Monday 27 June, 2011

دختر جدید اور پردہ nov 2010

دختر جدید اور پردہ
مغربی دانشوروں نے آزادئ نسواں کا جھانسہ دے کر جس طرح عورت کی عفت وعصمت اور عزت وآبرو کو تار تار اور پامال کیا ہے، اس کا مشاہدہ وہاں کے معاشرے میں عورت کی زبوں حالی سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ جہاں اسے نفسانی خواہش کی تکمیل وتسکین کے لئے ’’ٹشوپیپر‘‘ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ بظاہر مغربی معاشرے میں عورت مکمل آزاد ہے لیکن اس آزادی میں عورت کی ذلت ورسوائی کی داستان پنہاں ہے جبکہ اسلام نے روز اول سے عورت کے مقام ومرتبے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کے حقوق وآبرو کے پاسبانی اور تحفظ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے میں عورت کو غیر معمولی مقام ورفعت حاصل ہے اور اسے حد درجہ عزت ووقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عورت کے بلند مقام اور تکریم کے لئے نبی ﷺ کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ: (فان الجنۃ تحت رجلہا) احمد نسائی) ’’جنت اس (ماں) کے پاؤں تلے ہے۔
لیکن اس قدر ومنزلت کے باوجود مسلم معاشرے کی دختر جدید مغربی معاشرے تہذیب وتمدن اور اس کے ثقافت کو زندگی کا آب حیات اور لا ینفک حصہ سمجھ رہی ہے۔ سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں ’’یہ کیسا احساس کمتری ہے یہ کیسی رلادینے والی بدبختی ہے یہ کیسا ہنگامہ زبونی ہمت ہے کہ تمہارے اپنے گھر میں ثقافت وتہذیب کے یہ لعل وجواہر ہیں اور تم غیروں کے خذف ریزوں پر للچائی ہوئی نظر ڈالتے ہو۔‘‘
یہ بات کس قدر حقائق پر مبنی ہے کہ آج ہم نے اپنی تہذیب وثقافت کے انمول جواہر چھوڑ کر اغیار کے خذف ریزوں کو اپنے لئے متاع جہاں سمجھ لیا ہے، حالانکہ ہمارے دین اور ایمان کیلئے یہ چیز زہر ہلاہل سے کچھ کم نہیں۔ مغربی تہذیب کی جن روایات کو ہم نے اپنایا ہے اس میں ایک بے پردگی کا موذی مرض بھی ہے، جو اپنے تباہ کن اور مضر اثرات کے سبب ’’ناسور‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر چہ آج اگر چند دختران اسلام پردے کے احکامات پر سختی سے کاربند ہیں تو بعض لبرل خواتین پردہ کرنے کے باوجود بے پردہ نظر آتی ہیں، ایسے میں ہمیں مسعود کا یہ شعر یا د آجاتا ہے۔
ہے گردش دوراں کہ زمانے کی ترقی
میں پردۂ نسواں میں حیا ڈھونڈ رہا ہوں
حامیان بے حجاب عرصہ سے بے حیائی پھیلانے میں بر سر پیکار ہیں جن دنوں شاہ جرمن ’’گلیوم‘‘ نے ترکیا کا دورہ کیا تو انجمن اتحاد وترقی کے ممبران نے بادشاہ کے سامنے اپنی بعض تہذیبی جھلکیاں پیش کرنا چاہیں۔ چنانچہ انہوں نے اسکول کی بے پردہ لڑکیوں کو بادشاہ کے استقبال کے لئے اس طرح پیش کیا کہ لڑکیاں پھولوں کے گلدستے بادشاہ کو پیش کر رہی تھیں۔ بادشاہ نے جو یہ منظر دیکھاتو اسے بڑا اچنبھا ہوا۔ اس نے انجمن کے ذمہ داران سے کہا: میری آرزو یہ تھی کہ میں ترکیا میں جاہ وحشمت اور پردہ داری کے مناظردیکھوں کیونکہ تمہارے مذہب اسلام کا یہی حکم ہے لیکن افسوس میں یہاں اس بے پردگی کو اپنے چاروں طرف دیکھ رہا ہوں جس سے یورپ میں ہمیں بڑی شکایتیں ہیں اور جس کے بدولت وہاں ہمارے خاندان اجڑ رہے ہیں وطن کی مٹی پلید ہو رہی ہے اور بچے دربدر مارے پھر رہے ہیں۔‘‘ (تفۃ العروص ص ۵۵۸)
