شعوروآگہی
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری
مسلم معاشرہ جن خرابیوں کی وجہ سے بگاڑ کے عمیق غار میں پہونچ چکا ہے، اس سے نکالنے کے لئے کوششیں بھی جاری ہیں، علماء وصلحاء اور دعاۃ کی جماعتیں شب وروز اصلاح حال کے لئے کوشاں ہیں، جن کی مختلف شکلیں سامنے آتی رہتی ہیں۔
دعوت وتبلیغ اور اصلاح وارشاد کا عمل انجام دینے کے لئے اپنے یہاں جلسوں کا اہتمام ہوتا رہا ہے، جو ایک اہم دینی اور ملی کام ہے،جسے اگر صدق نیت اور خلوص دل سے انجام دیا جائے تو اپنے مثبت اثرات لمبی مدت کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ لوگ برسوں اس کی یاد دلوں میں تازہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہی عمل جب نمائش بن جائے، تو لاکھوں کے صرفہ کے بعد بھی وہ بے نتیجہ رہتا ہے، بلکہ اس کے برے نتائج مزید نقصان کا سبب بنتے ہیں۔
یہ جلسے گاؤں، دیہات اور چھوٹے بڑے شہروں میں منعقد ہوتے ہیں۔ بالعموم لوگ انعقاد میں دلچسپی لیتے ہیں ، ان کا حوصلہ بیدار ہوتا ہے ۔ خواتین بھی مشتاق رہتی ہیں، بچے بھی خوش ہوتے ہیں، باہمی تنازعات سے قطع نظر عوام وخواص کی خواہش ہوتی ہے کہ اجلاس ہر طرح اور ہر لحاظ سے کامیاب رہے۔
مقررین کے انتخاب میں منتظمین کے علاوہ کچھ عام لوگوں کی اپنی پسند بھی کام کرتی ہے، خوش گلو مقررین اور نقال خطباء کو اہمیت دی جاتی ہے، ان پر صرف کی جانے والی رقم کی فراہمی کی ذمہ داری کچھ لوگ خود برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک رات کی تاریخ کے لئے ۵۰؍ہزارتک ایک شخص کو دینے کے لئے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے مقررین کو اپنی عوامی مقبولیت کا احساس رہتا ہے اور وہ اپنی خوش بیانی کی بھر پور قیمت وصول کرتے رہتے ہیں، جس کے لئے باقاعدہ ایجنٹ رکھے جاتے ہیں، جو تاریخ کے تعین اور موافقت کے حصول میں معاون بنتے ہیں، اسٹیج پرنام نہاد مولویانہ سیاست کام کرتی ہے، سادگی کے ساتھ کتاب وسنت کی روشنی میں گر اں قدر معلومات فراہم کرنے والے علماء پیچھے کر دےئے جاتے ہیںیا انہیں بہت ہی کم وقت دیا جاتا ہے، اولیت انہیں راگ راگنی کے ماہرمقررین کو دی جاتی ہے جو گھنٹوں کی طول بیانی کے باوجود کوئی مثبت پیغام دینے سے قاصر نظر آتے ہیں، البتہ عوامی مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اپنی تقریر کو کبھی اشعار کبھی اشلوک اور کبھی بے فیض واقعات سے مزین کرنے کا ہنر جاننے کی وجہ سے میدان مار لیتے ہیں۔ عوام انھیں ذوق وشوق سے سنتے ہیں اور سب سے زیادہ نمبر دے کرانھیں کو سب سے کامیاب مقرر تسلیم کر لیتے ہیں۔
سلفی فکر کے حامل اسٹیج کی یہ بے حرمتی لائق ماتم ہے۔جلسوں کے بگڑتے مزاج کو بدلنے کی ضرورت ہے، ورنہ دعوت وارشاد کے لئے ہونے والی کاوشیں اپنا اثر کھو بیٹھیں گی اور اسلامی دعوت شدید نقصان سے دو چار ہو جائے گی۔
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری
جلسوں کا بگڑتا مزاج
امربالمعروف اور نہی عن المنکر ایک فریضہ ہے، امکانات کے مطابق امت کے ہر شخص کویہ فریضہ ادا کرنا ہے، جس کے بسبب اسے خیر امت کا لقب تفویض ہوا ہے۔ خیرالقرون سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب جب بگاڑنے سر اٹھایا، کوئی نہ کوئی داعی، مصلح، عالم کھڑا ہوا اور منکر سے باز رکھنے کی خاطر سر گرم عمل ہو گیا۔مسلم معاشرہ جن خرابیوں کی وجہ سے بگاڑ کے عمیق غار میں پہونچ چکا ہے، اس سے نکالنے کے لئے کوششیں بھی جاری ہیں، علماء وصلحاء اور دعاۃ کی جماعتیں شب وروز اصلاح حال کے لئے کوشاں ہیں، جن کی مختلف شکلیں سامنے آتی رہتی ہیں۔
دعوت وتبلیغ اور اصلاح وارشاد کا عمل انجام دینے کے لئے اپنے یہاں جلسوں کا اہتمام ہوتا رہا ہے، جو ایک اہم دینی اور ملی کام ہے،جسے اگر صدق نیت اور خلوص دل سے انجام دیا جائے تو اپنے مثبت اثرات لمبی مدت کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ لوگ برسوں اس کی یاد دلوں میں تازہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہی عمل جب نمائش بن جائے، تو لاکھوں کے صرفہ کے بعد بھی وہ بے نتیجہ رہتا ہے، بلکہ اس کے برے نتائج مزید نقصان کا سبب بنتے ہیں۔
یہ جلسے گاؤں، دیہات اور چھوٹے بڑے شہروں میں منعقد ہوتے ہیں۔ بالعموم لوگ انعقاد میں دلچسپی لیتے ہیں ، ان کا حوصلہ بیدار ہوتا ہے ۔ خواتین بھی مشتاق رہتی ہیں، بچے بھی خوش ہوتے ہیں، باہمی تنازعات سے قطع نظر عوام وخواص کی خواہش ہوتی ہے کہ اجلاس ہر طرح اور ہر لحاظ سے کامیاب رہے۔
مقررین کے انتخاب میں منتظمین کے علاوہ کچھ عام لوگوں کی اپنی پسند بھی کام کرتی ہے، خوش گلو مقررین اور نقال خطباء کو اہمیت دی جاتی ہے، ان پر صرف کی جانے والی رقم کی فراہمی کی ذمہ داری کچھ لوگ خود برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک رات کی تاریخ کے لئے ۵۰؍ہزارتک ایک شخص کو دینے کے لئے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے مقررین کو اپنی عوامی مقبولیت کا احساس رہتا ہے اور وہ اپنی خوش بیانی کی بھر پور قیمت وصول کرتے رہتے ہیں، جس کے لئے باقاعدہ ایجنٹ رکھے جاتے ہیں، جو تاریخ کے تعین اور موافقت کے حصول میں معاون بنتے ہیں، اسٹیج پرنام نہاد مولویانہ سیاست کام کرتی ہے، سادگی کے ساتھ کتاب وسنت کی روشنی میں گر اں قدر معلومات فراہم کرنے والے علماء پیچھے کر دےئے جاتے ہیںیا انہیں بہت ہی کم وقت دیا جاتا ہے، اولیت انہیں راگ راگنی کے ماہرمقررین کو دی جاتی ہے جو گھنٹوں کی طول بیانی کے باوجود کوئی مثبت پیغام دینے سے قاصر نظر آتے ہیں، البتہ عوامی مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اپنی تقریر کو کبھی اشعار کبھی اشلوک اور کبھی بے فیض واقعات سے مزین کرنے کا ہنر جاننے کی وجہ سے میدان مار لیتے ہیں۔ عوام انھیں ذوق وشوق سے سنتے ہیں اور سب سے زیادہ نمبر دے کرانھیں کو سب سے کامیاب مقرر تسلیم کر لیتے ہیں۔
سلفی فکر کے حامل اسٹیج کی یہ بے حرمتی لائق ماتم ہے۔جلسوں کے بگڑتے مزاج کو بدلنے کی ضرورت ہے، ورنہ دعوت وارشاد کے لئے ہونے والی کاوشیں اپنا اثر کھو بیٹھیں گی اور اسلامی دعوت شدید نقصان سے دو چار ہو جائے گی۔
No comments:
Post a Comment