Wednesday 14 April, 2010

Mar-Apr 2010کشن گنج میں فکر و آگہی کا روشن چراغ

مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی
استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
کشن گنج میں فکر و آگہی کا روشن چراغ
برصغیر ہندوستان اور سرزمین نیپال میں فکر و عقیدہ، علم و عرفان، تالیف و تصنیف، بحث و تحقیق، صحافت و ادب، دعوت وتبلیغ، افتاء و قضا اور درس و تدریس کے میدان میں مدینہ یونیورسٹی کے فارغین خدمات انجام دے رہے ہیں، تعمیر مساجد، تحفیظ القرآن الکریم کے مدارس، دینی ادارے، اسکول وکالج اور تعلیم نسواں کی دانش گاہیں قائم کرنے میں فضلائے مدینہ کا نمایاں حصہ رہا ہے ان میں سر فہرست ہمارے محب مکرم شیخ عبدالمتین سلفی ہیں جو ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء ؁ کو اس دنیائے دوں سے رخصت ہوئے۔
(اللہھم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ الجنۃ وقہ من النار)۔
آپمدینہ یونیورسٹی کے سرگرم اور فعال اور کچھ کر گزرنے کی فکر رکھنے والے ہونہار فرزند تھے، وہ بہار و بنگال کی سرحد ’’کشن گنج‘‘کے ایک سلفی خانوادے کے فرد فرید تھے، جامعہ سلفیہ بنارس میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ، مدینہ کا رخ کیا اور فیکلٹی آف شرعیہ میں چار سالہ گریجویشن کا کورس کرنے کے بعد ۷۹ء ؁ میں اپنے وطن کشن گنج واپس آگئے اور وہیں اپنی تگ وتاز سنوانے میں لگ گئے۔
کشن گنج کا علاقہ جس کو شیخ عبدالمتین نے اپنی جدو جہد اور میدان عمل کا مرکز بنایا وہ غریب اور پسماندہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے، اس خطہ میں جہالت، شرک وبدعت
اور غیر اسلامی رسم ورواج کا دور دورہ تھا لہٰذا اس دینی و سماجی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے شیخ عبدالمتین نے ’’توحیدایجوکیشنل ٹرسٹ‘‘کی بنیاد رکھی اور اس کے ماتحت کئی ادارے قائم کئے جن میں جامعۃ الامام البخاری اپنی نوعیت کا ایک منفرد ادارہ ہے جو اس علاقے کی تعلیمی ضرورت پوری کرتا ہے، اس جامعہ نے روز افزوں ترقی کی اور وہاں سے کھیپ کی کھیپ طلبہ کی تعداد علم وآگہی سے آراستہ ہوکر فارغ التحصیل ہوئی اور پھر ان فارغین کی ایک بڑی تعداد جامعہ ام القریٰ، مکہ مکرمہ اور مدینہ یونیورسٹی میں اپنی علمی پیاس بجھا رہی ہے۔
شیخ عبدالمتین کو کام کرنے کی دھن تھی اور سلیقہ بھی تھا، وہ عربوں کے مزاج سے واقف تھے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے دینی حلقوں کو ان کی کارکردگی پر اعتماد تھا وہ ان کے طریقۂ کار سے مطمئن اور خوش تھے، عرب شیوخ کے اعتماد سے جامعہ امام البخاری کے کاز کو ہر طرح کا فائدہ پہونچا ، شیخ عبدالمتین کو کشن گنج اور صوبہ بہار کی انتظامیہ کا اعتماد بھی حاصل تھا، بہار کی انتظامیہ جامعہ امام بخاری کے ہر بڑے فنگشن میں شریک ہوتی،شیخ جامعہ کا سالانہ تعلیمی مظاہرہ بڑے اہتمام سے منعقد کرتے،اجلاس عام میں برصغیر کے مشہور مقررین حضرات مدعو ہوتے، راقم کو بھی ایک بار جامعہ کے اجلاس عام میں خطاب کرنے کا موقع ملا، ان جلسوں سے جامعہ کا اچھا تعارف ہوا، شیخ عبدالمتین نے جامعہ امام بخاری قائم کرکے کشن گنج کے علاقے میں فکر وآگہی کا جوت جگایا اور ان علاقوں کے لئے زبردست علمی و دینی اور ملی سرمایہ چھوڑ گئے جن کو سنبھالنا صرف برادران عبدالمتین اور ان کے فرزند ارجمند مطیع الرحمن سلمہ کی ذمہ داری ہے بلکہ اس خطے میں بسنے والی ہر ہستی کی فکر کا باعث ہے۔
بلاشبہ برادرم عبدالمتین کشن گنج اور اس کے اطراف کی ضرورت تھے، سلفی دعوت اور فکر ونظر کو ان کی ذات سے بڑا فروغ ملا، وہ بڑے بیدار مغز، روشن دماغ، دل درمند اور فکر ارجمند کے مالک تھے، وہ دن رات کام کرتے، کام کی دھن میں ان کی مثال مولانا رضوان ندوی کی سی ہے، جنہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد لکھنؤ میں تعلیم نسواں کے لئے ایک عظیم الشان ادارہ ’’جامعۃ المؤمنات الاسلامیۃ‘‘ قائم کیا جو پورے آب وتاب کے ساتھ رواں دواں ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے ان دونوں ساتھیوں کی مغفرت فرمائے اور ان کے قائم کردہ اداروں کو ہمیشہ فیض رسانی کا باعث بنائے اور اس صدقۂ جاریہ کا ثواب انہیں ملتا رہے۔

No comments:

Post a Comment