Sunday, 26 June 2011

مناسک حج کی حکمتیں sep-oct 2010

مولانا عبد الوہاب دہلوی رحمہ اللہ
مناسک حج کی حکمتیں
شریعت اسلامیہ کے تمام احکام بندوں کے مصالح اور فوائد دنیوی واخروی پر مبنی ہیں کیونکہ ان کا مقرر کرنے والا خدائے حکیم ہے اور ’’فعل الحکیم لا یخدوعن الحکمۃ‘‘(حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا)
لیکن یہ ضروری نہیں کہ تمام احکام کی باریکیاں اور اسرار ہر شخص کی سمجھ میں آجائیں یا جو حکمتیں علمائے متقدمین بتا گئے ہیں وہی جامع اور مانع ہیں بعض احکام تو ایسے ہیں کہ ان کو علماء راسخین ہی سمجھ سکتے ہیں بعض ایسے ہیں کہ ان کے فوائد وحکم بے شمار ہیں اور ہر شخص بقدر توفیق وقابلیت ان میں سے چند باتوں کو سمجھ لیتا ہے اور اس کے بعد آنے والے اضافہ کرتے رہتے ہیں، ’’کم ترک الاول لآخر‘‘ (اگلے لوگ پچھلوں کے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں) عربی کا مشہور صحیح مقولہ ہے۔
(ذالک فضل اللہ ےؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم) (الحدید:۲۱)
’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت کرے اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘
جو باتیں ایسی ہیں کہ ان کے فوائد مخفی اور دقیق ہیں ان کو امور تعبدیہ کہا جاتا ہے جیسے نماز کی تعداد رکعات،روزوں کی تعداد،زکوٰۃ کا نصاب وغیرہ۔
مناسک حج بھی انہیں امور تعبدیہ میں سے ہیں لہذا ان کے تمام مصالح اور حکمتیں خدا تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں، یا جس کو خدا تعالیٰ نے یہ علم عطا فرمایا ہے مگر بحکم ’’ما یدرک کلہ لا یترک کلہ‘‘ ( جو چیز پوری نہ حاصل ہو سکے اسے بالکل چھوڑ دینا بھی نہ چاہئے) چند باتیں علماء کرام کے افادات سے اقتباس کر کے ہدےۂ قارئین کی جاتی ہیں۔
حکمت احرام:۔
آدمی جب کسی شاہی دربار میں جانا چاہتا ہو تو پہلے کسی قدر اس کے لائق تیاری کرتا ہے احکم الحاکمین کے دربار میں حاضر ہونے کے لئے تیاری نہ کرنا اور ویسے ہی بے پروا اور گستاخانہ چلے آنا کیوں کر مناسب ہو سکتا ہے، اس لئے حکم ہے کہ میقات سے اس حاضری کی تیاری کر لو اور اپنی وہ حالت بنا لو جو پسندیدۂ بارگاہ عالی ہے یعنی عاجزی، مسکنت، ترک زینت،تبتل الی اللہ، اسی لئے لباس احرام بھی ایسا سادہ رکھا ہے جو سب سے آسان اور سہل الحصول ہے اور جس سے مساوات اسلامی کا کلی ظہور ہوتا ہے اس میں کفن کی بھی مشابہت ہے جس سے انسان کو یہ بھی یاد آجاتا ہے کہ دنیا سے جاتے وقت اس کو اتنا ہی کپڑا نصیب ہوگا نیز اس سے انسان کو اپنی ابتدائی حالت یاد آجاتی ہے کیونکہ انسان کا اولین لباس ایسا ہی تھا۔
حکمت تلبیہ (لبیک کہنا)
احرام باندھنے کے وقت سے لے کر اس کے کھولنے تک ہر حاجی نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ بار بار لبیک پڑھتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
’’لبیک اللہم لبیک لیبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شرک لک‘‘ حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں سب تعریفیں تیرے ہی لیے زیبا ہیں اور سب نعمتیں تیری ہی عطا کی ہوئی ہیں اور ملک بھی تیرا ہی ہے اس میں کوئی تیرا شرک نہیں ذرا ان الفاظ پہ غور کیجئے تو یہ حکمتیں نظر آئیں گی۔
(۱)بار بار لبیک کہنا یہ اقرار کرنا ہے کہ اے خدا میں تیرے سب حکموں کو ماننے کے لئے تیار ہو کر تیرے دربار میں حاضرہوا ہوں۔
۲) لا شریک لک سے توحید کا اقرار ہے جو اصل اصول ایمان واسلام ہے۔
۳) پھر یہ اعتراف ہے کہ سب نعمتیں تیری ہی عطا کی ہوئی ہیں لہذا ہم تیری ہی حمدوثنا کرتے ہیں اور کریں گے۔
۴) پھر اس بات کا اقرار ہے کہ ملک اور حکومت بھی خدا ہی کی ہے حقیقی بادشاہ وہی ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں۔
لہذا دنیا میں اسی کا قانون اسی کا حکم چلنا چاہےئے اور کسی کو اپنی طرف سے نیا قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے دنیوی حکام صرف خدا تعالیٰ کی نیابت کرتے ہیں تاکہ اس کے قانون کو نافذ کریں، اس لئے ان کی اطاعت مسلمانوں پر اسی وقت تک فرض ہے جب تک وہ اس خلافت کے حد سے آگے نہ بڑھیں اور خود خدا نہ بن بیٹھیں یعنی احکام الٰہیہ کو پس پشت ڈال کر حکومت نہ کرنے لگیں ورنہ پھر مسلمانوں پر ان کی اطاعت حرام ہو جاتی ہے چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ:
’’لا طاعۃ لا حدفی معصےۃ اللہ انما الطاعۃ فی المعروف‘‘ (صحیحین)
جس بات میں خدا کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی کی اطاعت جائز نہیں صرف اچھی باتوں میں اطاعت کرنی چاہئے۔
غور کیجئے کہ جو شخص ان سب باتوں کا بار بار اقرار کرے گا تو وہ حج کے بعد کس قسم کا انسان بن جائے گا بشرطیکہ اس نے یہ تمام اقرار سچے دل سے کئے ہوں اور سمجھ بوجھ کر یہ الفاظ ادا کئے ہوں۔
حکمت طواف القدوم وطواف الوداع:۔
مکہ مکرمہ میں داخل ہو کر طواف قدوم سنت اور مکہ سے روانگی کے وقت طواف وداع کرنا واجب ہے اس کا فائدہ ظاہر ہے آدمی جس کے پاس برائے ملاقات یا بطور مہمان جاتا ہے سب سے پہلے بھی اسی سے ملتا ہے اور چلتے وقت بھی اس سے ضرور مل کر رخصت ہوتا ہو اسی طرح آنے کے وقت طواف قدوم اور روانگی کے وقت طواف وداع کو سمجھنا چاہئے۔
حکمت استلام حجر اسود:۔
