وہدایت فی الارض والامت کا وہ جو ایک مخصوص مقام تھا صرف ایک ہی قائم لامر اللہ ان کے حصے میں آیا ۔ یعنی سید المجددین وامام المصلحین، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ۔
اپنے اپنے رنگ میں سب صاحب مراتب ومقامات تھے لیکن اس مرتبے میں تو کسی کو ساجھانہ تھا۔
بعضوں نے رو پوشی اختیار کی اور گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ جب کہ تمام اصحاب کا روطریق کا یہ حال ہو رہا تھا اور وہ دین خالص کی بقاء وقیام جیسی عظیم الشان قربانی کا طلب گار تھا۔ صرف امام موصوف ہی تھے جن کو فاتح وسلطان عہد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے نہ تو دعاۃ فتن وبدعت کے آگے سر جھکایا، نہ رو پوشی وخاموشی وکنارہ کشی اختیار کی اور نہ صرف بند حجروں کے اندر دعاؤں اور مناجاتوں پر قناعت کرلی بلکہ دین خالص کے قیام کی راہ میں اپنے نفس ووجود کو قربان کردینے اور تمام خلف امت کے لئے ثبات واستقامت علی السنۃ کی راہ کھول دینے کے لئے ’’فاصبر کما صبر اولو العزم من الرسل‘‘ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کو قید کیا گیا، قید خانے میں چلے گئے، بوجھل بیڑیاں پاؤں میں ڈالی گئیں، پہن لیں۔لیکن اس پیکر حق، اس مجسمہ سنت، اس مؤید بالروح القدس، اس صابر اعظم کما صبرو او لو العزم من الرسل کی زبان صدق سے صرف یہی جواب نکلتا تھا: اعطونی شےئا من کتاب اللہ و سنۃ رسولہ حتی اقول بہ‘‘ اللہ کی کتاب میں سے کچھ دکھلا دو یا اس کے رسول کا کوئی قول پیش کردو تو میں اقرار کر لوں گا، اس کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔؂
جو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خوب گویم
(تذکرۃ ابوالکلام مطبوعہ مکتبہ جمال ص ۱۳۳؍۱۳۷؍۱۳۹)
امام احمد رحمہ اللہ کا کارنامہ اور اس کا صلہ:
معتصم نے امام صاحب کو رہا کر دیا اور امام صاحب اپنے گھر پہنچ گئے۔ تاہم ان کو اپنے گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور نقل وحرکت پر پابندی لگا دی گئی۔ امام صاحب کی بے نظیر استقامت اور ثابت قدمی سے یہ فتنہ خلق قرآن ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا اور مسلمان ایک بڑے خطرے سے محفوظ ہو گئے۔ جن لوگوں نے اس دینی ابتلاء میں حکومت کا ساتھ دیا تھا اور موقع پرستی اور مصلحت شناسی سے کام لیا تھا۔ وہ لوگوں کی نگاہوں میں گر گئے اور ان کا دینی وعلمی وقار جاتا رہا۔ اس کے مقابل امام صاحب کی شان دو بالا ہو گئی، ان کی محبت اہل سنت اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کا شعار اور علامت بن گئی۔
ان کے معاصرین جنہوں نے اس فتنہ کی عالم آشوبی دیکھی تھی، ان کے اس کارنامہ کی عظمت کا بڑی فراخدلی سے اعتراف کیا ہے اور اس کو دین کی بروقت حفاظت اور مقام صدیقیت سے تعبیر کیا ہے۔ امام احمد کے ایک ہم عصر اور محدث وقت امام علی بن مدینی (استاد اما بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس دین کے غلبہ وحفاظت کا کام دو شخصوں سے لیا ہے جس کا کوئی تیسرا ہمہ نظر، نظر نہیں آتا۔ ارتداد کے موقع پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور فتنہ خلق قرآن کے سلسلہ میں احمد بن حنبل رحمہ اللہ (تاریخ بغداد ۴؍۴۲۱)
نظر بندی سے نجات:
الواثق باللہ کی وفات کے بعد اس کا چھوٹا بھائی المتوکل تخت خلافت پر بیٹھا۔ اس نے امام احمد رحمہ اللہ کی نظر بندی ختم کر دی۔ المتوکل امام صاحب کی بہت قدر اور احترام کرتا تھا۔ ان سے معاملات سلطنت اور اہم امور میں مشورے طلب کرتا۔ مال ودولت اور انعام واکرام سے مالا مال کرنا چاہتا تھا لیکن امام صاحب نے کبھی بھی اس کا کوئی تحفہ قبول نہ کیا۔
خلیفہ المتوکل ۳ شوال ۲۴۷ھ ؁ مطابق ۱۰ دسمبر ۸۶۱ء ؁ ایک ترک کے ہاتھوں قتل ہوا۔ عباسی خاندان کا یہ پہلا قتل تھا۔ (تاریخ الخلفاء سیوطی)
وفات:امام احمد بن حنبل ۷۷ سال کی عمر میں ۱۲ربیع الاول ۲۴۱ھ ؁ مطابق ۳۱جولائی ۸۵۵ء ؁ بغداد میں وفات پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔جنازہ میں ۸ لاکھ مر داور ۶۰ ہزار عورتیں شریک تھیں۔ (تاریخ ابن خلکان ۱۰؍۴۸)۔

No comments:

Post a Comment