مولانا رضا ء اللہ عبد الکریم مدنی
وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
یادش بخیر جامعہ سلفیہ بنارس جب جماعت کا واحد مرکزی و تعلیمی ادارہ تھا، جہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلباء تمنا کرتے تھے۔ اس وقت تک جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں یا جامعہ اسلامیہ سنابل دہلی، جامعہ ابن تیمیہ چندن بارہ، جامعہ الامام البخاری کشن گنج بہار جیسے ادارے وجود پذیر نہیں ہوئے تھے۔ میں نے ۱۹۷۳ء میں جامعہ سلفیہ بنارس میں داخلہ عالمیت سال اول میں لیا تھا یادر ہے، اس وقت عالمیت چار سال میں مکمل ہوتی تھی ،یہاں ماحول دہلی کے مقابلہ میں بالکل جدا تھا، جامعہ میں تعلیم و تربیت کا ماحول بھی بہت اچھا تھا ،سینیر و جونیر کا فرق بھی ملحوظ رکھا جاتا تھا، طلبہ میں درسی و غیر درسی مطالعہ کا بے حد ذوق تھا، منتخب روزگار طلبہ جامعہ میں اکھٹے ہوگئے تھے۔
انہی میں ایک نام تھا حضرت مولینا عبد المتین صاحب کا، وہ اس وقت فضیلت سال اول میں تھے ،درس میں اساتذہ کے ساتھ نحوی صرفی یا لغوی مباحث پر الجھنے میں شاید لطف آتاتھا ، جس کا تذکرہ خارج درس بھی ہوتا تھا یہ تھا پہلا تاثر جو اس شخصیت کے بارے میں دل نے قبول کیا، اتفاق سے میرے ساتھیوں میں دو حضرات بنگلہ بھاشی تھے جن سے ملنے مولینا کا آنا میرے کمرے میں ہوتا تھا آپسی گفتگو میں بنگلہ بھاشا کا استعمال کرتے اردو میں وہ روانی نہ تھی جو بنگلہ میں تھی، بذلہ سنجی لطیفہ گوئی، احباب کو ہنسانا اور خود بھرپور انداز میں ہنسنا ان کی عادت میں شامل تھا لیکن یہ تبھی ہوتا تھا جب خاص احباب جمع ہوں۔
میں چونکہ بنگلہ بھاشا سے نابلد تھا لیکن بعض کلموں اور سیاق و سباق کی مدد سے کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا تھا۔ ایک بار مولانا نے بر سبیل تذکرہ کسی شخص کے لیے ’’بوکا‘‘ کے ساتھ چ، و، د، الف کا استعمال کیا میں نے ٹوکا مولانا آپ اور ایسی زبان استعمال کرتے ہیں؟ ۔
مولانانے فورا بچنے کی راہ نکالی، نہیں رضا اس میں کوئی بات نہیں تم لوگوں کو یہ لفظ گالی لگتا ہے بنگلہ بھاشامیں ’’بوکا ، چ، و، د، ا‘‘ بڑے بھائی کو کہتے ہیں۔
ذہن نے یہ بات قبول کرنے سے انکار کر دیا فورا میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ میرے بڑے بھائی ہیں آج سے میں آپ کو بوکا ۔۔۔کہا کروں گا۔ پھر توکمرے کے سارے لوگوں میں وہ ہنسی پڑی کہ لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے اور مولانا کمرے سے نکل گئے۔
جامعہ سلفیہ کے دو سال دیکھتے دیکھتے گزر گئے اور وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ پہونچ گئے، جب میں مدینہ پہونچا تو وہ وہاں سے جا چکے تھے اور بنگلہ دیش میں تعلیمی و تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے تھے، وہاں کی شبانہ روز کی سرگرمیاں کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کو کھلنے لگیں آخر وہاں سے آنا پڑا ۔جن حالات میں وہاں سے آئے وہ کافی پریشان کن تھے لیکن انہوں نے اپنی ہمت حوصلہ اور بیدار مغزی سے یہاں ہندوستان میں کام کرنے کی راہیں تلاش کرلیں اور پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، توحید ایجوکیشنل سوسائٹی کے ذریعہ انہوں نے دینی، تعلیمی، تبلیغی و رفاہی کاموں کا وہ سلسلہ شروع کیا کہ دیکھتے دیکھتے کشن گنج میں ایک شہر علم وہنر آباد کردیا۔
اس درمیان حاسدین نے ان کو کبھی چین سے رہنے کی مہلت نہ دی مگر اللہ کے فضل وکرم کے سہارے وہ اپنی بلند حوصلگی بیدار مغزی اور صحیح سماجی سیاسی اور معاشرتی سوجھ بوجھ کے سہارے ہمیشہ آگے بڑھتے رہے بڑے بڑے پروگرام بنانا ان کو پایہ تکمیل تک پہونچانا اور اس کے لیے دن ورات محنت کرنا افراد کو فراہم کرنا ان کی عادت میں شامل تھا۔
مناسب بند وبست سوجھ بوجھ اور محنت شاقہ کے ذریعہ انہوں نے ملک و ملت اور جماعت کی وہ خد مت انجام دی کہ بہت سے لوگ مل کر نہیں دے سکتے۔
حضرت مولینا عبد الوہاب خلجی کے دور نظامت میں جمعیت کی طرف سے ان کو پورا تعاون ملا، سلفی اخوان کی عالمی تحریک کے وہ ایک متحرک و فعال رکن تھے اور اگر عالمی حالات اچانک اسلام دشمن رخ اختیار نہ کرتے تو یہ تحریک عالمی رابطہ کی بہت بڑی تنظیم ہوتی اور دینی تبلیغی و عالمی امن و شانتی میں مددگار ثابت ہوتی۔
جمعیت اہلحدیث کے کاموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور مفید مشورے بھی دیتے تھے، لیکن کچھ لوگوں کو ان کا ہندوستان آنا اور بنگلہ بھاشی مسلمانوں میں کام کرنا اچھا نہ لگتا تھا انہوں نے ہمیشہ مولینا عبدا لمتین صاحب کے راستے میں کانٹے بوئے اور ان کو کام کرنے سے روکا لیکن مولینا ان کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے کام کرتے گئے یہاں تک کہ آج ان کا کام اپنوں اور پرایوں سبھی کو مجبور کرتاہے کہ اس کااعتراف کریں اوریہ مانیں کہ عبد المتین نے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کا کام کرلیا ہے۔ اور ملک و ملت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور اگر بنگال میں دو تین عبد المتین اور پیدا ہو جائیں تو بنگال کی تقدیر بدل جائے۔ اور جو صورت حا ل ہے اس میں خاصی تبدیلی آجائے۔
خطہ بنگال بلکہ یوں کہیں کہ بہار بنگال اور جھارکھنڈ کے ملتقی پر جو سلفی اخوان کی بھاری تعداد موجود ہے وہ پورے ہندوستان میں کہیں نہیں، لیکن افسوس ہے ذمہ داروں نے اس خطہ کو فراموش کیاہوا ہے، اس خطہ میں قادیانیت سے لیکر دیگر سبھی تحریکوں نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، نوجوان جدھر جارہے ہیں وہ راہ اہلحدیث کی نہیں ہے اور عام مسلمانوں نے جو راستہ گلی گلی نگر نگر پھرنے والوں کا اختیار کیا ہواہے وہ کسی اچھے مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتا ،نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے مفاد اور انانیت کے لیے اس پورے خطہ کو دینی لحاظ سے قابل افسوس حالات تک پہونچادیا ہے اور تمام تحریکات اس علاقہ کو اپنی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں۔
مولانا عبد المتین صاحب کی خدمات دینی تعلیمی رفاہی، سب ہی ملک و ملت کے مفاد میں اور جماعت کے حق میں ہیں اور ان کے دور رس نتائج ان شاء اللہ مستقبل میں بھی ظاہر ہوتے رہیں گے، جو کچھ انہوں نے کیا کل کو وہ جماعت ہی کے خانے میں ڈالا جائے گا۔ مگر جماعت کی ناعاقبت اندیش قیادت نے ان تمام خدمات کے مقابلے میں جو تمغے مرحوم کو دیئے اورجو سلوک ان سے روا رکھا اس کی امید کسی شریف دشمن سے بھی نہیں کی جاسکتی۔
ان کے اندر بڑی صلاحیتیں تھیں اگر ان کو پورے طور پر کام کرنے کے مواقع میسر آتے تو وہ اور بھی بڑے اور مفید کام انجام دیتے۔ جو ملک و جماعت کے لیے مفید ہوتے ۔
آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ان کی کمی دیر تک محسوس کی جائے گی۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان میں سے کسی کو ایسی توفیق دے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھائے اور زندہ رکھے۔ مرحوم کی مدت سے تمنا تھی کہ میں ان کو ایک سے دو ہفتہ تک کا وقت دوں تاکہ وہ علاقہ میں شرک و بدعت کے خلاف ایک مربوط اور مسلسل دعوتی پروگرام چلائیں جس کے دوران ان کے جامعہ کے طلبہ بھی مستفید ہوں، یہ مرحوم کا میرے بارے میں حسن ظن تھا انہوں نے میری ایک دو تقریریں سنی تھیں جس سے شاید وہ متاثر تھے۔ لیکن ان کی وفات سے یہ پروگرام ان کے دل ہی میں چلاگیا۔ اللہ ان کو ان کی نیت کا اچھا صلہ عطا فرمائے۔ آمین۔ دہلی آتے تھے تو کبھی کبھی بلابھی لیا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے مجھ سے بہت کچھ کہہ کر فرمایا تھا ’’ رضاء اللہ لا تکن جندیا مجہولا‘‘ اور پھر چند باتوں کی طرف اور چند اشخاص کے بارے میں جو ان کے تجربات تھے وہ بتائے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ان کی سیئات کو درگزر کرے اور حسنات کو شرف قبولیت سے نوازے، آمین ۔حقیقت یہ ہے کہ میرے جیسے بے کس کے لیے ان کا اٹھ جانا نہایت تکلیف کا باعث ہے، اللہ ہمیں صبر جمیل عطا کرے، دوست احباب کی یادوں کے سہارے انسان دیر تک زندگی گزار لیتاہے، چاہے ان کی ذات سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہو لیکن اتنی امید اسے رہتی ہے کہ وہ اپنی دلی کیفیات ان سے کہہ کر دل ہلکا کر لیگا۔ دوست احباب رفتہ رفتہ اٹھتے جارہے ہیں، غم خوارو غم گسار اس مفاد پرست دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی ملنا دشوار ہے، ایسے میں کسی دیرینہ شناس سے اچانک جدائی ہوجائے تو دل بھر آتا ہے ۔ لیکن کر کیا سکتے ہیں، حکم الہی کے سامنے سب بے بس و لاچار ہیں۔
حضرت مولینا عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری حفظہ اللہ کی محبت ہے کہ انہوں نے یہ چند سطور لکھوائیں ورنہ کسی کی جدائی پر کچھ لکھنا میرے لیے دشوار ہو جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولینا عبد اللہ مدنی صاحب کو جزائے خیر دے۔ کہ انہوں نے نور توحید کا ایک نمبر حضرت مولینا عبد المتین رحمہ اللہ کی شخصیت و خدمات کے لیے وقف کیاہے۔ اور اس طرح اپنے دوست دیرینہ کو خراج تحسین ادا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے اور جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین۔
***
انہی میں ایک نام تھا حضرت مولینا عبد المتین صاحب کا، وہ اس وقت فضیلت سال اول میں تھے ،درس میں اساتذہ کے ساتھ نحوی صرفی یا لغوی مباحث پر الجھنے میں شاید لطف آتاتھا ، جس کا تذکرہ خارج درس بھی ہوتا تھا یہ تھا پہلا تاثر جو اس شخصیت کے بارے میں دل نے قبول کیا، اتفاق سے میرے ساتھیوں میں دو حضرات بنگلہ بھاشی تھے جن سے ملنے مولینا کا آنا میرے کمرے میں ہوتا تھا آپسی گفتگو میں بنگلہ بھاشا کا استعمال کرتے اردو میں وہ روانی نہ تھی جو بنگلہ میں تھی، بذلہ سنجی لطیفہ گوئی، احباب کو ہنسانا اور خود بھرپور انداز میں ہنسنا ان کی عادت میں شامل تھا لیکن یہ تبھی ہوتا تھا جب خاص احباب جمع ہوں۔
میں چونکہ بنگلہ بھاشا سے نابلد تھا لیکن بعض کلموں اور سیاق و سباق کی مدد سے کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا تھا۔ ایک بار مولانا نے بر سبیل تذکرہ کسی شخص کے لیے ’’بوکا‘‘ کے ساتھ چ، و، د، الف کا استعمال کیا میں نے ٹوکا مولانا آپ اور ایسی زبان استعمال کرتے ہیں؟ ۔
مولانانے فورا بچنے کی راہ نکالی، نہیں رضا اس میں کوئی بات نہیں تم لوگوں کو یہ لفظ گالی لگتا ہے بنگلہ بھاشامیں ’’بوکا ، چ، و، د، ا‘‘ بڑے بھائی کو کہتے ہیں۔
ذہن نے یہ بات قبول کرنے سے انکار کر دیا فورا میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ میرے بڑے بھائی ہیں آج سے میں آپ کو بوکا ۔۔۔کہا کروں گا۔ پھر توکمرے کے سارے لوگوں میں وہ ہنسی پڑی کہ لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے اور مولانا کمرے سے نکل گئے۔
جامعہ سلفیہ کے دو سال دیکھتے دیکھتے گزر گئے اور وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ پہونچ گئے، جب میں مدینہ پہونچا تو وہ وہاں سے جا چکے تھے اور بنگلہ دیش میں تعلیمی و تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے تھے، وہاں کی شبانہ روز کی سرگرمیاں کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کو کھلنے لگیں آخر وہاں سے آنا پڑا ۔جن حالات میں وہاں سے آئے وہ کافی پریشان کن تھے لیکن انہوں نے اپنی ہمت حوصلہ اور بیدار مغزی سے یہاں ہندوستان میں کام کرنے کی راہیں تلاش کرلیں اور پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، توحید ایجوکیشنل سوسائٹی کے ذریعہ انہوں نے دینی، تعلیمی، تبلیغی و رفاہی کاموں کا وہ سلسلہ شروع کیا کہ دیکھتے دیکھتے کشن گنج میں ایک شہر علم وہنر آباد کردیا۔
اس درمیان حاسدین نے ان کو کبھی چین سے رہنے کی مہلت نہ دی مگر اللہ کے فضل وکرم کے سہارے وہ اپنی بلند حوصلگی بیدار مغزی اور صحیح سماجی سیاسی اور معاشرتی سوجھ بوجھ کے سہارے ہمیشہ آگے بڑھتے رہے بڑے بڑے پروگرام بنانا ان کو پایہ تکمیل تک پہونچانا اور اس کے لیے دن ورات محنت کرنا افراد کو فراہم کرنا ان کی عادت میں شامل تھا۔
مناسب بند وبست سوجھ بوجھ اور محنت شاقہ کے ذریعہ انہوں نے ملک و ملت اور جماعت کی وہ خد مت انجام دی کہ بہت سے لوگ مل کر نہیں دے سکتے۔
حضرت مولینا عبد الوہاب خلجی کے دور نظامت میں جمعیت کی طرف سے ان کو پورا تعاون ملا، سلفی اخوان کی عالمی تحریک کے وہ ایک متحرک و فعال رکن تھے اور اگر عالمی حالات اچانک اسلام دشمن رخ اختیار نہ کرتے تو یہ تحریک عالمی رابطہ کی بہت بڑی تنظیم ہوتی اور دینی تبلیغی و عالمی امن و شانتی میں مددگار ثابت ہوتی۔
جمعیت اہلحدیث کے کاموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور مفید مشورے بھی دیتے تھے، لیکن کچھ لوگوں کو ان کا ہندوستان آنا اور بنگلہ بھاشی مسلمانوں میں کام کرنا اچھا نہ لگتا تھا انہوں نے ہمیشہ مولینا عبدا لمتین صاحب کے راستے میں کانٹے بوئے اور ان کو کام کرنے سے روکا لیکن مولینا ان کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے کام کرتے گئے یہاں تک کہ آج ان کا کام اپنوں اور پرایوں سبھی کو مجبور کرتاہے کہ اس کااعتراف کریں اوریہ مانیں کہ عبد المتین نے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کا کام کرلیا ہے۔ اور ملک و ملت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور اگر بنگال میں دو تین عبد المتین اور پیدا ہو جائیں تو بنگال کی تقدیر بدل جائے۔ اور جو صورت حا ل ہے اس میں خاصی تبدیلی آجائے۔
خطہ بنگال بلکہ یوں کہیں کہ بہار بنگال اور جھارکھنڈ کے ملتقی پر جو سلفی اخوان کی بھاری تعداد موجود ہے وہ پورے ہندوستان میں کہیں نہیں، لیکن افسوس ہے ذمہ داروں نے اس خطہ کو فراموش کیاہوا ہے، اس خطہ میں قادیانیت سے لیکر دیگر سبھی تحریکوں نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، نوجوان جدھر جارہے ہیں وہ راہ اہلحدیث کی نہیں ہے اور عام مسلمانوں نے جو راستہ گلی گلی نگر نگر پھرنے والوں کا اختیار کیا ہواہے وہ کسی اچھے مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتا ،نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے مفاد اور انانیت کے لیے اس پورے خطہ کو دینی لحاظ سے قابل افسوس حالات تک پہونچادیا ہے اور تمام تحریکات اس علاقہ کو اپنی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں۔
مولانا عبد المتین صاحب کی خدمات دینی تعلیمی رفاہی، سب ہی ملک و ملت کے مفاد میں اور جماعت کے حق میں ہیں اور ان کے دور رس نتائج ان شاء اللہ مستقبل میں بھی ظاہر ہوتے رہیں گے، جو کچھ انہوں نے کیا کل کو وہ جماعت ہی کے خانے میں ڈالا جائے گا۔ مگر جماعت کی ناعاقبت اندیش قیادت نے ان تمام خدمات کے مقابلے میں جو تمغے مرحوم کو دیئے اورجو سلوک ان سے روا رکھا اس کی امید کسی شریف دشمن سے بھی نہیں کی جاسکتی۔
ان کے اندر بڑی صلاحیتیں تھیں اگر ان کو پورے طور پر کام کرنے کے مواقع میسر آتے تو وہ اور بھی بڑے اور مفید کام انجام دیتے۔ جو ملک و جماعت کے لیے مفید ہوتے ۔
آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ان کی کمی دیر تک محسوس کی جائے گی۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان میں سے کسی کو ایسی توفیق دے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھائے اور زندہ رکھے۔ مرحوم کی مدت سے تمنا تھی کہ میں ان کو ایک سے دو ہفتہ تک کا وقت دوں تاکہ وہ علاقہ میں شرک و بدعت کے خلاف ایک مربوط اور مسلسل دعوتی پروگرام چلائیں جس کے دوران ان کے جامعہ کے طلبہ بھی مستفید ہوں، یہ مرحوم کا میرے بارے میں حسن ظن تھا انہوں نے میری ایک دو تقریریں سنی تھیں جس سے شاید وہ متاثر تھے۔ لیکن ان کی وفات سے یہ پروگرام ان کے دل ہی میں چلاگیا۔ اللہ ان کو ان کی نیت کا اچھا صلہ عطا فرمائے۔ آمین۔ دہلی آتے تھے تو کبھی کبھی بلابھی لیا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے مجھ سے بہت کچھ کہہ کر فرمایا تھا ’’ رضاء اللہ لا تکن جندیا مجہولا‘‘ اور پھر چند باتوں کی طرف اور چند اشخاص کے بارے میں جو ان کے تجربات تھے وہ بتائے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ان کی سیئات کو درگزر کرے اور حسنات کو شرف قبولیت سے نوازے، آمین ۔حقیقت یہ ہے کہ میرے جیسے بے کس کے لیے ان کا اٹھ جانا نہایت تکلیف کا باعث ہے، اللہ ہمیں صبر جمیل عطا کرے، دوست احباب کی یادوں کے سہارے انسان دیر تک زندگی گزار لیتاہے، چاہے ان کی ذات سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہو لیکن اتنی امید اسے رہتی ہے کہ وہ اپنی دلی کیفیات ان سے کہہ کر دل ہلکا کر لیگا۔ دوست احباب رفتہ رفتہ اٹھتے جارہے ہیں، غم خوارو غم گسار اس مفاد پرست دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی ملنا دشوار ہے، ایسے میں کسی دیرینہ شناس سے اچانک جدائی ہوجائے تو دل بھر آتا ہے ۔ لیکن کر کیا سکتے ہیں، حکم الہی کے سامنے سب بے بس و لاچار ہیں۔
حضرت مولینا عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری حفظہ اللہ کی محبت ہے کہ انہوں نے یہ چند سطور لکھوائیں ورنہ کسی کی جدائی پر کچھ لکھنا میرے لیے دشوار ہو جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولینا عبد اللہ مدنی صاحب کو جزائے خیر دے۔ کہ انہوں نے نور توحید کا ایک نمبر حضرت مولینا عبد المتین رحمہ اللہ کی شخصیت و خدمات کے لیے وقف کیاہے۔ اور اس طرح اپنے دوست دیرینہ کو خراج تحسین ادا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے اور جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین۔
***
No comments:
Post a Comment