وفیات
۱۹۸۸ء میں مولانا موصوف کے گلشن حیات میں کھلنے والا یہ تیسرا پھول تھا ۔ (جبکہ اس سے پہلے ان کے دو نابالغ بچے فوت ہو چکے تھے) جو قدوقامت، شکل وشباہت اور ذہانت وفطانت میں آپ کے مشابہ تھا لیکن اس پھول کی قسمت میں صرف کھلنا ہی مقدور تھا جو کھلا تو ضرور مگر مسکرانے اور اپنی علمی عطر بیزیوں سے محفلوں کو مشکبار کرنے سے رہ گیا، عزیزواقارب نے اپنے دلوں میں کتنے سنہرے خواب سجائے تھے جن کے خوابوں کا یہ حسین گلدستہ بکھر گیا، وہ والدین جو اپنے اس پھول کو ہمیشہ گلے سے لگائے رکھے تھے اور اس کے مستقبل کی تابناکی کی ہر ممکن کوشش میں منہمک تھے، احباب ومتعلقہ افراد کے توسط سے ان راہوں کو ہموار کرنے میں لگے تھے، ان کی یہ ساری آرزوئیں خاک میں مل گئیں ، جو اک اک کرکے نہایت ہی خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا یہ اللہ کی بارگاہ میں شکایت نہیں بلکہ اس حقیقت کا اعتراف ہے جو ہر والدین کے سینے میں اپنے ہونہار اولاد کے تئیں ہوا کرتا ہے۔
ولادت سے لے کر عنفوان شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے تک مولانا موصوف نے ایک مثالی باپ کا کردار نبھایا، اپنے اس لاڈلے کے ذہن ودماغ کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے پر زور دیا اور مسلک سلف کا بے باک سپاہی بنا کر قوم کے سپرد کرنے کا پختہ عزم کیا اسی جذبہ صادقہ کی تکمیل کی خاطر اپنے اس جگہ گوشہ کو دینی تعلیم کے حصول کی طرف رغبت دلائی اور اپنے گاؤں ششہنیاں کے مکتب میں داخل کیا شعبہ مکتب کا مروجہ درس نظامی پڑھنے کے بعد حفظ قرآن کریم کے لئے جامعہ التوحید بجوا میں داخل کیا وہیں پر انھوں نے حفظ کی تکمیل کی۔
اس کے بعد مرکزابوالکلام آزاد للتوعےۃ الإسلامیہ نئی دہلی کے زیر اشراف جامعہ اسلامیہ سنابل میں داخلہ دلوایا ۔ جہاں پر آٹھ سال گذار کر متوسطہ سے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی اور ہمیشہ امتیازی نمبرات سے پاس ہوتے رہے پچھلے سال وہاں پر نادی الطلبہ کے کنوینر تھے۔
سال رواں ۲۰۱۱ء کے آغاز میں مہبط وحی مکہ مکرمہ میں سعودی وزارت اوقاف اسلامی امور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا ۹؍ روزہ عالمی مقابلہ قرأۃ وتفسیر قرآن کریم میں شرکت کی اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے سرفراز ہو کر مورخہ ۱۰؍جنوری۲۰۱۱ء کو وطن واپس آئے اس مقدس سفر کے دوران عالم اسلام کی معروف یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں بھی گئے اور بعض احباب کے توسط سے انٹرویو دیا تاکہ عرب مشائخ سے استفادہ کر سکیں ادھر بعض مخلص رفقاء سے شادی کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا جا رہا تھا، یہ سب انسانی تصورات کے ایسے شیش محل اور خواب تھے جو تشنہ تکمیل رہ گئے۔ کیونکہ اللہ کی مشیت اور اس کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا جس کا عینی مشاہدہ لوگوں نے کیا سچ اور حقیقت ہے (وما تشاء ون إلا أن یشاء اللہ)
مورخہ ۲۶؍ جنوری ۲۰۱۱ء کو موضع دودھونیاں بزرگ میں واقع نسواں اسکول فاطمۃ الزہرا میں فریضہ تدریس انجام دینے کی بات طے ہوئی تھی اسی لئے ۲۷؍جنوری کی صبح باپ بیٹے دونوں آگے پیچھے گھر سے نکلے ان کے والد گرامی اپنے مقرعمل مدرسہ خدیجۃ الکبری پہنچ کر اپنے معمول کے مطابق اپنی گھنٹیاں پڑھانے لگے عزیزم سلمہ بھی فاطمۃ الزہرا اسکول میں حاضر ہو کر پڑھانے کی تیاری اور بعض زیر درس کتابوں کا مطالعہ کر ہی رہے تھے کہ یکایک سینے میں درد کا احساس ہوا اور آہستہ آہستہ طبیعت بگڑنے لگی مدرسہ کے موجود ذمہ داراور اساتذہ فورا علاج کے لئے بڑھنی بلاک پر لے کر آئے لیکن اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں جواں سال بیٹے کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔
ان کا انتقال کیسے ہوا؟ اس کے اسباب کیا تھے؟ اس کی تفصیل کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی ایک مومن کو اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے کیونکہ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کی صداقت وحقانیت پر سب کا اتفاق ہے نظام الٰہی (کل نفس ذائقۃالموت) کے تحت اتنے ہی دن ان کو اس دارفانی میں رہنا نوشتہ تقدیر میں لکھا تھا، وہ وقت موعود پورا ہوگیا ہم سب کو چھوڑ کر دار باقی کی طرف رحلت کر گئے عزیزم کی دلفگار موت نے ۔ سب لوگوں کے قلوب واذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جس نے جہاں سنا وہ ہکا بکا رہ گیا اور جس نے وہ تروتازہ چہرہ دیکھا تو سب کی زبان پر یہی تھا۔
چونکہ مولانا موصوف کے نرینہ اولاد میں یہ تیسرا اور بڑا لڑکا تھا، خلیق وملنسار اور باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے خوابوں اور مستقبل کے عزائم کو عمل جامہ پہنا رہا تھا اور آپ کے علم کا حقیقی وارث بھی تھا اس لئے آپ بہ نسبت اور لڑکوں کے اس سے کچھ زیادہ ہی محبت کرتے تھے اور ہر طرح سے اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اسی بے پناہ محبت کا اثر تھا کہ جب آپ نے اپنے لخت جگر کے انتقال کی خبر سنی تو بے قابو ہوگئے اور صبروتحمل کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک پڑا، رنج وغم، دردوکرب کا وہ ایسا ہوش ربا منظر تھا کہ وہاں موجود بعض حضرات خوفزدہ ہوگئے کچھ دیر کے بعد آپ نے اپنے آپ کو قابو میں کیااور بہت سارے غم خواروں کو دیکھ کر قدرے تسلی ہوئی تو صرف ایک ہی لفظ بار بار دہراتے رہے کہ’’ اے اللہ! تیرا فیصلہ مجھے منظور ہے، میرے بیٹے کی مغفرت فرما‘‘بڑھنی وکرشنا نگر کے مقامی ہمدردوں کے علاوہ مدرسہ خدیجۃ اکبری کے رئیس محترم شیخ عبداللہ مدنی ؍حفظہ اللہ اور ان کے ’’مرکزالتوحید‘‘ سے وابستہ تمام ذمہ داران، کارکنان، معلمین ومعلمات نیز ہمارے جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے جملہ مشائخ کرام ان کے اس غم میں برابر کے شریک رہے بذریعہ ایمبولینس متوفی کی جسد خاکی کو ان کے آبائی وطن موضع ششہنیاں لے جایا گیا اور بعد نماز عصر گھر سے جنازہ نکالا گیا اور سواچاربجے ڈاکٹر شیخ عبدالقیوم بستوی؍حفظہ اللہ کی امامت میں قرب وجوار کے عوام وخواص، جمعیت وجماعت کے متعدد حضرات، دینی مدارس ومراکز کے ذمہ داران اور علاقائی مسلم سیاسی لیڈران کی ایک بڑی تعداد نے نماز جنازہ ادا کی اس کے بعد ہزاروں سوگواروں نے با چشم نم سپرد خاک کیا۔
بار الٰہا! ان کی تمام بشری لغزشوں کو صرف نظرفرماتے ہوئے ان کے تمام حسنات کو شرف قبولیت بخشے اور تمام پسماندگان خصوصا والدین محترمین کو صبر جمیل کی توفیق دے (آمین)*
’’کھلا تو ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا‘‘
علمی وجماعتی حلقوں میں یہ اندوہناک خبر نہایت ہی رنج وغم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ جماعت کے معروف عالم دین، فعال وسرگرم داعی اور ماہنامہ ’’نور توحید‘‘ کے ایڈیٹر جناب مولانا مطیع اللہ مدنی ؍حفظہ اللہ وتولاہ کے فرزندارجمند عزیزم حافظ مولانا فوزان احمد سنابلی نے۲۷؍جنوری ۲۰۱۱ء بروز جمعرات تقریبا نو بجے صبح بمقام بڑھنی بازار داعی اجل کو لبیک کہا ’’إنا للہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔۱۹۸۸ء میں مولانا موصوف کے گلشن حیات میں کھلنے والا یہ تیسرا پھول تھا ۔ (جبکہ اس سے پہلے ان کے دو نابالغ بچے فوت ہو چکے تھے) جو قدوقامت، شکل وشباہت اور ذہانت وفطانت میں آپ کے مشابہ تھا لیکن اس پھول کی قسمت میں صرف کھلنا ہی مقدور تھا جو کھلا تو ضرور مگر مسکرانے اور اپنی علمی عطر بیزیوں سے محفلوں کو مشکبار کرنے سے رہ گیا، عزیزواقارب نے اپنے دلوں میں کتنے سنہرے خواب سجائے تھے جن کے خوابوں کا یہ حسین گلدستہ بکھر گیا، وہ والدین جو اپنے اس پھول کو ہمیشہ گلے سے لگائے رکھے تھے اور اس کے مستقبل کی تابناکی کی ہر ممکن کوشش میں منہمک تھے، احباب ومتعلقہ افراد کے توسط سے ان راہوں کو ہموار کرنے میں لگے تھے، ان کی یہ ساری آرزوئیں خاک میں مل گئیں ، جو اک اک کرکے نہایت ہی خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا یہ اللہ کی بارگاہ میں شکایت نہیں بلکہ اس حقیقت کا اعتراف ہے جو ہر والدین کے سینے میں اپنے ہونہار اولاد کے تئیں ہوا کرتا ہے۔
ولادت سے لے کر عنفوان شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے تک مولانا موصوف نے ایک مثالی باپ کا کردار نبھایا، اپنے اس لاڈلے کے ذہن ودماغ کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے پر زور دیا اور مسلک سلف کا بے باک سپاہی بنا کر قوم کے سپرد کرنے کا پختہ عزم کیا اسی جذبہ صادقہ کی تکمیل کی خاطر اپنے اس جگہ گوشہ کو دینی تعلیم کے حصول کی طرف رغبت دلائی اور اپنے گاؤں ششہنیاں کے مکتب میں داخل کیا شعبہ مکتب کا مروجہ درس نظامی پڑھنے کے بعد حفظ قرآن کریم کے لئے جامعہ التوحید بجوا میں داخل کیا وہیں پر انھوں نے حفظ کی تکمیل کی۔
اس کے بعد مرکزابوالکلام آزاد للتوعےۃ الإسلامیہ نئی دہلی کے زیر اشراف جامعہ اسلامیہ سنابل میں داخلہ دلوایا ۔ جہاں پر آٹھ سال گذار کر متوسطہ سے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی اور ہمیشہ امتیازی نمبرات سے پاس ہوتے رہے پچھلے سال وہاں پر نادی الطلبہ کے کنوینر تھے۔
سال رواں ۲۰۱۱ء کے آغاز میں مہبط وحی مکہ مکرمہ میں سعودی وزارت اوقاف اسلامی امور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا ۹؍ روزہ عالمی مقابلہ قرأۃ وتفسیر قرآن کریم میں شرکت کی اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے سرفراز ہو کر مورخہ ۱۰؍جنوری۲۰۱۱ء کو وطن واپس آئے اس مقدس سفر کے دوران عالم اسلام کی معروف یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں بھی گئے اور بعض احباب کے توسط سے انٹرویو دیا تاکہ عرب مشائخ سے استفادہ کر سکیں ادھر بعض مخلص رفقاء سے شادی کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا جا رہا تھا، یہ سب انسانی تصورات کے ایسے شیش محل اور خواب تھے جو تشنہ تکمیل رہ گئے۔ کیونکہ اللہ کی مشیت اور اس کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا جس کا عینی مشاہدہ لوگوں نے کیا سچ اور حقیقت ہے (وما تشاء ون إلا أن یشاء اللہ)
