سدرشن کی بد زبانی اور کانگریس
مطیع اللہ حقیق اللہ مدنیآر۔ایس۔ایس کے سابق سربراہ سدرشن نے سونیا گاندھی پر انتہائی سنگین الزام لگایا کہ ’’سونیا گاندھی نے ہی اندرا گاندھی اور اپنے شوہر نامدارمسٹر راجیوگاندھی کا قتل کرایا تھا‘‘ اس الزام سے سونیا گاندھی کو حددرجہ تکلیف ہے اور سونیا گاندھی کی پارٹی کانگریس بھی اس الزام سے بیحد تکلیف میں مبتلا ہو چکی ہے یہ کانگریسی اس پر اس قدر برہم ہیں کہ پورے ملک میں انھوں نے احتجاج کا ایک طوفان کھڑا کر دیا، ان کا کہناتھا کہ جب تک سدرشن معافی نہیں مانگتے اسوقت تک یہ احتجاج جاری رہے گا۔ اخبارات کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سدرشن کی اس بدزبانی اور سونیا گاندھی کی دل آزاری والی حرکت سے ایک انتہائی شریف خاتون کا دل دکھانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے عام ہندوستانیوں اور کانگریس پارٹی کے ارکان وحامیان کے قلب وجگر کٹ کر رہ گئے ہیں۔
سدرشن نے اتنی شدید گھناونی حرکت کی ہے کہ کانگریس پارٹی آر ایس ایس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
ایسی تنظیم کی سرگرمیاں بند ہونی چاہئے جس کاقدیم سابق سربراہ ایک نصرانی الاصل نو ہندو خاتون اور گانگریس چیرپرسن سونیا گاندھی پر الزام تراشی کرے۔
بھاجپا بھی اس الزام سے جزبزہے اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے اسے یہ فکر ستا رہی ہے کہ سدرشن کی اس بھونڈی حرکت اور دل آزار بات سے کانگریس پارٹی کی مقبولیت کا گراف بڑھ جائے گا اور اس سے بھاجپا کا نقصان اور خسارہ ہوگا اس کے بعض لیڈروں کا کہنا ہے سدرشن ایسے ہی بول جاتے ہیں،کانگریس پارٹی ملک کی سب سے قدیم پارٹی ہے۔
اس کے اپنے کارنامے ہیں اس کو ہمیشہ اپنی ترقی اور ملک کی ترقی کی فکر لاحق رہتی ہے۔
اس پارٹی کی ایک خاص بات یہ بھی رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ نہروخاندان سے وفاداری میں یقین رکھا ہے اور نہروخاندان کے قائدین کو تقدس کا درجہ دے رکھا ہے بلکہ ان کے گرد ان کی بے گناہی کا ہالہ بنائے رکھا ہے۔
اسے قطعی یہ گوارہ نہیں ہے کہ اس کے قائدین کے خلاف کوئی شخص اپنی زبان سے کوئی بھی نازیبا لفظ نکالے۔
اسی لئے اس وقت جبکہ سونیا گاندھی کانگریس کی عظیم قد آور سیاسی لیڈربن چکی ہیں، انہوں نے اپنی محنت شاقہ سے کانگریس میں نئی روح پھونک دی ہے، اپنے فرزند ارجمند جناب راہل گاندھی کو کانگریس کی قیادت اور ملک کی وزارت عظمی کیلئے تیاری میں جی جان سے مصروف عمل ہیں۔ ایسے میں سدرشن کو کوئی حق نہیں ہے کہ اس معصوم دیوی پر اتنابڑا سنگین الزام لگا کر ان کا دل دکھائے۔ اور ان کی پوترتا پر انگلی اٹھائے۔ سدرشن کا یہ الزام کانگریس کی نظر میں ایک ناقابل برداشت جرم ہے، اس کی اس مذموم حرکت کی بنا پر اس کی قدیم تنظیم پر پابندی عائد کرنی چاہئے۔
سدرشن کے الزام میں کتنی حقیقت وصداقت ہے؟ اس کے پاس اس الزام تراشی کے اثبات میں اپنے کیا دلائل وشواہد ہیں؟
شاید وہ عدالت میں پیش کرے کیونکہ اس پر عدالت میں مقدمات درج کرنے کی بات بھی میڈیا میں آچکی ہے۔ ہمیں اس سے زیادہ کچھ سروکارنہیں ہے کہ الزام کتنا سچا ہے اور کتنا جھوٹا ؟
لیکن ایک ضروری بات قابل توجہ ہے کہ سدرشن کی بات بہر حال حد درجہ اہم اور اسکا الزام قتل انتہائی سنگین الزام ہے۔
