Tuesday 28 June, 2011

حافظ فوزان احمد: ’’ہم ترے فراق سے غمزدہ ہیں‘‘ Jan 2011

حافظ فوزان احمد:
’’ہم ترے فراق سے غمزدہ ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ راضی ہے تو میرا شدید ترین غم میرے لئے آسان ہے: مولانا مطيع الله مدني
’’کل یوم ہو فی شأن‘‘ اللہ تعالیٰ ہر دن ایک شان میں ہوتا ہے، کسی کو بے پناہ نعمتوں، بے پایاں مسرتوں سے نوازتا ہے، کسی کو بے حد وحساب غم واندوہ، بے انتہا درد وکرب میں مبتلا کرکے رونے بلکنے اور سسکنے کیلئے چھوڑ دیتا ہے، کسی کو حیات وزندگی عطا کرتا ہے، کسی کو موت کی آغوش میں پہونچا دیتا ہے۔ کسی کو انواع واقسا م کی دولت عطا کرتا ہے، کسی کو فقروفاقہ سے دوچار کرتا ہے،کسی کو صحت وسلامتی عطا کرتا ہے، کسی کو امراض وآہات کا شکار بنا دیتا ہے۔ ’’وللہ فی خلقہ شؤن‘‘۔
کسی کو خوشی ملے، کوئی ہموم وغموم کا بارگران اٹھا کر آہوں، کراہوں میں مبتلا ہو، اسے کچھ پرواہ نہیں، وہ اللہ تعالیٰ تو غنی عن العالمین ہے۔ اسکی ذات غنی حمید ہے: وہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔
اللہ کا فضل واحسان ہے اور اسکا شکر گزار ہوں کہ مجھ پر اسکی نعمتیں بے شمار ہیں اس نے ہمیں بے پناہ مسرتوں سے نوازا ہے۔ دولت ایمان اور نعمت اسلام سے آراستہ کیا ہے عقیدۂ توحید کی لازوال دولت سے مالا مال کر رکھا ہے، دینی تعلیم سے آراستہ کیا ہے علم الکتاب والسنۃ کی فضیلت مآب دولت عطا کیا ہے، دنیوی نعمتوں اور فانی لذتوں سے بھی نصیب وافر عطا کیا ہے، اولاد کی نعمت عطا کی ہے۔
خوشیاں ہی خوشیاں تھیں دامن میں میرے
اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے ایک ایسا وقوعہ پیش آیا۔ جس نے مجھ پر غم واندوہ کا ایسا پہاڑ توڑدیا جسکی نظیر نایاب توبالکل نہیں مگر کم یاب ضرور ہے۔
۲۷؍جنوری ۲۰۱۱ء ؁ جمعرات کے دن میرے دل کے ٹکڑے جوان سال فرزند عزیز مکرم فوزان أحمد السنابلی کا دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے بحکم رب آنا فآنا انتقال ہو گیا۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ’’إن للہ ما أخذ ولہ ما أعطی‘‘وکل شےئی عندہ بمقدار۔
یہ خبر سن کر مجھ پر غم والم کا پہاڑ ٹوٹ گیا، میری خوشیوں کا سمندردردورنج کی کڑواہٹ اور تلخی سے آلودہ ہو گیا، گلشن حیات کی پر رونق بہار پر خزاں کا گہرا سیاہ بادل سایہ فگن ہو گیا میرے چاروں طرف مہیب اندھیرا چھاگیا، شب غم کی تاریکی اتنی شدید تھی کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا، والدۂ فوزان کی حالت کیا ہوئی ہوگی؟ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
البتہ ایک چراغ نہا خانہ دل میں پوری آب وتاب کے ساتھ روشن تھا،وہ تھا میرے ایمان وعقیدہ کا روشن چراغ، دل ودماغ میں توحید کی شمع فروزاں، ایمان بقضاء اللہوقدرہکا پرنور تابندہ درخشندہ فانوس جس سے دل ودماغ کی دنیا منور تھی اور معطر ومعنبر بھی ’’ان اللہ تعالیٰ قدر وماشاء فعل‘‘پر میرا ایمان مزید کامل ہوا، مجھ میں قضا وقدر پر تسلیم ورضا کی ایمانی خو مزید مستحکم ہوئی، عالم الغیب والشہادہ اور علام الغیوب کے علم کامل پر میرا ایمان پختہ سے پختہ تر ہوگیا۔ ’’ألا لہ الخلق والأمر‘‘اور ’’یفعل ما یشاء بہ‘‘ اور ’’فعال لما یرید‘‘ پر میرا ایقان واذعان خوب محکم ہوگیا، دل نے گواہی دی اور زبان نے اقرار کیا۔
’’آمنت باللہ وقضاۂ وقدرہ ماشاء اللہ کان ومالم یشأ لم یکن ‘‘ میں نے شرح صدر سے کہا : ’’اللہم لک الحمد علی ما قضیت ولک الشکر علی ما عافیت فانک تقضی ولا یقضی علیک والخیر کل الخیر فیما قضیت وقدرت علی۔ فإن الخیر بیدیک والشر لیس إلیک‘‘ لا راد لقضاۂ ولا معقب لحکمہ: میرا عقیدہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ واضح بات ہے کہ میرا غم انتہائی شدید ہے اظہار غم کا شرعی طریق ہے کہ آنکھ أشک بار ہو، دل آماجگاہ غم بن جائے اور فراق دل بند سے دل رنجیدہ ہوجائے اور ہم غموں کی تصویر بن جائیں۔
اس حتمی وقطعی وقوعہ پر میری آنکھوں سے سیل اشک روان ہوا، آہوں اور سسکیوں کا طویل سلسلہ رہا میرا دل غموں کا گہوارہ بن گیا۔اس عالم میں جس قدر اپنوں کو دیکھتا اور ان سے ملتا اسی قدر میری آنکھیں اشک باری کرتی تھیں۔ غم دل کو کھاتا تھا۔اور جگر کو چاٹتا تھا۔
میں اپنے لخت جگر فوزان أحمد سنابلی کے فراق سے خوب رنجور ہوا، مگر میں نے اپنے خالق ومالک اپنے رب کو راضی کرنے والی ہی بات زبان سے ادا کی ’’إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ۔ إن للہ ما أخذ ولہ ما أعطی۔ قدراللہ وماشاء فعل۔ ماشاء اللہ کان وما لم یشاء لم یکن۔ آمنت باللہ وقضاۂ وقدرہ وتوکلت علیہ۔ ألالہ الخلق والأمر ’’یفعل مایشاء‘‘ اور ایمان بالقدر اور صبر وتسلیم ورضا پر مشتمل کلمات کو ورد زبان بنائے رکھا۔
آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بھی امنڈتا رہا اور زبان پر کلمہ حمدوشکر بھی ساتھ جاری رہا، اپنے والدین، أم فوزان اور جملہ اقارب واحباب کو نوحہ وفغان سے روکتابھی رہا، آواز کے ساتھ رونے سے قطعی اجتناب کی تلقین ووصیت بھی جاری رکھا۔
مختلف دعائیں ورد زباں رہیں بالخصوص: ’’اللہم اجرنی فی مصیبتی وأخلف لی خیرا منہا‘‘ اے اللہ تو مجھے میری مصیبت میں مجھے بدلہ عطا کر اور اس سے بہتر جانشین عطا کر۔
درج ذیل سطور میں عزیزم حافظ فوزان أحمد السنابلی۔ رحمہ اللہ وغفر لہ۔کا سوانحی خاکہ اور سفر آخرت کی مختصر روداد قلمبند کی جا رہی ہے شاید کسی ماں باپ اور بیٹے کے لئے عبرت وموعظت کا نفع بخش اور فائدہ مند سامان بن جائے اور عبرت کا درس ثابت ہوجائے۔
ولادت: ماہ مبارک رمضان ۱۴۰۸ھ کی ۲۳ تاریخ مطابق ۱۱؍مئی ۱۹۸۸ء ؁ کو رات میں ہوئی جب مصلیان مسجد تراویح کی صلاۃ ادا کر رہے تھے۔ میں اس وقت جامعہ اسلامیہ مدینہ کا طالب تھا اور اس رات مکہ مدینے کے درمیان بغرض ادائیگی عمرہ سفر میں تھا۔ فوزان احمد کی ولادت سے میرے گھر میں مسرتوں کی باد بہاری چلنے لگی۔میرے والدین پورا خاندان اور اقارب مسرت و شادمانی سے مگن ہونے لگے۔ اس سے قبل ۱۹۸۵ء ؁ میں پہلی مولود بچی کا دو ماہ سے بھی کم عمر میں اور ۱۹۸۶ء ؁ میں ایک نو مولود بچے کا بعد از ولادت انتقال ہو چکا تھا۔ جب فوزان احمد سلمہ کی عمر چار سال کی ہوئی گاؤں کے مدرسہ میں تعلیم کا آغاز ہوا اور پھر مدرسہ تعلیم القرآن والسنۃ میں داخل ہوئے اور وہیں درجہ پنجم پاس کیا۔
دس سال کی عمر میں جامعہ التوحید بجوا کے شعبہ حفظ میں داخلہ لیا، وہیں پر چار سال میں حفظ اور دور مکمل کیا اور شہادۃ حفظ القرآن الکریم وتجویدہ سے سرفراز ہوئے، اس کے بعد ہندوستان کی عظیم شہرہ آفاق درسگاہ ’’جامعہ اسلامیہ سنابل‘‘ مرکزابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر نئی دہلی داخل ہوئے۔ کامل آٹھ سال گذار کر وہاں پر متوسطہ عالمیت اور فضیلت کا کورس مکمل کیا اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔شعبان ۱۴۳۱ھ ؁ میں عالیہ (فضیلت) کا کورس مکمل کیا۔
اور اس عظیم درسگاہ کے فاضل اساتذہ سے کسب فیض کیا جن میں : مولانا عزیز أحمد مدنی،مولانافضل الرحمن ندوی، مولاناعاشق علی اثری، مولانا عبدالبر مدنی، ڈاکٹر محمد مفضل مدنی، مولاناعبدالمنان مدنی، مولانا شکیل احمد مدنی، مولانا،شیخ ابوالمکارم ازیری ، ماسٹر ثروت وغیرہم نمایاں ہیں۔
میں نے عزیزم فوزان احمد کو حفظ قرآن کریم کی عظیم نعمت سے آراستہ کیا اور زمانہ تحفیظ اور تکمیل تحفیظ کے بعد سے اب تک علاقہ اور ممبئی اور اس کے باہر متعدد مساجد میں رمضان کے ماہ مبارک میں صلاۃ التراویح کی امامت کرتے رہے۔
فوزان کے علاوہ میرے دو لڑکے فرحان أحمد اور زہران أحمد بھی حفظ قرآن کی نعمت بے بہا سے آراستہ وپیراستہ ہیں یوں اللہ تعالیٰ نے مجھے عظیم سعادت عطا فرمائی ہے۔
میں ۱۹۸۳ء ؁ میں فراغت کے بعد مؤ آئمہ ضلع الہٰ آبادمیں تدریسی خدمت کی بجا آوری پر مامور ہوا تو وہاں پر مدرسہ محمدیہ کے ذمہ دار مولانا عبدالنور اثری رحمہ اللہ نے جامع مسجد اہل حدیث محلہ کوٹ میں امامت صلوات کے اہم ترین فریضہ پر مامور کیا ان دنوں مجھے کچھ زیادہ سورتیں نہیں یاد تھیں، مجھے یہ بات راس نہ آئی کہ میں چند ہی سورتیں روز بار بار دہراتا رہوں، عزم کیا کہ میں متعدد سورتیں یاد کرونگا طریقہ یہ اپنایا کہ روزانہ صلاۃ عشاء میں جدید یاد کردہ آیات کی تلاوت کرتا یوں قرآن کریم سے میرا تعلق اور شغف گہرا ہوتا گیا۔اور میں نے سال بھر میں پانچ چھ پارہ قرآن یاد کر لیا اور جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں بطور نصاب آٹھ پارہ یاد کرنا پڑا ۔یوں قرآن کا ایک اچھا خاصہ حصہ مجھے یاد ہے ۔وللہ الحمد
وہیں پر یہ قلق رہا کہ کاش میں حافظ قرآن ہوتا انھیں حالات میں میں نے اپنے دل میں یہ عزم بالجزم کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد کی نعمت عطا کی تو میں انھیں حافظ قرآن بناؤں گا۔
یوں میں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو حفظ قرآن کی فضیلت مآب راہ پر لگایا اور اللہ کے فضل واحسان سے میرے تین بڑے بچے حافظ قرآن کریم ہیں: ’’فالحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات‘‘
اس سال میں نے کوشش کرکے سعودی عرب کی حکومت کے زیر اہتمام’’ شاہ عبدالعزیز آل سعود بین الأقوامی عظیم مسابقہ قرآن کریم ‘‘منعقدہ مکہ مکرمہ میں ایک متسابق کی حیثیت سے عزیزم فوزان أحمد سلمہ کی شرکت کو یقینی بنا لینے میں کامیابی حاصل کرلی۔
چنانچہ مورخہ ۱۸؍دسمبر ۲۰۱۰ء ؁ کو وہ مکہ مکرمہ گئے وہاں پر عمرہ کی ادائیگی کی سعادت سے سرفراز ہوئے مدینہ طیبہ پہونچکر مسجد نبوی کی زیارت کی۔ یوں مسابقہ میں شرکت کے ساتھ ہی حرمین شریفین کے فیوض وبرکات سے حسب توفیق الٰہی مستفیض ہوئے۔
مسجد نبوی مدینہ طیبہ کی زیارت کے دوران جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں بغرض داخلہ انٹرویو دیا۔ جس میں کامیابی کی پوری توقع تھی، مدینہ سے واپسی کے بعد ایک دن کا قیام جدہ میں تھا، وہاں پر میرے عم زاد نوشاد أحمد مقیم حال جدہ سے ملاقات ہوئی۔ نوشاد احمد سلمہ نے اپنے بھتیجے کی بڑی عزت وقدر افزائی کی مختلف تحائف سے نوازا ۔ فجزاہ اللہ خیرا۔
۶؍جنوری کی فلائٹ سے دہلی واپس آئے اور وہاں سے ۸؍جنوری کو چل کر ۱۰؍جنوری کی صبح کو بڑھنی پہونچے جہاں پر میرا قیام ہے، اس وقت میری اہلیہ ام فوزان کی خوشیاں قابل دید تھیں۔ ہم دونوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ ان کی فراغت اور مسابقہ قرآن کریم مکہ مکرمہ میں شرکت کی خوشی میں شکرانہ کی دعوت کریں گے جس میں میرے خصوصی احباب ومتعلقین شریک ہوں۔ اس کا نفاد بھی نہ ہوا تھا کہ یہ غمناک وقوعہ پیش آگیا۔تمام احوال وکوائف سفر معلوم کرنے کے ساتھ ان کو ملے تحائف اور علمی کتابوں اور سی ڈی اور دیگر اشیاء کو دیکھنے کے ساتھ اظہار فرحت ومسرت کا ایک خاص سماں تھا۔ میں نے انٹرویو کا حال دریافت کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھا۔ کہ کیا سوال کیا گیا؟ آپ نے کیا جواب دیا؟ ویسے بفضل اللہ مجھے پوری توقع تھی کہ انکو کامیابی ملے گی اور ’’مجددین وعقیدہ یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ‘‘ میں اعلیٰ تعلیم کا موقعہ ملے گا۔ لیکن ’’وما تشاؤون إلا أن یشاء اللہ رب العالمین‘‘
اسی دوران وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے دادا دادی اور نانا نانی اور تمام خویش وأقارب سے ملاقات کیلئے ششہنیاں اور کولہوا گئے اور وہاں پر دور وزہ قیام کے بعد واپس میرے پاس بڑھنی آگئے۔ وہ یہاں شوال سے ہی میرے پاس تھے۔ مکہ جانے سے قبل میں نے ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ دلوادیا تھا جس میں انھیں خاطر جانکاری حاصل ہو چکی ہے۔پھر چند دن تک عزیزم مکرم ذاکرحسین سلمہ کے پاس رہ کر کمپیوٹر تعلیم میں کافی حد تک مہارت بہم پہونچا لی تھی۔
سفر مکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے اپنی والدہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ابو مجھے کہیں پر تدریس کے لئے مامور کردیں، میں نے احباب اور بعض اداروں کے ذمہ داران سے رابطہ کیا ۔ چونکہ درمیان تعلیمی سال آسامیاں کم ہی خالی رہتی ہیں۔ مجھے خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔
اس سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مجھے ان کے سعودی جامعات میں سے کسی میں داخلہ کی قوی امید تھی۔ اس لئے میں چاہتاتھا چند ماہ میرے ساتھ قیام کر لیں ورنہ اکثر تعلیم یافتہ حضرات تو عموما زندگی کا بیشتر حصہ والدین سے دور ہی گذارتے ہیں۔
دودھونیاں میں ایک نسواں اسکول کے ذمہ دار نے مجھ سے اور خود عزیزم فوزان أحمد سے یہ پیشکش کر چکے تھے کہ آپ ہمارے مدرسہ میں تدریس کا کام سنبھا لیں۔
چونکہ میرے عزائم کافی بلند تھے منصوبے عظیم تھے میری خواہش تھی کہ اگر یہ تدریس کاکام سنبھال لیں تو کسی عظیم درسگاہ کا انتخاب کیا جائے۔
ایک دن اسی مدرسہ کی معلمہ، جو میری شاگرد اور ام فوزان سے غایت درجہ مانوس ہے۔ أم فوزان کے پاس آئی اور اس نے اپنی خالہ ام فوزان سے زوردار سفارش کی کہ آپ مولانا(مطیع اللہ) سے کہہ دیں کہ فوزان بھیہ کوہمارے مدرسہ میں پڑھانے کی اجازت دیدیں۔ میں اس دن گھر پر موجود نہیں تھا۔ یہ غالباً ۲۰؍ جنوری کی بات ہے۔
میں جب گھر پہونچا تو ام فوزان نے اس بات کا تذکرہ مجھ سے کیا خود ان کی بات میں رضا مندی کی جھلک صاف نظر آرہی تھی، میں نے بھی ان سے اتفاق کرلیا، اور خاموش رہے۔ ۲۵؍جنوری کو دوپہر میں جب اپنے مدرسہ سے واپس آیا تو ’’مدرسہ فاطمۃ الزہراء‘‘ کے ناظم ماسٹر محبوب صاحب کو گھر پر موجود پایا سلام کے بعد انھوں نے کہاکہ آپ سے اجازت چاہئے۔ مولانا یعنی فوزان أحمد تیار ہیں۔میں نے کہا ضرور بغیر میری اجازت کے کیسے یہ کہیں جائیں گے؟