حجر اسود کو بوسہ دینا ہاتھ لگانا یہ سب باتیں مسنون اور باعث ثواب ہیں اور اس سے مقصود خدا تعالیٰ کی عبادت اور امتثال امر ہے ورنہ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ یہ پتھر معبود ہے یا اس کے اختیار میں نفع وضرر ہے جیسا کہ بعض مشرکوں نے اپنے بتوں پر قیاس کرکے مسلمانوں پر اعتراض کیا تھا کہ مسلمان بھی حجر اسود کو بلکہ کعبہ کو پوجتے ہیں اس کا جواب مولانا محمد قاسم صاحب نے اپنے رسالہ ’’قبلہ نما‘‘ میں بہت مدلل ومفصل دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبادت کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ عابد یہ اعتقادرکھتا ہوں کہ اس کا معبود ہی نافع وضار ہے اور اسی کے اختیار میں تمام نفع ونقصان ہے اس لئے اسی کے حضور تذلل وخشوع کرے اور اسی سے اپنی مرادیں مانگے، اسی کی حمدوثنا کرے۔
ان باتوں میں سے کوئی بات بھی استقبال قبلہ یا استلام حجر اسود میں نہیں پائی جاتی ہے مگر مسلمانوں کا عقیدہ تو یہ ہے کہ معبود ومقصود صرف خدائے وحدہ لا شریک لہ ہے اسی سے اپنی مرادیں مانگتے ہیں کعبہ یا حجر اسود کو کوئی معبود نہیں سمجھتا ہے نہ اس کو نفع ونقصان کا مالک سمجھتا ہے نہ اس سے کوئی مرادیں مانگتا ہے نہ اس کی حمدوثنا کی جاتی ہے بلکہ یہ چیزیں تو صرف محل عبادت ہیں اور استقبال قبلہ واستلام حجر اسود بھی ایک طریقۂ عبادت ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔
حجر اسود کی بابت مسلمانوں کا عقیدہ:۔
حجر اسود کے بارے میں مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے مجمع میں حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت فرمایا تھا: ’’انی اعلم انک حجر لا تضر ولا تنفع ولولا انی رایت رسول اللہ ﷺ یقبلک ما قبلتم‘‘ (رواہ الستۃ واحمد) میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تیرے قبضہ میں نہ کسی کا نفع ہے نہ نقصان اور اگر رسول اللہ ﷺ کو میں نے تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔
رہایہ سوال کہ پھر اس کا فائدہ اور حکمت تشریع کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا فائدہ تو وہ ثواب ہے جو احادیث میں آیا ہوا ہے یعنی (۱) گناہ معاف ہوتے ہیں (ترمذی) (۲) قیامت کے دن یہ گواہی دے گا کہ فلاں شخص نے اس کو استلام کیا تھا (ترمذی) گویا اس کو چومنا اپنے عمرہ وحج کی شہادت ثبت کرانا ہے۔ (۳) اتباع سنت وامتثال امر کا ثواب یعنی رضائے الٰہی وحصول جنت وغیرہ اور اس کی حکمت تشریع یہ ہے کہ عہد ابراہیمی میں پیمان عام لینے کا دستور یہ تھا کہ ایک پتھر رکھ دیا جاتا تھا جس پر لوگ آکر ہاتھ مارتے تھے اس کے معنیٰ یہ ہوتے تھے کہ جس عہد کے لئے وہ پتھر رکھا گیا ہے اس کو انہوں نے تسلیم کر لیا اسی دستور کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی مقتدی قوموں کے لئے یہ پتھر نصب کیا ہے جو کوئی اس گھر میں جس کی بنیاد خدائے واحد کی عبادت کے لئے ہوئی ہے داخل ہوا تو اس پتھر پر ہاتھ رکھے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے توحید کا عہد باندھ لیا ہے اگر جان بھی دینی پڑے گی تو اس سے منحرف نہ ہوگا گویا حجر اسود کا استلام خدائے تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے۔ ’’واللہ المثل الاعلیٰ‘‘ اور اللہ کی صفت بلند تر ہے یعنی اللہ کی شان مثالوں سے بلند تر ہے چنانچہ اس تمثیل کی تشریح بھی ایک ضعیف حدیث میں آتی ہے۔ ’’عن ابن عباس مرفوعا الحجر الاسود یمین للہ فی ارضہ یصافح بہ خلقہ‘‘ (معجم طبرانی بسند ضعیف) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفو عا روایت ہے کہ حجر اسودزمین پر بمنزلہ اللہ کے داہنے ہاتھ کے ہے جس سے وہ اپنے بندوں سے مصافحہ کرتا ہے۔
حکمت طواف:۔
طواف بھی عبادت الٰہی کا ایک مسنون طریقہ ہے اور اس کی غایت ذکر الٰہی ہے جیسا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں مرفوعا وارد ہے: انما جعل الطواف بالبیت وبین الصفا والمروۃ ورمی الجمار لا قامۃ ذکر اللہ (ابوداؤد،ترمذی)
طواف،سعی،رمی یہ سب کام اللہ تعالیٰ کو مختلف طریقوں سے یاد کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔
طواف کے فوائد وہی ہیں جو استلام حجر اسود میں لکھے گئے یعنی (۱) امتثال امر واتباع سنت کا ثواب ہے (۲) طواف کا ثواب مخصوص جو احادیث میں آیا ہوا ہے۔ (۳) اس میں دنیاوی فائدہ یہ بھی ہے کہ ریاضت ہوجاتی ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ انسان ہلول الطبع واقع ہوا ہے لہٰذا عبادت کے مختلف طریقے مقرر کئے گئے ہیں تاکہ جس وقت جو آسان معلوم ہو کرے ازاں جملہ ایک طریقۂ عبادت طواف بھی ہے کہ انسان بآرام چل پھر کر عبادت الٰہی بجا لائے اور ہم خرما اور ہم ثواب کا مصداق ہو جائے، یعنی ثواب بھی اور ریاضت بھی البتہ مخصوص مکان اور خاص طریقہ کی قیداس لئے لگا دی گئی ہے کہ اسلامی وحدت وتنظیم عبادت کا اصول اساسی ہے۔
۴) اس سے مخصوص اظہار محبت الٰہی بھی ہے جس طرح کہ ایک عاشق اپنے معشوق کے گھر کے آس پاس پھرتا رہتا ہے کہ شاید کبھی دیدار ہو جائے اسی طرح مومن بھی عشق الٰہی میں بیت اللہ کا چکر لگاتا رہتا ہے جس سے مقصود حصول رضوان الٰہی ومشاہدۂ انوار قدسیہ ہوتا ہے نہ کہ صرف مٹر گشتی، جیسا کہ کہا گیا ہے ۵) انسان جب غوروفکر کرتا ہے تو بعض اوقات سکون اس کے لئے مفید ہوتا ہے اور بعض اوقات حرکت جیسے مشائین علماء کی عادت تھی نماز اور طواف دونوں ایک ہی مقصد کے لئے مشروع ہوئے ہیں، ایک میں سکون ملحوظ ہے دوسرے میں حرکت۔
حکمۃ الرمل والا ضطباع:۔
طواف عمرہ وطواف حج میں تین پھیروں میں رمل یعنی آہستہ آہستہ دوڑنا اور اضطباع مسنون ہے اضطباع یہ ہے کہ داہنا شانہ کھلا ہوا ہو اور چادر احرام بغل کے نیچے سے نکال کر دوسرے شانہ پر ڈال لیا جائے اس کا سبب تشریع یہ ہے کہ ۷ء ؁ میں جب آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام (عمرۃ القضاء) کے لئے تشریف لائے تو مشرکین نے یہ کہنا شروع کیا کہ محمد اور ان کے صحابی کمزور ہیں مدینہ کے بخارنے ان کو کمزور اور ضعیف کر دیا ہے یہ طواف نہیں کر سکیں گے اور ان کے بہت سے شیاطین دارالندوہ کے آس پاس تماشا دیکھنے کے لئے بیٹھ گئے آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ طواف پہلے تین پھیروں میں رمل اور اضطباع کرو باقی چار پھیروں میں معمولی چال سے چلنا، مشرکین نے صحابہ کو دوڑتے ہوئے اور کندھا کھولے ہوئے دیکھا تو مرعوب ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم لوگ تو کہتے تھے کہ یہ کمزور ہو گئے ہوں گے یہ تو ہم سے بھی زیادہ مضبوط اور توانا ہیں(رمل کی ابتدائی تشریع اسی سبب سے ہوئی تھی مگر اس کے بعد یہ سنت معمول بہا ہو گئی اور صحابہ کرام برابر اس کو بجا لاتے رہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو موقوف بھی کرنا چاہا کہ اب اس کی کیا ضرورت ہے مگر پھر یہ فرمایا کہ جو کام آنحضرت ﷺ کرتے تھے ہم کو اسے چھوڑنا نہیں چاہئے، ان کے الفاظ یہ ہیں: ’’مالنا وللرمل انما کنارأینا بہ المشرکین وقد اہلکہم اللہ ثم قال ہو شئی صنعہ رسول اللہ ﷺ فلا نحب ان نترکہ‘‘ (بخاری)
رمل کی ہم کو کیا ضرورت ہے وہ تو ہم نے مشرکین کو اپنی قوت دکھانے کے لئے کیا تھا اور وہ ہلاک ہو چکے پھر فرمایا رمل مسنون چیز ہے لہٰذا ہم کو اس کا ترک کرنا پسند نہیں۔
اب اس کا فائدہ اتباع سنت ہے اور اپنی گذشتہ حالت کی یاد دہانی کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ اس کی ضرورت تھی اور اب خدا کے فضل سے یہاں مسلمان ہی مسلمان ہیں۔ کیا اور کوئی قوم بھی اپنی تاریخ کے واقعات کو اس طرح محفوظ رکھنے کا دعویٰ کر سکتی ہے نیز ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دور دراز سفر کی تکالیف اٹھانے کے بعد بھی حاجیوں کے ذ وق وشوق اور ہمت کا اظہار اس سے ہوتا ہے۔
حکمت سعی:۔
حج کے اکثر ارکان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار ہیں مگر سعی ان کی زوجۂ پاک یعنی ام المومنین ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی یادگار ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے حکم کے بموحضرت اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو مکہ کے بیاباں میں (جہاں اس وقت نہ پانی تھا نہ کوئی آدم زاد) چھوڑ کر چلے گئے اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے مشکیزہ کا پانی ختم ہو گیا تو پیاس کے مارے ان کے شیر خوار فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام جاں بلب ہو گئے جب حضرت ہاجرہ سے یہ حالت نہ دیکھی گئی تو وہ پانی کی تلاش میں صفا گئیں کہ شاید کہیں پانی مل جائے مگر کوشش بے کار رہی تو اتر کر مروہ کی طرف چلیں، جب تک بچہ نظرآتا رہا آہستہ آہستہ چلیں، جب وہ نظر سے اوجھل ہو گیا کیونکہ آپ نشیب میں پہنچ چکی تھیں تو دوڑنا شروع کردیا جب بلندی آگئی اور بچہ نظر آنے لگا تو آہستہ چلنے لگیں، یہاں تک کہ کوہ مروہ پر پہنچ گئیں وہاں بھی ناکام ہوئی تو پھر صفا تک آئیں اس طرح سات پھیرے کئے بچہ کے پاس اس لئے نہیں جاتی تھیں کہ اس کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی تھی دوسرے یہ کہ پانی کی تلاش بھی ضروری تھی ورنہ دونوں کی جان کو خطرہ تھا اور صفا مروہ سے آگے اس لئے نہیں جاتی تھیں کہ بچہ سے دور ہو جائیں گی الغرض اسی جگہ پر چکر لگاتی رہیں کہ شاید کوئی آدمی نظر آجائے یا پانی کا نشان مل جائے جب سات پھیرے ہو چکے تو ایک آواز سنائی دی دیکھا جبرئیل علیہ السلام تھے، انہوں نے اپنا دایاں پاؤں زمین پر مارا تو وہاں سے پانی کا چشمہ نمودار ہو گیا حضرت ہاجرہ دوڑی ہوئی آئیں آکر پانی پیا اور بچہ کو پلایا اور اس چشمہ کے ارد گرد منڈیر بنادی۔
مقصود سعی:۔
خدا تعالیٰ کو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی یہ بیتابانہ حرکت پسند آئی اور اس کو مناسک حج میں شامل کردیا تاکہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی سنت قائم رہے اور اس کو مسلمان بچے یاد کر لیا کریں کہ دین حنیف کے موسسوں نے کیا کیا تکالیف برداشت کی تھیں اور اس زمانے میں مرکز اسلام (مکہ) کی کیا حالت تھی نیز جو بے تابی اور انابت الی اللہ حضرت ہاجرہ کو اس وقت تھی وہ بھی اپنے میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور باران رحمت کی جستجو میں اسی طرح بے تاب اور ساعی ہوں جیسے وہ پانی کی تلاش میں تھیں اس لئے سعی کی غرض وغایت آنحضرت ﷺ نے یہی بتائی ہے کہ سعی یاد الٰہی کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے یعنی اصل مقصود بھی مد نظر ہونا چاہئے صرف دوڑ دھوپ کر لینے سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
حکمت وقوف عرفہ:۔
وقوف عرفہ حج کا رکن اعظم ہے یہ فوت ہوجائے تو حج ہی نہیں ہوتا کیونکہ حدیث شریف میں آیاہے’’ الحج عرفۃ‘‘ (حج عرفات کی حاضری کا نام ہے) مقام عرفات بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع میں تمام صحابہ کو یہ کہلا بھیجا تھا کہ ’’قفوا علی مشاعر کم فانکم علی ارث من ابیکم ابراہیم‘‘ (سنن اربعہ) یعنی اپنی اپنی جگہ جگہ ٹھہرے رہو تم سب اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی موروثی زمین پر ہو اس وقوف کا وہ فائدہ وثواب ہے جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے یعنی مغفرت عامہ اور اس کی حکمت تشریع یہ ہے۔
۱) سب حاجی مل کر اس مقدس میدان اور اس بابرکت دن میں خدا تعالیٰ کا ذکر کریں اور دعا مانگیں اپنی اس حالت کو حشر نمونہ سمجھ کر اس موقوف اکبر کی استعداد پیدا کریں۔
۲) آنحضرت ﷺ نے اسلام کے قانون اساسی کا اعلان اسی مقم پر فرمایا یہاں آنے سے لوگوں کو وہ بھی یادآتا رہے گا۔
۳) سب حاجی عرفات میں جمع ہو کر ایک وقت معین میں بیت اللہ کی زیارت کے ارادہ سے سفر کرتے ہیں اس سے مل کر سفر کرنے کا مقصد پورا ہوتا ہے اور میدان جہاد کی طرف بیک وقت نقل وحرکت کرنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔
حکمت مبیت مزدلفہ:۔
مزدلفہ کی شب باشی سنت موکدہ ہے اور بعض علماء کے نزدیک واجب اس کی حکمت تشریع استراحت جسم ہے کیونکہ انسان ضعیف البنیان ہے اس لئے تھوڑی دیر آرام کر لینے سے گذشتہ دن کی تھکن بھی رفع ہوجاتی ہے اور دوسرے دن یوم النحر کے مناسک ادا کرنے کی قوت آجاتی ہے۔
حکمت وقوف مشعرحرام:
مشعر حرام مزدلفہ کا نام ہے طلوع فجر کے بعد تھوڑی دیر تک یہاں ذکر الٰہی ضروری ہے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔
(فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام) (البقرہ:۱۹۸)
جب عرفات سے واپس ہو تو مزدلفہ میں اللہ کو یاد کرو۔
یہاں اہل جاہلیت ٹھہر کر اپنے آباء واجداد کے کارنامے بیان کیا کرتے تھے خدا تعالیٰ نے اس کے بدلے ذکر الٰہی کا حکم دیا اور فرمایا کہ اللہ کا شکر ادا کرو اس نے نعمت اسلام سے مشرف فرمایا اور ہدایت وتوفیق اعمال صالحہ عطا فرمائی اس کی حکمت تشریع بھی وہی ہے جو وقوف عرفہ کی ہے یعنی مواضع ماثورہ متبرکہ میں یکجا جمع ہو کر دعا مانگنا اور دن اور رات دونوں میں ذکرالٰہی اور توفیق حج وبشارت مغفرت حجاج پر شکر بجا لانا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ کی سنت اور یادگار کو قائم رکھنا۔
حکمت قیام منیٰ:۔
منیٰ میں ایام نحر وتشریق میں مقیم رہنا ضروری امر ہے اور اس کا فائدہ وحکمت وہی ہے جو فوائد حج کے عنوان سے گذر چکی ہیں مثلاً۔ ۱) امتثال امر واتباع سنت ۲)ذکر الٰہی۔ ۳)اجتماع وتعارف ومذاکرہ امور مفیدہ عامہ۔ ۴) فوائد تجاریہ وسیاسیہ وغیرہ۔
حکمت رمئی جمرات:۔
رمی جمرات بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور خدا تعالیٰ کو یاد کرنے کا ایک طریقہ ہے اس کا فائدہ وثواب ہے جو امتثال امر الٰہی، اتباع سنت اور ذکر الٰہی کا ہے اور حکمت تشریع یہ ہے۔
۱) اقامت ذکر الٰہی جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے: ’’انما جعل الطواف بالبیت وبین الصفا والمروۃ ورمی الجمار لاقامۃ ذکراللہ‘‘ (ابوداؤد،ترمذی) کعبہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی اور رمی جماریہ سب باتیں مختلف طریقوں سے اللہ کو یاد کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔
۲) خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے (واعدوالہم ما استطعتم من قوۃ) (الانفال:۶۱) اور تم سے جس قدر ہو سکے ان (کافروں کے مقابلہ) کے لئے طاقت کا سامان مہیا کرو اور حدیث میں آیا ہے:’’الا ان القوۃ الرمی‘‘(مسلم) خبردارطاقت کی بڑی چیز نشانہ بازی ہے، لہذا رمی جمرات سے اس حکم الٰہی کی یاد دہانی بھی مقصود ہے کہ حج سے فارغ ہو گئے تو اب جہاد کی تیاری شروع کردو۔
۳) اس میں تعلیم بھی ہے کہ دشمنوں کے مقابلہ میں سب سے ضروری چیز اتحاد واتفاق ہے اور مرد وزن وبچہ کا عملی اشتراک ہے اگر ساری قوم متحد ہو کر کسی کا مقابلہ کرے تو وہ ضرورکامیاب ہو گی خواہ اس کے پاس پتھروں کے سوا اور کچھ نہ ہو۔
حکمت حلق وتقصیر:۔
احرام کی حالت رفع کرنے کے لئے جو باتیں ضروری ہیں ان میں ایک حلق یا تقصیر یعنی سر منڈانا یا بال کتروانا بھی ہے اس کی حکمت تشریع یہ ہے۔
۱) انسان حج کرکے نوزائیدہ بچے کی طرح گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے، لہذا جس طرح ولادت حقیقی کے بعد عقیقہ میں سر منڈانا مسنون ہے اسی طرح حج کے بعد بھی ظاہری میل کچیل اور پریشان بالوں کا ازالہ واجب کیا گیا ہے جو معقول ومناسب بات ہے۔
۲) اقوام سابقہ کی عادات اور شرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں سرمنڈانا گردن کٹوانے کا قائم مقام سمجھا جاتا تھا اور ایمان باللہ کی یہ شرط کہ دین حق کسی حالت میں جہ چھوڑوں گا گرچہ قتل کر دیا جاؤں اس کا اظہار وہ مشاعر پر سر منڈانے سے کرتے تھے سر کے بال کو وہ لوگ سر کے برابر معزز سمجھتے تھے اور اب بھی اکثر لوگوں کو سر کے بال بہت عزیز ہوتے ہیں اور ان کا منڈانا ان کو شاق گذرتا ہے حج میں سر کے بالوں کو خوشی خوشی منڈانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی عزیز ترین چیز خدا کی راہ میں دے دینی چاہئے۔
حکمت قربانی:۔
قربانی صرف مناسک حج ہی میں مخصوص نہیں ہے بلکہ عیدالاضحی میں ہر جگہ اس کا اجراء مسلمانوں کا شعار ہے مگر حج کے ساتھ اس کو خاص مناسبت ضرور ہے اس لئے یہاں ذکر کیا جاتا ہے قربانی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت اور یادگارہے۔
واقعہ قربانی:۔
اس کا قصہ قرآن مجید میں اس طرح مذکور ہے:
(فبشرنہ بغلام حلیم فلما بلغ معہ السعی قال یبنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تریٰ قال یا أبت افعل ما تومر ستجدنی ان شاء اللہ من الصبرین فلما اسلما وتلہ للجبین ونادینہ ان یا براہیم قد صدقت الرویا انا کذلک نجزی المحسنین ان ہذا لہو البآؤاء المبین وفدینہ بذبح عظیم وترکنا علیہ فی الآخرین) (الصافات: ۱۰۱تا۱۰۸)
ہم نے ابراہیم کو ایک برد بار بیٹے کی بشارت دی جب لڑکا ان کے ساتھ دوڑنے کے قابل ہوا تو ابراہیم نے کہا، بیٹا میں نے خواب دیکھا ہے کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں اب تم کیا کہتے ہو اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ کو جو حکم الٰہی ہوا اس کی تعمیل فرماےئے مجھے ان شاء اللہ آپ صابر پائیں گے جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے اس کو پکارا کہ اے ابراہیم واقعی خواب کو تونے سچا کر دکھایاہے ہم نیک بندوں کو اسی طرح آزما کر رفع درجات کا بدلہ دیتے ہیں بیشک یہی تو ظاہر ظہور آزمائش ہے اور ہم نے اس کے بدلے میں بڑی قربانی کر دی اور اس کو پچھلے لوگوں میں قائم رکھا۔
فوائد کی تفصیل:۔
قربانی کے فوائد اور حکمتیں بے شمار ہیں (۱) امتثال امر باری تعالیٰ (۲) اتباع سنت نبی اکرم ﷺ (۳) احیائے سنت ابراہیم علیہ السلام (۴) فدیہ اسماعیل علیہ السلام پر خدا کا شکر (۵) ایام نحرو تشریق میں جن کو حدیث میں ایام ضیافت وتنعم فرمایا گیا ہے فقراء ومساکین کے ساتھ سلوک اپنے اہل وعیال اور دوستوں کی تفریح ومہمانی (۶) اظہار نعمت خدا تعالیٰ کا شکر (۷) ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کروں گا اگر چہ اس میں میری جان چلی جائے اس کی مشق اس طرح ہوتی ہے کہ ایک جانور اپنی اولاد کی طرح پالا جائے اور حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے ہاتھ سے ذبح کر دیا جائے اور اس وقت یہ خیال رہے کہ اپنی اور اپنی اولاد کی جان بھی اسی طرح خدا کی راہ میں دے سکتا ہوں قربانی کا اصل فائدہ مقصد یعنی مسلمانوں کا صرف جانوروں کی خونریزی نہیں بلکہ اصلی غرض امتثال امر الٰہی اور ذکر الٰہی وتکبیر الٰہی اور اشاعت واقامت شعائر اللہ ہونا چاہئے۔
ذی الحجہ کا مہینہ کئی ایک ایمان افروز واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ کہ جن واقعات سے مسلمانوں کے دلوں میں صبرواستقامت اور ایثار وقربانی کا جذبہ گزیں ہوتا ہے۔ انہیں واقعات سے اللہ کے ایک برگزیدہ بندے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سیرت کے چند پہلو قارئین کے سامنے عیاں کریں گے۔ کیونکہ ابراہیم خلیل علیہ السلام اللہ کے ان برگزیدہ بندوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے اللہ رب العزت کی محبت کی خاطر اللہ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹانے کا ارادہ فرمایا تھا۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کے اندر ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ بڑے ہی پیار اور محبت کے ساتھ کیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے تذکرے میں پیار کی ایک خصوصی جھلک اور مٹھاس پائی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کو یہ مقام بلند اس لئے ملا کہ جتنی آزمائشیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ڈالی گئی کسی اور پر اس قدر آزمائشیں نہیں ڈالی گئیں۔ ابراہیم علیہ السلام وہ جلیل القدر انسان تھے جو ان لاتعداد اور بے شمار امتحانوں اور آزمائشوں میں بڑی کامیابی سے سر خرو ہوئے۔ اللہ رب العزت نے انعام یہ دیا کہ’’إنی جاعلک للناس اماما‘‘ میرے ابراہیم میں تجھ کو کائنات کے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں(البقرہ:۱۲۴)
ابراہیم علیہ السلام کی اپنے باپ آزر کو دعوت توحید:۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ یکسر شرک وکفر، بت پرستی اور بت فروشی کا دورتھا۔ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ آزر بہت بڑا بت تراش اور بت فروش تھا۔ چنانچہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے باپ کو توحید کا وعظ کیا فرمایا:’’یا بت لم تعبد مالا یسمع ولا یبصرولا یغنی عنک شےئا‘‘ اے ابا جی! آپ ایسی چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں، نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کسی کام آسکیں۔ (مریم:۴۲)
دوسرا مقام ’’یا بت انی قد جآئنی من العلم مالم یاتک فاتبعنی اہدک صراطا سویا‘‘ میرے مہربان باپ آپ دیکھئے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں تو آپ میری بھی مانیں۔ میں سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا (مریم:۴۳) یا بت لا تعبد الشیطن‘‘ اے ابا جی شیطان کی عبادت نہ کیجئے، تو رحم وکرم کرنے والے خدا کا بڑا ہی نا فرمان ہے۔ (مریم:۴۴)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا جواب:۔
أراغب انت عن ألہتی یا إبراہیم‘‘اے ابراہیم کیا تو ہمارے معبودوں سے برگشتہ ہے لئن لم تنتہ لارجمنک واحجرنی ملیا۔ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر سنگسار کردوں گا مجھ سے علیحدہ ہوجا۔ (مریم:۴۶) ابراہیم علیہ السلام سلام علیک کہہ کر اپنے باپ سے علیحدہ ہو گئے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اپنی قوم کو دعوت توحید:۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے بعد اپنی قوم کو توحید کا وعظ کیا فرمایا اے میری قوم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ان بتوں کو نہ پوجو جو تمہیں نہ نقصان دے سکتے ہیں او ر نہ فائدہ قوم کے لوگ کہنے لگے’’ بل وجدنا اباء نا کذلک یفعلون‘‘ ہم کچھ نہیں جانتے ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو انہی کی عبادت کرتے ہو ئے پایا ہے (انبیاء:۵۳)۔ لہذا ہم تو انہیں کی عبادت کریں گے۔ موجودہ دور کے قبر پرست غالی لوگ بھی یہی کہتے ہی کہ جو دین باپ دادا کا وہی ہمارا وہ جان لیں کہ یہ بات کافروں اور مشرکوں والی ہے یہ موحدوں والا طریقہ نہیں ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کو اپنی قوم کو جواب:۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’لقد کنتم أنتم وأبائکم فی ضلل مبین‘‘ پھر تم اور تمہارے باپ دادا سبھی یقیناًکھلی گمراہی میں مبتلا رہے۔ (انبیاء:۵۴)۔
دوسرا مقام ’’أنتم وأباؤکم الاقدمون ۔فإنہم عدولی إلارب العلمین‘‘ تم اور تمہارے اگلے باپ دادا، وہ سب میرے دشمن ہیں بجز اللہ تعالیٰ کے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (شعراء:۷۷۔۷۶)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شرک سے بیزاری:۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو رب کی پہچان کرنے کے لئے کئی طرح سے وعظ کیا چنانچہ ایک بار جب رات کی تاریکی چھا گئی، انہوں نے ایک ستارہ دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے سو جب وغروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا لا احب الا فلین میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا۔ پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے سو جب وہ بھی غروب ہو گیا، آپ نے فرمایا ’’یقوم انی بری مما تشرکون‘‘ اے میری قوم بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں (انعام:۷۶تا۷۸)
دوسرے مقام پر فرمایا’’وما ان من المشرکین‘‘ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں (انعام:۷۹)
سورۂ نحل میں اللہ فرماتے ہیں ’’إن إبراہیم کان أمۃ قانتا للہ حنیفا ولم یک من المشرکین‘‘ بے شک ابراہیم پیشوا اور اللہ کا فرمانبردار اور یک طرفہ مخلص تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔ سورۂ مریم میں ہے ’’ واذکرفی الکتب ابراہیم إنہ کان صدیقا نبیا‘‘ ذکر کرو اس کتاب میں ابراہیم کا بیشک وہ بڑے سچے نبی تھے۔ (مریم:۴۱)
جھوٹے معبودوں کی درگت:۔
ایک وقت آیا جب قوم اپنے سالانہ میلے کو منانے کے لئے چلی، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کہنے لگے تم بھی ہمارے ساتھ چلو ابراہیم علیہ السلام نے ایک نگاہ ستاروں کی طرف اٹھائی اور کہا انی قیم میں تو بیمار ہوں، اس پر سب ان سے منہ موڑتے ہو واپس چلے گئے۔
وضاحت:۔
(آپ نے جو فرمایا میں بیمار ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب موحد شرک دیکھتا ہے تو اس کی طبیعت بوجھل بن جاتی ہے وہ اپنے آپ کو بیمار محسوس کرتا ہے) جب سب لوگ چلے گئے حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموشی کے ساتھ ان کے معبودوں کے پاس گئے کہ دیکھا طرح طرح کے کھانے ان کے سامنے ہیں کہا الا تاکلون تم کھاتے کیوں نہیں مالکم لا تنطقون تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ بات تک نہیں کرتے، پھر پوری قوت کے ساتھ دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے کسی کی ٹانگ توڑی کسی کا بازو اور کسی کا سرتن سے جدا کیا۔ ہر طرح سے انہیں تہس نہس کرنے کے بعد کھانے وغیرہ ان کے سامنے بکھیر کر کلہاڑی سب سے بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔ قوم کے لوگ شام کو میلے سے واپس لوٹے دیکھا تو نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔ جتنے بت تھے سب ٹوٹے ہوئے سب سے بڑا بت صحیح سلامت ہے کہنے لگے یہ ہمارے معبودوں کا ایسا حلیہ کس نے کیا ہے۔ (یہاں اندازہ کیجئے کہ مشرک کی عقل وبصیرت کیسے زائل ہوتی ہے) یقیناًوہ ظالموں سے ہے بعض لوگ کہنے لگے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ سب نے کہا ٹھیک ہے اسے بلاؤ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلایا گیا کہنے لگے ابراہیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کا یہ حشر کیا ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام جواب دیتے ہیں ’’بل فعلہ کبیرہم ہذا فسئلوہم إن کانوا ینطقون‘‘ بلکہ اس کام کو ان کے اس بڑھے نے کہا ہے کہ تم اپنے ان خداؤں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو چاہتے ہی یہی تھے کہ کوئی مجمع لگے اور میں ان کو توحید کا وعظ کروں اور ان کی غلطی ان پر واضح کردوں۔ اللہ فرماتے ہیں پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہو گئے کہنے لگے ظالم تم ہی ہو پھر سر ڈال کر کچھ سوچ کر باوجود قائل ہوجانے کے کہنے لگے ’’لقد علمت ما ہو لاء ینطقون‘‘ تمہیں معلوم ہے یہ بولنے چالنے والے نہیں اس پر سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام نے فرمایا ’’افتعبدوں من دون اللہ ما لا ینفعکم شےئا ولا یضرکم‘‘ کہا تم ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچا سکیں اور نہ نقصان تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو۔ افلا تعقلون کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں۔ یہ بولنے چالنے والے نہیں تو نفع کیسے دے سکتے ہیں۔ پھر قوم کے لوگ کہنے لگے حرقوہ وانصرواالہتکم ان کنتم فعلین اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کا بادشاہ سے مناظرہ:۔
ابراہیم علیہ السلام بادشاہ کے دربار میں پہنچے تاکہ اسے بھی توحید الٰہی کی دعوت دی جائے۔ مگر وہ بادشاہ نمرود رب کے بارہ میں جھگڑرہا تھا۔ ابراہیم خلیل علیہ السلام کا اس سے مناظرہ ہوا، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ’’ربی الذی یحیے ویمیت‘‘ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، نمرود کہنے لگا انا احی وامیت میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ لہذا اس نے یہ کہہ کر دو شخصوں کو بلوایا جس کو چھوڑنا تھا اسے قتل کر دیا اور جو واجب القتل تھا اسے چھوڑ دیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے دوسری دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا ’’فان اللہ یاتی بالشمس من المشرق فات بہا من المغرب (البقرہ:۲۵۸) اللہ سورج کو مشرق کی طرف سے لاتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لا۔ اب وہ کافر حیران رہ گیا۔ یہ اس کی کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل تھی جس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکا اور کہنے لگا اسے جلا دو۔ کیونکہ جب اقتدار دلائل سے عاجز آجاتا ہے تو پھر حق کی آواز کو دبانے کے لئے حق گو کو مٹانے کا مندوبہ بنتا ہے۔ اور اسی لئے نمرود اور اس کی قوم نے اپنے دیوتاؤں کی تحتیر کا انتقام لینے کیلئے حضرت خلیل علیہ السلام کو دہکتی ہوئی آگ میں جلانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ اس بات پر اتفاق ہو جانے کے بعد پھر ایک بہت بڑا گڑھا کھودا گیا اور لکڑیاں جمع کی جانے لگیں یہاں تک کہ بیمار عورتیں بھی یہ نذر مانتیں تھیں کہ اگر انہیں شفاء ہو جائے تو وہ ابراہیم کو جلانے کیلئے لکڑیاں لائیں گی۔ پھر اس گڑھے کو لکڑیوں سے پر کرکے لکڑیوں کا انبار کھڑا کرکے اس میں آگ لگائی گئی۔ روئے زمین پر اتنی بڑی آگ نہیں دیکھی گئی۔ جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے، اس کے قریب جانا مشکل ہو گیا تو ایک کردی فارسی کے مشورے سے جس کا نام ہیزن تھا ایک جھولا تیار کیا گیا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بٹھا کر دور ہی سے آگ میں پھینک دیا گیا۔ جھولا تیار کرنے والے شخص کو اللہ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ زمین کے اندر دھنستا رہے گا۔ (تفسیر ابن کثیر مترجم جلد سوم ص ۳۸۳) ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں گرتے وقت فرمایا ’’حسبی اللہ ونعم الوکیل، اللہ تو ہی کافی ہے‘‘ تو ہی بچانے والا ہے تو ہی مددگار ہے۔تب اللہ نے حکم دیا’’قلنا ینار کونی بردا وسلما علی ابراہیم‘‘ (الانبیاء:۶۹) اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لئے سلامتی اور آرام کی چیزبن جا اے نار گلزار بن جا اتنی بھی ٹھنڈی نہ ہونا کہ میرے ابراہم کو سردی لگ جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پوری قوم اور حکومت سے ہراساں نہ ہوئے تو آج ملت ابراہیم کیوں ہراساں ہے؟ اس کا جواب کسی نے کیا ہی خوب دیا ہے کہا؂
آج بھی ہو جو براہیم کا سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت:۔
اب مشرک قوم نے اپنے تر کش کے سب تیر آزما لئے تو آخری تیر کے طور پر جو تیر آپ پر پھینکا وہ یہ تھا کہ کسی طرح خلیل علیہ السلام کو وطن چھوڑنے پر مجبو رکردیا جائے۔ چنانچہ حضرت خلیل علیہ السلام نے ہجرت کرتے وقت اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا : ’’إنی ذاہب إلی ربی سیہدین‘‘ میں تو ہجرت کرکے اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ یہ کہہ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام ہجرت کرکے چلے گئے۔ آپ کا گزر ایک ایسے علاقے سے ہوا جس کا بادشاہ بڑا ظالم اور بد کار تھا۔ اس نے حضرت ابراہیم اور حضرت سارا کو بلا لیا اور ان کو علیحدہ کر دیا اور پھر حضرت سارا کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا۔ حضرت سارا نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے اس ظالم سے بچا دعا کرنے کی دیر تھی کہ اسی وقت اس کو اللہ کے عذاب نے پکڑ لیا۔ پاؤں اینٹھ گئے، ہاتھ مڑ گئے، گھبرا کر عاجزی کرنے لگا۔ اے نیک عورت اللہ سے دعا کر کہ وہ مجھے چھوڑدے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تجھے ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ حضرت سارا نے دعا کی وہ اچھا ہو گیا۔ اچھا ہوتے ہی پھر برائی کا قصد کیا۔ اب پہلے سے بھی زیادہ سخت عذاب نازل ہوا۔ پھر عاجزی کرنے لگا۔ غرض پے درپے تین مرتبہ یہی ہوا۔ تیسری دفعہ ٹھیک ہوتے ہی ہاجرہ کو اس کے ہمراہ کردیا۔ حضرت سارا اماں ہاجرہ کو لیکر ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آہٹ پاکر نماز سے فراغت حاصل کی حضرت سارا نے کہا اللہ نے اس کافر کے مکر کو اسی پر لوٹا دیا اور ہاجرہ میری خدمت کے لئے آگئیں۔
ابراہیم کی اللہ سے نیک اولاد کی فرمائش:۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر کوئی اولاد نہ تپی انہوں نے اپنے رب سے دعا کی رب ہب لی من الصلحین‘‘ اے میرے رب مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔ تو اللہ نے فرمایا: فبشرنہ بغلم حلیم۔ ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی خوشخبری دی (الصفت:۱۰۰)
مشرکین کا عقیدہ:۔
موجودہ دور کے مشرکین کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کئی بزرگ ہستیاں اولاد دینے پر قادر ہیں مثلا کوئی صاحب قبر،پیر،ولی وغیرہ۔ جبکہ ایسا عقیدہ رکھنا سراسر قرآن وحدیث یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمودات کے خلاف ہے اور یہ شرک عظیم ہے اور شرک کا ارتکاب کرنے والے کے بارے میں فرمان الٰہی ہے ’’ان اللہ لا یغفر أن یشرک بہ ویغفرمادون ذالک لمن یشاء (النساء:۱۱۴)
بے شک اللہ کے ہاں شرک کی بخشش نہیں، اس کے سوا سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جس کو وہ معاف کرنا چاہے۔
لہذا ایسے شرکیہ عقائد سے توبہ کرنی چاہئے اور پھر کائنات میں نبی سے بڑھ کر کوئی انسان افضل اور اعلیٰ نہیں، انہوں نے بھی اگر کچھ مانگا تو اللہ سے ہی جیسے زکریا علیہ السلام نے اللہ سے نیک فرزند کی دعا کی تو اللہ نے نیک اور صالح بیٹے یحیےٰ علیہ السلام کی خوشخبری دی اور موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی ’’رب إنی لما أنزلت إلی من خیر فقیر‘‘ اے پروردگار تو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔ یہ چند باتیں ہم نے اصلاح کے لئے لکھیں اب ہم پھر اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔
انوکھی آزمائش:۔
بچہ پیدا ہوتے ہی ایک اور آزمائش حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آن پڑی اللہ نے حکم دیا اے میرے خلیل اس دودھ پیتے بچے کو اور اس کی ماں کو بواد غیرذی زرع میں چھوڑ آؤ، خلیل علیہ السلام نے سر موانحراف نہ کیا۔ اونٹنی پر سوار ہوئے بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لیا اور اس بستی کی تلاش میں چل نکلے۔ جب صحرا میں پہنچے دیکھا یہاں پانی کا کوئی نام ونشان نہیں اور نہ کوئی سایہ دار درخت ہے اور نہ ہی کوئی انسان نظر آتا ہے۔ سمجھ گئے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اللہ نے بیوی اور بچے چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ بیٹے کو اماں ہاجرہ کی گود میں بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر آپ علیہ السلام واپس جانے کے لئے مڑے۔ اونٹنی پر سوا ہوئے، اماں ہاجرہ آوازیں دینے لگیں کہ اے اللہ کے خلیل علیہ السلام ہمیں اس دہشتناک جنگل میں تنہا چھوڑکر آپ کہاں جا رہے ہیں۔ یہاں ہمارا کوئی مونس وہمدم نہیں۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ نہ کی اور نہ منہ موڑ کر دیکھا۔ اماں ہاجرہ کے بار بار کہنے پرجب آپ نے التفات نہ فرمایا تو ہاجرہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں آپ ہمیں کسے سونپ کر جا رہے ہیں آپ نے کہااللہ کو حضرت ہاجرہ فرمانے لگیں ’’اللہ الذی امرک بہذا‘‘ بخاری‘‘ کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے! فرمایا ہاں! مجھے اللہ نے یہ حکم دیا ہے۔ سن کر حضرت ہاجرہ لوٹ گئیں اور اپنے کلیجے کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سرور کو گود میں لے کر اس سنسان وادی میں اللہ پر متوکل ہو کر بیٹھ گئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ کے پاس پہنچے اور یہ معلوم کر لیا کہ اب ہاجرہ پیچھے نہیں اور وہاں سے یہاں ان کی نگاہ کام بھی نہیں کر سکتی تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی ’’ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم‘‘ اے اللہ میں اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد جنگل میں تیرے برگزیدہ گھر کے پاس چھوڑ آیا ہوں تاکہ وہ نماز قائم کریں انہیں پھلوں کی روزیاں دے۔ تو لوگوں کو ان کے دلوں کی طرف مائل کر دے شائد وہ شکر گزاری کریں (تفسیر ابن کثیر مترجم، جلد او ص ۲۰۳)
ایک اور آزمائش:۔
جب بچہ پرورش پانے لگا، کھیلنے کودنے لگا تو اللہ کی طرف سے ایک اور کام میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو آزمایا گیا۔ حکم ہوا! اے ابراہیم علیہ السلام اپنے جگر گوشہ کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرو۔ ماں باپ کو اولاد سے بڑھ کر پیاری کوئی نہیں ہوتا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم خداوندی بجا لانے کے لئے تیار ہو گئے، دیکھا ننھا اسماعیل حرم کے پڑوس میں کھیل رہا ہے۔ حضرت خلیل علیہ السلام بیٹے سے ملے، سینے سے لگایا پھر فرمانے لگے: ’’یبنی إنی أری فی المنام أنی أذبحک فانظر ماذا تریٰ‘‘ (الصفت:۱۰۲) اے ابا جی جو حکم کیا جاتا ہے اسے بجالاےئے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ابا جی پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے چھری ہاتھ میں لیجئے مجھے ذبح کرکے اللہ کو راضی کر دیجئے، ان شاء اللہ میرا صبر آپ کو خوش کر دے گا۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی
ابراہیم علیہ السلام اور اسمٰعیل علیہ السلام پھر آگے بڑھے قرآن کے الفاظ ہیں فلما أسلما وتلہ للجبین‘‘ جب دونوں مطیع ہو گئے اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔ ادھر خلیل علیہ السلام نے اپنے پیارے لخت جگر کی گردن پر چھری چلائی ادھر اللہ نے فرمایا اے ابراہیم علیہ السلام! قد صدقت الرئیا یقیناًتو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ اپنی چھری کے نیچے دیکھو تو سہی کون ہے۔ حضرت خلیل نے دیکھا کہ اسماعیل مسکرا رہے ہیں اور جنت سے آیا ہو دنبہ پڑا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں إنا کذالک نجزی المحسنین ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بہتر بدلہ دیتے ہیں۔ کیا بدلہ دیتے ہیں ؟ وترکنا علیہ فی الآخرین‘‘ اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔ نبی ﷺ سے پوچھا گیا یہ قربانیاں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہی سنۃ ابیکم ابراہیم یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے۔ (ابن ماجہ مترجم، جلد سوم، ص ۱۶)

No comments:

Post a Comment