اس سے سونیا گاندھی اور ان کے خانوادہ، ان کی کانگریس پارٹی ان کے معتقدین، ان کے حامیان اور ہر عقل سلیم رکھنے والے ہندوستانی کو تکلیف پہونچی ہے۔
یہ بات بھی طے ہے کہ سدرشن کی یہ الزام تراشی حددرجہ دل آزار ہے یہ ایک بد زبانی اور یا وہ گوئی ہے۔
یہ بات بھی قرین عقل وقیاس ہے کہ کانگریس پارٹی کو اذیت پہونچے کیونکہ ان کے نزدیک سونیا گاندھی ایک پوتردیوی کی مانند ہے اور اس الزام سے ان کی پوترتا پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سدرشن اور اسکی تنظیم اور اس تنظیم سے وابستہ اس کے مخلص اور بے لوث أرکان کے حالات، ان کے تصرفات، ان کے مساعی وحرکات اوران کی اس قسم کی دل آزار باتوں سے ملک کو کیا پہلی بار سامنا ہوا ہے؟یہ اس تنظیم کے قدیم کارکنان اور ان کے اغلبیت ماضی میں اس نوع کے ہفوات اور الزام واتہام پر مبنی باتیں کرتے رہے ہیں؟کیا سدرشن اور ان کے ہمنوا ماضی میں دشنام طرازیاں کرتے آئے ہیں؟ اس کے سابق ہم خیال کچھ اور دلدوز اور جانکاہ حرکات کر چکے ہیں؟
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس تنظیم کے کارکن اور اس کے بے لوث خادم اسی ملک میں بسنے والی ایک اقلیت مسلم أقلیت اس کے دین، اس کے مقدسات، اس کی کتاب، اس کے رسول اس کے پرسنل لاء وغیرہ سے متعلق یا وہ گوئی کرتے رہتے ہیں، آئے دن ان کے خلاف دل آزار باتیں کرتے رہتے ہیں، ہر روز الزام تراشیاں کرکے ان کو مطعون کرتے اور ہراساں کرتے رہتے ہیں۔ انہیں غداروطن قرار دیتے ہیں ان کے لئے قبرستان یا پاکستان دونوں میں سے ایک کو چننے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف دشنام طرازی کرنا، مغلظات بکنا بے نقط سنانا ہی کو ان کے شعلہ بار لیڈروں کا محبوب مشغلہ ہے یہ سب کچھ شب دیجورمیں نہیں بلکہ دن کے صاف وشفاف اجالے میں ہوتا ہے۔عام سبھاؤں میں مسٹر سدرشن اور ان کے ہمنوا دیگر آتش فشانی کرنے والے لیڈران اقلیت مسلمہ اور ان کے مقدسات وشعائر کے خلاف بلا روک ٹوک ہرزہ سرائیاں کرتے ہیں۔
میں بہت سنجیدگی سے کانگریس لیڈر سونیا گاندھی اور کانگریس کے بزرگ لیڈران اور عام باشندگان ملک کے سامنے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا مسلم اقلیت کی دل آزاری اور ان کے اوپر الزام تراشی سے انہیں تکلیف ہوتی ہے یا نہیں؟ ملک کی اقتدار پر قائم ہونے کی بنا پر کیا کبھی کانگریس نے مسلم دل آزاری اور بحق اسلام ومسلمان بدزبانی پر احتجاج کرنے اور ان پر پابندی عائد کرنے کا خیال بھی دل میں پیدا کیا۔
جب دیا رنج سدرشن نے سبق یاد آیا۔
سدرشن ایک شخص کا نام نہیں ہے: سدرشن ایک تحریک ہے ایک مشن ہے ایک فکر ہے ایک وچادھارا ہے جسکی اپنی خاص تہذیب ہے۔
اس کا وجود قدیم ہے۔ اسی تحریک نے گاندھی کا قتل کیا ہے اسی مشن نے مسلمانوں کو ہمیشہ ستایا ہے انہیں نیست ونابود کرنے کی عملی کوشش ہے اسی فکر نے ان پر، ان کے مقدمات وشعائر، مساجد ومدارس پر یلغارکیا ہے اسی وچاردھارا نے بدزبانوں کو بے لگام بنایا ہے اور دشنام طرازی اور مغلظات بکنے کا عادی وخوگر بنایا ہے اسی تہذیب نے آج سونیا گاندھی پر یہ الزام لگا کر انہیں اور ان کے حامیوں کو دردوکرب میں مبتلا کرکے بلبلا نے پر مجبو کردیا ہے۔’’فہل من مدکر‘‘
No comments:
Post a Comment