Wednesday 14 April, 2010

مولانا عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ Mar-Apr 2010

ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی
شعبۂ عربی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
مولانا عبدالمتین سلفی کے لئے رحمہ اللہ کہنے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جس شخص کو آپ عرصہ سے جانتے ہوں،بارہا ساتھ رہے ہوں، ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہاہو، جس کے علمی برتاو کے علاوہ ذاتی اطوار کو بھی آپ نے برتا ہو، اچانک وہ آپ سے جدا ہو جائے ہمیشہ کے لئے، یہ صدمہ معمولی نہیں ہوتا۔ لیکن قانون قدرت ہے کہ ہمیشگی فانی مخلوق کو میسر نہیں ۔ کل من علیہا فان و یبقی وجہ ربک ذو الجلال و الاکرام۔ صبر جمیل کے علاوہ بندہ مومن کے پاس چارہ اور ہے ہی کیا؟
مولانا رحمہ اللہ سے میرے مراسم کافی قدیم تھے۔ آخر پندرہ سالوں کا عرصہ کسی بھی حساب سے کم نہیں ہوتا۔ میری علی گڑھ آمد کے تھوڑے دنوں بعد ہی سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔شمالی بہار کا خطہ پوری انسانی تاریخ میں مردم خیز رہاہے۔ قدیم و جدید ہندوستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے والوں کے لئے اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ ہمیں مثال نہ تو ہمہ کی دینی ہے اور نہ شما کی۔ دو ٹوک بات یہ کہنی ہے کہ مولانا عبد المتین رحمہ اللہ جس شخصیت کے مالک تھے اور جو اہم کارنامے انہوں نے ملت کے لئے انجام دئے ہیں وہ تاریخ ملت میں سنہرے حرفوں سے لکھے جائیں گے۔
کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے جب پہلی بار میری ملاقات مولانا سے ہوئی۔ان دنوں میں نیا نیا لکچرار بنا تھا۔ مولانا کسی کام سے علی گڑھ تشریف لائے تھے۔ ملاقات کے لئے وہ خود میری رہائش گاہ تشریف لائے۔ گفتگو زیادہ تر ملت اور مسلک کے علمی اور سماجی موضوعات پر رہی۔ اپنے علاقہ اور اس کی تعلیمی بہبود پر بھی باتیں ہوئیں۔ علی گڑھ کے کردار پر بھی گفتگو ہوئی۔ مولانا در اصل ایسے ذہنوں کی تلاش میں تھے جو کچھ کرنے کی تڑپ رکھتے ہوں۔ اس وقت کشن گنج میں مولانا کے کارناموں کا منظر نامہ وہ نہیں تھا جو اس وقت ہے۔ علی گڑھ اور کشن گنج کی دوری کو مولانا مستقبل قریب میں کم کرنا چاہتے تھے۔ اس سمت میں پہلا قدم معہد کی سند کا علی گڑھ سے معادلہ تھا ۔ شعبہ عربی کی بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹنگ میں معہد کے سند کی منظوری کا پہلا مرحلہ کامیابی کے ساتھ طے کر لیا گیا۔ لیکن ایک خاص مرحلہ میں یونیورسیٹی کے کچھ خاص اہل کاروں نے اپنے گروہی اور مسلکی عصبیتوں سے مجبور ہوکر آگے کے لئے رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ دوبارہ معہد کی فائل منگوائی گئی۔ دوبارہ شعبہ کی میٹنگ میں معادلہ کی سفارش کی گئی۔ شعبہ صرف سفارش کر سکتا ہے۔ آگے کا کام رجسٹرار آفس کا ہے۔
راقم کی ذہنی تربیت جس ماحول میں ہوئی تھی وہاں مسلکی ترجیحات کو ملی مسائل کے ایجنڈے میں بنیادی مقام حاصل نہیں تھا۔ لیکن اسلامیان ہند کا عملی رویہ اس زاویہ نگاہ سے بیر رکھتا ہے۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے جس کا سامنا ہم آئے دن کرتے ہیں اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ مسلکی ترجیحات کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ مفاہمت کل بھی پر کار اورمصلحت آمیز ہوتی ہے اور سادہ لوحی کو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ دینی قدروں کی اساسیات کی تشریح و تعبیر میں بین مسلکی مفاہمت کے لئے کس حد تک زبان، بیان اور طرز عمل کو لچیلا بنایا جا سکتا ہے اور خرد کی آنکھوں کو موند کر رکھنے کی تلقین کی جا سکتی ہے چشم فلک نے یہی دیکھا ہے کہ ہوشمندی کے آذرکس طرح نئے صنم تراش لیتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے ایک لمحہء فکریہ ہے جو بقوت ہمیں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مستقبل کی تعمیر میں ماضی کی یاد داشت کو پس پشت ڈالنا خود فریبی ہے جو کبھی مثبت نہیں ہوتی۔ مولانا اپنی نجی مجلسوں اور گفتگووں میں اس مسئلہ کی ہمہ جہتی اہمیت کا احساس دلاتے تھے۔
دہلی میں مولانا کی رہائش گاہ میں ایک دفعہ ایک ملاقات کے دوران اسلام کے خلاف معاندانہ رویہ رکھنے والوں کے ضمن میں گفتگو ہوئی۔ اہل وطن کے ساتھ ساتھ مستشرقین یورپ کے رویوں کا حوالہ بھی آیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس سلسلہ میں عالم اسلام میں جو کام ہوا ہے اس کو واضح الفاظ میں سراہا جانا چاہئے۔ لیکن کچھ پہلو ہیں جن پر مفصل کام ہونا باقی ہے۔ مستشرقین یا تو غالی قسم کے یہودی یا عیسائی ہیں جن کی اسلام دشمنی ایک کھلی کتاب ہے جسے کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔ یا پھرکٹر عقلیت پرست ہیں جو اساسیات دین کو مارکسی فلسفہ کے طور پر برتنا چاہتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے رد عیسائیت کے علاوہ منطقیوں اور فلسفیوں کی بے مایگی پر بے مثال بصیرت افروزانہ کارنامے انجام دئے ہیں۔ ان کی کتابیں خاص کرالجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح اور کتاب الرد علی الدہریین نمائندہ مثالیں ہیں۔ اس موضوع کو اس کے مناسب سیاق و سباق میں آج کی زبان میں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا کام یہ ہے کہ مستشرقین یورپ نے اسلامیات کے مطالعہ میں جو طریقہ کار کو اپنایا ہے اس کا معروضی تجزیہ کیا جاہے۔ مستشرقین یورپ پر سرسری انداز سے گفتگو کرنا بہت آسان ہے۔ ان کے لئے ناموزوں الفاظ کا استعمال کرنا اور بھی آسا ن ہے۔ مگر استشراق کی جڑوں کو سمجھنے کے لئے صرف اردو عربی کا سرمایہ کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے یورپی زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔ انگریزی یورپ کی ایک زبان ہے جس سے واقفیت ضروری بھی ہے۔ لیکن یہ سمجھ لینا کہ صرف انگریزی سمجھ لینے سے استشراق اور مستشرقین کو سمجھنا کافی ہوگا ایک بنیادی غلطی ہے۔ فرانسیسی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں میں مستشرقین نے زیادہ کام کئے ہیں۔ ان زبانوں کے جاننے وا لے بر صغیرکے مسلمانوں میں کتنے ہیں؟ لہذا ضرورت ایسے مطالعوں کو سامنے لانے کی ہے جن میں استشراق کو اس کے اصل مصادر میں پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ میرے ناقص مطالعہ کی حد تک اب تک اس موضوع پرسب سے اہم کام فرانسیسی میں کیا گیا ہے جس کو میں اردو میں منتقل کرنا چاہتاہوں۔ یہ کام L'Islam dans le miroir de l'occident کے نام سے ہے جس کا مصنف Jean-Jacques Waardenburg ہے اور جو سنہ ۱۹۶۲ میں پیرس سے شائع ہو ئی ہے۔ اس کتاب کا انداز اڈوارڈ سعید کی مشہور کتاب Orientalism (1977) اور نارمن دانیال کی معروف تصانیف سے جدا ہے۔ لیکن عربی میں بھی ایک اہم کتاب سامنے آئی ہے جو دراصل متعدد علمی اور تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب مناھج المستشرقین فی الدراسات العربیۃ و الاسلامیۃ کے نام سے ہے جس کو مکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج نے شائع کیا تھا۔ اس کو میں اردو میں منتقل کر چکاہوں۔ مولانا نے برجستہ فرمایا کہ آپ اس کا مسودہ ہمیں دے دیں۔ کتاب ایک ہفتہ میں چھپ جائیگی۔ اور ہوا بھی یہی۔ ایک ہفتہ میں کتاب چھپ گئی اور علمی حلقوں نے اس کی بڑی پزیرائی کی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے رد یہود ، نصاری ، مناطقہ ، فلاسفہ کے بارہ میں سلسلہ وار مضامین کے لئے ماہنامہ ’’پیام توحید‘‘ کے صفحات خاص کر دئے گئے۔ بعد میں اس رسالہ کی ادارت بھی راقم کے سپرد کر دی گئی۔ مولانا کی علم نوازی کی یہ ایک ادنی مثال ہے۔
مولانا بڑے ملنسار انسان تھے۔ ان جیسی قامت کے لوگوں کے لئے ملنساری کو پابندی سے برتنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ جس انسان کے دوستانہ تعلقات وزرائے اعظم، گورنروں، مرکزی وزیروں ، سفیروں اور حکومت کے اعلی افسران سے ہو اور جس کی ایک دعوت سے کشن گنج جیسے ایک معمولی شہر میں ملکی و غیر ملکی عظیم ہستیوں اور معزز مہمانوں کا تانتا بندھ جاتا ہو، اس کو عمومی اخلاقیات سے آپ بھلے ہی نظریاتی طور پر مستثنی نہ کریں لیکن ملنساری کے ان پیمانوں کی توقع عملی طور پر بیجا ہوتی ہے ۔ لیکن مولانا کا طرز عمل اس پہلو سے منفرد تھا۔ ان کی ملنساری اور خورد نوازی کم علموں کو بھی عظیم ہونے کا احساس دلاتی تھی۔ مولانا کی عظمت کا یہ ایک منفرد پہلو تھا۔
مولانا ایک طرف اگر ادارہ ساز تھے تو دوسری طرف مردم ساز بھی۔ روایتی دینی تعلیم کے وقار کو بلند کرنے میں مولانا نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کی نظر میں دینی تعلیم کو بیساکھی
بننے سے روکنا سماج کااہم فریضہ تھا۔ معہد کو عصری ملکی و غیر ملکی اداروں سے جوڑنا اور ایسے اداروں کی تاسیس جو انسان کو خود کفیل بناتے ہوں مولانا کی دور بینی اور ژرف نگاہی کے واضح ثبوت ہیں۔
علی گڑھ سے مولانا کی بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس کے لئے صفحات درکار ہیں۔ اسی سلسلہ میں مسلم یونیورسیٹی کے سابق نسیم احمد صاحب سے راقم نے ایک وفد کی ملاقات کرائی تھی جس کی سربراہی مولانا نے کی تھی۔ اصل میں علی گڑھ کا ایک اپنا ورک اسٹائل ہے۔ یہ خود کس حد تک مسئلہ ہے اس پر بڑے خوبصورت افسانے تحریرکئے جا سکتے ہیں۔ عملی زندگی میں فسوں بھی ہوتے ہیں افسانے بھی۔ وہ ٹھوس سچائیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ زندگی ان سب کا حسین آمیزہ ہوتی ہے۔ اس آمیزہ میں ترشی بھی ہوتی ہے، شیرینی بھی۔ کمال صنعت گری تو یہ ہے کہ اسی آمیزہ سے آب حیات تیار کیا جائے۔ مولانا میں یہ کمال تھا۔

1 comment:

  1. jazakallh, aisi talkh haqeeqat ka aap ne ehsaaas karaya jis ki tawqqo AMU men nahi ki jasakti, Allah aap ko jazaye khair se nawaze, Aapki shakhsiyat ek aalmi shakhsiyat hai. Allah aap se khoob Kaam Le.
    Abdus Saboor Nadvi
    KSU, Riyadh

    ReplyDelete