Tuesday, 28 June 2011

میدان عمل میں جانے کی تیاری Jan 2011

میدان عمل میں جانے کی تیاری
صبح کی نماز اور ذکر واذکار نیز تلاوت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد میدان عمل میں جا کر رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ وہ دوسروں کا محتاج نہ بنے، بلکہ تعلیم وتربیت، صنعت وتجارت، زراعت اور ملازمت کے جس محاذ پر ممکن ہو ملک وملت کی تعمیر اور خوشحالی اور ترقی میں اپنی خدمات پیش کرنی چاہئے۔
نکلنے سے پہلے ناشتہ اور اس کے آداب:
اگر روزہ سے نہ ہوں توناشتہ کرکے نکلنا چاہیے۔
ناشتہ میں کیا کھائے؟ رزق حلال میں سے جو میسر ہو استعمال کرے، البتہ حدیثوں میں کچھ خاص مفید چیزوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو وہ چیزیں استعمال کرنی چاہئیں، ان میں خصوصیت کے ساتھ کھجور قابل ذکر ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے: ’’من تصبح علی سبع تمرات لم یضرہ ذلک الیوم سم ولا سحر‘‘ (متفق علیہ)
جس نے نہار منہ سات کھجوروں کا ناشتہ کیا تو اس دن اس کو نہ زہر نقصان پہنچا سکے گا اور نہ ہی جادو۔
ایک دوسری روایت میں کھجور کی اہمیت اس طرح بیان کی گئی ہے: ’’بیت لا تمر فیہ اہلہ جیاع‘‘ (مسلم)
’’جس گھر میں کھجور نہ ہو اس گھر کے لوگ بھوکے ہیں‘‘
اسی طرح دودھ بھی ناشتے میں نہایت مفید ہے۔
قرآن وحدیث میں دودھ کا تذکرہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ قرآن میں فرمایا: (وان لکم فی الانعام لعبرۃ نسقیکم مما فی بطونہ من بین فرث ودم لبنا خالصا سائغا للشاربین) (النحل:۱۶:۶۶)
اور یقیناًتمہارے لیے مویشی جانوروں میں عبرت کا سامان ہے، ہم تم کو اس چیز سے سیراب کرتے ہیں جو ان کے پیٹوں میں ہے، جو ان کے معدے میں ہضم کیے ہوئے چاروں اور خون کے درمیان سے ہو کر نکلتا ہے یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت مزیدار ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے دودھ کے اندر ایسی غذائیت رکھی ہے جو کھانے اور پینے دونوں کی ضرورت پوری کر دیتی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’من اطعمہ اللہ طعاما فلیقل: اللہم بارک لنا فیہ وارزقنا خیرا منہ ومن سقاہ اللہ لبنا فلیقل: اللہم بارک لنا فیہ وزدنا منہ فانی لا اعلم ما ےْجزئ من الطعام والشراب الا اللبن‘‘ (مسند احمد، سنن اربعہ)
جس کو اللہ تعالیٰ کھانے کی توفیق دے تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہیے: اے اللہ تو ہمارے اس کھانے میں برکت عطا کر اور ہمیں اس سے بہتر روزی عطا کر اور ہمیں مزید عنایت فرما کیونکہ میں دودھ کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جانتا جو کھانے اور پینے دونوں سے کفایت کرتی ہو۔‘‘
خود نبی کریم ﷺ کو دودھ پسند تھا، چنانچہ صحابۂ کرام آپ کو ہدیہ میں دودھ بھیجا کرتے تھے، جسے آپ خود بھی پیتے اور اصحاب صفہ کو بھی پلاتے تھے۔
معراج کی رات بھی آپ کو دوقسم کے مشروب پیش کئے گئے تھے، جن میں ایک شراب کا پیالہ تھا اور دوسرا دودھ کا، آپنے دودھ کا پیالہ نوش فرمایا، اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا:
(الحمد للہ ہداک للفطرۃ ولو اخذت الخمرغوت امتک)( متفق علیہ)
’’الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو فطرت اختیار کرنے کی توفیق دی، اگر کہیں آپ نے شراب لے لی ہوتی تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔‘‘
ایک حدیث میں آپ نے گائے کے دودھ کے بارے میں فرمایا: ’’علیکم بالبان البقر، فانہا ترم من کل الشجر‘‘ (مستدرک حاکم: ۴؍۱۹۷)
تم لوگ گائے کا دودھ استعمال کرو کیونکہ یہ ہر قسم کی نباتات سے غذا حاصل کرتی۔
علامہ ابن قیم فرماتے ہیں: ’’گائے کا دودھ سب سے معتدل دودھ ہے اور بھیڑ اور بکری کے دودھ کے مقابلے میں افضل ہے۔ ‘‘ (زادالمعاد ۴؍۶۸۳)
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے گائے کے دودھ اور گوشت کے متعلق فرمایا: ’’فی لبنہاشفاء وفی لحمہا داء‘‘ ’’گائے کے دودھ میں شفا ہے اور اس کے گوشت میں بیماری ہے۔‘‘ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحیح الجامع الصغیر)
بہر حال دودھ کے اندر مختلف قسم کے وٹامن اور پروٹین پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم کی نشوونما میں اہم رول ادا کرتے ہیں، غالباً اسی لیے نبی کریم ﷺ نے اس کو شفا سے تعبیر کیا ہے، آپ کا یہ فرمان طب نبوی کے اعجاز میں بطور مثال ذکر کیا جاتا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے علامہ ابن قیم کی کتاب ’’طب نبوی‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
گھر سے نکلنے کے آداب:
گھر سے نکلنے سے قبل اپنے طور پر نکلنے کی تیاری کرنی چاہیے، کام پر جانے کے لیے اگر خاص لباس ہو تو اسے زیب تن کر لے، لباس کے لیے شریعت میں کوئی خاص وضع قطع مطلوب نہیں ہے، البتہ چند ضروری ہدایات ہیں جن کی رعایت کرنی چاہیے۔
(۱) جو لباس عورت کے لیے خاص ہو اسے مرد کو نہیں پہننا چاہیے، اور جو مرد کے لیے خاص ہو اسے عورت کو نہیں پہننا چاہیے۔
(۲) جو لباس کسی قوم کے لیے مذہبی شعار کی حیثیت حاصل کر چکا ہو اور ہمارے د ین میں اس کے حلال ہونے کی صریح دلیل نہ ہو تو اس طرح کا لباس استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے غیر مسلم کی مشابہت لازم آتی ہے جس سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔
(۳) لباس اتنا باریک یا تنگ نہ ہو جس سے ستر پوشی کا مقصد فوت ہو جاتا ہو، بلکہ مزید فتنہ کا سبب بنتا ہو۔
(۴) مردوں کے لباس میں ایک اور بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔
(۵) عورتوں کے لباس میں اس کے سر پر دوپٹہ یا خمار ضرور ہونا چاہیے جس سے اپنے سر اور گریبان کو ڈھانک لے تاکہ فتنہ کا سبب نہ بنے۔
(۶) اسی طرح عورت اگر عام جگہوں کے لیے نکل رہی ہے تو اپنے چہرہ پر نقاب بھی ڈال لے۔
(۷) عورت ہی کے لیے ایک اور بات قابل لحاظ ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلے تو خوشبو لگا کر اور آواز پیدا کرنے والے زیورات پہن کر نہ نکلے۔
کپڑے کا رنگ:
مذکورہ بالا اصول وضوابط کی پابندی کرتے ہوئے مسلمان جس رنگ کا کپڑاچاہے پسند کر سکتا ہے، سوتی، اونی، ٹیری کاٹ وغیرہ، سوائے ریشم کے جو کہ صرف عورتوں کے لیے خاص ہے، مرد کے لیے ریشمی کپڑا حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباس یواری سواتکم وریشا ولباس التقوی ذلک خیر) ( الاعراف: ۷؍۲۶)
اے بنی آدم! یقیناًہم نے تمہارے اوپر لباس نازل کیے ہیں جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتے ہیں، ساتھ ہی جانوروں کے بال وپر، اور یادرہے کہ تقوی کا لباس سب سے بہتر ہے۔‘‘
سفید لباس پہننا مستحب ہے:
گوکہ شریعت نے لباس کے سلسلہ میں کسی خاص رنگ کی پابندی کا حکم نہیں ہے، لیکن سفید رنگ کا لباس مردوں کے لیے خصوصا مستحب ہے۔ایک حدیث میں ارشاد ہے:’’البسوا من ثیابکم البیاض فانہا خیر ثیابکم، وکفنوا فیہا موتاکم‘‘ (ابو داؤد، ترمذی) ’’تم اپنی پوشاک میں سفید کپڑوں کو پہنو کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں ہے، اور اسی سفید کپڑوں میں اپنے مردوں کو دفن بھی کرو۔‘‘سفید رنگ کی فضیلت کے باوجود دوسرے رنگ کے کپڑے بھی پہنے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ سرخ کپڑا بھی نبی کریم ﷺ نے استعمال فرمایا ہے۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا وصف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’آپ نہایت معتدل قد وقامت کے تھے اور میں نے آپ کو سرخ چادر میں ملبوس دیکھا، جو آپ کے جسم مبارک پر اتنا حسین لگ رہی تھی کہ اس سے زیادہ حسین کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی۔ ‘‘ (متفق علیہ)
آپ نے سبز رنگ کا کپڑا بھی زیب تن فرمایا ہے۔
ایک حدیث میں رفاعہ تمیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں دیکھا جب کہ آپ کے اوپر دو کپڑے سبز رنگ کے تھے۔ ‘‘ (ابو داؤد)
کالا کپڑا بھی آپ نے استعمال کیا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ اللہ کے رسول ﷺ فتح مکہ کے دن جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر کالے رنگ کا عمامہ (پگڑی) تھا۔‘‘ (مسلم)
آپ نے دھاری دار کپڑے بھی استعمال فرمائے ہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔
نبی کریم ﷺ کی محبوب پوشاک:
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق آپ کی سب سے زیادہ محبوب پوشاک قمیص تھی۔ (ابو داؤد،ترمذی)
قمیص سے مراد وہ لباس ہے جس کے اندر آستین وگریبان ہو، خواہ اس کی کیفیت کیسی بھی ہو، چنانچہ اس وقت قمیص، کرتا، کندورہ شرڈ کے نام پر جو لباس پہنا جارہا ہے، وہ سب قمیص ہے۔
پیارے نبی ﷺ جو قمیص زیب تن فرماتے تھے اس کی آستین کی لمبائی اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق آپ کی کلائی تک تھی۔ (ابو داؤد)
قمیص کے علاوہ آپ کی دوسری پوشاک لنگی یا تہبند تھی۔
آپ نے پائجامہ (سروال) استعمال نہیں کیا لیکن اس کی تعریف ضرور کی ہے۔
پوشاک کی لمبائی کیا ہو؟
لباس کی لمبائی کے سلسلے میں مردوں کے لیے خاص حکم یہ ہے کہ اسے ٹخنوں سے نیچے نہیں ہونا چاہیے، ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے پر سخت وعید آئی ہیں۔
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:’’لا ینظر اللہ یوم القیامۃ الی من جرازارہ بطرا‘‘ (متفق علیہ)
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے انسان کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنی ازار غرور سے گھسیٹ کر چلتا رہا۔‘
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ما اسفل من الکعبین من الازار ففی النار‘‘ ’’جو لنگی ٹخنوں سے نیچے لٹکی، وہ جہنم کی مستحق ہوگی یعنی لنگی کا پہننے والا جہنم کا مستحق ہوگا۔‘‘
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ثلاثۃ لا یکلمہم اللہ یوم القیامۃ ولا ینظر الیہم ولا یزکیہم ولہم عذاب الیم‘‘ ’’تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، اور نہ ان کا تزکیہ فرمائے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘
راوی حدیث حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات نبی کریم ﷺ نے جب تین بار دہرائی تو میں نے عرض کیا: وہ لوگ گھاٹے اور خسارے میں پڑیں، اے اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’المسبل (ازارہ) والمنان والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب‘‘ (مسلم)
’’اپنی ازار (لنگی) کو ٹخنے کے نیچے لٹکانے والا، اور احسان جتانے والا اور اپنے سامان کو جھوٹی قسم کے ذریعہ رواج دینے والا۔‘‘
یاد رہے’’اسبال‘‘ یعنی ٹخنے کے نیچے کپڑا پہننے پر جو وعیدیں آئی ہیں وہ کچھ لنگی کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ تمام قسم کے پوشاک اور لباس کا یہی حکم ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الاسبال فی الازار والقمیص والعمامۃ، من جر شےئا خیلاء لم ینظر اللہ الیہ یوم القیامۃ‘‘ (ابو داؤد، نسائی)
’’کپڑوں کو شان سے لٹکانا لنگی میں بھی پایاجاتا ہے اور قمیص وعمامہ میں بھی یاد رہے جس نے کوئی بھی لباس شان سے لٹکایا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔‘‘
ریشمی لباس مردوں کے لیے حرام ہے:
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’لا تلبسوا الحریر فان من لبسہ فی الدنیا لم یلبسہ فی الآخرۃ‘‘
تم لوگ ریشمی کپڑا مت پہنو، کیونکہ جوشخص اسے دنیا میں پہنے گا آخرت میں اس کو نہ پہن سکے گا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنے داہنے ہاتھ میں ریشم لیا اور بائیں ہاتھ میں سونا، پھر فرمایا: ’’ان ہذین حرام علی ذکور امتی‘‘ (ابو داؤد)
یہ دونوں چیزیں ہماری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔‘‘
البتہ اگر کوئی عذر ہو جیسے جلدی بیماری وغیرہ ہو جس میں ریشمی لباس پہننا ایک مجبوری ہو تو پہن سکتا ہے، جیسا کہ ایک روایت سے ثابت ہے کہ آپ نے حضرت زبیر اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کو ریشمی کپڑا پہننے کی رخصت دی تھی، کیونکہ ان کو کھجلی جیسی جلدی بیماری تھی۔ (متفق علیہ)
درندہ جانوروں کی کھالوں سے بنے ہوئے لباس وغیرہ کا حکم:
شیر، چیتا اور ریچھ وغیرہ جیسے جنگلی اور درندہ جانوروں کی کھالوں کو استعمال عموما فخرومباہات، کبروغرور اور شان وشوکت کے اظہار کی علامت تصور کیا جاتا ہے، اسی لیے اس کے لیے بڑی بڑی رقمیں بھی ادا کی جاتی ہیں اور قانونی وغیر قانونی طریقہ سے بلاوجہ ایسے جانوروں کا شکار کرنے کا تکلف کیا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا کے اکثر ممالک اس طرح کے جانوروں کے شکار کی ہمت افزائی نہیں کرتے، بلکہ ایسے جانوروں کے شکار پر عموما پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
اسلام میں بھی اس اقدام کی ہمت افزائی نہیں کی گئی ہے، بلکہ درندہ جانوروں کی کھال کے استعمال ہی کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ سے ایک حدیث ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:’’نہی عن جلود السباع‘‘ (ابوداؤد، ترمذی)
آپ نے درندہ جانوروں کی کھالوں (کے استعمال) سے منع کیا۔
دوسری روایت میں ہے: ’’نہی عن جلود السباع ان تفرش‘‘ (ترمذی)
درندہ جانوروں کی کھالوں کو فرش کے طور پر استعمال کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
ان نصوص کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ درندہ جانوروں کی کھالیں یا ان سے بنی ہوئی چیزوں کا استعمال شرعی اعتبار سے قباحت سے خالی نہیں ہے۔
اس لیے اگر شدید ضرورت نہ ہو تو صرف سامان تعیش کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔واللہ اعلم
گھر سے نکلنے کے وقت کیا پڑھیں؟
شریعت کے مذکورہ بالا اصول وضوابط کی رعایت کرتے ہوئے قمیص، پاجامہ،کرتا، شلوار، لنگی، جبہ، عمامہ، ٹوپی وغیرہ جو چاہیں پہن سکتے ہیں۔
بہر حال بسم اللہ کرکے لباس زیب تن کرنے کے بعد گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھیں: ’’بسم اللہ توکلت علی اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ اللہ کے نام کے ساتھ گھر سے نکل رہا ہوں اور اللہ ہی پر بھروسہ کرکے نکلتا ہوں اور جو بھی طاقت وقوت ہے وہ سب اللہ ہی سے ہے۔‘‘
حدیث میں آتا ہے کہ جو یہ دعا پڑھ کر گھر سے نکلتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے: (کفیت ووقیت وہدیت، وتنحی عنہ الشیطان) (ترمذی)
’’تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور حفاظت اور ہدایت کافی ہے اور شیطان اس کے راستہ سے ہٹ جاتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شیطان دوسرے شیطان سے، جو اس کو بہکانے کے درپے ہوتا ہے، کہتا ہے: تم ایسے آدمی کے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہو جس کو اللہ کی طرف سے ہدایت، مدداور حفاظت مل چکی ہے۔
گھر سے نکلتے وقت مزید درج ذیل دعا بھی پڑھیں تو بہتر ہے: (بسم اللہ توکلت علی اللہ، اللہم انی اعوذبک ان اضل او اضل او ازل او ازل او اظلم واظلم او اجہل او یجہل علی) (سنن اربعہ)
’’اللہ کے نام سے (گھر سے نکل رہا ہوں) اللہ ہی پر توکل کیا ہے، اے اللہ!میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ میں کسی کو گمراہ کردوں یا میں خود کسی کے ذریعہ گمراہ کیا جاؤں، یا میں کسی کو پھسلاؤں یا میرے پاؤں میں لغزش آئے، یا میں کسی پر ظلم کروں یا کسی کی طرف سے میرے اوپر ظلم ہو، یا میں کسی سے جہالت کروں یا خود میرے ساتھ کوئی جہالت کرے۔‘‘
اگر سواری سے کام پر جا رہا ہے تو پھر سواری پر چڑھنے کی دعا بھی پڑھے: (سبحان الذی سخر لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون) (الزخرف: ۴۳؍۱۳)
’’پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے اس سواری کو مسخر کیا جب کہ ہم اس کے اہل نہ تھے، اور ہم اپنے رب کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘۔***

No comments:

Post a Comment