Sunday 26 June, 2011

علامہ ناصر الدین البانی کی زندگی کے مختلف پہلو sep-oct 2010

عبد الباری شفیق احمد
علامہ ناصر الدین البانی کی زندگی کے مختلف پہلو
وقال اللہ تبارک وتعالیٰ فی القران الکریم (کل نفس ذائقۃ الموت)
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس دارفانی سے ایک نہ ایک دن سب کو اخروی زندگی کی طرف رخت سفر باندھنا ہے، لیکن اسی دارفانی کے اندر کچھ ایسی ہستیاں جنم لیتی ہیں جن کے چلے جانے سے پورا ماحول سوگوار نظر آتا ہے۔ پندرہویں صدی ہجری کی دوسری دہائی کا آخری سال یعنی ۱۴۲۰ھ ؁ مطابق ۱۹۹۹ء ؁ بھی پوری امت مسلمہ کیلئے اس اعتبار سے رنج وغم کا سال رہا کہ اس میں قرآن وحدیث کے پاسبانوں کا ایک عظیم کارواں اس دارفانی سے رخصت ہو گیا، انہیں عظیم ومبارک ہستیوں میں سے ایک نابغۂ روزگارہستی حضرت العلام، محدث عصر، علامہ ابو عبدالرحمن محمد ناصرالدین نوح بن نجاتی البانی رحمہم اللہ کی ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کی وفات پر سلفیان عالم کو خاص طور سے جو رنج وغم لاحق ہوا ہے اسے جلدی بھلایا نہیں جا سکتا، لیکن موت کا تلخ جام ایک نہ ایک دن سب کو پینا ہے ؂
موت سے کس کورستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
لیکن آپ کے مجین ووفادار وں کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار بھی نہیں کہ آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اور آپ کے علمی وراثت کو عام کریں۔
محدث عصر علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی ابتدائی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے البانیہ کی راجدھانی اسقورہ کے ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جو غیر معتبر،جھوٹی روایات اور ضعیف احادیث سے بری طرح متاثر تھا پورا خاندان، رشتے دار اور خاص طور سے آپ کے والد صاحب حنفی مسلک کیلئے سخت متعصب تھے، تعلیم وتعلم کے گہواروں میں بھی فقہی جمود سے بالا تر ہو کر علم حدیث کی شمع روشن کرنا معاشرہ کے حلاف جرم عظیم سمجھا جاتا تھا، ان تمام بدعات وخرافات کے باوجود آپ نے اپنے علمی سفر اور تحریری مشن میں منہجیت اور سلفیت کو غالب رکھا، یعنی آپ قرآن وسنت کے منسوب لغوی وشرعی مفاہیم کو اسلامی پیرائے میں پیش کرتے، فہم سلف کی استنادی حیثیت ہمیشہ سامنے ہوتی اور قلم کو جنبش دیتے تو نور کی کرنیں پھوٹنے لگتیں، زبان کو حرکت دیتے تو محفل میں سناٹا چھا جاتا اور سامعین آپ کی طرف اس طرح متوجہ ہوجاتے تھے، گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں لیکن تردید وتعاقب میں جارحانہ روش اپنانے سے کوسوں دور، دل ودماغ میں ہمیشہ یہ جذبۂ خلوص کہ حق کا کیا مقام ہے؟ علماء کا کیا مقام کیا؟ طلباء کا کیا مقام ہے؟ اور اصول ورجال کی کیا حیثیت ہے؟
ابتدائی تعلیم:۔
ویسے تو ممدوح رحمہ اللہ نے دمشق کے ایک پرائیویٹ مدرسہ سے پرائمری کا پہلا اور دوسرا سال ایک ہی سال میں ختم کردیا اور چھ ۶ سال کا کورس چار ہی سال میں پورا کرکے پرائمری کی سرٹیفکٹ لے لی، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد شیخ کے والد محترم نے وہاں سے پڑھائی چھوڑوا کر اپنے زیر نگرانی قرآن مجید تجوید کے ساتھ پڑھایا اور ساتھ ہی ساتھ فقہ حنفی اور صرف بھی انہیں سے پڑھا، اور شیخ سعید برہانی سے فقہ حنفی،بلاغت،نحو، اور خاص طور سے نورالایضاح کی شرح مراقی الایضاح پڑھی، اور والد محترم کی اجازت سے بیک وقت مشائخ عظام سے بھی استفادہ کیا، شیخ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں والد محترم‘‘ شیخ سعید برہانی اور مشائخ سے پڑھنے کے بعد اپنے ماموں اسماعیل اور ایک دوسرے شامی آدمی ابو محمد کے ساتھ کارپنٹر (بڑھئی) کا کام بھی کیا کرتے تھے، جو دو سال تک جاری رہا، اور میرے والد محترم گھڑی سازی کا کام کیا کرتے تھے، کچھ دنوں کے بعد آپ نے کارپنٹر کا کام چھوڑکر اپنے والد محترم کے ساتھ گھڑی سازی کا کام کرنے لگے اور اس وقت آپ کی عمر تقریبا ۹یا دس سال کی تھی۔
علم حدیث کا شوق:۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ الحمد للہ میں نے شروع ہی سے مذہبی ماحول میں آنکھیوں کھولیں تھیں، میرے والد صاحب حنفی مذہب کے سلسلے میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے، گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول ہونے کی وجہ سے مجھے کتابوں کے مطالعہ کا اتنا شدید شوق ہو گیا تھا، کہ میں قصے کہانیوں کی کتابوں کو پڑھا کرتا تھا، میں ’’الف لیلہ ولیلہ، عنتربن شداد، صلاح الدین ایوبی، ذات الہمۃ والابطال‘‘ وغیرہ جیسی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتا تھا، جن کے بارے میں بظاہر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مطالعہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ کتابیں قاری پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں، لیکن بعد میں ان کتابوں کے مطالعہ کا مثبت اثر میری زبان اور بول چال میں ہوا، اس کے بعد شیخ فرماتے ہیں کہ مجھے مطالعہ کرنے کا اتنا شدید شوق تھا کہ میں ناول کی کتابوں کو کرائے پر لیتا انھیں پڑھتا اور واپس کر دیتا تھا۔
نوادرعلامہ البانی رحمہ اللہ :۔
اتنی لمبی تمہید کے بعد جو آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں اور جو میرا اصل مقصد ہے وہ ہے علامہ البانی رحمہ اللہ کے نوادرات کیا تھے؟
سب سے پہلے آپ کو یہ بتا دوں کہ علم کے شوق وجستجو میں ہمارے اسلاف نے کیا کیا مشقتیں نہیں برداشت کیں، محدث عصر حضرت العلام علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی حصول علم میں کافی محنت اور جستجو کی ہے۔ علم حاصل کرنے اور مطالعہ کرنے کی غرض سے آپ مکتبہ ظاہریہ دمشق سائیکل سے جایا کرتے تھے اور شام میں اس وقت سائیکل کی سواری اچھی بات نہیں مانی جاتی تھی اور جب دمشقیوں نے پہلی بار کسی صاحب عمامہ کو سائیکل پر سوار دیکھا تو ان کو بڑا تعجب ہوا، اور اس وقت ایک مزاحیہ میگزین ’’المضحک المبکی‘‘ ’’ہنسانے رلانے والا‘‘ نکلتا تھا، تو اس مزاحیہ میگزین کے مزاحیہ کالم میں اس واقعہ کو ذکر کرکے آپ کی بے عزتی اور مذاق اڑایا گیا، لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے ان سب چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں تھا اس لئے کہ مجھے تو اپنا وقت بچانا اور لائبریری سے استفادہ کرنا مقصود تھا۔
اسی طرح شیخ نے مکتبہ ظاہریہ میں ایک کتاب کے ایک ورق کی تلاش میں پوری لائبریری کو کھنگال ڈالا، شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’کہ مکتبہ میں اس ایک ورق کی تلاش کے دوران مجھے بڑا علمی فائدہ ہوا، میری ہمت بڑھتی گئی یہاں تک کہ میں نے پانچ سو سے زائد مجلات دیکھ ڈالے سیڑھی پر چڑھ کر اوپر کی الماریوں کی ایک ایک جلد اور ایک ایک کتاب دیکھ ڈالی، یہاں تک کہ لائبریری کے ایک کونے میں پھٹے پرانے اور بوسیدہ اوراق کا ایک گوشہ تھا جہاں گردوغبار کی وجہ سے کوئی نہیں جاتا تھا میں نے وہاں بھی اس ورق کو تلاش کیا آخر کار وہ ورق لائبریری میں نہیں ملا اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ورق مکتبہ میں نہیں ہے، شیخ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ دوران مطالعہ اور اس ورق کی تلاش میں مجھے جو کچھ مفید معلومات ملتیں انھیں نوٹ کرتا جاتا تھا اور اس کام سے مجھے بہت فائدہ ہوا اور بہت سارے مسائل کا علم ہوا۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید ابو اسماء کہتے ہیں کہ ’’اسلامی ملکوں اور لائبریریوں کے اپنے اپنے قوانین وضوابط ہوتے ہیں جن کے حدود میں رہ کر ہی وہ طلباء اور زائرین کے ساتھ معاملات کرتے ہیں، پھر مکتبہ ظاہریہ والوں نے شیخ کے لئے لائبریری کا ایک کمرہ کیسے خاص کردیا،اس کی کنجی شیخ کو کیسے ملی؟ اور وہ کسی بھی وقت مکتبہ میں داخل ہو سکتے تھے، ان سب کے اسباب علامہ البانی رحمہ اللہ یو ں بیان کرتے ہیں کہ ’’اولا:۔میری محنت،لگن، اور سرگرمیوں کا اس میں کافی دخل تھا۔ دوسری وجہ:۔یہ تھی کہ شام یونیورسٹی کی کلےۃ الشریعۃ نے علوم الحدیث میں ایک انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے کا فیصلہ کیا تو ذمہ داران مکتبہ نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اس سلسلے میں تحقیقی کام کروں، چنانچہ میں غوروفکر کرنے کے بعد یہ عظیم کام انجام دینے کیلئے تیار ہو گیا چنانچہ مکتبہ کے ذمہ داروں نے خوش ہو کر مجھے مکتبہ کی ایک کنجی دیدی اور چوکیدار سے کہدیا کہ مجھے کسی بھی وقت مکتبہ میں داخل ہونے سے کوئی منع نہیں کریگا۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں علامہ البانی کی زندگی:۔
شیخ علی خشان اور شیخ عید عباس بیان کرتے ہیں کہ ’’اللہ کے فضل وکرم اور شیخ کی مسلسل کوششوں سے موصوف کی حدیث، فقہ اور عقیدہ میں بہت ساری مفید کتابیں منظر عام پر آئیں،چنانچہ جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی داغ بیل ڈالی گئی تو جامعہ کے ذمہ داروں بالخصوص جامعہ کے رئیس اور مفتی الدیار السعودےۃ شیخ علامہ محمد بن ابراہیم آل شیخ نے علامہ البانی رحمہ اللہ کاحدیث، علوم حدیث اور فقہ حدیث کی تدریس کیلئے انتخاب کیا، علامہ البانی نے جامعہ اسلامیہ میں تین سال تک حدیث اور علوم حدیث کا درس دیا اس درمیان شیخ اتنی محنت اور اخلاص سے کام کرتے تھے کہ گھنٹی ختم ہونے کے بعد میدان میں طلباء کے ساتھ بیٹھتے، بعض اساتذہ جب وہاں سے گذرتے تو یہ منظر دیکھ کر کہتے کہ حقیقی درس وتدریس تو یہی ہے۔
شیخ کی طلباء سے محبت اور لگن:۔
محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ کا تعلق اپنے شاگردوں کے ساتھ ساتھی اور دوست جیسا تھا، شیخ نے سارے تکلفات کو ختم کرکے اعتماد اور بھائی چارگی کو قائم کیا تاکہ طلباء کو استفادہ میں جھجھک محسوس نہ ہو، یہاں تک کہ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’طلباء کا میرے ساتھ ایسا لگاؤں اور محبت تھی کہ جب میں اپنی گاڑی سے جامعہ جاتا تھا تو میری گاڑی طلباء سے گھرجاتی تھی۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نہایت ہی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے، کشادہ دل اور مزاج کے نہایت ہی اچھے تھے، شاگرد کے لئے بہترین استاد اور دوست کے لئے بہترین دوست تھے آپ کی خاکساری کی یہ بھی ایک دلیل اور ثبوت ہے کہ محدث عصر ، مجدد ملت اور فقیہ وقت فجر کی نماز میں اپنی گاڑی سے اپنے طلباء کے گھروں پر جا کر ان کو نماز کے لئے جگا یا کرتے تھے۔
شیخ کے شاگرد رشید شیخ عشیش بیان کرتے ہیں کہ ہمارے شیخ یعنی علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کو ایک لاکھ حدیثیں مع سند یاد اور ازبر تھیں۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کی وفات:۔
علامہ البانی رحمہ اللہ وفات سے قبل آخر کی تین سالوں میں بہت ساری بیماریوں میں مبتلا ہو گئے تھے، شیخ البانی رحمہ اللہ کو (اینمیا) خون کی کمی کا مرض لا حق تھا، نیز شیخ کے کلیجے اور پھپھڑے میں بھی تکلیف تھی اور ساتھ ہی ابو اسماء بیان کرتے ہیں کہ شیخ کو ہمیشہ حق میں لیس دار بلغم کی شکایت رہتی تھی، ان تمام امراض کے علاوہ شیخ پر بڑھاپا بھی طاری تھا،پھر بھی علامہ البانی رحمہ اللہ بحث وتحقیق اور مطالعہ سے گریز نہیں کرتے تھے، اگر بذات خود نہیں پڑھ پاتے تو اپنے بیٹوں یا وہاں پر موجود لوگوں سے کہتے تھے کہ فلاں کتاب لا کر اس میں سے فلاں جگہ سے پڑھواور جب کچھ لکھنا چاہتے تھے تو اپنے بیٹوں سے کہتے تھے ’’اکتب یا عبداللطیف اکتب یا عبادۃ‘‘ یعنی عبداللطیف لکھو، عبادۃ تم بھی لکھو یہ لوگ شیخ کو سونے کی حالت میں کہتے ہوئے سنتے’’ ہات کتاب الجرح والتعدیل جزء کذا صفحہ کذا‘‘ کہ جرح وتعدیل کا فلاں جزء فلاں صفحہ لے کر آؤ یہ تھا شیخ البانی رحمہ اللہ کا علم کے ساتھ شغف کا عالم۔
اسی طرح سے شیخ البانی رحمہ اللہ کا مرض بڑھتا گیا اور شیخ نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال سے زیادہ کی مدت درس وتدریس اور علم کی خدمت میں گذار ی۔
ابو اسماء بیان کرتے ہیں کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی وفات ۲۳جمادی الاول ۱۴۲۰ھ ؁ مطابق۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء ؁کو عمان میں ہوئی إنا للہ وانا الیہ راجعون۔
شیخ البانی کے اولاد واحفاد:۔
محدث عصر ، فقیہ الامت، مجدد ملت، حضرت علامہ ابو عبدالرحمن محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے چار شادیاں کیں تھیں، شیخ فرماتے ہیں کہ ’’ اللہ کے فضل وکرم سے میں نے اپنے سارے بچوں کا نام عبد سے رکھا ہے:
پہلی بیوی سے تین لڑکے پیدا ہوئے: ۱)عبدالرحمان ۲)عبداللطیف،۳) عبدالرزاق۔
دوسری بیوی سے چار لڑکے اور پانچ لڑکیاں پیدا ہوئیں۔اور تیسری بیوی سے صرف ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اور چوتھی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
آخر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ مولائے کریم ہم تمام مسلمانوں کو اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے زندگیوں سے سبق لینے کی توفیق عطا فرمااور شیخ رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت کر۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment