Monday 27 June, 2011

اہل سنت وجماعت کا : منہج فہم قرآن Dec 2010

ترجمانی: مطیع اللہ مدنی
اہل سنت وجماعت کا : منہج فہم قرآن
اہل سنت وجماعت قرآن کریم اس کے معانی ومفاہیم اسکے مدلولات ومرادات کو حدیث نبوی سے جدا کرکے نہیں سمجھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کو دیگر قرآنی آیات اور ساتھ ہی احادیث نبویہ صحیحہ ثابتہ کی روشنی میں سمجھتے ہیں:اہل سنت کا یہ عظیم قاعدہ اور اہم ترین ضابطہ ہے:
ّٓ اس قاعدہ کے دلائل درج ذیل ہیں:
(یا أیہا الذین آمنوا أطیعو اللہ وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم۔ فإن تنازعتم فی شئی فردوہ إلی اللہ والرسول إن کنتم تومنون باللہ والیوم الآخر ذلک خیروأحسن تاویلاً )(النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرواور تم میں سے اختیار والوں کی اطاعت کروپھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہویہ باعتبار انجام بہت بہتر اور بہت اچھا ہے۔
(وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم ولعلہم یتفکرون) (النحل:۴۴)
ترجمہ:اور ہم نے تمہاری طرف ذکر کو اتارا تاکہ تم لوگوں کے لئے جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اسے کھول کھول کر بیان کردیں شاید وہ لوگ غوروفکر سے کام لیں۔
(لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً۔ قد یعلم اللہ الذین یتسللون منکم لواذا ۔ فلیحذر الذین یخالفون عن أمرہ أن تصیبہم فتنۃ أو یصیبہم عذاب ألیم) (النور:۶۳)
ترجمہ:اور تم اللہ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ بنا لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتا ہے تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر زبردست فتنہ نہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہونچے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ألا إنی أوتیت القرآن ومثلہ معہ ألا یوشک رجل شعبان علی أریکتہ یقول: علیکم بہذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فاحلوہ،وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ‘‘ (رواہ احمد وابوداؤد وغیرہما)
ترجمہ: خبردار یقیناًمجھے قرآن اور اسی کے ساتھ اسی کا مثل دیا گیا ہے۔ آگاہ کوئی آسودہ انسان اپنے تخت پر نہ کہہ بیٹھے کہ تم پر اس قرآن کواخذ کرنا لازم ہے۔ تم جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔
عریاض بن ساریہ سے مروی ہے: ’’وعظنا رسول اللہ ﷺ موعظۃ بلیغۃ وجلت منہا القلوب وذرفت منہا العیون فقلت یا رسول اللہ کأنہا موعظۃ مودع فأوصنا فقال:أوصیکم بتقوی اللہ، والسمع والطاعۃ وان تأمر علیکم عبد حبشی، وإنہ من یعش منکم فسیری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین عضوا علیہا بالنواجذ وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح)
ترجمہ:عرباض ابن ساریہصسے روایت ہے: رسول ﷺ نے ہمیں ایک بلیغ وعظ فرمایا کہ جس سے دل دہل گئے اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں،میں نے کہا اے اللہ کے رسول گویا کہ یہ کسی رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔آپ ہمیں وصیت کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں تقوئے الٰہی اور سمع و طاعت کی وصیت کرتا ہوں۔ اگرچہ تمہارے اوپر کوئی حبشی غلام ہی امیر بن بیٹھے۔
یقیناًتم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت سارا اختلاف دیکھے گا۔چنانچہ تم پر میری سنت اور خلفاء راشدین ہدایت یافتہ کی سنت کی اتباع لازم ہے۔ اسے تم مضبوطی سے پکڑ لو اور مبتدعانہ امور سے اجتناب کو لازم پکڑو۔درحقیقت ہر بدعت گمرہی ہے۔
صحیح بخاری میں حذیفہص سے روایت ہے : آپ نے فرمایا: ’’یامعشرالقراء استقیموا فقد سبقتم سبقا بعیداً، فإن أخذتم یمینا وشمالا لقد ضللتم ضلالا بعدا‘‘۔
اے قراء کی جماعت: تم راہ استقامت اختیار کرو تم بہت سبقت لے جا چکے ہو اگر تم دائیں بائیں یعنی (راہ مستقیم سے ادھر ادھر) کی راہ اپناؤ گے تو بڑی گمرہی میں واقع ہو جاؤ گے۔
سماحۃ الشیخ ابن بازرحمہ اللہ نے فرمایا: اس میں سنت کی حجیت کا بیان ہے اس کی حجیت کو اختیار کرنا ایسے ہی واجب ہے جیسا کہ قرآن کریم کو اخذ کرنا واجب ہے۔
قرآن کے بعد سنت کا مقام ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بیان وتوضیح کو رسول اللہ کے ذمہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم ولعلہم یتفکرون) اور ہم نے تم پر ذکر اتارا تاکہ لوگوں کے لئے اس ذکر کو بیان کر دو جو ان پر اتارا گیا اور تاکہ وہ لوگ تفکر سے کام لیں۔
چنانچہ اس آیت کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ سنت قرآن کو بیان کرتی ہے اور اس کو واضح کرتی ہے اس کی تفسیر کرتی ہے اور اس کے معنی مراد پر دلالت کرتی ہے۔
لہذا قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت سے احتجاج واستدلال واجب ہے، اسکی مثال ملاحظہ کیجئے:قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صلاۃ، اس کی اقامت، اسکی محافظت اور اس پر مداومت کا حکم دیا ہے اسے ضائع کرنے والوں اور خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں کو وعید سنائی ہے۔
لیکن قرآن کریم میں صلاۃ کا مکمل ومفصل بیان نہیں ہے:
صلوات کتنی کتنی رکعت ہے؟ اسمیں کیا کہا جائے گا؟ قیام،رکوع اور سجود میں کیا کہا جائے گا؟ صلاۃ کی پوری تفصیل کیا ہے؟ یہ ساری باتیں قرآن میں نہیں ہیں بلکہ یہ سب تفصیل سنت میں موجود ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:’’صلوا کما رایتمونی أصلی‘‘ تم لوگ نماز اسی طریقہ سے پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہو ئے دیکھا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زکاۃ کا مجمل حکم دیا ہے نہ اس کی مقدار کا ذکر ہے نہ ان اموال کا تذکرہ ہے جن میں زکاۃ واجب ہے، صرف اجمالی تذکرہ ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (واقیمواالصلاۃ وأتوالزکاۃ وارکعوا مع الراکعین) (البقرۃ:۴۳) اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے ہی اس کی اپنی سنتوں میں بیان کی ہے اور اسکی تحدید فرمائی اور اسے واضح کیا ہے آپ نے بیان فرمایا کہ زکاۃ کب واجب ہوتی ہے؟ کن اموال میں زکاۃ واجب ہوتی ہے؟ کتنی مقدار میں زکاۃ نکالی جائے گی؟
ایسے روزہ، حج اور تمام عبادات ان کی تفصیل رسول ﷺ نے اپنی حدیثوں میں بیان کی ہے۔
یہی اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے کہ وہ أحادیث وسنن سے اسی طرح استدلال کرتے ہیں جیسے قرآن کریم سے حجت ودلیل پکڑتے ہیں۔
ان کے یہاں کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ پھر اجماع اس کے بعد اصل صحیح پر مبنی قیاس اور دیگر اصول دلائل کا درجہ رکھتے ہیں۔
لیکن کچھ گمراہ طوائف وگروہ ہیں جو سنت کو دلیل نہیں تسلیم کرتے ہیں جیسے خوارج اور ان کے منہج پر چلنے والے گروہ جنکا نقطۂ نظراور قول یہ ہے کہ سنت کا انکار کیا جائے اور صرف قرآن کریم پر اکتفاء کیا جائے۔
یہ لوگ اس وقت’’ قرآنی فرقہ‘‘ یا’’ أہل قرآن‘‘ کے نام موسوم ومعروف ہیں ان کا خیال وگمان ہے کہ وہ صرف قرآن کریم پر اعتماد کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ انکا یہ خیال باطل اور ان کا یہ گمان جھوٹا ہے۔
