Wednesday 14 April, 2010

مرکز التوحید (مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ) کرشنانگر،نیپال میں تعزیتی نشست

9؍جنوری ۲۰۱۰ء ؁ چیئر مین توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ، کشن گنج ، بہاراور رئیس جمعیت خریجی الجامعات السعودیۃ فی الہند ونیبال شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کی وفات کی خبر بعد نماز ظہر جیسے ہی مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ پہونچی مہتمم مدرسہ مولانا عبدالوہاب ریاضی حفظہ اللہ نے ایک دن کی تعطیل کا اعلان کیا اور آپ کی وفات کو قوم وملت کا ایک عظیم خسارہ قرار دیا۔
۱۷؍جنوری۲۰۱۰ء ؁مرکز التوحید (مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ) کرشنانگر،نیپال میں ایک تعزیتی نشست جناب مولانا عبدالمنان سلفی حفظہ اللہ کی صدارت میں منعقد ہوئی اور نظامت کا فریضہ راقم الحروف نے انجام دیا۔
راقم الحروف کو شیخ رحمہ اللہ کے یہاں جامعۃ الامام البخاری میں تدریسی فرائض انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، اس لئے انہیں قریب سے دیکھنے کا جو موقع ملا اس تعزیتی نشست میں اسے باختصار پیش کیا گیا۔
مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کرشنانگر،نیپال کے استاذ جناب مولانا عبدالمجید مدنی ؍حفظہ اللہ نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ شیخ رحمہ اللہ نے اپنی دعوت کا آغاز بنگلہ دیش سے کیا لیکن سیاسی حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے آپ کو بنگلہ دیش خیر باد کہنا پڑا پھر آپ نے کشن گنج کو بھرپور اپنی دعوت کا مرکز بنایا۔
جناب مولانا مطیع اللہ مدنی حفظہ اللہ نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا:پچھلے چند ماہ میں جماعت اہل حدیث کی متعدد نامور شخصیات کا انتقال ہوا۔ رئیس القلم مولانا محمد رئیس ندوی صاحب تصانیف کثیرہ، زاہد وعابد مولانا عابد حسن رحمانی،عربی زبان وادب کے ماہر، مفکر جماعت ڈاکٹر حافظ مقتدیٰ حسن ازہریؔ رئیس جامعہ سلفیہ کے بعد فضیلۃ الشیخ عبدالمتین عبدالرحمن سلفی صدر جمعیۃ التوحید التعلیمیۃ والخیریہ کشن گنج، صدر فارغین سعودی جامعات ہندونیپال اورصدر جامعہ الامام البخاری کشن گنج کا انتقال پرملال، ایک غم ناک امر ہے ، ایسے میں شاید ہم کہہ سکتے ہیں:
صبت علی مصائب لو أنہا صبت علی الأیام صرن لیالیا
ایسے حالات میں أسوہ نبی ﷺ کی روشنی میں جیسا کہ آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت پر فرمایا تھا: العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول إلا ما یرضیٰ ربنا وإنا علی فراقک لمحزونون یا إبراہیم۔ہم بھی کہتے ہیں آنکھ اشک بار، دل رنجور اور ہم وہی بات کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو۔
آپ کی وفات ایک خانوادہ کا نہیں بلکہ ملت وجماعت کا غم ہے اورعظیم ملی خسارہ ہے، مولانا عبدالمتین سلفی جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فارغ التحصیل تھے، آپ نے بنگلہ دیش میں اپنی دعوتی وتدریسی زندگی کا آغاز کیا اور اپنی دعوتی سرگرمیوں سے وہاں اس قدر مؤثر رہے کہ حکومت کی چولیں ہلتی نظر آنے لگیں۔میں سمجھتا ہوں کہ وہاں پر ان کی دعوتی سرگرمیاں ان کی زندگی کا سب سے روشن باب ہے۔
آپ نے کئی کتابوں کا بنگلہ زبان میں ترجمہ کیا وہ اشاعت پزیر ہوکر بڑے پیمانے پر تقسیم کی گئیں۔مولانا کی خدمات کا دائرہ وسیع تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی بشری لغزشوں سے درگذر فرمائے اور ان کے حسنات قبول فرماکر جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔
صدر نشست جناب مولانا عبدالمنان سلفی حفظہ اللہ نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا: مولانا ایک کامیاب تجربہ کار منتظم اور بہت ساری خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے، جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد موصوف جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں سے کسب فیض کے بعد آپ نے بہت دنوں تک بنگلہ دیش میں موثر دعوتی خدمات انجام دیں، اس کے بعد آپ اپنے وطن ہندوستان واپس تشریف لائے اور مغربی بنگال کی سرحد پر واقع کشن گنج (بہار) میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کے تحت مختلف تعلیمی، دعوتی اور رفاہی شعبے اور اسکول ومدرسے قائم کئے جن میں بچوں کی تعلیم کے لئے قائم جامعۃ الام البخاری سرفہرست ہے۔
واضح رہے کہ صدر مرکز شیخ عبداللہ مدنی جھنڈانگری حفظہ اللہ شیخ رحمہ اللہ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے کشن گنج پہونچے، جہاں ہزاروں افراد نے شیخ عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی اور پر نم آنکھوں سے انہیں سپرد خاک کیا۔

No comments:

Post a Comment