Wednesday 14 April, 2010

آہ! میر ے مربی چلے گئے- Mar-Apr 2010

مولانا منیر الدین سلفی
جامعۃ الامام البخاری، کشن گنج
آہ! میر ے مربی چلے گئے
علم وبصیرت کے آفتاب عزم حوصلہ اور عمل کے مہتاب، سیکڑوں مساجد اور درجنوں معاہدومدارس وجامعات کے بانی و مبانی، جماعت و جمعیت کے رہبر و رہنما، صالح فکر کے سالار و مربی ، قوم و ملت کے مسیحا، رعب و دبدبہ کے حامل، سماجی خدمت گار عالم اسلام کی مایہ ناز ہستی، عظیم داعی، روشن دماغ اعلیٰ خیال کے حامل، کامیاب مدرس أخی الکبیر الجلیل فضیلۃ الشیخ عبدالمتین عبدالرحمن السلفی رحمہ اللہ کا ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء ؁ بروز سنیچر وقت:۳۰:۱۱ بجے دارفانی کو خیر آباد کہتے ہوئے دارالبقاء کی طرف رحلت فرماگئے۔ إناللہ وإنا الیہ راجعون۔
برادرم محترم جن کو رحمہ اللہ کہنے سننے اور لکھنے پہ دل میں ایک چوٹ پڑتی ہے اور آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
میں نے آپ کے ساتھ زندگی کے بیشتر اوقات، تعلیمی و تربیتی مراحل گزارے ،سفر و حضر میں ان کی صحبت و معیت میں رہنے کے مواقع میسرآئے۔ میں نے ان کو روز مرہ زندگی کی محفلوں و مجلسوں میں مرکز نگاہ پایا،وہ فضل و کمال کے اونچے مقام پر فائز و متمکن تھے، منکسر المزاج تھے، صاحب رعب تھے، جس کی بدولت اصحاب جاہ وجلال کی گردنیں بھی خم ہوجاتیں تھیں، سنگ دل شخص بھی آپ کے رعب سے مرعوب ہوجاتے پھر اسی لمحہ آپ کے تبسم سے دل نرم ہوجاتا، مولانا میں ہرکسی کو مسخر کر لینے کی خداداد صلاحیت تھی، ہندوستان و بیرون ہند کی مایہ ناز شخصیات کو ایک لمحہ گفتگو کرنے کا موقع ملنے سے ہی انہیں اپنا جگری دوست بنالیتے تھے، بڑے بڑے دشمن آپ کے سحربیانی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوجاتے اور آپ کے حامی بن جاتے۔
مولانا رحمہ اللہ کوضیافت کا بہت شوق تھا ان کے گھر میں دو چار مہمانوں کا ورود مسعودہمیشہ رہتا تھا اور آپ ایک اچھے میزبان کی حیثیت سے معزز مہمانوں کی مہمان نوازی فرماتے، جس سے مہمانوں کا دل باغ باغ ہوجاتااور مہمانان گرامی مجمع عام میں اس چیز کی تعریف کئے بغیر رہ نہیں سکتے تھے، مولانا رحمہ اللہ طلبۂ جامعہ و اساتذہ کو وقتاً فوقتاً مدعو کرتے اور دعوت سے نوازتے تھے۔
وفات سے پندرہ بیس گھنٹہ پہلے راقم الحروف کومدعو کیا اور خود ہی اپنے ہاتھ سے اٹھا اٹھا کر کھلاتے رہے اور کھانے کے بعد کہا کہ تھوڑی مچھلی اپنے گھر بھی لے جاؤ۔
مولانا رحمہ اللہ روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی تربیت کی طرف کافی دھیان رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاً طلبۂ و اساتذہ کے مابین کھیل کود کا مقابلہ کراتے اور خود بھی شریک مقابلہ ہوتے، جس ٹیم میں آپ ہوتے وہ ٹیم لوگوں کی نگاہ کا مرکز بن جاتی اور ہمت و حوصلہ میں اضافہ ہوجاتا تھا اور نتیجتاً وہ ٹیم کامیاب ہوجاتی۔
راقم الحروف کو مولانا ہمیشہ اپنا بنا کر رکھتے تھے، جس کی وجہ سے رازدارانہ کار منصبی انجام دیا کرتا تھا اور ہر وقت جامعہ کے احاطہ میں رہ کر جو کچھ سرگرمیاں ہوتیں ان پر نظر رکھتے، تاکہ جامعہ میں امن وامان برقرار رہے اور طلبہ و اساتذہ اپنے اپنے مشن میں رواں دواں رہیں۔
راقم سے آپ دل و جان سے محبت کرتے تھے اور خاص خاص سفر میں اپنی معیت میں لیجاتے، کویت، عرب ممالک کا سفر آپ کے ساتھ کرنے کے مواقع میسر آئے،دنیا کی بڑی بڑی ہستیوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ، مولانا نے میری صحیح تعلیم و تربیت کے لئے ’’جامعۃ الملک سعود،ریاض‘‘ جیسے ادارے میں داخلہ کرایا، جس سے سیراب ہوکرآج شب و روز جامعہ کی ترقی کے لئے خدمات انجام دے رہا ہوں۔
مولانا دنیا کے کسی بھی گوشے میں کیوں نہ ہوں مجھ سے برابررابطہ رکھتے تھے اور ہر طرح کی اہم خبریں معلوم کرتے تھے اور ہر وقت ہر لمحہ دینی، تعلیمی و دعوتی سرگرمیوں کو ترقی دینے کے لئے فکر مند رہتے تھے۔
تعلیم وتربیت: آپ کی تعلیم کا آغاز مدرسہ رحمانیہ لابھا بنگر وا، کٹیہار، بہار سے والد محترم فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن مظہری رحمہ اللہ کے سایہ شفقت و عاطفت میں ہوا ، آپ بچپن ہی سے جہد مسلسل و عمل پیہم کے عادی تھے، آپ فطرتاً ذہین تھے، آپ نے چندہی ایام میں بنیادی کتابوں میں مہارت حاصل کرلی تھی، پھر ۱۹۶۱ء ؁ میں اپنے والد محترم کے ہمراہ مدرسہ نظامیہ نورالقمر ،اتردیناج پور،مغربی بنگال میں درجہ اولیٰ الف میں داخلہ لیا، ۱۹۶۷ء ؁ میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے جامعہ مظہرالعلوم پٹنہ میں داخلہ لیا، بھائی محترم عبدالرشید مظہری حفظہ اللہ کے مفید مشورے پر عمل کرتے ہوئے عالمیت کی ڈگری فرسٹ ڈویژن سے حاصل کی، اپنے مشن کو جاری رکھتے ہوئے ایم اے اور فضیلت کی ڈگری ممتاز نمبر سے حاصل کی، آپ نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے ماجستر کی سند ممتاز نمبر سے حاصل کی۔
آپ نے ۱۹۷۳ء ؁ میں مفتی مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند فضیلۃ الشیخ عطاء الرحمن المدنی کے مفید مشورے پر عمل کرتے ہوئے اور منہج سلف صالحین کے متعلق عمیقانہ صلاحیت پیدا کرنے کے لئے مرکز ادارہ جامعہ سلفیہ ،بنارس کا سفر کیا اور وہاں داخلہ لے کر فضیلت کے دوسال میں کافی ریکارڈ قائم کئے اور اول پوزیشن سے فائز المرام ہوئے،جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے سفر کا پیش خیمہ تھا۔
جامعہ اسلامیہ کا سفر: آپ کی علمی صلاحیت اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور شیخ عطاء الرحمن مدنی کی کدوکاوش سے آپ کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہوگیا اور ہر سال ممتاز نمبر سے کامیاب ہوتے رہے، آپ ۱۳۹۹ھ ؁ ۔۱۹۷۹ء ؁ میں کلیہ شرعیہ سے فراغت حاص کی۔
آپ کے اساتذہ و مشائخ: چند اہم اساتذہ کے اسماء درج ہیں:والد محترم فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن مظہری۔ فضیلۃ الشیخ عبدالتواب پرانپوری۔فضیلۃ الشیخ عبدالقیوم الندوی حفظہ اللہ۔ فضیلۃ الشیخ سعیدالرحمن الندوی حفظہ اللہ۔ فضیلۃ الشیخ عبدالمعید بنارسی۔ فضیلۃ الشیخ رئیس الاحرار الندوی رحمہ اللہ۔ فضیلۃ الشیخ شمس الحق السلفی رحمہ اللہ۔فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ۔ فضیلۃ الشیخ ابوبکرجابر الجزائری حفظہ اللہ۔
ان مشائخ کے نام جن سے آپ نے درسی کتابیں تو نہیں پڑھیں لیکن ان سے مستفید ومتاثر ہوئے:
