Thursday 7 July, 2011

حضرت جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ March 2011

تحریر: شیخ عبدالرحمن رافت پاشا
ترجمہ: مولانا ضیاء الدین بخاری
حضرت جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ
بنو عبد مناف میں پانچ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکل و شبہات میں اس قدر مشابہت رکھتے تھے کہ بہت سارے کمزور نظر رکھنے والے انہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلط ملط کردیا کرتے تھے۔ وہ پانچ افراد تھے:
(۱) ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے اور رضاعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک۔
(۲) قثم بن عباس بن عبدالمطلب۔ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لڑکے تھے۔
(۳) سائب بن عبید بن عبدیزید بن ہاشم۔ امام شافعی کے دادا۔
(۴) حسن بن علی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، پانچوں افراد میں آپ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔
(۵) جعفر بن ابوطالب۔ امیر المومنین علی بن ابوطالب کے بھائی۔
ابو طالب قوم قریش میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے لیکن اپنی قوم میں قدرومنزلت کے باوجود آپ مفلوک الحال اور کثیر العیال تھے۔ اور جس سال مکہ میں سوکھا پڑا تو قوم قریش کے جانور برباد ہوگئے اور لوگ ابلی ہوئی ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ ان دنوں بنو ہاشم میں محمد بن عبداللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس کی مالی حالت اچھی تھی۔ لہٰذا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: چچا جان! آپ کے بھائی ابوطالب کثیر العیال ہیں اور ان دنوں قحط اور بھوک کی وجہ سے مکہ والوں کا جوحال ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں، چلو ہم دونوں چل کر ان کی بعض اولاد کو لے آئیں، ایک لڑکا میں لیتا ہوں ایک آپ لے لیجئے اور ہم ان بچوں کی کفالت کریں۔ عباس رضی اللہ عنہ بولے : تم نے نیکی پر اکسایا ہے اور بھلائی کی دعوت دی ہے۔
یہ دونوں ابوطالب کی خدمت میں حاضرہوئے اور بولے: جب تک پریشانی کے یہ دن باقی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد کا کچھ بوجھ ہم برداشت کریں۔
ابوطالب بولے: اگر تم عقیل (علی کے بڑے بھائی) کو میرے پاس چھوڑ دو تو پھر جیسا تمہارے جی میں آئے کر گزرو۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اور عباس رضی اللہ عنہ نے جعفر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لیا۔
اس واقعے کے بعد علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت و حق کے دین کا اعلان کیا اورجوانوں میں سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ اور جعفر رضی اللہ عنہ اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے، وہیں جوان ہوئے، اسلام قبول کیا اور خود کفیل ہوگئے۔
جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ اوران کی زوجہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا دونوں بیک وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے اسلام لا چکے تھے۔ اس ہاشمی نوجوان اور اس کی جواں سال بیوی نے سب سے پہلے اسلام لانے والے مسلمانوں کے ساتھ قریش کی زیادتی اور تکالیف کو برداشت کیا اور ان تکالیف پر دونوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اس لئے کہ وہ دونوں بخوبی واقف تھے کہ جنت کا راستہ انہی کانٹوں سے بھرا ہوا ہے لیکن اگر ان دونوں کو دکھ تھا تو اس بات کا کہ قریش ہمیشہ ان کی گھات میں رہتے اور عبادت کی لذت کے ذائقے سے انہیں محروم رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے۔ ان حالات کے پیش نظر جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی اور دیگر صحابہ کے ساتھ ہجرت کی اجازت چاہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے رنج و غم سے انہیں اجازت دی۔ ان تمام پاک نفوس کو اپنی اس بستی کے چھوڑنے کا بڑا غم تھا جس بستی میں انہوں نے اپنا بچپن بتایا اور اپنی جوانی گزاری اور ان کا جرم سوائے اس کے اورکیا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ لیکن ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ قریش کی زیادتیوں کا منھ موڑ سکیں۔
اولین مہاجرین کا یہ قافلہ جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں حبشہ کی زمین پر پہنچا اور حبشہ کے نیک و عادل بادشاہ نجاشی کی حمایت حاصل کرکے اطمینان کی سانس لیا۔ قبول اسلام کے بعد پہلی مرتبہ مسلمانوں کو چین نصیب ہوا اور عبادت کی شیرینی سے وہ اس طرح مستفیض ہوئے کہ نہ تو ان کی عبادت میں کوئی خلل ڈالنے والا تھا اور نہ ہی ان کی سعادت میں کوئی روڑے اٹکانے والا تھا۔
لیکن اہل قریش کو جب مسلمانوں کے سفرحبشہ کی اطلاع ملی اور جب انہیں معلوم ہوا کہ نجاشی کی حمایت کی وجہ سے یہ مسافر اپنے دین پر اطمینان سے قائم ہیں توانہوں نے باہم مشورہ کیا کہ یا تو وہاں پہنچ کر ان سب کو قتل کردیا جائے یا پھر اس بڑے جیل (مکہ) واپس آنے پر انہیں مجبور کیا جائے۔
ہم ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنیں کہ ان کی آنکھوں نے کیا دیکھا اور ان کے کانوں نے کیا سنا۔ ام سلمہ فرماتی ہیں: جب ہم حبشہ پہنچ گئے تو ہمیں بہترین پڑوسی ملا۔ ہم اپنے رب کی عبادت بڑے اطمینان سے کرتے ۔ یہاں نہ تو ہمیں کوئی تکلیف پہنچانے والا تھا اور نہ جلی کٹی سنانے والا۔ جب قریش مکہ کو ہماری مطمئن زندگی کا پتہ چلا تو انہوں نے نجاشی اور حبشہ کے مذہبی رہنماؤں کے لئے بیش بہا تحفے تحائف روانہ کئے۔ قریش مکہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ سرزمین حجاج سے بھیجے جانے والے ان تحائف کو نجاشی اور اس کے ساتھی حسن نظر سے دیکھیں گے۔ لہٰذا اپنے ان دونوں نمائندوں کو انہوں نے تاکید کی کہ حبشہ کے بادشاہ سے اپنی بات کہنے سے پہلے کسی بھی طرح یہ ہدایہ ان کے سپرد کردینا۔
جب یہ دنوں حبشہ پہنچے تو انہوں نے نجاشی کے ساتھیوں میں اس کثرت سے ہدیے تقسیم کئے کہ ایک بھی شخص بغیر ہدیے کے نہ بچا۔ ہدایا تقسیم کرنے کے بعد انہوں نے نجاشی کے مذہبی رہنما سے کہا کہ بادشاہ کی سرزمین پر ہماری سرزمین کے کچھ سر پھرے آن بسے ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے اور اپنے مذہب میں تفرقہ پیدا کردیا ہے۔ جب ہم بادشاہ سے ان افراد سے متعلق گفتگو کریں تو تم بادشاہ کو اس بات پر آمادہ کرلینا کہ وہ ان سبھوں کو ہمارے حوالے کردے اور اس بات کا پورا خیال رکھنا کہ بادشاہ ان لوگوں سے ان کے دین کے متعلق کچھ پوچھنے نہ پائے۔ اس لئے کہ یہ لوگ اپنے عقیدے کی بڑی اچھی معلومات رکھتے ہیں اور انہیں بڑی بصیرت حاصل ہے اوران کے بیان و دلیل میں جادو ہے۔ مذہبی رہنمانے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس وقت عمر بن عاص اور ان کے ساتھی کواگر کسی بات کا خدشہ تھا تو وہ یہ کی نجاشی ہم میں سے کسی کو بلا کر کہیں ہماری بات نہ سن لے۔ یہ دونوں نجاشی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ، اسے ہدیہ پیش کیا۔ نجاشی نے ہدیے کی تعریف کی اور بڑا خوش ہوا۔ ان سے وجہ آمد پوچھی تو وہ کہنے لگے: اے بادشاہ! آپ کی سلطنت میں ہمارے کچھ بدترین نوجوان آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسادین قبول کرلیا ہے جس سے نہ ہم واقف ہیں نہ آپ، انہوں نے ہمارا دین چھوڑ دیا ہے اور آپ کے دین میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان کی قوم کے شرفاء جن میں ان لوگوں کے باپ بھی ہیں اورچچا بھی، نیز خاندان کے دیگر افراد بھی، ان سبھوں نے مل کر ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ ان لوگوں کو آپ ان تک لوٹادیں اور وہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے کیا فتنہ مچا رکھا ہے۔
یہ سن کر نجاشی نے اپنے مذہبی رہنما کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگا: بادشاہ سلامت! یہ دونوں سچ کہہ رہے ہیں، یقیناًان کی قوم ان سے زیادہ واقف ہے اور جو کچھ ان پناہ گزینوں نے وہاں کیا ہے اسے وہ بخوبی جانتے ہیں، لہٰذا انہیں لوٹا دیجئے تاکہ ان کے ساتھ ان کی قوم والوں کو جو سلوک کرنا ہے وہ کرسکیں۔
مذہبی رہنما کی یہ بات سن کر بادشاہ بہت سخت ناراض ہوا اور کہنے لگا: ہرگز نہیں! اللہ کی قسم میں انہیں کسی کے بھی حوالے اس وقت تک نہیں کروں گا تا وقتیکہ میں انہیں بلا نہ لوں اور جو باتیں ان سے منسوب کی گئی ہیں ان کے متعلق ان سے دریافت نہ کرلوں۔ پھر اگر وہ لوگ ویسے ہی پائے گئے جیسے کہ یہ دونوں کہہ رہے ہیں تو میں ان سب کو ان کے حوالے کردوں گا اور اگر بات ویسی نہ رہی جیسی کہ ان دونوں نے بیان کی ہے تو میں نہ صرف ان لوگوں کی حمایت کروں گا بلکہ انہیں اس بات کی آزادی بھی حاصل ہوگی کہ وہ جب تک چاہیں میری حمایت میں اطمینان وسکون سے رہیں۔
ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پھر نجاشی نے ہمیں بلوایا اور اس کے پاس جانے سے پہلے ہم اکٹھا ہوئے اور ہم نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ ہم سے ہمارے دین کے متعلق دریافت کرے گا ، ہمیں چاہئے کہ ہم ایمان کی حقیقت کو اس پرواضح کریں۔ ہماری طرف سے جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ گفتگو کریں گے اور ان کے علاوہ کوئی نہ بولے گا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم سب نجاشی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، اس کے دائیں بائیں مذہبی رہنما بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے لمبے لمبے چغے پہن رکھے تھے، اونچی اونچی ٹوپیاں لگائے ہوئے تھے اور ان کے سامنے کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا، ہم نے وہیں عمر وبن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو بھی دیکھا۔ جب ہم اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ چکے تو نجاشی ہماری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: یہ کونسا دین ہے جو تم نے پسند کرلیا ہے اور جس دین کی وجہ سے تم نے اپنی قوم سے علاحدگی اختیار کرلی ہے اور نہ تو تم میرے دین میں داخل ہوئے ہو اور نہ ہی موجودہ ادیان میں کسی ایک دین کو تم نے اختیار کیا ہے۔
جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور فرمایا: اے بادشاہ! ہم جاہل قوم تھے، بتوں کی پرستش کرتے اور مردہ کھاتے، بے شرمی کے کام کرتے اور رشتے ناطوں کو توڑتے، پڑوسی کے حق کو ہم بھلا بیٹھے تھے۔ ہم میں سے ہر طاقتور اپنے ضعیف کودبا لیتاکہ اس حال میں اللہ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کے خاندان سے ہم واقف اور جس کی صداقت، امانت اور پاک بازی کے ہم معترف ہیں۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایاتاکہ ہم اس اکیلے کی عبادت کریں اور اس کے علاوہ جن پتھروں اور بتوں کو ہم اور ہمارے ماں باپ پوجتے تھے انہیں ہم چھوڑ دیں۔ اس نے ہمیں سچی بات کہنے، امانتیں ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے، حرام کاموں سے رکنے اور بے جا خون بہانے سے رکنے کا حکم دیا اور ہمیں برے عمل، جھوٹی بات، یتیم کے مال کھانے اور پاکیزہ عورت پر تہمت باندھنے سے روکا نیز اس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور رمضان کے روزے رکھیں۔
ہم سب نے اس کی تصدیق کی، ہم ایمان لے آئے اور اللہ کی جانب سے وہ جو کچھ بھی کہہ رہا تھا ہم نے پیروی کی، جس چیز کو اس نے ہمارے لئے حلال قرار دیا اسے حلال جانا اور جس بات کو حرام گردانا ہم نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا۔
اے بادشاہ! ہماری قوم سے ہمارا کوئی جھگڑا نہ تھا سوائے اس کے کہ اس نے ہم سے دشمنی مول لی، ہمیں سخت ترین عذاب میں مبتلا کردیا تاکہ ہم اپنے دین سے منھ پھیر کر ان ہی کی طرح بتوں کے پجاری بن جائیں اورجب ان کے ظلم و ستم حد سے گزرے اورہمارے لئے عرصہ حیات تنگ ہوگیا اور یہ ہمار ے اور ہمارے دین کے درمیان حائل ہونے لگے تو ہم آپ کی زمین کی طرف نکل آئے اوردوسروں کے مقابلے میں آپ کو پسند کیا، آپ کے پڑوس کو ہم نے چاہا اور ہم یہ امید لے کر یہاں حاضر ہوئے کہ آپ کے یہاں ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: یہ سن کر نجاشی جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: کیا تم، تمہارے نبی پر جو کچھ نازل ہواہے وہ ہمیں سنا سکو گے؟
جعفر رضی اللہ عنہ نے اثبات میں جواب دیا تو نجاشی نے کہا: اچھا تو سناؤ!
جعفر بن ابوطالب نے سنانا شروع کیا: (کھیعص ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا* اذ نادیٰ ربہ نداء خفیا * قال رب انی وھن العظم منی واشتعل الراس شیبا ولم اکن بدعائک ربی شقیا)
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نجاشی زارو قطار رونے لگا اور اس کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگ گئی اور اس کے مذہبی رہنما بھی کلام اللہ سن کر اتنا روئے کہ ان کی کتابیں بھی تر ہوگئیں۔ اس موقعے پر نجاشی یوں گویا ہوا: بیشک جو کچھ تمہارا نبی اپنے ساتھ لایا ہے یہ بالکل وہی ہے جو عیسیٰ ابن مریم اپنے ساتھ لائے تھے۔ یقیناًیہ دونوں باتیں ایک ہی نور سے نکلی ہیں۔ پھر نجاشی عمروبن عاص اور ان کے ساتھی کی جانب متوجہ ہوا اور بولا: تم دونوں چلے جاؤ، اللہ کی قسم ! میں انہیں تمہارے حوالے کبھی نہیں کروں گا۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ہم نجاشی کے پاس سے نکلے تو عمر و بن عاص نے ہمیں دھمکی دی اور اپنے ساتھی سے بولا: ’’اللہ کی قسم! میں کل پھر بادشاہ کے پاس حاضر ہوں گا اور اسے ان لوگوں کی ایک ایسی بات بتلاؤں گا جسے سن لینے کے بعد اس کے سینے میں نفرت کی آگ بھڑک اٹھے گی اور وہ دل سے ان سب کو ناپسند کرنے لگے گا اور میں بادشاہ کو اس بات پر آمادہ کروں گا کہ وہ ان سبھوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے‘‘۔ یہ سن کر اس کے ساتھی عبداللہ بن ربیعہ نے کہا:’’عمرو! ایسا نہ کرو، آخر یہ سب ہمارے رشتے دار ہیں ہر چند کہ انہوں نے ہماری مخالفت ہی کی‘‘۔ عمرو بولا: ’’چل ہٹ! اللہ کی قسم میں اسے ضرور مطلع کروں گا۔ اور میری اس اطلاع کے بعد ان مسلمانوں کے قدم اکھڑ جائیں گے ، اللہ کی قسم! میں اس سے کہوں گا کہ یہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم ایک بندے تھے۔
دوسرے دن عمرو نجاشی کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: بادشاہ سلامت! یہ لوگ جن کی آپ نے حمایت کی ہے اور جنہیں اپنی پناہ میں لے رکھا ہے یہ عیسیٰ ابن مریم سے متعلق بڑی سخت بات کہتے ہیں، لہٰذا انہیں بلوائیے اور دریافت کیجئے کہ عیسیٰ ابن مریم سے متعلق وہ کیا کہتے ہیں۔
ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ہمیں اس بات کا علم ہوا تو ہم غم زدہ ہوگئے اور اس قدر پریشان ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اگر بادشاہ عیسیٰ ابن مریم سے متعلق سوال کرے گا تو ہم کیا جواب دیں گے۔ ہم بولے : اللہ کی قسم! ہم وہی کہیں گے جو اللہ نے کہا ہے اور اس معاملے میں انگلی کے پور کے برابر بھی ہم اس قول سے نہ ہٹیں گے جو اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتلایا ہے، اس کے نتیجے میں جو کچھ ہونا ہے ہوجائے۔ پھر ہم سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آج بھی جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ ہماری طرف سے گفتگو کریں گے۔
جب نجاشی نے ہمیں طلب کیا ہم سب اس کے دربار میں حاضر ہوئے اور کل کی طرح آج بھی مذہبی رہنماؤں کو اس کے دائیں بائیں پایا نیز عمرو بن عاص اور ان کے ساتھی بھی وہیں موجود تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ بڑی عجلت سے نجاشی نے سوال کیا: تم عیسیٰ ابن مریم کے متعلق کیا کہتے ہو؟
جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتلایا ہے۔
نجاشی بولا: وہ کیا کہتے ہیں؟
جعفر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: وہ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے اور وہ اللہ کی روح تھے اور ایک ایسا کلمہ تھے جسے اللہ نے پاک باز اور عفت سے بھری ہوئی خاتون مریم پر نازل فرمایا تھا۔
جعفر رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ سنتے ہی نجاشی نے زمین پر زور سے ہاتھ مارا اور کہنے لگا: ’’اللہ کی قسم! تمہارے نبی نے ایک بال برابر بھی عیسیٰ ابن مریم سے متعلق غلط بیانی سے کام نہیں لیا۔ ’’نجاشی کے قریب بیٹھے ہوئے مذہبی رہنما ناک پھلانے لگے اور اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے لگے۔
یہ دیکھ کر نجاشی بولا: چاہے تم ناراض ہوجاؤ مگر صحیح وہی ہے جو میں نے کہی۔
پھر ہماری جانب متوجہ ہوا اور کہنے لگا: جاؤ تم سب امن سے رہو، جو تمہیں گالی دے گا ہلاک کردیا جائے گا اور جو تمہیں پریشان کرے گا اسے سزا دی جائے گی۔ اللہ کی قسم اگر مجھے تم میں سے کسی ایک کو تکلیف پہنچانے کے عوض سونے کا پہاڑ بھی دیا جائے گا تو میں اسے قبول کرنے سے انکار کردوں گا۔
پھر وہ عمر و اور ان کے ساتھی کی جانب متوجہ ہوا اور کہنے لگا: ان دونوں افراد کو ان کے لائے ہوئے ہدیے لوٹادو، مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: عمرو اور اس کا ساتھی شرم سار ہوکر اور غصے میں بھرے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور ہم سب نجاشی کی سلطنت میں امن و چین سے رہنے لگے۔
جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نے نجاشی کی مملکت میں دس سال چین و آرام سے گزارے اور 7ھ میں دیگر مسلمانوں کے ہمراہ میاں بیوی بھی مدینہ منورہ چل پڑے۔ ان ہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح خیبر سے لوٹے تھے اورمسلمانوں کوبے پناہ مال غنیمت ہاتھ آیا تھا۔ جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی آمد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور مارے خوشی کے فرمانے لگے: مجھے نہیں معلوم کہ میں کس بات سے زیادہ خوش ہوں، آیا خیبر کی فتح سے یا جعفر کی آمد سے۔
جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی آمد سے جہاں آپ کو بے پناہ مسرت تھی وہیں عمومی طورپر تمام مسلمان اور خصوصی طورپر فقراء بہت خوش تھے۔ اس لئے کہ جعفر رضی اللہ عنہ کی غریب پروری کا یہ عالم تھا کہ انہیں ’’ابوالمساکین‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم مساکین کے حق میں سب سے عمدہ آدمی جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ تھے، ہم بھی ان کے مکان جاتے وہ جو کچھ گھر میں ہوتا ہمارے سامنے حاضر کردیا کرتے اور اگر کھانا ختم ہوچکا ہوتا تو وہ ایک پیالہ ہمیں دیتے جس میں گھی رکھا جاتا تھا، اس پیالے میں اور کچھ نہ ہوتا مگر ہم اس پیالے کے اطراف لگے ہوئے گھی کو صاف کرلیا کرتے۔
جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں زیادہ دنوں نہ رہ سکے۔ ہجرت کے آٹھویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومیوں سے مقاتلے کے لئے ایک فوج ترتیب دی اور زید بن حارث رضی اللہ عنہ کو اس کا سپہ سالار مقرر فرماتے ہوئے کہا: اگر زید شہید ہوجائیں تو جعفر بن ابوطالب قیادت کریں اور اگر جعفر بن ابوطالب بھی جام شہادت نوش کرلیں تو عبداللہ بن رواحہ قائد بنیں اور اگر عبداللہ بن رواحہ بھی شہید کردیئے جائیں تو مسلمانوں کو اختیار ہوگا کہ وہ باہمی مشورے سے جسے چاہیں اپنا سپہ سالار مقرر کرلیں۔
جب مسلمانوں کی فوج موتہ پہنچی ہے تو انہوں نے دیکھا کہ رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلے کے لئے ایک لاکھ کی فوج تیار کررکھی ہے اور اس فوج کی مدد کے لئے نصاریٰ نے مزید ایک لاکھ کی فوج تیار کررکھی تھی۔
ادھر ان دولاکھ فوجیوں سے لڑنے والے مجاہدین اسلام کی تعداد صرف تین ہزار تھی۔ جب جنگ اپنے شباب پر پہنچی تو زید بن حارث رضی اللہ عنہ شہید کردیئے گئے۔ یہ دیکھتے ہی جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ اپنے گھوڑے سے کود پڑے اور اس گھوڑے کے پیروں پر اپنی تلوار سے ضرب لگائی اور اس کے چاروں پیر کاٹ دیئے تاکہ آپ کے بعد کوئی دشمن اس گھوڑے سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔ اس کام سے فارغ ہوکر آپ نے اسلامی فوج کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں لیا اور رومی فوج کی صفوں کو چیرتے ہوئے بہت دور نکل گئے اور آپ کی زبان مبارک پر یہ اشعار تھے:
خوشا اے جنت اور ترا قرب
توپاک اور تجھ میں ٹھنڈے مشروبات
اور روم کے لئے عذاب قریب ہے
اے کافر جن کی نسب مفقود ہیں
میرا فرض ہے کہ میں ایسے افراد کی گردنیں ماروں
جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ اپنی شجاعت سے دشمنوں کی صفوں میں بھگدڈ مچارہے تھے اور یکے بعد دیگرے انہیں واصل جہنم کررہے تھے کہ ان کے دائیں ہاتھ پر وار کیا گیا، دایاں ہاتھ کٹ گیا تو آپ نے جھٹ اسلامی جھنڈے کو بائیں ہاتھ میں اٹھا لیا۔ اب بائیں ہاتھ پر وار ہوا ، جھنڈے کو آپ نے دانتوں سے پکڑا اور سینے پر بلند کئے رہے۔ اب آپ کے جسم پر دشمنوں نے ایسا وار کیا کہ آپ کا جسم مبارک دو حصوں میں بٹ گیا۔
یہ دیکھتے ہی جھنڈا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے تھام لیا اور وہ اس وقت تک مشرکین سے مقابلہ کرتے رہے جب تک کہ وہ بھی اپنے دونوں شہید ساتھیوں سے نہ جاملے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تینوں جیالوں کی شہادت کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حد درجہ رنجیدہ ہوگئے اور اپنے چچا کے لڑکے جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان کی بیوی اسماء اپنے مجاہد شوہر کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ انہوں نے آٹا گوندھ رکھا تھا، بچوں کو نہلا لیا تھا، ان کے سروں پر تیل لگاکر انہیں عمدہ کپڑے پہنارکھے تھے۔
اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحد درجہ غم زدہ پایا اور رنج و غم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے صاف عیاں تھا لیکن میری ہمت نہ ہوئی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جعفر سے متعلق کوئی سوال کروں، اس ڈر سے کہ کہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایسی بات نہ سن لوں جو میرے لئے ناقابل برداشت ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور فرمایا: ذرا جعفر کی اولاد کو بلانا!
میں نے سب کو بلا لیا۔ تمام بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب خوشی سے دوڑ پڑے اور ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ وہ دوسرے بھائی بہن سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پہنچ جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بچوں کو آغوش میں لیا، انہیں پیار کرنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بہہ نکلیں۔
میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا آپ کو جعفر اور ان کے دونوں ساتھیوں کی کوئی اطلاع مل گئی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! آج وہ سب شہید کردیئے گئے ہیں۔
جب بچوں نے اپنی ماں کو روتے ہوئے دیکھا تو ان کی خوشی بھی غم میں بدل گئی اور وہ اپنی تمام شرارتیں بھول کر مارے غم کے ساکت و جامد ہوگئے اور ان کی آنکھیں بھی بہہ نکلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بچوں کے آنسو صاف کرتے جارہے تھے اور دعا دے رہے تھے: اے اللہ! جعفر کی اولاد میں اس کا بدل فرمادے، اے اللہ! جعفر کے خاندان میں اس کا بدل فرمادے۔
***

No comments:

Post a Comment