Wednesday 14 April, 2010

Mar-apr 2010خراج تحسین

مولانا مزمل حق مدنی
پرنسپل جامعۃ الامام البخاری
خراج تحسین
ماہ جنوری ۲۰۱۰ء ؁ کی ۱۶؍تاریخ بروز سنیچر حسب اتفاق جامعۃ الامام البخاری کا ایک شعبۂ تعلیم جو جامعہ سے مشرقی جانب ۱۰؍کلو میٹر کے فاصلہ پر بمقام بیلوا واقع ہے،موسم سرما کی مناسبت سے طلباء و طالبات کے مابین کمبل تقسیم کے گیا ہوا تھا، جب کہ دوسرے خطہ میں صدر محترم شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ بذات خود اس عمل کو انجام دے رہے تھے۔
دوران عمل دن کے ساڑھے گیارہ بجے شیخ منیرا لدین سلفی کا روتا ہوا فون موصول ہوا کہ بھائی عبدالمتین دنیا میں نہیں رہے۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعوان۔ قلب وجگر پر یہ خبر بجلی بن کر گری، مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں زمین پر ہوں یا زمین مجھ پرہے، اعتماد نہیں ہورہا تھا، دہشت ایسی تھی کہ ساتھیوں تک خبر پہونچانے کی جسارت نہیں جٹا پارہا تھا، لیکن حق تھا کہ داعی حق کو لبیک کہہ چکے تھے۔
مشرقی بہار کا یہ عظیم داعی ۵۷؍ سال کی عمر میں ۱۶؍۱؍۲۰۱۰ء ؁ بروز سنیچر ساڑھے گیارہ بجے دن عارضۂ قلب میں اللہ کے پیارے ہوگئے اور وصیت کے مطابق آبائی وطن بھلکی، دومہنا، مغربی بنگال میں بجوار والد محترم دفن کیا گیا۔
آپ سے بڑی محبت و عقیدت تھی، آپ کی زیر سرپرستی ناچیز کو تقریباً ۱۹؍سال گذارنے اور تربیت پانے کا سنہری موقع موقع ملا تھا۔ حضر وسفر کے ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی و ادارتی امور کے علاوہ سری معاملات میں بھی تبادلہ خیال کا شرف حاصل تھا۔ غرض یہ کہ بہت قریب سے آپ سے مستفید ہونے کا موقع نصیب تھا، جواب نہ رہا۔
آپ قد آور عالم، پر رعب صاحب اسلوب و بلند عزائم اور دور اندیش بے باک داعی تھے، آپ کے اندر بہترین قائدانہ صفت پائی جاتی تھی، علم وبصیرت کی روشنی میں اسلام کا سچا پیغام دنیا کو تاحیات دیتے رہے۔
مشرقی بہار کا یہ ضلع کشن گنج مسلم اکثریتی علاقہ ہے، جو علم و دانش کے باب میں بنجر اور جہالت وغیرہ میں پورے ہندوستان میں صف اول میں شمار ہوتاہے۔ ایسے نامساعد حالات میں علم کی شمع روشن کرنا معمولی بات نہ تھی،میدان علم و عمل میں وقت کی تیز و تند آندھیوں کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے رہے، علم کے راستہ میں پہونچنے والے مصائب و مشکلات کی پرواہ نہ کی، حالات سے نبر آزما ہو کر تعلیم و تربیت کے پر خار وادی میں کتاب وسنت ، توحید و سیرت کے علمبردار بن کر امن وشانتی کا پیغام دیتے رہے، گندی سیاست، زہریلے قلم رکھنے والے علم و سماج کے دشمن آپ کی صاف و شفاف حیات کو داغدار کرنے اور ان کے ذریعہ روشن کئے گئے شمع کی کرنوں کو بجھانے کی جاں توڑ کوششیں کرتے رہے، لیکن شرار بولہبی ، چراغ مصطفی کو بجھا نہ سکی۔
خود جہاں سے چلے گئے لیکن ادارے پر آنچ آنے نہ دی، مولانا جیسی شخصیت کی جدائی یقیناًہم سب کے لئے شاق ہے، ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے بظاہر اس کا پورا ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
یقیناًآپ کی وفات پر ’’ موت العالِم، موت العالَم‘‘ کا مقولہ صادق آتا ہے۔
مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ علاقہ تعلیمی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے پسماندہ ہے، یہاں ہمہ جہت پسماندگیوں اور پھیلی ہوئی بدعات و رسومات کے پیش نظر مولانارحمہ اللہ کی قیادت میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ نے جو پیش رفت کی، طلباء وطالبات کو علم و عمل اور حرفت و ہنر کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے جامعۃ الامام البخاری، کلیہ عائشہ الاسلامیہ، توحید اکیڈمی، توحید ایڈیل اکیڈمی اور توحید انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں مستفیدین کی تعداد ۱۶۰۰؍ کے قریب ہے اس کے علاوہ بیرون کشن گنج متعدد تعلیمی شعبے جات کی سرپرستی، مزید برآں ایتام و بیوگان کی کفالت سیلاب و ناگہانی آفتوں سے دوچار افراد کا تعاون جس کے ترجیحات میں شامل رہا ہے۔
یہ ایسے بے شمار احسانات و علمی کاوشیں ہیں جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور جب تک دعوت و تعلیم کے یہ روشن ستارے جگمگاتے رہیں گے ان کا شمار صدقات جاریہ میں ہوتا رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
اللہ سے دعاگو ہیں کہ اے اللہ محسن ملت رحمہ اللہ کی مغفرت فرما، ان کے اعمال حسنہ کو قبول فرما، انہیں بہتر سے بہتر اجر عطا فرما۔ ان کے درجات کو بلند فرماتے ہوئے ان کو انبیاء و صدیقین و شہداء اور صالحین کی معیت عطا فرما اور ان کے جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرما۔ اور ان کے ذریعہ قائم کئے گئے جملہ اداروں کی حفاظت فرما۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment