Wednesday 14 April, 2010

تحریک اہلحدیث کے ایک عہد کا خاتمہ Mar-Apr 2010

مولانا عبد الوہاب خلجی
صدر انڈین اصلاحی موومنٹ

شیخ عبد المتین سلفی کی رحلت
ایک اہم ستون کا انہدام اور تحریک اہلحدیث کے ایک عہد کا خاتمہ
عزم وہمت کا کوہ گراں براد رمحترم مولانا عبدالمتین سلفی کی رحلت وہ صدمہ جانکاہ ہے جس کا باراٹھانے سے بھی نہیں اٹھ پارہا، وہ تحریک وجماعت اہل حدیث اورملت اسلامیہ ہند کا عظیم نقصان اور تادیر پُرنہ ہونے والا خسارہ توہے ہی میرے لئے وہ کسی ذاتی خسارہ سے کم نہیں، ایک دوست، رفیق، صدیق، ہمدم، غم گسار، ہم نوا، ہم خیال وہم فکر کے ساتھ ساتھ وہ میرے بڑے بھائی تھے اورہمیشہ ایک بڑے بھائی ہونے کا ثبوت بھی دیا اوراسے پورے اخلاص ومحبت سے نبھایا بھی، آج انھیں ہمیشہ ہمیش کے لئے ہم سے جدا ہوئے پینتالیس دن ہوگئے، مگر کوئی دن ایسا نہیں کہ وہ آنکھوں سے اوجھل ہوئے ہوں، تیس سال سے زائد عرصہ پرمحیط ہمارے درمیان رفاقت، صداقت، مودت ،اخوت اور بھائی چارگی کی داستان طویل کے واقعات کالامتناہی سلسلہ یادوں اوریادگار لمحات کا ایک ہجوم متلاطم سامنے سرگرداں ودوراں ہے اورہرواقعہ اس با ت کا متقاضی ہے کہ اسے قلم وقرطاس کے حوالہ کیا جائے، یادیں فریادکناں ہیں کہ انھیں نوک قلم پرلایا جائے یکے بعد دیگرے تیس سالہ دور رفتہ کی داستانیں صف بستہ کھڑی ہوئی پکار رہی ہیں کہ پہلے مجھے چنو، پہلے مجھے لکھواور پہلے میرا انتخاب کرو لیکن ان کا سمیٹنا کوئی سہل کام نہیں اورنہ ہی آسانی سے لکھا جاسکتا ہے ان کے قلم بند کرنے کے لئے لمبی مدت اور ایک دفترچاہئیے۔
آج سے ایک ماہ زائد عرصہ قبل برادر عزیز مولانا عبدالعظیم مدنی جھنڈانگری کافون آیا کہ نورتوحید کے لئے شیخ عبدالمتین سلفی سے متعلق کچھ لکھوں پھرایک دن اسی درمیان طویل عرصہ بعدماہنامہ نوائے اسلام دہلی کے مدیر دبیر برادر مکرم مولانا عبدالعزیز سلفی کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی انہوں نے بھی ہمارے قابل رشک تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے خاکسار کو نوائے اسلام میں کچھ لکھنے کے لئے فرمائش کی، جی نے چاہا کہ یادوں کے دفتروں کو کنگھال دوں، مگرمیرے لئے مشکل یہ تھی کہ میں محسن گرامی برادرمحترم ڈاکٹر سعید احمدفیضی حفظہ اللہ امیرصوبائی جمعیت اہل حدیث مہاراشٹر کی پراصرار دعوت پر ممبئی میں احسن البیان کے مراٹھی ترجمہ کی تقریب اجراء اور برادر عزیز مولاناارشد مختار زیدہ مجدہ کی دعوت پر جامعہ محمدیہ مالیگاؤں میں کلےۃ عائشہ کی نو تعمیرعمارت کی تقریب افتتاح میں شرکت کے لئے چند روزہ سفر کے لئے پابرکاب تھا اورماہنامہ نوائے اسلام کی کاپی پریس جانے کے لئے آخری مراحل میں تھی دوطرفہ مجبوریوں کے پیش نظر یہ آروز ئے یاراں قابل تعمیل وتکمیل نہ ہوسکی۔
عبادلہ واخوان ثلاثہ، عبدالمتین سلفی، عبداللہ مدنی اورعبدالوہاب خلجی کی مثلث کی ایک اہم کڑی برادر عبداللہ مدنی کی خواہش کا احترام نہ کرنا ایک قدح اخوت سے کم نہیں،مگرمیں نے جب جب قلم اٹھایا پورا جسم کپکپانے لگتا، ہاتھ تھرانے لگتے، قلب مضطر، ذہن پرملال اور چشم پُرنم سے اشکہائے حزن کاسلسلہ جاری ہوجاتا۔ گذشتہ تین راتوں سے مسلسل تین چاربجے رات تک کوشش کے باوجود ہمت نہ جٹاپایا تھا۔ حقِ رفاقت کی ادائیگی اوربھائی عبداللہ مدنی کی محبت بھری ملامت بھری ڈانٹ کے ڈرسے کچھ نہ کچھ تولکھنا ہی تھا مصائب عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہماری مصیبت کا کوئی موازنہ نہیں، سیرت نبوی کے دروس صبروعزاء نے ہمت دلائی تویہ سطریں رقمطراز ہیں۔ جبکہ بیہقی وقت مولانا رئیس احمدندوی، مفکر ملت ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، قائد ملت سلفیہ مولانا مختاراحمد ندوی، نمونۂ سلف استاد دوران علامہ عبدالغفار حسن رحمانی اوررمزشناش علم وحکمت پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہم اللہ پرکچھ لکھنے کا قرض باقی ہے وفقنی اللہ لتحقیق آمالی ورؤیای عن ہٰولاء الجہابذہ۔
برادر راحل عبدالمتین سلفی میرے دوست بھی تھے اور بھائی بھی، آج نہیں ربع صدی سے زائد عرصہ سے جو پلک جھپکتے گذرگیا، میں ۱۹۷۳ء ؁ میں جامعہ رحمانیہ بنارس گیا وہ جامعہ سلفیہ میں تھے دور دور سے شناسائی تھی۔ نہ بات نہ چیت ۔۱۹۷۴ء کے آخرمیں میرا داخلہ دارالحدیث مدینہ طیبہ علی صاحبہا افضل الصلاۃ و التسلیم میں ہوا، پھر میں وہاں سے المعہدالثانوی میں آیا، اسی دوران جامعہ سلفیہ سے عبدالمتین سلفی، ڈاکٹر محمد ابراہیم محمد ہارون سلفی اورشیخ ابوالکلام عبداللہ سلفی پرمشتمل جامعہ سلفیہ بنارس سے منتخب ممتاز ٹیم جامعہ اسلامیہ میں وارد ہوئی اول الذکر دونوں نے کلےۃ الشریعہ اورشیخ ابوالکلام نے کلےۃ الدعوۃ واصول الدین کو اپنی علمی آسودگی کے لئے چنا، یہ تینوں حضرات اپنی اپنی کلیات کے ہونہار طلباء شمار ہوتے تھے، یہ دور بھی رواروی اورعلیک سلیک کی حدتک ہی رہا جوطالب علما نہ نفسا نفسی اورہما ہمی کا دورہوتا ہے۔ اس دوران ان کا ایک تعارف یہ نکلا کہ وہ شیخ عطاء الرحمن مدنی کے داماد ہیں۔ وہ جب ملتے تپاک وفروتنی سے ملتے اپنائیت ان کا وصف عالی تھی۔ کلیہ سے فراغت کے بعد ان کا تعاقد (تقرری) بنگلہ دیش میں ہوگیا، خاکسار ’’جرف‘‘۔ وہ مقام جہاں تک صدیق اکبر لشکر اسامہ کو وداع کرنے آئے تھے اورجو دجال کے مدینہ تک پہنچنے کی آخری حد ہے۔ میں رہائش پذیر تھا۔ میرے اورشیخ عبدالمتین سلفی کے بڑے بھائی مولانا عبدالرشید مظہری کے مکان کے درمیان ایک دیوار حائل تھی عبدالمتین وہیں نزیل تھے۔ مسجد آتے جاتے ملتے باتیں ہوتیں ا طعمہ واشربہ کا تبادلہ ہوتا فاصلے سمٹنے لگے قربتیں بڑھنے لگیں اور عبدالمتین حیات طالب علمی سے نکل کر استاد وداعیہ اور شیخ بنکر ڈھاکہ روانہ ہوئے۔ وہ کبھی کبھی مدینہ آتے تھے توبھائی عبدالرشید کے یہاں نزیل ہوتے کبھی گفتگو ہوتی بڑے چھوٹے کی جھجھک ضرور درمیان میں حائل ہوتی۔ عملی میدان میں جہد مسلسل اور فکری ہم آہنگی نے فاصلے اوربھی کم کردےئے اس کے بعد قربتیں بڑھتی ہی گئیں اور من توشدم تومن شدی کی کیفیت پیدا ہوگئی حتی کہ ان کا وقت موعود آگیا ۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
ہمارے درمیان ان تعلقات کو ان کی تحریر کے عکس میں ملاحظہ کریں جوانہوں نے سال ۲۰۰۲ء ؁ میں میری مرتبہ لیل ونہار ڈائری کے لئے پیغام میں تحریر کئے: ’’آپ کو کچھ لکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے گویا میں خود اپنے آپ کو کچھ لکھ رہا ہوں کیوں کہ ہمارے دینی، علمی، مسلکی، جماعتی اور ذاتی روابط وتعلقات ہرآدمی پر آشکارا ہیں جسے بیان کی ضرورت نہیں۔ جس پر مثل صادق آتی ہے۔ع
من توشدم تومن شدی

من تن شدم توجاں شدی
تاکس نہ گوید بعدازیں

من دیگرم تو دیگری
وہ گوناں گوں صلاحیتوں کے مالک تھے، زمانہ طالب علمی کسب علم کی جولانیوں میں گذرا، جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف سے اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں اعلی تعلیم کے لئے ان کاانتخاب ان کی علمی صلاحیتوں کا غماز تھا، مدینہ میں وہ ایک ہونہار پختہ ذہن وفکر کے خوشہ چیں رہے، مسلک سلف اور قافلہ توحید کے لئے جاں نثاری گویاان کو ورثہ میں ملی تھی، سرزمین بنگال توحید وسنت، حریت فکروعمل اوراستقلال وطن کی تحریک کے لئے ہمیشہ زرخیررہی ہے اسی نسبت سے تحریک ونشاط ان کی پوری زندگی میں رچا بسا رہا وہ انتھک وبے لوث تھے جوٹھان لیتے وہ کرڈالتے، ہمیشہ رواں دواں محرک اورمتحرک رہے، وہ اس عصر عیش کو شی میں جانبازوسخت جان رہے، سست روی ان کا مذہب نہ تھی، وہ ایک رواں دواں زندگی کے قائل تھے، چلتے پھرتے سفر وحضر اور موسموں کے تنوعات میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنااوروں کو بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی ترغیب دینا اورکرنے والوں کی حوصلہ افزائی ان کی زندگی کا معمول تھا۔خاموش بیٹھے رہنا یا کچھ نہ کرنا ان کے نزدیک ایک اجتماعی گناہ سے کم نہ تھا، جو خود تیز چلتا ہے دوسروں کو بھی تیز چلاتاہے ، نفس پرستی کے دور میں ایسے لوگ کم ہی ملتے ہیں۔ اپنی انتھک عملی زندگی کی روش کو انہوں نے اپنے برادران، اولاد اور ماتحت ذمہ داران وکارکنان میں پیدا کرنے کی کوشش کی ایسے لوگ ہی تاریخ ساز ہوتے ہیں۔
عبدالمتین سلفی کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ دوستوں کے دوست اور اہل علم کے قدرشناس تھے، علمی کام کرنے والوں کو پسند کرتے اوران کی حوصلہ افزائی کرتے ان کے پاس جاتے ان کے احوال وظروف کا جائزہ لیتے مطالعہ کرتے ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے، ان کی طبیعت سادگی وظرافت کا مرقع تھی اہل علم کی مجلس ہوتی توان کی نیاز مندی دیدنی ہوتی، ہم عصروں کی محفل میں ان سے بڑھ کر ظرافت پسند کوئی نہ ہوتا وہ اپنی تقریروں میں عربی اشعار خوب پڑھتے، بنگالی زبان ونسل کے امتیاز کو اردو کی بجائے عربی میں پورا کرتے، موضوع علمی ہوکہ فقہی اجتماعی کو کہ سیاسی لیکن وہ گفتگو میں بھرپور حصہ لیتے اوراپنی بات کو باور کرانے اوراسے ثابت کرنے کی وہ آخر حدتک کوشش کرتے، بہت کم دیکھا گیا کہ انہوں نے اپنی رائے تبدیل کی ہو۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد ادارات البحوث العلمیہ والإفتاء والدعوۃ والإرشاد۔ عرف عام میں سعودی دارالافتاء۔ کی طرف سے ان کی تقرری (تعاقد) جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش کی مرکزی درسگاہ جامعہ محمدیہ ڈھاکہ میں ہوئی شروع میں ان کے نشاطات درس وتدریس دعوت وارشاد اورذاتی طورپر تالیف وترجمہ کی حدتک محدود رہے، اس عرصہ میں انہوں نے اپنے آپ کو ایک کامیاب مدرس، پُراثر داعی وخطیب اورمنجھے ہوئے مترجم ہونے کا ثبوت فراہم کیا، وہ بنگلہ اور عربی زبان میں بلاکے مقرروخطیب تھے۔
ڈھاکہ میں ان کا قیام ان کے علمی سفر کے کامیاب تجربوں کا دور تھا اس دوران انہوں نے کئی اہم ومستند علمی کتابوں اور مفید لٹریچر کاعربی سے بنگلہ میں ترجمہ کیا۔ کچھ رسالے بھی مرتب کئے، بارہا ایک داعیہ ،بنگلہ زبان کے ممتاز عالم دین کی حیثیت سے ایام حج میں حاجیوں کی علمی رہنمائی کے لئے ان کو سعودی وزارت حج، یا وزارت اسلامی امور کی طرف سے مدعو کیا جاتا رہا ہے ۔ جہاں وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے بلکہ انحائے عالم سے تشریف لانے والے حاجیوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ سلفی تحریک کے مقتدر حضرات اور عمائدین سے بھرپور فائدہ اٹھاتے۔
ڈھاکہ میں قیام کے دوران بھائی عبدالمتین کو تحریک اہل حدیث کے عظیم خانوادہ کے فردفرید علامہ ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ سابق امیر بنگلہ دیش جمعیت اہل حدیث و وائس چانسلر راج شاہی یونیورسٹی سے بھرپور استفادہ کاموقعہ ملا اور انہوں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، علامہ ڈاکٹر عبدالباری کی صحبت ورفاقت اورعملی جدوجہد سے ان کی شخصیت کو بننے سنورنے اور ابھرنے کا موقعہ ملا۔ اس دوران ان کی علمی، دعوتی تدریسی اورانتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تنظیمی صلاحیتوں کو بھی جلا ملی ،جس سے وہ ایک سلفی رہنما بن کر ابھرے۔
قیام ڈھاکہ دوران ان کے تحریکی مزاج، کتاب وسنت اورمسلک سلف سے ان کی غیرت وحمیت نے جوش مارا اور وہ اپنی دیگر علمی دعوتی اور تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تنظیمی سرگرمیو ں سے بھی وابستہ ہوگئے اوراپنے شعورو مزاج اورڈاکٹر عبدالباری صاحب کی معیت میں وہاں جمعیت اہل حدیث کو متحرک وفعال بنانے میں اہم رول ادا کیا، پورے ملک میں بیداری پیدا کی، ڈاکٹرعبدالباری کو تیار کیا کہ وہ دنیائے سلفیت سے جڑیں،عالم عرب سے تعلقات ،روابط کو مضبوط بنائیں برادر گرامی شیخ عبدالمتین سلفی کی تحریک وترغیب پر قائدین جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش نے سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات کے علمی، دعوتی، مطالعاتی اورباہمی اشتراک وعمل کے لئے اسفار کا سلسلہ شروع کیا تووہ ایک معاون ومشیر اوربالغ نظر مترجم کی حیثیت سے ان کے ہم سفر ہوتے، شیخ عبدالمتین کی جماعت کے لئے فرزانگی کا نتیجہ تھا عالم عرب کی سلفی تنظیموں اورممتاز شخصیات کے درمیان باہمی رابطوں کے بعد تعاون کا سلسلہ شروع ہوا، اس شناخت کاسہرا صرف اورصرف شیخ عبدالمتین کے سرپر جاتاہے۔
جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش سے وابستہ عمائدین وذمہ داران اس وقت زیادہ تروہ لوگ تھے جو یا توبڑے بڑے سرکاری مناصب پر فائز تھے یا تاجر پیشہ، علماء کی تعداد کم اور اس ہمت وحوصلہ سے فروتر تھی جو ایک تاریخ ساز جماعت او رتحریک کے لئے درکار ہوتی ہے۔ خود جمعیت اہل حدیث بنگلہ کے صدر ڈاکٹر عبدالباری اپنی بے شمار خداداد صلاحیتوں کے سبب کئی ایک اہم سرکاری ذمہ داریوں پر فائز تھے جن میں (یوجی سی) یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے چیئرمین کی ذمہ داری بھی تھی، ایسے میں ان کے لئے وقت نکالنا اورتحریک کو سنوارنا مشکل کام تھا ،یہ وقت تھا کہ برادرم عبدالمتین سلفی نے اپنی حرکت وعمل سے وہاں کی قیادت کو احساس ذمہ داری، تاجروں کو ان کے کردار اورعلماء وکارکنان کو ان کی مسؤلیت سے باخبر کیا۔ خاکسار کو اس کا علم ومشاہدہ اس وقت ہوا جب میں ۱۹۸۷ء میں مرکزی جمعیت اہل ہند کی منصبی ذمہ داریوں کے دوران رابطہ عالم اسلامی مکہ کی تیسری عالمی عمومی کانفرنس میں شرکت کے بعد اس وقت کے امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر، رابطہ عالم اسلامی مکہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل مفکر اسلام علامہ پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن الترکی کا ڈاکٹر عبدالباری صدرجمعیت کے نام ایک پیغام لیکر ڈھاکہ گیا اورجمعیت نے میرے اعزازمیں ایک تقریب منعقد کی اوراعیان واخوان جماعت نے شیخ عبدالمتین کی کوششوں کا ذکرکیا۔
اورپھرتاریخ نے وہ دوربھی محسوس کیا کہ جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش اپنے ملک میں دینی اسلامی دعوتی تعلیمی اوررفاہی جماعتوں کی صف اول میں شمار کی جانے لگی اوراسے ایک بلند مقام حاصل ہوا جسے اس مقام پر لانے کے لئے برادرفاضل کا بڑا حصہ تھا۔جمعیت نے بنگلہ دیش میں سیلابی طوفان اورآفات سماوی کی ہلاکت خیزیوں کے دوران خدمت خلق کے وہ کارہائے نمایاں انجام دےئے جو رفاہی تاریخ کا اہم حصہ بنے۔
یہ کام جہاں انسانی ہمدردی ، مصیبت زدگان کی راحت رسانی اورپریشان حالوں کے لیے غیبی مدد کا ذریعہ بنا وہاں بعض حاسدوں ، کینہ پروروں اور بدخواہوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اس میں اپنے وغیراور سرکاری لوگ سب شامل ہیں، کلمہ حق کو بلند ہوتے دیکھ کر اصحاب اقتدار نے اپنے پیروں تلے مٹی کھکستے دیکھ کر ناکردہ گناہ کی سزا ان کو دلائی جو محسن وخیر خواہ تھے، جنرل ارشادکے دور استبداد میں ایک غیر واضح سرکاری حکمنامے کے ذریعہ شیخ عبدالمتین کو بنگلہ دیش کی سرزمین سے چند گھنٹوں کے دوران نکل جانا پڑا کہ انھیں اپنے بچوں کو اسکول سے گھرلانے تک کی اجازت نہ ملی۔
حق ہمیشہ سربلند ہوتا ہے سرنگوں نہیں، وہ وقت بھی آیا کہ شیخ معزز ومکرم ہوکر اپنے رفقائے عزیز عبداللہ مدنی اور عبدالوہاب خلجی کے ہمراہ ڈھاکہ پہنچے توحید کے فرزانوں نے ان کا والہانہ اورشاہانہ استقبال کیا، شیخ عبدالمتین کو ملک بدر کرنے والے ایوان اقتدار میں براجمان قیدوبند کی سلاخوں میں تھے، اور داعی حق محسن ملت اپنے دیوانوں کے جھرمٹ میں تلک الأیام نداولہا بین الناس کی یہی تفسیر تھی ،ارشاد جوجنرل تھا وہ جیل میں اور درویش عبدالمتین مسجد مکرم میں ڈھاکہ وراجشاہی کے منبروں پر۔
اس کی دوسری تفسیریہ تھی کہ مشیت ایزدی کو کچھ اور منظور تھا، اپنے اس بندے سے کمیونسٹوں کی جائرانہ پالیسیوں سے دب رہی سرزمین بنگال اور بہار وجھارکھنڈ کے پسماندہ علاقوں میں علم ومعرفت کی شمع روشن کرانے کے لئے اسے اپنے وطن بلاناچاہتی تاکہ وہ آگے بڑھیں اور ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی گورنر بہار، بنگال اورہریانہ، سابق کابینہ سیکریٹری حکومت ہند ظفرسیف اللہ ، وزرائے اعلی بہار لالو و رابڑی اورنتیش وزیر خزانہ پرنب مکھرجی مرکزی وزیر تسلیم الدین جیسی قدرآور شخصیتیں ان کی ممدومعاون بنیں۔
شیخ عبدالمتین سلفی کی بنگلہ دیش سے واپسی بھلے کسی حادثہ کے سبب ہوئی مگریہ حادثہ رُبَّ ضارۃ نافعۃ بسااوقات ضررساں چیزیں نفع بخش بن جاتی ہیں شیخ عبدالمتین سلفی کی زندگی اس کی عملی تصویرہے۔
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی تاسیس وقیام غارحراء سے پھوٹنے والی تعلیمی اور کوہ صفا سے بلند ہونے والی دعوتی تحریکوں کا تسلسل ہے جواس نام کی برکت ہے۔
توحید ٹرسٹ، جامعہ الامام بخاری اور جامعہ عائشہ نسواں سے معنون ادارے اس شخص کی کتاب وسنت سے وابستگی، خواتین میں عورتوں کی تعلیم، اسلام کی خاتون اول سے لگاؤ، مسلک محدثین اورجادہ سلف سے گہرے تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔
کشن گنج کے بنجر علاقہ میں ان کا لگایا ہوا پودا، اس کی ساخت وپرداخت میں امت کے خیرخواہان، ان کے رفقاء، ہمدردان وبہی خواہان اوربرادران کی مشترکہ جدوجہد اور کوششوں کا نتیجہ ہے ،توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ اوراس کے بانی علیہ الرحمہ نے جو شبانہ وروز کوششیں کی ہیں وہ عیاں ہیں جن کاذکر دیگر حضرات کی تحریروں باتوں اور یادوں میںآئے گا جسے دوہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔بلاشبہ ان کا ہم سے جدا ہوجانا علمی تحریک کے ایک اہم ستون کے انہدام، اورتحریک اہل حدیث ہند کے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ع
موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
انہوں نے اپنے ادارے کو کسی بھی حیثیت سے معیاری بنانے میں کسرنہیں چھوڑی، دینی تعلیم وتربیت کے ساتھ سماجی کاموں اورجسمانی ورزشوں کے ذریعہ ایک کامل مرد مؤمن کی جرأت مندانہ صلاحیتوں کے ابھارنے کا سامان بھی فراہم کیا، وہ اپنے زیر تربیت طلباء کوذہنی وجسمانی طورپر بھی مضبوط ومستحکم بنانا چاہتے تھے۔ اس رخ پر انہوں نے گردوپیش کے مدارس میں ایک نئی طرح ڈالی، مختلف جسمانی تربیتوں کے مقابلوں میں بھرپور صلاحیتوں کو اجاگر کیا،گذشتہ چند سال پیشتر ان کے ادارہ کے طلباء نے ایرفورس کی ٹیم سے فٹ بال مقابلہ میں سبقت حاصل کرکے مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے درمیان ایک اہم تاریخ رقم کی۔
آج بھی سرزمین بنگال عددی اعتبارسے سب سے بڑا علاقہ ہے اوراہل حدیثان ہند، ہم اور ذمہ دار ان جمعیت ، جماعت اس عدد کثیر پر اپنے فخر وانبساط کا اظہارکرتے ہیں لیکن جس طرح کمیونسٹوں نے بنگال کے ساتھ سوتیلا پن کیا، طویل حکمرانی کے دورمیں اس کی تعمیر وترقی کی جانب پیش قدمی نہ ہوسکی بالخصوص اہل حدیث اکثریتی ضلعے مالدہ ومرشد آباد اپنی مفلوک الحالی پر ماتم کناں ہیں بنگال کی صوبائی حکومت کی طرح ہماری صوبائی جمعیت بھی ہرمیدان میں پیچھے ہے۔ ناخواندگی غربت وبیروزگاری اوردعوتی سرگرمیوں سے دوری کی وجہ سے اہل حدیث افراد تبلیغی چلوں کے جال کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ عیسائی مشنریوں اورقادیانیوں کے دام فریب میں پھنسے جارہے ہیں، صوبہ میں تنظیم کے موہوم تصور، اورامیر صوبہ کے سال کے ہر اتوار کو جماعتی کاموں کے لئے وقف کرنے کے راگ کوہم نے اپنے جماعتی کاموں کی معراج تصور کرلیا۔ شیخ عبدالمتین اس سلسلے میں بے حد فکرمند رہتے تھے انہوں نے جمعےۃ کو منظم کرنے اوربیداری کی مہم کے لئے کتنے جتن کئے، ان کی ایک نہ چلنے دی گئی، اتنے باصلاحیت شخص کو آگے بڑھانے کی بجائے کسی نہ کسی طرح پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ بعض الزامات عائد کرکے بنگلہ دیش سے واپسی کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ کبھی کبیدہ خاطر نہیں ہوئے اورنہ ہی شکوہ کیا، وہ مسلسل تگ ودو میں لگے رہے، اپنی کوششوں میں انہوں نے صوبہ ومرکز کے ذمہ داران کو شامل کرنے کی بھی کوشش کی خاکسار نے اپنی مرکزی ذمہ داریوں کے درمیان جتنے بھی دعوتی پروگرام بنائے یا مطالعاتی دورے کئے مجھے نہیں معلوم کہ صوبائی جمعیت کی یک نفری قیادت نے کلکتہ کے علاوہ کوئی پروگرام ترتیب دیا ہووالی اللہ المشتکی۔
میں عنداللہ مسؤلیت کے پیش نظرپوری ذمہ داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ گذشتہ بیس سال کے دوران جماعت اہل حدیث کی فلاح وبہبود کے سلسلہ میں جوکام شیخ عبدالمتین نے کئے اس کے مقابلہ میں صوبائی قیادت بہت پیچھے ہے۔
بنگال میں تحریک اہل حدیث کے فروغ کے تئیں ہم سب ذمہ دار ہیں، اگرایماندارانہ جائزہ لیکر صحیح اقدامات نہ کئے گئے تومستقبل میں عددی تصورات کی رٹ سے توہم خوش ہوتے رہیں گے مگر علم ومعرفت عقیدہ ومنہج کے تعلق سے صرف لکیر پیٹے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہی صورت حال بہار کی ہے، صوبائی جمعیت برسوں سے فرید ہاؤس کی یرغمال ہے، صوبائی تنظیم اسی ذہنی فکر کے حضرات سے ترتیب دی جاتی ہے، مخلصین تڑپتے بلکتے رہ جاتے ہیں۔ شیخ عبدالمتین سلفی بہارکو جو سلفی عددی اعتبارسے بڑی ریاست ہے اس کی شایان شان مقام دلانے کا عزم رکھتے تھے، اس کے لئے نہ ان کو موقعہ فراہم کیا گیا اورنہ ان کی صلاحیتوں یا خدما ت سے فائدہ اٹھایا جاسکا۔ جاری میعاد سے قبل ۹۹ء ؁ میں صوبائی انتخابات کے موقعہ پرایک بڑی تعداد شیخ عبدالمتین سلفی کو امیر صوبہ بناکران کی صلاحیتوں سے صوبائی جمعیت بہار کو تقویت فراہم کرنا چاہتی تھی لیکن سیاست دانوں کی طرح صوبائی ارکان شوری کوجس انداز میں فرید ہاؤس میں یرغمال بنایاگیا اور انتخابی اجلاس سے پیشتر باہمی ملاقات سے بازرکھا گیا وہ بھی جادہ حق کی صورت سے میل توکیا کھاتا اخلاقی قدروں کی پامالی ہوئی تھی۔
امیر صوبہ نے منتخب ہونے کے بعد جو رویہ اختیار کیا شاید قیامت میں جوابدہی کا انھیں خیال نہ رہا ہو۔ جماعتی مفادات کے پیش نظر خاکسارکے اصراروسفارش پرانھیں صوبہ کی جانب سے مرکز کے لئے نامزد شوری میں توشامل کرلیا گیا مگر پوری پانچ سالہ میعاد میں میٹنگوں میں ان کی حاضری تک کواہمیت نہیں دی گئی۔
جاری میعاد میں توانھیں یک لخت مکھی کی طرح نکال باہر کیا، دلوں کے بھید توعلیم بذات الصدور ہی جانے لیکن نقش پا قافلوں کی جہت متعین کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
صوبائی جمعیتہائے بنگال وبہار کے امراء مرکز میں نائب امراء کے مناصب پر فائزہیں انھیں ذرہ برابر احساس نہیں کہ اس علاقہ کی ان دونوں سے فعال ومتحرک شخصیت جمعیت سے دورہے تو کیوں؟ کیوں کہ عبدالمتین کسی بھی صورت زہرہلا ہل کوقند نہیں کہہ سکتے تھے۔ أتستبدلون الذی ہو أدنی بالذی ہوخیر۔
شیخ عبدالمتین دومیعادوں میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکی مجلس عاملہ و شوری کے ممبررہے اورانہوں نے دونوں میعادوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا، صوبوں اورمرکز کے ذمہ داران کے ساتھ حسن عمل و احترام کے سلسلہ میں کوئی کمی نہیں کی، انہیں اپنے ادارے کے پروگراموں کی زینت بنایا مگر صوبہ ومرکزنے ان کے ساتھ جو جابرانہ سلوک کیا اسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی اذا جاء کم فاسق بنباء فتبینوا کی ہدایت ربانی، عدل وانصاف اور قضاء اسلامی کے اصو ل وتقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے ذمہ داران نے خفیہ طورپر ان کے خلاف کوئی قرار داد مذمت پاس کی ، اس کا نہ کوئی ذکر نہ کسی کو علم اورنہ اعلان؟ شایدعاملہ وشوری کے ارکان کی اکثریت بھی نہ جانتی ہو، مگر زبان درزباں اس کی جس طرح تشہیر کی گئی وہ یہودی روش توہوسکتی مومنانہ عمل نہیں۔ ایک سے زائد حضرات نے میرے ان کے اور بعض دیگر حضرات کے خلاف قرار داد مذمت پاس کرنے کی خبر دی تو ہمیں یقین نہیں آیالیکن ہمیں اس وقت تعجب ہوا جب عبدالمتین نے اس کی تصدیق کی اور بتلایا کہ مولانا اصغر علی سلفی صاحب نے کہا کہ آپ معافی نامہ لکھدیں ،ہم آپ کو جمعیت میں واپس لے لیں گے۔ جب سلفی صاحب نے کہا آپ لکھ کر دیں کہ آپ کا یہ جرم ہے تومیں بتاسکتا ہوں مجھے کیا کرنا چاہیے۔
لیکن جمعیت اہل حدیث کے ناظم عمومی صاحب کو جماعت کے اجتماعی فیصلے میں فرد جرم بتانے کی ہمت نہ ہوئی اورنہ ہی مجرم سے اس سے کوئی وضاحت طلب کی گئی، کیا جمعیت اہل حدیث کے غیر معلن اراکین گرامی بتانے کی زحمت فرمائیں گے کہ یہ فیصلہ کب اورکیو ں ہوا؟ ہمارے علم کی حدتک شیخ عبدالمتین سلفی نے کوئی معافی نامہ نہیں لکھا اورنہ زبانی معافی طلب کی تو کیا ایسی صورت میں مولانا اصغر علی سلفی اوران کے رفقاء کی نظرمیں ان کی رحلت ایک جماعتی محسن نہیں بلکہ مجرم کی حیثیت سے ہوئی ہے؟
مولانا اصغرعلی سلفی کی پریس ریلیز میں ان کی رحلت کو قوم وملت اورجماعت کا خسارہ قرار دیا جانا ایک ڈھونگ کے علاوہ کچھ نہیں۔ جماعت کے اعیان وافراد ناظم عمومی سے شیخ عبدالمتین کے خلاف قرار داد مذمت اور اس کی وجہ معلوم کرتے ہیں؟
وہ میرے دورنظامت اوربعدکی پانچ سالہ میعاد میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکی مجلس شوری وعاملہ کے رکن رکین رہے، وہ بلا عذر غیرحاضر نہیں ہوتے تھے اورجب حاضرہوتے توپوری دلچسپی لگن اورایجنڈا کی دفعات پرگفتگو میں بھرپور حصہ لیتے، کبھی نقد بھی کرتے اور سوالات بھی کرتے لیکن جماعتی امورمیں ہماری دوستی آڑے نہیں آتی ، مجھے خوشی ہوتی کہ وہ ضمیرکی آواز پر بولتے ہیں۔
وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے ،لیکن جماعتی منصب اورذمہ داریوں کے سبب انہوں نے ہمیشہ میرا احترام کیا، اپنے سے بڑے ہونے کا درجہ عطا کیا، مزاحیہ اندازمیں کبھی ایسی بات نہیں کی جس سے کسی طرح کی فروتنی کا احساس ہو، میری منصبی ذمہ داریوں کے بعد بھی ان کا میرے ساتھ وہی انداز واسلوب اوررویہ برقرار رہا اورانہوں نے چھوٹے بھائی کو بڑے بھائی کا درجہ دیا۔ اتنی بات ہی نہیں بلکہ کبھی غصہ کاانداز بھی اختیار نہیں کیا ۔
بھائی عبداللہ مدنی جھنڈانگری جب دہلی تشریف لاتے ہیں عموما میرے غریب خانہ میں فروکش ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ سلفی صاحب ان سے ملنے کے لئے میرے گھرآئے، بچوں نے چچا حضرات کے سامنے ماحضر پیش کیا۔ انہوں نے عبداللہ بھائی سے پلیٹ چھین کرکہا: ابے بس کرو تین دن سے بستر پر پڑے روٹیاں توڑرہے ہو، میرے لئے چھوڑو! عالمانہ روش سے ہٹ کر یہ ان کی اپنائیت ودلداری اورظرافت کا نمونہ ہے لیکن انہوں نے سفر وحضر میں میرے ساتھ کبھی ایسا رویہ نہیں اپنایا جب بولے ادب و احترامِ زائد کے ساتھ بولے۔
شیخ عبدالمتین سلفی، مولانا عبداللہ مدنی اورخاکسارکی دوستی، مودت اوراخوت پوری دنیا میں ضرب المثل بنی، لیکن اسے لوگوں نے رشک و غبطہ اورحسد وجلن دونو ں اعتبار سے دیکھا۔ حاسدوں اورجلنے والوں نے ہمیں افیال اللہ وغیرہ سے تعبیر کیا، رشک کناں حضرات نے ہمیں دعاؤں اور دوستی کی مضبوط وغیر منفصل چٹانوں سے تعبیر کیا۔
ایک روز شیخ عبداللہ مدنی سے گویا ہوئے کہ بھئی ہم تینوں کی دوستی، اخوت کے اس مرحلے میں پہنچ گئی ہے کہ اگرہم میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخصت ہوجائے توہمیں ان کے بال بچوں اور اہل خانہ کی کفالت پرغور کرنا چاہیے۔ بلاریب یہ بھائی عبدالمتین کی اعلی سوچ اور اپنائیت کی انتہا تھی، ایسی مثال اورسوچ کے لوگ خال خال ہی ہوتے ہیں۔
آہ! عبدالمتین۔ برادر عبدالمتین جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ عبدالمتین!
پیشوائے ملت دین نبی چل بسا
اسے جانا نہیں تھا ہوگیا ہم سے جدا
کرگیا ہے ہم کو پیچھے پرملال واشکبار
اس کی فرقت ہم کو تڑپائے گی دنیامیں سدا
وہ جس قدر مضبوط عزم وارادہ کے مالک تھے خاموش نہ بیٹھنے والایہ مرد مجاہد اتنی جلدی زندگی سے منہ موڑلے گا تصور سے باہر ہے، لیکن ہم تواپنے عمل کومیزان عقیدہ سے تولتے ہیں ’’واللہ غالب علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون‘‘ قرآن کریم کا ایک حتمی اور اٹل فیصلہ ہے: ’’لوگ اس حقیقت سے کتنے بے بہرہ ہیں کہ اللہ ہی کا فیصلہ ہمیشہ غالب ہوکر رہتا ہے‘‘ خدا کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم ہے۔ غم واندوہ کی وادی میں ایک مومن کس قد سعادت مند ہوتا ہے کہ وہ عزیز ترین ہستی کوخودہی منوں مٹی کے تلے منتقل کردے اور یاس وقنوط کے ہرزاویہ کو جھٹک دے، میرے لئے غموں کی دبنیر چادر میں فرحت کا ایک احساس یہ تھا کہ تینوں میں سے دونے ایک بھائی کی فرخندہ جبیں کو بوسہ دیا اوراپنے ہاتھوں سے مرقدمیں اتارنے کی سعاد ت حاصل کی۔
اے خاک تیرہ دلبر مارا عزیزدار
ایں نورِچشم مااست کہ دربرگرفتہ ای
شیخ صلاح الدین مقبول مدنی کے ہاتف رنانہ کی گھنٹی ہمیشہ کسی دینی دعوتی علمی تحقیقی جماعتی ملی مسئلہ کی شنیدوخیر کا پیغام لیکر آتی تھی۔ مگر ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء ؁ کی دوپہروہ اندوہ ملال کی ایسی چٹان گرنے کی خبرلائی کہ سنانے اورسننے والوں کی آنکھوں سے آنسوؤں جھڑی لگ گئی، دوسری خبر غیرمکذوب ہم سب کے مشترکہ صدیق بھائی عزیز الرحمن مینجینگ ڈائریکٹر پٹاکاانڈسٹریز نے دی، پھر ملک وبیرون ملک سے خبروں کا غیرمنقطع سلسلہ جاری ہوگیا۔ عبداللہ بھائی ہچکیوں کے ساتھ ممبئی سے تسلی دینے کی بجائے افسردہ تھے، شیخ وصی اللہ جامعہ ام القری میں درس دیتے دیتے باہر نکل کرخبر وفات کی تصدیق طلب کررہے تھے مولانا عبداللہ سعود‘،شیخ رضاء اللہ مدنی، ڈاکٹرسعید فیضی، ڈاکٹر عتیق اثر، برادرآفتاب عالم کلکتہ ، نذیربھائی حیدرآباد، مولانا شمس الدین سلفی، ڈاکٹر حسین مدوورکیرالہ، برادر ارشد مختار، عطاء الرحمن بھائی، جبل پور، وفا صدیقی بھوپال، ڈاکٹر عبدالحکیم ممبئی کس کس کو لکھوں اورکس کو گناؤں، اس یار غار کی مغفرت کی دعاؤں کے ساتھ راحل عزیزکو یادکررہا تھا، جانے والے کا ذکر خیر اس کے انجام بخیر کا عکاس ہوتا ہے۔ ۱۷جنوری کو صبح کشن گنج میں پھر دوپہر بھولکی میں تیس ہزار سے زائد مؤحدین کی صلاۃجنازہ وتدفین میں شرکت امام المؤحدین احمد بن جنبل رحمہ اللہ کے اس قول کی تصدیق کر رہی تھی بینا وبینہم یوم الجنائز جسے لوگوں نے دیکھا ان حاضرین میں اپنے کیا اورغیرکیا، ہندوکیا، مسلم کیا اور سکھ کیا، صحافی، سیاستداں ،ڈاکٹر، وکیل، مزدور، عامی، پولیس وانتظامیہ اور تمام شعبہ حیات کے لوگ بلا استثناء موجود تھے، جو ان کی مقبولیت کی زندہ مثال تھی۔
ان کی وفات کے بعد اندیشہ ہائے دور دراز نے لوگوں کے ذہنو ں کو منتشر کرنا شروع کردیا، کیا ہوگا جامعۃ الامام البخاری کا، مدرسہ عائشہ، توحید اکیڈمی اور توحید آئی ٹی آئی کی دیکھ بھال کیسے ہوگی، ٹرسٹ کے جاری مشاریع کیسے سمٹیں گے؟ شیخ صلاح الدین مقبول کی حکمت ان کے رفیق دیرینہ حافظ سلیمان میر ٹھی کی موجودگی، ارکان ٹرسٹ کے اتحاد، برادران عبدالمتین: شیخ عبدالرشید مظہری، عبدالقادر، معین الدین اور منیرالدین کی بالغ نظری اور عزیز القدر مطیع الرحمن مدنی سلمہ کی صلاحیتوں نے تمام اداروں کے استحکام و بقاء اور اس مشن کو جاری رکھنے کے عزم مصمم نے ان تمام خدشا ت کو ختم کر دیا جو شیطانی وساوس کی پیداوار تھے۔
پرسوں یکم مارچ کو عزیز القدرمطیع الرحمن مدنی سلمہ کی اپنے والد کی نہج و عادت کو برقرار رکھتے ہوئے دہلی آمد کی مناسبت سے غریب خانے پر تشریف آوری، والد کے دوست کو والد کے درجہ کی نظر سے دیکھنے کی سعادتمندانہ روش نے ان امیدوں کو یقین میں تبدیل کر دیاکہ عبدالمتین کا بسایا ہوایہ شہر علم و عرفان اسی طرح آباد رہے گا بلکہ اس میں اور چار چاندلگیں گے۔ ان شاء اللہ
عبدالمتین اپنی دھن کے پکے تھے اور مقاصد کے حصول کے لئے وہ کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی مال ومنال کی پرواہ کرتے۔ ہاتھ کے بھی کشادہ تھے، دل کے بھی فیاض ،کوئی بات سمجھ میںآئی تو وہ اس کے پیچھے پڑ گئے۔ انہوں نے ادارے بنائے ،مکاتب کھولے،مساجد تعمیر کیں انہیں ایک مقام دلایا،مارکیٹ دکانیں بنائیں اور اسطرح کے مشاریع کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتے ، ہندوستان کے سلفی مدارس میں سب سے پہلے اس فکر کو شیدائے سلفیت حضرت مولانا عبدالحمید رحمانی حفظہ اللہ نے مرکز ابوالکلام آزاد للتوعۃ الاسلامیہ نئی دہلی اور پھر برادر عبدالمتین سلفی نے اپنے ٹرسٹ میں جاری کیا۔
وہ ادارے کیلئے سفر کرتے کئی مہینے باہر رہتے، خلیجی ممالک کا سفر تو گھر میں آنگن و دالان کی طرح تھا، وہ کب چلے جائیں گے کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ گذشتہ دوسال قبل جمعیتہ خریجین جامعات سعودیہ کی میٹنگ تھی۔دن بھر ہم لوگ شیخ ابو سبحان ندوی،مولانا عبداللہ مدنی ،شیخ ابوالمکارم ازہری، مولانا طاہر مدنی ، ڈاکٹر آرکے نور، ڈاکٹر عبدالحکیم مدنی، وہ خود اور خاکسار بحث و مباحثہ میں لگے رہے،پروگرام بنتے اور منسوخ ہوتے رہے انہوں نے دوسرے دن کا پروگرام طے کیا صبح ہوکرپتہ چلاکہ حضرت شیخ کو یت روانہ ہوگئے۔ ٹرسٹ کے لئے ان کی خصوصی دلچسپی اور اس قدر انہماک تھا کہ وہ جمعیت خریجین کے لئے وہ سب نہیں کر سکے جو ان سے متوقع تھیں۔
ان کے چند سالہ دور صدارت میں کشن گنج اور پھر دہلی میں جو دو ملتقی جات ہوئے وہ اپنی مثال آپ تھے۔جس کی کامیابی کے لئے شیخ ابوسبحان ندوی ،مولانا عبداللہ مدنی ،ڈاکٹرآرکے نور، شیخ ابوالمکارم،مولانا محمد اشفاق سلفی،شیخ محمد رضوان مدنی اور خاکسار کے علاوہ ایام ملتقی میں عزیزم مطیع الرحمٰن مدنی کی دلچسپیوں کا بھی خاص دخل تھا۔
انہیں نوجوانوں کو آگے بڑھانے اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں خاص دلچسپی تھی، وہ چاہتے تھے کہ معاصر نوجوان تحریکوں کی طرح ہمارے سلفی نوجوانوں کا قافلہ بھی نہ صرف آگے بڑھے بلکہ تیز گام وتیزرفتار بھی ہو،اس سلسلہ میں انہوں نے کلکتہ میں ایک پروگرام بھی منعقد کیا،خاکسار اور کویت انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر محترم شیخ باسم اللوغانی کو چیف گیسٹ کے طورپر مدعوکیا،جس میں انہوں نے نوجوانوں کی پریڈ،جھنڈا سلامی اور علمی مظاہرے کو دیکھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا، برا ہو ہماری صفوں میں ان کالی بھیڑوں کا جن کو شباب کی پیش قدمی ایک آنکھ نہیں بھاتی، یہ پروگرام اسی نظر بدکاشکار ہوکر کسی منڈھے سر نہ چڑھ سکا۔
شیخ عبدالمتین کی سرگرمیوں کا محور عموماً ہمارے عام سلفی ذہن کی طرح زیادہ تر اپنی فکر وجماعت تک محدود رہتا ،وہ کوشش کے باوجود ملی جماعتوں اور اداروں سے رابطہ و تعلقات استوارنہ کر سکے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ملک و ملت سے بے بہرہ تھے۔ وہ اپنی مشغولیات کے سامنے روزانہ اخبارات کے مطالعہ کو بے سود تصور کرتے تھے،لیکن اس کے باوجود وہ ملکی حدود سے باہر ہوکر عالمی مسائل پر بحث کرتے تھے۔ اس لئے ملکی و ملی اجتماعات میں ان کی شرکت معدود ے تھی۔ البتہ وہ سلفی اجتماعات میں خوب شرکت کرتے، بنگال وبہار کے علاوہ اور صوبوں میں جاتے ۔ملکی اسفار طویلہ بالخصوص عرب مشائخ و عمائدین کی رفاقت و ہمراہی میں اسفار کی فہرست طویل ہے، خلیجی ممالک کے علاوہ انہوں نے چین،سری لنکا، امریکہ، برطانیہ، نیپال اور بھوٹان کے اسفار بھی کئے اورجہاں گئے اپنی محبتوں کی چھاپ چھوڑ کر آئے۔جس کسی سے ملتے انتہائی اپنائیت اور محبت سے ملتے،سادگی و شگفتگی ان کی طبیعت اور مزاج کا حصہ تھی،جس سے ملتے مسکراتے، دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کھل مل جاتے گویا برسوں کا یارانہ ہے۔
۸؍جنوری کو ہماری ان سے ملاقات ہوئی، جوآخری ملاقات ثابت ہوئی، ہم لوگ مولانا عبداللہ،شیخ ابوالمکارم شاہین باغ ابوالفضل انکلیو جامعہ نگر نئی دہلی میں واقع ان کے دولت کدہ پر جمع تھے، مجھے ان کے علاوہ کئی اور لوگوں سے ملنا تھا، کہنے لگے ان کو یہیں بلالو تم ڈرائنگ روم میں الگ سے اپنی بات کرلینا ہم لوگ دوسرے کمرے میں بیٹھ جائیں گے ،مجھے ان کی تجویز اچھی لگی، میراوقت بھی بچا اور ان سے نشست و گفتگو بھی طویل ہوگئی۔ مجھ سے جولوگ ملنے آئے آخر میں وہ بھی سب سے آکرملتے سب سے آخر میں برادر عزیز سہیل انجم بھی تشریف لائے، میں نے دونوں کا باہمی تعارف کرایا، سہیل انجم کی صحافیانہ سرگرمیوں، دلچسپیوں اور اخبارات و میڈیا سے گہرے تعلق کی بات سن کر ان کو زبردستی اپنے کمرے میں کھینچ لائے جہاں مولانا عبداللہ ،شیخ ازہری، عبدالخبیرزاہد آزاد جھنڈا نگری اور شمیم احمد ان کے رفیق خاص موجود تھے،چائے نوشی اور مختصر ناشتہ کے دوران موضوع در موضوع باتوں میں ڈیڑھ گھنٹہ گذر گیااسی دوران ’’میڈیا کے اصلاحی وتعمیری کردار ہندوستان کے تناظر میں‘‘ کے زیرعنوان ایک سمینار کے انعقاد کی تجویز بھی سامنے آئی،کشن گنج و دہلی میں مقام انعقادکی بجائے پٹنہ میں سیمنار کا ہونا طے پایا، بلکہ اپریل کا مہینہ بھی مقرر ہواکہ جگہ و مقام دیکھنے کے بعد تاریخ متعین کرلی جائیگی، ابھی بات اپنے انجام کو پہنچ ہی رہی تھی کہ آواز دی اور دستر خوان لگادیا ، پھر ہم لوگ معرکۂ دست و دہن میں لگ گئے۔
سہیل انجم کہنے لگے کہ بھئی ’’ہم تو ان کو صرف واعظ خشک بیاں سمجھتے تھے ،انہوں نے تو مجھے اپنا گرویدہ بنالیا‘‘ مزاج کی سادگی اور شگفتگی سے وہ دلوں کو اسطرح موہ لیتے کہ آدمی بے بس ہوکر رہ جاتا۔
عبدالمتین وہ عبدالمتین رفیق، صدیق، عزیز، برادر بھائی آخر جس کی اب یادیں ہی یادیں رہ گئیں، باتیں ختم ہوئیں صبح علی الصبح فجر بعد فون کی گھنٹی بجتی تھی، سرشام ان کا فون آتا جو برسوں کی عادت ہوگئی ،کبھی سوتے سوتے آواز کیف الحال ؟ میرے بھائی کہاں ہو؟ کی آواز آتی، گھنٹیاں تو بجتی ہیں مگر وقت وہ نہیں ہوتا اورآواز نہیں آتی، اپنے جدامجد سے لیکر اپنے گھر کے قریب سے قریب تر بزرگوں تک ،والدین سے لیکر اپنی عزیز ترین ہمشیرہ اعزاء احباء،اصدقاء علماء مفکرین اور دانشوروں کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کیا جو جماعت وملت اور خاندانوں کے گنج ہائے گرا نمایہ تھے۔رب ذوالجلال نے مرور ایام کے ساتھ صبربھی دیا، لیکن عبدالمتین کی رحلت کا غم اور صدمہ اس قدر کاری ہے جس کا احساس ہوتے ہی آنسوؤں کی لڑی بکھر جاتی ہے۔
وہ ایک دوست تھا گنج گرانمایہ نہیں گنج ہائے گرانمایہ کے مساوی تھا یاأیتہاالنفس المطمئنۃ ارجعی اِلی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔
عبدالمتین سلفی وہ میرا محبوب تھا عزیز تھا، عزیز ترین تھا، زندگی میں قریب تھا اور موت کے بعد قریب تر ہوگیا، عبداللہ سے کہوں تو کیا کہوں وہ بھی تو اسی مصیبت کے گھائل ہیں، ایک اشفاق بھائی ہیں جو عموماً نقطہ وصل رہے، آج بھی ملقن صبر کافریضہ انجام دیتے ہیں۔
اس لئے کہ میرا محب میرے محبوبوں کا محب وہ محبت ترک کر کے گریباں سی چکا، وہ وہاں چلاگیا جہاں سب کو جانا ہے، دنیا کے مسافر لوٹ کر اپنے گھر ضرور آتے ہیں۔
لیکن عبدالمتین اس سفر پر چلاگیا جہاں سے کوئی مسافر نہ لوٹاہے نہ لوٹے گا۔مگر وہ جاتے جاتے ہمیں سبق دے گیا کہ میں دنیا میں سفر پر آیا تھا اپنے حصہ کا کام کر چکا ،بقیہ تم سب سنبھالو اور اب اپنے گھر لوٹ کر جارہا ہوں:
آسماں تری لحدپر شبنم افشانی کرے

No comments:

Post a Comment