مولانا محمد مظہر الاعظمی
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ مؤ
اس لئے مناسب معلوم ہو تا ہے کہ لفظ مشاجرت کے بعد یہ باب مفاعلۃ کا مصدر ہے جس کی خاصیت اشتدک اور معنی آپس میں جھگڑا کرنے کے ہیں۔ صحابہ کرام کی اہمیت و فضیلت ذکر کر دی جائے تاکہ صحابہ کی عظمت وبزرگی نقش ہوجائے اور تکدر باقی نہ رہے بلکہ تکدر کا شائبہ بھی ختم ہوجائے اور پھر خوارج کی خباثت عقیدہ اور کردار وعمل پر گفتگو کی جائے تاکہ صحابہ کرام کی عظمت کے آئینہ میں خوارج کے چندخدو خال اور ظاہر وباطن عیاں ہو جائے۔
یہ وہی صحابہ کرام ہیں جن کے ذکر خیر سے کتاب وسنت کے ابواب روشن ہیں اور تاریخ کے صفحات پردرخشاں ہیں بلکہ حقائق کی روشنی میں بلا تامل کہا جاسکتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے وادئ کفروشرک میں جو شمع توحید روشن ہوا تھا اس کی روشنی جو اطراف عالم میں پہونچی اور بحروبرمنور ہوئے تو اس میں انھیں برگزیدہ شخصیتوں کا کردار وعمل ہے کیونکہ ان کا تزکیہ وتطہیر رسول اللہﷺ کے سایہ عاطف میں دست مبارک سے ہوئی تھی۔
صحابۂ کرام قرآن کے آئینہ میں:۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مختلف مقامات پر مختلف پیرایہ وانداز میں صحابہ کرام کی اہمیت وعظمت کا ذکر کیا ہے تاکہ ایمان رکھنے والے گروہ کو کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو اور نہ ہی فکر کو کوئی ایسی راہ ملنے پائے جس سے ان کی شان مجروح ہو۔ ہم یہاں پر چند آیات ذکر کرتے ہیں تاکہ صحابہ کرام کی ذات آئینہ ہوجائے۔
(کنتم خیرأمۃ أخرجت للناس) (وکذالک جعلناکم أمۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا) (لقد رضی اللہ عن المومنین إذیبا یعونک تحت الشجرۃ فعلم مافی قلوبہم فأنزل السکینۃ علیہم وأثابہم فتحا قریبا) والسابقون الأولون من المہاجرین والأنصار والذین اتبعواہم بإحسان رضی اللہ عنہم ورضو عنہ) یا أیہا النبی حسبک اللہ ومن اتبعک من المومنین) (للفقراء المہاجرین الذین أخرجوا من دیارہم وأموالہم یبتغون فضلاً من اللہ ورضوانا وینصرون اللہ ورسولہ، أولئک ہم الصادقون*والذین تبوأوالدار والإیمان من قبلہم یحبون من ہاجر الیہم ولا یجدون فی صدورہم حاجۃ مما أوتوا ویوثرون علی أنفسہم ولوکان بہم خصاصۃ ومن یوق شح نفسہ فأولئک ہم المفلحون)
ان آیات سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ایک پاکیزہ جماعت میں جتنی خوبیاں مطلوب ودرکار ہوتی ہیں ان تمام اوصاف کے پانے کی اللہ تعالیٰ نے وضاحت کر دی ہے نیز ان کے ان اوصاف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی راضی وخوش ہے۔
جس جماعت کی پسندیدگی اور اس سے رضا مندی کا اعلان اللہ تعالیٰ نے خود کیا ہو، کیا ان پر حرف رکھنا اور ان کی شان میں غیر سنجیدہ الفاظ کا استعمال کرنا کیا عقل گوارا کرتی ہے اور ایمان کے آئینہ میں اس کی تصویر صاف دکھلائی دے گی۔
صحابہ کرام احادیث کے آئینہ میں:۔
رسول اللہ ﷺنے مختلف مواقع پر اپنے اصحاب کے مقام ومرتبہ اور درجہ کا اظہار مختلف انداز میں کیا ہے، جس کی وجہ سے اہل ایمان اس زمانہ سے آج تک ان کی بزرگی وبرتری کے قائل ہیں اور ان شاء اللہ قیامت تک رہیں گے، الا یہ کہ ایمان کا دعوی کرنے والا ایمان کی دولت سے محروم ہوجائے یاکہ خود اس کا ایمان زنگ آلود ہو جائے، پھر تو وہ صحابہ کرام کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی اپنی آزادی فکر کا استعمال کرکے بہت کچھ اگا سکتا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’خیر أمتی قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم بحی قوم تسبق ایمانہم شہادتہم ویشہدون قبل أن یستشہدوا،،
ایک دوسری روایت جس کے راوی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’لا تسبوا أصحابی فوالذی نفسی بیدہ لوأنفق احدکم مثل أحد ذہبا ما أدرک مدأحدہم ولا نصیفہ‘‘ جن برگزیدہ شخصیات کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا اس وضاحت کے ساتھ فرمان موجود ہو پھر بھی اگر زبان وبیان کو آزادکردیا جائے اور سب وستم سے نوازا جائے تو ان کے مقام ومرتبہ اور عظمت کو تو کوئی نقصان نہیں پہونچے گا البتہ ایسا کرنے والے رسول اللہ ﷺ کی وعید کے مستحق ہونے کے ساتھ اپنا دو جہان خراب کریں گے۔
مشاجرات کا آغاز اور خوارج:
حقیقت اور سچائی تو یہی ہے کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ ہے، مگر افسوس کہ کبھی کبھی جذبات اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں مانع ہوتے ہیں اور ایک شخص سچائی جانتے ہوئے گرم خون کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے پھر ہوتا یہ ہے کہ سچائی تک پہونچنے کے لئے جنگ ہوتی ہے مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ جس سچائی تک ہم پہونچنا چاہ رہے تھے اس سے قریب ہونے کے بجائے دور ہوتے گئے مگر یہ احساس اتنی دیر میں ہوتا ہے کہ کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ اور کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہم کی جنگ ہوئی، صفین کے مقام پر گھمسان کا رن پڑا، دونوں شخصیت اور ذات ایسی ہے کہ ان کی نیک نیتی پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں بلکہ ان کا کردار وعمل بتا رہا کہ دونوں سچائی تک پہونچنا چاہ رہے تھے، جنگ کسی فیصلہ کن نتیجہ پر پہونچنے سے پہلے حضرت معاویہ نے تحکیم کے نظریہ کو اپنایا اور ان کے رفقاء نے قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کرکے اشارہ دیا کہ اب جنگ ختم کردینا چاہئے اور مسئلہ کا حل قرآن کریم کو تسلیم کرنا چاہئے۔
ایک طرف خونریز جنگ اور دوسری طرف قرآن کریم کا حکم ماننے کی بات، بھلا کون ہے جو یہ کہنے کی جسارت کرے گا کہ قرآن کریم کو چھوڑو اور میدان کے ہی فیصلہ کو حتمی تسلیم کرو۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ پر مصر رہے اور وہ چاہتے تھے کہ جنگ ہوتی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ کردے۔ شاید وہ اس جنگ کے فیصلہ کو بھی اللہ تعالیٰ کا ہی فیصلہ اور قرآن کے مطابق فیصلہ مانتے رہے ہوں۔
چونکہ جنگ خلیفہ اور امیر تنہا نہیں لڑتا بلکہ لشکر کی شکل میں ایک پوری جماعت شریک ہوتی ہے ایسی صورت میں کبھی کبھی امیر کو لشکر یوں کی بات ماننی پڑتی ہے جو وقت اور حالات کا تقاضہ ہوتا ہے، بالکل ایسا ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا ان کو تحکیم کے معاملہ میں اپنے لشکریوں کی بات تسلیم کرنی پڑی اور پھر طرفین سے طے پایا کہ دو ثالث مقرر کئے جائیں جن کا فیصلہ ہر ایک کے لئے واجب التسلیم ہوگا تاکہ امت جو اس وقت زبردست ہلاکت خیزی سے دو چار ہے اور بلا وجہ خون کا دریا بہایا جا رہا ہے وہ بند ہو۔ بس اس فیصلہ کے حصول کے لئے اور امت کی بہی خواہی میں حضرت علی کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت عمروبن العاص کو منتخب کیا گیا۔
مسئلہ تحکیم میں خوارج کا کردار وعقیدہ:
تاریخ کا یہ ایک عجیب باب ہے کہ جن لوگوں نے حضرت علی کو تحکیم کے لئے تسلیم کرنے پر مجبور کیا تھا جس تحکیم کے لئے حضرت علی آمادہ نہیں تھے، وہی منحرف ہوگئے اور اب حضرت علی کو مجرم قراردینے لگے کہ انھوں نے تحکیم کو تسلیم کر لیا، اگر حضرت علی کو صرف مجرم قراردیتے تو بھی معاملہ زیادہ سنگین نہ ہوتا مگر اتنے پر تسلی نہیں ہوئی اور وہ مطالبہ کر بیٹھے کہ جس طرح ہم نے تحکیم کو تسلیم کرکے ارتکاب کفر کیا اور پھر اس سے تائب ہوئے آپ بھی تحکیم کے کفر کا اقرار کیجئے اور پھر اس سے توبہ کیجئے بلکہ اپنے توبہ کا اعلان کیجئے۔
جن چند افراد یا جماعت نے پہلے تحکیم کے تسلیم کرنے پر مجبور کیا اور پھر بعد میں اسے کفر قرار دے کر توبہ کرنے اور توبہ کا اعلان کرنے پر مجبو کیا وہی چند افرادیا جماعت خوارج کہلائے جن کے ظاہر وباطن کی خباثت ان کے اس گھناؤنے کردار وعمل میں نمایاں ہے۔
باطنی خباثت پر تحکیم کا دبیز پردہ:
باطن کو چھپانے کے لئے عموما ظاہر کو خوب سے خوب تربنانے اور مزین کرنے کی کوشش کی جاتی کیونکہ انسان پہلے ظاہر کو ہی دیکھتا اور فیصلہ کرتا ہے اس لئے خوارج نے بھی اپنے باطن پر ان الحکم الا اللہ کا خوبصورت لیبل لگا کر اسے نعرہ کی شکل دی جس نعرہ میں اس قدر جاذبیت تھی کہ سادہ لوح لوگوں کے لپیٹ میں آنے میں دیر نہیں لگی مگر جو لوگ باطنی خباثت سے واقف تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ظاہر وباطن میں سیاہ وسفید کا فرق ہے انہوں نے اپنے دامن کو پلید ہونے سے خود بھی بچایا اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کی۔
گمراہ کن خلوص اور تقوی:
ہر عمل میں خلوص کو اہمیت حاصل ہے مگر اس وقت جب یہ کتاب وسنت کی روشنی میں ہو اگر یہ خلوص غلط فہمی کی وجہ سے ہو تو پھر نتائج کا خراب ہونا یقینی ہے، اگر خوارج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سراپا پیکر اخلاص وتقوی ہیں جن پر شبہ کی کسی طرح کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک روایت ہے کہ حضرت علی حضرت ابن عباس کو خوارج کے پاس بحث وگفتگو کے لئے بھیجا، انہوں نے دیکھا کہ لمبے لمبے سجدہ کی وجہ سے ان کے ہاتھوں پر نشان پڑے ہوئے تھے اور ہاتھ اونٹ کے زانوں کی طرح سخت تھے، ان کے کرتے پسینہ سے شرابور، یعنی ان کے اخلاص وتقوی پر شبہ کی کوئی گنجائش نہیں مگر دینی شعور اور فہم سے تہی دستی نے انھیں اس طرح گمراہ کردیا تھا کہ اسلام کی روح کو ہی نقصان پہونچانے لگے، جس کی مثال حضرت عبداللہ بن خباب کا قتل ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت علی کو مشرک نہیں کہتے تھے۔
’’الکامل‘‘ میں ابوالعباس نے عبداللہ بن خباب کا واقعہ یوں تحریرکیا ہے۔
جب عبداللہ بن خباب کی ملاقات خوارج سے ہوئی تو ان کے پاس قرآن موجود تھا، ان کی حاملہ بیوی بھی ان کے ساتھ تھی: خارجیوں نے ان سے کہا: جو چیز تمہارے پاس موجود ہے اس کا تو حکم یہ ہے کہ ہم تمہیں قتل کر ڈالیں۔ پھر عبداللہ بن خباب سے خوارج نے پوچھا کہ : ابو بکر وعمر کے بارے میں تم کیا کہتے ہو۔ عبداللہ نے جواب دیا! ان کے بارے میں کلمۂ خیر کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں۔ خوارج نے پھرسوال کیا: تحکیم سے پہلے علی اور خلافت کے ابتدائی دور میں عثمان کیسے تھے؟ عبداللہ نے کہا بہت اچھے تھے، خوارج نے پوچھا تحکیم کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ عبداللہ نے جواب دیا ’’میری رائے یہ ہے کہ علی تم سے زیادہ کتاب الٰہی کوجانتے تھے۔ تم سے زیادہ نیک وکار، دین کے حامی ونگہبان اور صاحب بصیرت وفراست تھے۔ خوارج نے کہا تم سچائی نہیں بلکہ بھاری بھرکم ناموں کی پیروی کرتے ہو‘‘ یہ کہہ کر عبداللہ بن خباب کو پکڑ کر نہر کے کنارے لے گئے اور قتل کردیا۔
اس گفتگو سے واضح ہے کہ ان کی سادہ لوحی کے پیچھے کس قدر خباثت کارفرماتھی، کہ صحابی رسول ﷺ کو کافر سے کم کہنے کے لئے آمادہ نہیں اور اگر کوئی اسے کافی نہ سمجھے جسے یہ سمجھتے ہیں تو پھر اس کا انجام قتل کے سوا کچھ نہیں ہے۔
خوارج کے عقائد ونظریات:
شیخ محمدابوزہرہ مصری نے اپنی کتاب ’’تاریخ المذاہب الاسلامیہ‘‘ میں خوارج کے عقائد کو اختصار کے ساتھ قلم بند کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے۔
(۱) خلیفہ کا تقرر آزادنہ ومنصفانہ انتخاب سے ہونا چاہئے، جس میں تمام مسلمان حصہ لیں اور کسی ایک گروہ پر اکتفا نہ کیا جائے۔
خلیفہ اس وقت تک اپنے منصب پر رہے گا۔ جب تک وہ عدل پر قائم رہے گا، شریعت کے احکام نافذ کرے۔ خطا اور کج روی سے کنارہ کش رہے، اگر ان چیزوں کو چھوڑدے تو اس کا معزول کر دینا بلکہ قتل کردینا جائز ہے۔
(۲)خلافت کسی عرب خاندان کے ساتھ خاص نہیں ہے قریش کی بھی اس میں کوئی تخصیص نہیں جیسا کہ دوسرے(اہل سنت) کہتے ہیں۔
یہ بھی غلط ہے کہ عجمی خلیفہ نہیں ہو سکتا صرف عرب ہی اس منصب پر فائز ہو سکتا ہے ۔ تمام مسلمان خلیفہ ہونے کا یکساں حق رکھتے ہیں، بلکہ افضل یہ ہے کہ خلیفہ کسی غیر قریشی کو بنایا جائے تاکہ اگر وہ راہ حق سے منحرف ہو تو اسے معزول کرنا یا قتل کردینا آسان ہو۔ کیونکہ غیر قریشی خلیفہ کو معزول یا قتل کردینے کے باعث قبائیلی عصبیت آڑے نہیں آئیگی اور نہ ہی خاندانی جذبہ روک بن سکے گا۔
(۳)اسی نقطۂ نظر کے باعث خارجیوں نے اپنا امیر عبداللہ ابن الراسبی کو بنایا جسے وہ لوگ امیرالمومنین کہتے تھے، یہ شخص قریشی نہیں تھا، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خارجیوں کا نجدات نام کا فرقہ اس بات کا قائل تھا کہ کسی امام یا خلیفہ کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں لوگوں کو چاہنے آپس میں اپنا معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ حل کر دیا کریں۔ تاہم اگر ایسا نہ ہو سکے تو اماموں کو منتخب کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں یعنی ان کے نزدیک اقامت امام واجب نہیں بلکہ مصلحت وضرورت پر منحصر ہے۔
(۴)خوارج ہر گناہ گار کو کافر سمجھتے تھے، خواہ یہ گناہ ارادہ گناہ اور بری نیت سے یا غلط فہمی یا خطا اجتہادہی سے ہو۔ یہی وجہ تھی کہ تحکیم کے معاملہ میں وہ حضرت علی کو کافر کہتے تھے، حالانکہ حضرت علی تحکیم کے لئے اپنے طور پر تیار نہیں تھے، لیکن اگر وہ از خود تیار بھی ہو گئے ہوتے اور تحکیم کو مان لیا جائے کہ وہ درست امر نہیں تھا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی کی یہ خطاء اجتہادی تھی، مگر خارجیوں کا حضرت علی کی تکفیر پر اصرار اس امر پر غماز ہے کہ وہ خطا اجتہادی کو بھی دین سے خارج ہونے کا سبب اور فساد عقیدہ کی علامت مانتے ہیں، یہ ان کا یہی عقیدہ حضرت عثمان حضرت طلحہ حضرت زبیر وغیرہ کے اکابر صحابہ کے بارے میں تھا۔
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ مؤ
مشاجرات صحابہ اور خوارج
مشاجرات کی صحابہ کے ساتھ ترکیب اضافی سے سنتے ہی طبیعت میں ایک عجیب سا تکدرپیدا ہوتا ہے اور صحابہ کرام کے ساتھ عقیدت کو ٹھیس لگتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ساےۂ عاطفت میں رہ کر صحابہ کرام کا تزکیہ وتطہیر جس طریقہ اورانداز میں ہوتا تھا اس کے تصور کے بعد لفظ مشاجرت نہ تو کسی طرح میل کھاتا اور نہ ہی طبیعت گوارا کرتی مگر لفظ خوارج سے بہت جلد یہ غلط فہمی دور ہونے لگتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ اس پاک طینت گروہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس میں کسی فرد یا جماعت کی خباثت اور دشمنی وعداوت کی کار فرمائی ہے، خود صحابہ کرام کے اپنے کردار وعمل کا کوئی دخل نہیں ہے۔اس لئے مناسب معلوم ہو تا ہے کہ لفظ مشاجرت کے بعد یہ باب مفاعلۃ کا مصدر ہے جس کی خاصیت اشتدک اور معنی آپس میں جھگڑا کرنے کے ہیں۔ صحابہ کرام کی اہمیت و فضیلت ذکر کر دی جائے تاکہ صحابہ کی عظمت وبزرگی نقش ہوجائے اور تکدر باقی نہ رہے بلکہ تکدر کا شائبہ بھی ختم ہوجائے اور پھر خوارج کی خباثت عقیدہ اور کردار وعمل پر گفتگو کی جائے تاکہ صحابہ کرام کی عظمت کے آئینہ میں خوارج کے چندخدو خال اور ظاہر وباطن عیاں ہو جائے۔
یہ وہی صحابہ کرام ہیں جن کے ذکر خیر سے کتاب وسنت کے ابواب روشن ہیں اور تاریخ کے صفحات پردرخشاں ہیں بلکہ حقائق کی روشنی میں بلا تامل کہا جاسکتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے وادئ کفروشرک میں جو شمع توحید روشن ہوا تھا اس کی روشنی جو اطراف عالم میں پہونچی اور بحروبرمنور ہوئے تو اس میں انھیں برگزیدہ شخصیتوں کا کردار وعمل ہے کیونکہ ان کا تزکیہ وتطہیر رسول اللہﷺ کے سایہ عاطف میں دست مبارک سے ہوئی تھی۔
صحابۂ کرام قرآن کے آئینہ میں:۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مختلف مقامات پر مختلف پیرایہ وانداز میں صحابہ کرام کی اہمیت وعظمت کا ذکر کیا ہے تاکہ ایمان رکھنے والے گروہ کو کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو اور نہ ہی فکر کو کوئی ایسی راہ ملنے پائے جس سے ان کی شان مجروح ہو۔ ہم یہاں پر چند آیات ذکر کرتے ہیں تاکہ صحابہ کرام کی ذات آئینہ ہوجائے۔
(کنتم خیرأمۃ أخرجت للناس) (وکذالک جعلناکم أمۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا) (لقد رضی اللہ عن المومنین إذیبا یعونک تحت الشجرۃ فعلم مافی قلوبہم فأنزل السکینۃ علیہم وأثابہم فتحا قریبا) والسابقون الأولون من المہاجرین والأنصار والذین اتبعواہم بإحسان رضی اللہ عنہم ورضو عنہ) یا أیہا النبی حسبک اللہ ومن اتبعک من المومنین) (للفقراء المہاجرین الذین أخرجوا من دیارہم وأموالہم یبتغون فضلاً من اللہ ورضوانا وینصرون اللہ ورسولہ، أولئک ہم الصادقون*والذین تبوأوالدار والإیمان من قبلہم یحبون من ہاجر الیہم ولا یجدون فی صدورہم حاجۃ مما أوتوا ویوثرون علی أنفسہم ولوکان بہم خصاصۃ ومن یوق شح نفسہ فأولئک ہم المفلحون)
ان آیات سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ایک پاکیزہ جماعت میں جتنی خوبیاں مطلوب ودرکار ہوتی ہیں ان تمام اوصاف کے پانے کی اللہ تعالیٰ نے وضاحت کر دی ہے نیز ان کے ان اوصاف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی راضی وخوش ہے۔
جس جماعت کی پسندیدگی اور اس سے رضا مندی کا اعلان اللہ تعالیٰ نے خود کیا ہو، کیا ان پر حرف رکھنا اور ان کی شان میں غیر سنجیدہ الفاظ کا استعمال کرنا کیا عقل گوارا کرتی ہے اور ایمان کے آئینہ میں اس کی تصویر صاف دکھلائی دے گی۔
صحابہ کرام احادیث کے آئینہ میں:۔
رسول اللہ ﷺنے مختلف مواقع پر اپنے اصحاب کے مقام ومرتبہ اور درجہ کا اظہار مختلف انداز میں کیا ہے، جس کی وجہ سے اہل ایمان اس زمانہ سے آج تک ان کی بزرگی وبرتری کے قائل ہیں اور ان شاء اللہ قیامت تک رہیں گے، الا یہ کہ ایمان کا دعوی کرنے والا ایمان کی دولت سے محروم ہوجائے یاکہ خود اس کا ایمان زنگ آلود ہو جائے، پھر تو وہ صحابہ کرام کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی اپنی آزادی فکر کا استعمال کرکے بہت کچھ اگا سکتا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’خیر أمتی قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم بحی قوم تسبق ایمانہم شہادتہم ویشہدون قبل أن یستشہدوا،،
ایک دوسری روایت جس کے راوی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’لا تسبوا أصحابی فوالذی نفسی بیدہ لوأنفق احدکم مثل أحد ذہبا ما أدرک مدأحدہم ولا نصیفہ‘‘ جن برگزیدہ شخصیات کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا اس وضاحت کے ساتھ فرمان موجود ہو پھر بھی اگر زبان وبیان کو آزادکردیا جائے اور سب وستم سے نوازا جائے تو ان کے مقام ومرتبہ اور عظمت کو تو کوئی نقصان نہیں پہونچے گا البتہ ایسا کرنے والے رسول اللہ ﷺ کی وعید کے مستحق ہونے کے ساتھ اپنا دو جہان خراب کریں گے۔
مشاجرات کا آغاز اور خوارج:
حقیقت اور سچائی تو یہی ہے کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ ہے، مگر افسوس کہ کبھی کبھی جذبات اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں مانع ہوتے ہیں اور ایک شخص سچائی جانتے ہوئے گرم خون کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے پھر ہوتا یہ ہے کہ سچائی تک پہونچنے کے لئے جنگ ہوتی ہے مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ جس سچائی تک ہم پہونچنا چاہ رہے تھے اس سے قریب ہونے کے بجائے دور ہوتے گئے مگر یہ احساس اتنی دیر میں ہوتا ہے کہ کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ اور کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہم کی جنگ ہوئی، صفین کے مقام پر گھمسان کا رن پڑا، دونوں شخصیت اور ذات ایسی ہے کہ ان کی نیک نیتی پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں بلکہ ان کا کردار وعمل بتا رہا کہ دونوں سچائی تک پہونچنا چاہ رہے تھے، جنگ کسی فیصلہ کن نتیجہ پر پہونچنے سے پہلے حضرت معاویہ نے تحکیم کے نظریہ کو اپنایا اور ان کے رفقاء نے قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کرکے اشارہ دیا کہ اب جنگ ختم کردینا چاہئے اور مسئلہ کا حل قرآن کریم کو تسلیم کرنا چاہئے۔
ایک طرف خونریز جنگ اور دوسری طرف قرآن کریم کا حکم ماننے کی بات، بھلا کون ہے جو یہ کہنے کی جسارت کرے گا کہ قرآن کریم کو چھوڑو اور میدان کے ہی فیصلہ کو حتمی تسلیم کرو۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ پر مصر رہے اور وہ چاہتے تھے کہ جنگ ہوتی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ کردے۔ شاید وہ اس جنگ کے فیصلہ کو بھی اللہ تعالیٰ کا ہی فیصلہ اور قرآن کے مطابق فیصلہ مانتے رہے ہوں۔
چونکہ جنگ خلیفہ اور امیر تنہا نہیں لڑتا بلکہ لشکر کی شکل میں ایک پوری جماعت شریک ہوتی ہے ایسی صورت میں کبھی کبھی امیر کو لشکر یوں کی بات ماننی پڑتی ہے جو وقت اور حالات کا تقاضہ ہوتا ہے، بالکل ایسا ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا ان کو تحکیم کے معاملہ میں اپنے لشکریوں کی بات تسلیم کرنی پڑی اور پھر طرفین سے طے پایا کہ دو ثالث مقرر کئے جائیں جن کا فیصلہ ہر ایک کے لئے واجب التسلیم ہوگا تاکہ امت جو اس وقت زبردست ہلاکت خیزی سے دو چار ہے اور بلا وجہ خون کا دریا بہایا جا رہا ہے وہ بند ہو۔ بس اس فیصلہ کے حصول کے لئے اور امت کی بہی خواہی میں حضرت علی کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت عمروبن العاص کو منتخب کیا گیا۔
مسئلہ تحکیم میں خوارج کا کردار وعقیدہ:
تاریخ کا یہ ایک عجیب باب ہے کہ جن لوگوں نے حضرت علی کو تحکیم کے لئے تسلیم کرنے پر مجبور کیا تھا جس تحکیم کے لئے حضرت علی آمادہ نہیں تھے، وہی منحرف ہوگئے اور اب حضرت علی کو مجرم قراردینے لگے کہ انھوں نے تحکیم کو تسلیم کر لیا، اگر حضرت علی کو صرف مجرم قراردیتے تو بھی معاملہ زیادہ سنگین نہ ہوتا مگر اتنے پر تسلی نہیں ہوئی اور وہ مطالبہ کر بیٹھے کہ جس طرح ہم نے تحکیم کو تسلیم کرکے ارتکاب کفر کیا اور پھر اس سے تائب ہوئے آپ بھی تحکیم کے کفر کا اقرار کیجئے اور پھر اس سے توبہ کیجئے بلکہ اپنے توبہ کا اعلان کیجئے۔
جن چند افراد یا جماعت نے پہلے تحکیم کے تسلیم کرنے پر مجبور کیا اور پھر بعد میں اسے کفر قرار دے کر توبہ کرنے اور توبہ کا اعلان کرنے پر مجبو کیا وہی چند افرادیا جماعت خوارج کہلائے جن کے ظاہر وباطن کی خباثت ان کے اس گھناؤنے کردار وعمل میں نمایاں ہے۔
باطنی خباثت پر تحکیم کا دبیز پردہ:
باطن کو چھپانے کے لئے عموما ظاہر کو خوب سے خوب تربنانے اور مزین کرنے کی کوشش کی جاتی کیونکہ انسان پہلے ظاہر کو ہی دیکھتا اور فیصلہ کرتا ہے اس لئے خوارج نے بھی اپنے باطن پر ان الحکم الا اللہ کا خوبصورت لیبل لگا کر اسے نعرہ کی شکل دی جس نعرہ میں اس قدر جاذبیت تھی کہ سادہ لوح لوگوں کے لپیٹ میں آنے میں دیر نہیں لگی مگر جو لوگ باطنی خباثت سے واقف تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ظاہر وباطن میں سیاہ وسفید کا فرق ہے انہوں نے اپنے دامن کو پلید ہونے سے خود بھی بچایا اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کی۔
گمراہ کن خلوص اور تقوی:
ہر عمل میں خلوص کو اہمیت حاصل ہے مگر اس وقت جب یہ کتاب وسنت کی روشنی میں ہو اگر یہ خلوص غلط فہمی کی وجہ سے ہو تو پھر نتائج کا خراب ہونا یقینی ہے، اگر خوارج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سراپا پیکر اخلاص وتقوی ہیں جن پر شبہ کی کسی طرح کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک روایت ہے کہ حضرت علی حضرت ابن عباس کو خوارج کے پاس بحث وگفتگو کے لئے بھیجا، انہوں نے دیکھا کہ لمبے لمبے سجدہ کی وجہ سے ان کے ہاتھوں پر نشان پڑے ہوئے تھے اور ہاتھ اونٹ کے زانوں کی طرح سخت تھے، ان کے کرتے پسینہ سے شرابور، یعنی ان کے اخلاص وتقوی پر شبہ کی کوئی گنجائش نہیں مگر دینی شعور اور فہم سے تہی دستی نے انھیں اس طرح گمراہ کردیا تھا کہ اسلام کی روح کو ہی نقصان پہونچانے لگے، جس کی مثال حضرت عبداللہ بن خباب کا قتل ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت علی کو مشرک نہیں کہتے تھے۔
’’الکامل‘‘ میں ابوالعباس نے عبداللہ بن خباب کا واقعہ یوں تحریرکیا ہے۔
جب عبداللہ بن خباب کی ملاقات خوارج سے ہوئی تو ان کے پاس قرآن موجود تھا، ان کی حاملہ بیوی بھی ان کے ساتھ تھی: خارجیوں نے ان سے کہا: جو چیز تمہارے پاس موجود ہے اس کا تو حکم یہ ہے کہ ہم تمہیں قتل کر ڈالیں۔ پھر عبداللہ بن خباب سے خوارج نے پوچھا کہ : ابو بکر وعمر کے بارے میں تم کیا کہتے ہو۔ عبداللہ نے جواب دیا! ان کے بارے میں کلمۂ خیر کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں۔ خوارج نے پھرسوال کیا: تحکیم سے پہلے علی اور خلافت کے ابتدائی دور میں عثمان کیسے تھے؟ عبداللہ نے کہا بہت اچھے تھے، خوارج نے پوچھا تحکیم کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ عبداللہ نے جواب دیا ’’میری رائے یہ ہے کہ علی تم سے زیادہ کتاب الٰہی کوجانتے تھے۔ تم سے زیادہ نیک وکار، دین کے حامی ونگہبان اور صاحب بصیرت وفراست تھے۔ خوارج نے کہا تم سچائی نہیں بلکہ بھاری بھرکم ناموں کی پیروی کرتے ہو‘‘ یہ کہہ کر عبداللہ بن خباب کو پکڑ کر نہر کے کنارے لے گئے اور قتل کردیا۔
اس گفتگو سے واضح ہے کہ ان کی سادہ لوحی کے پیچھے کس قدر خباثت کارفرماتھی، کہ صحابی رسول ﷺ کو کافر سے کم کہنے کے لئے آمادہ نہیں اور اگر کوئی اسے کافی نہ سمجھے جسے یہ سمجھتے ہیں تو پھر اس کا انجام قتل کے سوا کچھ نہیں ہے۔
خوارج کے عقائد ونظریات:
شیخ محمدابوزہرہ مصری نے اپنی کتاب ’’تاریخ المذاہب الاسلامیہ‘‘ میں خوارج کے عقائد کو اختصار کے ساتھ قلم بند کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے۔
(۱) خلیفہ کا تقرر آزادنہ ومنصفانہ انتخاب سے ہونا چاہئے، جس میں تمام مسلمان حصہ لیں اور کسی ایک گروہ پر اکتفا نہ کیا جائے۔
خلیفہ اس وقت تک اپنے منصب پر رہے گا۔ جب تک وہ عدل پر قائم رہے گا، شریعت کے احکام نافذ کرے۔ خطا اور کج روی سے کنارہ کش رہے، اگر ان چیزوں کو چھوڑدے تو اس کا معزول کر دینا بلکہ قتل کردینا جائز ہے۔
(۲)خلافت کسی عرب خاندان کے ساتھ خاص نہیں ہے قریش کی بھی اس میں کوئی تخصیص نہیں جیسا کہ دوسرے(اہل سنت) کہتے ہیں۔
یہ بھی غلط ہے کہ عجمی خلیفہ نہیں ہو سکتا صرف عرب ہی اس منصب پر فائز ہو سکتا ہے ۔ تمام مسلمان خلیفہ ہونے کا یکساں حق رکھتے ہیں، بلکہ افضل یہ ہے کہ خلیفہ کسی غیر قریشی کو بنایا جائے تاکہ اگر وہ راہ حق سے منحرف ہو تو اسے معزول کرنا یا قتل کردینا آسان ہو۔ کیونکہ غیر قریشی خلیفہ کو معزول یا قتل کردینے کے باعث قبائیلی عصبیت آڑے نہیں آئیگی اور نہ ہی خاندانی جذبہ روک بن سکے گا۔
(۳)اسی نقطۂ نظر کے باعث خارجیوں نے اپنا امیر عبداللہ ابن الراسبی کو بنایا جسے وہ لوگ امیرالمومنین کہتے تھے، یہ شخص قریشی نہیں تھا، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خارجیوں کا نجدات نام کا فرقہ اس بات کا قائل تھا کہ کسی امام یا خلیفہ کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں لوگوں کو چاہنے آپس میں اپنا معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ حل کر دیا کریں۔ تاہم اگر ایسا نہ ہو سکے تو اماموں کو منتخب کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں یعنی ان کے نزدیک اقامت امام واجب نہیں بلکہ مصلحت وضرورت پر منحصر ہے۔
(۴)خوارج ہر گناہ گار کو کافر سمجھتے تھے، خواہ یہ گناہ ارادہ گناہ اور بری نیت سے یا غلط فہمی یا خطا اجتہادہی سے ہو۔ یہی وجہ تھی کہ تحکیم کے معاملہ میں وہ حضرت علی کو کافر کہتے تھے، حالانکہ حضرت علی تحکیم کے لئے اپنے طور پر تیار نہیں تھے، لیکن اگر وہ از خود تیار بھی ہو گئے ہوتے اور تحکیم کو مان لیا جائے کہ وہ درست امر نہیں تھا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی کی یہ خطاء اجتہادی تھی، مگر خارجیوں کا حضرت علی کی تکفیر پر اصرار اس امر پر غماز ہے کہ وہ خطا اجتہادی کو بھی دین سے خارج ہونے کا سبب اور فساد عقیدہ کی علامت مانتے ہیں، یہ ان کا یہی عقیدہ حضرت عثمان حضرت طلحہ حضرت زبیر وغیرہ کے اکابر صحابہ کے بارے میں تھا۔
No comments:
Post a Comment