میں نے موصوف سے کچھ باتیں کیں میں نے کہاں کہ آپ یاد رکھیں یہ عارضی طور پر آپ کے مدرسہ میں رہ کر سال پورا کر دیں گے، انھوں نے کہاکیوں؟ میں اچھی تنخواہ دوں گا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں ان کو یہاں نہیں دیکھنا چاہتا ہوں، میں ان کو بہت بلندی پر لیجانا چاہتا ہوں میں انھیں باہر اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیجناچاہتا ہوں ۔ آپ نے فوزان احمد سے کہا ہے کہ کل چھبیس جنوری ہے بچوں کا پروگرام ہے آپ آجاےئے گا، وہ گئے اور بسلامت واپس آئے، خوش نظر آئے اپنے ماموں عبدالعلیم مقیم ممبئی سے رابطہ کیا کہ آپ کی موٹر سائیکل چاہئے، اجازت میں دیر نہ لگی، منصوبہ یہ تیار کیا کہ کل جمعرات دس بجے تک پڑھائی ہے۔ وہاں سے واپس آکر کولہوا جاؤں گا دوسرے روزموٹر سائیکل لیکر واپس آؤنگا۔
۲۷؍جنوری کی صبح ہوئی، میں بعد فجر چہل قدمی کرکے واپس آیا، آواز دیتا ہوں ’’بابو‘‘ یعنی فوزان اپنے کاغذات یعنی اسانید وغیرہ کا ایک سیٹ تیار کرکے مجھے دیدو فوٹو کاپی کروا کے، میں جامعۃ الملک سعود میں ارسال کردوں، جامعہ أم القری کے لئے صرف N.O.C.ورقہ بھیجنے کی ضرورت تھی، انھوں نے عبدالحمید صاحب طالب جامعہ ام القری کا ای۔میل ایڈریس نوٹ کروایا تاکہاس پرN.O.C. ورقہ بھیجا جا سکے۔
اسی وقت وہ تروتازہ، ہشاش وبشاش تھے، بظاہر کہیں سے وہ مضطرب یا مضمحل نظر نہیں آرہے تھے۔ مجھے ناشتہ دینے میں والدہ کی مدد کی اور خود کیچن میں ناشتہ کیا تیار ہوئے لباس زیب تن کیا۔ ان کو کسی رکشہ وغیرہ سے جاناتھا، کچھ پہلے نکلے، اپنی والدہ سے بولے امی! جا رہا ہوں ساتھ میں میرے چھوٹے بچے بھی نکلے۔ انھوں نے کسی موٹر سائیکل سوار سے لفٹ لی اور مدرسہ پہونچ گئے۔
وہاں پہونچکروہاں موجود اسٹاف سے سلام کلام کیا۔ ان لوگوں کا بیان ہے وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے ایک کمرے میں مطالعہ کتاب میں مصروف ہوئے انھیں پہلی گھنٹی میں صحیح بخاری کا درس دینا تھا۔ گھنٹی کا وقت قریب ہوا، وہاں کمرے میں بیٹھے تھے۔ اندرونی طورپر اضطراب محسوس کیا۔ کرسی لیکر کمرے سے باہر آئے، ماسٹر فہیم صاحب قریب ہوئے، فوزان نے ان سے کہا کہ میری طبیعت خراب لگتی ہے اور پھر نگاہ اوپر اٹھی اور کرسی پر غش کھا کر ایک جانب لڑھک گئے ماسٹر صاحب نے تھام لیا اور پھر ممکنہ طور پرجلدی ہی بڑھنی بلاک اسپتال لائے۔ اس سے قبل ہی حکم رب پورا ہو چکا تھا۔ اس کی مشیت اور اس کے اذن سے ملک الموت ان کی روح قبض کر چکا تھا۔ میرے ثمر�ۂ دل کوفرشتے موت کی آغوش میں پہونچا چکے تھے۔ فإنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
مجھے ابھی تک کچھ خبر نہ تھی۔ میں وقت مقررہ پر اپنے مدرسہ پرپہونچکر پہلی گھنٹی میں صحیح البخاری کا درس دے رہاتھا۔ نو بجکر چالیس منٹ پر گھنٹی ختم ہوئی، کلےۃ عائشہ صدیقہ میں مولاناوصی اللہ مدنی نے بلا رکھا تھا، دوسری گھنٹی خالی تھی، ہاتھوں میں بابو کے کاغذات کا سیٹ لیکر وہاں پہونچا۔ ابھی وہاں کے بعض مدرسین سے ملاقات ہوئی تھی، بابو کا ذکر نکل آیا، ان کی شادی سے متعلق ایک جملہ میری زبان سے ادا ہوا، فون کی گھنٹی بجی۔ حافظ عتیق الرحمن سلمہ محاسب مدرسہ خدیجۃ الکبری کی بڑھنی بلاک سے فون پر آواز آئی کہ آپ جلدی سے بلاک پر آجائیں فوزان کی طبیعت خراب ہے۔
چونکہ میں نے انکو توانا وتندرست روانہ کیا تھا، فوری طور پر میری زبان سے جملہ ادا ہوا کہ کیا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے؟ وہ بولے نہیں بس آپ آجاےئے، وہاں سے سرحد پر پہونچا جہاں میری بائیک کھڑی تھی فون کی گھنٹی دوبارہ بجی اور موصوف حافظ صاحب نے یہ خبر دینے میں کوئی دیر نہ لگا ئی کہ ’’فوزان نہیں ہیں‘‘ اس وقت میری حالت غیر ہو گئی اور جس اضطرابی کیفیت اور سراسیمہ حالت کا شکار ہوا میں خود اس کو قلمبند کرنے سے قاصر ہوں، اشارے سے وہاں موجود اشخاص کو بلاتا ہوں، ببلو بھائی نے میری طرف رخ کیا میں نے کہاں میری بائیک سے مجھے میرے گھر پہونچا دیجئے، انھوں نے کہا آےئے میری کار میں بیٹھئے میں نے وہاں عتیق الرحمن کمپیوٹر آپریٹر السراج کو کہا کہ مولانامحمد اسلم مدنی ؔ اور مولانا انیس الرحمن مدنیؔ کو فوراً میرے گھر بھیجئے۔
گھر کی طرف مڑا وہاں سامنے گاڑی کھڑی دیکھی لاش لانے والے ابھی گھر میں موجودمیری اہلیہ سے کسی بڑی چار پائی کا مطالبہ کر رہے تھے کہ میں پہونچ گیا، بہر حال لاش گاڑی سے نکالی گئی اور چارپائی پر ڈال دی گئی۔
اب ام فوزان کو معاملہ کا علم ہوا ، ان کی حالت دگرگوں ہوگئی، انھیں سنبھالنامیرے لئے کتنا مشکل تھاچند لمحوں میں خواتین کا جم غفیرپہونچا اور ان کے غم و الم میں شریک ہوئی اور سبھی کی آنکھیں اشکباری کر رہی تھیں۔میں نے آنکھیں پتھرانا پڑھااور سنا تھا، لیکن اس وقت میری آنکھیں پتھرا گئیں تھیں۔ رونے کی کوشش کے باوصف رونا نہیں آرہا تھا ادھر میرے مدرسہ کے ذمہ داران، اساتذہ ومعلمات وغیرہ اور دیگر احباب کو اطلاع ہو چکی تھی۔ چند لمحوں میں سب کی آمد ہوئی جب ان سب کو دیکھا تب جا کر میری آنکھوں سے آنسوؤں کا چشمہ رواں ہوا، گھر میں اہلیہ کی حالت حد درجہ قابل رحم تھی،وہ گریہ وزاری میں مبتلا تھیں۔
سبھی تعزیت کر رہے تھے، صبروسلوان کی وصیت کر رہے تھے مولانا عبداللہ مدنی، مولانا محمد اسلم مدنی مولانا انیس الرحمن مدنی اور مولانا عبدالمنان سلفی اور جملہ اساتذہ خدیجۃ الکبری وجامعہ سراج العلوم اور دیگر احباب تسلی کے کلمات ادا کر رہے تھے اکثر موجود حضرات مردوں کی آنکھیں پر نم تھیں۔
یہ حتمی وقوعہ کچھ ایسا ہی غم ناک اور کربناک تھا ساتھ ہی ظاہری طور پر آناً فاناً تھا کہ میرا وجود تو لرزنا ہی تھی، سبھی سننے والے لرز اٹھے، سبھی غم زدہ تھے اور میرے غم میں شریک بھی ادھر مولانا اسلم صاحب مدنی نے میرے کہنے کے مطابق مولانا محمدالیاس سلفی اور مولانا محمد عیسی بلال کو اولین اطلاع دیا کہ وہاں میرے بوڑھے والدین اور اقارب واحباب اور اہل قریہ کو اطلاع دیدیں گے اور وہاں پر ضروری انتظامات دیکھ لیں گے۔
ادھر میں نے گذارش کی کہ لاش اور ہمیں ششہنیاں بھیجوانے کا انتظام کردیں۔
فضیلۃ الشیخ عبداللہ مدنی صاحب اور تمام احباب نے اس مرحلہ کو آسان بنا دیا اور میں نے یہ بتلا دیا کہ عصر بعد صلاۃ جنازہ کی ادائیگی کا وقت ہوگا، کسی نوع کی تاخیر کی ضرورت نہیں ہے ہم یہاں سے روانہ ہوئے اور وہاں پر جب ہمارے گھر اور گاؤں میں اطلاع پہونچی تو ایک کہرام سا مچ گیا۔ڈومریا گنج سے میرے چھوٹے بھائی مولوی صفی اللہ مدنیؔ میرا بچہ زہران وغیرہ وہاں سے آئے اور ادھر تمام رشتہ دار بھی اور علاقہ وجوار میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
بابو عبدالعلیم صاحب نے اطہر علیم کو گاڑی لیکر لاش لانے کیلئے فوری طورپر روانہ کیا۔ادھر جب میں مع اہل وعیال بابو کی لاش کے ساتھ گھر پہونچا تو اس وقت کے منظر اور ماحول کی تصویر کشی سے میرا قلم عاجز ہے ہر طرف آہوں کراہوں اور سسکیوں کا راج تھا، پتھر دل انسان بھی آبدیدہ ہو رہا تھا۔ممبئی میں موجود میرے منجھلے بھائی مولوی ضمیرأحمد مدنیؔ میرے پھوپھازاد بھائی (فوزان أحمد کے ماموں رئیس، عبدالعلیم، حمدان اور میرے بچے فرحان کو اطلاع ملی، مدراس میں میری بہن اور بہنوئی کو یہ خبر مل گئی، سب پر یہ خبر صاعقہ بن کر گری، سب دم بخود ہوگئے رنج والم سے چور چور ہو گئے اور سبھوں نے ہم لوگوں کی تسلی وتعزیت کی خاطر فوری سفر کا ارادہ کیا اور گھر آئے۔ ان کی آمد پر گھر میں ایک بار پھر آہوں اور سسکیوں کا غم ناک سلسلہ رہا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرما۔
تجہیز وتکفین کا انتظام ہورہاتھا، بارہ بجے کے بعد ہم لوگ ششہنیاں پہونچے، سارا کنبہ اور رشتہ دار اور گاؤں والے موجود تھے ایک عجیب غم والم کا عالم تھا۔ میرے والدین اور بہنوں اور بچے کے نانا اور نانی کی حالت کس قدر قابل رحم تھی، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
غسل وتکفین کا مرحلہ طے ہوا۔ صلاۃ العصر کے بعد جنازہ اٹھایا گیا اور سواچار بجے سیکڑوں مسلمانوں نے جنمیں قابل ذکر تعداد اہل علم وفضل کی تھی۔فضیلۃ الدکتور الشیخ عبدالقیوم محمد شفیع البستوی ؍حفظہ اللہ وتولاہ امام وداعیہ وزارۃ الأوقاف قطر۔ جو چند یوم کے لئے گھر آئے ہوئے تھے۔ کی امامت میں صلوٰۃ جنازہ ادا کی اور پھر تدفین عمل میں آئی۔
اللّہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وأکرم نزلہ ووسع مدخلہ وأدخلہ الجنۃ۔
خصائل واخلاق:
انسان اس دنیا کے اندر اجتماعی زندگی میں اپنی عادات اور اخلاق سے پہچانا جاتا ہے۔ حسن اخلاق اور عمدہ خصلت کسی کو بھی دوسروں کے درمیان ممتاز قرار دےئے جانے کا ایک بہترین پیمانہ ہے۔ کسی کے اخلاق کی بہتری کا پیمانہ مختلف ہو سکتا ہے ایک ہی شخص کے حسن اخلاق اور قبح اخلاق کی شہادتیں جمع کے جا سکتی ہیں۔ ایک ہی شخص کے متعلق دو مختلف لوگوں کی متضاد رائے ہو سکتی ہے مثلاً ایک شخص اس کو حسن اخلاق کاپیکر اور شرافت کا منبع قرار دیتا ہے تو دوسرا شخص اسی کو بد اخلاقی اورخست و رزالت کا محور قرار دیتا ہے۔لیکن اسلام کی نظر میں حسن اخلاق کا حامل وہ ہے جس کے اخلاق وعادات اور خصائل اوصاف کی تحسین کتاب وسنت یعنی اسلامی شریعت کرتی ہو اور جس کے حسن کردار وگفتار کی گواہی عام لوگ دیتے ہوں اور یہ گواہی بھی کسی نفسانی اغراض اور ذاتی مفادات سے متاثر نہ ہو، اخلاقیات کے باب میں یہ نکتہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ انسان میزان شرع میں بہتر اور عمدہ ہو۔ کون سا انسان بہتر ہے؟ اس سلسلے میں نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’وہ مسلمان سب سے بہتر ہے جس کی زبان ودست سے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔ وہ بہتر ہے جو دوسروں کو کھانا کھلانے اور سلام کرنے اور صلاۃ (یعنی تہجد کی صلاۃ) ادا کرنے کا خوگر ہو وغیرہ۔ اخلاقیات کے باب میں دوسرا اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ وہ ضرور اخلاقی لحاظ سے بہتر ہے جس کو ایک بڑی بھاری جمعیت بااخلاق شریف اور بہتر کہتی ہو۔
عزیزم فوزان أحمد ایک ایسے نوجوان تھے۔ جن کا دس سالہ بچپن کا دور گھر گاؤں اور گورا مدرسہ میں گذرا۔ چار سال حفظ کے لئے بجوا مدرسہ میں مقیم رہے اور آٹھ سال کی بڑی مدت کا بیشتر حصہ جامعہ اسلامیہ سنابل میں عربی تعلیم کے حصول میں گذرا۔ صرف چھٹیوں میں چند یوم کے لئے گھر آتے اور وقت مقرر پر واپس اپنے جامعہ چلے جاتے۔ آٹھ سال سے رمضان المبارک کی طویل چھٹی میں وہ ممبئی جا کر تراویح کی امامت کرتے تھے۔ آخری بار انھوں نے گنگا پور نامی قصبہ، ضلع اورنگ آباد، مہاراشٹر۔ میں ماہ رمضان میں وہاں کی اہلحدیث مسجد میں امامت وخطابت اور تراویح کی امات کے ساتھ درس قرآن اور درس حدیث کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ ان کے کارگاہ حیات میں با ضابطہ قدم رکھنے کا وقت بھی نہ آیا تھا، عارضی طور پر تدریس کے لئے تیار ہوئے تھے کہ اجل محتوم کا وقت آگیا۔
حافظ فوزان أحمد کے جاننے والوں کی اجتماعی شہادت اور مجموعی تاثر ہے کہ وہ ذہن وفطین اور بہت سنجیدہ اور شریف تھے، سب سے خندہ پیشانی سے ملتے کسی سے سلام ودعا کے وقت ان کے لب پہ مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی۔
ان کے حفظ کے استاذ نے ہمیشہ ان کی تعریف وتحسین کی اور ان کے حق کلمات خیر فرمایا: ان کی جدائی پر وہ کافی سے زیادہ رنجیدہ نظر آئے اور ان کی ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں۔
مکۃ المکرمہ سے لوٹنے کے بعد بابو ان کے لئے ایک لائے تھے اور مجھ سے کہا کہ قاری صاحب کو ایک لباس اور یہ شماغ ہدیہ کیا جائے۔ کتنا خیال تھا حق استاذی کا؟ کتنی محبت تھی انھیں اپنے قاری صاحب سے؟ شاید اس کا کچھ علم خود قاری محمد صادق کو بھی ہے۔ ان کے جملہ اساتذہ ان سے خوش تھے۔ ان کی ذہانت اور سنجیدگی سے متاثر تھے۔ گنگا پور کے عبدالعلیم بھائی امجد بھائی، عبدالمبین ، اور احمد نگر نے حافظ فوزان کی شان میں تحسین آمیز کلمات فرمائے۔ بھائی عبدالعلیم نے کہا کہ اس کم عمری میں اس قدر ذہین سنجیدہ اور صالح اورباصلاحیت میں نے نہیں دیکھا، ان کے جتنے ساتھی تھے۔ ان میں سے کئی ایک نے اطلاع مرگ کے بعد مجھ سے فون پر رابطہ کیا صبروسلوان اور تعزیتی کلمات کہتے ہوئے اور ان کے حسن اخلاق کی گواہی تھی۔
گاؤں اور علاقہ وجوار کے اوران کے بنہال کے جملہ واقف کاروں نے تحسین آمیز کلمات سے انھیں یاد کیا۔ ان کے کمپیوٹر تعلیم کے استاذ (ذاکرحسین) صاحب نے کہا کہ یہ بہت خاص عمدہ کوالٹی کا جوان ہے حتی کہ اپنے....خلاصۃ القول یہ ہے کہ تمام لوگوں نے ان کی ثنا بیان کی۔
اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ اللہ لوگوں کے ان کی شان میں ثناء بالخیر کو قبول فرمائے اور اپنی رحمت اور فضل سے ان کے لئے جنت واجب کر دے (آمین)
میں مزید کیا کیا لکھوں۔ فوزان احمد کے لئے یہ سعادت کی بات ہے کہ حافظ قرآن، عالم وفاضل تھے، ابھی وفات سے بیس دن پہلے عمرہ ادا کرکے ارض حرمین سے واپس آئے تھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے نواز دے۔آمین۔ ان کا انتقال جمعرات کے دن ہوا۔
فوزان أحمد کے انتقال کا غم اتنا شدید ہے کہ مری فکروخیال کی دنیا میں شدید اضطراب ہے۔ میرے حواس پر غموں کا گہرا سایہ ہے، میں نے اور ام فوزان نے اپنی آنکھوں میں کیسے کیسے خواب سجائے تھے، کتنی حسین تمنائیں تھیں دل میں کتنی آرزوئیں پروان چڑھ رہی تھیں۔ لیکن اللہ کی مشےئت اوراس کے اذن سے سارے خواب، تمام تمنائیں اور کل آرزوئیں خاک میں مل گئیں۔’’إن اللہ یفعل ما یشاء‘‘ وما تشاؤن إلا أن یشاء اللہ إن اللہ کان علیما حکیما‘‘
انسان کمزور مخلوق ہے، مصائب سے گھبرا جاتا ہے شرعی حدود میں غم اور رنج کا اظہار طبعی امر ہے۔
شان ایمان ہے کہ مصیبت کے وقت صبروتسلیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعونوردزبان رکھنا۔ اللہ مجھے اور جملہ اقارب کوصبر جمیل کی توفیق دے۔
کلمات تشکر:
اس عظیم آزمائش کی گھڑی میں تمام احباب اور اخوان جماعت نے مجھے تسلی دی، میری تعزیت فرمائی دور صبروسلوان کی تلقین ووصیت کی حاضر ہونے والے جنازہ میں شریک ہوئے، جنھیں بعد میں خیر ہوئی انھوں نے بعد کے دنوں میں میرے پاس پہونچ کر تعزیت کی اور ہندو بیرون ہند سے میرے سیکڑوں احباب نے فون پر تعزیت فرمائی اور حقیر کو دعاؤں سے نوازا، فقد غابی کے لئے رحمت ومغفرت کی دعائیں کیں، میں ان تمام محسنین أحباب کا شکر گزار ہوں، اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا کرے۔ آمین۔***

’’کھلا تو ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا‘‘ Jan 2011

وفیات
’’کھلا تو ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا‘‘
علمی وجماعتی حلقوں میں یہ اندوہناک خبر نہایت ہی رنج وغم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ جماعت کے معروف عالم دین، فعال وسرگرم داعی اور ماہنامہ ’’نور توحید‘‘ کے ایڈیٹر جناب مولانا مطیع اللہ مدنی ؍حفظہ اللہ وتولاہ کے فرزندارجمند عزیزم حافظ مولانا فوزان احمد سنابلی نے۲۷؍جنوری ۲۰۱۱ء ؁ بروز جمعرات تقریبا نو بجے صبح بمقام بڑھنی بازار داعی اجل کو لبیک کہا ’’إنا للہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔
۱۹۸۸ء ؁ میں مولانا موصوف کے گلشن حیات میں کھلنے والا یہ تیسرا پھول تھا ۔ (جبکہ اس سے پہلے ان کے دو نابالغ بچے فوت ہو چکے تھے) جو قدوقامت، شکل وشباہت اور ذہانت وفطانت میں آپ کے مشابہ تھا لیکن اس پھول کی قسمت میں صرف کھلنا ہی مقدور تھا جو کھلا تو ضرور مگر مسکرانے اور اپنی علمی عطر بیزیوں سے محفلوں کو مشکبار کرنے سے رہ گیا، عزیزواقارب نے اپنے دلوں میں کتنے سنہرے خواب سجائے تھے جن کے خوابوں کا یہ حسین گلدستہ بکھر گیا، وہ والدین جو اپنے اس پھول کو ہمیشہ گلے سے لگائے رکھے تھے اور اس کے مستقبل کی تابناکی کی ہر ممکن کوشش میں منہمک تھے، احباب ومتعلقہ افراد کے توسط سے ان راہوں کو ہموار کرنے میں لگے تھے، ان کی یہ ساری آرزوئیں خاک میں مل گئیں ، جو اک اک کرکے نہایت ہی خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا یہ اللہ کی بارگاہ میں شکایت نہیں بلکہ اس حقیقت کا اعتراف ہے جو ہر والدین کے سینے میں اپنے ہونہار اولاد کے تئیں ہوا کرتا ہے۔
ولادت سے لے کر عنفوان شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے تک مولانا موصوف نے ایک مثالی باپ کا کردار نبھایا، اپنے اس لاڈلے کے ذہن ودماغ کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے پر زور دیا اور مسلک سلف کا بے باک سپاہی بنا کر قوم کے سپرد کرنے کا پختہ عزم کیا اسی جذبہ صادقہ کی تکمیل کی خاطر اپنے اس جگہ گوشہ کو دینی تعلیم کے حصول کی طرف رغبت دلائی اور اپنے گاؤں ششہنیاں کے مکتب میں داخل کیا شعبہ مکتب کا مروجہ درس نظامی پڑھنے کے بعد حفظ قرآن کریم کے لئے جامعہ التوحید بجوا میں داخل کیا وہیں پر انھوں نے حفظ کی تکمیل کی۔
اس کے بعد مرکزابوالکلام آزاد للتوعےۃ الإسلامیہ نئی دہلی کے زیر اشراف جامعہ اسلامیہ سنابل میں داخلہ دلوایا ۔ جہاں پر آٹھ سال گذار کر متوسطہ سے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی اور ہمیشہ امتیازی نمبرات سے پاس ہوتے رہے پچھلے سال وہاں پر نادی الطلبہ کے کنوینر تھے۔
سال رواں ۲۰۱۱ء ؁ کے آغاز میں مہبط وحی مکہ مکرمہ میں سعودی وزارت اوقاف اسلامی امور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا ۹؍ روزہ عالمی مقابلہ قرأۃ وتفسیر قرآن کریم میں شرکت کی اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے سرفراز ہو کر مورخہ ۱۰؍جنوری۲۰۱۱ء ؁ کو وطن واپس آئے اس مقدس سفر کے دوران عالم اسلام کی معروف یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں بھی گئے اور بعض احباب کے توسط سے انٹرویو دیا تاکہ عرب مشائخ سے استفادہ کر سکیں ادھر بعض مخلص رفقاء سے شادی کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا جا رہا تھا، یہ سب انسانی تصورات کے ایسے شیش محل اور خواب تھے جو تشنہ تکمیل رہ گئے۔ کیونکہ اللہ کی مشیت اور اس کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا جس کا عینی مشاہدہ لوگوں نے کیا سچ اور حقیقت ہے (وما تشاء ون إلا أن یشاء اللہ)
مورخہ ۲۶؍ جنوری ۲۰۱۱ء ؁ کو موضع دودھونیاں بزرگ میں واقع نسواں اسکول فاطمۃ الزہرا میں فریضہ تدریس انجام دینے کی بات طے ہوئی تھی اسی لئے ۲۷؍جنوری کی صبح باپ بیٹے دونوں آگے پیچھے گھر سے نکلے ان کے والد گرامی اپنے مقرعمل مدرسہ خدیجۃ الکبری پہنچ کر اپنے معمول کے مطابق اپنی گھنٹیاں پڑھانے لگے عزیزم سلمہ بھی فاطمۃ الزہرا اسکول میں حاضر ہو کر پڑھانے کی تیاری اور بعض زیر درس کتابوں کا مطالعہ کر ہی رہے تھے کہ یکایک سینے میں درد کا احساس ہوا اور آہستہ آہستہ طبیعت بگڑنے لگی مدرسہ کے موجود ذمہ داراور اساتذہ فورا علاج کے لئے بڑھنی بلاک پر لے کر آئے لیکن اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں جواں سال بیٹے کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔
ان کا انتقال کیسے ہوا؟ اس کے اسباب کیا تھے؟ اس کی تفصیل کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی ایک مومن کو اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے کیونکہ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کی صداقت وحقانیت پر سب کا اتفاق ہے نظام الٰہی (کل نفس ذائقۃالموت) کے تحت اتنے ہی دن ان کو اس دارفانی میں رہنا نوشتہ تقدیر میں لکھا تھا، وہ وقت موعود پورا ہوگیا ہم سب کو چھوڑ کر دار باقی کی طرف رحلت کر گئے عزیزم کی دلفگار موت نے ۔ سب لوگوں کے قلوب واذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جس نے جہاں سنا وہ ہکا بکا رہ گیا اور جس نے وہ تروتازہ چہرہ دیکھا تو سب کی زبان پر یہی تھا۔
چونکہ مولانا موصوف کے نرینہ اولاد میں یہ تیسرا اور بڑا لڑکا تھا، خلیق وملنسار اور باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے خوابوں اور مستقبل کے عزائم کو عمل جامہ پہنا رہا تھا اور آپ کے علم کا حقیقی وارث بھی تھا اس لئے آپ بہ نسبت اور لڑکوں کے اس سے کچھ زیادہ ہی محبت کرتے تھے اور ہر طرح سے اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اسی بے پناہ محبت کا اثر تھا کہ جب آپ نے اپنے لخت جگر کے انتقال کی خبر سنی تو بے قابو ہوگئے اور صبروتحمل کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک پڑا، رنج وغم، دردوکرب کا وہ ایسا ہوش ربا منظر تھا کہ وہاں موجود بعض حضرات خوفزدہ ہوگئے کچھ دیر کے بعد آپ نے اپنے آپ کو قابو میں کیااور بہت سارے غم خواروں کو دیکھ کر قدرے تسلی ہوئی تو صرف ایک ہی لفظ بار بار دہراتے رہے کہ’’ اے اللہ! تیرا فیصلہ مجھے منظور ہے، میرے بیٹے کی مغفرت فرما‘‘بڑھنی وکرشنا نگر کے مقامی ہمدردوں کے علاوہ مدرسہ خدیجۃ اکبری کے رئیس محترم شیخ عبداللہ مدنی ؍حفظہ اللہ اور ان کے ’’مرکزالتوحید‘‘ سے وابستہ تمام ذمہ داران، کارکنان، معلمین ومعلمات نیز ہمارے جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے جملہ مشائخ کرام ان کے اس غم میں برابر کے شریک رہے بذریعہ ایمبولینس متوفی کی جسد خاکی کو ان کے آبائی وطن موضع ششہنیاں لے جایا گیا اور بعد نماز عصر گھر سے جنازہ نکالا گیا اور سواچاربجے ڈاکٹر شیخ عبدالقیوم بستوی؍حفظہ اللہ کی امامت میں قرب وجوار کے عوام وخواص، جمعیت وجماعت کے متعدد حضرات، دینی مدارس ومراکز کے ذمہ داران اور علاقائی مسلم سیاسی لیڈران کی ایک بڑی تعداد نے نماز جنازہ ادا کی اس کے بعد ہزاروں سوگواروں نے با چشم نم سپرد خاک کیا۔
بار الٰہا! ان کی تمام بشری لغزشوں کو صرف نظرفرماتے ہوئے ان کے تمام حسنات کو شرف قبولیت بخشے اور تمام پسماندگان خصوصا والدین محترمین کو صبر جمیل کی توفیق دے (آمین)*

میدان عمل میں جانے کی تیاری Jan 2011

میدان عمل میں جانے کی تیاری
صبح کی نماز اور ذکر واذکار نیز تلاوت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد میدان عمل میں جا کر رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ وہ دوسروں کا محتاج نہ بنے، بلکہ تعلیم وتربیت، صنعت وتجارت، زراعت اور ملازمت کے جس محاذ پر ممکن ہو ملک وملت کی تعمیر اور خوشحالی اور ترقی میں اپنی خدمات پیش کرنی چاہئے۔
نکلنے سے پہلے ناشتہ اور اس کے آداب:
اگر روزہ سے نہ ہوں توناشتہ کرکے نکلنا چاہیے۔
ناشتہ میں کیا کھائے؟ رزق حلال میں سے جو میسر ہو استعمال کرے، البتہ حدیثوں میں کچھ خاص مفید چیزوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو وہ چیزیں استعمال کرنی چاہئیں، ان میں خصوصیت کے ساتھ کھجور قابل ذکر ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے: ’’من تصبح علی سبع تمرات لم یضرہ ذلک الیوم سم ولا سحر‘‘ (متفق علیہ)
جس نے نہار منہ سات کھجوروں کا ناشتہ کیا تو اس دن اس کو نہ زہر نقصان پہنچا سکے گا اور نہ ہی جادو۔
ایک دوسری روایت میں کھجور کی اہمیت اس طرح بیان کی گئی ہے: ’’بیت لا تمر فیہ اہلہ جیاع‘‘ (مسلم)
’’جس گھر میں کھجور نہ ہو اس گھر کے لوگ بھوکے ہیں‘‘
اسی طرح دودھ بھی ناشتے میں نہایت مفید ہے۔
قرآن وحدیث میں دودھ کا تذکرہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ قرآن میں فرمایا: (وان لکم فی الانعام لعبرۃ نسقیکم مما فی بطونہ من بین فرث ودم لبنا خالصا سائغا للشاربین) (النحل:۱۶:۶۶)
اور یقیناًتمہارے لیے مویشی جانوروں میں عبرت کا سامان ہے، ہم تم کو اس چیز سے سیراب کرتے ہیں جو ان کے پیٹوں میں ہے، جو ان کے معدے میں ہضم کیے ہوئے چاروں اور خون کے درمیان سے ہو کر نکلتا ہے یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت مزیدار ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے دودھ کے اندر ایسی غذائیت رکھی ہے جو کھانے اور پینے دونوں کی ضرورت پوری کر دیتی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’من اطعمہ اللہ طعاما فلیقل: اللہم بارک لنا فیہ وارزقنا خیرا منہ ومن سقاہ اللہ لبنا فلیقل: اللہم بارک لنا فیہ وزدنا منہ فانی لا اعلم ما ےْجزئ من الطعام والشراب الا اللبن‘‘ (مسند احمد، سنن اربعہ)
جس کو اللہ تعالیٰ کھانے کی توفیق دے تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہیے: اے اللہ تو ہمارے اس کھانے میں برکت عطا کر اور ہمیں اس سے بہتر روزی عطا کر اور ہمیں مزید عنایت فرما کیونکہ میں دودھ کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جانتا جو کھانے اور پینے دونوں سے کفایت کرتی ہو۔‘‘
خود نبی کریم ﷺ کو دودھ پسند تھا، چنانچہ صحابۂ کرام آپ کو ہدیہ میں دودھ بھیجا کرتے تھے، جسے آپ خود بھی پیتے اور اصحاب صفہ کو بھی پلاتے تھے۔
معراج کی رات بھی آپ کو دوقسم کے مشروب پیش کئے گئے تھے، جن میں ایک شراب کا پیالہ تھا اور دوسرا دودھ کا، آپنے دودھ کا پیالہ نوش فرمایا، اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا:
(الحمد للہ ہداک للفطرۃ ولو اخذت الخمرغوت امتک)( متفق علیہ)
’’الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو فطرت اختیار کرنے کی توفیق دی، اگر کہیں آپ نے شراب لے لی ہوتی تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔‘‘
ایک حدیث میں آپ نے گائے کے دودھ کے بارے میں فرمایا: ’’علیکم بالبان البقر، فانہا ترم من کل الشجر‘‘ (مستدرک حاکم: ۴؍۱۹۷)
تم لوگ گائے کا دودھ استعمال کرو کیونکہ یہ ہر قسم کی نباتات سے غذا حاصل کرتی۔
علامہ ابن قیم فرماتے ہیں: ’’گائے کا دودھ سب سے معتدل دودھ ہے اور بھیڑ اور بکری کے دودھ کے مقابلے میں افضل ہے۔ ‘‘ (زادالمعاد ۴؍۶۸۳)
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے گائے کے دودھ اور گوشت کے متعلق فرمایا: ’’فی لبنہاشفاء وفی لحمہا داء‘‘ ’’گائے کے دودھ میں شفا ہے اور اس کے گوشت میں بیماری ہے۔‘‘ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحیح الجامع الصغیر)
بہر حال دودھ کے اندر مختلف قسم کے وٹامن اور پروٹین پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم کی نشوونما میں اہم رول ادا کرتے ہیں، غالباً اسی لیے نبی کریم ﷺ نے اس کو شفا سے تعبیر کیا ہے، آپ کا یہ فرمان طب نبوی کے اعجاز میں بطور مثال ذکر کیا جاتا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے علامہ ابن قیم کی کتاب ’’طب نبوی‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
گھر سے نکلنے کے آداب:
گھر سے نکلنے سے قبل اپنے طور پر نکلنے کی تیاری کرنی چاہیے، کام پر جانے کے لیے اگر خاص لباس ہو تو اسے زیب تن کر لے، لباس کے لیے شریعت میں کوئی خاص وضع قطع مطلوب نہیں ہے، البتہ چند ضروری ہدایات ہیں جن کی رعایت کرنی چاہیے۔
(۱) جو لباس عورت کے لیے خاص ہو اسے مرد کو نہیں پہننا چاہیے، اور جو مرد کے لیے خاص ہو اسے عورت کو نہیں پہننا چاہیے۔
(۲) جو لباس کسی قوم کے لیے مذہبی شعار کی حیثیت حاصل کر چکا ہو اور ہمارے د ین میں اس کے حلال ہونے کی صریح دلیل نہ ہو تو اس طرح کا لباس استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے غیر مسلم کی مشابہت لازم آتی ہے جس سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔
(۳) لباس اتنا باریک یا تنگ نہ ہو جس سے ستر پوشی کا مقصد فوت ہو جاتا ہو، بلکہ مزید فتنہ کا سبب بنتا ہو۔
(۴) مردوں کے لباس میں ایک اور بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔
(۵) عورتوں کے لباس میں اس کے سر پر دوپٹہ یا خمار ضرور ہونا چاہیے جس سے اپنے سر اور گریبان کو ڈھانک لے تاکہ فتنہ کا سبب نہ بنے۔
(۶) اسی طرح عورت اگر عام جگہوں کے لیے نکل رہی ہے تو اپنے چہرہ پر نقاب بھی ڈال لے۔
(۷) عورت ہی کے لیے ایک اور بات قابل لحاظ ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلے تو خوشبو لگا کر اور آواز پیدا کرنے والے زیورات پہن کر نہ نکلے۔
کپڑے کا رنگ:
مذکورہ بالا اصول وضوابط کی پابندی کرتے ہوئے مسلمان جس رنگ کا کپڑاچاہے پسند کر سکتا ہے، سوتی، اونی، ٹیری کاٹ وغیرہ، سوائے ریشم کے جو کہ صرف عورتوں کے لیے خاص ہے، مرد کے لیے ریشمی کپڑا حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباس یواری سواتکم وریشا ولباس التقوی ذلک خیر) ( الاعراف: ۷؍۲۶)
اے بنی آدم! یقیناًہم نے تمہارے اوپر لباس نازل کیے ہیں جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتے ہیں، ساتھ ہی جانوروں کے بال وپر، اور یادرہے کہ تقوی کا لباس سب سے بہتر ہے۔‘‘
سفید لباس پہننا مستحب ہے:
گوکہ شریعت نے لباس کے سلسلہ میں کسی خاص رنگ کی پابندی کا حکم نہیں ہے، لیکن سفید رنگ کا لباس مردوں کے لیے خصوصا مستحب ہے۔ایک حدیث میں ارشاد ہے:’’البسوا من ثیابکم البیاض فانہا خیر ثیابکم، وکفنوا فیہا موتاکم‘‘ (ابو داؤد، ترمذی) ’’تم اپنی پوشاک میں سفید کپڑوں کو پہنو کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں ہے، اور اسی سفید کپڑوں میں اپنے مردوں کو دفن بھی کرو۔‘‘سفید رنگ کی فضیلت کے باوجود دوسرے رنگ کے کپڑے بھی پہنے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ سرخ کپڑا بھی نبی کریم ﷺ نے استعمال فرمایا ہے۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا وصف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’آپ نہایت معتدل قد وقامت کے تھے اور میں نے آپ کو سرخ چادر میں ملبوس دیکھا، جو آپ کے جسم مبارک پر اتنا حسین لگ رہی تھی کہ اس سے زیادہ حسین کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی۔ ‘‘ (متفق علیہ)
آپ نے سبز رنگ کا کپڑا بھی زیب تن فرمایا ہے۔
ایک حدیث میں رفاعہ تمیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں دیکھا جب کہ آپ کے اوپر دو کپڑے سبز رنگ کے تھے۔ ‘‘ (ابو داؤد)
کالا کپڑا بھی آپ نے استعمال کیا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ اللہ کے رسول ﷺ فتح مکہ کے دن جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر کالے رنگ کا عمامہ (پگڑی) تھا۔‘‘ (مسلم)
آپ نے دھاری دار کپڑے بھی استعمال فرمائے ہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔
نبی کریم ﷺ کی محبوب پوشاک:
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق آپ کی سب سے زیادہ محبوب پوشاک قمیص تھی۔ (ابو داؤد،ترمذی)
قمیص سے مراد وہ لباس ہے جس کے اندر آستین وگریبان ہو، خواہ اس کی کیفیت کیسی بھی ہو، چنانچہ اس وقت قمیص، کرتا، کندورہ شرڈ کے نام پر جو لباس پہنا جارہا ہے، وہ سب قمیص ہے۔
پیارے نبی ﷺ جو قمیص زیب تن فرماتے تھے اس کی آستین کی لمبائی اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق آپ کی کلائی تک تھی۔ (ابو داؤد)
قمیص کے علاوہ آپ کی دوسری پوشاک لنگی یا تہبند تھی۔
آپ نے پائجامہ (سروال) استعمال نہیں کیا لیکن اس کی تعریف ضرور کی ہے۔
پوشاک کی لمبائی کیا ہو؟
لباس کی لمبائی کے سلسلے میں مردوں کے لیے خاص حکم یہ ہے کہ اسے ٹخنوں سے نیچے نہیں ہونا چاہیے، ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے پر سخت وعید آئی ہیں۔
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:’’لا ینظر اللہ یوم القیامۃ الی من جرازارہ بطرا‘‘ (متفق علیہ)
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے انسان کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنی ازار غرور سے گھسیٹ کر چلتا رہا۔‘
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ما اسفل من الکعبین من الازار ففی النار‘‘ ’’جو لنگی ٹخنوں سے نیچے لٹکی، وہ جہنم کی مستحق ہوگی یعنی لنگی کا پہننے والا جہنم کا مستحق ہوگا۔‘‘
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ثلاثۃ لا یکلمہم اللہ یوم القیامۃ ولا ینظر الیہم ولا یزکیہم ولہم عذاب الیم‘‘ ’’تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، اور نہ ان کا تزکیہ فرمائے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘
راوی حدیث حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات نبی کریم ﷺ نے جب تین بار دہرائی تو میں نے عرض کیا: وہ لوگ گھاٹے اور خسارے میں پڑیں، اے اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’المسبل (ازارہ) والمنان والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب‘‘ (مسلم)
’’اپنی ازار (لنگی) کو ٹخنے کے نیچے لٹکانے والا، اور احسان جتانے والا اور اپنے سامان کو جھوٹی قسم کے ذریعہ رواج دینے والا۔‘‘
یاد رہے’’اسبال‘‘ یعنی ٹخنے کے نیچے کپڑا پہننے پر جو وعیدیں آئی ہیں وہ کچھ لنگی کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ تمام قسم کے پوشاک اور لباس کا یہی حکم ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الاسبال فی الازار والقمیص والعمامۃ، من جر شےئا خیلاء لم ینظر اللہ الیہ یوم القیامۃ‘‘ (ابو داؤد، نسائی)
’’کپڑوں کو شان سے لٹکانا لنگی میں بھی پایاجاتا ہے اور قمیص وعمامہ میں بھی یاد رہے جس نے کوئی بھی لباس شان سے لٹکایا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔‘‘
ریشمی لباس مردوں کے لیے حرام ہے:
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’لا تلبسوا الحریر فان من لبسہ فی الدنیا لم یلبسہ فی الآخرۃ‘‘
تم لوگ ریشمی کپڑا مت پہنو، کیونکہ جوشخص اسے دنیا میں پہنے گا آخرت میں اس کو نہ پہن سکے گا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنے داہنے ہاتھ میں ریشم لیا اور بائیں ہاتھ میں سونا، پھر فرمایا: ’’ان ہذین حرام علی ذکور امتی‘‘ (ابو داؤد)
یہ دونوں چیزیں ہماری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔‘‘
البتہ اگر کوئی عذر ہو جیسے جلدی بیماری وغیرہ ہو جس میں ریشمی لباس پہننا ایک مجبوری ہو تو پہن سکتا ہے، جیسا کہ ایک روایت سے ثابت ہے کہ آپ نے حضرت زبیر اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کو ریشمی کپڑا پہننے کی رخصت دی تھی، کیونکہ ان کو کھجلی جیسی جلدی بیماری تھی۔ (متفق علیہ)
درندہ جانوروں کی کھالوں سے بنے ہوئے لباس وغیرہ کا حکم:
شیر، چیتا اور ریچھ وغیرہ جیسے جنگلی اور درندہ جانوروں کی کھالوں کو استعمال عموما فخرومباہات، کبروغرور اور شان وشوکت کے اظہار کی علامت تصور کیا جاتا ہے، اسی لیے اس کے لیے بڑی بڑی رقمیں بھی ادا کی جاتی ہیں اور قانونی وغیر قانونی طریقہ سے بلاوجہ ایسے جانوروں کا شکار کرنے کا تکلف کیا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا کے اکثر ممالک اس طرح کے جانوروں کے شکار کی ہمت افزائی نہیں کرتے، بلکہ ایسے جانوروں کے شکار پر عموما پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
اسلام میں بھی اس اقدام کی ہمت افزائی نہیں کی گئی ہے، بلکہ درندہ جانوروں کی کھال کے استعمال ہی کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ سے ایک حدیث ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:’’نہی عن جلود السباع‘‘ (ابوداؤد، ترمذی)
آپ نے درندہ جانوروں کی کھالوں (کے استعمال) سے منع کیا۔
دوسری روایت میں ہے: ’’نہی عن جلود السباع ان تفرش‘‘ (ترمذی)
درندہ جانوروں کی کھالوں کو فرش کے طور پر استعمال کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
ان نصوص کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ درندہ جانوروں کی کھالیں یا ان سے بنی ہوئی چیزوں کا استعمال شرعی اعتبار سے قباحت سے خالی نہیں ہے۔
اس لیے اگر شدید ضرورت نہ ہو تو صرف سامان تعیش کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔واللہ اعلم
گھر سے نکلنے کے وقت کیا پڑھیں؟
شریعت کے مذکورہ بالا اصول وضوابط کی رعایت کرتے ہوئے قمیص، پاجامہ،کرتا، شلوار، لنگی، جبہ، عمامہ، ٹوپی وغیرہ جو چاہیں پہن سکتے ہیں۔
بہر حال بسم اللہ کرکے لباس زیب تن کرنے کے بعد گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھیں: ’’بسم اللہ توکلت علی اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ اللہ کے نام کے ساتھ گھر سے نکل رہا ہوں اور اللہ ہی پر بھروسہ کرکے نکلتا ہوں اور جو بھی طاقت وقوت ہے وہ سب اللہ ہی سے ہے۔‘‘
حدیث میں آتا ہے کہ جو یہ دعا پڑھ کر گھر سے نکلتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے: (کفیت ووقیت وہدیت، وتنحی عنہ الشیطان) (ترمذی)
’’تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور حفاظت اور ہدایت کافی ہے اور شیطان اس کے راستہ سے ہٹ جاتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شیطان دوسرے شیطان سے، جو اس کو بہکانے کے درپے ہوتا ہے، کہتا ہے: تم ایسے آدمی کے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہو جس کو اللہ کی طرف سے ہدایت، مدداور حفاظت مل چکی ہے۔
گھر سے نکلتے وقت مزید درج ذیل دعا بھی پڑھیں تو بہتر ہے: (بسم اللہ توکلت علی اللہ، اللہم انی اعوذبک ان اضل او اضل او ازل او ازل او اظلم واظلم او اجہل او یجہل علی) (سنن اربعہ)
’’اللہ کے نام سے (گھر سے نکل رہا ہوں) اللہ ہی پر توکل کیا ہے، اے اللہ!میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ میں کسی کو گمراہ کردوں یا میں خود کسی کے ذریعہ گمراہ کیا جاؤں، یا میں کسی کو پھسلاؤں یا میرے پاؤں میں لغزش آئے، یا میں کسی پر ظلم کروں یا کسی کی طرف سے میرے اوپر ظلم ہو، یا میں کسی سے جہالت کروں یا خود میرے ساتھ کوئی جہالت کرے۔‘‘
اگر سواری سے کام پر جا رہا ہے تو پھر سواری پر چڑھنے کی دعا بھی پڑھے: (سبحان الذی سخر لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون) (الزخرف: ۴۳؍۱۳)
’’پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے اس سواری کو مسخر کیا جب کہ ہم اس کے اہل نہ تھے، اور ہم اپنے رب کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘۔***

Monday 27 June, 2011

جلسوں کا بگڑتا مزاج editorial December 2010

شعوروآگہی
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری
جلسوں کا بگڑتا مزاج
امربالمعروف اور نہی عن المنکر ایک فریضہ ہے، امکانات کے مطابق امت کے ہر شخص کویہ فریضہ ادا کرنا ہے، جس کے بسبب اسے خیر امت کا لقب تفویض ہوا ہے۔ خیرالقرون سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب جب بگاڑنے سر اٹھایا، کوئی نہ کوئی داعی، مصلح، عالم کھڑا ہوا اور منکر سے باز رکھنے کی خاطر سر گرم عمل ہو گیا۔
مسلم معاشرہ جن خرابیوں کی وجہ سے بگاڑ کے عمیق غار میں پہونچ چکا ہے، اس سے نکالنے کے لئے کوششیں بھی جاری ہیں، علماء وصلحاء اور دعاۃ کی جماعتیں شب وروز اصلاح حال کے لئے کوشاں ہیں، جن کی مختلف شکلیں سامنے آتی رہتی ہیں۔
دعوت وتبلیغ اور اصلاح وارشاد کا عمل انجام دینے کے لئے اپنے یہاں جلسوں کا اہتمام ہوتا رہا ہے، جو ایک اہم دینی اور ملی کام ہے،جسے اگر صدق نیت اور خلوص دل سے انجام دیا جائے تو اپنے مثبت اثرات لمبی مدت کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ لوگ برسوں اس کی یاد دلوں میں تازہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہی عمل جب نمائش بن جائے، تو لاکھوں کے صرفہ کے بعد بھی وہ بے نتیجہ رہتا ہے، بلکہ اس کے برے نتائج مزید نقصان کا سبب بنتے ہیں۔
یہ جلسے گاؤں، دیہات اور چھوٹے بڑے شہروں میں منعقد ہوتے ہیں۔ بالعموم لوگ انعقاد میں دلچسپی لیتے ہیں ، ان کا حوصلہ بیدار ہوتا ہے ۔ خواتین بھی مشتاق رہتی ہیں، بچے بھی خوش ہوتے ہیں، باہمی تنازعات سے قطع نظر عوام وخواص کی خواہش ہوتی ہے کہ اجلاس ہر طرح اور ہر لحاظ سے کامیاب رہے۔
مقررین کے انتخاب میں منتظمین کے علاوہ کچھ عام لوگوں کی اپنی پسند بھی کام کرتی ہے، خوش گلو مقررین اور نقال خطباء کو اہمیت دی جاتی ہے، ان پر صرف کی جانے والی رقم کی فراہمی کی ذمہ داری کچھ لوگ خود برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک رات کی تاریخ کے لئے ۵۰؍ہزارتک ایک شخص کو دینے کے لئے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے مقررین کو اپنی عوامی مقبولیت کا احساس رہتا ہے اور وہ اپنی خوش بیانی کی بھر پور قیمت وصول کرتے رہتے ہیں، جس کے لئے باقاعدہ ایجنٹ رکھے جاتے ہیں، جو تاریخ کے تعین اور موافقت کے حصول میں معاون بنتے ہیں، اسٹیج پرنام نہاد مولویانہ سیاست کام کرتی ہے، سادگی کے ساتھ کتاب وسنت کی روشنی میں گر اں قدر معلومات فراہم کرنے والے علماء پیچھے کر دےئے جاتے ہیںیا انہیں بہت ہی کم وقت دیا جاتا ہے، اولیت انہیں راگ راگنی کے ماہرمقررین کو دی جاتی ہے جو گھنٹوں کی طول بیانی کے باوجود کوئی مثبت پیغام دینے سے قاصر نظر آتے ہیں، البتہ عوامی مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اپنی تقریر کو کبھی اشعار کبھی اشلوک اور کبھی بے فیض واقعات سے مزین کرنے کا ہنر جاننے کی وجہ سے میدان مار لیتے ہیں۔ عوام انھیں ذوق وشوق سے سنتے ہیں اور سب سے زیادہ نمبر دے کرانھیں کو سب سے کامیاب مقرر تسلیم کر لیتے ہیں۔
سلفی فکر کے حامل اسٹیج کی یہ بے حرمتی لائق ماتم ہے۔جلسوں کے بگڑتے مزاج کو بدلنے کی ضرورت ہے، ورنہ دعوت وارشاد کے لئے ہونے والی کاوشیں اپنا اثر کھو بیٹھیں گی اور اسلامی دعوت شدید نقصان سے دو چار ہو جائے گی۔

اہل سنت وجماعت کا : منہج فہم قرآن Dec 2010

ترجمانی: مطیع اللہ مدنی
اہل سنت وجماعت کا : منہج فہم قرآن
اہل سنت وجماعت قرآن کریم اس کے معانی ومفاہیم اسکے مدلولات ومرادات کو حدیث نبوی سے جدا کرکے نہیں سمجھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کو دیگر قرآنی آیات اور ساتھ ہی احادیث نبویہ صحیحہ ثابتہ کی روشنی میں سمجھتے ہیں:اہل سنت کا یہ عظیم قاعدہ اور اہم ترین ضابطہ ہے:
ّٓ اس قاعدہ کے دلائل درج ذیل ہیں:
(یا أیہا الذین آمنوا أطیعو اللہ وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم۔ فإن تنازعتم فی شئی فردوہ إلی اللہ والرسول إن کنتم تومنون باللہ والیوم الآخر ذلک خیروأحسن تاویلاً )(النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرواور تم میں سے اختیار والوں کی اطاعت کروپھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہویہ باعتبار انجام بہت بہتر اور بہت اچھا ہے۔
(وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم ولعلہم یتفکرون) (النحل:۴۴)
ترجمہ:اور ہم نے تمہاری طرف ذکر کو اتارا تاکہ تم لوگوں کے لئے جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اسے کھول کھول کر بیان کردیں شاید وہ لوگ غوروفکر سے کام لیں۔
(لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً۔ قد یعلم اللہ الذین یتسللون منکم لواذا ۔ فلیحذر الذین یخالفون عن أمرہ أن تصیبہم فتنۃ أو یصیبہم عذاب ألیم) (النور:۶۳)
ترجمہ:اور تم اللہ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ بنا لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتا ہے تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر زبردست فتنہ نہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہونچے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ألا إنی أوتیت القرآن ومثلہ معہ ألا یوشک رجل شعبان علی أریکتہ یقول: علیکم بہذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فاحلوہ،وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ‘‘ (رواہ احمد وابوداؤد وغیرہما)
ترجمہ: خبردار یقیناًمجھے قرآن اور اسی کے ساتھ اسی کا مثل دیا گیا ہے۔ آگاہ کوئی آسودہ انسان اپنے تخت پر نہ کہہ بیٹھے کہ تم پر اس قرآن کواخذ کرنا لازم ہے۔ تم جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔
عریاض بن ساریہ سے مروی ہے: ’’وعظنا رسول اللہ ﷺ موعظۃ بلیغۃ وجلت منہا القلوب وذرفت منہا العیون فقلت یا رسول اللہ کأنہا موعظۃ مودع فأوصنا فقال:أوصیکم بتقوی اللہ، والسمع والطاعۃ وان تأمر علیکم عبد حبشی، وإنہ من یعش منکم فسیری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین عضوا علیہا بالنواجذ وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح)
ترجمہ:عرباض ابن ساریہصسے روایت ہے: رسول ﷺ نے ہمیں ایک بلیغ وعظ فرمایا کہ جس سے دل دہل گئے اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں،میں نے کہا اے اللہ کے رسول گویا کہ یہ کسی رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔آپ ہمیں وصیت کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں تقوئے الٰہی اور سمع و طاعت کی وصیت کرتا ہوں۔ اگرچہ تمہارے اوپر کوئی حبشی غلام ہی امیر بن بیٹھے۔
یقیناًتم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت سارا اختلاف دیکھے گا۔چنانچہ تم پر میری سنت اور خلفاء راشدین ہدایت یافتہ کی سنت کی اتباع لازم ہے۔ اسے تم مضبوطی سے پکڑ لو اور مبتدعانہ امور سے اجتناب کو لازم پکڑو۔درحقیقت ہر بدعت گمرہی ہے۔
صحیح بخاری میں حذیفہص سے روایت ہے : آپ نے فرمایا: ’’یامعشرالقراء استقیموا فقد سبقتم سبقا بعیداً، فإن أخذتم یمینا وشمالا لقد ضللتم ضلالا بعدا‘‘۔
اے قراء کی جماعت: تم راہ استقامت اختیار کرو تم بہت سبقت لے جا چکے ہو اگر تم دائیں بائیں یعنی (راہ مستقیم سے ادھر ادھر) کی راہ اپناؤ گے تو بڑی گمرہی میں واقع ہو جاؤ گے۔
سماحۃ الشیخ ابن بازرحمہ اللہ نے فرمایا: اس میں سنت کی حجیت کا بیان ہے اس کی حجیت کو اختیار کرنا ایسے ہی واجب ہے جیسا کہ قرآن کریم کو اخذ کرنا واجب ہے۔
قرآن کے بعد سنت کا مقام ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بیان وتوضیح کو رسول اللہ کے ذمہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم ولعلہم یتفکرون) اور ہم نے تم پر ذکر اتارا تاکہ لوگوں کے لئے اس ذکر کو بیان کر دو جو ان پر اتارا گیا اور تاکہ وہ لوگ تفکر سے کام لیں۔
چنانچہ اس آیت کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ سنت قرآن کو بیان کرتی ہے اور اس کو واضح کرتی ہے اس کی تفسیر کرتی ہے اور اس کے معنی مراد پر دلالت کرتی ہے۔
لہذا قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت سے احتجاج واستدلال واجب ہے، اسکی مثال ملاحظہ کیجئے:قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صلاۃ، اس کی اقامت، اسکی محافظت اور اس پر مداومت کا حکم دیا ہے اسے ضائع کرنے والوں اور خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں کو وعید سنائی ہے۔
لیکن قرآن کریم میں صلاۃ کا مکمل ومفصل بیان نہیں ہے:
صلوات کتنی کتنی رکعت ہے؟ اسمیں کیا کہا جائے گا؟ قیام،رکوع اور سجود میں کیا کہا جائے گا؟ صلاۃ کی پوری تفصیل کیا ہے؟ یہ ساری باتیں قرآن میں نہیں ہیں بلکہ یہ سب تفصیل سنت میں موجود ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:’’صلوا کما رایتمونی أصلی‘‘ تم لوگ نماز اسی طریقہ سے پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہو ئے دیکھا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زکاۃ کا مجمل حکم دیا ہے نہ اس کی مقدار کا ذکر ہے نہ ان اموال کا تذکرہ ہے جن میں زکاۃ واجب ہے، صرف اجمالی تذکرہ ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (واقیمواالصلاۃ وأتوالزکاۃ وارکعوا مع الراکعین) (البقرۃ:۴۳) اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے ہی اس کی اپنی سنتوں میں بیان کی ہے اور اسکی تحدید فرمائی اور اسے واضح کیا ہے آپ نے بیان فرمایا کہ زکاۃ کب واجب ہوتی ہے؟ کن اموال میں زکاۃ واجب ہوتی ہے؟ کتنی مقدار میں زکاۃ نکالی جائے گی؟
ایسے روزہ، حج اور تمام عبادات ان کی تفصیل رسول ﷺ نے اپنی حدیثوں میں بیان کی ہے۔
یہی اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے کہ وہ أحادیث وسنن سے اسی طرح استدلال کرتے ہیں جیسے قرآن کریم سے حجت ودلیل پکڑتے ہیں۔
ان کے یہاں کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ پھر اجماع اس کے بعد اصل صحیح پر مبنی قیاس اور دیگر اصول دلائل کا درجہ رکھتے ہیں۔
لیکن کچھ گمراہ طوائف وگروہ ہیں جو سنت کو دلیل نہیں تسلیم کرتے ہیں جیسے خوارج اور ان کے منہج پر چلنے والے گروہ جنکا نقطۂ نظراور قول یہ ہے کہ سنت کا انکار کیا جائے اور صرف قرآن کریم پر اکتفاء کیا جائے۔
یہ لوگ اس وقت’’ قرآنی فرقہ‘‘ یا’’ أہل قرآن‘‘ کے نام موسوم ومعروف ہیں ان کا خیال وگمان ہے کہ وہ صرف قرآن کریم پر اعتماد کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ انکا یہ خیال باطل اور ان کا یہ گمان جھوٹا ہے۔
اسلئے کہ وہ قرآن پر اعتماد ہر گزنہیں رکھتے ہیں اسلئے کہ قرآن تو اتباع سنت ، اطاعت رسول، تأسی بالرسول اور أخذبالکتاب والسنۃ اور متنازع فیہ امور کو اللہ اور اسکے رسول کیطرف لوٹانے کا حکم دیتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:(وما أتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا واتقواللہ إن اللہ شدید العقاب) (الحشر: ) ترجمہ:اور رسول جو تمہیں دیں اسے لے لواور جس سے تم کو روکیں تم رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو یقیناًاللہ تعالیٰ سخت سزا والا ہے۔
اس آیت کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اہل قرآن قرآن کریم پر عمل پیرا نہیں ہیں، نہ اس کے حکم کو مانتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولﷺکے اوامرونواہی پر عمل کا حکم دیا ہے نیزفرمان رب ہے: (ہو الذی بعث فی الأمیین رسولا منہم یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وإن کانوا من قبل لفی ضلال مبین) (الجمعۃ:۲)
ترجمہ: وہی ہے جس نے امیو ں یعنی ان پڑھوں میں انھیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان پر اسکی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ ازیں قبل کھلی گمراہی ہے۔
الکتاب سے مراد قرآن ہے: اور حکمت سے مراد سنت ہے یا حکمت میں سے سنت نبوی بھی داخل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (من یطع الرسول فقد أطاع اللہ ومن تولی فما أرسلناک علیہم حفیظاً) النساء :۸۰)
ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے روگردانی کی سو ہم نے آپکو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
نیز اللہ کا فرمان ہے:(وما أرسلنا من رسول الا لیطاع بإذن اللہ) (النساء:۶۴)
ترجمہ: ہم نے ہر ہر رسول کو صرف اسی لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے۔
نیز ارشاد ربانی ہے: (واطیعو اللہ واطیعوا الرسول واحذروا فإن تولیتم فاعلموا أنما علی رسولنا البلاغ المبین) (المائدۃ:۹۲)
ترجمہ: اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور آگاہ وچوکنارہو۔ اگر تم روگردانی کرو گے پس تم جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف کھلم کھلا بلاغ ہے۔
اطاعت رسول کی آیات خود قرآن کریم میں بہت زیادہ ہے۔ اگر صرف قرآن پر اعتماد واکتفاء والی صحیح مان لی جائے تو پھر قرآن کی ان آیات کا مطلب کیا ہوگا؟ اس اطاعت رسول ﷺ کے أمروحکم کا معنی ومطلب عبث اور بے کار ہوگا۔
ظاہر سی بات ہے یہ آیات اتباع سنت پر بوضاحت دلالت کرنے کے ساتھ ہی حجیت سنت پر بھی دلالت کرتی ہیں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:’’ألا انی أوتیت القرآن ومثلہ ومعہ‘‘ مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اسی کا مثل بھی عطا کیا گیا ہے ’’مثلہ‘‘ سے احادیث نبویہ اور سنن ثابتہ مراد ہیں۔
اہل سنت وجماعت کا مذہب سنت سے استدلال کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔
اور وہ لوگ جو قرآن پر اکتفاء کا دعوی کرتے ہیں اور سنت کو بیکار قراردیتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں وہ گمراہ ہیں بلکہ اپنے اس فعل کی بنا پر بسا اوقات کفار قرار پاتے ہیں۔
ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو سنت کے درمیان تفریق سے کام لیتے ہیں اور خود احادیث ثابتہ میں بھی فرق کرتے ہیں۔جیسے معتزلہ اور انکا منہج اپنانے والے جو بعض سنت صحیحہ سے احتجاج واستدلال کے قائل ہیں،ان کا مذہب وقول یہ ہے کہ متواتر کو حجت مانا جائے گا اور اخبار آحاد سے عقائدی امور میں حجت نہیں پکڑی جائے گی، اور ان سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔
چنانچہ یہ لوگ عقیدہ میں سنت صحیحہ سے استدلال نہیں کرتے ہیں جبکہ وہ ان کے زعم کے مطابق اخبار آحاد ہوں۔وہ منطقی قواعد پر اعتماد کرتے ہیں نیز ان عقلی اصول وقواعد پر اعتماد کرتے ہیں جنکو انہوں نے أصل بنا رکھا ہے۔
جب رسول ﷺ سے ثابت صحیح حدیث ان کے وضع کردہ اصولوں کے خلاف ہوتی ہے تووہ اپنے عقلی اصول وقواعد پر اعتماد کرتے ہیں اور حدیث کو رد کردیتے ہیں۔یا تو تاویل باطل سے کام لیتے ہیں یا اسے جھٹلاتے ہیں اور رواۃ حدیث کو متہم ٹھہراتے ہیں۔
ان کا شمار بھی درحقیقت منکرین سنت میں سے ہے۔اگر چہ یہ تمام احادیث وسنن کے منکر نہیں ہیں۔ لیکن احادیث کے بڑے حصے کے ضرور منکرہیں اور یہ ان کاباطل، گمراہ اور منحرف مذہب ونظر یہ ہے اسلئے ان لوگوں نے پورے سنت نبوی کو معطل قراردیا یا ان میں کچھ کو معطل ٹھہرایا۔
جب کل سنت یا بعض سنت کو معطل قراردیا جائے تو دین کے بہت سے شرائع معطل قرارپاتے ہیں پھر آخر اطاعت رسول کا کیا معنیٰ رہ جاتا۔ یہ مذہب اہل حق کے منہج کے یکسر خلاف ہے کیوں وہ صحیح أحادیث وسنن سے خواہ وہ متواتر ہوں یا آحاد عقائد اور دیگر تمام احکام ومسائل میں استدلال واحتجاج کرتے ہیں۔
ان کا عمل آیت قرآنی: (وما أتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہو) پر ہے ان کا مذہب درج ذیل آیات کی بنا پر ہے: ارشاد ربانی ہے:(قل اطیعواللہ واطیعوالرسول،فان تولوا فإنما علیہ ما حمل وعلیکم ما حملتم وإن تطیعوہ تہتدوا وما علی الرسول إلا البلاغ المبین) (النور:۵۴)
ترجمہ: تم کہہ دو کہ تم لوگ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو سو اگر تم روگردانی کرو گے۔ پس ان پر وہی ہے جس کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی، اور تم لوگوں پر وہ ہے جس کو تم پر لازم کیا گیا ہے اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت یاب ہوگے رسول پر تو صرف کھلا ہو بلاغ ہے۔
اس معنی کی آیات قرآن کریم میں کئی ایک ہیں۔
أحادیث وسنن سے احتجاج واستدلال اہل سنت وجماعت کے اصولوں میں سے ایک اہم اصل ہے، اور تمام أحادیث یا بعض کا رفض وانکار، اہل بدعت، اصحاب زیغ و ضلال اور حق سے انحراف والوں کا اصول ونظریہ ہے۔
اس وقت بھی عقلانی فرقے اور عقلیت پرست جماعتیں پائی جاتی ہیں یہ معتزلہ کے اصول ونظریات کے حامل لوگ ہیں۔جو اس گمراہ اور منحرف منہج کو اپنانے والے ہیں۔
جب رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث ان کے عقل وفکر اور عقلی و منطقی قاعدوں کے مخالف ہوتی ہے تو وہ اسکا رفض وانکار کرتے ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم کسی حدیث’’ جس کو فلان اور فلاں نے روایت کی ہے‘‘ کی بنا پر اپنی عقل کو بیکار اور ملغی نہیں ٹھہرا سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے صحیح بخاری وغیرہ کی حدیثوں میں شک وشبہ پیدا کرنے کی کوشش کی اور یوں کہا کہ مثلا ہم اس حدیث کو نہیں تسلیم کر سکتے ہیں اگر چہ اس کوامام بخاری نے روایت کیا ہے یا خواہ کسی نے روایت کیا ہے اسلئے کہ یہ حدیث ان کی عقلوں کے خلاف ہے لہذاوہ اسکو قبول نہیں کر سکتے ہیں۔
ان لوگوں نے اس بات کو اپنی مؤلفات ومصنفات میں صراحتاً بیان کیا ہے: یہی عقلانی یعنی عقل پرست جماعت کہلاتی ہے۔ کیوں وہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت صحیح حدیث پرعقل اور منطق پر مبنی اصول کو مقدم رکھتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی عقل ہے جسکو یہ لوگ سنت پر فائق اور مقدم رکھتے ہیں؟ آخر وہ انسانوں کی قاصروکوتاہ عقل ہی ہے کاش یہ لوگ جانتے۔۰
جہاں تک حدیث وسنت رسول ﷺ کا تعلق ہے وہ معصوم ہے اور ان عقل ومنطق کا راگ الاپنے والوں کی عقلیں قاصروکوتاہ ہیں اور متہم بھی ہو سکتی ہیں ۔ لیکن گمراہیاں گمراہوں کو ہلاکت وبربادی میں ڈال دیتی ہیں یہ عقلانی گروہ اب بھی موجود ہے اور اب بھی ان کی فکرباقی ہے اس کی اپنی تصنیفات ہیں اسکی گمرہی اور اس کے گمراہ منہج سے اجتناب ضروری ہے۔’’أفلا یتدبرون القرآن أم قلوب أفقالہا‘‘ وہ قرآن میں تدبر سے کام کیوں نہیں لیتے یا دلوں پہ ان کے تالے پڑے ہیں۔
***

مشاجرات صحابہ اور خوارج Dec 2010

مولانا محمد مظہر الاعظمی
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ مؤ
مشاجرات صحابہ اور خوارج
مشاجرات کی صحابہ کے ساتھ ترکیب اضافی سے سنتے ہی طبیعت میں ایک عجیب سا تکدرپیدا ہوتا ہے اور صحابہ کرام کے ساتھ عقیدت کو ٹھیس لگتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ساےۂ عاطفت میں رہ کر صحابہ کرام کا تزکیہ وتطہیر جس طریقہ اورانداز میں ہوتا تھا اس کے تصور کے بعد لفظ مشاجرت نہ تو کسی طرح میل کھاتا اور نہ ہی طبیعت گوارا کرتی مگر لفظ خوارج سے بہت جلد یہ غلط فہمی دور ہونے لگتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ اس پاک طینت گروہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس میں کسی فرد یا جماعت کی خباثت اور دشمنی وعداوت کی کار فرمائی ہے، خود صحابہ کرام کے اپنے کردار وعمل کا کوئی دخل نہیں ہے۔
اس لئے مناسب معلوم ہو تا ہے کہ لفظ مشاجرت کے بعد یہ باب مفاعلۃ کا مصدر ہے جس کی خاصیت اشتدک اور معنی آپس میں جھگڑا کرنے کے ہیں۔ صحابہ کرام کی اہمیت و فضیلت ذکر کر دی جائے تاکہ صحابہ کی عظمت وبزرگی نقش ہوجائے اور تکدر باقی نہ رہے بلکہ تکدر کا شائبہ بھی ختم ہوجائے اور پھر خوارج کی خباثت عقیدہ اور کردار وعمل پر گفتگو کی جائے تاکہ صحابہ کرام کی عظمت کے آئینہ میں خوارج کے چندخدو خال اور ظاہر وباطن عیاں ہو جائے۔
یہ وہی صحابہ کرام ہیں جن کے ذکر خیر سے کتاب وسنت کے ابواب روشن ہیں اور تاریخ کے صفحات پردرخشاں ہیں بلکہ حقائق کی روشنی میں بلا تامل کہا جاسکتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے وادئ کفروشرک میں جو شمع توحید روشن ہوا تھا اس کی روشنی جو اطراف عالم میں پہونچی اور بحروبرمنور ہوئے تو اس میں انھیں برگزیدہ شخصیتوں کا کردار وعمل ہے کیونکہ ان کا تزکیہ وتطہیر رسول اللہﷺ کے سایہ عاطف میں دست مبارک سے ہوئی تھی۔
صحابۂ کرام قرآن کے آئینہ میں:۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مختلف مقامات پر مختلف پیرایہ وانداز میں صحابہ کرام کی اہمیت وعظمت کا ذکر کیا ہے تاکہ ایمان رکھنے والے گروہ کو کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو اور نہ ہی فکر کو کوئی ایسی راہ ملنے پائے جس سے ان کی شان مجروح ہو۔ ہم یہاں پر چند آیات ذکر کرتے ہیں تاکہ صحابہ کرام کی ذات آئینہ ہوجائے۔
(کنتم خیرأمۃ أخرجت للناس) (وکذالک جعلناکم أمۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا) (لقد رضی اللہ عن المومنین إذیبا یعونک تحت الشجرۃ فعلم مافی قلوبہم فأنزل السکینۃ علیہم وأثابہم فتحا قریبا) والسابقون الأولون من المہاجرین والأنصار والذین اتبعواہم بإحسان رضی اللہ عنہم ورضو عنہ) یا أیہا النبی حسبک اللہ ومن اتبعک من المومنین) (للفقراء المہاجرین الذین أخرجوا من دیارہم وأموالہم یبتغون فضلاً من اللہ ورضوانا وینصرون اللہ ورسولہ، أولئک ہم الصادقون*والذین تبوأوالدار والإیمان من قبلہم یحبون من ہاجر الیہم ولا یجدون فی صدورہم حاجۃ مما أوتوا ویوثرون علی أنفسہم ولوکان بہم خصاصۃ ومن یوق شح نفسہ فأولئک ہم المفلحون)
ان آیات سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ایک پاکیزہ جماعت میں جتنی خوبیاں مطلوب ودرکار ہوتی ہیں ان تمام اوصاف کے پانے کی اللہ تعالیٰ نے وضاحت کر دی ہے نیز ان کے ان اوصاف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی راضی وخوش ہے۔
جس جماعت کی پسندیدگی اور اس سے رضا مندی کا اعلان اللہ تعالیٰ نے خود کیا ہو، کیا ان پر حرف رکھنا اور ان کی شان میں غیر سنجیدہ الفاظ کا استعمال کرنا کیا عقل گوارا کرتی ہے اور ایمان کے آئینہ میں اس کی تصویر صاف دکھلائی دے گی۔
صحابہ کرام احادیث کے آئینہ میں:۔
رسول اللہ ﷺنے مختلف مواقع پر اپنے اصحاب کے مقام ومرتبہ اور درجہ کا اظہار مختلف انداز میں کیا ہے، جس کی وجہ سے اہل ایمان اس زمانہ سے آج تک ان کی بزرگی وبرتری کے قائل ہیں اور ان شاء اللہ قیامت تک رہیں گے، الا یہ کہ ایمان کا دعوی کرنے والا ایمان کی دولت سے محروم ہوجائے یاکہ خود اس کا ایمان زنگ آلود ہو جائے، پھر تو وہ صحابہ کرام کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی اپنی آزادی فکر کا استعمال کرکے بہت کچھ اگا سکتا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’خیر أمتی قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم بحی قوم تسبق ایمانہم شہادتہم ویشہدون قبل أن یستشہدوا،،
ایک دوسری روایت جس کے راوی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’لا تسبوا أصحابی فوالذی نفسی بیدہ لوأنفق احدکم مثل أحد ذہبا ما أدرک مدأحدہم ولا نصیفہ‘‘ جن برگزیدہ شخصیات کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا اس وضاحت کے ساتھ فرمان موجود ہو پھر بھی اگر زبان وبیان کو آزادکردیا جائے اور سب وستم سے نوازا جائے تو ان کے مقام ومرتبہ اور عظمت کو تو کوئی نقصان نہیں پہونچے گا البتہ ایسا کرنے والے رسول اللہ ﷺ کی وعید کے مستحق ہونے کے ساتھ اپنا دو جہان خراب کریں گے۔
مشاجرات کا آغاز اور خوارج:
حقیقت اور سچائی تو یہی ہے کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ ہے، مگر افسوس کہ کبھی کبھی جذبات اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں مانع ہوتے ہیں اور ایک شخص سچائی جانتے ہوئے گرم خون کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے پھر ہوتا یہ ہے کہ سچائی تک پہونچنے کے لئے جنگ ہوتی ہے مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ جس سچائی تک ہم پہونچنا چاہ رہے تھے اس سے قریب ہونے کے بجائے دور ہوتے گئے مگر یہ احساس اتنی دیر میں ہوتا ہے کہ کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ اور کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہم کی جنگ ہوئی، صفین کے مقام پر گھمسان کا رن پڑا، دونوں شخصیت اور ذات ایسی ہے کہ ان کی نیک نیتی پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں بلکہ ان کا کردار وعمل بتا رہا کہ دونوں سچائی تک پہونچنا چاہ رہے تھے، جنگ کسی فیصلہ کن نتیجہ پر پہونچنے سے پہلے حضرت معاویہ نے تحکیم کے نظریہ کو اپنایا اور ان کے رفقاء نے قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کرکے اشارہ دیا کہ اب جنگ ختم کردینا چاہئے اور مسئلہ کا حل قرآن کریم کو تسلیم کرنا چاہئے۔
ایک طرف خونریز جنگ اور دوسری طرف قرآن کریم کا حکم ماننے کی بات، بھلا کون ہے جو یہ کہنے کی جسارت کرے گا کہ قرآن کریم کو چھوڑو اور میدان کے ہی فیصلہ کو حتمی تسلیم کرو۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ پر مصر رہے اور وہ چاہتے تھے کہ جنگ ہوتی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ کردے۔ شاید وہ اس جنگ کے فیصلہ کو بھی اللہ تعالیٰ کا ہی فیصلہ اور قرآن کے مطابق فیصلہ مانتے رہے ہوں۔
چونکہ جنگ خلیفہ اور امیر تنہا نہیں لڑتا بلکہ لشکر کی شکل میں ایک پوری جماعت شریک ہوتی ہے ایسی صورت میں کبھی کبھی امیر کو لشکر یوں کی بات ماننی پڑتی ہے جو وقت اور حالات کا تقاضہ ہوتا ہے، بالکل ایسا ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا ان کو تحکیم کے معاملہ میں اپنے لشکریوں کی بات تسلیم کرنی پڑی اور پھر طرفین سے طے پایا کہ دو ثالث مقرر کئے جائیں جن کا فیصلہ ہر ایک کے لئے واجب التسلیم ہوگا تاکہ امت جو اس وقت زبردست ہلاکت خیزی سے دو چار ہے اور بلا وجہ خون کا دریا بہایا جا رہا ہے وہ بند ہو۔ بس اس فیصلہ کے حصول کے لئے اور امت کی بہی خواہی میں حضرت علی کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت عمروبن العاص کو منتخب کیا گیا۔
مسئلہ تحکیم میں خوارج کا کردار وعقیدہ:
تاریخ کا یہ ایک عجیب باب ہے کہ جن لوگوں نے حضرت علی کو تحکیم کے لئے تسلیم کرنے پر مجبور کیا تھا جس تحکیم کے لئے حضرت علی آمادہ نہیں تھے، وہی منحرف ہوگئے اور اب حضرت علی کو مجرم قراردینے لگے کہ انھوں نے تحکیم کو تسلیم کر لیا، اگر حضرت علی کو صرف مجرم قراردیتے تو بھی معاملہ زیادہ سنگین نہ ہوتا مگر اتنے پر تسلی نہیں ہوئی اور وہ مطالبہ کر بیٹھے کہ جس طرح ہم نے تحکیم کو تسلیم کرکے ارتکاب کفر کیا اور پھر اس سے تائب ہوئے آپ بھی تحکیم کے کفر کا اقرار کیجئے اور پھر اس سے توبہ کیجئے بلکہ اپنے توبہ کا اعلان کیجئے۔
جن چند افراد یا جماعت نے پہلے تحکیم کے تسلیم کرنے پر مجبور کیا اور پھر بعد میں اسے کفر قرار دے کر توبہ کرنے اور توبہ کا اعلان کرنے پر مجبو کیا وہی چند افرادیا جماعت خوارج کہلائے جن کے ظاہر وباطن کی خباثت ان کے اس گھناؤنے کردار وعمل میں نمایاں ہے۔
باطنی خباثت پر تحکیم کا دبیز پردہ:
باطن کو چھپانے کے لئے عموما ظاہر کو خوب سے خوب تربنانے اور مزین کرنے کی کوشش کی جاتی کیونکہ انسان پہلے ظاہر کو ہی دیکھتا اور فیصلہ کرتا ہے اس لئے خوارج نے بھی اپنے باطن پر ان الحکم الا اللہ کا خوبصورت لیبل لگا کر اسے نعرہ کی شکل دی جس نعرہ میں اس قدر جاذبیت تھی کہ سادہ لوح لوگوں کے لپیٹ میں آنے میں دیر نہیں لگی مگر جو لوگ باطنی خباثت سے واقف تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ظاہر وباطن میں سیاہ وسفید کا فرق ہے انہوں نے اپنے دامن کو پلید ہونے سے خود بھی بچایا اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کی۔
گمراہ کن خلوص اور تقوی:
ہر عمل میں خلوص کو اہمیت حاصل ہے مگر اس وقت جب یہ کتاب وسنت کی روشنی میں ہو اگر یہ خلوص غلط فہمی کی وجہ سے ہو تو پھر نتائج کا خراب ہونا یقینی ہے، اگر خوارج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سراپا پیکر اخلاص وتقوی ہیں جن پر شبہ کی کسی طرح کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک روایت ہے کہ حضرت علی حضرت ابن عباس کو خوارج کے پاس بحث وگفتگو کے لئے بھیجا، انہوں نے دیکھا کہ لمبے لمبے سجدہ کی وجہ سے ان کے ہاتھوں پر نشان پڑے ہوئے تھے اور ہاتھ اونٹ کے زانوں کی طرح سخت تھے، ان کے کرتے پسینہ سے شرابور، یعنی ان کے اخلاص وتقوی پر شبہ کی کوئی گنجائش نہیں مگر دینی شعور اور فہم سے تہی دستی نے انھیں اس طرح گمراہ کردیا تھا کہ اسلام کی روح کو ہی نقصان پہونچانے لگے، جس کی مثال حضرت عبداللہ بن خباب کا قتل ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت علی کو مشرک نہیں کہتے تھے۔
’’الکامل‘‘ میں ابوالعباس نے عبداللہ بن خباب کا واقعہ یوں تحریرکیا ہے۔
جب عبداللہ بن خباب کی ملاقات خوارج سے ہوئی تو ان کے پاس قرآن موجود تھا، ان کی حاملہ بیوی بھی ان کے ساتھ تھی: خارجیوں نے ان سے کہا: جو چیز تمہارے پاس موجود ہے اس کا تو حکم یہ ہے کہ ہم تمہیں قتل کر ڈالیں۔ پھر عبداللہ بن خباب سے خوارج نے پوچھا کہ : ابو بکر وعمر کے بارے میں تم کیا کہتے ہو۔ عبداللہ نے جواب دیا! ان کے بارے میں کلمۂ خیر کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں۔ خوارج نے پھرسوال کیا: تحکیم سے پہلے علی اور خلافت کے ابتدائی دور میں عثمان کیسے تھے؟ عبداللہ نے کہا بہت اچھے تھے، خوارج نے پوچھا تحکیم کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ عبداللہ نے جواب دیا ’’میری رائے یہ ہے کہ علی تم سے زیادہ کتاب الٰہی کوجانتے تھے۔ تم سے زیادہ نیک وکار، دین کے حامی ونگہبان اور صاحب بصیرت وفراست تھے۔ خوارج نے کہا تم سچائی نہیں بلکہ بھاری بھرکم ناموں کی پیروی کرتے ہو‘‘ یہ کہہ کر عبداللہ بن خباب کو پکڑ کر نہر کے کنارے لے گئے اور قتل کردیا۔
اس گفتگو سے واضح ہے کہ ان کی سادہ لوحی کے پیچھے کس قدر خباثت کارفرماتھی، کہ صحابی رسول ﷺ کو کافر سے کم کہنے کے لئے آمادہ نہیں اور اگر کوئی اسے کافی نہ سمجھے جسے یہ سمجھتے ہیں تو پھر اس کا انجام قتل کے سوا کچھ نہیں ہے۔
خوارج کے عقائد ونظریات:
شیخ محمدابوزہرہ مصری نے اپنی کتاب ’’تاریخ المذاہب الاسلامیہ‘‘ میں خوارج کے عقائد کو اختصار کے ساتھ قلم بند کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے۔
(۱) خلیفہ کا تقرر آزادنہ ومنصفانہ انتخاب سے ہونا چاہئے، جس میں تمام مسلمان حصہ لیں اور کسی ایک گروہ پر اکتفا نہ کیا جائے۔
خلیفہ اس وقت تک اپنے منصب پر رہے گا۔ جب تک وہ عدل پر قائم رہے گا، شریعت کے احکام نافذ کرے۔ خطا اور کج روی سے کنارہ کش رہے، اگر ان چیزوں کو چھوڑدے تو اس کا معزول کر دینا بلکہ قتل کردینا جائز ہے۔
(۲)خلافت کسی عرب خاندان کے ساتھ خاص نہیں ہے قریش کی بھی اس میں کوئی تخصیص نہیں جیسا کہ دوسرے(اہل سنت) کہتے ہیں۔
یہ بھی غلط ہے کہ عجمی خلیفہ نہیں ہو سکتا صرف عرب ہی اس منصب پر فائز ہو سکتا ہے ۔ تمام مسلمان خلیفہ ہونے کا یکساں حق رکھتے ہیں، بلکہ افضل یہ ہے کہ خلیفہ کسی غیر قریشی کو بنایا جائے تاکہ اگر وہ راہ حق سے منحرف ہو تو اسے معزول کرنا یا قتل کردینا آسان ہو۔ کیونکہ غیر قریشی خلیفہ کو معزول یا قتل کردینے کے باعث قبائیلی عصبیت آڑے نہیں آئیگی اور نہ ہی خاندانی جذبہ روک بن سکے گا۔
(۳)اسی نقطۂ نظر کے باعث خارجیوں نے اپنا امیر عبداللہ ابن الراسبی کو بنایا جسے وہ لوگ امیرالمومنین کہتے تھے، یہ شخص قریشی نہیں تھا، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خارجیوں کا نجدات نام کا فرقہ اس بات کا قائل تھا کہ کسی امام یا خلیفہ کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں لوگوں کو چاہنے آپس میں اپنا معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ حل کر دیا کریں۔ تاہم اگر ایسا نہ ہو سکے تو اماموں کو منتخب کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں یعنی ان کے نزدیک اقامت امام واجب نہیں بلکہ مصلحت وضرورت پر منحصر ہے۔
(۴)خوارج ہر گناہ گار کو کافر سمجھتے تھے، خواہ یہ گناہ ارادہ گناہ اور بری نیت سے یا غلط فہمی یا خطا اجتہادہی سے ہو۔ یہی وجہ تھی کہ تحکیم کے معاملہ میں وہ حضرت علی کو کافر کہتے تھے، حالانکہ حضرت علی تحکیم کے لئے اپنے طور پر تیار نہیں تھے، لیکن اگر وہ از خود تیار بھی ہو گئے ہوتے اور تحکیم کو مان لیا جائے کہ وہ درست امر نہیں تھا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی کی یہ خطاء اجتہادی تھی، مگر خارجیوں کا حضرت علی کی تکفیر پر اصرار اس امر پر غماز ہے کہ وہ خطا اجتہادی کو بھی دین سے خارج ہونے کا سبب اور فساد عقیدہ کی علامت مانتے ہیں، یہ ان کا یہی عقیدہ حضرت عثمان حضرت طلحہ حضرت زبیر وغیرہ کے اکابر صحابہ کے بارے میں تھا۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مقام عزیمت ودعوت Dec 2010

جناب ملک عبدالرشید عراقی
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
کا مقام عزیمت ودعوت
امام احمد بن حنبل کا پورا نام احمد بن محمد بن حنبل تھا۔ فقہ اسلامی کے چار ائمہ میں سے ایک ہیں۔ ربیع الاول ۱۶۴ھ ؁ مطابق نومبر ۷۸۰ء ؁ میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے کیا۔ ابتدائی تعلیم بغداد کے اساتذہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد بصرہ، کوفہ، مکہ، مدینہ، یمن، شام وغیرہ کا سفر کیا۔ ہر جگہ کے نامور محدثین سے استفادہ کیا اور ۲۰ سال کی عمر میں علوم اسلامیہ سے فراغت پائی۔
۱۸۷ھ ؁ میں حجاز کا پہلا سفر کیا، امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی اور ان سے فقہ واصول فقہ میں استفادہ کیا۔ امام احمد رحمہ اللہ کا شروع ہی سے حدیث کی طرف رجحان زیادہ تھا۔ چنانچہ ۲۰۴ھ ؁ میں جب ان کی عمر ۴۰ سال ہوئی تب حدیث کا درس دینا شروع کیا۔ یہ بھی ان کا کمال اتباع سنت تھا کہ انہوں نے عمر کے چالیسویں سال جو سن نبوت ہے، علوم نبوت کی اشاعت شروع کی۔ ان کے درس میں سامعین کی تعداد کئی ہزار سے متجاوز ہوتی تھی اور ان کی مجلس بڑی سنجیدہ اور پر وقار ہوتی تھی۔
زہدوتقوی:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی زندگی زہد وتوکل میں یکتائے روزگار تھی۔ امام یحیےٰ بن معین رحمہ اللہ جو ان کے ہم عصر تھے، ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ جیسا نہیں دیکھا۔ میں پچاس برس ان کے ساتھ رہا، انھوں نے کبھی ہمارے سامنے اپنی صلاح وخیر پر فخر نہیں کیا۔ خلیفۃ الاولیاء ۹؍۱۸۱)
علم وفضل:
امام شافعی رحمہ اللہ ان کے بڑے معترف اور قدردان تھے، بغداد سے جاتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ’’میں بغداد کو چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس حالت میں کہ وہاں احمد بن حنبل سے بڑھ کر کوئی متقی ہے، نہ کوئی فقیہ۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ ۲؍۱۸)
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ بھی فرمان ہے کہ احمد بن حنبل امام فی ثمان خصال: امام فی الحدیث، امام فی الفقہ، امام فی اللغۃ، امام فی القرآن، امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع، امام فی السنۃ (حیات امام احمد بن حنبل ابو زہرہ ص۳)
تواضع ومسکنت:
مسئلہ خلق قرآن میں ان کی ثابت قدمی کی وجہ سے تمام عالم اسلام ان کی شہرت سے معمور تھا۔ ہر طرف ان کی تعریف اور ان کے لئے دعا کا غلغلہ بلند تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تواضع اور مسکنت کے ساتھ ان کو رعب ووقار بھی اتنا بخشا کہ اہل حکومت اور فوجی وسپاہی بھی ان سے مرعوب ہو جاتے تھے اور ان کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔
تصانیف:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ ان کی تصانیف میں ان کی مشہور تصنیف ’’مسند احمد بن حنبل‘‘ ہے۔ جس کی وہ اپنی زندگی میں ترتیب وتبویب نہیں کر سکے تھے اور اس کی ترتیب وتبویب ان کے صاحبزادہ امام عبداللہ رحمہ اللہ نے کی۔ (بستان المحدثین ص ۲۶)
فتنہ خلق قرآن:
عباسی خلفاء کے دور میں عجمی روح کی کارفرمائی اور یونانی منطق وفلسفہ کے اثرات نے عربوں کے سادہ مذاق طبیعت کو بدل دیا اور وہ سادہ اور سہل دین حنیف پر عقیدہ رکھنے کے بجائے لا یعنی موشگافیوں اور فلسفہ وکلام کے غیر ضروری مباحث میں الجھ کر مختلف گروہوں میں بٹ گئے، ان میں فرقہ معتزلہ زیادہ مشہور ہے۔ اس نے دین کی حفاظت وخدمت کا کام بھی انجام دیا۔ لیکن اس کی بدولت مذہب میں نئے نئے اور بے بنیاد مسائل بھی پیدا ہوگئے۔ اس لئے محدثین کا مقصد احیائے سنت اور رد بدعت تھا۔معتزلہ کے عقائد وافکار کے خلاف صف آراء ہو گئے۔ معتزلہ کے ان مسائل میں خلق قرآن کا مسئلہ بھی تھا۔
خلیفہ ہارون الرشید کے زمانہ تک اس عقیدہ کو ماننے والے بہت کم لوگ تھے اور وہ بھی اپنے عقیدہ کا اعلان نہیں کرتے تھے۔ ہارون الرشید کے بعد مامون الرشید خلیفہ ہوا۔ مامون الرشید بڑا علم وادب نوازاور علماء وشعراء کا قدر دان تھا۔ اس کے عہد خلافت میں اس فتنہ کو عروج حاصل ہوا اور مامون الرشید کے بعد معتصم، اس کے بعد الواثق کے عہد میں اس فتنہ نے زور پکڑا۔ ان خلفاء کے معاون ابن ابی داؤد اور بشرالمریسی تھے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مامون الرشید، معتصم، الواثق اور ان کے معاون ومددگار ابن ابی داؤد اور بشر مریسی کے مختصر ا حالات درج کر دےئے جائیں۔
مامون الرشید:
مامون الرشید جس کا اصل نام عبداللہ تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید کا بیٹا تھا۔ اپنے بڑے بھائی امین الرشید کے بعد ۶؍صفر ۱۹۸ھ ؁ مطابق ۶اکتوبر ۸۱۳ء ؁ کو تخت نشین ہوا۔ علوم وفنون کا والہ وشیدا تھا، دارالحکمۃ قائم کیا۔ جس میں دوسرے ملکوں کے علماء جمع کیے۔ ان سے کتابیں لکھوائیں اور ترجمہ کروائیں، خاص طورپر سنسکرت اور یونانی زبانوں کی بیسیوں کتابیں اسی عہد میں عربی میں منتقل ہوئیں، یہ معتزلی خیالات کے شباب کا زمانہ تھا۔ منجملہ اور عقائد کے متعلق انہوں نے کہا کہ قرآن لفظا ومعنا مخلوق ہے۔ مامون نے اس نظریہ کی تائید کی، مامون الرشید نے ۸؍رجب ۲۱۸ھ ؁ مطابق ۳۰ جولائی ۸۳۳ء ؁ کو وفات پائی اور طرطوس میں دفن ہوا۔ (تاریخ الخلفاء از سیوطی)
معتصم باللہ:
مامون الرشید کے بعد اس کا چھوٹا بھائی المعتصم باللہ اس کا جانشین ہوا، اس کے عہد میں فتنہ خلق قرآن عروج پر تھا۔ معتصم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے عہد کو آٹھ کے عدد سے خاص لگاؤ رہا، مثلا: وہ ۸ شعبان ۱۸۰ء کو پیدا ہوا، وہ اپنے خاندان کا آٹھواں حکمران تھا، ۲۱۸ میں تخت پر بیٹھا۔ اس نے آٹھ جنگوں میں حصہ لیا۔ اس نے اپنے زمانہ حکومت میں آٹھ محل تعمیر کرائے۔ اس کے آٹھ بیٹے اور آٹھ بیٹیاں تھیں۔ آٹھ ہزار غلام اس کے محل میں رہتے تھے۔ اس نے ۸ سال اور ۸ ماہ حکومت کرنے کے بعد ۴۸سال کی عمر میں ۱۹ ربیع الاول ۲۲۷ھ مطابق ۵ فروری ۸۴۲ء ؁ کو انتقال کیا۔ انتقال کے بعد حکومت کے خزانے میں ۸۰ ہزار درہم اور ۸۰ لاکھ دینا ر موجود تھے۔ (تاریخ الخلفاء سیوطی)
الواثق باللہ:
معتصم کے بعد اس کا بیٹا الواثق باللہ خاندان عباسی کانواں خلیفہ ہوا۔ اس نے تقریبا پونے چھ سال حکومت کی، یہ بڑا عالم، فاضل اور صاحب بصیرت تھا۔ فتنہ خلق قرآن اس کے عہد میں بھی رہا۔ لیکن اس میں کچھ کمی آگئی تھی۔ ذی الحجہ ۲۳۲ھ ؁ مطابق اگست ۸۴۷ء میں انتقال کیا۔ (تاریخ الخلفاء سیوطی)
بشرالمریسی:بشرالمریسی عہد ہارون الرشید کا مشہور صاحب علم اور قاضی ابو یوسف کا شاگرد تھا۔ خلق قرآن کا عقیدہ دراصل جہم بن صفوان نے شروع کیا تھا اور بشر بھی اس کا ہمنوا ہو گیا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید کو جب معلوم ہوا کہ بشر مریسی بھی خلق قرآن کا قائل ہے تو اس نے قسم کھائی کہ اگر یہ شخص مجھ کو مل گیا تو میں اسے نہایت بیدردی سے قتل کرا ڈالوں گا۔ اس کا انتقال بغداد میں ۲۱۸ھ ؁ مطابق ۸۳۲ء ہوا۔ (تذکرہ ابولکلام ص ۴۰۸ حواشی)
ابن ابو داؤد:اس کا پورا نام احمد بن ابی داؤد تھا۔ ۱۶۰ھ مطابق ۷۷۶ء ؁ پیدا ہوا۔ اپنے علم وفضل اور معتزلی خیالات کے باعث مامون الرشید کا معتمد علیہ بن گیا۔ اور اس کے بعد المعتصم کے عہد میں قاضی کے عہدہ پر فائز ہوا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ساتھ حکومت وقت نے جو نارواسلوک کیا اس میں اس کا بڑا ہاتھ تھا۔ بلکہ فتنہ خلق قرآن کا بہت حد تک بانی ہی یہ تھا لیکن اس کا انجام بہت عبرت ناک ہوا۔ المعتصم کے بعد الواثق کے زمانے میں بھی یہ قاضی تھا۔ اس کے جانشین خلیفہ المتوکل نے اس کو قید کر دیا اور اس کی ساری جائیداد ضبط کر لی۔ اس کو رہائی تو مل گئی لیکن زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا۔ محرم ۲۴۰ھ مطابق جون ۸۵۴ء میں انتقال کر گیا۔ (تذکرۃ ابوالکلام ص ۴۰۸حواشی)
امام احمد ابتلاء وامتحان میں:
جب معتزلہ نے عقیدہ خلق قرآن کو کفر وایمان کا معیار بنا دیا اور اتفا قا مذہب اعتزال کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہو گئی تھی اور خلیفہ مامون الرشید اس مسئلہ کا پر جوش داعی اور مبلغ بن گیا۔ ۲۱۸ھ ؁ میں والی بغداد اسحاق بن ابراہیم کے نام ایک مفصل فرمان بھیجا۔ جس میں عامۃ المسلمین اور بالخصوص محدثین کرام رحمہ اللہ کی سخت مذمت اور حقارت آمیز تنقید کی۔ ان کو خلق قرآن کے عقیدہ سے اختلاف کرنے کی وجہ سے توحید میں ناقص، مردود الشہادۃ، ساقط الاعتبار اور شرارامت قرار دیا اور حاکم کو حکم دیا کہ جو لوگ اس مسئلہ کے قائل نہ ہوں ان کو ان کے عہدوں سے معزول کر دیا جائے اور خلیفہ کو اس کی اطلاع کی جائے۔
مامون الرشید کے اس فرمان کی نقلیں تمام اسلامی صوبوں کے گورنروں کو بھیجی گئیں اور گورنروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس فرمان پر فوری طور پر عمل کریں اور جو خلق قرآن کا قائل نہ ہو اس کو فورا اس کے عہدے سے ہٹادیا جائے۔
محدثین کی ایک جماعت نے خلق قرآن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کو مامون الرشید کے پاس بھیج دیا گیا۔ مامون الرشید نے ان سے خلق قرآن کے متعلق سوال کیا ان سب نے اس سے اتفاق کیا اور ان سب کو بغداد واپس بھیج دیا گیا مگر چار ائمہ کرام نے خلق قرآن کو تسلیم نہ کیا اور وہ اپنی رائے (عدم خلق قرآن) پر قائم رہے۔ یہ چار ائمہ کرام امام احمد بن حنبل، سجادہ، قواریری اور محمد بن نوح تھے۔ دوسرے دن سجادہ اور تیسرے دن قواریری نے بھی اپنی رائے سے رجوع کیا۔ صرف امام احمد بن حنبل اور محمد بن نوح باقی رہے۔
ان دونوں کی ابھی مامون الرشید کے سامنے پیشی نہیں ہوئی تھی کہ مامون کا انتقال ہو گیا۔ چنانچہ ان دونوں کو واپس بغداد بھیج دیا گیا۔ محمد بن نوح نے راستہ میں وفات پائی اور امام احمد بن حنبل تنہا بغداد پہنچ گئے۔ مامون الرشید نے اپنے جانشین معتصم کو وصیت کی تھی کہ وہ خلق قرآن کے مسئلہ پر سختی سے پابند رہے اور اس کی پالیسی پر عمل کرے۔ اور قاضی ابن ابی داؤد کو بدستور اپنا مشیر اور وزیر بنائے رکھے۔ چنانچہ معتصم نے ان دونوں وصیتوں پر پورا پورا عمل کیا۔
اب مسئلہ خلق قرآن کی مخالفت اور عقیدہ صحیحہ کی حمایت اور حکومت وقت کے مقابلہ کی ذمہ داری تنہا امام احمد بن حنبل کے اوپر تھی۔ وہ محدثین کے امام اور سنت وشریعت کے اس وقت امین تھے۔ چنانچہ امام صاحب کو بیڑیاں پہنا کر معتصم کے سامنے پیش کیا گیا۔ تین دن مسئلہ خلق قرآن پر مناظرہ ہوا اور مسئلہ خلق قرآن کے قائل لاجواب ہو گئے۔ امام صاحب کو ۲۸ کوڑے مارے گئے، ایک تازہ جلاد صرف دو کوڑے مارتا، دوسرا جلاد بلایا جاتا، آپ ہر کوڑے پر فرماتے: ’’اعطونی شےئا من کتاب اللہ او سنۃ رسولہ حتی اقول بہ‘‘’’میرے سامنے اللہ تعالی کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے کچھ پیش کرو تو میں اس کو تسلیم کرلوں ۔‘‘ (البدایہ والنہاےۃ ۱۰؍۳۳۶)
واقعہ کی تفصیلات امام احمد رحمہ اللہ کی زبان سے:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو خود تفصیل سے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : میں جب اس مقام پر پہنچا جس کا نام باب البستان ہے تو میرے لئے سواری لائی گئی اور مجھ کو سوار ہونے کا حکم دیا گیا۔ مجھے اس وقت کوئی سہارا دینے والا نہیں تھا اور میرے پاؤں میں بوجھل بیڑیاں تھیں، سوار ہونے کی کوشش میں کئی مرتبہ اپنے منہ کے بل گرتے گرتے بچا۔ آخر کسی نہ کسی طرح سوار ہوا اور معتصم کے محل میں پہنچا۔ مجھے ایک کوٹھڑی میں داخل کر دیا گیا اور دروازہ بند کر دیا گیا۔ آدھی رات کا وقت تھا اور وہاں کوئی چراغ نہیں تھا۔ میں نے نماز کے لئے مسح کرنا چاہا اور ہاتھ بڑھایا تو پانی کا ایک پیالہ اور طشت رکھا ملا، میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ اگلے دن معتصم کا قاصد آیا اور مجھے خلیفہ کے دربار میں لے گیا۔ معتصم بیٹھا ہوا تھا، قاضی القضاۃ ابن ابی داؤد بھی موجود تھا۔ اور ان کے ہم خیالوں کی ایک بڑی جمعیت تھی۔ ابو عبدالرحمان الشافعی بھی موجود تھے، اسی وقت دو آدمیوں کی گردنیں بھی اڑائی جا چکی تھیں۔ میں نے ابو عبدالرحمان الشافعی سے کہا کہ تم کو امام شافعی سے مسح کے بارے میں کچھ یا د ہے۔
ابن ابو داؤد نے کہا کہ اس شخص کو دیکھو کہ اس کی گردن اڑائی جانے والی ہے۔ اور یہ فقہ کی تحقیق کر رہا ہے۔ معتصم نے کہا کہ ان کو میرے پاس لاؤ ، وہ برابر مجھے بلاتا رہا، یہاں تک کہ میں اس کے بہت قریب ہو گیا۔ اس نے کہا بیٹھ جاؤ، میں بیڑیوں سے تھک گیا تھا اور بوجھل ہو رہا تھا، تھوڑی دیر کے بعد میں نے کہا کہ مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے؟ خلیفہ نے کہا، کہو، میں نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اللہ کے رسول نے کس چیز کی طرف دعوت دی ہے؟ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے کہا کہ لاالہ الا اللہ کی شہادت کی طرف۔ تو میں نے کہا تو میں اس کی شہادت دیتا ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کے جدا مجد ابن عباس رضی اللہ کی روایت ہے کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو انہوں نے ایمان کے بارے میں آپ سے سوال کیا، فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ ایمان کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، فرمایا اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی، اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ نکالنا، اس پر معتصم نے کہا: اگر تم میرے پیش رو کے ہاتھ میں پہلے نہ آگئے ہوتے تو میں تم سے تعرض نہ کرتا۔ پھر عبدالرحمن بن اسحاق کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے تم کو حکم نہیں دیا تھا کہ اس آزمائش کو ختم کرو۔ امام احمد کہتے ہیں کہ میں نے کہا، اللہ اکبر۔ اس میں تو مسلمانوں کے لئے کشائش ہے۔ خلیفہ نے حاضرین علماء سے کہا کہ ان سے مناظرہ کرو اور گفتگو کرو۔ (یہاں امام احمد بن حنبل اس مناظرہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں)
ایک آدمی بات کرتا اور میں اس کا جواب دیتا۔ دوسرا بات کرتا تو میں اس کا جواب دیتا، معتصم کہتا احمد! تم پر خدا رحم کرے، تم کیا کہتے ہو؟میں کہتا ہوں امیرالمومنین! مجھے کتاب اللہ یا سنت رسول ﷺ سے کچھ دکھاےئے تو میں اس کا قائل ہو جاؤں گا۔ معتصم کہتا ہے کہ اگر یہ میری بات قبول کرلیں تو میں اپنے ہاتھ سے ان کو آزاد کردوں اور اپنے لشکر کے ساتھ ان کے پاس جاؤں اور ان کے آستانہ پر حاضر ہوں، پھر کہتا احمد! میں تم پر بہت شفیق ہوں اور مجھے تمہارا ایسا خیال ہے جیسے اپنے بیٹے ہارون کا۔ تم کیا کہتے ہو؟ میں وہی جواب دیتا کہ مجھے کتاب اللہ یا سنت رسول ﷺ میں سے کچھ دکھاؤ تو میں قائل ہوں گا۔ جب بہت دیر ہو گئی تو بہت اکتا گیا اور کہا جاؤ، مجھے قید کر دیا اور میں اپنی پہلی جگہ پر واپس کر دیا گیا۔ اگلے دن پھر مجھے طلب کیا گیا اور مناظرہ ہوتا رہا اور میں سب کا جواب دیتا رہا۔ یہاں تک کہ زوال کا وقت ہو گیا جب اکتا گیا تو کہا ان کو لے جاؤ، تیسری رات کو میں سمجھا کہ کل کچھ ہو کر رہے گا، میں نے ڈوری منگوائی۔ اور اس سے اپنی بیڑیوں کو کس لیا اور جس آزار بند سے میں نے بیڑیاں باندھ رکھی تھیں اسے اپنے پائجامہ میں پھر ڈال دیا کہ کہیں کوئی سخت وقت آئے اور میں برہنہ نہ ہو جاؤں۔ تیسرے روز مجھے پھر طلب کیا گیا، میں نے دیکھا کہ دربار بھرا ہوا ہے، میں مختلف ڈیوڑھیاں اور مقامات طے کرتا ہوا آگے بڑھا۔ کچھ لوگ تلواریں لئے کھڑے تھے، کچھ لوگ کوڑے لئے۔ پہلے دو دنوں کے بہت سے لوگ آج نہیں تھے۔ جب معتصم کے پاس پہنچا، تو کہا بیٹھ جاؤ، پھر کہا ان سے مناظرہ کرو اور گفتگو کرو۔ لوگ مناظرہ کرنے لگے۔ میں ایک کا جواب دیتا، پھر دوسرے کا جواب دیتا، میری آواز سب پر غالب تھی، جب دیر ہو گئی تو مجھے الگ کر دیا گیا اور ان کے ساتھ تخلیہ میں کچھ بات کی، پھر ان کو ہٹادیا اور مجھے بلا لیا پھر کہا احمد! تم پر خدا رحم کرے۔ میری بات مان لو۔ میں تم کو اپنے ہاتھ سے رہا کر دوں گا، میں نے پہلا سا جواب دیا۔ اس پر اس نے برہم ہو کر کہا کہ ان کو پکڑو اورکھینچو اور ان کے ہاتھ اکھیڑ دو۔ معتصم کرسی پر بیٹھ گیا جلادوں اور تازیانہ لگانے والوں کو بلایا، جلادوں سے کہا آگے بڑھو، ایک آدمی آگے بڑھتا اور مجھے دو کوڑے مارتا۔ معتصم کہتا: زور سے کوڑے لگاؤ پھر وہ ہٹ جاتا اور دوسرا آتا، دو کوڑے لگاتا (۱۹) کوڑوں کے بعد معتصم میرے پاس آیا اور کہا کہ احمد! کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑے ہو! بخدا مجھے تمہارا بڑا خیال ہے۔ ایک شخص عجیف مجھے اپنی تلوار کے دستے سے چھیڑتا اور کہتا کہ تم ان سب پر غالب آنا چاہتے ہو۔ دوسرا کہتا، اللہ کے بندے! خلیفہ تمہارے سر پر کھڑا ہے۔ کوئی کہتا امیرالمومنین آپ روزے سے ہیں۔ آپ دھوپ میں کھڑے ہوئے ہیں۔ معتصم پھر مجھ سے بات کرتا اور میں اس کو وہی جواب دیتا پھر وہ جلاد کو حکم دیتا کہ پوری قوت سے کوڑے لگاؤ۔ امام کہتے ہیں کہ پھر اس اثناء میں میرے حواس جاتے رہے۔ جب میں ہوش میں آیا تو دیکھا کہ بیڑیاں کھول دی گئی ہیں۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم نے تم کو اوندھے منہ گرادیا، تم کو روندا۔ احمد کہتے ہیں کہ مجھ کو کچھ احساس نہیں ہوا۔ (تاریخ دعوت وعزیمت از مولانا ابوالحسن ندوی ۹۶۱۔۹۹، بحوالہ تاریخ الاسلام للذہبی ترجمہ امام احمد ص ۴۱۔۴۹)
امام احمد کی بے نظیر عزیمت واستقامت:
مولانا ابوالکلام آ زاد رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی عزیمت واستقامت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: تیسری صدی کے اوائل میں جب فتنہ اعتزال وتعمق فی الدین اور بدعت مضلہ، تکلم بالفلسفہ وانحراف عن اعتصام السنہ نے سر اٹھایا اور صرف ایک ہی نہیں بلکہ لگاتار تین عظیم الشان فرمانرواؤں یعنی مامون، متصم اور واثق باللہ کی شمشیر استبداد اور قہر حکومت نے اس فتنے کا ساتھ دیا۔ حتی کہ بقول علی بن مدینی کے فتنہ ارتداد ومنع زکوٰۃ (بعہد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ) کے بعد یہ دوسرا فتنہ عظیم تھا جو اسلام کو پیش آیا۔ تو کیا اس وقت علمائے امت اور ائمہ شریعت سے عالم اسلام خالی ہو گیا تھا۔ غور تو کرو۔ کیسے کیسے اساطین علم وفن اور اکابر فضل وکمال اس عہد میں موجود تھے۔ خود بغداد اہل سنت وحدیث کا مرکز تھا۔ مگر سب دیکھتے ہی رہ گئے اور عزیمت دعوت وکمال مرتبہ وراثت نبوت وقیام حق وہدایت فی الارض والامت کا وہ جو ایک مخصوص مقام تھا صرف ایک ہی قائم لامر اللہ ان کے حصے میں آیا ۔ یعنی سید المجددین وامام المصلحین، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ۔
اپنے اپنے رنگ میں سب صاحب مراتب ومقامات تھے لیکن اس مرتبے میں تو کسی کو ساجھانہ تھا۔
بعضوں نے رو پوشی اختیار کی اور گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ جب کہ تمام اصحاب کا روطریق کا یہ حال ہو رہا تھا اور وہ دین خالص کی بقاء وقیام جیسی عظیم الشان قربانی کا طلب گار تھا۔ صرف امام موصوف ہی تھے جن کو فاتح وسلطان عہد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے نہ تو دعاۃ فتن وبدعت کے آگے سر جھکایا، نہ رو پوشی وخاموشی وکنارہ کشی اختیار کی اور نہ صرف بند حجروں کے اندر دعاؤں اور مناجاتوں پر قناعت کرلی بلکہ دین خالص کے قیام کی راہ میں اپنے نفس ووجود کو قربان کردینے اور تمام خلف امت کے لئے ثبات واستقامت علی السنۃ کی راہ کھول دینے کے لئے ’’فاصبر کما صبر اولو العزم من الرسل‘‘ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کو قید کیا گیا، قید خانے میں چلے گئے، بوجھل بیڑیاں پاؤں میں ڈالی گئیں، پہن لیں۔لیکن اس پیکر حق، اس مجسمہ سنت، اس مؤید بالروح القدس، اس صابر اعظم کما صبرو او لو العزم من الرسل کی زبان صدق سے صرف یہی جواب نکلتا تھا: اعطونی شےئا من کتاب اللہ و سنۃ رسولہ حتی اقول بہ‘‘ اللہ کی کتاب میں سے کچھ دکھلا دو یا اس کے رسول کا کوئی قول پیش کردو تو میں اقرار کر لوں گا، اس کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔؂
جو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خوب گویم
(تذکرۃ ابوالکلام مطبوعہ مکتبہ جمال ص ۱۳۳؍۱۳۷؍۱۳۹)
امام احمد رحمہ اللہ کا کارنامہ اور اس کا صلہ:
معتصم نے امام صاحب کو رہا کر دیا اور امام صاحب اپنے گھر پہنچ گئے۔ تاہم ان کو اپنے گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور نقل وحرکت پر پابندی لگا دی گئی۔ امام صاحب کی بے نظیر استقامت اور ثابت قدمی سے یہ فتنہ خلق قرآن ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا اور مسلمان ایک بڑے خطرے سے محفوظ ہو گئے۔ جن لوگوں نے اس دینی ابتلاء میں حکومت کا ساتھ دیا تھا اور موقع پرستی اور مصلحت شناسی سے کام لیا تھا۔ وہ لوگوں کی نگاہوں میں گر گئے اور ان کا دینی وعلمی وقار جاتا رہا۔ اس کے مقابل امام صاحب کی شان دو بالا ہو گئی، ان کی محبت اہل سنت اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کا شعار اور علامت بن گئی۔
ان کے معاصرین جنہوں نے اس فتنہ کی عالم آشوبی دیکھی تھی، ان کے اس کارنامہ کی عظمت کا بڑی فراخدلی سے اعتراف کیا ہے اور اس کو دین کی بروقت حفاظت اور مقام صدیقیت سے تعبیر کیا ہے۔ امام احمد کے ایک ہم عصر اور محدث وقت امام علی بن مدینی (استاد اما بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس دین کے غلبہ وحفاظت کا کام دو شخصوں سے لیا ہے جس کا کوئی تیسرا ہمہ نظر، نظر نہیں آتا۔ ارتداد کے موقع پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور فتنہ خلق قرآن کے سلسلہ میں احمد بن حنبل رحمہ اللہ (تاریخ بغداد ۴؍۴۲۱)
نظر بندی سے نجات:
الواثق باللہ کی وفات کے بعد اس کا چھوٹا بھائی المتوکل تخت خلافت پر بیٹھا۔ اس نے امام احمد رحمہ اللہ کی نظر بندی ختم کر دی۔ المتوکل امام صاحب کی بہت قدر اور احترام کرتا تھا۔ ان سے معاملات سلطنت اور اہم امور میں مشورے طلب کرتا۔ مال ودولت اور انعام واکرام سے مالا مال کرنا چاہتا تھا لیکن امام صاحب نے کبھی بھی اس کا کوئی تحفہ قبول نہ کیا۔
خلیفہ المتوکل ۳ شوال ۲۴۷ھ ؁ مطابق ۱۰ دسمبر ۸۶۱ء ؁ ایک ترک کے ہاتھوں قتل ہوا۔ عباسی خاندان کا یہ پہلا قتل تھا۔ (تاریخ الخلفاء سیوطی)
وفات:امام احمد بن حنبل ۷۷ سال کی عمر میں ۱۲ربیع الاول ۲۴۱ھ ؁ مطابق ۳۱جولائی ۸۵۵ء ؁ بغداد میں وفات پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔جنازہ میں ۸ لاکھ مر داور ۶۰ ہزار عورتیں شریک تھیں۔ (تاریخ ابن خلکان ۱۰؍۴۸)۔

ماہ محرم اور یوم عاشوراء سے متعلق ضعیف وموضوع روایات Dec 2010

مولانا وصی اللہ مدنیؔ
استاد کلیہ عائشہ صدیقہ، کرشنا نگر
ماہ محرم اور یوم عاشوراء سے متعلق
ضعیف وموضوع روایات
ہجری سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے، اس مہینے میں ہمارے نبی ﷺ نے نفلی روزوں کے علاوہ کسی اور چیز کا اہتمام کیا ہے نہ ہی اپنے اصحاب کو کرنے کا حکم ہی دیا ہے، اکثر خطباء ملت اور واعظین قوم جو اپنے سینے کے زور سے اس مہینے کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں ان کی تقریروں کا دارومدار امت میں منتشر ضعیف اور موضوع روایات ہیں جنھوں نے بدعتوں کو سنتوں میں تبدیل کر دیا ہے، متقدمین ومتاخرین محدثین کرام بالخصوص علامہ ابن الجوزی اور امام البانی نے ان ضعیف وموضوع حدیثوں کو اپنی اپنی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیا ہے افادۂ عام واصلاح کی خاطر ان میں سے بعض مشہور احادیث ضعیفہ و موضوعہ پیش خدمت ہیں:
* حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’من صام یوم عرفۃ، کان لہ کفارۃ سنتین، ومن صام یوما من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون یوما‘‘۔
جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تو یہ اس کے لئے دو سال کا کفارہ ہوگا اور جس نے ماہ محرم کے ایک دن کا روزہ رکھا تو اس کا ہر دن تیس دن کے برابر ہوگا۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ میں روایت کیا ہے اور بقول امام منذری ’’وہو غریب وإسنادہ لابأس بہ‘‘ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (یعنی ان کا اشارہ اسناد حدیث کی توثیق کی جانب ہے)
محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی نے امام منذری کے اس حکم پر تعاقب کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ضعیف الترغیب والترہیب، (۱؍۳۱۲)‘‘ میں اسے موضوع قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہذا خطاء فاحش لا أدری کیف وقع لہ؟....‘‘ یہ امام منذری کی بہت بڑی غلطی ہے مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس غلطی کے کیسے شکار ہو گئے، جب کہ اس حدیث کی سند میں ’’سلام الطویل‘‘ کذاب اور ’’لیث بن أبی سُلیم‘‘ جیسے مختلط راوی موجود ہیں۔۔۔‘‘۔
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ’’من أوسع علی عیالہ وأہلہ یوم عاشوراء، أوسع اللہ علیہ سائر سنتہ‘‘ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر (کھانے میں) کشادگی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال کشادگی کرے گا۔
اس حدیث کو امام بیہقی نے کئی سندوں سے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی استنادی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’وہذہ الأسانید وإن کانت ضعیفۃ ، فہی إذاضم بعضہا إلی بعض اخذت قوۃ‘‘ یعنی یہ تمام سندیں گرچہ ضعیف (کمزور) ہیں لیکن ایک دوسرے کو ملانے سے قوی ہو جاتی ہے۔
شیخ البانی نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ کہا ہے اور اس کی وارد تمام سندوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’وطرقہ کلہا واہےۃ وبعضہا أشد ضعفا من بعض‘‘ یعنی اس کی تمام سندیں واہی (کمزور) ہیں اور بعض سندیں ضعف کے اعتبار سے شدید ہیں (الضعیفۃ: ۶۸۲۴)
* معلوم یہ ہوا کہ مجرد کثرت طرق کی بناء پر بعض اہل علم کا اسے حسن کہنا اور اس پر عمل کرنے کی عام دعوت دینا درست نہیں ہے۔
* خطباء اور واعظین قوم کی زبان زد حدیث ’’وہو الیوم الذی استوت فیہ السفینۃ علی الجودی فصامہ نوح شکرا‘‘ یوم عاشوراء وہ دن ہے جس میں کشتی نوح علیہ السلام جودی پہاڑی پر ٹھہری تھی، چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا۔
اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند (۱۴؍۳۳۵) میں روایت کیا ہے لیکن سلسلہ اسناد میں ایک راوی عبدالصمد بن حبیب ہے جو ضعیف ہے اور دوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جو مجہول ہے۔
*’’ وفی یوم عاشوراء تاب اللہ عزوجل علی أدم علیہ السلام وعلی مدینۃ یونس، وفیہ ولد إبراہیم علیہ السلام‘‘
یوم عاشوراء کو اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی، اسی طرح یونس علیہ السلام کے شہر والوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے اسی دن خصوصی توجہ فرمائی اور اسی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند کے بارے میں امام ہیثمی نے (مجمع الزوائد :۳؍۱۸۸) میں لکھتے ہیں کہ اس میں ایک راوی ’’عبدالغفور‘‘ ہے جو متروک ہے۔
* حضرت ابن عباس مرفوعا بیان کرتے ہیں ’’صوموا یوم عاشوراء،وخالفوا فیہ الیہود، وصوموا قبلہ یوما أو بعدہ یوما‘‘ تم یوم عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا روزہ رکھو۔
اس حدیث کو امام احمد نے اپنی (مسند ا؍۲۴) اور بیہقی نے (السنن الکبریٰ ۴؍۲۸۷) میں روایت کیا ہے اس کی سند میں ’’ابن ابی لیلیٰ‘‘ اور’’ داؤدبن علی‘‘ دونوں راوی ضعیف ہیں، البتہ امام احمد شاکر کی تحقیق کے مطابق اس کی اسناد صحیح ہے جیسا کہ شیخ محترم ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد مدنی ؍ حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’زادالخطیب‘‘ (۱؍۸۰) میں نقل کیا ہے۔ واللہ أعلم

نیپال میں مسجد کا اڑتا ہوا گنبد: حقیقت یا فریب Dec 2010

نیپال میں مسجد کا اڑتا ہوا گنبد: حقیقت یا فریب
مولانا محمد ثناء اللہ ندوی ،نیپالی جامع مسجد کاٹھمنڈو
اسلام وہ واحد دین ہے جو رہبانیت کی نفی کرتا ہے اور انتہائی سچائی تک پہونچنے کے لئے عقل کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ کیونکہ تحقیق وتجربے میں غور وفکر سے منھ اگر موڑا جائے تو اصل حقائق تک پہونچنے میں دشواریاں ہوتی ہیں۔اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ کسی بھی واقعہ یا خبر کی حقیقت جاننے کے لئے تحقیق ضرورکر لینی چاہئے ۔ہو سکتا ہے وہ واقعہ یا خبر جو کسی بھی ذریعہ سے آپ تک پہونچی ہو جھوٹی اور من گھڑت ہو۔ اسی طرح اسلام میں بہتان طرازی سے بھی منع کیا گیا ہے۔ کسی بھی جھوٹ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے منسوب کرنا بہتان طرازی کے زمرے میں آتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے’’اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے(یونس۔۱۷) اور حدیث میں بھی اس طرح کی جھوٹ سے منع کیاگیا ہے اور سخت وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا’’ مجھ پر جھوٹ مت بولو کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ کسی بھی جھوٹ کو اللہ اوراس کے رسولﷺ کی طرف منسوب کرتا جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنانا ہے۔
آج پوری دنیا میں ایک (Video ) ویڈیو کا بڑا چرچہ ہے اس ویڈیو میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ نیپال میں زیر تعمیر مسجد کے مینار پر گنبد لگانے کے لئے مقامی کرین آپریٹر(Crane operator) سے مدد مانگی گئی تو اس نے انکار کردیا اورکہا کہ تم اپنے اللہ سے مدد مانگو۔ وہیں پر امام صاحب کو بشارت ہوئی کہ گنبد پر کپڑا ڈال کر چھوڑ دو اور دیکھو کیسے اللہ تعالیٰ گنبد کو مینار تک پہونچاتا ہے۔ اس واقعہ کی صرف ایک ہی موبائل ویڈیو(Mobile Video) مختلف لوگوں نے نام کی تبدیلی کے ساتھ مثلاMiracle of Islam in Nepal,Miracle of Islam, Miracle of Allah انٹرنیٹ(Internet) اور یوٹیوب(Youtube) پر اپ لوڈ(Upload) کی ہوئی ہے۔ جسمیں گنبد اڑتا ہو�آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے اور جاکر مینار پر فٹ ہو جاتا ہے، لوگ اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے چیخیں مار کر روتے نظر آتے ہیں۔
بحیثیت مسلمان میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر چیز پرقادر ہے اور اس ذات کے لئے کوئی کام بھی مشکل نہیں ہے۔ اس واقعہ کو ایک معجزہ اور اسلام کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ اور پوری دنیا میں ہنگامہ برپا ہے۔ مختلف ملکوں سے نیپالی جامع مسجد گھنٹہ گھر کاٹھمانڈو اور ملک کے دیگر مساجد میں فون آئے اور نہ جانے کتنے لوگوں کے پاس تحقیقی فون آیا ہوگا۔
سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی نیپال میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے؟ ایسی ویڈیو منظر عام پر لانے کا کیا مقصد ہے؟ اور اس میں کون سے عناصر ملوث ہو سکتے ہیں؟ یہ چند ایسے سوالات ہیں جو ویڈیو دیکھنے کے بعد ذہن میں گردش کرتے رہے ہیں۔ ہم لوگ تو ہمیشہ خیالوں کی دنیا میں رہے ہیں کسی بھی واقعہ یا چیز کی تحقیق کئے بغیر اسے من وعن تسلیم کر لیتے ہیں۔
دھوکہ اور فراڈ کی ایک بے ہودہ سی کوشش:
مذکورہ ویڈیو پہ ذرا سا غور کیا جائے تو حقائق سامنے آتے چلے جائیں گے۔ فراڈی کے فراڈ کو ثابت کرنے کے لئے میں یہی ایک دلیل کافی سمجھتا ہوں کہ ۔ یہ ویڈیو آج سے کوئی تین سال پہلے انڈونیشیا کے ساتھ منسوب کی گئی تھی(Miracle of Islam in Indonesia) کو گوگل(Google) سے سرچ(Search) کیا جائے یہی ویڈیو Dome flying on mosque roof in Indonesia کے نام سے یوٹیوب(Youtube) پر ۱۱ فروری ۲۰۰۸ ؁ ء میں بھی اپ لوڈ(Upload) کی ہوئی ملے گی۔ انڈونیشیا چونکہ اسلامی ملک ہے اور وہاں کرین آپریٹر (Crane Operator) کے انکار کا شوشہ کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے ایک طویل عرصہ کے بعد اس ویڈیو کو پالش کرکے نیپال کے ساتھ جوڑا گیا اور ایک من گھڑت کہانی گھڑی گئی۔
پورے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ پورے نیپال میں ایسی مسجد کہیں نہیں ہے جس کے ساتھ یہ جھوٹا واقعہ پوری دنیا میں مشہور ہو گیا۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ یہ واقعہ نیپال کے ساتھ جوڑا گیا ہے جبکہ اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرنے والے اور چیخیں اور دھاڑیں مار مار کر رونے والے انڈونیشین لوگ ہیں۔ یہ تین دلیلیں تھیں جن سے ثابت ہوجا تاہے کہ نیپال میں یہ واقعہ جھوٹا اور من گھڑت ہے، رہا ویڈیو کا مسئلہ تو اس پہ بھی ذرا سا غور کریں اور عقل کا استعمال کریں تو حقیقت سامنے آجائے۔ گنبد کا آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے ایک ہی زاوئیے میں بلندی تک پہونچنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اسے کسی رسی یا تار کی مدد سے پہونچایا جارہا ہے۔ رالبتہ ویڈیو کا عمدہ رزلٹ (Result) نہ ہونے کہ وجہ سے گنبد سے منسلک تار یا رسی نظر نہیں آرہی ہے، اگر مینار کے اوپری حصہ کو دیکھا جائے تو وہاں کسی چیز کے بندھے ہوئے ہونے کے آثار صاف نظرآئیں گے، اس کے علاوہ مینار کے پچھلے حصہ میں یہ تاریں بہت واضح دیکھائی دیتی ہیں۔ اگرچہ ویڈیو کی کوالٹی (Quality)اتنی واضح نہیں ہے لیکن پھر بھی لگتا ہے جیسے مینار پر چند آدمی پہلے سے موجود ہیں جنہوں نے اس کو اپنی جگہ پر بٹھانے میں مدد کی اور پھر واقعے کے وقت اتنا بڑا مجمع اکٹھا ہونا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ ویڈیو میں اللہ اکبر کا ورد اور لوگوں کی رونے کی آوازیں آرہی ہیں۔ جبکہ آخر میں لوگوں کے تاثرات سے ایسا لگتا ہے جیسے اس طرح کا واقعہ رونما ہی نہیں ہوا۔ اگر وہاں ایسا کچھ واقعہ رونما ہوتا تو لوگ سجدے میں پڑے دیکھائی دیتے۔ لیکن کسی بھی بندے کے چہرے پر خوشی یا پھر جوش وخروش نہیں ہے۔ اور ویڈیو سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں آڈیو (Audio) بعد میں شامل کی گئی ہے کیونکہ موبائل کی ویڈیو میں آڈیو اتنی صاف ہر گز نہ سنائی دی گی۔
آج کل مذہب کے نام پر فراڈ عام ہے۔ اور مذہب کے فراڈوں میں یہ بھی ایک فراڈ ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر بہت بڑا بہتان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی حقانیت ان ڈرامے بازیوں کی محتاج نہیں اور نہ ہی ڈرامے بازیوں سے غیر اسلام حق بن سکتا ہے۔ مسجد کا اڑتا ہو اگنبد یقیناًدھوکہ اور فراڈ کی ایک بے ہودہ سی کوشش ہے اور اس سے صرف کم علم اور کم عقل لوگ ہی بے وقوف بن سکتے ہیں۔
بہت پہلے ایک مرتبہ شور وغل ہوا کہ تھا کہ ہندؤں کے کسی دیوی دیوتا نے دودھ پینا شروع کردیا ہے، تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ وہ کسی پنڈت کی کارفرمائی تھی، زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے (معلوم ہوتے ہوتے جگہ کا تذکرہ کئے بغیر) بارہ ربیع الاول کے موقع پر چھ فٹ لمبی نعلین پاک نکل آئی تھی لوگ میلوں سفر کر کے اندھا دھن زیارت کرتے رہے، بعد میں پتہ چلا کہ اس جگہ کوئی ڈیگ پکائی جارہی تھی۔ بارش نے وہ نشان ابھار دیئے۔ گھر کے مالک نے تو پہلے نعلیں پاک کا شوشہ چھوڑا اور پھر اسی جگہ زمین پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام لکھ ڈالا۔ لیکن اعتراض ہونے پر فوری نام مٹا دئے گئے۔ تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ وہ سب کچھ ایک ڈرامہ تھا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا تھا، اس حرکت سے بیچارے گھر کے مالک رسوا بھی بہت ہوئے تھے اور پھر اس واقعہ کے اگلے دن ایک اور گھر سے بھی نعلین پاک کی برآمدگی کی خبر آئی تھی اور وہاں یہ بھی لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہو گیا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی ایک فراڈ ہے۔ مذہب کے دشمن ایسے فراڈ ہمیشہ کرتے رہے ہیں ۔ لہذا ہماری مسلمان بھائیوں سے اپیل ہیکہ ان کی ظالمانہ حرکت سے متأثرنہ ہوں اور اگر ہمارے بھائیوں نے ایسے ویڈیوز انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ (Download) کیا ہوا ہے اسے دوسروں کو دیکے یا دکھاکے گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کریں بلکہ اسے فورا ڈلیٹ(Delete) کردیں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ مذہب کے فراڈی کا فراڈ ہے۔ وہ کام جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے نہیں کیا اسے ان کے ساتھ منسوب کرنا عظیم گناہ ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
***

فقہ وفتاویٰ dec 2010

فقہ وفتاویٰ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد
سوال:۔ میری ہمشیرہ گھر میں رہتے ہوئے ہمارے بہنوئی سے پردہ کرتی ہے۔لیکن جب اکیڈمی میں پڑھانے کے لئے جاتی ہے تو وہاں موجود سٹاف یعنی مرد اساتذہ سے پردہ نہیں کرتی، اس کے متعلق قرآن وحدیث کی تعلیمات سے آگاہ کریں تاکہ ہماری ہمشیرہ جب پڑھانے کے لئے اکیڈمی جائے تو وہاں بھی پردہ کی پابندی کرے۔
جواب:۔ اللہ تعالیٰ نے مردوزن کا دائرہ عمل الگ الگ متعین کیا ہے تاکہ عملی زندگی میں کسی موقع پر ٹکراؤ کی صورت پیدا نہ ہو کیونکہ اس ٹکراؤ میں جذبات وہیجان میں بے راہ روی کا امکان ہے، خواہش کا دائرہ عمل اندرون خانہ مقرر کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اپنے گھروں میں قرارپکڑے رہو، پہلے دور جاہلیت کی طرح اپنی زیب وزینت کا اظہار نہ کرتی پھرو۔ (الاحزاب:۳۳)
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے لئے اصلی مقام اس کا گھر ہی ہے، اس لئے جہاد، مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی اس پر فرض نہیں ہے، لیکن ہمارے یہاں عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ چلانے کی غیر فطری کوشش کی جاتی ہے پھر ظلم کی انتہایہ ہے کہ مردوزن کے اختلاط کو قرآن وحدیث سے ثابت کیا جاتا ہے حالانکہ وہ گھر کی چار دیواری کی مالک ومختار ہے، گھر کے اندر تمام سر گرمیاں اس کے ماتحت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو اندرون خانہ حجاب کی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور مرد حضرات کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ گھر میں داخل ہونے سے قبل اجازت لیں خواہ وہ گھر ان کی حقیقی ماں ہی کا کیوں نہ ہو، اس کے مقابلہ میں مرد کا دائرہ کاربیرون خانہ ہے تاکہ اللہ کی وسیع زمین میں شریعت کی پابندی کرتے ہوئے ہر قسم کے کام سر انجام دے۔ میدان عمل کی اس تقسیم کے باوجود مردوعورت کی ایک دوسرے کے میدان عمل میں آمدورفت ناگزیر ہے، ہمارے معاشرہ میں اس کا موقع اکثر وبیشتر آتا رہتا ہے، ایسے حالات میں عورت کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ مرد کی اس آزاد مملکت میں جب قدم رکھے تو حجاب کے ساتھ ساتھ غض بصر کی مکمل پابندی کرے اور مرد حضرات کو صرف غض بصر کا پابند کیا گیا ہے تاکہ باہم نظروں کے ملنے یا ایک دوسرے کو دیکھنے سے ان میں جنسی کشش کی تحریک پیدا نہ ہو۔ غض بصر، اسلام کا ایسا پاکیزہ قانون ہے کہ اسے اختیار کرنے سے انسانی معاشرہ فواحش، منکرات اور دیگر خباثتوں سے نجات پاکر پاک وصاف ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’عورت ہر لحاظ سے قابل ستر ہے، جب وہ گھر سے ستر کے بغیر نکلتی ہے تو شیطان اسے تاکتا ہے، تاہم اس کا اپنے گھر کے گوشہ میں رہنا اللہ کی رحمت کا باعث ہے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر ۱۶۸۵)
اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو عریاں حالت میں دیکھ کر مرد شیطانی جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے لہذا عورت کو چاہیے کہ جب وہ کسی مجبوری کے پیش نظر گھر سے نکلے تو وہ مرد کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے تمام محرکات وعوامل سے اجتناب کرے، مرد حضرات کو تاکید کی گئی ہے کہ اگر انہیں نامحرم خواتین سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو پردے کی اوٹ میں کھڑے ہو کر مانگی جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تمہیں کچھ مانگنا ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لئے زیادہ مناسب ہے۔‘‘ الاحزاب:۵۲)