مطیع اللہ مدنی
ملک کی آزادی اور ہندوستان کے بٹوارے کے بعد باقیماندہ ہندوستانی اقتدار پر کانگریس پارٹی کا قبضہ ہوا۔ تقسیم کے نتیجہ میں ایک خاص ہندو ذہن کا یہ ماننا تھا کہ جب مسلمانوں نے ایک حصۂ ملک بنام پاکستان لے لیا ہے۔ چنانچہ اب باقیماندہ ملک میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ چنانچہ اجودھیا کی بابری مسجد کے متعلق شرپسندوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ یہ مقام جہاں پر بابری مسجد تعمیر کی گئی ہے وہ رام چندر جی کا جنم استھان ہے، لہذا بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئے۔ ہندوستان کے شہر ایودھیا میں بابر جیسے لٹیرے اور قزاق مغل بادشاہ کی یہ نشانی ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔ اندر اندر سازشیں ہوتی رہی تھیں۔ تقسیم کے بعد مسلمان بے حال اور ہراساں تھے۔ ان کی تعداد بھی کم تھی۔ اقتدار میں کوئی قابل ذکر حصہ نہیں ملا تھا۔
اصل اقتدار ہندو ہاتھوں میں تھا ہر سطح پر ان کی بالا دستی قائم تھی،۱۹۴۹ء میں ماہ دسمبر کی ۲۲ اور ۲۳ کی درمیانی تاریک رات میں کچھ شرپسندوں نے مسجد کے گنبد کے نیچے مورتیاں لا کر رکھ دیں اور صبح کے اجالے میں یہ شور کیا کہ جائے پیدائش میں رام للا پرگٹ ہوگئے، مسلمانوں نے معاملہ کو فیض آباد کچہری میں پہونچایامرکز میں اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو جی کی حکومت تھی اور یو پی میں بھی کانگریس بر سر اقتدار تھی، حکومت نے اس وقت بابری مسجد پر تالا ڈلوا دیا اور مورتیاں جوں کی توں اسی مقام پر باقی چھوڑدی گئیں،معاملہ کا مقدمہ سست رفتاری سے جاری رہا یا پھر سردخانے میں چلا گیا، بہر حال معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا، ایودھیا کے قلیل مظلوم مسلمان مسجد میں عبادت سے محروم کر دےئے گئے، کانگریس کا اقتدار طویل رہا ایسی صورت میں ہندو ذہنیت والی فرقہ پرست پارٹی سیاسی طور پربہت کمزور رہی ایک طویل عرصہ تک کوئی ہنگامہ بپا کرنے کی صلاحیت سے محروم تھی۔
اندرا گاندھی کی آمرانہ ذہنیت کا رد عمل یہ سامنے آیا کہ ’’جن سنگھیوں‘‘ نے بھیس بدل کر نیز اوروں کے ساتھ مل کر جنتا پارٹی کی تشکیل کی ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں کانگریس مرکز میں اقتدار سے محروم ہو گئی، جنتا پارٹی مختلف الخیال لوگوں کی پارٹی تھی ۱۹۸۰ء میں اس کا اقتدار ختم ہو گیا۔ درمیانی انتخاب میں پھر اندرا گاندھی سربراقتدار آئی،۱۹۸۴ء میں وہ اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل کر دی گئیں۔کیونکہ انہوں نے سکھ خالصہ تحریک کو دبانے اور کچلنے کے لئے گولڈن ٹمپل پر فوجی کارروائی کی تھی فوری طور پر ناتجربہ کار راجیو گاندھی وزیر اعظم بنے،پھر جدید انتخاب میں کانگریس کی جیت ہوئی اور راجیو گاندھی برسراقتدار پارٹی کے وزیر اعظم بنے ان کی حکومت کے ایام میں پھر جن سنگھ یعنی موجودہ بھاجپا اور دیگر تمام ہندو تنظیموں نے ایودھیا میں رام جنم بھومی کی تحریک شروع کی اور وہاں پر شاندار رام مندر کی تعمیر کا پروپیگنڈہ شروع کیااور عام ہندؤں میں مذہبی جنون پیدا کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کرلی۔
۱۹۸۶ء میں وہ بابری مسجد جس پر سالوں سے تالاپڑا ہوا تھا کانگریس پارٹی کے قدیم گھاگ لیڈروں نے راجیو گاندھی کواس بات پر آمادہ کر لیا کہ کانگریس کو بابری مسجد کا تالا کھلوادینا چاہئے اور رام مندر کا شیلا نیاس کرانا چاہئے ، ان کا بظاہر ماننا تھا کہ اس سارے عمل سے بھاجپا کے غبارے کی ہوا نکل جائے گی جو اس تحریک کے سہارے ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرنا چاہتی ہے۔
بابری مسجد کا تالا برائے پوجا پاٹ کھول دیا گیا اور رام مندر کا شیلا نیاس کروایا گیا یوں ایک بڑے فتنہ اور مسجد کی تباہی کا قوی ساماں فراہم کر دیا گیا۔
۱۹۸۹ء کے انتخاب میں کانگریس مخالف پارٹی جنتا دل کا قیام ہوا اس کے لیڈر وی پی سنگھ وغیرہ نے بھاجپا کے ساتھ تال میل کرکے الیکشن لڑا اس کا سنگین نتیجہ یہ ہواکہ بھاجپا۸۲ پارلیمانی سینٹوں پر قابض ہوئی جب کہ پچھلے انتخاب میں کل دو سیٹ پر اسے کامیابی ملی تھی۔
اس کا نتیجہ بدیہ سامنے آیا کہ جنتا دل کی حکومت بھاجپا کی بیرونی تائید کی بیساکھی پر قائم ہوئی چنانچہ انھوں نے ’’رام مندر تحریک‘‘ اور ‘‘انہدام مسجد بابری‘‘ کا مسئلہ اس قدر دیدہ دلیری سے چھیڑا کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی، خودتمام سنگھی نیتا اور ان کے زیر اثر عوام پورے پردیش بلکہ پورے دیش میں قانون ودستور کی دھجیاں بکھیرتے رہے بحق مسلمان دل آزار اور حددرجہ زہریلے نعرے لگاتے رہے، کچھ دریدہ دھن نیتا کے ساتھ کچھ خاص بے شرموا پہلوان قسم کی مادہ نیتاؤں نے زہر اگلنے میں بڑی شہرت حاصل کی ایک طرف ان کی دریدہ دہنی اور زہر افشانی کا سلسلہ دوسری طرف ایڈوانی کی سومنات سے ایودھیا تک کی رتھ یاترااور ان کے ساتھی یاتریوں کی طوفان بد تمیزی نے پورے ملک بالخصوص اتر پردیش میں ایک ہنگامہ بپا کر رکھا تھا۔
مرکز میں وزیر اعظم وی ۔پی۔ سنگھ کی عقل ماؤف تھی کہ اگر ایڈوانی اینڈ کمپنی کوکسی طور پر گرفتار کرنے کی کوشش کی تو ہماری حکومت کا وہ آخری دن ہوگا ادھر صوبہ اتر پردیش میں کیا کریں کیا نہ کریں؟ کچھ سمجھ آتا نہیں والی کیفیت بنی ہوئی تھی، وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو ضرور ان بھاجپائی سورماؤں سے کافی حد تک نبرد آزما تھے اور مسجد بچانے کے لئے ا پنے کو پابند عہد ماننے کا اعلان کرتے تھے۔
ادھر رتھ یاترا جیسے جیسے آگے بڑھتا رہا ایودھیا کی طرف کارسیوکوں کا رخ زیادہ ہونے لگا ملائم سنگھ نے کارسیوکوں کے لئے ایودھیا میں داخلہ ممنوع قرار دیا تھا۔ مگر باطل مذہب کا جنون شیطان تو اسے اور بڑھا وادیتا ہے کارسیوک نہ مانے اور اپنا سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا ملائم سرکار نے بزور قوت کسی حد تک مزاحمت کیا اور اس وقت مسجد منہدم ہونے سے بچ گئی ۔
ادھر جب ایڈوانی کاخونی رتھ بہار میں داخل ہوا تو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو یادو نے ایڈوانی کا رتھ روک دیا اور گرفتا ر کر لیا۔
جو کام پی۔ایم۔وی ۔پی۔ سنگھ کو کافی پہلے کرنا چاہئے اسے لالو یادو نے کیا، نتیجہ وہی سامنے آیا جس کا خوف واندیشہ وی پی سنگھ کو تھاسنگھیوں نے حمایت واپس لے لی اوروی پی سنگھ حکومت گر گئی۔
مگرکافی دیر ہو چکی تھی، ملک کی فضا زہریلی وخونی ہو چکی تھی، عوام سحر سامری (ایڈوانی) میں گرفتار ہوکر عقل وخرد سے بیگانہ ہو چکے تھے پورا ملک مکمل طور پر خونی ماحول میں ڈھل چکا تھا، ادھر مرکزمیںآئے دن وزراء اعظم بدلتے رہے، بالآخر ۱۹۹۱ء میں راجیو گاندھی پھر برسر اقتدار آئے مگر مئی ۱۹۹۱ء میں مظلوم قوم کی بددعا کے نتیجہ میں تمل تحریک کے ہاتھوں قتل کئے گئے یہیں سے نرسمہا راؤوزیر اعظم بنے، ادھر یو۔پی کا منظر نامہ بھی تبدیل ہو چکا تھا یہاں پر بھاجپا کی حکومت تھی یہاں پر بھی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ بن گئے۔
بالآخر اب جب کہ ’’سیاں بناکوتوال توڈرکاہے کا‘‘ والی بات تھی ملکی دستور اور ہرنظم وقانون کو بالائے طاق رکھ کر ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو مرکز ویوپی دونوں حکومتوں کی خفیہ ساز باز سے دن کے اجالے میں کو ربخت کارسیوکوں نے (جن میں مزدور وکسان دبے کچلے لوگ تھے)اپنے مذہبی وسیاسی آقاؤں کی وہیں اجودھیا میں موجودگی میں صدیوں پرانی ایک قدیم تاریخی مسجد کو ڈھاکر زمین بوس کردیا اس وقت صورت حال عجیب تھی ڈھانے والے اور اس کی رہنمائی وقیادت کرنے والوں کا گمان نہیں بلکہ ایقان تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، دستور وقانون کی صریح خلاف ورزی ہے فوری طور وہ ہراساں تھے،بہت سے لیڈران پر مقدمات قائم ہوئے وزیر اعلی کلیان کو رمزی سزا وجرمانہ سے دوچار کیا گیا اسے ایک دن کی جیل اور ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا عائد ہوئی
شاعر نے کہا تھا:
شہر در شہرہنگامے جس نے کئے خون بھر دےئے جس نے سارے دےئے
جسکی گردن پہ تھا خون مظلوم کا ایک دن کی سز اور اس کیلئے وزیر اعظم نے اسی جگہ پر مسجد تعمیر کروانے کی بات کہی اور۱۵؍اگست ۱۹۹۳ء کو لال قلعہ کی فصیل سے مسجد کی دوبارہ تعمیر کا وعدہ دوہرایا۔
مسجد اور آس پاس کی زمین اکوائر کر لی گئی، اس پر کسی نوع کی تعمیرپر روک لگا دی گئی تا وقتیکہ کہ کورٹ سے فیصلہ آجائے یا پھر صلح وسمجھوتے سے معاملہ کا تصفیہ ہو جائے۔
اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیر اعظم بنے مگر رام مندر کی تعمیر کا سارا سامان مہیا ہونے اور اس پر زور صرف کرنے کے باوصف مندر کی تعمیر کا کوئی عملی قدم واجپائی یا کلیان دونوں نے نہیں اٹھایا ۱۹۸۹ء سے ہی بابری مسجد نزاع کے جملہ مقدمات الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کو منتقل کیا گیا وہاں ججوں کی ایک بنچ مقدمات کی سماعت کرتی رہی،مختلف اوقات میں اس بنچ کے فاضل ججوں کی تبدیلی بھی ہوتی رہی گواہیاں پیش ہوتی رہیں بیانات قلمبند کئے جاتے رہے ثبوت کی فراہمی ہوتی رہی آثارقدیم والوں کی بھی مددلی گئی آس پاس کی زمین کی کھدائی عمل میں آئی،ججوں کی آخری بنچ نے فیصلہ تیار کیا ماہ ستمبر ۲۰۱۰ء میں فیصلہ سنانے کی بات میڈیا میں آئی پورے ملک اس فیصلہ کو سننے کے لئے ہر کسی میں ایک بے تابی تھی۔ صحافت وذرائع ابلاغ میں بھانت بھانت کی خبریں آنے لگیں ہر کوئی فضا کو پر امن بنائے رکھنے کی اپیل کرتا نظر آنے لگا تنظیمیں اور پارٹیاں بھی اپنے انداز کی اپیلیں اخبارات میں چھپواتی رہیں، فیصلہ کی تاریخ ٹلتی رہی پھر یہ اعلان سامنے آیا کہ ۲۴؍ستمبر۲۰۱۰ء کو فیصلہ سنایا جائے پورے صوبے نہیں بلکہ ملک میں ہائی الرٹ کر دیا گیا عوام بالخصوص مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لئے بظاہر پولیس اور متعدد فورس کی بھاری تعیناتی عمل میں آئی جمعرات کی شام کو یہ خبر آئی کل فیصلہ نہیں سنایا جائے گا۔
کسی پنڈت نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر دی کہ فیصلہ نہ سنایا جائے، اٹھائیس ستمبر کو اس عرضی پر سماعت ہوئی اور سپریم کورٹ نے یہ عرضی خارج کر دی اور فیصلہ سنانے کی راہ صاف ہو گئی۔
قصۂ مختصر:۳۰؍ستمبرکو فیصلہ کا دن مقرر کیا پھر دوبارہ پورے ملک میں ہائی الرٹ کیا گیا فورس کی بڑی نفری کی تعیناتی کر دی گئی اور ساڑھے تین بجے عدالت میں فریقین کو فیصلہ سنانے کی پوری تیاری مکمل کر لی گئی اور اس کے آدھے گھنٹے بعد ذرائع ابلاغ کے لوگوں تک اس فیصلہ کی کاپی تقسیم کرنے اور عوام تک نشر کرنے کا انتظام کیا گیا۔
متنازعہ اکوائر شدہ زمین کے مالکانہ حق کا فیصلہ سنایا گیا فیصلہ کیا تھا؟
پوری متنازعہ جگہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ایک حصہ جہاں پر ناجائز طور پر رام کی مورتیاں رکھ دی گئی تھیں، اسے رام للاکو(اسے ایک فریق مان کر) دیا گیا، اور ایک حصہ سیتا رسوئی گھر وغیرہ نرموہی اکھاڑہ کو دیا گیا اور ایک تیسرا حصہ سنی مسلم وقف بورڈ کو دیا گیا۔
یہ فیصلہ در حقیقت فیصلہ تھا ہی نہیں بلکہ ایک سمجھوتہ والی راہ اختیار کی گئی تھی اور اکثر یتی فرقہ ہندؤں کو ان کی آستھاکی بنیاد پر فاتح قراردیا گیا تھا، اور پوری ڈھٹائی اور بے جاجسارت کے ساتھ یہ فیصلہ دیا گیا کہ رام للا اسی جگہ پر براجمان رہیں گے وہاں سے مورتیاں نہیں ہٹائی جائیں گی۔
یہ فیصلہ جبین عدالت پر ایک سیاسی ہے کیونکہ اس میں عدالتی تقاضوں، قانونی ضابطوں اور عدلیہ کے دستور کی مکمل خلاف ورزی کی گئی ہے فیصلہ گواہوں کی شہادتوں، موجودہ پیش کردہ ثبوتوں اور دیگر میسر حقائق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
اس فیصلہ میں فاضل جج صاحبان نے گواہوں، ثبوتوں اور موجود حقائق کو یکسر نظر انداز کیا اور محض ایک فرقہ یعنی ہندؤں کے’’ اعتقادی گپ‘‘ کی طرف دھیان رکھ کر بزعم خویش ایک نا پسندیدہ وناقابل قبول مصالحتی فارمولہ پیش کیا ہے کل کے رام مندر تحریک چلانے والے بھی اپنے تئیں یہ سمجھتے تھے وہ غلط دعویٰ کر رہے ہیں زور زبردستی سے ایک تاریخی مسجد کو غصب کرنا چاہتے ہیں اکثریتی غلبہ کی بنیاد پر وہ وہاں ایک موجود مسجد کو منہدم کرکے رام مندر کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
مسجد ڈھا کر وہ اپنے اقدام کو مبنی بر غلط سمجھتے تھے اس پر بعض سنگھیوں حتی کہ ایڈوانی نے بھی انہدام عمارت پر اپنے افسوس کا اظہار کیا تھا، اسی لئے تو کلیان سنگھ کی حکومت برخواست کی گئی تھی اسے رمزی سزاکے طور پرایک دن کی جیل ہوئی اور اس پر ایک ہزار کا جرمانہ عائد کیا گیا مسجد ڈھانے والوں پر مقدمات قائم ہوئے تھے کانگریس کی مرکزی حکومت نے مسجد کی تعمیر نو کا وعدہ کیا تھا۔لیکن افسوس ہو ان ججوں پر جنہوں ان تمام حقائق سے چشم پوشی کی اور ۱۳ ہزار اوراق پر مشتمل اس کیس کی دستاویز اور متعلقہ شہادات وثبوت اور حقائق کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے ایک مصالحتی فارمولہ کو بشکل فیصلہ پیش کیا۔
ع تفو بر اے جج بت تو تفو
اس فیصلہ کی سماعت کے بعد مختلف اشخاص مختلف تنظیمات کے اپنے اپنے بھانت بھانت قسم کے تاثرات وملاحظات سامنے آئے ہمیں اس سے کوئی زیادہ سروکار نہیں ہے ہمارے اپنے تاثرات یہ ہیں۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ یہ فیصلہ جس کو میڈیا نے ’’بڑا فیصلہ‘‘ کا نام دیا تھا فیصلہ ہے ہی نہیں یہ تو اہل سیاست یا پھر سنگھیوںیا تمام ہندوذہنیت کا املا کروایا ہوا مصالحتی فارمولہ ہے جو مسلمانوں کے لئے بہر حال ناقابل قبول ہے۔
یہ فیصلہ عدالت کا ایک گھناونا کھیل ہے جس پر اہل اقتدار کا ناجائز تسلط ہوتا ہے جسمیں حقائق کی پروا کئے بغیر مسلم فرقہ کی مزید دل آزاری کے لئے کھیلا گیا ہے تقسیم ملک کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ظلم وجور کے سلسلہ کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی ہے یہ فیصلہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے ساتھ ایک مذاق ہے جس میں ان کے جائز حق کو عدالت کے ذریعہ غصب کرنے اور ایک قدیم تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کے بعد اس پر ہندؤں کو مندر کی تعمیر کرنے کو سند جو از عطا کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے اس طرح کے فیصلوں سے حقائق نہیں بدلتے ہیں یہ فیصلہ عدالتی تاریخ کا بدترین فیصلہ ہے جو جبین عدالت پر ایک کلنک ہے کیونکہ فیصلہ گواہوں ثبوتوں اور قوانین وضوابط کی روشنی میں صادر کئے جاتے ہیں اس میں ان سے یکسر چشم پوشی کی گئی ہے۔
یہ فیصلہ بتاتا ہے کہ ہماری عدلیہ آزاد نہیں ہے بلکہ اس اہل سیاست، مقتدرہ اور اکثریت کی طاقت کے طوق وسلاسل ہیں جس میں وہ مقید ہے۔
اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو پھر فیصلہ بہر حال اس کے علاوہ ہی ہوتا فاضل جج صاحبان کو اس سیکولر اسٹیٹ میں آستھا اور دینی جذبہ کی بنیاد پر فیصلہ نہیں صادر کرنا چاہئے تھا مقدمہ میں صرف ایک فرقہ کے آستھا کا خیال رکھنا کسی طور پرزیب نہیں دیتا۔
انہیں تو موجودہ گواہی، ثبوت اور بیانات وغیرہ کی روشنی میں فیصلہ تحریر کرنا چاہئے وہ فیصلہ کسی کے حق اور کسی کے خلاف بھی ہوتا اس سے انھیں سرور کا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
یہ فیصلہ یہ تصور ابھا کر سامنے لاتا ہے کہ اس میں خواہ مخواہ اکثریتی فرقہ کی خوشنودی کو مقدم رکھا گیا ہے اور شاید اس میں ووٹ بینک کی سیاست کا سب سے بڑا دخل ہے اگر یہی فیصلہ کرنا تھا تو پھر ساٹھ سال کی طویل عدالتی کاروائی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
اگر فیصلہ آستھا کی بنیاد پر کرنا تھا تو پھراقلیتی فرقہ مسلم کی آستھا کا خیال اور اس کا لحاظ کیوں نہیں کیا گیا۔
اسلامی آستھا کے مطابق مسجد ہمیشہ کے لئے مسجد ہوتی ہے اسے کسی اور مصرف میں نہیں استعمال کیا جا سکتا ہے یہ اسلامی آستھا کا حصہ ہے کہ مسجد غضب شدہ زمین پر بنائی ہی نہیں جا سکتی ہے اور مسجد بنی تھی اور صدیوں اس میں نماز پڑھی گئی اور وہ مسجد کے نام سے تاریخی شہرت رکھتی تھی۔
ججوں کا اعتراف بھی ہے اس میں ۱۹۴۹ء میں مورتیاں رکھی گئی تھیں پھر مسجد کی زمین رام للا کو کیونکر دئے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے عدالتوں میں انصاف بکتا ہے کیا اس امکان کو مسترد کیا جا سکتا ہے کہ ججوں کی خریدوفروخت نہ ہوئی ہو خصوصا جبکہ یہ امر سب پر عیاں ہے کہ تمام تر دوائرحکومیہ اور ہر سطح کی عدالتوں میں رشوت ستانی عام بات ہے اس ملک ہندوستان کی بنیاد میں رشوت ستانی کی جو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اس فیصلہ نے معاملہ کو سلجھایا نہیں بلکہ الجھا کر مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور مسئلہ کو خواہ مخواہ طویل کر دیا گیا ہے اگر فیصلہ یہی تھا پھر خواہ مخواہ اس کے لئے ملک اور صوبے میں ہائی الرٹ کا انتظام کیا گیا اس کو بارہاٹالنے کا شاید ناٹک کیا جا رہا تھا کیونکہ اہل سیاست کو فیصلہ کا سابقہ علم تھا اس فیصلہ نے یہ تصور دیا کہ ۱۹۸۹ء سے لیکر ۱۹۹۲ء تک کا خونی کھیل خود عدالت کی فیصلہ میں تاخیر کی رہین منت ہے۔
در حقیقت اس فیصلہ کے ذریعہ مسلمانوں کی مقدسات پر ناجائز دعوؤں اور قبضوں کو درست قرار دینے کی ناروا کوشش کی گئی ہے قابل ذکر بات یہ ہے یہ فیصلہ بھی اس وقت سامنے آیا اور تعمیر مندر کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہوئی جب کہ مرکز میں کانگریس کی حکومت ہے۔
اس فیصلہ نے یہ ثابت کیا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے بلکہ جنگل راج کا قانون کام کر رہا ہے جسکی لاٹھی اس کی بھینس والی کہانی ہے ہندؤں نے اپنے کو بدترین حاکم ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے اس فیصلہ کے ذریعہ ججوں نے اپنے قابل احترام عہدوں کا پاس ولحاظ نہیں کیا بلکہ اپنے باوقارمنصب اور عدلیہ کے وقار کو مجروح کیا۔:
میں لٹ گیا کوئی غم نہیں
تری منصفی کا سوال ہے؟
ان ججوں کی ذمہ داری یہ تھی کہ میسر گواہوں، ان کے بیانات اور دستیاب ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ تحریر فرماتے خواہ فیصلہ کسی کے حق میں ہوتا یا کسی کے خلاف ہوتا۔
ظلم وجور کی حد ہے کہ محض اعتقاد کی بنا پر دوسروں کی ملکیت کو غاصبوں کو عطا کرنے کے لئے قانون ودستور کو بالائے طاق رکھ دیا گیامگر بات وہی ہے جو کسی شاعر نے کہی ہے:
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہ کچھ کام آتی دلیل اور حجت
مسلمانوں نے اپنی طویل تاریخ میں غیروں کی جانب سے عداوت اور دشمنی کا اس سے شدید دن دیکھا ہے وہ اس سے بھی شدید آزمائش سے دو چار ہوئے انھیں تو مال وجان کی آزمائش سے گذر نا ہی ہے اہل کتاب یہود ونصاریٰ اور مشرکین کی جانب سے بہت سی دل آزار باتیں سننی ہیں قال تعالیٰ:(لتبلون فی أموالکم وأنفسکم ولتسمعن من الذین أوتوالکتاب من قبلکم ومن الذین أسرکوا اذی کثیرا، وان تصبروا وتتقوا فان ذالک من عزم الامور)(آل عمران۱۸۶) انھیں دل آزار باتوں میں سے ان جج صاحبان کاظالمانہ اور جائزانہ فیصلہ بھی ہے جس کی سماعت سے اہل اسلام کی شدید دل آزاری ہوئی ان کے قلب وجگر کٹ کر رہ گئے انھیں اپنی بے چارگی پر رونا آیا ایسی صورت میں انھیں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اپنے اندر تقوی کی روح مزید بیدار کرنی چاہئے کہ یہی اولوالغرم مردوں کا کام ہے۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ مسلمانوں نے اس فیصلہ بلکہ ڈھکوسلہ کے وقت صبروتحمل کا عمدہ مظاہرہ کیا جان ومال کی مزید تباہی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا یہ بڑی دانشمندی کی بات ہے امن وسلامتی کی فضا بنائے رکھنا تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے وقت خود ظالمان وقت کا حساب چکائے گا اور ان کی رسوائی کا مسامان فراہم کرے گا ’’سیعلم الذین ظلموا ای ینقلب ینقلبون‘‘
***
بابری مسجد فیصلہ
جبین عدالت پر ایک سیاہی
عہد مغلیہ میں بابری مسجد کی تعمیر ہوئی اور اس میں نماز ادا کیجاتی رہی، مغلیہ حکومت کے سقوط کے بعد انگریزی استعمار کے زمانہ میں بھی مسجد میں عبادت ہوتی رہی، عدالتی تاریخ میں اس سلسلہ میں کسی نزاع کا ذکر نہیں ہے، نہ ہی ہندؤں کے کسی دعوی کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔جبین عدالت پر ایک سیاہی
ملک کی آزادی اور ہندوستان کے بٹوارے کے بعد باقیماندہ ہندوستانی اقتدار پر کانگریس پارٹی کا قبضہ ہوا۔ تقسیم کے نتیجہ میں ایک خاص ہندو ذہن کا یہ ماننا تھا کہ جب مسلمانوں نے ایک حصۂ ملک بنام پاکستان لے لیا ہے۔ چنانچہ اب باقیماندہ ملک میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ چنانچہ اجودھیا کی بابری مسجد کے متعلق شرپسندوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ یہ مقام جہاں پر بابری مسجد تعمیر کی گئی ہے وہ رام چندر جی کا جنم استھان ہے، لہذا بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئے۔ ہندوستان کے شہر ایودھیا میں بابر جیسے لٹیرے اور قزاق مغل بادشاہ کی یہ نشانی ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔ اندر اندر سازشیں ہوتی رہی تھیں۔ تقسیم کے بعد مسلمان بے حال اور ہراساں تھے۔ ان کی تعداد بھی کم تھی۔ اقتدار میں کوئی قابل ذکر حصہ نہیں ملا تھا۔
اصل اقتدار ہندو ہاتھوں میں تھا ہر سطح پر ان کی بالا دستی قائم تھی،۱۹۴۹ء میں ماہ دسمبر کی ۲۲ اور ۲۳ کی درمیانی تاریک رات میں کچھ شرپسندوں نے مسجد کے گنبد کے نیچے مورتیاں لا کر رکھ دیں اور صبح کے اجالے میں یہ شور کیا کہ جائے پیدائش میں رام للا پرگٹ ہوگئے، مسلمانوں نے معاملہ کو فیض آباد کچہری میں پہونچایامرکز میں اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو جی کی حکومت تھی اور یو پی میں بھی کانگریس بر سر اقتدار تھی، حکومت نے اس وقت بابری مسجد پر تالا ڈلوا دیا اور مورتیاں جوں کی توں اسی مقام پر باقی چھوڑدی گئیں،معاملہ کا مقدمہ سست رفتاری سے جاری رہا یا پھر سردخانے میں چلا گیا، بہر حال معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا، ایودھیا کے قلیل مظلوم مسلمان مسجد میں عبادت سے محروم کر دےئے گئے، کانگریس کا اقتدار طویل رہا ایسی صورت میں ہندو ذہنیت والی فرقہ پرست پارٹی سیاسی طور پربہت کمزور رہی ایک طویل عرصہ تک کوئی ہنگامہ بپا کرنے کی صلاحیت سے محروم تھی۔
اندرا گاندھی کی آمرانہ ذہنیت کا رد عمل یہ سامنے آیا کہ ’’جن سنگھیوں‘‘ نے بھیس بدل کر نیز اوروں کے ساتھ مل کر جنتا پارٹی کی تشکیل کی ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں کانگریس مرکز میں اقتدار سے محروم ہو گئی، جنتا پارٹی مختلف الخیال لوگوں کی پارٹی تھی ۱۹۸۰ء میں اس کا اقتدار ختم ہو گیا۔ درمیانی انتخاب میں پھر اندرا گاندھی سربراقتدار آئی،۱۹۸۴ء میں وہ اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل کر دی گئیں۔کیونکہ انہوں نے سکھ خالصہ تحریک کو دبانے اور کچلنے کے لئے گولڈن ٹمپل پر فوجی کارروائی کی تھی فوری طور پر ناتجربہ کار راجیو گاندھی وزیر اعظم بنے،پھر جدید انتخاب میں کانگریس کی جیت ہوئی اور راجیو گاندھی برسراقتدار پارٹی کے وزیر اعظم بنے ان کی حکومت کے ایام میں پھر جن سنگھ یعنی موجودہ بھاجپا اور دیگر تمام ہندو تنظیموں نے ایودھیا میں رام جنم بھومی کی تحریک شروع کی اور وہاں پر شاندار رام مندر کی تعمیر کا پروپیگنڈہ شروع کیااور عام ہندؤں میں مذہبی جنون پیدا کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کرلی۔
۱۹۸۶ء میں وہ بابری مسجد جس پر سالوں سے تالاپڑا ہوا تھا کانگریس پارٹی کے قدیم گھاگ لیڈروں نے راجیو گاندھی کواس بات پر آمادہ کر لیا کہ کانگریس کو بابری مسجد کا تالا کھلوادینا چاہئے اور رام مندر کا شیلا نیاس کرانا چاہئے ، ان کا بظاہر ماننا تھا کہ اس سارے عمل سے بھاجپا کے غبارے کی ہوا نکل جائے گی جو اس تحریک کے سہارے ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرنا چاہتی ہے۔
بابری مسجد کا تالا برائے پوجا پاٹ کھول دیا گیا اور رام مندر کا شیلا نیاس کروایا گیا یوں ایک بڑے فتنہ اور مسجد کی تباہی کا قوی ساماں فراہم کر دیا گیا۔
۱۹۸۹ء کے انتخاب میں کانگریس مخالف پارٹی جنتا دل کا قیام ہوا اس کے لیڈر وی پی سنگھ وغیرہ نے بھاجپا کے ساتھ تال میل کرکے الیکشن لڑا اس کا سنگین نتیجہ یہ ہواکہ بھاجپا۸۲ پارلیمانی سینٹوں پر قابض ہوئی جب کہ پچھلے انتخاب میں کل دو سیٹ پر اسے کامیابی ملی تھی۔
اس کا نتیجہ بدیہ سامنے آیا کہ جنتا دل کی حکومت بھاجپا کی بیرونی تائید کی بیساکھی پر قائم ہوئی چنانچہ انھوں نے ’’رام مندر تحریک‘‘ اور ‘‘انہدام مسجد بابری‘‘ کا مسئلہ اس قدر دیدہ دلیری سے چھیڑا کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی، خودتمام سنگھی نیتا اور ان کے زیر اثر عوام پورے پردیش بلکہ پورے دیش میں قانون ودستور کی دھجیاں بکھیرتے رہے بحق مسلمان دل آزار اور حددرجہ زہریلے نعرے لگاتے رہے، کچھ دریدہ دھن نیتا کے ساتھ کچھ خاص بے شرموا پہلوان قسم کی مادہ نیتاؤں نے زہر اگلنے میں بڑی شہرت حاصل کی ایک طرف ان کی دریدہ دہنی اور زہر افشانی کا سلسلہ دوسری طرف ایڈوانی کی سومنات سے ایودھیا تک کی رتھ یاترااور ان کے ساتھی یاتریوں کی طوفان بد تمیزی نے پورے ملک بالخصوص اتر پردیش میں ایک ہنگامہ بپا کر رکھا تھا۔
مرکز میں وزیر اعظم وی ۔پی۔ سنگھ کی عقل ماؤف تھی کہ اگر ایڈوانی اینڈ کمپنی کوکسی طور پر گرفتار کرنے کی کوشش کی تو ہماری حکومت کا وہ آخری دن ہوگا ادھر صوبہ اتر پردیش میں کیا کریں کیا نہ کریں؟ کچھ سمجھ آتا نہیں والی کیفیت بنی ہوئی تھی، وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو ضرور ان بھاجپائی سورماؤں سے کافی حد تک نبرد آزما تھے اور مسجد بچانے کے لئے ا پنے کو پابند عہد ماننے کا اعلان کرتے تھے۔
ادھر رتھ یاترا جیسے جیسے آگے بڑھتا رہا ایودھیا کی طرف کارسیوکوں کا رخ زیادہ ہونے لگا ملائم سنگھ نے کارسیوکوں کے لئے ایودھیا میں داخلہ ممنوع قرار دیا تھا۔ مگر باطل مذہب کا جنون شیطان تو اسے اور بڑھا وادیتا ہے کارسیوک نہ مانے اور اپنا سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا ملائم سرکار نے بزور قوت کسی حد تک مزاحمت کیا اور اس وقت مسجد منہدم ہونے سے بچ گئی ۔
ادھر جب ایڈوانی کاخونی رتھ بہار میں داخل ہوا تو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو یادو نے ایڈوانی کا رتھ روک دیا اور گرفتا ر کر لیا۔
جو کام پی۔ایم۔وی ۔پی۔ سنگھ کو کافی پہلے کرنا چاہئے اسے لالو یادو نے کیا، نتیجہ وہی سامنے آیا جس کا خوف واندیشہ وی پی سنگھ کو تھاسنگھیوں نے حمایت واپس لے لی اوروی پی سنگھ حکومت گر گئی۔
مگرکافی دیر ہو چکی تھی، ملک کی فضا زہریلی وخونی ہو چکی تھی، عوام سحر سامری (ایڈوانی) میں گرفتار ہوکر عقل وخرد سے بیگانہ ہو چکے تھے پورا ملک مکمل طور پر خونی ماحول میں ڈھل چکا تھا، ادھر مرکزمیںآئے دن وزراء اعظم بدلتے رہے، بالآخر ۱۹۹۱ء میں راجیو گاندھی پھر برسر اقتدار آئے مگر مئی ۱۹۹۱ء میں مظلوم قوم کی بددعا کے نتیجہ میں تمل تحریک کے ہاتھوں قتل کئے گئے یہیں سے نرسمہا راؤوزیر اعظم بنے، ادھر یو۔پی کا منظر نامہ بھی تبدیل ہو چکا تھا یہاں پر بھاجپا کی حکومت تھی یہاں پر بھی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ بن گئے۔
بالآخر اب جب کہ ’’سیاں بناکوتوال توڈرکاہے کا‘‘ والی بات تھی ملکی دستور اور ہرنظم وقانون کو بالائے طاق رکھ کر ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو مرکز ویوپی دونوں حکومتوں کی خفیہ ساز باز سے دن کے اجالے میں کو ربخت کارسیوکوں نے (جن میں مزدور وکسان دبے کچلے لوگ تھے)اپنے مذہبی وسیاسی آقاؤں کی وہیں اجودھیا میں موجودگی میں صدیوں پرانی ایک قدیم تاریخی مسجد کو ڈھاکر زمین بوس کردیا اس وقت صورت حال عجیب تھی ڈھانے والے اور اس کی رہنمائی وقیادت کرنے والوں کا گمان نہیں بلکہ ایقان تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، دستور وقانون کی صریح خلاف ورزی ہے فوری طور وہ ہراساں تھے،بہت سے لیڈران پر مقدمات قائم ہوئے وزیر اعلی کلیان کو رمزی سزا وجرمانہ سے دوچار کیا گیا اسے ایک دن کی جیل اور ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا عائد ہوئی
شاعر نے کہا تھا:
شہر در شہرہنگامے جس نے کئے خون بھر دےئے جس نے سارے دےئے
جسکی گردن پہ تھا خون مظلوم کا ایک دن کی سز اور اس کیلئے وزیر اعظم نے اسی جگہ پر مسجد تعمیر کروانے کی بات کہی اور۱۵؍اگست ۱۹۹۳ء کو لال قلعہ کی فصیل سے مسجد کی دوبارہ تعمیر کا وعدہ دوہرایا۔
مسجد اور آس پاس کی زمین اکوائر کر لی گئی، اس پر کسی نوع کی تعمیرپر روک لگا دی گئی تا وقتیکہ کہ کورٹ سے فیصلہ آجائے یا پھر صلح وسمجھوتے سے معاملہ کا تصفیہ ہو جائے۔
اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیر اعظم بنے مگر رام مندر کی تعمیر کا سارا سامان مہیا ہونے اور اس پر زور صرف کرنے کے باوصف مندر کی تعمیر کا کوئی عملی قدم واجپائی یا کلیان دونوں نے نہیں اٹھایا ۱۹۸۹ء سے ہی بابری مسجد نزاع کے جملہ مقدمات الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کو منتقل کیا گیا وہاں ججوں کی ایک بنچ مقدمات کی سماعت کرتی رہی،مختلف اوقات میں اس بنچ کے فاضل ججوں کی تبدیلی بھی ہوتی رہی گواہیاں پیش ہوتی رہیں بیانات قلمبند کئے جاتے رہے ثبوت کی فراہمی ہوتی رہی آثارقدیم والوں کی بھی مددلی گئی آس پاس کی زمین کی کھدائی عمل میں آئی،ججوں کی آخری بنچ نے فیصلہ تیار کیا ماہ ستمبر ۲۰۱۰ء میں فیصلہ سنانے کی بات میڈیا میں آئی پورے ملک اس فیصلہ کو سننے کے لئے ہر کسی میں ایک بے تابی تھی۔ صحافت وذرائع ابلاغ میں بھانت بھانت کی خبریں آنے لگیں ہر کوئی فضا کو پر امن بنائے رکھنے کی اپیل کرتا نظر آنے لگا تنظیمیں اور پارٹیاں بھی اپنے انداز کی اپیلیں اخبارات میں چھپواتی رہیں، فیصلہ کی تاریخ ٹلتی رہی پھر یہ اعلان سامنے آیا کہ ۲۴؍ستمبر۲۰۱۰ء کو فیصلہ سنایا جائے پورے صوبے نہیں بلکہ ملک میں ہائی الرٹ کر دیا گیا عوام بالخصوص مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لئے بظاہر پولیس اور متعدد فورس کی بھاری تعیناتی عمل میں آئی جمعرات کی شام کو یہ خبر آئی کل فیصلہ نہیں سنایا جائے گا۔
کسی پنڈت نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر دی کہ فیصلہ نہ سنایا جائے، اٹھائیس ستمبر کو اس عرضی پر سماعت ہوئی اور سپریم کورٹ نے یہ عرضی خارج کر دی اور فیصلہ سنانے کی راہ صاف ہو گئی۔
قصۂ مختصر:۳۰؍ستمبرکو فیصلہ کا دن مقرر کیا پھر دوبارہ پورے ملک میں ہائی الرٹ کیا گیا فورس کی بڑی نفری کی تعیناتی کر دی گئی اور ساڑھے تین بجے عدالت میں فریقین کو فیصلہ سنانے کی پوری تیاری مکمل کر لی گئی اور اس کے آدھے گھنٹے بعد ذرائع ابلاغ کے لوگوں تک اس فیصلہ کی کاپی تقسیم کرنے اور عوام تک نشر کرنے کا انتظام کیا گیا۔
متنازعہ اکوائر شدہ زمین کے مالکانہ حق کا فیصلہ سنایا گیا فیصلہ کیا تھا؟
پوری متنازعہ جگہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ایک حصہ جہاں پر ناجائز طور پر رام کی مورتیاں رکھ دی گئی تھیں، اسے رام للاکو(اسے ایک فریق مان کر) دیا گیا، اور ایک حصہ سیتا رسوئی گھر وغیرہ نرموہی اکھاڑہ کو دیا گیا اور ایک تیسرا حصہ سنی مسلم وقف بورڈ کو دیا گیا۔
یہ فیصلہ در حقیقت فیصلہ تھا ہی نہیں بلکہ ایک سمجھوتہ والی راہ اختیار کی گئی تھی اور اکثر یتی فرقہ ہندؤں کو ان کی آستھاکی بنیاد پر فاتح قراردیا گیا تھا، اور پوری ڈھٹائی اور بے جاجسارت کے ساتھ یہ فیصلہ دیا گیا کہ رام للا اسی جگہ پر براجمان رہیں گے وہاں سے مورتیاں نہیں ہٹائی جائیں گی۔
یہ فیصلہ جبین عدالت پر ایک سیاسی ہے کیونکہ اس میں عدالتی تقاضوں، قانونی ضابطوں اور عدلیہ کے دستور کی مکمل خلاف ورزی کی گئی ہے فیصلہ گواہوں کی شہادتوں، موجودہ پیش کردہ ثبوتوں اور دیگر میسر حقائق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
اس فیصلہ میں فاضل جج صاحبان نے گواہوں، ثبوتوں اور موجود حقائق کو یکسر نظر انداز کیا اور محض ایک فرقہ یعنی ہندؤں کے’’ اعتقادی گپ‘‘ کی طرف دھیان رکھ کر بزعم خویش ایک نا پسندیدہ وناقابل قبول مصالحتی فارمولہ پیش کیا ہے کل کے رام مندر تحریک چلانے والے بھی اپنے تئیں یہ سمجھتے تھے وہ غلط دعویٰ کر رہے ہیں زور زبردستی سے ایک تاریخی مسجد کو غصب کرنا چاہتے ہیں اکثریتی غلبہ کی بنیاد پر وہ وہاں ایک موجود مسجد کو منہدم کرکے رام مندر کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
مسجد ڈھا کر وہ اپنے اقدام کو مبنی بر غلط سمجھتے تھے اس پر بعض سنگھیوں حتی کہ ایڈوانی نے بھی انہدام عمارت پر اپنے افسوس کا اظہار کیا تھا، اسی لئے تو کلیان سنگھ کی حکومت برخواست کی گئی تھی اسے رمزی سزاکے طور پرایک دن کی جیل ہوئی اور اس پر ایک ہزار کا جرمانہ عائد کیا گیا مسجد ڈھانے والوں پر مقدمات قائم ہوئے تھے کانگریس کی مرکزی حکومت نے مسجد کی تعمیر نو کا وعدہ کیا تھا۔لیکن افسوس ہو ان ججوں پر جنہوں ان تمام حقائق سے چشم پوشی کی اور ۱۳ ہزار اوراق پر مشتمل اس کیس کی دستاویز اور متعلقہ شہادات وثبوت اور حقائق کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے ایک مصالحتی فارمولہ کو بشکل فیصلہ پیش کیا۔
ع تفو بر اے جج بت تو تفو
اس فیصلہ کی سماعت کے بعد مختلف اشخاص مختلف تنظیمات کے اپنے اپنے بھانت بھانت قسم کے تاثرات وملاحظات سامنے آئے ہمیں اس سے کوئی زیادہ سروکار نہیں ہے ہمارے اپنے تاثرات یہ ہیں۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ یہ فیصلہ جس کو میڈیا نے ’’بڑا فیصلہ‘‘ کا نام دیا تھا فیصلہ ہے ہی نہیں یہ تو اہل سیاست یا پھر سنگھیوںیا تمام ہندوذہنیت کا املا کروایا ہوا مصالحتی فارمولہ ہے جو مسلمانوں کے لئے بہر حال ناقابل قبول ہے۔
یہ فیصلہ عدالت کا ایک گھناونا کھیل ہے جس پر اہل اقتدار کا ناجائز تسلط ہوتا ہے جسمیں حقائق کی پروا کئے بغیر مسلم فرقہ کی مزید دل آزاری کے لئے کھیلا گیا ہے تقسیم ملک کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ظلم وجور کے سلسلہ کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی ہے یہ فیصلہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے ساتھ ایک مذاق ہے جس میں ان کے جائز حق کو عدالت کے ذریعہ غصب کرنے اور ایک قدیم تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کے بعد اس پر ہندؤں کو مندر کی تعمیر کرنے کو سند جو از عطا کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے اس طرح کے فیصلوں سے حقائق نہیں بدلتے ہیں یہ فیصلہ عدالتی تاریخ کا بدترین فیصلہ ہے جو جبین عدالت پر ایک کلنک ہے کیونکہ فیصلہ گواہوں ثبوتوں اور قوانین وضوابط کی روشنی میں صادر کئے جاتے ہیں اس میں ان سے یکسر چشم پوشی کی گئی ہے۔
یہ فیصلہ بتاتا ہے کہ ہماری عدلیہ آزاد نہیں ہے بلکہ اس اہل سیاست، مقتدرہ اور اکثریت کی طاقت کے طوق وسلاسل ہیں جس میں وہ مقید ہے۔
اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو پھر فیصلہ بہر حال اس کے علاوہ ہی ہوتا فاضل جج صاحبان کو اس سیکولر اسٹیٹ میں آستھا اور دینی جذبہ کی بنیاد پر فیصلہ نہیں صادر کرنا چاہئے تھا مقدمہ میں صرف ایک فرقہ کے آستھا کا خیال رکھنا کسی طور پرزیب نہیں دیتا۔
انہیں تو موجودہ گواہی، ثبوت اور بیانات وغیرہ کی روشنی میں فیصلہ تحریر کرنا چاہئے وہ فیصلہ کسی کے حق اور کسی کے خلاف بھی ہوتا اس سے انھیں سرور کا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
یہ فیصلہ یہ تصور ابھا کر سامنے لاتا ہے کہ اس میں خواہ مخواہ اکثریتی فرقہ کی خوشنودی کو مقدم رکھا گیا ہے اور شاید اس میں ووٹ بینک کی سیاست کا سب سے بڑا دخل ہے اگر یہی فیصلہ کرنا تھا تو پھر ساٹھ سال کی طویل عدالتی کاروائی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
اگر فیصلہ آستھا کی بنیاد پر کرنا تھا تو پھراقلیتی فرقہ مسلم کی آستھا کا خیال اور اس کا لحاظ کیوں نہیں کیا گیا۔
اسلامی آستھا کے مطابق مسجد ہمیشہ کے لئے مسجد ہوتی ہے اسے کسی اور مصرف میں نہیں استعمال کیا جا سکتا ہے یہ اسلامی آستھا کا حصہ ہے کہ مسجد غضب شدہ زمین پر بنائی ہی نہیں جا سکتی ہے اور مسجد بنی تھی اور صدیوں اس میں نماز پڑھی گئی اور وہ مسجد کے نام سے تاریخی شہرت رکھتی تھی۔
ججوں کا اعتراف بھی ہے اس میں ۱۹۴۹ء میں مورتیاں رکھی گئی تھیں پھر مسجد کی زمین رام للا کو کیونکر دئے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے عدالتوں میں انصاف بکتا ہے کیا اس امکان کو مسترد کیا جا سکتا ہے کہ ججوں کی خریدوفروخت نہ ہوئی ہو خصوصا جبکہ یہ امر سب پر عیاں ہے کہ تمام تر دوائرحکومیہ اور ہر سطح کی عدالتوں میں رشوت ستانی عام بات ہے اس ملک ہندوستان کی بنیاد میں رشوت ستانی کی جو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اس فیصلہ نے معاملہ کو سلجھایا نہیں بلکہ الجھا کر مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور مسئلہ کو خواہ مخواہ طویل کر دیا گیا ہے اگر فیصلہ یہی تھا پھر خواہ مخواہ اس کے لئے ملک اور صوبے میں ہائی الرٹ کا انتظام کیا گیا اس کو بارہاٹالنے کا شاید ناٹک کیا جا رہا تھا کیونکہ اہل سیاست کو فیصلہ کا سابقہ علم تھا اس فیصلہ نے یہ تصور دیا کہ ۱۹۸۹ء سے لیکر ۱۹۹۲ء تک کا خونی کھیل خود عدالت کی فیصلہ میں تاخیر کی رہین منت ہے۔
در حقیقت اس فیصلہ کے ذریعہ مسلمانوں کی مقدسات پر ناجائز دعوؤں اور قبضوں کو درست قرار دینے کی ناروا کوشش کی گئی ہے قابل ذکر بات یہ ہے یہ فیصلہ بھی اس وقت سامنے آیا اور تعمیر مندر کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہوئی جب کہ مرکز میں کانگریس کی حکومت ہے۔
اس فیصلہ نے یہ ثابت کیا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے بلکہ جنگل راج کا قانون کام کر رہا ہے جسکی لاٹھی اس کی بھینس والی کہانی ہے ہندؤں نے اپنے کو بدترین حاکم ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے اس فیصلہ کے ذریعہ ججوں نے اپنے قابل احترام عہدوں کا پاس ولحاظ نہیں کیا بلکہ اپنے باوقارمنصب اور عدلیہ کے وقار کو مجروح کیا۔:
میں لٹ گیا کوئی غم نہیں
تری منصفی کا سوال ہے؟
ان ججوں کی ذمہ داری یہ تھی کہ میسر گواہوں، ان کے بیانات اور دستیاب ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ تحریر فرماتے خواہ فیصلہ کسی کے حق میں ہوتا یا کسی کے خلاف ہوتا۔
ظلم وجور کی حد ہے کہ محض اعتقاد کی بنا پر دوسروں کی ملکیت کو غاصبوں کو عطا کرنے کے لئے قانون ودستور کو بالائے طاق رکھ دیا گیامگر بات وہی ہے جو کسی شاعر نے کہی ہے:
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہ کچھ کام آتی دلیل اور حجت
مسلمانوں نے اپنی طویل تاریخ میں غیروں کی جانب سے عداوت اور دشمنی کا اس سے شدید دن دیکھا ہے وہ اس سے بھی شدید آزمائش سے دو چار ہوئے انھیں تو مال وجان کی آزمائش سے گذر نا ہی ہے اہل کتاب یہود ونصاریٰ اور مشرکین کی جانب سے بہت سی دل آزار باتیں سننی ہیں قال تعالیٰ:(لتبلون فی أموالکم وأنفسکم ولتسمعن من الذین أوتوالکتاب من قبلکم ومن الذین أسرکوا اذی کثیرا، وان تصبروا وتتقوا فان ذالک من عزم الامور)(آل عمران۱۸۶) انھیں دل آزار باتوں میں سے ان جج صاحبان کاظالمانہ اور جائزانہ فیصلہ بھی ہے جس کی سماعت سے اہل اسلام کی شدید دل آزاری ہوئی ان کے قلب وجگر کٹ کر رہ گئے انھیں اپنی بے چارگی پر رونا آیا ایسی صورت میں انھیں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اپنے اندر تقوی کی روح مزید بیدار کرنی چاہئے کہ یہی اولوالغرم مردوں کا کام ہے۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ مسلمانوں نے اس فیصلہ بلکہ ڈھکوسلہ کے وقت صبروتحمل کا عمدہ مظاہرہ کیا جان ومال کی مزید تباہی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا یہ بڑی دانشمندی کی بات ہے امن وسلامتی کی فضا بنائے رکھنا تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے وقت خود ظالمان وقت کا حساب چکائے گا اور ان کی رسوائی کا مسامان فراہم کرے گا ’’سیعلم الذین ظلموا ای ینقلب ینقلبون‘‘
***
قال تعلى :إن الله مع الصابرين
ReplyDelete