اسلئے کہ وہ قرآن پر اعتماد ہر گزنہیں رکھتے ہیں اسلئے کہ قرآن تو اتباع سنت ، اطاعت رسول، تأسی بالرسول اور أخذبالکتاب والسنۃ اور متنازع فیہ امور کو اللہ اور اسکے رسول کیطرف لوٹانے کا حکم دیتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:(وما أتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا واتقواللہ إن اللہ شدید العقاب) (الحشر: ) ترجمہ:اور رسول جو تمہیں دیں اسے لے لواور جس سے تم کو روکیں تم رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو یقیناًاللہ تعالیٰ سخت سزا والا ہے۔
اس آیت کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اہل قرآن قرآن کریم پر عمل پیرا نہیں ہیں، نہ اس کے حکم کو مانتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولﷺکے اوامرونواہی پر عمل کا حکم دیا ہے نیزفرمان رب ہے: (ہو الذی بعث فی الأمیین رسولا منہم یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وإن کانوا من قبل لفی ضلال مبین) (الجمعۃ:۲)
ترجمہ: وہی ہے جس نے امیو ں یعنی ان پڑھوں میں انھیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان پر اسکی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ ازیں قبل کھلی گمراہی ہے۔
الکتاب سے مراد قرآن ہے: اور حکمت سے مراد سنت ہے یا حکمت میں سے سنت نبوی بھی داخل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (من یطع الرسول فقد أطاع اللہ ومن تولی فما أرسلناک علیہم حفیظاً) النساء :۸۰)
ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے روگردانی کی سو ہم نے آپکو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
نیز اللہ کا فرمان ہے:(وما أرسلنا من رسول الا لیطاع بإذن اللہ) (النساء:۶۴)
ترجمہ: ہم نے ہر ہر رسول کو صرف اسی لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے۔
نیز ارشاد ربانی ہے: (واطیعو اللہ واطیعوا الرسول واحذروا فإن تولیتم فاعلموا أنما علی رسولنا البلاغ المبین) (المائدۃ:۹۲)
ترجمہ: اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور آگاہ وچوکنارہو۔ اگر تم روگردانی کرو گے پس تم جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف کھلم کھلا بلاغ ہے۔
اطاعت رسول کی آیات خود قرآن کریم میں بہت زیادہ ہے۔ اگر صرف قرآن پر اعتماد واکتفاء والی صحیح مان لی جائے تو پھر قرآن کی ان آیات کا مطلب کیا ہوگا؟ اس اطاعت رسول ﷺ کے أمروحکم کا معنی ومطلب عبث اور بے کار ہوگا۔
ظاہر سی بات ہے یہ آیات اتباع سنت پر بوضاحت دلالت کرنے کے ساتھ ہی حجیت سنت پر بھی دلالت کرتی ہیں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:’’ألا انی أوتیت القرآن ومثلہ ومعہ‘‘ مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اسی کا مثل بھی عطا کیا گیا ہے ’’مثلہ‘‘ سے احادیث نبویہ اور سنن ثابتہ مراد ہیں۔
اہل سنت وجماعت کا مذہب سنت سے استدلال کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔
اور وہ لوگ جو قرآن پر اکتفاء کا دعوی کرتے ہیں اور سنت کو بیکار قراردیتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں وہ گمراہ ہیں بلکہ اپنے اس فعل کی بنا پر بسا اوقات کفار قرار پاتے ہیں۔
ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو سنت کے درمیان تفریق سے کام لیتے ہیں اور خود احادیث ثابتہ میں بھی فرق کرتے ہیں۔جیسے معتزلہ اور انکا منہج اپنانے والے جو بعض سنت صحیحہ سے احتجاج واستدلال کے قائل ہیں،ان کا مذہب وقول یہ ہے کہ متواتر کو حجت مانا جائے گا اور اخبار آحاد سے عقائدی امور میں حجت نہیں پکڑی جائے گی، اور ان سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔
چنانچہ یہ لوگ عقیدہ میں سنت صحیحہ سے استدلال نہیں کرتے ہیں جبکہ وہ ان کے زعم کے مطابق اخبار آحاد ہوں۔وہ منطقی قواعد پر اعتماد کرتے ہیں نیز ان عقلی اصول وقواعد پر اعتماد کرتے ہیں جنکو انہوں نے أصل بنا رکھا ہے۔
جب رسول ﷺ سے ثابت صحیح حدیث ان کے وضع کردہ اصولوں کے خلاف ہوتی ہے تووہ اپنے عقلی اصول وقواعد پر اعتماد کرتے ہیں اور حدیث کو رد کردیتے ہیں۔یا تو تاویل باطل سے کام لیتے ہیں یا اسے جھٹلاتے ہیں اور رواۃ حدیث کو متہم ٹھہراتے ہیں۔
ان کا شمار بھی درحقیقت منکرین سنت میں سے ہے۔اگر چہ یہ تمام احادیث وسنن کے منکر نہیں ہیں۔ لیکن احادیث کے بڑے حصے کے ضرور منکرہیں اور یہ ان کاباطل، گمراہ اور منحرف مذہب ونظر یہ ہے اسلئے ان لوگوں نے پورے سنت نبوی کو معطل قراردیا یا ان میں کچھ کو معطل ٹھہرایا۔
جب کل سنت یا بعض سنت کو معطل قراردیا جائے تو دین کے بہت سے شرائع معطل قرارپاتے ہیں پھر آخر اطاعت رسول کا کیا معنیٰ رہ جاتا۔ یہ مذہب اہل حق کے منہج کے یکسر خلاف ہے کیوں وہ صحیح أحادیث وسنن سے خواہ وہ متواتر ہوں یا آحاد عقائد اور دیگر تمام احکام ومسائل میں استدلال واحتجاج کرتے ہیں۔
ان کا عمل آیت قرآنی: (وما أتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہو) پر ہے ان کا مذہب درج ذیل آیات کی بنا پر ہے: ارشاد ربانی ہے:(قل اطیعواللہ واطیعوالرسول،فان تولوا فإنما علیہ ما حمل وعلیکم ما حملتم وإن تطیعوہ تہتدوا وما علی الرسول إلا البلاغ المبین) (النور:۵۴)
ترجمہ: تم کہہ دو کہ تم لوگ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو سو اگر تم روگردانی کرو گے۔ پس ان پر وہی ہے جس کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی، اور تم لوگوں پر وہ ہے جس کو تم پر لازم کیا گیا ہے اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت یاب ہوگے رسول پر تو صرف کھلا ہو بلاغ ہے۔
اس معنی کی آیات قرآن کریم میں کئی ایک ہیں۔
أحادیث وسنن سے احتجاج واستدلال اہل سنت وجماعت کے اصولوں میں سے ایک اہم اصل ہے، اور تمام أحادیث یا بعض کا رفض وانکار، اہل بدعت، اصحاب زیغ و ضلال اور حق سے انحراف والوں کا اصول ونظریہ ہے۔
اس وقت بھی عقلانی فرقے اور عقلیت پرست جماعتیں پائی جاتی ہیں یہ معتزلہ کے اصول ونظریات کے حامل لوگ ہیں۔جو اس گمراہ اور منحرف منہج کو اپنانے والے ہیں۔
جب رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث ان کے عقل وفکر اور عقلی و منطقی قاعدوں کے مخالف ہوتی ہے تو وہ اسکا رفض وانکار کرتے ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم کسی حدیث’’ جس کو فلان اور فلاں نے روایت کی ہے‘‘ کی بنا پر اپنی عقل کو بیکار اور ملغی نہیں ٹھہرا سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے صحیح بخاری وغیرہ کی حدیثوں میں شک وشبہ پیدا کرنے کی کوشش کی اور یوں کہا کہ مثلا ہم اس حدیث کو نہیں تسلیم کر سکتے ہیں اگر چہ اس کوامام بخاری نے روایت کیا ہے یا خواہ کسی نے روایت کیا ہے اسلئے کہ یہ حدیث ان کی عقلوں کے خلاف ہے لہذاوہ اسکو قبول نہیں کر سکتے ہیں۔
ان لوگوں نے اس بات کو اپنی مؤلفات ومصنفات میں صراحتاً بیان کیا ہے: یہی عقلانی یعنی عقل پرست جماعت کہلاتی ہے۔ کیوں وہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت صحیح حدیث پرعقل اور منطق پر مبنی اصول کو مقدم رکھتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی عقل ہے جسکو یہ لوگ سنت پر فائق اور مقدم رکھتے ہیں؟ آخر وہ انسانوں کی قاصروکوتاہ عقل ہی ہے کاش یہ لوگ جانتے۔۰
جہاں تک حدیث وسنت رسول ﷺ کا تعلق ہے وہ معصوم ہے اور ان عقل ومنطق کا راگ الاپنے والوں کی عقلیں قاصروکوتاہ ہیں اور متہم بھی ہو سکتی ہیں ۔ لیکن گمراہیاں گمراہوں کو ہلاکت وبربادی میں ڈال دیتی ہیں یہ عقلانی گروہ اب بھی موجود ہے اور اب بھی ان کی فکرباقی ہے اس کی اپنی تصنیفات ہیں اسکی گمرہی اور اس کے گمراہ منہج سے اجتناب ضروری ہے۔’’أفلا یتدبرون القرآن أم قلوب أفقالہا‘‘ وہ قرآن میں تدبر سے کام کیوں نہیں لیتے یا دلوں پہ ان کے تالے پڑے ہیں۔
***

No comments:

Post a Comment