مورخہ ۲۶؍ جنوری ۲۰۱۱ء کو موضع دودھونیاں بزرگ میں واقع نسواں اسکول فاطمۃ الزہرا میں فریضہ تدریس انجام دینے کی بات طے ہوئی تھی اسی لئے ۲۷؍جنوری کی صبح باپ بیٹے دونوں آگے پیچھے گھر سے نکلے ان کے والد گرامی اپنے مقرعمل مدرسہ خدیجۃ الکبری پہنچ کر اپنے معمول کے مطابق اپنی گھنٹیاں پڑھانے لگے عزیزم سلمہ بھی فاطمۃ الزہرا اسکول میں حاضر ہو کر پڑھانے کی تیاری اور بعض زیر درس کتابوں کا مطالعہ کر ہی رہے تھے کہ یکایک سینے میں درد کا احساس ہوا اور آہستہ آہستہ طبیعت بگڑنے لگی مدرسہ کے موجود ذمہ داراور اساتذہ فورا علاج کے لئے بڑھنی بلاک پر لے کر آئے لیکن اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں جواں سال بیٹے کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔
ان کا انتقال کیسے ہوا؟ اس کے اسباب کیا تھے؟ اس کی تفصیل کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی ایک مومن کو اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے کیونکہ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کی صداقت وحقانیت پر سب کا اتفاق ہے نظام الٰہی (کل نفس ذائقۃالموت) کے تحت اتنے ہی دن ان کو اس دارفانی میں رہنا نوشتہ تقدیر میں لکھا تھا، وہ وقت موعود پورا ہوگیا ہم سب کو چھوڑ کر دار باقی کی طرف رحلت کر گئے عزیزم کی دلفگار موت نے ۔ سب لوگوں کے قلوب واذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جس نے جہاں سنا وہ ہکا بکا رہ گیا اور جس نے وہ تروتازہ چہرہ دیکھا تو سب کی زبان پر یہی تھا۔
چونکہ مولانا موصوف کے نرینہ اولاد میں یہ تیسرا اور بڑا لڑکا تھا، خلیق وملنسار اور باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے خوابوں اور مستقبل کے عزائم کو عمل جامہ پہنا رہا تھا اور آپ کے علم کا حقیقی وارث بھی تھا اس لئے آپ بہ نسبت اور لڑکوں کے اس سے کچھ زیادہ ہی محبت کرتے تھے اور ہر طرح سے اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اسی بے پناہ محبت کا اثر تھا کہ جب آپ نے اپنے لخت جگر کے انتقال کی خبر سنی تو بے قابو ہوگئے اور صبروتحمل کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک پڑا، رنج وغم، دردوکرب کا وہ ایسا ہوش ربا منظر تھا کہ وہاں موجود بعض حضرات خوفزدہ ہوگئے کچھ دیر کے بعد آپ نے اپنے آپ کو قابو میں کیااور بہت سارے غم خواروں کو دیکھ کر قدرے تسلی ہوئی تو صرف ایک ہی لفظ بار بار دہراتے رہے کہ’’ اے اللہ! تیرا فیصلہ مجھے منظور ہے، میرے بیٹے کی مغفرت فرما‘‘بڑھنی وکرشنا نگر کے مقامی ہمدردوں کے علاوہ مدرسہ خدیجۃ اکبری کے رئیس محترم شیخ عبداللہ مدنی ؍حفظہ اللہ اور ان کے ’’مرکزالتوحید‘‘ سے وابستہ تمام ذمہ داران، کارکنان، معلمین ومعلمات نیز ہمارے جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے جملہ مشائخ کرام ان کے اس غم میں برابر کے شریک رہے بذریعہ ایمبولینس متوفی کی جسد خاکی کو ان کے آبائی وطن موضع ششہنیاں لے جایا گیا اور بعد نماز عصر گھر سے جنازہ نکالا گیا اور سواچاربجے ڈاکٹر شیخ عبدالقیوم بستوی؍حفظہ اللہ کی امامت میں قرب وجوار کے عوام وخواص، جمعیت وجماعت کے متعدد حضرات، دینی مدارس ومراکز کے ذمہ داران اور علاقائی مسلم سیاسی لیڈران کی ایک بڑی تعداد نے نماز جنازہ ادا کی اس کے بعد ہزاروں سوگواروں نے با چشم نم سپرد خاک کیا۔
بار الٰہا! ان کی تمام بشری لغزشوں کو صرف نظرفرماتے ہوئے ان کے تمام حسنات کو شرف قبولیت بخشے اور تمام پسماندگان خصوصا والدین محترمین کو صبر جمیل کی توفیق دے (آمین)*
No comments:
Post a Comment