Friday 8 July, 2011

تقریب نکاح editorial April 2011

شعور وآگہی
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری
تقريب نكاح
انسانی معاشرہ کی تشکیل اور اس کی بقا کے لئے توالد وتناسل کا سلسلہ ناگزیر ہے، اس مقصد کے حصول کی خاطر بنو آدم نے مختلف طریقے اختیار کررکھے ہیں۔
کفار مکہ کے وثنی سماج میں رائج نکاح کے بعض رسوم بڑے قبیح تھے، ایک شریف الطبع انسان جنہیں قبول کر ہی نہیں سکتا، پھربھی مکی معاشرہ ان کا عادی ہوچکا تھا۔
اسلام نے ان مذموم عادات و رسوم کو ختم کرکے نکاح کا وہ شریفانہ انداز برقرار رکھا جو ہمارے یہاں رائج ہے، جس کے مطابق طرفین میں سے کسی ایک کی جانب سے پیغام نکاح دیا جاتا ہے، جسے قبول کرنے کے بعد ایجاب و قبول کی مجلس منعقد کی جاتی ہے، دو معتبر گواہوں کی موجودگی، مہر کی تعیین اور ولی کی اجازت سے یہ تقریب اختتام کو پہونچتی ہے، پھر دولہا اپنے گھر ولیمہ کا اہتمام کرتا ہے، جس سے شادی کی متبرک سنت کی تکمیل ہوجاتی ہے۔
اگر اسی طور طریقہ کو ملحوظ رکھ کر کوئی شادی کی رسم پوری کرلے تو وہ ایک مسنون عقد کہلائے گی۔ لیکن اگر اسلامی اصول و ضوابط کو نظر انداز کرکے غیروں کے ناروا رسوم کو اپناتے ہوئے کوئی شادی انجام پائے تو اسے عقد مسنون کہنے کی جرأت کون کرسکے گا؟
کوئی شک نہیں ملت اسلامیہ تقریب نکاح کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار ہوگئی ہے، خلیجی ممالک میں نوجوانوں پر ایسا دباؤ ڈال دیا گیا ہے، جسے وہ بمشکل برداشت کرپارہے ہیں، شادی کی شرعی استطاعت رکھنے کے باوجود مسرفانہ رسوم کی انجام دہی سے قاصر رہنے کی وجہ سے عقد مسنون خواب بنتا جارہا ہے اور لڑکیاں دارزئ عمر کے عمیق گڈھے میں دفن ہوتی جارہی ہیں۔
برصغیر اور اس کی بناؤٹی مسلم تہذیب سے متاثر ممالک میں لڑکیوں کے سرپرست لڑکے والوں کے جبر کا شکارکچھ اس طرح ہوئے کہ بے جا مطالبات کمر توڑنے لگے اور اب وہ بے بسی کے عالم میں دن بہ دن پست ہوتے جارہے ہیں۔
نکاحی مشکلات میں مستقل اضافہ ہورہا ہے، لڑکے اور ان کے اہل خانہ کی طرف سے زیادتیاں بڑھتی جارہی ہیں، برات کی ناز یبا رسم نئے نئے رنگ اختیار کررہی ہے، جہیز کی مانگ معاشرے کی بگاڑ کے ہر روز نئے قصے سنارہی ہے۔
یہ وہ سخت حالات ہیں جن تقاضہ ہے کہ معاشرہ کے دیندار، بیدار مغز اور حساس افراد اس سماجی بگاڑکے ازالہ کی خاطر کمر بستہ ہوں، سادگی کو رواج دیں، اخراجات میں کمی لانے کی بھر پور کوشش کریں، نکاح کی اہمیت واضح کی جائے اور شادی کے لائق شباب اسلام کے لئے آبرومندانہ عائلی زندگی گذارنے کی سعی مشکورہو۔
ان شاء اللہ خیر وبرکت کے وہی ایام لوٹ آئیں گے جو آج معاشرے سے روٹھ کر بہت دور جاچکے ہیں۔

دعوت إلی اللہ،فضیلت، اسلوب،بعض مشکلات Apr-2011

مطیع اللہ حقیق اللہ مدنی
دعوت إلی اللہ،فضیلت، اسلوب،بعض مشکلات
دعوت إلی اللہ اور وعظ و ارشاد کا عمل انتہائی اہم ترین عمل ہے اسکا مقام و مرتبہ بہت عظیم ہے اسکی شرف و بزرگی کیلئے یہ کافی ہے کہ یہ انبیاء و رسل اور ان کے مخلص و صادق متبعین کا مقام ہے۔
دعوت إلی اللہ خیر و حق اور صدق و عدل کی دعوت ہے اسلئے کہ یہ ایمان باللہ، توحید الوہیت توحید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات کی دعوت ہے ان تمام کے تقاضوں پرعمل کی دعوت ہے۔
دعوت إلی اللہ کی اصل روح یہ ہے کہ تمام بندوں کو تنہا اللہ تعالی کی عبادت کی طرف بلایا جائے، اور صراط مستقیم پر گامزن ہونے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی دعوت دی جائے، ساتھ ہی مکارم اخلاق، محاسن شیم اور صالح اعمال کی طرف بلاتے ہوئے اقامت عدل و انصاف نیز حفظ حقوق کی دعوت دی جائے۔
دعوت و ارشاد یہ ہے کہ ہر سطح پر بقدر استطاعت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کیا جائے، اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین و وصیت کی جائے تاکہ معاشرہ میں اسلامی اخلاق و دینی اقدار کا فروغ ہو خیر کا چلن عام ہو اور شر پنپنے نہ پائے۔
دعوت کا اصل میدان وہ غیر مسلم معاشرہ ہے جنہیں اللہ اور رسول اور معاد (یوم آخرت) کی معرفت حاصل نہیں ہے، یا ان کی معرفت میں کذب و بطلان اور تحریف و تبدیل اور فساد و خرابی کی ایسی آمیزش ہو چکی ہے جس کی وجہ سے حق پر پردہ پڑچکا ہے اور وہ نگاہوں سے اوجھل ہے، با صلاحیت اہل علم دعاۃ کی ذمہ داری ہے کہ دعوت حق و دعوت توحید سے اس ناواقف حق و حقیقت معاشرہ کو اللہ خالق ارض و سماء، خالق کائنات اور اس کے عظیم حق’’ توحید عبادت‘‘ سے آگاہ و آشنا کریں ان کو ان کی اپنی زندگی کی غایت سے روشناس کرائیں،أخروی نجات اور اس کے حقیقی انجام سے آگاہ کریں اور ان پر حجت تمام کریں۔ ساتھ ہی مسلم معاشرہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کریں تا کہ مسلم معاشرہ اپنی تمام تراسلامی خصائص کے ساتھ زندہ و پائندہ اور تابندہ رہے۔
دعوت اور دعوتی امور کی اسی اہمیت کے پیش نظر کتاب اللہ اور احادیث نبویہ میں اس کی فضیلت اور اس کے اجر عظیم کا بیان وارد ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
(ولکل أمۃ جعلنا منسکا ہم نا سکوہ، فلا ینازعنک فی الأمر وادع إلی ربک إنک لعلیٰ ہدی مستقیم)
ترجمہ : اور ہر امت کے لئے ہم نے ایک طریقہ قربانی مقرر کیا ہے، جس کو وہ اپنانے والے ہیں، پس وہ تم سے امر دیں کو نزاع نہ کریں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیں، بلاشبہ آپ سیدھی اور معقول ہدایت پر ہیں۔
اللہ تعالی کا یہ قول دعوت کی فضیلت واہمیت اور اس کے اساسی ضوابط و آداب پر مشتمل ہے:
فلذلک فادع واستقم کما أمرت ولا تتبع أہواء ہم۔
اسی کے لئے آپ دعوت دیجئے اور استقامت اپنائیے جیساکہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور آپ ان کے خواہشات نفس کی پیروی مت کیجئے۔
اس مسلم معاشرہ میں امت داعیہ کا وجود ہونا چاہئے تاکہ وہ داعیانہ کردار کرنے اور رشد و ہدایت عام کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھائے۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے:ولتکن منکم أمۃ یدعون إلی الخیر ویأ مرون بالمعروف و ینہون عن المنکر، وأولٰئک ہم المفلحون(آل عمران)
دعوت کی فضیلت اور داعی کے مقام و مرتبہ کی بلندی کے لئے اللہ کا یہ فرمان کافی ہے:
ومن أحسن قولاً ممن دعاإلی اللہ وعمل صالحاً وقال إننی من المسلمین(حمٓ السجدہ) ترجمہ: اس شخص سے بہتر گفتگو کے اعتبار سے کون ہے؟ جو اللہ کی طرف دعوت دے اور صالح عمل کرے اور کہ بالیقین میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
دعوت إلی اللہ، دعوت الی الاسلام، دعوت إلی التوحید عمل کس قدر باعث اجر و ثواب ہے اس کا بیان احادیث نبویہ میں کچھ یوں ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجا اور انہیں توحید، إقامت صلاۃ اور ادائیگی زکاۃ کی دعوت کا حکم دیا۔
سہل بن سعد الساعدی کی روایت ہے کہ نبی ﷺ خیبر کے روز گفتگو میں فرمایا: پھر وہاں ان یہود کے پاس پہونچنے کے بعد انہیں اسلام کی دعوت دو اور ان کو ان کے اوپر اللہ کے واجب حق (توحید اور اس کے تقاضے) سے آگاہ اور باخبر کرو۔
قسم اللہ کی: اللہ تعالی تمہاری دعوت کی وجہ سے ایک انسان کو ہدایت عطا کردے تو یہ تمہارے لے سرخ چوپایوں(اونٹوں) سے بہتر رہے گا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی اس کے لئے اس کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے مانند اجر ہوگا۔ یہ ان متبعین ہدایت کے اجر و ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔
داعی کے اوصاف:
علم: داعی کو علم وفقہ فی الدین کی گہری معلومات ہونی چاہئے۔ ورنہ جہل کے ساتھ کسی داعی کی دعوت خالص توحید وسنت کی دعوت نہ ہوگی بلکہ بعض ایسے امور کی طرف وہ دعوت ہوگی جو خود منافی ایمان و توحید ہوں گے۔
بصیرت: دین و شریعت کی گہری سوجھ بوجھ کے ساتھ اس کے عواقب پر نظر ہونی چاہئے۔
رفق ولین: داعی کو دعوتی اسلوب میں رفق ونرمی اور گفتگو کی خوش بیانی سے کام لینا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ سخت کلامی سے احتراز کرنا چاہئے کہ اس سے فائدہ کی امید کم ہی ہوتی ہے۔
نرمی کا تعلق زبان کی گفتگو اور اسلوب سے ہے۔ ورنہ دعوت کے مضمون میں نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اصل دعوت توحید ہے تو اس کو بدل کر اصل دعوت اور اس کا موضوع إقامت اعراس اقامت مجالس موالید کو بنا لیا جائے۔
ایسی نرمی جس سے اصل مضمون دعوت ہی متاثر ہوجائے یہ تماشا ہے، دراصل دعوتی اسلوب مدعو کے حالات سے متاثر ہونا چاہئے، جیسا مدعو ہو ویسے اسلوب و انداز اختیار کیا جائے۔
اگر وہ خیرو صلاح کی طرف رغبت رکھتا ہے تو اس کو اساسیات دین و ایمان اور شعائر اسلام اور مکارم اخلاق کی باتیں سادہ و شیریں انداز میں بتا دی جائیں۔
اگر مدعو خیر و فلاح سے اعراض کرنے کی خو رکھتا ہے اسکا جھکاؤ شرور دفتن کی طرف زیادہ ہے تو اسکو بہتر مؤثر انداز میں موعظت کیجائے۔ اسے امور خیر و صلاح میں رغبت دلائی جائے ۔
اگر وہ خیر کی طرف راغب بھی نہیں ساتھ ہی بحث وتکرار کا خوگر ہے تو پھر اسکو دعوت پیش کرنے میں موعظت کے ساتھ بحث و جدال سے بھی کام لیا جائے گا۔ البتہ مسلم داعیہ کا طریقۂ بحث و جدال حسن و جمال کا آئینہ دار ہو۔
ایسے ہی سابقہ الذکر مدعوکے متعلق یہ آیت ہمیں سبق سکھاتی ہے( ادع إلی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی أحسن) اگر انسان اعراض و جہالت کا شکار ہو عناد و مخالفت اور استکبار و مکابرہ اور ظلم و عدوان پر آمادہ ہو تو ان کا معاملہ دیگر ہے ان سے حکومت وقت نپٹے گی اور وہ طریقہ اپنائے گی جو اسلام نے عطا کیا ہے۔ دعوت میں ترتیب اولویات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ الاہم فالأہم سے آغاز کیا جائے گا۔
دعوتی راہ کے مشکلات:دعوتی راہ ایک انتہائی مشکل ترین راہ ہے، اسمیں مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ تقدیری فیصلہ ہے کہ حق و باطل کی کشمکش جاری رہے گی۔ اسلئے دعوت حق کی راہ میں باطل پرست ہمیشہ روڑے اٹکاتے ہیں، شیطان اور اسکی ذریت کے علاوہ خود انسانوں بلکہ اسلام کے نام لیواؤں میں بہت سے طوائف وجماعات ہیں۔ یہ تمام درجہ بدرجہ دعوتی راہ میں مشکلات کے سبب ہیں۔
اساسی مشکلات اور بنیادی دشواریوں کا خلاصہ یہ ہے۔
۱۔ مسلمانوں کی اپنی ذات بھی بعض مشکلات پیدا کرتی ہے۔ انہیں میں منحرفین، شرک و بدعات کے رسیا، اخلاقیات میں پست، معاملات میں بہر نوع برائی کے شکار، بے نماز، نشہ خور، سودی کاروبار میں ملوث وغیرہ۔
۲۔ مسلمانوں کا آپسی اختلاف۔ مسلمانوں کے موجودہ عقائدی، مذہبی فقہی اختلاف نے دعوت پرسب سے زیادہ مضر اثر ڈالا ہے۔ غیر مسلم کبھی حیرت زدہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اسلام قبول کرے تو کس اعتقادی و فقہی مذہب کو اختیار کرے۔
۳۔ گمراہ اور باطل فرقوں کا وجود بھی راہ دعوت کا ایک بہت بڑا روڑا ہے، شیعیت۔ قبوریت و صوفیت اور اس سے بڑھ کر قادیانیت وغیرہ۔ دعوت إلی الاسلام کا وہ سنگ راہ ہے جو دعوت إلی اللہ کے لئے سم قاتل رہے۔
۴۔ دنیا میں اور بالخصوص بر صغیر میں مختلف دیانات کا وجود اس ارضی کائنات پر ان کی حرکت و نشاط اور اس راہ میں ان کی ہر طرح کی مالی اور مادی قربانیاں وغیرہ اور ان تمام کا صحیح دین، دین خالص توحید الوہیت سے حقدو عداوت دعوت کی راہ کا سب سے عظیم سنگ گراں ہے جو راہ حق میں حائل ہے۔
۵۔ اہل علم، اہل صلاح، اصحاب ورع، ارباب تقوی، گروہ علماء ودعاۃ کی قلت بھی کچھ کم مصیبت نہیں ہے، اسی لئے جہل کے مرکب اور قلت علم کے شکار، بلکہ بصیرت و تدبر سے عاری لوگ ضلال و اضلال کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔
۶۔ دنیاوی اعراض کے رسیا لوگوں کی بہتات ہے، ہر کوئی متاع الحیاۃ الدنیاکا بھوکا بھیڑیا ہے جس کو آسودگی ہونے والی نہیں ہے۔ اسی لئے ثمن قلیل کے عوض متاع دین اور علم الکتاب والسنۃ کی خریدو فروخت ہورہی ہے اور یہ سب کچھ دعوت وارشاد کے نام پرکھلے بندوں ہورہا ہے۔
اسی لئے پورا کاروبار دعوت کا خلاصہ’’عاملۃ ناصبہ‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔

صرف اسلام ہی کی پیروی کیوں؟ Apr -2011

ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائک
صرف اسلام هى كى پيروى كيو ں؟
’’تمام مذاہب لوگوں کو اچھے کام کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، پھر ایک شخص کو اسلام ہی کی پیروی کیوں کرنی چاہیے؟ کیا وہ کسی دوسرے مذہب کی پیروی نہیں کرسکتا؟‘‘
تمام مذاہب بنیاوی طور پر انسان کو صحیح راہ پر چلنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن اسلام ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ ہمیں صحیح راہ پر چلنے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے برائی کو خارج کرنے میں عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام انسانی فطرت اور معاشرے کی پیچیدگیوں کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اسلام خود خالق کائنات کی طرف سے رہنمائی ہے، اسی لئے اسلام کو دین فطرت، یعنی انسان کا فطری دین کہا گیا ہے۔ اسلام اور دوسرے مذاہب کا بنیادی فرق درج ذیل امور سے واضح ہوتا ہے:
اسلام اور ڈاکہ زنی کا تدارک
تمام مذاہب کی تعلیم ہے کہ ڈاکہ زنی اور چوری ایک برا فعل ہے۔ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے، پھر اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ اسلام اس تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ کہ ڈاکہ زنی اور چوری برا کام ہے، ایسا سماجی ڈھانچا بھی فراہم کرتا ہے جس میں لوگ ڈاکے نہیں ڈالیں گے۔ اس کے لئے اسلام درج ذیل انسدادی اقدامات تجویز کرتا ہے:
*زکوٰۃ کا حکم:اسلام انسانی فلاح کے لئے زکوٰۃ کانظام پیش کرتا ہے۔ اسلامی قانون کہتا ہے کہ ہر وہ شخص جس کی مالی بچت نصاب، یعنی85گرام سونے یا اس کی مالیت کو پہونچ جائے تو وہ ہر سال اس میں سے اڑھائی فیصد اللہ کی راہ میں تقسیم کرے۔ اگر ہر امیر شخص ایمانداری سے اس پر عمل کرے تو اس دنیا سے غربت،جو ڈاکہ زنی کی اصل محرک ہے، ختم ہو جائے گی اور کوئی شخص بھی بھوک سے نہیں مرے گا۔
*چوری کی سزا: اسلام چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹنے کی سزادیتا ہے۔ سورۂ مائدہ میں ہے:
(وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوٓاْ أَیْدِیَہُمَا جَزَآءً بِمَا کَسَبَا نَکالاً مِّنَ اللہِ، وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمُ)
’’ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ اللہ کی طرف سے ان دونوں کے کئے ہوئے جرم کی سزا ہے۔ اور اللہ بہت طاقتور اور بہت حکمت والا ہے۔‘‘
اس پر غیر مسلم یہ کہہ سکتے ہیں کہ’’20ویں صدی میں ہاتھ کاٹے جائیں؟ اسلام تو ایک ظالم اور وحشیانہ مذہب ہے۔‘‘ لیکن اس کی یہ سوچ سطحی اور حقیقت سے بعید ہے۔
* عملی نفاذ: امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے وہاں جرائم،چوری،ڈکیٹی وغیرہ کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ فرض کریں کہ امریکہ میں اسلامی شریعت نافذ کی جاتی ہے اور ہر امیر آدمی نصاب کے مطابق، یعنی 85گرام سونے سے زائد مال پر ہر سال زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور ہر چور کا ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیا جاتا ہے تو کیا امریکہ میں چوری اور ڈکیتی کی شرح بڑھ جائے گی، کم ہوجائے گی یا اتنی ہی رہے گی؟ یقیناً یہ کم ہوگی۔ مزید برآں یہ سخت قانون ممکنہ چوروں کو ارتکاب جرم سے روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
میں اس بات سے متفق ہوں کہ اس وقت دنیا میں چوری کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر قطع ید کی سزا نافذ کی گئی تو لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے۔ لیکن یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ جونہی آپ اس قانون کو نافذ کریں گے، چوری کی شرح فوری طور پر کم ہوجائے گی، تا ہم اس سے پہلے اسلام کا نظامِ زکوٰۃ کار فرما ہو اور معاشرے میں صدقات و خیرات اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور غریبوں اور ناداروں کی مدد کا جذبہ فراواں ہو اور پھر سزاؤں کا نظام نافذ ہو تو چوری کرنے والا چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا کہ وہ اپنا ہاتھ کٹنے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔ عبرتناک سزا کا تصور ہی ڈاکوؤں اور چوروں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ بہت کم لوگ چوری کریںیا ڈاکہ ڈالیں گے، پھر چند ہی عادی مجرموں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور لاکھوں لوگ چوری اور ڈکیتی کے خوف کے بغیر سکون سے رہ سکیں گے۔ اس طرح اسلامی شریعت کے عملی نفاذ سے خوشگوار نتائج بر آمد ہوں گے۔
عورتوں کی عصمت دری کا سد باب
تمام بڑے مذاہب کے نزدیک عورتوں سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی عصمت دری ایک سنگین جرم ہے۔ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے، پھر اسلام اور دوسرے مذاہب کی تعلیمات میں فرق کیا ہے؟ فرق اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اسلام محض عورتوں کے احترام کی تلقین ہی نہیں کرتا اورخواتین سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی عصمت دری جیسے سنگین جرائم سے نفرت ہی نہیں کرتا بلکہ اس امر کی بھر پور رہنمائی بھی کرتا ہے کہ معاشرے سے ایسے جرائم کا خاتمہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ درج ذیل زریں اصول ملاحظہ کیجیے:
*مردوں کے لئے حجاب: اسلام کے حجاب کا نظام اپنی مثال آپ ہے۔ قرآن مجید پہلے مردوں کو حجاب کا حکم دیتا ہے اور پھر عورتوں کو۔ مردوں کے حجاب(پردہ) کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے:
(قُل لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُواْ فُرُوْجَہُمْ، ذَالِکَ أَزْکیٰ لَہُمْ، اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ)
’’( انے نبی!)مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے بہت پاگیزگی کی بات ہے۔ اور اللہ ان تمام باتوں سے بخوبی واقف ہے جو وہ کرتے ہے۔‘‘
اسلام کہتا ہے کہ ایک شخص کسی غیر محرم عورت کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ فوراً اپنی نگاہیں نیچی کرلے،عورتوں کے لئے حجاب: عورتوں کے حجاب کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے:
(وَقُل لِلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أبْصارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُو جَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَیٰ جُیُوْبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ ءَ ا بَآ ءِہِنَّ أَوْ ءَ ا بَآءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِہِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ اِخْوَٰ نِہِنَّ أَوْ بَنِیٓ إِخْوَٰنِہِنَّ أَوْبَنِیٓ أَخَوَٰتِہِنَّ أَوْ نِسآ ءَہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمٰنُہُنَّ أَوِالتّٰبِعِیْنَ غَیْرَ أُوْلِی اْلْأِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُواْ عَلَیٰ عَوْرَاتِ النِّسَآءِ)
’’ (اے نبی) مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی نمائش نہ کریں سوائے اس کے کہ جو از خود ظاہر ہو۔ اور ان کو چاہیے کہ اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہر پر یا اپنے باپ پر یا اپنے سسر پر یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی (مسلمان) عورتوں پر یا اپنے دائیں ہاتھ کی ملکیت (کنیزوں) پر یا عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے نوکروں پر یا عورتوں کی چھپی باتوں سے نا واقف لڑکوں پر۔ اور وہ (عورتیں) اپنے پاؤں زور زور سے زمین پر مارتی نہ چلیں کہ ان کی زینت ظاہر ہو جائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
حجاب کہ حد یہ ہے کہ تمام جسم ڈھکا ہوا ہو۔ صرف چہرہ اور ہاتھوں کی کلائیاں کھلی رکھی جا سکتی ہیں یہ بات قطعی طور پر غلط ہے چہرہ اور ہاتھوں کی کلائیاں بھی پردہ کے حکم میں داخل ہے اس کو چھپانا ضروری ہے ،اس لئے کہ چہرہ ہی مظہر حسن و جمال ہے اور کلائیوں کا حسن مشہور ہے اس لئے مضمون نگار کا کتاب وسنت کی کی کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ چہرہ اور ہتھیلی رکھی جائے، اس موضوع پر ثقہ علماء کرام کی تحریریں اور ان کے فتاوے موجود ہیں شیخ محمد صالح العثیمین اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہما اللہ وغیرھما(از: مدیر) ۔
اور اگر عورتیں چاہیں تو وہ ان اعضاء کو بھی ڈھانپ سکتی ہیں، تا ہم بعض علماء اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ چہرہ ڈھانپنا بھی لازم ہے۔( اور یہی موقف قرین صواب ہے)۔
*حفاظتی حصار: اللہ تعالیٰ حجاب کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اس کی وضاحت سورۂ احزاب کی مندرجہ ذیل آیت میں کی گئی ہے:
(یَٓأَیّْہَا اْلنَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَٰاجِکَ وَبَنَا تِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ، ذَالِکَ أَدْنَیٰ ٓ أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْ ذَیْنَ، وَکَانَ اللہُ غَفُورًا رَّحِیماً)
’’اے نبی! اپنی بیویوں اوراپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں اوڑھ لیا کریں (جب وہ باہر نکلیں) یہ( بات ) ان کے لیے قریب تر ہے کہ وہ (حیا دار مومنات کے طور پر) پہچانی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے (کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرسکے) اور اللہ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
قرآن کے مطابق حجاب کا حکم عورتوں کواس لئے دیا گیا ہے کہ وہ با حیا عورتوں کے طور پر پہچانی جا سکیں اور چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رہیں۔
* ایک مثال سے وضاحت: فرض کریں، دو جڑواں بہنیں ہیں، دونوں خوبصورت ہیں اور ایک گلی میں جارہی ہیں۔ ان میں سے ایک اسلامی حجاب میں ہے، جبکہ دوسری منی سکرٹ میں ملبوس ہے۔ نکڑ پر کوئی بد معاش کھڑا کسی لڑکی کو چھیڑنے کا منتظر ہے۔ وہ کس سے چھیڑ چھاڑ کرے گا؟ اسلامی حجاب میں ملبوس لڑکی سے یا منی سکرٹ میں ملبوس لڑکی سے؟ ایسا لباس جو جسم کو چھپانے کے بجائے نمایاں کردے وہ بالواسطہ طور پر مخالف جنس کو چھیڑ چھاڑ اور بد کاری کی دعوت دیتا ہے، لہذا قرآن صحیح کہتا ہے کہ حجاب، یعنی پردہ عورت کو چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھتا ہے۔
* عصمت دری کرنے والے کے لئے موت کی سزا: اسلامی شریعت عصمت دری کرنے والے کی سزا موت قرار دیتی ہے۔ غیر مسلم خوفزدہ ہوں گے کہ اتنی بڑی سزا! بہت سے لوگ اسلام کو وحشی اور ظالمانہ مذہب قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ سوچ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ میں نے یہ عام سوال سینکڑوں غیر مسلموں سے پوچھا ہے کہ فرض کیجیے خدا نخواستہ کوئی آپ کی بیوی، آپ کی ماں یا آپ کی بہن کی عصمت دری کرے اور آپ کو منصف بنایا جائے اور جرم کرنے والے کو آپ کے سامنے لایا جائے۔ آپ اس کے لئے کیا سزا تجویز کریں گے؟ سب نے کہا:’’ہم اسے قتل کردیں گے۔‘‘ اور کچھ اس حد تک گئے کہ ’’ ہم اس کے مرنے تک اسے تشدد سے تڑپاتے رہیں گے۔’‘ اب اگر کوئی اس کی بیوی یا بیٹی یا آپ کی ماں کی عصمت دری کرے تو آپ اس مجرم کو قتل کرنا چاہیں گے۔ لیکن جب کسی اور کی بیوی، بیٹی یا ماں کی عصمت دری کی جاتی ہے تو مجرم کیلئے سزائے موت کو وحشیانہ کیوں کہا جاتا ہے؟: آخر یہ دوہرا معیا ر کیوں؟
امریکہ میں عصمت دری کے روز افزوں واقعات:
امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ 1990ء کی ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق عصمت دری(Rape)کے1,02,555مقدمات درج کئے گئے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف 16فیصد مقدمات کا اندراج ہوا یا ان کی رپورٹ کی گئی۔ یوں 1990ء میں پیش آمدہ عصمت دری کے واقعات کی اصل تعداد معلوم کرنے کے لئے 16/100یعنی6.25 سے ضرب دی جائے تو وہ 6,40,968 بنتی ہے۔ اور اگر اس کی مجموعی تعداد کو سال کے 365دنوں سے تقسیم کیا جائے تو روزانہ اوسط1,756نکلتی ہے۔
بعد کی ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اس برس عصمت دری کے اوسطاً1900واقعات روزانہ پیش آئے۔ امریکی محکمہ انصاف کے نیشنل کرائم سروے بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 1996ء میں آبرو میزی کے 3,07,000واقعات کی رپورٹ کی گئی اور یہ اصل تعداد کا صرف 13فیصدتھی۔ اس طرح عصمت دری کے واقعات کی اصل تعداد 9,90,332بنتی ہے جو دس لاکھ کے قریب ہے۔ گویا امریکہ میں اس سال ہر 32 سیکنڈ کے بعد عصمت دری کا واقعہ پیش آیا۔ ہو سکتا ہے اب امریکہ میں ایسے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والے اور دلیر ہو گئے ہوں۔ 1990ء کی ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق وہاں عصمت دری کے جتنے واقعات کی رپورٹ کی گئی ان کے مجرموں میں سے صرف 10فیصد گرفتار کئے گئے جو زانیوں کی کل تعداد کا صرف1.6فیصد تھے۔ اور گرفتار شد گان میں سے بھی 50فیصد کو مقدمے کی نوبت آنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف 0.8فیصد مجرموں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرے لفظوں میں اگر ایک شخص 125مرتبہ یہ جرم کرتا ہے تو اسے صرف ایک بار سزا ملنے کا امکان ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 50فیصد لوگ جن کو ان مقدمات کا سامنا کرنا پڑا انہیں ایک سال سے بھی کم قید کی سزا سنائی گئی۔ اگر چہ امریکی قانون کے مطابق ایسے جرم کے مرتکب افراد کی سزا سات سال قید ہے مگر پہلی دفعہ ایسا گھناؤنا جرم کرنے والے کے ساتھ جج نرمی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک شخص125دفعہ یہ جرم کرتا ہے اور اس کے مجرم ٹھہرائے جانے کا امکان ایک فیصد ہوتا ہے اور اس میں بھی نصف مرتبہ جج نرمی کا رویہ اختیار کرنے ہوئے اسے ایک سال سے بھی کم کی سزادیتا ہے۔
اسلامی شریعت کی برکت:
فرض کریں امریکہ میں اسلامی شریعت کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی عورت کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اپنی نگاہ نیچی کرلیتا ہے۔ اور ہر عورت اسلامی حجاب، یعنی پردے میں رہتی ہے اور اس پورا جسم سوائے ہاتھوں اور چہرے کے ڈھکا ہوتا ہے۔ اس صورت حال کے باوجود اگر کوئی کسی کی عصمت دری کرتا ہے اور مجرم کی سزائے موت دی جاتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح عصمت دری کی شرح بڑھ جائے گی، وہی رہے گی یا کم ہوجائے گی؟ یقیناًشرح کم ہوجائے گی اور یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کا با برکت نتیجہ ہوگا۔
اسلام میں تمام مسائل کا عملی حل:
اسلام بہترین طرز زندگی ہے کیونکہ اس کی تعلیمات محض نظریاتی ہی نہیں بلکہ وہ انسانیت کو درپیش مسائل کے عملی حل بھی پیش کرتا ہیں، لہذا اسلام انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر بہتر نتائج حاصل کرتا ہے۔ اسلام بہترین طرز زندگی ہے کیونکہ یہ قابل عمل عالمگیر مذہب ہے جو کسی ایک قوم یا نسل تک محدود نہیں، اسی لئے دوسرے مذاہب کے مقابلے میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جس کو اپنا کر انسان اپنی شاہراہ حیات بالکل سیدھی بنا کر اخروی زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتا ہے۔ اور اخروی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے۔*

بڑے پیمانے پر خواتین کے ملازمت پیشہ ہونے کی وجہ سے کنبے سماج اور معیشت کا توازن بگڑ گیا ہے؟ Apr-2011

مولانا محمد مظہر اعظمیؔ
بڑے پیمانے پر خواتین کے ملازمت پیشہ ہونے کی
وجہ سے کنبے سماج اور معیشت کا توازن بگڑ گیا ہے؟
اردو زبان و ادب میں مرد عورت کے لئے دو خوبصورت تعبیر صنف قوی اور صنف نازک مشہور و معروف ہے، ان دونوں تعبیروں میں صنفی فرق کے ساتھ تخلیقی اور پیدائشی صلاحیت کی طرف اشارہ اور دونوں کے الگ الگ دائرہ کار کی ایک گونہ وضاحت بھی ہے، کیونکہ تخلیقی فرق علیحدہ علیحدہ دائرہ کار کا متقاضی ہوتاہے، جس کا تجربہ بیشتر لوگوں کو ہے کہ ایک تجربہ کار آدمی کسی کام کو سونپتے وقت متعلقہ شخص کی جسمانی طاقت و قوت کو ملحوظ رکھتا ہے، کسی بچہ سے وہی کام لیتا ہے جو اس کی عمر اور جسمانی طاقت و قوت کے مطابق ہو، کسی نوجوان کو بھی کوئی کام حوالہ کرتے وقت اس کی جوانی اور اس کے امنگ و حوصلہ کو ملحوظ رکھتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ’’عورت‘‘ میں عورت و مرد کے صنفی فرق کو واضح کیا ہے اور مختلف قسم کے فرق کو گنانے کے ساتھ لکھا ہے کہ ہندوستان میں ایک مرد کا اوسط وزن اڑتالیس کلو گرام ہوتا ہے جبکہ عورت اوسطاً بیالیس کلو گرام وزنی ہوتی ہے۔
قرآن کریم فطری اصولوں پر مبنی ہے، کیونکہ اس کا نازل کرنے والا انسان کا خالق اور اس کی فطرت سے واقف ہے، اس نے دونوں کے تخلیقی اور فطری فرق کو ملحوظ رکھا ہے، دونوں کا الگ الگ دائرہ کار متعین کیا اور دونوں کو اسی لحاظ سے ذمہ داریاں عطا کیں اور کہا کہ (الرجال قوامون علی النساء) یعنی مرد عورت پر قوام اور ذمہ دار ہیں، یہ بات اس پس منظر میں کہی گئی ہے کہ جب مرد و عورت ازدواجی زندگی کے مضبوط رشتہ میں جڑ جائیں گے تو دونوں کی ذمہ داریاں اور کام الگ الگ ہوں گے، صنف قوی کا کام اس کی طاقت و قوت کے لحاظ سے اور صنف نازک کی ذمہ داریاں اس کی نزاکت کے اعتبار سے۔
اس تمہیدی وضاحت کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ’’کیا بڑے پیمانے پر خواتین کے ملازمت پیشہ ہونے کی وجہ سے کنبے، سماج اور معیشت کا توازن بگڑ رہا ہے؟‘‘۔
سب سے پہلے ہم کنبہ کے توازن کا جائزہ لیں گے، مگر اس سے پہلے کنبہ کے مفہوم کی وضاحت ضروری ہے، یعنی سب سے چھوٹا کنبہ وہ ہوتا ہے جس میں میاں بیوی اور ان کے بچے ہوتے ہیں۔
اپنے معاشرہ کے اس چھوٹے سے کنبہ کا سنجیدگی سے جائزہ لیجئے جہاں میاں بیوی دونوں ملازمت سے جڑے ہوئے ہیں، بیوی حاملہ ہوتی ہے، مگر ملازمت اسے وقت پر آفس پہنچنے پر مجبور کرتی ہے،چاہے اس کی وجہ سے جس بھی قسم کی بیماریوں اور دقتوں سے دو چار ہو، کیسے کیسے وہ وقت گزارتی ہے اور آفس کے وقت کو کاٹتی ہے اسے وہی جانتی ہے، اس کا اندازہ ساحل پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو نہیں ہوسکتا ۔
پیدائش کا وقت قریب آجاتا ہے، رخصت لے کر آرام کرتی ہے، پیدائش کے بعد سب سے پیچیدہ مسئلہ بچے کی پرورش کا ہوتا ہے، جو ابھی شیرخوار ہے، ملازمت اسے مجبور کرتی ہے کہ بچے کو ایک غیر مانوس اور اجنبی عورت کو حوالہ کرکے چلی جائے، ظاہر ہے یہ اجنبیہ زر خرید ملازمہ ہے، وہ ماں کی غیر موجودگی میں ماں کا رول تو ادا کرسکتی ہے مگر ماں نہیں ہو سکتی، اصل اور نقل کاجو فرق ہر جگہ رہتا ہے وہ یہاں پر بھی بدرجہ اولیٰ رہے گا، بچہ ماں کے آفس جانے کے بعد غیر مانوس گود میں کس طرح شام کرتا ہے، اس کی گریہ وزاری اور آواز میں ماں کی طلب کا جو درد ہوتاہے، اسے لفظوں کے قالب میں نہیں ڈھالا جاسکتا، دوسری طرف ماں آفس کی مفروضہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں مصروف و مشغول ضرور ہوتی ہے، مگر رہ رہ کر بچے کے بلکنے کی آواز اس کے کان میں گونج جاتی ہے، وہ مضطرب ہوجاتی ہے، چہرہ فق پڑجاتا ہے، مگر ملازمت کی زنجیر میں اس آزادیوں کو غلاموں کی طرح جکڑے ہوئے ہیں، بہرحال آفس کا وقت ختم ہوتا ہے اور وہ اپنے لخت جگر کو کلیجہ سے چمٹا لیتی ہے، کبھی کبھی کام زیادہ ہونے کی وجہ سے باس کا حکم ہوتا ہے کہ کام نمٹا کر ہی جانا ہے جس کے لئے آدھا گھنٹہ رکنا پڑتا ہے، ان زائد لمحات میں بچے اور ماں پر کیا گزرتی ہے اور وہ ایک ایک لمحہ کس طرح کاٹتی ہے، اس کا تعلق بیان سے نہیں بلکہ مشاہدہ سے ہے، اگر کسی نے مشاہدہ کیا ہوگا تو اسے اس کا خوب اندازہ ہوگا ۔
بچہ ماں کی کما حقہ ممتا سے محروم ہوکر بڑا ہوتا ہے، اور وہی اس کا مزاج بن جاتا ہے، مگر ممتا سے محرومی کا احساس اس کے کسی نہ کسی گوشہ دماغ میں محفوظ رہتا ہے، پھر وہ وقت آتا ہے جب والدین بچے کی شفقت کے محتاج ہوتے ہیں، مگر قانون فطرت کے مطابق جس طرح بچہ ماں کی شفقت سے محروم رہا اب وہ خود بچے کی شفقت سے محروم رہتے ہیں۔ ع
یہ قانون فطرت ہے کاٹوگے وہی جو بوؤگے
شیشے کی دیوار کے پیچھے بیٹھ کر مت پتھراؤ کرو
اس طرح کنبہ و خاندان میں ممتا کی بنیاد پر جو شفقت و مروت مطلوب ہے وہ مفقود ہوتا ہے، جس کا فقدان اس کی ہیئت و ہیولیٰ بدل دیتا ہے اور کنبہ اپنا فطری توازن کھودیتا ہے۔
مختلف زوجین اور ان کے بچوں کے مجموعہ کو سماج اور سوسائٹی کہا جاتا ہے ، سماج جو ہمارے موضوع کا دوسرا جز ہے ، اس سماج میں زوجین کی مثال ایک سائیکل کی ہے، سائیکل کے وجود اور اس کے چلنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہوں ،دونوں کو شانہ بشانہ کرنے کی صورت میں نہ سائیکل وجود میں آئے گی اور نہ ہی اس سے مطلوبہ مقصد حاصل ہوگا، بالکل ٹھیک اسی طرح زوجین کا معاملہ ہے، ضروری ہے کہ بیوی گھر رہے اورسائیکل کے پچھلے پہیہ کی طرح اپنے دائرہ میں گھوم کر کا م کرے اور مرداگلے پہیہ کی طرح اپنے دائرہ میں رہ کر اپنا فریضہ انجام دے یعنی مرد باہر سے کسب معاش کا مسئلہ حل کرے اور عورت گھر میں رہ کرامور خانہ داری کو انجام دے، بچوں کی پرورش و پرداخت کرے، اس طرح سائیکل کی طرح دونوں اپنے اپنے دائرہ میں کام کریں گے تو جس طرح سائیکل کا وجود باقی رہے گا اسی طرح سماج کا توازن باقی رہے گا، اگر عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کردے گی اور دونوں کے حدود اور دائرہ عمل میں فرق نہیں رہے گا تو ایسی صورت میں سماج سماج نہیں بلکہ جنگل راج ہوجائے گا کیونکہ نہ کوئی حاکم ہوگا اور نہ ہی کوئی محکوم اور معاشرتی و سماجی توازن کے لئے حاکم و محکوم دونوں کا ہونا اور الگ الگ فرائض و ذمہ داریوں کا ہونا ضروری ہے۔
ہمارے موضوع کا تیسرا جز معیشت کے توازن کا مسئلہ ہے، تو اس حقیقت کو ذہن میں مرکوز رکھنا چاہئے کہ معیشت کی پوری ذمہ داری صنف قوی ہونے کے لحاظ سے مرد پر بالکل اسی طرح ہے جیسے عورت کے صنف نازک ہونے کی وجہ سے اس کی ذمہ داری گھر کی چہار دیواریوں میں بچوں کی پرورش و پر داخت ہے، مرد باہر سے کما کر لاتا ہے اور عورت و بال بچوں پر خرچ کرتا ہے، عورت حصول معاش کی فکر سے بے نیاز ہوکر نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ اپنی پوری صلاحیت و قوت صرف اور صرف بچوں کو سنوارنے اور بنانے میں صرف کرتی ہے، مرد بھی مطمئن ہے کہ روزی روٹی کی ذمہ داری میری ہے، برخلاف اس کے اگر عورت بھی ملازمت اختیار کرلیتی ہے اور معاشی فکر پال لیتی ہے تو سب سے پہلے بچوں کی تربیت متاثر ہوگی اور پھر اس کے بعد وہ خود کو کسی طرح اپنے شوہر سے کمتر نہیں سمجھے گی بلکہ بسا اوقات تو بیوی کی تنخواہ زیادہ اور مرد کی کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بیوی اپنے شوہر سے جوتی پر پالش کرواتی ہے اور گھر کے اخراجات کے لئے مرد کو غلام زر خرید بنالیتی ہے نتیجۃً تمام تر خرید و فروخت میں مرد عورت کا محتاج ہوتا ہے اپنی مرضی سے کوئی سامان خرید نہیں سکتا، حصول معیشت کے اس عدم توازن کا اثر شوہر، بچوں اور پورے کنبہ پر مرتب ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ عورت کی ملازمت کنبہ و سماج اور معیشت کے عدم توازن کا بہت بڑا سبب ہے، جس کا مشاہدہ ان دوکنبوں اور سماج کے موازنہ کے ذریعہ بھی ہوسکتا ہے جہاں عورتیں ملازمت پیشہ ہیں اور جہاں ملازمت پیشہ نہیں ہیں بلکہ گھر کی چہار دیواری میں رہ کر بچوں کو اچھا انسان اور ان کو سنوارنے کی دھن میں رہتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عدم توازن اور اس کے برے اثرات کو سمجھنے کی توفیق بخشے۔*

قرآن مجید میں حیرت انگیز سائنسی و دیگر پیشین گوئیاں Apr-2011

ترتیب و تدوین:
مولانا عبداللہ محمدی
قرآن مجید میں حیرت انگیز سائنسی و دیگر پیشین گوئیاں
’’وہ پاک ذات ہے جس نے تمام مقابل قسموں (جوڑے) کو پیدا کیا۔ نباتات، زمین کے قبیل سے بھی اور ان (آدمیوں) میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جن کو لوگ نہیں جانتے‘‘ (36:36)
’’پاک ہے وہ ذات جس نے بنائے جوڑے سب چیزوں کے اس قسم سے جو اگتا ہے زمین سے اور خود ان میں سے اور ان چیزوں میں کہ جن کی ان کوخبر نہیں‘‘ (36:36)
ایک فرانسیسی ڈاکٹر موریس بگائے کی کتاب ’’بائبل قرآن اور سائنس‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔ موریس بگاؤ عیسائی تھا۔ اس نے بائبل میں دی گئی تمام آیات کا تجزیہ کیااور ثابت کیا کہ بائبل میں دی گئی تمام معلومات تخلیق کائنات اور تخلیق انسان کے بارے میں سائنس کی رو سے قطعی طور پر غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ اس نے قرآنی آیات کا بھی اس نظریہ سے متعلق جائزہ لیا اور اسے دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ تمام قرآنی آیات موجودہ سائنسی معلومات سے قطعی طور پر متفق اور ہم آہنگ ہیں۔ بالآخر اس نے اسلام قبول کرلیا۔
جن لوگوں نے کفر کیا ان کی مثال جیسے میدان میں ریت۔ کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے۔ (36:24)۔ یا ان کی مثال ایسی ہے جیسے عمیق سمندر میں اندھیرے۔ ہر طرف اندھیرے ہوں، ایک پر ایک چھایا ہوا اور اپنا ہاتھ بھی دکھائی نہ دے جس کو اللہ روشنی نہ دے اس کو کہیں بھی روشنی نہیں مل سکتی۔ (40-39:24)
کھالیں بدل دیں گے
دوزخ کے عذاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ ہمیشہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ (56:4)۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی بکھری ہوئی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟ ضرور کریں گے اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی (انگلیوں کی) پور پور درست کردیں۔ (4-3:75) کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا؟ پھر لوتھڑا ہوا۔ پھر اللہ نے اس کو بنایا پھر اس کے اعضاء کو درست کیا۔ پھر اس کی دو قسمیں بنائیں۔ مرد اور عورت کیا اس کو اس پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اٹھائے۔ (40-37:75) ان سے نباتات اور خود ان کے اور زمین سے نکلنے والی ہر چیز کے اور جن چیزوں کو تمہیں خبر نہیں سب کے جوڑے بنائے۔ (36:36) ہر چیز کے بنائے ہم نے جوڑے۔ (49:51) یہ تمام انکشافات کہ تکلیف کا احساس کھال میں ہوتا ہے۔ انسان کی قطعی شناخت ان کی انگلیوں کے پوروں سے ہوتی ہے اور دنیا میں کسی دو انسانوں کے انگوٹھے کے نشان آپس میں نہیں ملتے اور ہر چیز کے جوڑے ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں کا علم دنیا میں کسی کو نہیں تھا۔
دو دریاؤں کو ملا دیا
وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا۔ ایک کا پانی
شیریں ہے۔ پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری، چھاتی جلانے والا اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنادی۔ (53:25) اور دونوں دریا مل کر یکساں نہیں ہوجاتے۔ یہ تو میٹھا ہے پیاس بجھانے والا ہے۔ جس کا پانی خوشگوار ہے اور یہ کھاری ہے۔ کڑوا (12:35)اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں ۔ دو نوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ (20-19:55) اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا۔ (54:25) اور اللہ ہی ہے جس نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ (54:24)کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں۔ (44:21) ۔(41:13)
اے گروہ جن و انس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سواتم نکل سکتے ہی نہیں۔ (37:55)(33:55) ۔ اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور کوئی معبود ہوتے تو زمین و آسمان درہم برہم ہوجاتے۔ (22:21) تشکیل کائنات کے لئے یہ انکشاف کہ آسمان دھواں تھا بیسویں صدی کے سائنس دانوں کا نظریہ ہے۔ قرآن مجید میں ا س طرف بھی اشارہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کے کنارے سے نکل جاؤ گویا انسان کے فضائی سفر کی بھی پیشین گوئی ہے۔ یہ انکشاف کہ دو مغرب اور دو مشرق ہیں۔ یہ بھی معلومات قرآن مجید کے ذریعہ 1400سال قبل فراہم کی گئیں جب دنیا اس سے لاعلم تھی۔
بیسویں صدی تک تمام دنیا کے سائنس دانوں کا نظریہ تھا کہ مادہ ناقابل فنا ہے یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ قرآن مجید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انکشاف کیا یہ کائنات دھواں تھی۔ (اب بیسویں صدی میں سائنس دان Big Bang Theory کے قائل ہوئے ہیں) اور یہ اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ تک بنائی۔ وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے۔ (17:55)وہ ذات پاک ہے جس نے جن چیزوں کی تمہیں خبر نہیں ہے جوڑے بنائے ایک نشانی ان میں رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں۔ سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتا رہتا ہے اور یہ اللہ غالب اور دانا کا مقررہ کیا ہوا اندازہ ہے ۔ اور چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کردیں۔ یہاں تک کہ گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے۔ نہ تو سورج ہی سے ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے۔ سب اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔ (40-36:36)
اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اس سے فرمادیتا ہے ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے۔ (82:36)مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے جدھر تم رخ کرو اس کی ذات ہے۔ (115:2) وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جو کوئی کام کرنا چاہے تو ارشاد فرمادیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے۔ اللہ وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان بنائے سورج اور چاند کو کام میں لگادیا۔ ہر ایک ایک معیاد متعین تک گردش کررہا ہے۔(2:13)غور کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (3:16)
کیا انہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کو حکمت اور ایک وقت مقررہ تک کے لئے پید ا کیا ہے اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں۔ (8:30)
اسی نے تمہارے لئے رات اور دن اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا۔ اور اسی کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سمجھنے والوں کے لئے اس میں قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ (12:16) بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں میں قفل لگے ہیں؟ (24:47)
فرعون کی لاش
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی سے ان کا تعاقب کیا۔یہاں تک کہ اس کو غرق کے عذاب نے آپکڑا تو کہنے لگا میں ایمان لایا، جواب ملا۔ اب ایمان لاتا ہے حالانکہ پہلے نافرمانی کرتا رہا۔ تو آج ہم تیرے بدن کو دریا سے نکال لیں گے تاکہ آئندہ آنے والوں کے لئے عبرت ہو۔ (92-90:10)
اول تو عرب قوم اس قصہ سے ہی ناواقف تھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امی (ان پڑھ) تھے۔ قرآن مجید ہدایت کی کتاب ہے اور اس قسم کی معلومات دینے سے اسلام کے فروغ میں کوئی مدد بھی نہیں ملتی تھی۔ بلکہ الٹا مذاق اڑایا جانا ممکن تھاکہ کہاں ہے وہ فرعون کی لاش اور 1300 سال بعد اس کا انکشاف ہوا کہ فرعون کی لاش محفوظ ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر فرعون (Ramses II)کی لاش بیسویں صدی کے شروع میں برآمد ہوئی۔ حکومت فرانس نے حکومت مصر سے فرعون کی ممی (Mumies) عاریتا لیں اور ان کا تجزیہ کیا تو Ranses IIکی لاش میں نمک کے اثرات تھے جس سے ثابت ہوا کہ وہ سمندر میں غرق ہوکر مرا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام خود یہودیوں اور مسلمانوں کے نزدیک ایک جلیل القدر پیغمبر ہیں تورات یہودیوں اور مسلمانوں کے نزدیک مقدس کتاب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس فرعون کے ہم عصر اور اس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے۔ مگر تورات میں یہ انکشاف موجود نہیں۔ کیا کسی انسان کو عرب کے دور دراز خطے میں فرعون کے غرق ہونے کے تقریباً 2000سال بعد یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ فرعون کی لاش محفوظ ہے۔ پوری دنیا میں کہیں اس حیرت انگیز انکشاف کا تذکرہ نہ تھااور قرآن مجید میں اس انکشاف کے 1300 سال بعد فرعون کی محفوظ لاش (Mummy Preserved)برآمد ہوئی۔ فرعون کے غرق ہونے کے تقریباً 3300 سال بعد۔
رومی غالب ہوں گے
تبلیغ اسلام کے بالکل ابتدائی مرحلے میں ایرانیوں نے رومیوں کو ایسی فیصلہ کن شکست دی کہ پوری رومی سلطنت کو تاخت و تاراج کردیا۔ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایرانی آتش پرست تھے یعنی کفار مکہ کے عقیدہ سے قریب تراور رومی اہل کتاب تھے یعنی اسلامی عقیدے سے قریب تر۔ کفار مکہ نے ایرانیوں کی اس فتح پر خوشیاں منائیں اور مسلمان اس سانحہ سے افسردہ تھے کفار مکہ خوش ہوکر مسلمانوں سے کہتے تھے کہ اس طرح تم بھی شکست کھاؤ گے۔ مسلمان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے ان پر کفار مکہ انتہائی مظالم ڈھا رہے تھے۔ گنتی کے چند لوگ ایمان لائے تھے۔ 30-40 کے قریب۔ اس وقت سورۂ روم کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
اہل روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے چند ہی سال میں ۔ (9-10سال میں) پہلے بھی اور پیچھے بھی اللہ ہی کا حکم ہے۔ اور اس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔ (4-1:30)
ان حالات میں غور کریں جو اس وقت درپیش تھے۔ مشہور مؤرخ ایڈورڈگبن لکھتا ہے کہ ایرانیوں کی فتح اس قدر فیصلہ کن تھی کہ کسی کے تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ رومی دوبارہ غالب آجائیں گے۔ کفار کو اس قرآنی پیشین گوئی کے (نعوذ باللہ) غلط ہونے کا اس قدر پختہ یقین تھا کہ امیہ بن خلف نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے 100-100اونٹوں کی شرط لگائی کہ رومیوں کا غالب ہونا ناممکن ہے۔ اگر قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام ہوتا تو اس قسم کی شرط لگانے کا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی جواز تھانا ضرورت۔ اور نہ ہی کوئی ذریعہ۔ پھر اگر یہ پیشین گوئی نعوذ باللہ غلط ہوجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری جدوجہد اور اسلامی تبلیغ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا) یہ سب غلط ثابت ہوجاتا۔ مزید برآں قرآن مجید نے اس پیشین گوئی کا تذکرہ یوں بھی کردیا یعنی اس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔ انتہائی حیران کن طریقے سے رومن دوبارہ ایرانیوں کو ایسی فیصلہ کن شکست دینے میں کامیاب ہوگئے کہ اس کے بعد ہمیشہ کے لئے کسریٰ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
مزید ناقابل یقین پیشین گوئیاں
اے پیغمبر! کافروں سے کہہ دو کہ تم دنیا میں عنقریب مغلوب ہوجاؤ گے اور آخرت میں جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے۔ وہ بری جگہ ہے۔ (12:3)مزید کئی آیات اس مضمون کی۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب کل مسلمان گنتی کے تھے۔ ہاتھوں کی انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے اور مسلمانو ں پر سخت مظالم ڈھائے جارہے تھے۔ دور دور اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا کہ شہر مکہ میں بھی اسلام فروغ پاسکے گا۔
’’اور دیکھو بے دل نہ ہونا اور نہ کسی قسم کا غم کرنا۔ اگر تم مومن صادق ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ (139:3) یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب جنگ احد 3ہجری کو کافر عارضی طور پر مسلمانوں پر غالب آگئے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا تھا۔ 70اکابر صحابہؓ اس جنگ میں شہیدہوگئے تھے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوگئے تھے اور کفار کے سپہ سالار ابوسفیان کی بیوی نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا۔ ان کی لاش کے ناک کان کاٹ دیئے تھے اور ان کی بوٹیوں کا ہار بناکر گلے میں پہن لیا اور ان کا کلیجہ نکال کر کچا چبایا تھا۔
’’تو اے مشرکو! تم زمین پر چار مہینے چل پھر لو ۔ اور جان رکھو تم اللہ کو عاجز نہ کرسکوگے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے(2:9)اس آیات کے نزول کے 4ماہ بعد مکہ بغیر جنگ و خونریزی کے فتح ہوگیا اور اس کے بعد تمام کفار ایمان لے آئے۔ اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گااور تم کو ان پر غلبہ دے گا۔(14:9)مومنو! مشرک پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانۂ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو اللہ چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا اور حکمت والا ہے۔ (28:9) مکی آیات میں بھی ایسی ہی ناقابل یقین پیشین گوئیاں ہیں۔
اگر منافق جو مدینہ میں بری خبریں اڑایا کرتے ہیں اپنے کردار سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو ان کے پیچھے لگادیں گے۔ پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں گے۔ مگر تھوڑے دن۔ (60:33) اس کے بعد کچھ ہی عرصہ بعد سب یہودی جلاوطن کردیئے گئے۔
یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی نصیحت کی کتاب ہوتی تو ہم اللہ کے خالص بندے ہوتے۔ لیکن اب کرتے ہیں سو عنقریب ان کو اس کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندوں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ وہی مظفر و منصور رہیں گے اور ہمارا لشکر غالب رہے گا۔ تو اس وقت تک ان سے اعراض کرتے رہو اور انہیں دیکھتے رہو۔ یہ بھی عنقریب کفر کا انجام دیکھ لیں گے۔(سورۂ صفت (175-167:37)
یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے چراغ کی روشنی پھونک مار کر بجھادیں۔ حالانکہ اللہ اپنی روشنی کو پوری کرکے رہے گا۔ خواہ کافر ناخوش ہی ہوں۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت او ر دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے۔ خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔ (سورۂ صفت (9-8:51) یہ آیت کئی مقامات پر دہرائی گئی۔
سورۂ لہب۔ ۔۔۔ ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا اور اس کی جورو بھی۔ اس کے گلے میں مونج کی رسی۔ یہ بالکل ابتدائی مکی سورت ہے۔ ترتیب نزول میں چھٹی۔ ایک امریکن یہ سورت دیکھ کر ہی ایمان لے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اتنے ابتدائی مرحلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع کون دے سکتا تھا ابولہب حالت کفر میں مرے گا۔ اس سورت کے نزول کے وقت بمشکل 15-20 لو گ ایمان لائے تھے اور بالاخر سارا عرب ایمان لے آیا مگر ابولہب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سگا چچا تھا وہ مرتے دم ایمان نہیں لایا۔ اس امریکی کا کہنا تھا کہ ابولہب کے دل میں یہ بھی خیال نہیں آیا کہ نعوذ باللہ قرآن مجید کو غلط ثابت کرنے کے لئے صرف دکھانے کو ہی کلمہ پڑھ لیتا۔ (دل سے نہیں پڑھتا) کیونکہ اگر کوئی شخص صرف زبان سے کلمہ پڑھ لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ایمان لانا قبول کرلیتے تھے۔ کئی منافقین جو اسلام کے بدترین دشمن تھے انہوں نے زبان سے کلمہ ادا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مسلمان ہونا قبول کرلیا۔ سب سے بڑا منافق (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی تھا۔ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مسلمان ہونا تسلیم کرلیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ عبداللہ بن ابی منافق ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دل کا حال نہیں معلوم۔ اس کا فیصلہ کہ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا ہے یا دل سے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ روز حساب کرے گا۔ مجھے اختیار نہیں کہ کسی کلمہ گو کو (خواہ وہ دل سے اس پر ایمان نہ لائے) کافر قرار دینا میرے اختیار میں نہیں۔ قرآن کو غلط ثابت کرنے کے لئے ابولہب کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ دکھانے کو کلمہ پڑھ لے مگر وہ اور اس کی بیوی دونوں حالت کفر میں نہات اذیت ناک طریقے سے ہلاک ہوئے۔ خود ابولہب کا حال یہ تھا کہ اس سورت کے نزول کے بعد کسی بھی مہم پر مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہ ہوا بلکہ اپنے بدلے کسی اور کو اجرت دے کر جنگ بدر میں لڑنے بھیجا۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تو کہتا تھا کہ قرآن میں میری ہلاکت کی پیشین گوئی ہوچکی ہے جو کبھی غلط نہیں ہوسکتی۔ مگر اس کے بعد بھی ایمان نہیں لایا۔
سورۂ کوثر۔۔۔۔ ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تمہیں کوثر عطا فرمائی۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بے اولاد رہے گا‘‘ (3-1:108) یہ ترتیب نزول کے لحاظ سے پندرہویں سورت ہے۔ گویا بالکل ابتدائی سورت۔ اس کی شان نزول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب اولادیں نرینہ (بیٹوں) کا کم سنی میں ہی انتقال ہوگیا۔ ایک تو مکہ میں کفار کا ظلم وستم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا اس پر یہ اولاد کے انتقال کا غم۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کہ تمہارا اللہ کیسا ہے کہ تمہیں بیٹا بھی نہیں دے سکتا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں تھیں جو زندہ تھیں) تمہاری تو نسل بھی قائم نہیں رہے گی اور بے نام و نشان رہ جاؤ گے (نعوذ باللہ من تلک المھفوات) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے ذریعہ بتایا کہ تمہارا دشمن ہی بے نشان رہے گا۔ چنانچہ حالات سے ثابت ہوا کہ وہ دشمنان اسلام جو بڑے بڑے دولت مند سردار تھے اور کثرت اولاد رکھتے تھے۔ آج دنیا میں کوئی ان کا نام لینے والا نہیں اور اگر ان کا کوئی ذکر ہے تو وہ برے الفاظ میں۔ ان پر لعنت بھیجی جاتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔*

طہارت و نماز کی غلطیاں اورآداب مساجد کے منافی امور Apr-2011

تحریر: شیخ عبدالعزیز بن محمد السدحان
ترجمہ: شیخ محمد سلیم ساجد المدنی
طہارت و نماز کی غلطیاں اورآداب مساجد کے منافی امور
*دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض مقتدی ایسے امام پر تنقید شروع کردیتے ہیں جو قرآن پاک کی ترتیب کے خلاف سورتیں پڑھ لے، بعض نمازی تو اس حد تک تنقید کرتے ہیں کہ جیسے اس نے کوئی حرام کام کردیا ہے، یہ سراسر جہالت ہے، کیونکہ اس بات پر علماء کا اختلاف ہے کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے یا اجتہادی جسے صحابہ کرام نے ترتیب دیا ہے، امام ابن تیمیہ، ابن کثیر اور دیگر اہل علم کے نزدیک سورتوں کی ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجتہاد ہے۔
اس مسئلہ پر فتاویٰ کی دائمی کمیٹی کے سامنے درج ذیل سوال رکھا گیا:
سوال: ایک آدمی نے عشاء کی جماعت کراتے ہوئے پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ تبت پڑھی اور دوسری رکعت میں سورۂ فیل پڑھ لی تو کیا نماز میں ترتیب قرآن کے حوالے سے بعد والی سورت پہلی رکعت میں اور پہلے والی سورت بعد کی رکعت میں پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اس طرح کرنے میں کوئی حرج نہیں نماز درست ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ ترتیب قرآن کا خیال رکھا جائے، لہٰذا پہلی رکعت میں جو سورت پڑھی جائے تو دوسری رکعت میں اس کے بعد والی کوئی سورت پڑھ لی جائے، اللہ ہی نیکی کی توفیق دینے والا ہے۔
*یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب دو آدمی ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو ان میں سے امام مقتدی سے تھوڑا سا آگے ہوکر کھڑا ہوتا ہے، حالانکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس صورت میں امام اور مقتدی دونوں برابر کھڑے ہوں۔
امام بخاری نے اس موضوع پر باب باندھا ہے: ’’باب یقوم عن یمین الامام بحذاۂ سواء اذا کا ن اثنین‘‘ یعنی اگر دو نمازی ہوں تو مقتدی امام کے برابر دائیں جانب کھڑا ہو۔
انہوں نے اس عنوان کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک رات اپنی خالہ میمونہ کے گھر میں تھے ۔۔۔کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سوئے پھر اٹھے اور نماز پڑھنا شروع کردی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب نماز کی نیت کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کرلیا۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث کا لفظ ’’سواء‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ برابر کھڑے ہوئے، نہ آپ کے آگے نہ پیچھے۔
ابن جریج سے روایت ہے، کہتے ہیں میں نے عطاء سے پوچھا: دو آدمی جماعت سے نماز پڑھیں تو وہ کیسے کھڑے ہوں؟ انہوں نے کہا مقتدی امام کے دائیں طرف کھڑا ہو، میں نے پوچھا، کیا بالکل برابر کھڑا ہو جیسے صف ہوتی ہے، ایک دوسرے سے آگے پیچھے نہ ہوں؟ کہا: ہاں! میں نے کہا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملے ہوئے ہوں اور ان کے درمیان فاصلہ نہ ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں! (فتح الباری: ۲؍۱۹۰،۱۹۱)
*بے شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس وقت مسجد میں پہنچتے ہیں جب امام رکوع میں ہوتا ہے، لیکن وہ جس وقت اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جاتے ہیں امام سمع اللہ لمن حمدہ کہہ چکا ہوتا ہے اور وہ تھوڑی دیر زیادہ رکوع میں رہ کر کھڑے ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی رکعت مکمل ہوگئی۔ یہ جہالت ہے،ایسے آدمی کی رکعت نہیں ہوتی، کیونکہ اس نے امام کے ساتھ رکوع میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ اس کے رکوع میں جاتے جاتے امام اٹھ چکا تھا۔
فتاویٰ کی دائمی کمیٹی نے اس بارے میں یہ فتویٰ دیا ہے: جس نے امام کے رکوع سے اٹھتے وقت تکبیر تحریمہ کہی تو بیشک وہ اپنا رکوع کر بھی لے، اس کی یہ رکعت نہ ہوگی، اسی طرح جس نے تکبیر تحریمہ کہی، قیام کیا اور پھر رکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں جاہی رہا تھا کہ امام نے رکوع سے سر اٹھالیا تو اس کی یہ رکعت نہ ہوگی، کیونکہ اس نے امام کو رکوع کی حالت میں نہ پایا، رکعت تب ہوتی ہے جب مقتدی امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہوجائے۔ مذکورہ بالا حالتوں میں مقتدی کے لئے ضروری کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو اور رکعت مکمل کرے، البتہ جس آدمی نے امام کو رکوع میں پالیا یعنی تکبیر تحریمہ کہی پھر رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہوگیا اور سکون و اطمینان کے ساتھ رکوع کیا تو جمہور علماء کے نزدیک اس کی رکعت درست ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’جب تم نماز میں پہنچو اور ہم سجدے میں رہیں تو تم بھی سجدہ کرلیا کرو، لیکن اس کو کچھ بھی شمار نہ کرو، ہاں جس نے رکوع پالیا اس نے نماز پالی، یعنی اس کی رکعت ہوگئی‘‘ (ابوداؤد، حاکم، ابن خزیمہ)
ایک اور حدیث میں ہے :
’’جس نے نماز میں امام کے ساتھ رکوع پالیا اس نے نماز پالی‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)
*دورانِ نماز جب کسی کو یاد آئے کہ وہ بے وضو تھا یا وضو ٹوٹ گیا تو ایسی حالت میں نماز چھوڑنے کے لئے دائیں بائیں سلام پھیرنا درست نہیں ہے، چاہے نماز میں کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، کیونکہ سلام کا تعلق تو نماز کے خاتمہ کے ساتھ ہے، مذکورہ بالا حالت میں جب وضو ٹوٹ جائے یا یاد آجائے کہ وہ بے وضو ہے تو فوراً نماز چھوڑ دے اور وضو کے لئے چلا جائے، ایسے موقع پر سلام پھیرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ حدیث کی روشنی میں سلام کا تعلق نماز کے اختتام سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز شروع ہوتی ہے اور سلام کے ساتھ نماز ختم ہوجاتی ہے‘‘ (احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ)
*بعض نمازی آخری رکعت کا آخری سجدہ اتنا لمبا کردیتے ہیں کہ واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ سجدہ کسی خاص اہمیت کا حامل ہے، بسا اوقات تو یہ سجدہ پوری رکعت کے برابر تک لمبا کردیا جاتا ہے جو خلاف سنت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ میں تقریباً ایک جیسا وقت لگاتے تھے، البتہ بعض اوقات کوئی خاص وجہ ہو تو سجدہ کو لمبا کیا جاسکتا ہے، جیسے ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز پڑھائی تو سجدہ بہت لمبا کردیا، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک آپ نے اس نماز کے دوران اس قدر لمبا سجدہ کیا کہ ہم گمان کرنے لگے کہ کوئی خاص بات ہوگئی ہے یا پھر وحی آرہی ہے، آپ نے فرمایا: ایسی کوئی بات نہیں تھی بلکہ میرا یہ بچہ میرے اوپر بیٹھ گیا تھا، مجھے اچھا نہیں لگا کہ جلدی سے اتاردوں کہ اس کا اوپر چڑھنے کا مقصد ہی پورا نہ ہو۔ (صفۃ صلاۃ النبی، ص :۱۵۷)
مذکورہ بالا حالت تو سجدہ لمبا کرنے کا سبب بن گئی تھی لیکن خواہ مخواہ آخری رکعت کا آخری سجدہ لمبا کرنے کی عادت بنا لینا جائز نہیں، کیونکہ یہ خلاف سنت ہے۔
* ایک آدمی نماز میں تاخیر سے پہنچا اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوکر باقی نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک اور آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس مسبوق کے ساتھ جماعت کی نیت سے کھڑا ہوا، لیکن مسبوق صاحب نے اسے دھکے سے پرے کردیا اور انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ، حالانکہ یہ بالکل غلط انداز ہے، بعدکے لوگ اس طرح کی جماعت کرانے پر شدید تنقید کرتے ہیں، اس حوالے سے فتاویٰ کی دائمی کمیٹی کے سامنے یہ سوال کیا گیا:
سوال: ایک شخص کچھ رکعتیں گزرنے کے بعد جماعت میں شامل ہوااور جب امام نے سلام پھیرا تو وہ اٹھ کر باقی رکعتیں مکمل کررہا تھا، اسی اثناء میں ایک اور آدمی آگیا، کیا اس نئے آنے والے کے لئے جائز ہے کہ نماز پوری کرنے والے شخص کے ساتھ بطور مقتدی کھڑا ہوکر نماز پڑھ لے؟
جواب: ہاں! یہ جائز ہے کہ آخر میں آنے والا نمازی پہلے سے موجود اس نمازی کو امام بنالے جس کی کچھ رکعتیں جماعت سے رہ گئی تھیں اور وہ انہیں مکمل کررہا تھااور جب وہ سلام پھیرے تو اس کو امام بنانے والا مقتدی کھڑا ہوکر اپنی نماز مکمل کرلے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا:
’’کیا کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لے‘‘ (ابوداؤد، ترمذی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم)
امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں ایک مرتبہ اپنی خالہ میمونہ کے گھر سویا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور قیام اللیل شروع کردیا، میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا، لیکن میں بائیں جانب کھڑا ہوا تو آپ نے میرے سر کو پکڑ کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا۔ (صحیح بخاری و مسلم)
ان حدیثوں سے دلیل ملتی ہے کہ اکیلا نماز پڑھنے والا دوران نماز امام بن سکتا ہے اور فرض اور نفل میں کوئی فرق نہیں، صحیح رائے یہی ہے کہ جماعت کے بعد بقیہ نماز مکمل کرنے والا مسبوق شخص نئے آنے والوں کا امام بن سکتا ہے تاکہ وہ جماعت کا اجر پاسکے۔
*کبھی کبھار امام بھول کر زائد رکعت کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے، جیسے چار رکعت والی نماز میں پانچویں کے لئے یا دو رکعت والی نماز میں تیسری کے لئے یا تین رکعت والی نماز میں چوتھی رکعت کے لئے۔ اس بھول کے وقت اکثر لوگ امام کے پیچھے ہی لگے رہتے ہیں، حالانکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ امام بھول چکا ہے، ایسی حالت میں امام کی اقتداء درست نہیں ہے، جب کبھی ایسی صورت پیش آتی ہے تو مقتدی حضرات مختلف گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔
ایک قسم ایسے نمازیوں کی ہوتی ہے جنہیں صحیح علم نہیں ہوتا کہ امام کونسی رکعت میں ہے اور یہی گمان کرتے ہیں کہ امام ٹھیک ہی کررہا ہوگا، ایسے نمازیوں کو امام کی اتباع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوسری قسم ایسے مقتدیوں کی ہوتی ہے جو جانتے ہیں کہ امام زائد رکعت کے لئے کھڑا ہورہا ہے، اسے لقمہ بھی دیتے ہیں، لیکن اگر امام زائد رکعت کے لئے کھڑا ہوہی جاتا ہے تو یہ امام کی اتباع کی بجائے تشہد کے لئے بیٹھے رہ جاتے ہیں اور جب امام نماز پوری کرکے سلام پھیرتا ہے تو امام کے ساتھ سلام پھیرتے ہیں ان لوگوں کی نماز بھی صحیح ہوتی ہے۔
تیسری قسم کے لوگ بھی دوسری قسم کی طرح ہوتے ہیں، صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ امام کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اپنا سلام پھیردیتے ہیں ان کی نماز بھی درست ہوتی ہے لیکن دوسری قسم والے ان سے بہتر ہوتے ہیں یعنی امام کے ساتھ سلام پھیرنا افضل ہے۔
چوتھی قسم ایسے مقتدیوں کی ہوتی ہے جو یہ تو جانتے ہیں کہ امام زائد رکعت پڑھ رہا ہے پھر بھی امام کی اتباع کرتے رہتے ہیں، اس قسم کے لوگ غلطی پر ہوتے ہیں۔
اس بارے میں فتاویٰ کی دائمی کمیٹی نے فتویٰ دیا ہے کہ جب امام چار رکعت والی نماز میں پانچویں رکعت کے لئے کھڑ ا ہو اوراس کو یاد بھی کرایا جائے تب بھی پانچویں رکعت پڑھتا رہے تو ہر ایسے شخص پر جو سمجھ جائے کہ امام واقعی غلطی پر ہے، واجب ہے کہ امام کی اتباع نہ کرے بلکہ اپنی نماز پڑھ کر سلام پھیرلے یا بیٹھ کر انتظار کرتا رہے اور جب امام سلام پھیرے تو اس کے ساتھ سلام پھیرلے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ایسی حالت میں امام کی اتباع نہیں کرنی چاہئے بلکہ انتظار کرنا چاہئے، امام جب سلام پھیرے تو اس کے ساتھ سلام پھیرلے یہ زیادہ بہتر ہے، اور امام کے انتظار کئے بغیر بھی سلام پھیرا جاسکتا ہے۔ (مجموع فتاویٰ: ۲۳؍۵۳)
مذکورہ صورت حال میں جس نے شرعی احکام سے جہالت کے سبب امام کی اتباع کی اس کی نماز درست ہے، اسی طرح وہ شخص جسے یہ پتہ ہی نہیں کہ امام زائد رکعت پڑھ رہا ہے اور اس نے امام کی اقتدا کی تو ایسے شخص کی بھی نماز صحیح مانی جائے گی۔
*پارکوں اور باغیچوں میں نماز کا وقت ہوجائے تو مسجد کو چھوڑ کر وہیں نماز ادا کرلینا بھی درست عمل نہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں جب جناب علامہ عبدالعزیز بن باز فرماتے ہیں: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ سیرگاہوں میں نماز ادا کرے، اگرچہ کسی موٹی مضبوط اور پاک چٹائی پر ہی کیوں نہ ہوبلکہ دوسرے نمازیوں کے ساتھ اللہ کے ان گھروں میں نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے، جس کے بارے میں رب کریم کا فرمان ہے:
(فی بیوت أذن اللہ أن ترفع ویذکر فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو والأصال* رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ وإقام الصلوۃ وإیتاء الذکوۃ یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب والأبصار * لیجزیھم اللہ أحسن ماعملوا ویزیدھم من فضلہ واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب)(سورۃ النور:۳۶۔۳۸)
’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ جائیں گی۔اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ اضافہ عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ جسے چاہے بے شمار روزیاں دیتا ہے‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے اذان سنی اور پھر بھی مسجد میں نہیں آیا تو اس کی کوئی نماز نہیں سوائے اس کے جسے کوئی عذر لاحق ہوجائے‘‘ (ابن ماجہ، دار قطنی، ابن حبان، حاکم و اسنادہ علی شرط مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نابیناصحابی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول میرے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں جو مجھے ہاتھ پکڑ کر مسجد لے آیا کرے، تو کیا میرے لئے اس بات کی رخصت ہے کہ میں گھر پر ہی نماز ادا کرلیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا آپ نماز کے لئے دی جانے والی اذان سنتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں! فرمایا: تو پھر نماز کے لئے حاضر ہوا کرو‘‘ (صحیح مسلم)
*بعض ائمہ کرام سلام پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کو بہت لمبا کھینچتے ہیں یہ دائیں جانب ہو یا بائیں جانب، ان کے اس فعل سے بعض مقتدی امام کے ساتھ ساتھ اور بعض پہلے ہی سلام پھیر دیتے ہیں، اس بارے میں فتاویٰ کی دائمی کمیٹی کے سامنے یہ سوال رکھا گیا۔
سوال: سلام پھیرنے میں امام کی اتباع کا کیا حکم ہے؟ کیا امام کے ساتھ ساتھ سلام پھیردینا چاہئے یا اس وقت سلام پھیرنا چاہئے جب امام دونوں طرف سلام پھیر کر فارغ ہوجائے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بلا شبہہ امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتدا کی جائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو‘‘ (صحیح بخاری، مسلم)
دونوں طرف سلام پھیرنا نماز کے ارکان میں سے ہے، اس لئے امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے سے پہلے پہلے مقتدی کا ایک طرف سلام پھیردینا جائز نہیں، کیونکہ اس طرح امام کی اتباع نہیں ہوتی بلکہ صحیح یہ ہے کہ امام دونوں طرف سلام پھیرلے تو پھر مقتدی دونوں طرف سلام پھیرے۔
*نماز کے بعد اجتماعی طور پر دعا مانگنا بھی بدعت ہے، اس بارے میں جب علامہ محمد عثیمین رحمہ اللہ سے یہ سوال کیا گیا : کہ نماز کے بعد امام کے لئے اجتماعی طور پر دعا مانگنا جائز ہے؟
جواب: یہ بدعت ہے، نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا نہ ہی صحابہ میں سے کسی نے ایسا کیا، نماز کے بعد مقتدیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ذکر کرنا سنت ہے، یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا کرتا تھا اورصحابہ کرام اونچی آواز سے ذکر کرتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہوتے تو اونچی آواز سے ذکر کرتے۔
*نماز میں جب بھی کوئی ایسی آیت پڑھی جائے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے نام اور صفات کا ذکر ہو تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے رہنا درست نہیں ہے، جیسے (ھوا اللہ الذی لا إلہ إلا ھو عالم الغیب و الشہادۃ ھو الرحمن الرحیم) (سور ۃ الحشر: ۲۲)
یہ اشارہ نماز میں ایسا زائد عمل ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا جو بھی طریقہ ہم تک نقل ہوکر پہنچا ہے اس میں اس طرح شہادت کی انگلی ہلانا ثابت نہیں، نہ ہی اس بارے میں ہمیں لمبی تحقیق وبحث کے باوجود کوئی دلیل ملی ہے۔
*جب امام تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہتا ہے تو بعض لوگ پیچھے سے (عزوجل) کہتے ہیں، پھر تکبیر تحریمہ کہتے ہیں، یہ بدعت ہے اور رسول ﷺکی تعلیمات کے بالکل منافی ہے، آپ نے کبھی اس بات کاحکم نہیں دیا کہ جب میں تکبیر تحریمہ کہوں تو تم یہ الفاظ کہا کرو بلکہ آپ نے فرمایا: ’’بیشک امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہا کرو‘‘ (صحیح بخاری ومسلم)۔
*بعض مساجد میں دیکھا جاتا ہے کہ چھوٹے بچوں کے لئے مسجدکے بالکل آخری حصے میں صف بنادی جاتی ہے، جو خلاف شرع فعل ہے اور دو طرح سے یہ جہالت بھی ہے، ایک تو تمام بچوں کو اس طرح ایک صف میں بلا شرعی دلیل کے جمع کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے اور اگر یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ بچے نمازیوں کے درمیان شور کرتے ہیں اور باقی نمازیوں کی نماز خراب کرتے ہیں تو پھر ان کو اس طرح ایک جگہ جمع کردینا تو اور بھی خطرناک ہے، کیونکہ بچے اکھٹے ہوکر زیادہ شور و غل مچاتے ہیں،بلکہ علیحدہ علیحدہ ممکن ہے وہ زیادہ ہنگامہ نہ کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کو مسجد کے آخری کونے میں اس طرح جمع کرنا کہ درمیان میں کئی صفیں خالی ہوں، یہ بھی غلط فعل ہے، کیونکہ صفوں کو آپس میں جوڑنے اور مکمل کرنے کا حکم ہے۔
* سجدے کی حالت میں مٹھی بند کرکے زمین پر رکھنا بھی غلط ہے، صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں‘‘ (صحیح بخاری، مسلم)۔
رسول اللہ ﷺ سجدوں میں اپنی ہتھیلیاں زمین پر رکھتے تھے اور بچھادیتے تھے (ابوداؤود، حاکم) اور ہاتھوں کی انگلیاں باہم جوڑے رکھتے (ابن خزیمہ، بیہقی، حاکم) انگلیوں کا رخ قبلہ کی جانب ہوتا (بیہقی، ابن ابی شیبہ)۔
*بعض لوگ نمازمیں بہت بھاری غلطی کرتے ہیں، وہ غلطی یا تو جلد بازی کی وجہ سے یا لاعلمی اور لاپرواہی کی وجہ سے ہوتی ہے جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے، وہ بہت بڑی غلطی امام سے پہلے ہی تکبیر تحریمہ کہہ دینا ہے، اس فعل سے ایک تو نماز باطل ہوجاتی ہے، دوسرے یہ کہ امام سے سبقت کرنے کا بہت بڑا گناہ بھی نمازی کے سر پڑجاتا ہے، کیونکہ احادیث میں امام سے سبقت کرنے پر بڑی وعید آئی ہے اور یہ حرام ہے۔
علامہ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر مقتدی نے امام سے پہلے ہی تکبیر تحریمہ کہہ دی تو اس کی نماز شروع ہی نہیں ہوئی، اس لئے اسے نماز لوٹانا ہوگی، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، تو تم اس سے اختلاف نہ کرو (یعنی آگے پیچھے نہ ہو) پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو‘‘۔
یعنی امام کی تکبیر کہنے کے بعد تکبیر کہنے کا حکم ہے، اب جو آدمی امام کی تکبیر سے پہلے ہی تکبیر کہہ دے تو اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اتباع نہ کی۔
وہ تو مندرجہ ذیل حدیث کے زمرے میں آتا ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا عمل نہیں تو وہ مردود ہے‘‘۔
***

Thursday 7 July, 2011

یہ سرپھرے حکمراں Editorial March 2011

شعور و آگہی
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری
یہ سرپھرے حکمراں
’’حکمراں بازار اور منڈی کی مانند ہوا کرتے ہیں، جس میں اگر سچائی، حسن عمل، انصاف پروری اور دیانت داری کے سامان فراہم کئے جائیں گے تو منفعت میں وہی سب کچھ حاصل ہوگا۔ لیکن اگر جھوٹ، گناہ،خیانت اور برائی کے سودوں کا چلن رہا تو وہی اشیاء واپس ملیں گی‘‘۔
آب زر سے لکھے جانے کے قابل یہ گراں قدر قول خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ہے، جسے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی ممتاز تصنیف ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ میں نقل فرمایا ہے۔
تیونس، مصراور لیبیا وغیرہ میں آنے والے انقلاب نے مجھے بے ساختہ اس قول زریں کی یاد دلا دی۔ واقعی مقام عبرت ہے، بیس، تیس اور چالیس برسوں تک مسلم ممالک پر حکمرانی کرنے والے لٹیرے: مصر کے حسنی مبارک، لیبیا کے معمر القذافی، تیونس کے زین العابدین بن علی اپنے اہل خاندان اور پارٹی کے گرگوں کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے اپنے ہی ملک کے برادران ملت کو لوٹتے رہے، آخر صبر کا پیمانہ جسے لبریز ہونا ہی تھا،وہ لبریز ہوا اور تخت و تاج کا جلال و شکوہ ، حکمرانی کی رفعت و عظمت اور ہوس اقتدار کی دلفریب لذت کچھ اس طرح خاک میں مل گئی کہ اب درست انداز میں نام لینا بھی کسی کو گوارہ نہیں۔
مذہب اسلام نے حکمرانی کے اصول و آداب متعین کئے ہیں، جن کی رعایت لازما ہونی چاہئے، ایک مسلمان حاکم، مِلک ، سلطان، امیر اور امام و رئیس کے لئے عادلانہ نظام کی ضمانت شرط اول ہے، وہ دین کی صحیح سمجھ رکھے، اس کے مطابق زندگی گذارے، معروف کو عملاً رواج دے اور منکر سے باز رکھنے کی پوری سعی کرے ،وہ ایسا دور اندیش اور صائب الرائے ہو کہ اپنے ملک کو دشمنوں کی اندورنی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ سکے۔
اگر اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھال سکا تو امید کی جانی چاہئے کہ امام عادل کے روپ میں اللہ کا محبوب ترین بندہ ۔أحب الخلق الی اللہ۔ (مسند احمد) قرار پائے گا۔ اسے عرش الٰہی کے سائے میں لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ (بخاری و مسلم)
وہ ’’سلطان مقسط‘‘ انصاف پرور حکمراں کی شکل میں جنت کی نعمتوں سے بھی سرفراز ہوگا۔ (صحیح مسلم)۔ اس کے برخلاف اگر وہ شر و فساد کا نمائندہ بن کر اتراتا رہا، حکمرانی کے زعم میں رعیت کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کا خوگر رہا، دین پسندوں کے لئے جینے کی راہ تنگ کرتا رہا، معروف و منکر کی تمیز سے بے پروا رہا، چراغ مصطفوی کی بجائے بولہبی کا شرارہ اسے عزیز رہا، تو پھر انجام وہی کچھ ہوگا جو آج ہم تیونس، مصر اور لیبیا وغیرہ میں دیکھ رہے ہیں۔
تیونس کا زین العابدین اپنے نام کے برعکس اسلام بیزار شخص تھا، اسلامی شعائر سے اسے چڑتھی، اس کے یہاں صلحاء و اتقیاء مبغوض تھے، اس کی بے وقعت سی ہیئر ڈریسر بیوی لیلیٰ دنیاداری کی چاہ میں مجنوں بن گئی تھی، جس کی پسند کے مطابق آئس کریم یورپ سے لانے کے لئے اس کا ذاتی بوئنگ جہاز تیار کھڑا رہتا تھا، انقلاب کے طوفان میں پھنس کر جان بچانے کے لئے بھاگتے ہوئے یہ شاطر خاتون ڈیڑھ ٹن سونے کا بوجھ بھی لاد لے گئی، اور اب یہ ٹھگ دیار غیر میں پناہ گزیں کی حیثیت سے مقیم ہیں۔
صدرحسنی مبارک مصر کا ناپسندیدہ حکمراں تھا۔ آتش و آہن کے زور پر اپنی تمام تر غلامانہ ذہنیت کے ساتھ اسلام پسندوں کے سینے پر سوار رہا، اسلام دشمنوں سے اس کی ہمیشہ سانٹھ گانٹھ رہی، وہ نوشتۂ دیوار پڑھ نہ سکا، اب نشان عبرت بن چکا ہے۔
کرنل معمر القذافی جیسا بے شعور حکمراں بھی عالم اسلام کے نصیب میں لکھا ہواتھا، درحقیقت یہ ایک سرپھرا انسان تھا،جسے معقولیت چھو بھی نہیں گئی تھی، یہ اپنی ’’کتاب اخضر‘‘۔ ہری کتاب ۔ کا سبزباغ دنیا کو دکھاتا رہا۔اپنے ملک کے ساتھ اشتراکیت۔کمیونزم ۔کا ٹانکا جوڑ رکھا تھا، اسے اپنی پاسبانی کے لئے نسوانی دست و بازو پر بھروسہ رہا، آج یہ محافظ خواتین اسے سہارا دینے کے لائق نہیں رہ گئی ہیں۔اس بددماغ نے اپنی حکمرانی کے طویل عرصے میں جو بویاتھا آج وہی کاٹ رہا ہے،مگروہ جو بھی کاٹ رہا ہے ظاہر ہے اس کے کھانے کے لائق نہیں ہوگا۔
عالم اسلام کے ان مسلم حکمرانوں کو ملت اسلامیہ کے درد کا درماں بننا تھا مگر یہ خود ہی ناسور بن گئے۔ ان مسلم ممالک میں آنے والے انقلاب کے اصل ذمہ دار ان کے بدنیت حکمراں رہے ہیں، مگر دشمنان اسلام کی عیاری وشہ زوری کہیں نہ کہیں اپنی جھلک دکھا رہی ہے، جو ان ملکوں کے لئے آنے والے ایام میں نقصان دہ ثابت ہوگی، جس پر مومنانہ بصیرت کے ساتھ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔اللہ عالم اسلام کو شروفساد سے محفوظ و مامون رکھے۔

’’عالم اسلام کا اتھل پتھل‘‘ اور سعودی عرب March 2011

’’عالم اسلام کا اتھل پتھل‘‘ اور سعودی عرب
پچھلے چند ماہ سے عالم اسلام میں ایک اتھل پتھل جاری ہے، ایک طوفان ہے۔ ایک بے سمت شورش ہے، جمہوریت کے نام پر ایک عجیب وغریب طوفان ہے۔ احتجاج ہے، مظاہرے ہیں،ہڑتال ہے۔ بعض ممالک کے شاہ اور صدر تبدیل ہورہے ہیں بعض کی تبدیلی یقینی ہے بعض جگہوں پر مظاہروں کا اہتمام زوروں پر ہے کچھ نہ کچھ ہوکر رہے گا، ایسا اچانک کیوں ہو رہا ہے ؟ کون ہے اس کے پردہ میں جس کے اشارۂ چشم وابرو پر جان دینے کو قومیں آمادہ نظر آرہی ہیں۔ اس وقت وہاں کے حکام کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی کا خیال کیوں آیا؟اس پورے انقلاب و تغیر و تبدل کے پیچھے کون مضمرات پوشیدہ ہیں ؟ ان تمام حرکتوں اور انقلابی مساعی کا فائدہ کن کو حاصل ہوگا داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے ان تمام تر رونما ہونے والے وقائع سے کون کیا نفع حاصل کرے گا؟ کون کتنا خسارہ اور نقصان اٹھائے گا؟۔
اگر تبدیلی حکام و ملوک اورتغیر وزراء و صدور کا یہ سلسلہ طویل سے طویل تر ہوا تو عالم اسلام پر کس قسم کے اثرات و نتائج مرتب ہوں گے؟ پھر ان سب کا آخری کلائمکس کیا ہوگا؟
عصر حاضر کی بات کریں تو عالم اسلام سقوط خلافت کے ساتھ ہی زیرو زبر کا شکار رہا ہے۔ استعمار نے ان کو ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے کمزور بنا دیا۔ عصر جدید کی اقتصادی و معاشی خوش حالی کی آمدکے بعد بھی اس کی کوشش رہی کہ انہیں کمزور اور نکما بنانے کے ساتھ مرعوب اور خوف زدہ بھی بنائے رکھا جائے اور ہمیشہ انہیں فکری و اعتقادی طور پر کھوکھلا رکھا جائے۔
واضح رہے کہ(یریدون لیطفؤ ا نور اللہ بأفواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون) کے تحت ٹھیک اس وقت جب پورا عالم اسلام اعتقادی طور پر کمزوریوں کا تھا بالخصوص عقیدہ توحید اور حقوق توحید پامال تھے،جب عقیدہ اور اس کا اشرف ترین شعبہ توحید خالص ہی درست نہ رہ جائے۔ پھر اعمال کی صلاح اور تحکیم شرع اور زندگی کے جملہ شعبوں میں اسلام کے احکام و معاملات اور اخلاق و اقدار کی کار فرمائی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ٹھیک ایسے ہی عالم میں جزیرہ العرب میں نجد عرب سے شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب التمیمی النجدی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کے تجدیدی جہود و مساعی سے توحید خالص کا پرچم بلند ہوا اور امام محمد بن سعود رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملکر ان کے تعاون سے دولۃ التوحید کی داغ بیل ڈالی گئی۔ انہوں نے خالص اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اسی سلسلہ حکومت کی کڑی، اسی خاندان عالی مرتبت کے بطل جلیل اورفرد فرید شاہ عبدالعزیز عبدالرحمن آل سعود رحمہ اللہ تعالی تھے،جنہوں مملکت توحید کو متحد کیااور مستحکم کیا۔ ایمان واسلام، توحید وسنت کی مستحکم بنیادوں پر اپنی حکمرانی کی پختہ بنیادرکھی۔ (اصلہا ثابت وفرعہا فی السماء)
اسلام کو باذن اللہ بلندی عطا ہوئی کفر کو تو پسپائی مقدر ہے توحید کو جلا بخشی اور شرک اور شرک کے آثار و نشانات کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ دیا۔
پوری دنیا میں صوفیت،الحاد،زندقہ اور بد دینی کے پجاری اور قبروں کے پرستار اور مشائخ و اولیاء کے بد عقیدہ بد عقیدت مند تلملا اٹھے، دولۃ التوحید مملکت سعودی عرب کو بدنام کیا اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوئے۔ اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بزعم خویش ظاہری و باطنی کوشش بھی صرف کی خذلان کی کوئی شکل نہ چھوڑی برائت کا اظہار کیا حج روکو کانفرنس کا انعقاد ہوااس پر مختلف اتہامات و الزامات عائد کیا۔
دوسری طرف اغیار اعداء اسلام، یہود و نصاری اور عام مشرکین اور وثن پرست اقوام ورطۂ حیرت میں ڈوب گئی تھیں۔ تمام خطہائے زمین پر اسلام ماننے والوں کا ہم نے کئی طرح سے گلا گھونٹ دیا، خلافت عثمانیہ ہم نے ختم کردیا، مصر و شام اور عراق کوبعثی علمانی یعنی جمہوری،ڈیموکریسی بنا دیایعنی اسلامیوں میں ہم نے تو روح اسلام نکال کر پھینک دیا،اعتقادی و فکری طور پر وہ پہلے ہی ناکارہ تھے ہم نے عملی، اخلاقی،سیاسی،معاشی،اقتصادی اور تعلیمی طور پر بھی انہیں تقریباً ناکارہ بنا ڈالا۔
لیکن یہ خطۂ زمین جواقتصادی و سیاسی طور پر غایت درجہ پسماندہ تھا جہاں عرب کا بدو اونٹ اسکے دودھ اور کھجور پر گذارہ کرلینا ہی کافی سمجھتا تھا یہی کل کائنات تھی اسکی جس کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ شریف مکہ۔ اردن والا۔ وہاں ذلیل و پامال ہوا اور دیکھتے دیکھتے ایک خالص دینی اسلامی حکومت قائم ہوگئی اور پورے ملک میں اسلامی حدود و قوانین کا نفاذ ہورہا ہے۔ اسلام اپنی ماضی کی روشن و تابناک تاریخ دہرا رہا ہے۔
توحید کی شمع روشن ہے سنت مصطفی ﷺ کا بول بالا ہے، امن و سلامتی کا دور دورہ ہے حق و صداقت عدل وانصاف قائم ہے، سب کے حقوق کی پابندی ہورہی ہے۔
یہ سعودی عرب کی حکومت۔ اللہ تعالی کے فرمان(واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون) کی مصداق بن گئی۔ یہ دولۃ التوحید (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون) کی مصداق اور اس کی صحیح تعبیر و تفسیر بن گئی۔ اگر یہ توحید و سنت، حق و صداقت، عدل و انصاف اور تحکیم شریعت کے موقف پر قائم رہی اور عملی ثبوت دیتی رہی تو ان شاء اللہ العزیز یہ حکومت حاسدوں، حاقدوں، معاندوں، ملحدوں، زندیقوں ،صوفیوں و قبوریوں اور دیگر جملہ داخلی اور خارجی اعداء کے علی الرغم قائم اور باقی رہے گی،جیسے کہ ابتک حاسدوں اور حاقدوں اور تمام اعداء اسلام کی ہزار عداوت کے باوصف یہ قائم ودائم ہے۔
پھر مسلمان کے لئے اہم مسئلہ حکومت اور طرز حکومت کا نہیں ہے حتی کہ حکومت کی بقاء و استحکام کا بھی نہیں ہے۔ دنیا کی سعادت اور آخرت کی نجات کا انحصار حکومت اور طرز حکومت، بقائے حکومت اور زوال حکومت پر نہیں بلکہ توحید و ایمان پر نجات کا انحصار ہے، کفرو شرک اور نفاق اکبر ہی آخرت میں باعث دخول نار اور موجب خسران و دمار ہے۔
اگر ہم بیسویں صدی میں عالم اسلام کا جائزہ لیں تو بات لمبی ہوگی، مگر یہ حقیقت ہر مسلمان کو جاننی چاہئے کہ یہود نصاری نے ہمیشہ عالم اسلام کو تہ و بالا رکھنے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا ہے۔
سقوط خلافت کے بعد عالم اسلام کا بندر بانٹ عمل میں آیا، استعمار سے اگر آزادی بھی نصیب ہوئی تو اسکے مختلف آثارکے طور پر ایسے پیچیدہ مسائل چھوڑ دئے گئے جنکو آج تک حل نہیں کیا جا سکا ہے، مسئلہ فلسطین کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے اسرائیل کی کاشت ایک زہر ناک کاشت تھی جس کے مسموم نتائج سے عالم اسلام جانکنی کے عالم میں ہے اور اسی وقت سے ابتک جس قدر عظیم ترین حوادث و وقائع رونما ہوئے، عرب دنیا اور عالم اسلام میں جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں ان تمام کا حاصل یہ رہا ہے کہ اسرائیل مضبوط سے مضبوط تر ہوجائے، آج تک ایسا ہی ہوا ہے اور ابھی کچھ دنوں تک ایسا ہی ہوگا اسلئے کہ یہودیوں کی اپنی آخری ذلت آمیز موت کا انہیں نظارہ کرنا مقدر ہے جب اللہ کے موحد بندوں کے ہاتھوں وہ قتل کئے جائیں گے۔
یہاں تک کہ شجر و حجر بولیں گے ’’یا عبداللہ، یا مسلم تعال ہذا یہودی و رائی فاقتلہ‘‘ اے اللہ کے بندے ! اے مرد مسلماں ! آجا یہ یہودی میرے پیچھے ہے اسکو قتل کرڈال۔ اسی دن کے تکوینی انتظام میں ہے ساری یہودیت اور ان کی موجودہ ہمنوا نصرانیت اور ان کے حلیف رافضیت و باطنیت اور فریب خوردہ گمراہ ابلہیت بھی اور قدیم ترین جملہ انواع و اقسام کی زندیقیت، خواہ اس کا نام کچھ بھی ہو۔
اسکے علاوہ بھی ملکی و لسانی و قبائلی اور مسلکی و مذہبی تنازعات کوشہ دیا گیا۔ اور قوموں کو لڑنے اور مرنے نتیجتاً کمزور ہونے اور نکما رہنے کے مواقع فراہم کئے گئے۔
عالم اسلام کے کسی تنازعہ کو حل نہیں ہونے دیا گیا۔ اگر حل کی کوئی صورت قبول بھی کی گئی تو اس رعایت کے ساتھ کہ دونوں فریق خائب و خاسر اور ضعیف سے ضعیف تر ہوجائیں اور پھر مستقبل میں ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے رہیں۔
حبش( ایتھوپیا)، سوڈان ،کشمیر وغیرہ اسکی بہت سی مثالیں ہیں۔ماضی قریب میں عالم اسلام میں کئی جنگیں بپا ہوئیں جن میں جان ومال کی عظیم تباہی و بربادی ہوئی۔ آٹھ نو سالہ ایران عراق جنگ میں لاکھوں مارے گئے۔ اور ایک خاص مقصد کے علاوہ قطعی طور پر بظاہر بے نتیجہ جنگ تھی افغانستان پر روس نے یلغار کی اور لاکھوں افغان جیالے موت کے گھاٹ اتاردئے گئے۔ روس جب اپنے طور پر اس بہادر قوم کو زیر نہ کرسکا اور سرخ بھالو دم دبا کر وہاں سے ذلیل و خوار واپس ہواتو پھر بعد کے ادوار میں صلیبیت کے پرستاروں نے اس بدحال ملک پر حملہ کرکے اسکی اینٹ سے اینٹ بجا کر وہاں پر اپنی من پسند حکومت قائم کی اور تادم تحریر اس ملک پر فوجی تسلط و اقتدار قائم رکھکر اس غیور و جیالی قوم کو قتل و خون سے دوچار کئے ہوئے ہیں۔
عالم اسلام پر بزن بولنے کا بہانہ تراشا گیا۔ یہودی صہیونی طاقتوں کے تھٹک ٹینک نے امریکی صلیبی کو اپنی تدبیر پر عملی جامہ پہنا کر قدیم عمارت کو بذریعہ ڈائنا میٹ مواد مسمار و منہدم کرنے کاعیاری و مکاری کے ساتھ ایک انتہائی شاندار ڈرامہ اسٹیج کیا۔دنیا بظاہر تھرا اٹھی۔ فوری الزام بن لادن اور اسکی تنظیم القاعدہ پر عائد کیا گیا۔ اور افغانستا ن کی طالبان کی حکومت کو جو اسامہ کی میزبان تھی اسے حوالہ کرنے بصورت دیگر اس پر حملہ کرنے کی دھمکی دی گئی اور آن کی آن میں اس دھمکی کو عملی جامہ پہنایا گیا اور اپنا ساتھ دینے پر پوری دنیا کو آمادہ کیا گیا۔ صاف لفظوں میں اعلان کیا گیا کہ جو میرا ساتھ دے گا وہ دوست اور جو ساتھ نہیں دے گا وہ میرا دشمن۔
پاکستان کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا گیا، اسکے لئے پہلے سے انتظام کیا جا چکا تھا(پاکستانی مصطفی کمال) پرویز مشرف کو کرسی صدارت پر پہلے بٹھا یا جا چکا تھا۔اس نے’’ پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ دیکر پوری قوم کو یرغمال کرلیا، اور اپنی بد بختانہ روش پر قائم رہ کر صلیبی اتحاد کا ساتھ دیا، اور پھر افغانستان کو مکمل طور پر خاک و خون میں نہلا دیاگیا،طالبان کو ہزیمت سے دو چار ہونا پڑااور وہاں کے مظلوم جیالوں کوگو انتا نا مو بے کا قیدی بنا لیا گیا۔
اگست ۱۹۹۰ء ؁ میں صلیبی آقاؤں کے اشارہ پر بعثی ملحد یعنی صدام نے اپنے محسن کویت پر چڑھائی کرکے اسکو ہتھیا لیا اور دوسرے محسن کو دھمکیاں دینی شروع کردی،بہر حال ہر شخص اپنے وطن کے استخلاص کا حق رکھتا ہے، ہر کسی کو اپنے وطن کی حفاظت و صیانت کا حق رکھتا ہے۔
کویت نے امریکہ کی مدد لی، اور امریکہ نے کمال عیاری سے پوری دنیائے صلیبیت اور بے ضمیر مسلم طاقتوں کو اپنے ساتھ لے کر عراق پربزن بول دیا۔ اور کویت کی آزادی کے نام پر عراق کی کمر توڑدی۔
اس کے بعد مغربی قزاق اور عیسائی جلاد نے ایک نئی بات یہ کہی کہ دنیا کے اندر بدی کے تین شیطانی محور ہیں شمالی کوریا، ایران اور عراق۔ پھر اس بدحال عراق کے بارے میں یہ جھوٹا افسانہ عام کیا گیا کہ اس کے پاس عمومی تباہی کے ہتھیار کے ذخائر ہیں اسلئے صدام حسین کے عراق پر چڑھائی کردی، جملہ قزاق عالم اور ان کے ہمنوا اقوام نے ایک بار پھر عراق کو غارت کرنے اور ڈرامہ کو آخری سین تک پہونچانے کا بھر پور نوٹنکی کے انداز میں کردار ادا کیا۔عراق شکست کھا گیا، صدام حسین ڈرامائی انداز میں گرفتار ہوا،عراق، افغانستان دونوں مقامات غیر ملکی، مغربی و صہیونی و صلیبی الحادی فوجیں براجمان ہوگئیں۔ اور بچے کھچے با غیرت مسلمانوں کو ہلاک و برباد کرتی رہیں۔ اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے ان دونوں ملکوں کا اصل انجام یہ ہوا کہ افغانستان میں غیور با حمیت اسلام پسند مسلم قیادت کی جگہ امریکہ و یورپ کی ساختہ و پر داختہ قیادت افغانیوں پر مسلط کردی گئی۔ اگر وہاں کے ارباب بست کشادکے عقائد و نظریات کا صحیح علم لگایا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ یہ کن لوگوں کا ٹولہ ہے جن کوآقائے نامدار’’چاچا سام‘‘ نے ان آہنی عزم رکھنے والوں افغان عوام پر جبراً مسلط کردیاہے۔
عراق کا تلخ انجام یہ نہیں ہے کہ صدام پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ سڑجانے اور بدبودارہوجانے غذا و خوراک کا انجام زبالہ اور گھور ہی ہوتا ہے۔
اصل تلخ انجام یہ ہے کہ حکومت و اقتدار پر رافضیت و باطنیت کو مسلط کردیا گیا۔ یہی درحقیقت کلائمکس تھا پورے اس ڈرامہ کا جو ۱۹۷۹ء ؁ سے ۲۰۰۳ء ؁ اور اس کے بعد تک مختلف عنوان مختلف انداز سے کھیلا گیا۔
ایران کاحرب خلیج اول کے پورے خون اور ساری تباہ شدہ جائداد کی قیمت صلیبی صہیونی طاقت نے اسے ادا کردیا۔عراق شیعوں کی گود میں چلا گیا، اور یوں ایران اسرائیل سے اور اسرائیل ایران سے مزید قریب آگیا۔ذہنی و فکری قربت کے ساتھ دونوں میں زمینی فاصلے بھی گھٹ گئے۔
لبنان کے حزب اللہ اور اسرائیل کے خونی ڈرامے جس میں زیادہ جانی و مالی نقصان اہلسنت اور عام فلسطینیوں کا ہوتا ہے اس کا انجام۔
آج اس وقت کی تبدیلی اور سیاسی اتھل پتھل کا بھیانک نتیجہ سامنے آئے گا، اور اس کا مستفید اول یہودو نصاری کے ساتھ مسلمانوں کا وہی طبقہ ہوگا جو ابتک ماضی کے حروب دفتن کا مستفید رہ چکا ہے۔ وہ قوت رافضیت وبا طنیت کی ہے جس نے ہمیشہ عالم اسلام اور اہل اسلام کو اپنی غارت کا نشانہ بنایا ہے، اہل سنت اور ان کی حکومتوں کو تاراج کیاہے اور بہر نوع زک پہونچا یا ،ان کے عزائم اورسنی مسلمانوں کے تعلق سے ان کے منصوبے بہت ہی خطرناک اور بھیانک ہیں۔یاد رہے کہ موجودہ اتھل پتھل کا آغاز افریقہ سے ہوا مگر بالکل شروع میں ہی نام نہاد مسلم قلمکاروں نے سعودی عرب میں تبدیلی پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے اور اپنے حسد و بغض اور حقد و کینہ کو ظاہر کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ بے ایمان و بے ضمیر ذرائع ابلاغ نے جھوٹی خبر شائع کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔کہ’’ سعودی عرب میں بھی حکومت مخالف مظاہرے ہوتے ہیں‘‘ یہ یاد رہے کہ بعض علاقوں میں اسطرح کی حرکت کا ارتکاب کیاگیا حتیٰ ائمہ حرم اور دیگر خطباء نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا اور عامۃ الناس کو کسی بھی فتنہ میں ملوث ہونے سے بچنے کی تاکید کی۔
سچ بات یہ ہے کہ عالم اسلام کی اس افرا تفری سے اصل مقصود یہ نہیں ہے کہ مصر میں ’’حسنی مبارک‘‘صدارت سے معزول ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ مصر کی صدارت پر وہ تیس سال سے مسلط ہے۔ اس کی اچھائی یا برائی کا طویل تجربہ و مشاہدہ عوام کو تھا، آخر تیس سال پورا ہونے کے بعد ہی کیوں عوامی غیظ وغضب پھٹ پڑا،پانچ دس سال آزمانے کے بعد آخر التحریر اسکوائر پرطویل احتجاج اور پر امن ہڑتال کیوں نہیں کیا گیا۔آخراس ڈکٹیٹر کے خلاف تبدیلی کی ہوا اس وقت کیوں چلی جب خود وہ اپنی حیات کے آخری دور میں پہونچ چکا تھا۔
زین العابدین صدر تیونس میں جو بھی خوبی و خرابی تھی وہ آج کل کی پیداوار نہیں تھی چالیس سال سے اقتدار کے دور بست پر قابض شخص کے خلاف اس کے حیات کے آخری لمحات میں کیوں انقلاب کی لہر چلی،آخر وہ تو اب خود ناکارگی اور ارزل الحیاۃ کی طرف بڑھ رہاتھا۔ لیبیا کا کرنل قذافی بھی تیس سال سے زائد عرصہ سے اقتدار پر اپنی ساری اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ قابض ہے۔ عمر کے آخری پڑاؤ پر یہ اس کے معزولی کی آندھی کیوں چلی؟ وہ تو اب شائد خود ہی اس لائق نہ رہ گیا تھا کہ وہ مزید خرابی پیدا کرتا۔ اس سوال پر آخر غور کیوں نہیں کیا جاتا۔ وہاں ان ملکوں کے عوام اپنی خواہش سے اس انقلاب کو برپا کرنے پر تیار ہوگئے۔ اور پھر ایک لہر سی چل گئی۔ یہ سب اچانک ہوگیا اور ہورہا ہے، یا معاملہ’’ ہذا أمرتشور بلیل‘‘ کا ہے۔
اگر عالمی منظر نامہ کے تحلیل و تجزیہ نگار گہرائی و گیرائی سے ان سوالوں پر غور کریں اور عدل و انصاف سے کام لیں۔ صداقت کا دامن پکڑیں اور فہم و بصیرت اور فراست سے کام لیں تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ یہ عوام بساط سیاست وہ بے جان کٹھ پتلی ہیں جو پس پردہ آقاؤں کے اشاروں پر ناچ رہی، بساط سیاست کے وہ مہرے جو کسی اور کے ذریعہ ادھر سے ادھر ہوتے ہیں، پھر کسی ملک میں تبدیلی اقتدار اس کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے لوگ ایسے ہی کہتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، اکثر وبیشتر ممالک میں اقتدار اسی طبقہ کو منتقل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ جو عالم صہیونیت و صلیبیت کے حق میں مفید اور عالم اسلام کے حق میں مضر ثابت ہو۔
بحرین کی سیاست کا یہ تماشہ اور وہاں کھچڑی کا جو ابال ہے اس کا مقصد وحید ہے کہ اس چھوٹے سے جزیرہ میں سنیوں کی حکومت کا خاتمہ ہو اور وہاں پر بھی شیعیت و رافضیت کے ہاتھوں میں اقتدار و حکومت دیدی جائے۔
سعودی عرب کی مؤحد حکومت ہمیشہ باطل پرستوں کے نرغہ میں رہی ہے۔ ماضی قریب ۱۹۹۰ء ؁ سے آج تک جن مشکلات و مصائب اور خطرات سے اسے سامنا ہے ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اس حکومت کی خوبیاں اتنی بے شمار ہیں جس کے لئے ایک عظیم دفتر درکار ہے، ہر طرح اور ہر پہلو سے یہ ایک اسلامی، فلاحی ریاست کا اس دور میں سب سے عمدہ نمونہ ہے۔ سب سے عظیم خوبی یہ ہے کہ یہ مؤحد حکومت ہے جہاں پر توحید اور اس کے مظاہر عام ہیں، شرک و آثار شرک اور بدعات کا کوئی نشان نہیں ہے۔ سنت نبویہ کا عملی ظہور اور اس کا غلبہ ہے عوام بھی میں خیر کا پہلو غالب ہے۔ اگر اس زمین پر شر ہے تو اس کا زیادہ تر تعلق وہاں پر مقیم متعدد جالیات سے ہے جو درحقیقت اعدائے دین و وطن ہیں،جو لوگ عقائد کی ضلالت اور فکر کی کجی کا شکار وہ مغلوب ہیں۔اس کے مخلص بانیان اور اس کے جدید مؤسس اور ان کی ذریت طیبہ نے جس طرح توحید وسنت کی سربلندی میں اپنی قربانیاں دی ہیں اسلام اور مسلمانوں کی جس فیاضی کے ساتھ خدمت انجام دی ہے، خدمت حرمین شریفین ایک ایسا روشن باب ہے، جو حکومت آل سعود کے پیشانی کا درخشندہ و تابندہ جھومر ہے ، اس کی تفصیل کسی اور موقع پر پیش کی جائے گی، اسلام اور مسلمانوں کی عقیدہ و عمل میں صلاح و درستی،ان کی تعلیمی و تربیتی معیار کی بلندی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے جس قدر مالی،مادی اور معنوی مدد و معونت کی ہے اس کی نظیر تاریخ میں خیر القرون کے بعد قطعی طور پر نا پید ہے۔ روئے زمین پر کوئی نفس نفوس ایسا نہیں ہے کہ جس پر واسطہ یا بلا واسطہ احسان نہ ہو، یہ ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی مکابر و معاند ہی انکار کر سکتا ہے۔
دنیا ئے کفر و شرک یہود و نصاریٰ اور تمام وثن پرست اقوام اور الحاد و زندقہ والے تو اس خالص توحید و سنت کی پاسبان حکومت کے دشمن ہیں۔ ان کی دشمنی بالکل واضح ہے، مگر یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ کلمہ گو امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس حکومت کی روز اول ہی سے اس کی شدید دشمن رہی ہے، اور آج بھی ان کے بعض و عناد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی وہ حسب مدارج اپنی عداوتوں پر قائم ہیں۔
دنیائے قبوریت و بریلویت کی عداوت ایک کھلی کتاب ہے اس پر دلیل لانے کی حاجت نہیں ہے، دنیائے تقلید اعمی بھی بالخصوص بر صغیر کے حامد مقلدین کے اکابرعلماء اور قدیم بزرگان قوم و ملت کی تحریریں باقی ہیں اور تاریخ نے ان کی عداوت پر مبنی تحریروں کو محفوظ کرلیا ہے۔ لیکن ان کی عداوت و صداقت کا رنگ حالات، ظروف کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک مہارت ہے، مسلمانوں کا ایک طبقہ جو مغرب اور مغرب کی فکری یلغار اور ان کے یہاں سے در آمد ہر ازم کو گلے لگانا ہی اپنے لئے قابل فخر اور لائق شرف سمجھتا رہا ہے ، یہ نام نہاد مسلمانوں کا وہ ملحد طبقہ ہے جسے اعتقادی و عملی کوئی بھی پابندی گوارا نہیں ہے یہ مغرب کا زلہ خور طبقہ ہے اس کی عداوت توحید خالص سے بہت شدید ہے۔ مسلمانوں کا ایک بڑا دھڑا شیعہ ہے، جن کی عداوت جملہ اہل سنت اور بالخصوص اہل حق اور بالأحض خالص مؤحد حکومت سعودی عرب سے اس قدر شدید ہے اس کو تاریخ کا وہ طالب علم ہی جان سکتا ہے جو قرآن و سنت کو دین کا مصدر و مأخد سمجھتے ہوئے صحت ایمان و عقیدہ کے ساتھ ہی تاریخ پر بالبصیرت نگاہ ڈالے۔ اورمستند علماء امت پر اعتماد کرکے ان کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ کرے۔
موجودہ دور میں بہت سی اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا، اور ہر وہ اسلامی تحریک جس نے کتاب وسنت کی بلا قید و شرط بالادستی کو نہیں تسلیم کیا اس نے اہل حق، اہل توحید، اہل سنت سلف کے منہج پر گامزن لوگوں سے عداوت کا رویہ اپنایا، اور انہیں کو اپنا حریف اور مد مقابل سمجھا۔ چنانچہ افکارِ اغیار سے مستعار برصغیر کی عصرانی و عقلانی تحریک نے۔ جس کے افراد مختلف افکار کے حامل رہے ہیں۔ سلفی مکتب فکر اور دنیا میں موجود واحد توحیدی حکومت کو اپنا پہلا دشمن سمجھا۔ اور در پردہ ہمیشہ اس حکومت کی خود اس پر الطاف عنایات کے باوصف اس کی جڑ کو کھوکھلا کرنے پر تلی رہی اور ایران کا اسلامی انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتی رہی۔
آج اس وقت بھی عالم اسلام کے موجودہ اضطراب کے نتیجہ میں ان کی یہ تمنا شباب پر ہے کہ کاش’’ملوکیت‘‘ کا خاتمہ ہوجائے اور نجد و حجاز میں ’’جمہوریت‘‘ اپنی تما م تر حشر سامانیوں کے ساتھ یہاں پر براجمان ہوکر رقص کرتی نظر آئے، بلکہ کوئی خمینی کے ایران کا سا انقلاب پیدا ہوجائے،اسالیب و تغیرات سے قطع نظر منزل و مقصد رفض و تشعیع کا غلبہ ہے۔
نام نہاد پروفیسرکا مضمون’’ ہم اہل صفا مردود حرم‘‘ شائع شدہ راشٹر یہ سہارا مورخہ ۲۱؍فروری ملاحظہ کریں تو آپ کو اسکا بغض و عداوت، حسد اور کینہ کا اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہ لگے گی، کہ سعودی حکمرانوں کے تئیں اس ’’ مردود تحریر‘‘ کے ’’مردود قلم‘‘ کی سیاہی کتنی زیادہ سیاہ ہے جس سے اس کے قلب و ضمیر کی سیاہی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ جو اس کے اس حکومت توحید کے تعلق سے ’’سیاہ دل‘‘ ہونے کی روشن دلیل ہے۔
آج اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر عالم اسلام کے اضطراب پر ٹک گئی ہیں اور کلائمکس کا انتظار ان کو ر بختوں کو شدت سے ہے جو اس انقلاب و تبدیلی اقتدار کی لہر کو سعودی عرب تک پہونچتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہودو نصاری سے زیادہ عجلت ان نام نہاد مسلمانوں کو ہے جن کا ابھی سابقہ سطور میں تذکرہ ہوا ہے۔
سعودی حکومت کو اپنی اہمیت کا پورا احساس ہے ان کو اپنے دشمن کا قطعی علم ہے۔ مگر ان کی اعلی ظرفی نے ہمیشہ دشمنوں سے صرف نظر کیا بلکہ ان کو یہ جانتے ہوئے بھی یہ ہمارے دشمن ہیں ان کو نوازنے اور بڑھ چڑھ کر عطیات دینے میں کبھی گریز نہیں کیا ہے۔
اس موقعہ پر یہ بات ازراہ خیر خواہی بہت زیادہ ضروری اور اہم ہے جو شاید نفع بخش ہو کہ سعودی حکومت کو اپنا ماضی از اول تا آخر یاد رکھنا چاہئے اس کا بغو رمطالعہ کرنا چاہئے۔ اپنے آباء و اجداد کے اصل عظیم کارناموں پر توجہ مبذول کرنی چاہئے اس روح حکومت پر دھیان دینے کی ضرورت ہے جس روح نے نا مساعد حالات میں بھی ان کے اسلاف کو کامیابی سے ہمکنار کردیا تھا مغرب کی رضا کی تلاش میں اٹھائے گئے قدم نے ہمیشہ انہیں کو ذلیل و خوار کی ہے،جنھوں نے مغرب پر کچھ زیادہ ہی انحصار کیا اور اپنے ہر اقدام سے رضاء مغرب تلاش کیا، صدام حسین، حسنی مبارک، قذافی اس کی تازہ مثالیں ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ عزت دی ہے، اگر ہم نے عزت اسلام کے سوا سے چاہا تو ذلت و خواری ہے ہمارا مقدر ہے ۔
ان فی ذلک لأیات لقوم یتفکرون

خوشگوار زندگی کا مفہوم March 2011

خوشگوار زندگی کا مفہوم
ایک انگریز مفکر کا قول ہے کہ ’’ جیل میں آہنی سلاخوں کے پیچھے سے بھی تمہارے لئے افق کے پار دیکھنا ممکن ہے اور یہ بھی کہ اپنی جگہ رہتے ہوئے جیب سے پھول نکال کر سونگھو اور مسکراؤ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم محل میں رہتے ہوئے دیبا و حریر پہن کر بھی چراغ پا ہوجاؤ ، ناراض رہواور بھڑکو اور اپنے گھر،کنبہ اوراہل خانہ پر ناراض ہوکر چلاؤ۔‘‘
خوش نصیبی کا تعلق زمان و مکان سے نہیں ایمان سے ہوتا ہے۔ اللہ کی اطاعت اور دل کی کیفیت میں خوشی کا راز پوشیدہ ہے۔ اللہ دل کو دیکھتا ہے۔ دل میں یقین ہوگا تو خوش نصیبی حاصل ہوگی جس سے دل و جان کو سکون ،راحت اور انشراح کی کیفیت حاصل ہوگی۔ پھر اس کا اثر پھیلے گا اور وسیع ہوگا اور پہاڑوں،وادیوں اور نخلستان تک دراز ہوگا۔
امام احمد بن حنبلؓ نے سعادت کی زندگی گزاری جب کہ ان کا کپڑا سفید اور پیوند لگا ہوتا تھا۔ اپنے ہاتھ سے اسے سی لیتے تھے۔ تین مٹی کے کمرے تھے جن میں سکونت تھی۔ غذاکیا تھی زیتون کے تیل کے ساتھ روٹی کے ٹکڑے، آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ سترہ سال تک جوتوں میں پیوند لگا کر اور ٹانک کر استعمال کرتے رہے۔ مہینہ میں ایک بارگوشت کھاتے زیادہ تر روزہ رکھتے، طلب حدیث میں کثرت سے سفر کرتے اس کے باوجود سکون و اطمنان قلب اور راحت حاصل تھی کیونکہ ثابت قدمی و خودداری تھی، انجام پر نظر، ثواب کی امید، اجر کے طالب، آخرت کے کوشاں اور جنت کے طلبگار تھے۔ آپ ہی کے زمانہ میں جن خلفاء نے ایک دنیا پر حکومت کی یعنی مامون، واثق ، معتصم اور متوکل نے، ان کے پاس محلات، قصر، سونا چاندی، خزانے، لشکر، جھنڈے، نشانات اور جائدادیں تھیں، خواہشات تھیں۔ اس کے باوجود زندگی کدورت بھری تھی، رنج و ملال، شورشیں، جنگیں، بغاوتیں اور شور و ہنگامے تھے۔ بعض سکرات موت میں اپنی کوتاہیوں پر نادم اور اللہ کے حضور سے شرمسار تھے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ شیخ الاسلام تھے۔ لیکن نہ بیوی بچے، نہ گھر بار، نہ کنبہ، نہ مال اور منصب، جامع بنی امیہ کے پاس ایک کمرے میں رہتے تھے۔ دن میں ایک روٹی کھاتے، دو کپڑے تھے جنہیں ادل بدل کر پہنا کرتے، کبھی مسجد میں سوجاتے، پھر بھی جیسا کہ خود ہی بیان فرماتے ہیں کہ ان کی جنت ان کے سینے میں تھی۔ ان کا قتل ان کے لئے شہادت تھا، جیل میں تنہائی میسر آتی، شہر سے ان کا اخراج سیاحت ہوگئی کیونکہ ان کے دل میں ایمان کا پودہ بڑھ کر تناور درخت بن گیا تھا اور برگ و بار لا رہا تھا۔ عنایت ربانی کا پانی اسے مل رہا تھا۔
’’ وہ ایسا چراغ ہے جو بغیر آگ کے چھوئے روشن ہورہا ہے۔ نور کے اوپر نور ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی ہدایت سے نوازتا ہے۔‘‘ ’’اللہ نے ان کی خطاؤں کا کفارہ کر دیا اور ان کا حال درست کردیا۔ ‘‘ ’’ جو ہدایت یاب ہوئے اللہ
نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا اور انہیں تقویٰ مرحمت فرمایا‘‘ ’’ تم ان کے چہروں میں نعمتوں کی شادابی پاؤگے۔‘‘
ابو ذرؓ مقام ربذہ کی طرف نکلے، اپنا خیمہ وہاں گاڑا، اپنی بیوی اور بیٹیوں کو وہا ں لے آئے۔ سال کے زیادہ دنوں میں روزہ رکھتے، اللہ کو یاد کرتے، خالق کی تسبیح بیان کرتے، عبادت کرتے، قرآن کی تلاوت کرتے اور اس میں غور فرماتے۔ دنیوی چیزوں میں ان کے پاس کیا تھا، ایک چادر، ایک خیمہ، چند بکریاں، ایک سینی، ایک پیالہ اور ایک ڈنڈا، ساتھیوں نے ایک روز زیارت کی اور کہنے لگے بھائی دنیا سے کوئی سرو کار نہیں؟ فرمایا: دنیا کی جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ میرے گھر میں ہے۔ نبی کریمﷺ ہمیں خبر دے چکے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک تنگ گھاٹی ہے جسے وہی پار کر سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ہلکا ہوگا۔
حضرت ابو ذرؓ شرح صدر کے ساتھ مطمئن دل والے تھے۔ اتنی دنیا رکھتے تھے جتنے کی ضرورت تھی۔ ضرورت سے زیادہ کو وہ بوجھ، ذمہ داری اور رنج و فکر کا باعث سمجھتے تھے۔ میں نے ایک قصیدہ لکھا ہے بہ عنوان’’ ابو ذرؓ فی القرن الخامس فی العشر‘‘ جس میں ابو ذرؓ کی غریب الوطنی، توحید اور روح و فکر کے باوجود ان کی خوش نصیبی کے بارے میں گفتگو کی ہے:
انہوں نے میرے ساتھ لطف کرم کیا میں نے ان کو دھمکایا۔ انہوں نے موت کی دھمکی دی میں نے لطف کا معاملہ کیا۔ انہوں نے مجھے سوار کیا میں اتر پڑا کہ اپنے ارادوں کو پورا کروں تو انہوں نے مجھے ارادہ سے روکا، میں حق کے راستے میں چل پڑا، میں موت کا پیچھا کررہا ہوں وہ بھاگ رہی ہے، میں موت کی گھاٹی کوعبور کرہا ہوں وہ سورہی ہے،صحرا میری غربت پر روتا ہے اور کہتا ہے ابو ذر ! ڈرو نہیں حوصلہ رکھو ۔ میں نے اس سے کہاجب تک میرا ایمان توانا اور مضبوط ہے میں مر نہیں سکتا۔ میں نے اپنے دوست اور آقاﷺ سے عہد کیا ہے اور ان سے تعلیم پائی ہے۔
خوش بختی کی حقیقت کیا ہے
’’ دنیا میں اجنبی اور مسافر رہو، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لئے، خوشبختی عبدالملک بن مروان کا محل، ہارون رشید کی فوجیں، ابن الجصاص کی کوٹھیاں، قارون کے خزانے، ابن سینہ کی کتاب الشفاء یا متنبی کا دیوان نہیں۔ نہ قرطبہ کی باغ اور الزہرا کی مر غزار ۔ خوش نصیبی صحابہؓ کے ہاں کم آمدنی، سادہ زندگی، قلت ذرایع اور کفایت شعاری تھی۔ خوش نصیبی ابن المسیب کے ہاں خدا سے محبت امام بخاری کے ہاں ان کی الصحیح حسن بصریؒ کے یہاں صدق اور امام شافعی ؒ کے یہاں اجتہاد امام مالک ؒ کے ہاں مراقبہ ، امام احمد بن حنبلؒ کے ہاں تقویٰ اور ثابت بنائیؒ کے ہاں عبادت تھی۔ ’’یہ اس لئے کہ انہیں اللہ کے راستے میں جو پیاس، تکان اور مشقت لاحق ہوئی اور کفار کو غیظ و غضب میں مبتلا کرنے والا جو بھی قدم اٹھا اور ان کا جو بھی نقصان ہوا اس کے بدلے ان کے حق میں عمل صالح کا اندراج کر لیا گیا۔ ‘‘
خوش بختی بھنائے جانے والے چیک میں نہیں ، خریدے جانے والے جانور میں نہیں۔ نہ وہ کوئی پھول ہے جسے سونگھا جائے، نہ تولا جانے والا گیہوں اور پھیلایا جانے والا کپڑا ہے۔ خوشی تو یہ ہے کہ دل اس حق پر مطمئن ہو جس کا آدمی حامل ہے۔ جو فکر اس نے اختیار کی ہے اس پر سینہ کھلا رہے اور قلب خیر کے کام پر راحت محسوس کرے۔
ہم سمجھا کرتے ہیں کہ جتنے زیادہ ہمارے پاس مکان ہوں گے۔ زیادہ چیزیں ہوں گی، مرغوبات اور پسندیدہ چیزیں میسر ہوں گی اتنا ہی ہم خوش و خرم اور شادمان ہوں گے، لیکن یہ چیزیں کدورت فکر اور اندازہ کا سبب ہی بنتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی چیز کدورت رنج، اندازہ اور مشقت کے بغیر نہیں ملتی۔
’’ اپنی آنکھیں ان دنیاوی اسباب کی طرف مت اٹھاؤ جو ہم نے ان کو دے رکھی ہیں تا کہ ہم انہیں آزمائیں۔‘‘ (۲۰:۱۳۱)
دنیا کے سب سے بڑے مصلح اور ہادی رسول اکرم ﷺ نے فقر کی زندگی گزاری، آپ بھوک سے کروٹیں بدلتے ۔ اتنی کھجوریں بھی نہ پاتے جس سے بھوک مٹ جائے۔ اس کے باوجود آپ جس نعمت، آرام، راحت، انبساط اور قلبی سکون و طمانیت کے ساتھ رہتے اس کی حد اللہ ہی جانتا ہے۔
’’ ہم نے تمہارا بوجھ اتار دیا جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی۔‘‘ ( ۹۴:۲۔۳) ’’ اللہ کا فضل آپ پر عظیم تھا‘‘ (۴:۱۱۳) ’’ اللہ کے علم میں ہے کہ رسول کسے بنایا جائے۔‘‘ (۶:۱۲۴)
حدیث صحیح میں ہے’’ نیکی حسن اخلاق کا نام ہے گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم یہ پسند نہ کرو کہ لوگ اسے جان لیں۔ ’’ نیکی سے ضمیر کو راحت اور نفس کو سکون ملتا ہے۔ حتی کہ بعض لوگوں نے کہا:
زمانہ کتنا ہی دراز ہوجائے نیکی باقی رہتی ہے۔ گناہ سب سے بری زاد راہ ہے ، حدیث میں یہ بھی ہے ’’ نیکی سے سکون اور گناہ سے خلش پیدا ہوتی ہے۔‘‘ نیکو کا رصاف طور پر اطمینان و سکون سے رہتا ہے اور شک و شبہ میں مبتلا آدمی حادثات، اندیشیوں اور حرکات و سکنات سے ہی خوفزدہ رہتا ہے۔‘‘ یہ ہر آواز کو اپنی ہی خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘ اس کا سبب بس اس کا گناہ ہے کیونکہ گنہگار کو تو قلق، اضطراب اور اندیشیوں کا گرفتار ہونا ہی ہے:
جب آدمی کے کام برے ہوں تو اس کے گمان بھی برے ہوجاتے ہیں۔ اور اسے جو وہم و گمان ہوتا ہے اسے وہ سچ سمجھ بیٹھتا ہے۔ خوشی کی جستجو کا ایک ہی نسخہ ہے کہ ہمیشہ بھلائی کی جائے اور برائی سے بچا جائے تا کہ امن چین ملے:
’’ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم(شرک) سے آلودہ نہیں کیا ایسوں کے لئے ہی امن ہے اور وہی ہدایت یاب ہیں۔‘‘ (۶:۸۲)
ایک سوار گھوڑا دوڑتا ہوا آیا اس کا سر بھی گرد وغبار سے اٹا ہوا تھا۔ اسے سعد بن ابی وقاصؓ کی تلاش بھی جنہوں نے جنگل میں ڈیرہ ڈال رکھا تھا جہاں شہر کے ہنگاموں اور تمدن کی آلودگیوں سے بالکل الگ تھلگ وہ اپنے بال بچوں اور بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ مقیم تھے۔ سوار قریب آیا تو پتہ چلا کہ وہ ان کا بیٹا عمر ہے۔ بیٹے نے باپ سے کہا ابا جان آپ بکریاں چرا رہے ہیں اور لوگ حکومت کے لئے چھینا جھپٹی میں لگے ہیں۔ فرمایا: شرک کرنے والوں سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بلا شبہ میں خلافت کا اس سے بھی زیادہ مستحق ہوں جتنا اس چادر کا جو میں نے اوڑھ رکھی ہے۔ لیکن میں نے اپنے آقاﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’ اللہ اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو صاحب تقویٰ بے نیاز اور گمنام ہو۔‘‘ مسلمان کے لئے ایمان کی سلامتی قیصرو کسریٰ کی شہنشاہیت سے بھی بڑی ہے۔ کیونکہ آپ کے ساتھ دین ہی رہے گا جو آپ کو جنت میں داخل کرا دے گا حکومت و سلطنت تو لا محالہ زائل ہو جائے گی۔
***

رازداری March 2011

ڈاکٹر عبدالرحمن العریفی
رازداری
پرانی کہاوت ہے: ’’ ہر وہ راز جو دو سے تجاوز کرجائے پھیل جاتا ہے۔‘‘
پوچھا گیا کہ دو سے کیا مراد ہے تو جواب آیا کہ دو سے مراد دونوں ہونٹ ہیں۔
میری عمر پینتیس سال ہے۔ ان پینتیس سالوں میں آج تک مجھے یاد نہیں کہ میں نے کسی آدمی کے کان میں کوئی راز کی بات کہہ کر اس سے رازداری کی درخواست کی ہو اور اس نے چند موٹی موٹی قسمیں کھاکر مجھے یقین نہ دلایا ہو کہ تمہارا راز ایک ایسے کنویں میں ڈال دیا گیا ہے جس کی گہرائی کی کوئی انتہا نہیں۔
اسی طرح مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ کسی نے میرا راز سن کر صاف صاف کہہ دیا ہو کہ ’’محمد بھائی معاف کرنا، میں آپ کے راز کو راز نہیں رکھ سکوں گا۔‘‘
اس کے برعکس ہر وہ شخص جسے آپ اپنا راز بتا رہے ہوں، سینے پر ہاتھ رکھ کر کہے گا، قسم ہے رب ذوالجلال کی! لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دیں۔ یا میری گردن پر تلوار رکھ کر کہیں کہ میں تمہارا راز افشا کردوں تو بھی نہ بتاؤں گا۔‘‘
پھر آپ اس کی باتوں سے مطمئن ہوجاتے ہیں اور بھروسہ کرکے اسے اپنے اسرار سے آگاہ کردیتے ہیں۔ وہ مہینہ دو مہینے بمشکل صبر کرتا ہے، پھر آپ کا راز کھول دیتا ہے۔راز لوگوں کے درمیان گھومتا رہتا ہے اور گھومتا گھومتا آپ تک جاپہنچتا ہے۔ دراصل قصور لوگوں کا نہیں، قصور آپ کا ہے۔ ابتدا آپ ہی نے کی۔ یہ کیوں کرمناسب تھا کہ آپ کا راز آپ کے ہونٹوں کے حدود پار کر جاتا۔
لوگوں پر اتنابوجھ ڈالنا چاہئے جتنا وہ اٹھا سکتے ہوں۔
اذا ضاق صدر المرء عن سر نفسہ
فصدر الذی یستودع السر اضیق
’’ جب آدمی کا سینہ اپنے ہی راز کیلئے تنگ پڑجائے تو اس شخص کا سینہ جسے وہ یہ راز سپرد کرے، زیادہ تنگ ہوگا۔‘‘
خود میں نے کئی لوگوں کو آزمایا اور انہیں ایسا ہی پایا ہے۔ آپ ان کے پاس کسی معاملے میں مشورہ کرنے جاتے ہیں ۔وہ آپ کومشورہ دے دیتے ہیں۔ پھر آپ کا راز فاش کردیتے ہیں اور آپ کی نظروں سے گرجاتے ہیں۔ آپ کو ان سے شدید نفرت ہوجاتی ہے۔ تاریخ میں اس سلسلے کا ایک دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے۔
’’معرکۂ بدر سے قبل جب رسول اللہ ﷺ نے یہ سنا کہ شام سے قریش کا ایک قافلہ آرہا ہے تو آپ نے اس پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا۔ آپ اپنے اصحاب کے ہمراہ قافلے کی جانب روانہ ہوئے۔ قافلے کے رہبر ابوسفیان کو مسلمانوں کی پیش قدمی کاپتہ چلا تو اس نے ضمضم بن عمرونامی ایک شخص کو اجرت پر مکے روانہ کیا اور کہا کہ فوراً جاؤ اور قریش کو صورت
حال سے آگاہ کرو۔ ضمضم نہایت برق رفتاری سے مکہ روانہ ہوا۔ مکہ پہنچنے کیلئے اسے کئی دنوں کا سفر طے کرنا تھا۔ اُدھراہل مکہ کو درپیش خطرے کی کوئی خبر نہ تھی اس دوران ایک رات عاتکہ بنت عبدالمطلب نے ایک پریشان کن خواب دیکھا۔ صبح ہوئی تو اس نے اپنے بھائی عباس بن عبدالمطلب کو بلا بھیجا۔ وہ آئے تو اس نے کہا یا اخی میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے جس نے مجھے گھبرا دیاہے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہیں اس خواب کے بعد آپ کی قوم پر کوئی مصیبت نہ آن پڑے۔ جو کچھ میں آپ سے کہوں اسے راز رکھئے گا اور کسی کو نہ بتائیے گا۔
عباس نے کہا ’’ہاں! ٹھیک ہے ! اب بتاؤ تم نے کیا دیکھا ہے؟‘‘
عاتکہ بولی: ’’ میں نے ایک شتر سوار آتے دیکھا۔ وہ آیا اور وادی ابطح میں ٹھہر کر بآواز بلند پکارا۔ ’’سنو ارے او بے وفاؤ! تین دن کے اندر اپنی اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاؤ۔‘‘
پھر میں دیکھتی ہوں کہ لوگ اس آدمی کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ اس کے بعد وہ چلتا ہوا مسجد میں داخل ہوگیا۔ لوگ بھی اس کے پیچھے پیچھے مسجد میں آگئے۔ دریں اثناء کہ لوگ اس کے چاروں طرف کھڑے تھے، اس کا اونٹ اپنے سوار کو لئے کعبہ کی چھت پر جا چڑھا۔ کعبہ پر کھڑے ہوکر اس آدمی نے پھر وہی اعلان کیا ’’ارے او بے وفاؤ! تین دن کے اندر اپنی اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاؤ۔‘‘
پھر وہ آدمی اونٹ پر سوار جبل ابوقبیس کی چوٹی پر چڑھ گیا۔ وہاں بھی اس نے وہی الفاظ دہرائے۔ ’’ارے او بے وفاؤ! تین دن کے اندر اپنی اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاؤ۔‘‘
پھراس نے ایک چٹان اٹھائی اور پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دی۔ چٹان لڑھکتی ہوئی پہاڑ کے دامن میں پہنچی تو ریزہ ریزہ ہوکر کنکروں میں بٹ گئی اور مکہ کا کوئی گھر ایسا نہ بچا جس میں چٹان کا کوئی کنکر نہ گرا ہو۔‘‘
خواب سن کر عباس بے قرار ہوگئے اور کہا ’’بخدا! یہ ایک اہم خواب ہے۔‘‘
پھر انہیں خدشہ ہوا کہ خواب کی بات کھل جائے گی، چنانچہ انہوں نے عاتکہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ’’تم بھی اس خواب کو پیٹ میں رکھنا اور کسی سے اس کا ذکر مت کرنا۔‘‘
پھر عباس خواب کے متعلق بے فکر ہوگئے۔ گھر سے نکلے تو راستے میں ان کا دوست ولید بن عتبہ انہیں ملا۔ عباس نے سارا خواب ولید کو کہہ سنایا اور ساتھ ہی تاکید بھی کی کہ اسے پوشیدہ ہی رکھنا اور کسی کو اس کی خبر نہ کرنا۔ ولید چلا گیا۔ اس کی ملاقات اپنے بیٹے عتبہ سے ہوئی تو اس نے خواب عتبہ کو بتا دیا، پھر زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ عتبہ نے اپنے چند ساتھیوں کو بھی خواب سے مطلع کردیا۔ ہوتے ہوتے سب لوگوں کو خواب کا پتہ چل گیا اور بات اہل مکہ میں پھیل گئی، حتی کہ قریش کی عام محفلوں میں بھی عاتکہ کے خواب کا تذکرہ ہونے لگا۔ چاشت کے وقت عباس کعبہ کا طواف کرنے گئے، ابوجہل کعبہ کے سائے میں قریش کی ایک ٹولی میں بیٹھا تھا۔ وہ لوگ عاتکہ کے خواب کے بارے میں تبادلۂ خیال کررہے تھے۔
ابوجہل نے عباس کو دیکھا تو کہا ’’ابوالفضل!طواف سے فارغ ہوجاؤ تو ہماری طرف آنا‘‘۔ عباس کو حیرانی ہوئی کہ ابوجہل کو ان سے کیا کام ہوسکتا ہے۔ انہیں بالکل توقع نہ تھی کہ ابوجہل ان سے عاتکہ کے خواب کے حوالے سے کوئی بات پوچھے گا۔ بہر کیف عباس نے طواف مکمل کیا اور ابوجہل کی مجلس کی جانب بڑھے۔ قریب آکر ان کے درمیان بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے ان سے کہا ’’بنو عبدالمطلب! یہ نبیہ (نبی عورت) تم میں کب پیدا ہوئی ہے؟
عباس نے پوچھا’’ کیا مطلب؟‘‘
اس نے کہا ’’وہ خواب عاتکہ نے دیکھا ہے‘‘
اس پر عباس ذرا گھبرائے اور انجان بنتے ہوئے سوال کیا ’’ کیا دیکھا ہے عاتکہ نے؟‘‘
ابوجہل بولا ’’بنوعبدالمطلب! کیا اس بات سے تمہارا دل نہیں بھرا تھا کہ تمہارے مرد نبوت کا دعویٰ کریں؟ اب تمہاری عورتیں بھی نبی ہونے کا دعویٰ کرنے لگی ہیں۔عاتکہ کہتی ہے کہ اس نے خواب میں دیکھا ہے، ایک آدمی کہہ رہا تھا ’’ارے او بے وفاؤ!تین دن کے اندر اپنی اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاؤ‘‘ ٹھیک ہے ہم تین انتظار کرتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہوئی تو ایسا ہوکر رہے گا اور اگر تین دن گزرنے کے بعد ایسی کوئی بات نہ ہوئی تو ہم تم لوگوں کے متعلق ایک تحریر لکھیں گے کہ تم عرب کا سب سے جھوٹا خاندان ہو۔‘‘
یہ سن کر عباس بہت پریشان ہوئے اور کوئی جواب نہ دیا، تاہم انہوں نے خواب کی تردید کی اور اس بات کا انکار کیا کہ عاتکہ نے کچھ دیکھا ہے۔ پھر مجلس برخاست ہوگئی ہے۔ عباس گھر آئے تو بنی عبدالمطلب کی تمام خواتین ان کے پاس نہایت غصے کی حالت میں آئیں اور ہر ایک نے یہی کہا: ’’اس فاسق خبیث (اشارہ ابوجہل کی طرف تھا) نے تمہارے مردوں کی بے عزتی کی اور تم چپ رہے۔ اب وہ تمہاری عورتوں کی بے عزتی کرنے پر اتر آیا ہے اور تم خاموش کھڑے سنتے رہتے ہو۔ تم لوگوں میں غیرت و حمیت نام کی بھی کوئی شئے ہے کہ نہیں؟‘‘
لعنت و ملامت سن کر عباس نے جوش اور غیرت میںآکر کہا :’’ واللہ ! ابوجہل نے دوبارہ ایسی بات کی تو میں اس کی ایسی تیسی کردوں گا۔‘‘
عاتکہ کے خواب کے تیسرے روز عباس مسجد میں آئے۔ وہ غصے میں تھے۔ مسجد میں انہوں نے ابوجہل کو دیکھا تو اس کے در پے ہوئے کہ وہ اپنی بات واپس لے۔ ابوجہل نے عباس کے تیور دیکھے تو مسجد سے دوڑ لگادی۔ عباس کو اس کی برق رفتاری پر بڑا تعجب ہوا۔ وہ تو آج ابوجہل سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے تیار ہوکر آئے تھے۔ عباس نے دل ہی دل میں کہا۔ ’’اللہ اس پر لعنت کرے ! اسے کیا ہوا؟ کیا یہ میری سرزنش کے ڈر سے بھاگا ہے؟‘‘۔
راستے میں ابوجہل کو ضمضم بن عمر و غفاری کی آواز سنائی دی جسے ابوسفیان نے اہل مکہ سے مدد مانگنے بھیجا تھا۔ ضمضم اونٹ پر سوار وادی میں شور مچاتا پھر رہا تھا۔ اس نے اونٹ کی ناک کاٹ رکھی تھی جس سے خون بہہ رہا تھا۔ ضمضم نے اپنا گریبان چاک کیا اور چلایا: ’’ اے اہل قریش! تجارتی قافلہ، تجارتی قافلہ، ابوسفیان کے پاس تمہارے مال و متاع پر محمد اور اس کے ساتھی حملہ کرنے والے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ تم وقت پر پہنچ کر انہیں روک لوگے۔‘‘
پھر ضمضم پوری طاقت سے چیخا‘ ’’مدد،مدد۔‘‘
اہل قریش نے فی الفور تیاری کی اور نکل کھڑے ہوئے۔بدر کے معرکے میں جو شکست اور ذلت ان کا مقدر بنی وہ سب کو معلوم ہے۔
یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ غیر معمولی احتیاط کے باوجود ایک لمحے میں جنگل کی آگ کی مانند پھیل گیا۔
اسی نوع کا ایک اور واقعہ سماعت کیجئے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انہوں نے چاہا کہ یہ بات پھیل جائے اور سب لوگ جان لیں کہ عمر مسلمان ہوگیا ہے۔ وہ قریش کے ایک آدمی کے پاس گئے جو ہر بات کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مشہور تھا اور اس سے کہا: ’’اے فلاں، میں تمہیں ایک راز کی بات بتانا چاہتا ہوں۔ اسے پوشیدہ رکھنا اور کسی سے نہ کہنا۔‘‘
وہ بولا: ’’ کیا بات ہے؟‘‘
عمر نے کہا: ’’میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ ہوشیار رہنا۔ اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔‘‘
یہ کہہ کر عمر واپس ہوگئے۔ ابھی وہ اس آدمی کی نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس نے لوگوں میں پھر پھر کر ہر ایک سے کہنا شروع کردیا:
’’کچھ خبر ہے؟ عمر مسلمان ہوگیا ہے۔ جانتے ہو عمر مسلمان ہوگیا ہے؟‘‘
ایک روز رسول اللہ ﷺ نے انس رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے بھیجا۔
راستے میں انہیں ان کی والدہ ملیں۔ انہوں نے انس سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے تجھے کس کام سے بھیجا ہے؟
انس نے جواب دیا: ’’واللہ! میں رسول اللہﷺ کا راز افشا نہیں کروں گا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کرام کو رازداری کی تربیت دی تاکہ وہ دور خلافت کی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہوسکیں۔
انس رضی اللہ عنہ صغر سنی ہی میں حفظ اسرار کے اس اصول پر سختی سے کاربند تھے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں۔ ان کی چال ہوبہو نبی ﷺ جیسی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مرحبا کہا اور انہیں اپنے دائیں یا بائیں بٹھا لیا، پھر آپ نے چپکے سے فاطمہ سے کوئی بات کہی، وہ سن کر رو پڑیں۔ میں نے ان سے کہا:
’’کیوں روتی ہو؟‘‘
رسول اللہ ﷺ نے پھر ان سے کوئی بات رازدارانہ کہی تو وہ ہنس پڑیں۔ میں نے کہا: میں نے ایسی خوشی آج تک نہیں دیکھی جو غم سے اتنی قریب ہو۔‘‘ میں نے فاطمہ سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے ان سے کیا کہا تھا۔ انہوں نے صاف جواب دیا: ’’میں رسول اللہ ﷺ کا راز فاش نہیں کرسکتی۔‘‘
نبی ﷺ کی وفات کے بعد میں نے فاطمہ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا: ’’رسول اللہ ﷺ نے پہلی بات یہ کہی تھی کہ جبریل مجھ سے سال میں ایک بار قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ اس مرتبہ انہوں نے دوبار قرآن کا دور کیا ہے۔ ان کے اس فعل سے میں نے یہی اندازہ لگایا ہے کہ میرا وقت اب قریب آگیا ہے۔ تم میرے گھرانے میں سب سے پہلے مجھ سے ملوگی۔یہ سن کر میں رو پڑی۔‘‘
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں پسند نہیں کہ اہل جنت یا مومنین کی عورتوں کی سردار (سیدہ) بنو۔‘‘ اس پر میں ہنس دی۔
جس قدر آپ راز کو راز رکھنا سیکھیں گے لوگ اسی قدر آپ پر اعتماد کریں گے اور آپ کیلئے اپنے دلوں کے قفل کھولیں گے۔ ان کے نزدیک آپ کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگا اور وہ آپ کو ثقہ و امانت دار سمجھیں گے۔
اس لئے نفس کو اپنے راز روک کر رکھنے اور دوسروں کے اسرار کی حفاظت کرنے کا عادی بنائیں۔
اہل دانش کا قول
’’جس نے تمہارا راز جان لیا اس نے گویا تمہیں اسیر کرلیا۔‘‘