مولانا عبد المنان سلفی
مدیر السراج، جھنڈا نگر، نیپال
مدیر السراج، جھنڈا نگر، نیپال
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
جماعتی، دعوتی ،علمی اوررفاہی حلقوں میں یہ خبر بجلی بن کر گری کہ جماعت اہل حدیث کے مایہ ناز سپوت اور ممتاز عالم دین جناب مولاناعبدالمتین سلفیؔ (کشن گنج،بہار) کا۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء بروزہفتہ ہارٹ اٹیک کے عارضہ میں اچانک انتقال ہوگیا،انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالمتین سلفیؔ رحمہ اللہ ایک بالغ نظر داعی، تجربہ کارمنتظم، حوصلہ مندانسان اورسوجھ بوجھ رکھنے والے قائد تھے، جامعہ سلفیہ بنارس سے فضیلت کی سندحاصل کرنے کے بعدموصوف جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں کلیۃ الشریعۃسے ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۹۷۹ء میں بی.اے. کا کورس مکمل کیا،جامعہ اسلامیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ ایک داعی اورمبلغ کی حیثیت سے بنگلہ دیش تشریف لے گئے اورتقریباً دس برس تک وہاں بڑے اور منظم پیمانہ پر دعوت کے میدان میں موثر،نمایاں اور ٹھوس خدمات انجام دیں، بنگلہ دیش سے واپسی کے بعدبنگال سے لگے بہار کے شہر کشن گنج میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی داغ بیل ڈالی اوراس کے پلیٹ فارم سے تعلیمی، دعوتی، ملی، رفاہی اورسماجی خدمات کا ایک قابل قدرسلسلہ جاری کیا اوربہت جلد اپنی مخلصانہ خدمات کے سبب اس علاقہ میں ملت اسلامیہ کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔
کشن گنج مسلم اکثریتی پارلیمانی حلقۂ انتخاب کے طورپر جاناجاتاہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 65فیصدہے، مگراس خطہ میں تعلیم کا تناسب حددرجہ مایوس کن رہاہے، مولانا سلفیؔ نے اس خطہ سے جہالت اورناخواندگی کو دور کرنے کا عزم مصمم کیا اور جگہ جگہ علم کی شمع روشن کرنے کا بیڑہ اٹھایا،چنانچہ لڑکوں کی تعلیم کے لئے ۱۹۸۸ء میں آپ کے والد بزرگوار مولانا عبدالرحمن سلفی رحمہ اللہ اورآپ کے خسرمحترم مولانا محمدعطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے معہد العلوم الإسلامیۃ کے نام سے جس تعلیمی ادارہ کی داغ بیل ڈالی تھی اسے ترقی دے کر بام عروج پرپہونچایا اوراس کانام جامعۃالامام البخاری رکھا، بچیوں کی تعلیم کے لئے ۱۹۹۳ء میں جامعۃ عائشۃ الإسلامیۃ للبنات کی تاسیس فرمائی اور ان دونوں تعلیمی اداروں کے ذریعہ پہلی بار اس خطہ میں بچوں وبچیوں کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا، کشن گنج میں قائم ان دوبڑے تعلیمی اداروں کے علاوہ آپ نے پورے سیمانچل بلکہ مشرقی بہار،مغربی بنگال ،آسام اورجھارکھنڈ کے مختلف علاقوں میں مکاتب ومدارس کا ایک جال بچھادیا، ساتھ ہی رفاہی اورسماجی خدمات کی جانب بھی بھرپور توجہ دی اوراس پچھڑے اورپسماندہ علاقہ میں بڑے پیمانہ پررفاہی کارنامہ انجام دے کرسماج میں اپنی خاص پہچان بنائی۔
مذکورہ خالص دینی تعلیمی اداروں کے علاوہ آپ نے عصری اورپیشہ ورانہ تعلیم کے لئے بھی معیاری اداروں کے قیام کاخاکہ بنایاتھا، جن میں آئی.ٹی.آئی. کالج کی تعمیر و قیام میں آپ کامیاب بھی ہوئے اوراس کے ذریعہ قوم وملت کے ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل روشن و تابناک ہوا، بی.ایڈ. کالج کامنصوبہ غالباً پایۂ تکمیل کو پہونچنے والا تھاکہ آپ کے انتقال کاسانحہ پیش آگیا، نیز اس کے علاوہ انجینئرنگ کالج اور میڈیکل کالج جیسے اہم منصوبے آپ کے پیش نظر تھے، اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل کاسامان پیدافرمائے۔(آمین)
مولاناعبدالمتین سلفیؔ حددرجہ ذہین اورسوجھ بوجھ رکھنے والے دینی قائد تھے، وہ ہمیشہ ملت کے فلاح وبہبود کے لئے سوچتے، منصوبے بناتے اورانھیں روبہ عمل لانے کی تدبیریں اختیار کرتے، وہ مشکلات ومسائل سے نہ گھبراتے تھے اورنہ کبھی اپنا بڑھایاہوا قدم پیچھے کرنے کے قائل تھے، وہ ہردم رواں دواں رہتے، اپنے مشن کے لئے دوڑدھوپ ہی ان کی زندگی کا مقصدتھا، میں نے سناہے کہ فجرکی نماز کے بعدوہ روزانہ اپنے تعلیمی اداروں اورتعمیراتی کاموں کا معائنہ ومشاہدہ ضرور کرتے تھے اورمتعلقہ ذمہ داران سے مل کرانھیں رہنمائی فرماتے۔
مولاناعبدالمتین سلفی تعلقات بنانے میں بھی یکتاتھے، اپنے رکھ رکھاؤ اور طرز گفتگو سے وہ جلد ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ کرلیتے تھے، ہندوبیرون ہند کی عظیم علمی، دعوتی اورسیاسی شخصیات سے آپ کے دیرینہ اورگہرے روابط تھے، یہ سارے بڑے لوگ آپ کی خدمات کوسراہتے اورقدرکی نظرسے دیکھتے تھے، مولاناسلفی غالباً اپنی جماعت کے منفرد ایسے عالم تھے جن کے سیاسی روابط ملک کے اہم قائدین سے سب سے زیادہ مضبوط تھے، ان سیاسی روابط سے بلا شبہ تعلیمی ودعوتی میدان میں آپ کوسہارا بھی ملاہے۔
ان گونا گوں اوصاف وکمالات کے ساتھ آپ ایک کامیاب داعی اوربے باک مبلغ بھی تھے، بنگلہ جوآپ کی مادری زبان تھی اس میں آپ بڑی موثرتقریر یں کرتے تھے،سال گذشتہ جامعہ سلفیہ حولی،.ضلع برپیٹا، آسام کے ناظم مولانا جمال الدین سلفی کی دعوت پروہاں کے سالانہ دعوتی اجلاس میں مولانا عبدالواجد فیضیؔ (مدیرنوائے اسلام ،دہلی) کی معیت میں شرکت کاموقعہ ملا، وہاں شیخ عبدالمتین سلفیؔ کی بنگلہ تقریر سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، بنگلہ زبان توہمیں نہ آتی تھی تاہم سیاق وسباق سے کچھ باتیں سمجھ میں آجاتی تھیں، موصوف نے اپنے مخصوص انداز میں دیرتک لوگوں کو مستفید فرمایا اورگاہے گاہے اپنی گفتگو سے مجلس کو قہقہہ زار بناتے رہے، عوام آپ کی تقریر بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ سن رہے تھے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ آپ کا بڑا لحاظ کررہے ہیں اور آپ کے منہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو سینوں میں محفوظ کرلینا چاہتے ہیں،آپ بنگلہ کے سوا اردواورعربی پر بھی مکمل قدرت رکھتے تھے بلکہ اردو کے مقابلہ عربی زیادہ روانی سے بولتے اورلکھتے تھے۔
مولاناسلفی بہت ساری خوبیوں اورصلاحیتوں کے مالک تھے، ان کی ایک خوبی جسے میں نے اپنے طورپر محسوس کیا کہ وہ کبھی بھی کسی سے مرعوب نہ ہوتے تھے اور پوری بے باکی اورجرأت کے ساتھ اپنے موقف پرڈٹے رہتے تھے۔جمعیت وجماعت سے بھی وہ وابستہ رہے اوراپنے طورپر اس کی خدمت کرتے رہے، سعودی جامعات کے فارغین کی انجمن کے بھی وہ صدر نشیں تھے اوراس پلیٹ فارم سے بھی وہ تعلیمی ودعوتی خدمات انجام دیتے رہے، علمی باقیات میں بنگلہ اوراردوزبان میں ان کے لکھے گئے کئی چھوٹے موٹے رسالے ہیں جن کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، کچھ سالوں پیشتر موصوف نے پیامِ توحید نام سے ایک اردو ماہنامہ بھی جاری کیا تھا۔
ایسے گونا گوں اوصاف وکمالات کے حامل شخص کے اٹھ جانے سے ملت وجماعت کو جوناقابل تلافی نقصان پہونچاہے اس پرہر حساس دل غمزدہ ہے،اللہ تعالیٰ موصوف کی خدمات قبول فرمائے اوران کے ورثاء اورجانشینوں کواس بات کی توفیق دے کہ وہ ان کے مشن کوکامیابی سے آگے بڑھائیں اوران کے لگائے گئے علمی پودوں کی خلوص کے ساتھ آبیاری کریں کہ بادسموم کے جھونکے انھیں نقصان نہ پہونچاسکیں۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ۔***
مولانا عبدالمتین سلفیؔ رحمہ اللہ ایک بالغ نظر داعی، تجربہ کارمنتظم، حوصلہ مندانسان اورسوجھ بوجھ رکھنے والے قائد تھے، جامعہ سلفیہ بنارس سے فضیلت کی سندحاصل کرنے کے بعدموصوف جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں کلیۃ الشریعۃسے ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۹۷۹ء میں بی.اے. کا کورس مکمل کیا،جامعہ اسلامیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ ایک داعی اورمبلغ کی حیثیت سے بنگلہ دیش تشریف لے گئے اورتقریباً دس برس تک وہاں بڑے اور منظم پیمانہ پر دعوت کے میدان میں موثر،نمایاں اور ٹھوس خدمات انجام دیں، بنگلہ دیش سے واپسی کے بعدبنگال سے لگے بہار کے شہر کشن گنج میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی داغ بیل ڈالی اوراس کے پلیٹ فارم سے تعلیمی، دعوتی، ملی، رفاہی اورسماجی خدمات کا ایک قابل قدرسلسلہ جاری کیا اوربہت جلد اپنی مخلصانہ خدمات کے سبب اس علاقہ میں ملت اسلامیہ کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔
کشن گنج مسلم اکثریتی پارلیمانی حلقۂ انتخاب کے طورپر جاناجاتاہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 65فیصدہے، مگراس خطہ میں تعلیم کا تناسب حددرجہ مایوس کن رہاہے، مولانا سلفیؔ نے اس خطہ سے جہالت اورناخواندگی کو دور کرنے کا عزم مصمم کیا اور جگہ جگہ علم کی شمع روشن کرنے کا بیڑہ اٹھایا،چنانچہ لڑکوں کی تعلیم کے لئے ۱۹۸۸ء میں آپ کے والد بزرگوار مولانا عبدالرحمن سلفی رحمہ اللہ اورآپ کے خسرمحترم مولانا محمدعطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے معہد العلوم الإسلامیۃ کے نام سے جس تعلیمی ادارہ کی داغ بیل ڈالی تھی اسے ترقی دے کر بام عروج پرپہونچایا اوراس کانام جامعۃالامام البخاری رکھا، بچیوں کی تعلیم کے لئے ۱۹۹۳ء میں جامعۃ عائشۃ الإسلامیۃ للبنات کی تاسیس فرمائی اور ان دونوں تعلیمی اداروں کے ذریعہ پہلی بار اس خطہ میں بچوں وبچیوں کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا، کشن گنج میں قائم ان دوبڑے تعلیمی اداروں کے علاوہ آپ نے پورے سیمانچل بلکہ مشرقی بہار،مغربی بنگال ،آسام اورجھارکھنڈ کے مختلف علاقوں میں مکاتب ومدارس کا ایک جال بچھادیا، ساتھ ہی رفاہی اورسماجی خدمات کی جانب بھی بھرپور توجہ دی اوراس پچھڑے اورپسماندہ علاقہ میں بڑے پیمانہ پررفاہی کارنامہ انجام دے کرسماج میں اپنی خاص پہچان بنائی۔
مذکورہ خالص دینی تعلیمی اداروں کے علاوہ آپ نے عصری اورپیشہ ورانہ تعلیم کے لئے بھی معیاری اداروں کے قیام کاخاکہ بنایاتھا، جن میں آئی.ٹی.آئی. کالج کی تعمیر و قیام میں آپ کامیاب بھی ہوئے اوراس کے ذریعہ قوم وملت کے ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل روشن و تابناک ہوا، بی.ایڈ. کالج کامنصوبہ غالباً پایۂ تکمیل کو پہونچنے والا تھاکہ آپ کے انتقال کاسانحہ پیش آگیا، نیز اس کے علاوہ انجینئرنگ کالج اور میڈیکل کالج جیسے اہم منصوبے آپ کے پیش نظر تھے، اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل کاسامان پیدافرمائے۔(آمین)
مولاناعبدالمتین سلفیؔ حددرجہ ذہین اورسوجھ بوجھ رکھنے والے دینی قائد تھے، وہ ہمیشہ ملت کے فلاح وبہبود کے لئے سوچتے، منصوبے بناتے اورانھیں روبہ عمل لانے کی تدبیریں اختیار کرتے، وہ مشکلات ومسائل سے نہ گھبراتے تھے اورنہ کبھی اپنا بڑھایاہوا قدم پیچھے کرنے کے قائل تھے، وہ ہردم رواں دواں رہتے، اپنے مشن کے لئے دوڑدھوپ ہی ان کی زندگی کا مقصدتھا، میں نے سناہے کہ فجرکی نماز کے بعدوہ روزانہ اپنے تعلیمی اداروں اورتعمیراتی کاموں کا معائنہ ومشاہدہ ضرور کرتے تھے اورمتعلقہ ذمہ داران سے مل کرانھیں رہنمائی فرماتے۔
مولاناعبدالمتین سلفی تعلقات بنانے میں بھی یکتاتھے، اپنے رکھ رکھاؤ اور طرز گفتگو سے وہ جلد ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ کرلیتے تھے، ہندوبیرون ہند کی عظیم علمی، دعوتی اورسیاسی شخصیات سے آپ کے دیرینہ اورگہرے روابط تھے، یہ سارے بڑے لوگ آپ کی خدمات کوسراہتے اورقدرکی نظرسے دیکھتے تھے، مولاناسلفی غالباً اپنی جماعت کے منفرد ایسے عالم تھے جن کے سیاسی روابط ملک کے اہم قائدین سے سب سے زیادہ مضبوط تھے، ان سیاسی روابط سے بلا شبہ تعلیمی ودعوتی میدان میں آپ کوسہارا بھی ملاہے۔
ان گونا گوں اوصاف وکمالات کے ساتھ آپ ایک کامیاب داعی اوربے باک مبلغ بھی تھے، بنگلہ جوآپ کی مادری زبان تھی اس میں آپ بڑی موثرتقریر یں کرتے تھے،سال گذشتہ جامعہ سلفیہ حولی،.ضلع برپیٹا، آسام کے ناظم مولانا جمال الدین سلفی کی دعوت پروہاں کے سالانہ دعوتی اجلاس میں مولانا عبدالواجد فیضیؔ (مدیرنوائے اسلام ،دہلی) کی معیت میں شرکت کاموقعہ ملا، وہاں شیخ عبدالمتین سلفیؔ کی بنگلہ تقریر سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، بنگلہ زبان توہمیں نہ آتی تھی تاہم سیاق وسباق سے کچھ باتیں سمجھ میں آجاتی تھیں، موصوف نے اپنے مخصوص انداز میں دیرتک لوگوں کو مستفید فرمایا اورگاہے گاہے اپنی گفتگو سے مجلس کو قہقہہ زار بناتے رہے، عوام آپ کی تقریر بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ سن رہے تھے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ آپ کا بڑا لحاظ کررہے ہیں اور آپ کے منہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو سینوں میں محفوظ کرلینا چاہتے ہیں،آپ بنگلہ کے سوا اردواورعربی پر بھی مکمل قدرت رکھتے تھے بلکہ اردو کے مقابلہ عربی زیادہ روانی سے بولتے اورلکھتے تھے۔
مولاناسلفی بہت ساری خوبیوں اورصلاحیتوں کے مالک تھے، ان کی ایک خوبی جسے میں نے اپنے طورپر محسوس کیا کہ وہ کبھی بھی کسی سے مرعوب نہ ہوتے تھے اور پوری بے باکی اورجرأت کے ساتھ اپنے موقف پرڈٹے رہتے تھے۔جمعیت وجماعت سے بھی وہ وابستہ رہے اوراپنے طورپر اس کی خدمت کرتے رہے، سعودی جامعات کے فارغین کی انجمن کے بھی وہ صدر نشیں تھے اوراس پلیٹ فارم سے بھی وہ تعلیمی ودعوتی خدمات انجام دیتے رہے، علمی باقیات میں بنگلہ اوراردوزبان میں ان کے لکھے گئے کئی چھوٹے موٹے رسالے ہیں جن کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، کچھ سالوں پیشتر موصوف نے پیامِ توحید نام سے ایک اردو ماہنامہ بھی جاری کیا تھا۔
ایسے گونا گوں اوصاف وکمالات کے حامل شخص کے اٹھ جانے سے ملت وجماعت کو جوناقابل تلافی نقصان پہونچاہے اس پرہر حساس دل غمزدہ ہے،اللہ تعالیٰ موصوف کی خدمات قبول فرمائے اوران کے ورثاء اورجانشینوں کواس بات کی توفیق دے کہ وہ ان کے مشن کوکامیابی سے آگے بڑھائیں اوران کے لگائے گئے علمی پودوں کی خلوص کے ساتھ آبیاری کریں کہ بادسموم کے جھونکے انھیں نقصان نہ پہونچاسکیں۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ۔***
No comments:
Post a Comment