افسوس کہ یورپ کو ’’جس چیز سے بڑی شکایتیں ہیں‘ ‘ ہم اسے اپنانے میں مصر اور مسرور ہیں۔ اس وقت بہت سے خبائث وبے حیائی اور فسادات کی بنیاد عورت کی بے پردگی ہے۔اگر عورت بے پردگی سے اجتناب کرتے ہوئے ’’شمع محفل‘‘ بننے کے بجائے ’’چراغ خانہ‘‘ بن کر رہے تو کچھ شک نہیں کہ بہت سے افعال خبیثہ کا خاتمہ ہو جائے لیکن ’’دختر جدید‘‘ ایسا کرنے سے انکاری ہے کیونکہ مغربی تہذیب کی ’’رنگین‘‘ چمک دمک نے اس کی آنکھیں چکا چوند کردی ہیں۔ حالانکہ جس تہذیب کی تقلید میں یہ آزادی نسواں کا نعرہ بلند کر رہی ہے اس مغربی تہذیب کے پر خار اور تنگ وتاریک جنگل میں خونخوار درندے اور بھیڑےئے ہر وقت عورت کی عصمت وعزت کا شکار کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ چنانچہ ان ’’درندوں‘‘ سے تنگ آکر مغربی خواتین مشرقی تہذیب وتمدن پر رشک کرتی ہیں۔ ایک مغربی طالبہ نے اسی حقیقت کو اکتوبر ۱۹۹۱ء ؁ میں لندن یونیورسٹی میں بیان کیا۔ اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۱ء ؁ کو پاکستان ٹائمز میں اس کے وہ الفاظ شائع ہوئے۔ ۱۸ سالہ ربیکا کہتی ہے کہ مغربی تہذیب کا ماحول اس قدر گندہ ہے کہ مجھے مشرقی کی تہذیب پر رشک آتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مشرقی لڑکیاں بھی ہمارے ماحول کی رنگینیوں کے جادو کاشکار ہو کر خود کو تباہی کے غار میں دھکیل رہی ہیں جو یقیناًخطرناک ہے۔‘‘ اس حقیقت کے باوجود کہ اسلام نے عورت کو ذلت ورسوائی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر مقام رفعت پر متمکن کیا۔ آج وہ کسی نہ کسی کمپنی کا مونوگرام بن کر اپنے تقدس کو پامال کر رہی ہے۔ اور زیب وزینت سے آراستہ ومزین ہو کر کھلے بندوسر بازار گشت کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ باک اور شرم محسوس نہیں کرتی اور مزید ظلم کی انتہایہ کہ ’’حامیان بے حجاب‘‘ بھی اپنی خواتین کو بنا سنوار کر اور میک اپ سے پوری طرح سجا کر ’’شوپیس‘‘ کی طرح لوگوں کے سامنے لانے میں ذرا عار نہیں سمجھتے۔ حالانکہ انہیں سمجھنا چاہیے تھا کہ۔
تیری زندگی اسی سے تیری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو روسیاہی
یہ سوچ تو کسی غیور انسان کو ہی آئے گی، بے حمیت کو اس سے کیا سروکار۔ اکبر نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ :
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیر قومی سے گڑگیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
عورت قدرت الٰہی کا بے مثال حسین شاہکار ہے۔ اس سراپائے حسن وجمال کی خوبصورت حرکات وسکنات گفتاروآواز اور دلکشی، مرد کو اپنی طرف مائل کئے بغیر نہیں رہتی۔ اس کے ناز وانداز اور ادائیں بڑے بڑے عابدوں اور زاہدوں کے جذبات برانگیختہ کرکے انہیں فتنہ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
لہذا عورت کو چاہیے کہ وہ عورت بن کر ہی رہے اور خود کو ’’مستور‘‘ رکھے کیونکہ
پھولوں کی انجمن سے ستاروں کی بزم تک
موضوع گفتگو ہے تیری دل کشی کی بات
عورت کے پس پردہ رہنے میں ہی بہتری اور بھلائی ہے۔ اگر یہ بے پردہ باہر نکلے گی تو لوگوں کی ’’ستم ظریفی‘‘ کا باعث بنے گی اور پھر شاید کوئی یہ کہنے سے بھی گریز نہ کرے کہ
انگلیاں مرد اٹھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
شوق سے گل کھلے جاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ خرابی تھی جسے دیکھ کر رحمت کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ
’’المراۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفہا الشیطان‘‘ عورت تو چھپانے کی چیز ہے جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظر میں اچھا کرکے دکھاتا ہے (رواہ ترمذی) اور جو عورتیں اپنی زینت دوسروں کو دکھاتی ہیں انہیں نبی ﷺ کا یہ فرمان ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اپنی زینت کو غیر جگہ ظاہر کرنے والی عورت کی مثال قیامت کے اس اندھیرے جیسی ہے جس میں روشنی نہ ہو۔‘‘ (ترمذی، ابن کثیر جلد ۳ ص ۵۰۴)
لہذا اپنے حسن وجمال کی نمائش کرنے والی ’’سیار‘‘ خواتین سے ہماری مؤدبانہ گذارش ہے کہ اپنے تمام ’’اسلحہ‘‘ کو اپنے خاوند پر ہی استعمال کریں کیونکہ یہ اسی کا حق ہے اور اس حق میں خیانت کرکے گنہگار نہ ہوں اسلام نے عورتوں کو پردے کا حکم دے کر ان کی عفت وعصمت کا تحفظ کیا ہے تاکہ بے پردگی سے پیدا ہونے والے برے نتائج سے بچا جا سکے یہی وجہ ہے کہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( وقل للمؤمنت یغضضن من ابصارہن ویحفظن فروجہن ولا یبدین زینتہن الا ما ظہر منہا ولیضربن بخمر ہن علی جیوبہن) (النور:۳)
اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس سے کھلا رہتا ہو اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں۔
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اور میمونہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں موجود تھیں اسی وقت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ پہنچ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان سے پردہ کر لو! میں نے کہا یہ نابینا نہیں ہیں؟ یہ تو ہمیں دیکھ بھی نہیں سکتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو؟ (ترمذی بحوالہ ابو داؤد جلد ۳ ص ۲۸۳)
ًٓابن مکتوم ایک برگزیدہ صحابی ہیں پھر یہ کہ نابینا ہونے کے باوجود ازواج مطہرات جیسی پاک باز خواتین کو ان سے پردہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آج کل جو عورتیں غلط عقیدت اور تو ہم پرستی میں مبتلا ہو کر نامحرم مردوں کے سامنے بے پردہ آجاتی ہیں وہ اسلام کی روح سے کس قدر بیگانہ ہیں اور جہاں تک بات ہے زینت چھپانے کی تو عورت کو چاہیے کہ دوپٹہ یا چادر اس طرح اوڑھے کہ مردوں کی نظر کو آوارگی کا موقع نہ ملے یہی زینت کو ظاہر نہ کرنے کا اکمل طریقہ ہے۔
چہرے کا پردہ:زینت کی دو اقسام ہیں۔ ایک فطری جیسے چہرہ وغیرہ۔ اس میں مقناطیقی کشش اور جاذبیت مضمر ہے اور دوسرے تصنعی جیسے زیورات، لباس، مہند، سرمہ اور بالوں کی آرائش وغیرہ۔ جن خواتین کو زیب وزینت کا زیادہ شوق ہوتا ہے تو وہ اپنے حسن وجمال کی ’’نمائش‘‘ کھلے بندوں کرنے کو باعث فخرسمجھتی ہیں۔ پھر جب یہ بن سنور کر زرق برق لباس میں ملبوس چہرے کو میک اپ سے مزین کئے لبوں پہ تبسم بکھیرے آزاد رخ زیبا کے ساتھ سر بازار نکلتی ہیں تو نوجوانوں کے ’’سفلی جذبات‘‘ بھڑک اٹھتے ہیں اور ان کے اندر ہیجان آجاتا ہے اور پھر یہ بے پردہ خواتین عام طور پر ان کی ’’دست درازی‘‘ کا ’شکار‘‘ ہوتی ہیں۔ لہذا معاشرے میں پیدا اس ’’فتنہ سامان‘‘ کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عورتیں غیر محرم مردوں سے اپنے ’’پیکر حسین‘‘ اور ’’رخ زیبا‘‘ کو زیر پردہ رکھیں۔ جیسا کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ:ن( یایہا النبی قل لا زواجل وبنتک ونساء المومنین یدنین علیہن من جلابیبہن ذلک ادنی ان یعرفن فلا ےؤذین وکان اللہ غفورا رحیما) (الاحزاب: ۵۹)اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور تمام مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنے چہروں اور اپنی چادروں کے گھونگھٹ کر لیا کریں جس سے پہچان لی جائیں اور انہیں ستایا نہ جائے اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت مبارکہ سے عورت کے چہرہ چھپانے کا حکم واضح ثابت ہو رہا ہے۔ اب چہرے کو چادر کے گھونگھٹ چھپایا جائے یا برقع ونقاب سے اصل مقصود چہرہ چھپانہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام سے باہر نکلیں تو چادر اوڑھتی ہیں اسے سر پر جھکا کر منہ ڈھانپ لیا کریں صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔‘‘ تفسیر ابن کثر جلد ۴ ص ۲۷۸)
اور محمد بن سیر ین رحمہ اللہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتایا کہ یہ مطلب ہے اس آیت کاحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔
یدنین علیہن من جلابیہن
تو انصار کی عورتیں اس طرح نکلتی تھیں جیسے ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہیں۔ یعنی دو سیاہ کپڑے سروں پر ڈالتی تھیں۔ (ابو داؤد جلد ۳ ص ۲۷۹) اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں تھیں۔ جب مردوں کا قافلہ ہمارے پاس سے گزرتا تو ہم عورتیں اپنے چہروں کے اوپر کپڑے ڈال لیا کرتی تھیں اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں بے نقاب ہوتے مگر جب مرد ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم گھونگھٹ سے اپنے چہروں کو چھپا لیا کرتی تھیں۔ جب وہ چلے جاتے تو ہم پھر اپنے چہروں کو کھول لیا کرتی تھیں۰ (ابو داؤد، جلد ۲ ص ۵۰)
حضرت ام خلاد رضی اللہ عنہا اپنے شہید لڑکے کی خبر دریافت کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ اس حال میں کہ ان کے چہر ے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ صحابہ کرام نے کہا کہ ایسی مصیبت میں بھی چہرے پر نقاب ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا مجھ پر لڑکے کی مصیبت پڑی ہے میری شرم وحیا پر تو کوئی مصیبت نہیں پڑی (ابو داؤد، کتاب الجہاد)
ان واقعات سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں جب پردہ کے احکام نازل ہوئے تو مسلمان عورتیں اس پر عمل کرتے ہوئے باپردہ رہتیں اور نقاب اوڑھ کر اپنے چہرے کو چھپایا کرتی تھیں۔ اب نبی علیہ السلام کے دو فرامین اور ملاحظہ کیجئے آپ ﷺ نے فرمایا ’’ محرمہ عورت احرام کی حالت میں چہرے پر نقاب اور ہاتھوں میں دستانے نہ پہنے۔‘‘ (ابو داؤد)
اور فرمایا! عورت کا احرام اس کے چہرے اور مرد کا احرام اس کے سر میں ہے۔ (دار قطنی)
ان دونوں روایتوں سے پتہ چلا کہ حالت احرام میں عورت کا چہرہ کھلا رہنا چاہئے۔ عورت کی بے نقابی مخصوص یا احرام ہونے سے صاف واضح ہے کہ وہ غیر احرام کی حالت میں محل نقاب ضرور ہے ورنہ تخصیص شرعی کا ابطال لازم آئے گا جو کسی صورت بھی درست نہیں۔‘‘ ہماری اس مختصر سی کاوش کا حاصل یہ ہے کہ عورت ’’وقرن فی بیوتکن‘‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ’’چراغ خانہ‘‘ بن کر رہے اسی میں اس کی عفت وعصمت پاکیزہ اور محفوظ رہ سکتی ہے اور اگر اسے کبھی کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر بھی جانا پڑے تو با پردہ ہو کر جائے تاکہ کسی ابلیس کو شیطنت کی ہمت نہ ہو امید ہے کہ یہ نگار شات سلیم قلب کی حامل دختر ملت کیلئے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔
اس اس بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ اے قوم کی بیٹی!
بتولے باش وپنہاں شود زین عصر

کہ در آغوش شبیرے بگیری
فاطمہ رضی اللہ عنہ اسوۂ اختیار کرتے ہوئے زمانے کی نگاہوں سے چھپ جاتا کہ تیری گود سے بھی حسین رضی اللہ عنہ جیسا سورج طلوع ہو سکے۔ وما علیہنا الا البلاغ المبین۔

No comments:

Post a Comment