محدث مدینہ فضیلۃ الشیخ حماد الأنصاری رحمہ اللہ۔ محدث عصر و فقیہ الدہر علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ۔ مفتی عام سماحۃ الشیخ عبداللہ بن باز رحمہ اللہ۔ فضیلۃ الشیخ محدث ہند علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ۔ فضیلۃ الشیخ دکتور مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ۔ فضیلۃ الشیخ محمد مسلم الرحمانی رحمہ اللہ۔ فضیلۃ الشیخ اسداللہ الغالب حفظہ اللہ۔
آپ کے شاگردان رشید: آپ کے شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے ، مشہور تلامذہ کے نام پیش کئے جارہے ہیں:
ابوالکلام مدنی بنگلہ دیش، عبدالرحمن المدنی، دکتور عبداللہ فاروق، دکتور رفیق الاسلام المدنی، دکتور ابراہیم المدنی۔
ازدواجی زندگی: آپ کی پہلی شادی ۱۹۷۴ء ؁ میں مفتئ جماعت شیخ عطاء الرحمن مدنی کی صاحبزادی محترمہ مسعودہ سے ہوئی اور ان سے چھ لڑکیاں اور چار لڑکے پیدا ہوئے۔ پھر آپ نے دوسری شادی ۲۰۰۵ء ؁ میں محترمہ نورجہاں بنت ظہور احمد سے کی اور ان سے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔
آپ کی اولاد:
لڑکے: مطیع الرحمن المدنی، چیرمین توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ، کشن گنج۔ عبدالرحمن العادل۔ عبداللہ الکافی۔
لڑکیاں:مفیدہ۔ مرشدہ۔ ریحانہ۔ عائشہ۔ راشدہ۔ حسنہ۔ عبیدہ۔
تدریسی و دعوتی سرگرمیاں: ۱۹۷۱ء ؁ میں آپ نے جامعہ مظہر العلوم پٹنہ مالدہ، مغربی بنگال سے ممتاز المحدثین کی سند حاصل کرنے کے بعد مدرسہ فیض العلوم بڑا سوہار کرندیگھی اتر دیناج پور، مغربی بنگال میں درس وتدریس کا کام شروع کیا، حسن اتفاق یہ تھا کہ ان دنوں ان کے مربی و استاذ والد محترم عبدالرحمن مظہری بھی اسی مدرسہ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے تھے، آپ کی تعلیمی زندگی کا آغاز والد محترم کے زیر نگرانی ہوا تھا اور تدریسی زندگی کی ابتداء بھی مشفق والد محترم کے سایہ تلے ہوئی تھی، آپ ۱۹۷۹ء ؁ میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد وزارۃ الشوؤن الاسلامیہ سعودی عرب کی طرف سے مبعوث ہوکر دس سال تک بنگلہ دیش میں دعوتی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور بدعت و خرافات کی جگہ خالص توحید کا علم بلند کرتے رہے، پھر اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ مولانا نے ہندوستان کے پسماندہ ضلع کشن گنج بہار میں مسلمانوں کے مسائل کو مولانا آزاد کے منہج و فکر پر اور قوم و ملت کی ترقی عصر حاضر کے تنازع میں سرسید احمد کے طرز پر تعلیمی و دعوتی ،رفاہی اور سماجی میدانوں میں خوب نمایاں کارنامہ انجام دلانے کے لئے بنگلہ دیش سے ان کو وطن مالوف کی طرف منتقل کرایا گیا تھا اور آپ کی ذات سے مساجد و جامعات اور رفاہ عامہ کے مراکز قائم ہوئے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
معہد العلوم الاسلامیہ: معہدالعلوم الاسلامیہ کا قیام رمضان ۱۴۰۸ھ ؁ مطابق ۱۹۸۸ء ؁ میں عمل میں آیا تھا اور آپ کے خسر ومفتی شیخ عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ اور آپ کے والد محترم شیخ عبدالرحمن مظہری رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ابتداء ہوئی تھی، پھر دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی اور آج ہندوستان کے مشہور و معروف درسگاہوں میں شمار ہونے لگا۔
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ: مسلمانوں کی اقتصادی و دینی و رفاہی ترقی کے لئے ۱۹۹۰ء ؁ میں اس کی بنیاد ڈالی گئی تھی اورآپ اس ٹرسٹ کے صدر منتخب ہوئے تھے اور تاحیات آپ کے زیر نگرانی یہ ٹرسٹ قوم وملت کے لئے خدمات انجام دیتا رہا۔
جامعۃ الامام البخاری: ۱۹۹۴ء ؁ میں شیخ رحمہ اللہ نے امیر المؤمنین فی الحدیث کی طرف منسوب کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کا مرکز جامعۃ الامام البخاری کے نام سے قائم کیا، جہاں کے صاف منہج سے سیراب ہوکر سلف صالحین کے علمبردار ہند وبیرون ہند میں دعوتی و تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جامعہ عائشہ الاسلامیہ: آپ نے کسی مفکر کے قول ’’ تعلیم یافتہ ماں دومیں تجھے تعلیم یافتہ قوم وسماج دونگا‘‘ کے مصداق تعلیم نسواں کے لئے ۱۹۹۳ء ؁ میں جامعہ عائشہ الاسلامیہ قائم کیا تھا، جہاں سے سیکڑوں فارغات شمالی مشرقی ہندوستان کے افق پر خادمات دین و ملت بن کر ابھریں اور شب و روز کتاب وسنت کی طرف دعوت دینے میں منہمک و مشغول ہیں۔
آئی۔ٹی۔آئی کا قیام: آپ نے قوم و ملت کی ترقی اور ملک کی تعمیر اور بے روزگاری کے حل کے لئے ٹیکنیکل کالج کا قیام ۱۹۹۳ء ؁ میں کیا۔ جہاں سے کسب فیض کے بعد ملک کے مستقبل کے ستارے دنیا کے گوشے گوشے میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔
ڈسپنسری کا قیام: آپ نے طلبہ و اساتذہ اور عوام الناس کے علاج و معالجہ مفت کرانے کے لئے ۲۰۰۱ء ؁ میں شفا خانہ قائم کیا۔ جہاں سے غریب و مفلس افراد شب و روز مستفید ہورہے ہیں۔
توحید ہالٹ کا قیام: آپ نے سیاسی قائدین سے رابطہ کرکے طلبہ و اساتذہ اور عوام الناس کی بھلائی کے لئے جامعہ کے مشرقی جانب ریلوے اسٹیشن ۲۰۰۴ء ؁میں قائم کروایا، جہاں سے لوگوں کی آمد ورفت میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔
علمی خدمات: آپ نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ چند کتابیں بھی تالیف کی ہیں جن کی تعداد سترہ تک پہونچتی ہے مثلاً: (۱۔ التوحید جوہرالاسلام(عربی)،۲۔ روزے کے احکام و اہمیت (بنگلہ)، ۳۔ کلمتان (بنگلہ)۔
ترجمے: ۱۔ کشف الشبہات (بنگلہ)، ۲۔اصول الثلاثہ (بنگلہ)، ۳۔دلیل الحج والعمرہ (بنگلہ) اس کے علاوہ آپ ماہنامہ’’ پیام توحید‘‘ (اردو) کے مؤسس اور مدیر مسؤل تھے۔ بنگلہ میں ماہنامہ’’ توحید ڈاک‘‘ کے بھی مسؤل تھے۔
آخری ایام: چونکہ آپ آخری ایام میں حلیم چوک میں اپنی بودوباش اختیار کئے ہوئے تھے اس لئے پنج گانہ نماز بھی اسی حلیم چوک کی مسجد ہی میں ہوا کرتی تھی، روزانہ بعد صلاۃ فجر اپنے معمول کے مطابق سورج طلوع ہونے تک درس حدیث اور درس قرآن پر مواظبت برتتے تھے، فجر کی اذان ہوتے ہی پڑوس کی طرف جاتے اور انہیں نماز کی تلقین کرتے۔
شیخ نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ جامعۃ الامام البخاری کی جامع مسجد میں بعنوان ’’إن الدین عنداللہ الإسلام‘‘ پر نہایت جامع ومانع انداز میں دیا تھا۔
انتقال پرملال: بروز سنیچر بوقت۳۰:۱۱؍بجے آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی، خبر ملتے ہی وہاں پہونچا جیسے ہی میں آپ کے کمرے میں داخل ہوا آپ نے اپنے سر کو میرے زانوں پر رکھ دیا اور اس دارفانی کو الوداع کہا اور میں دیکھتا ہی رہ گیا کہ میرا بڑابھائی اور میرا مشفق و مربی اور زندگی بھر کا ساتھی آج تن تنہا رفیق اعلیٰ کے پاس چلا گیا۔اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment