Wednesday 14 April, 2010

شیخ عبد المتین سلفی، جسے زمانہ یاد رکھے گا Mar-Apr 2010

مولانا محمد اشفاق سلفی دربھنگہ
شیخ عبد المتین سلفی، جسے زمانہ یاد رکھے گا
ارشا د نبوی ہے: ’’ ان اللہ اذا أراد بعبد خیرا استعملہ......‘‘. الحدیث (أحمد والترمذی وسندہ صحیح)
اللہ سبحانہ وتعالی جب کسی بندہ سے خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے استعمال کرتا ہے، کہا گیا :اے اللہ کے رسول! وہ کیسے؟ ، فرمایا:’’موت سے قبل اسے عمل صالح کی توفیق عطا کرتا ہے‘‘۔
الحمد للہ ہمارے شیخ عبد المتین سلفی رحمہ اللہ ایسے ہی چند خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالی خیر اور عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے اور وہ اس کی تائید وتوفیق ، نصرت وحمایت سے قلیل مدت میں کارہائے نمایاں انجام دے کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ لوگ انہیں ان کے اچھے کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھتے اور ان کے حق میں دعائے رحمت ومغفرت کرتے ہیں ۔ بلا شبہ ایسے ہی لوگ اپنے اعمال صالحہ اور صدقات جاریہ کے ذریعہ زندہ وپائندہ رہتے ہیں اگرچہ وہ خود اپنے جسموں سے زیر زمین مدفون ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمارے مخلص ومشفق ، ہمدرد وغمگسار ، مشیر ومرشد اور ناصح وامین فضیلۃ العلامہ الشیخ عبد المتین سلفی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ، ان کی قبر کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنادے، فردوس اعلی کو ان کی روح کا مقام ومستقر بنائے اور ان کی علمی، دعوتی اور رفاہی عظیم خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ انہ تعالی رؤوف رحیم.
یقیناًیہ اللہ سبحانہ وتعالی کی توفیق خیر کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے ممدوح شیخ رحمہ اللہ نے بیس بائیس سال کی قلیل مدت میں تعلیمی اداروں اور دینی مکاتب کا جال بچھادیا۔ بفضلہ تعالی ان کے بدست سینکڑوں مساجد ومکاتب کی تعمیر عمل میں آئی ۔ بہار وبنگال کے وسیع حلقے ان کی خدمات دینیہ سے مستفید اور ان کی علمی شمعوں سے مستنیر ہوئے۔ کشن گنج (بہار) جیسے علمی واقتصادی لحاظ سے پسماندہ علاقہ کو انہوں نے اپنی جولانگاہ بنایا اور دیکھتے دیکھتے توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج (بہار) کے تحت جامعۃ الامام البخاری اور جامعہ عائشہ صدیقہؓ کی شکل میں لڑکوں او رلڑکیوں کے لئے اعلی دینی تعلیم کے دو مراکز قائم کردئیے جو عمدہ تعلیم ، حسن انتظام اور پر شکوہ عمارتوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ اس وقت ان جامعات کی حیثیت ایسے علمی تناور درخت کی ہے جو سر سبز وشاداب ہے اور اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے۔ ان کے علاوہ تکنیکی تعلیم کے لئے توحید ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور نونہالان ملت کی عصری تعلیم کے لئے توحید اکیڈمی او ر ان کے علاوہ دیگر کئی تعلیمی، اشاعتی اور تربیتی ادارے اپنے واجبات کی ادائیگی میں رواں دواں ہیں۔ اللہ تعالی موصوف کے لگائے ہوئے علمی چمن کو ہمیشہ ہر ا بھرا رکھے او رچشمۂ فیض کو تا قیامت جاری رکھے تاکہ تشنگان علوم شرعیہ وعصریہ اس سے اپنی پیاس بجھاتے رہیں اور شیخ موصوف اور جملہ محسنین کرام کے لئے سبب نجات اور ذریعۂ ثواب بنتے رہیں۔
مولانا عبد المتین عبد الرحمن سلفی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ اعلی ادارتی اور انتظامی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ایک وسیع النظر عالم کتاب وسنت بھی تھے۔ دقیق علمی مباحث پر ان کی نظر تھی۔ میں نے متعدد موقعوں پر ان سے مختلف فیہ اور پیچیدہ مسائل میں رجوع کیا ہے اور ان کی معلومات سے مستفید ہوا ہوں۔ مجھے ان کی دقت نظر ، وسعت مطالعہ اور دلائل کے استحضار اور قوت استنباط پر حیرت ہوتی تھی۔ خاص کر مصطلح الحدیث کے دقیق فن پر ان کی نظر عمیق تھی ،گویا یہ ان کا فن ہو۔ دوران سفرمختلف دینی وفقہی موضوعات پر گفتکو کیا کرتے تھے۔ میں نے بہت قریب سے ان کو دیکھا ہے ، الحمدللہ انہیں متبع سنت اور فرائض وواجبات اور شعائر دینیہ کا پابند پایا ہے ۔ ان کی بے داغ توحید اور بے لچک سلفیت قابل رشک تھی۔ اللہ کرے وہ میرے گمان سے بھی اعلی و ارفع رہے ہوں۔
متانت وسنجیدگی ، صبر وتحمل، قلت کلام،دور اندیشی ، اصابت رائے، فرط ذکاء، نرم گفتاری ، شیریں کلامی، خوش اخلاقی ان کے خاص اور نمایاں اوصاف تھے۔ بڑے نازک اور سنگین موقع پر بھی ان کو کبھی آپے سے باہر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ اپنے مخالفین کے حق میں بھی کوئی نازیبا کلمہ استعمال نہیں کرتے تھے ۔بلکہ جب کبھی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی تو خندہ پیشانی سے ملتے اور عزت وتکریم میں کمی نہ کرتے ۔ مختصر بولتے لیکن نہایت جچا تلا جملہ بولتے جو اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتا تھا۔ چنانچہ تاڑنے والے معاملہ تاڑ جاتے اور مخالف چپ رہنے پر خود کو بے بس پاتا۔ مہمان نوازی تو وراثت میں ملی تھی ۔ جس نے بھی ان کے جامعہ کی زیارت کی ہے وہ یقیناًاس کا گواہ ہے کہ شیخ موصوف ہر خاص وعام کا والہانہ استقبال کرتے اور ان کی عمدہ ضیافت فرماتے ۔ اپنے مکان پر اور پنے ہاتھ سے دستر خوان پر خدمت اور میزبانی کے فرائض انجام دیتے ۔ علم اور علماء کے بڑے قدر دان تھے۔ طالب علموں اور نئے فارغین کی بھی قدر دانی کرتے اور انہیں آگے بڑھانے میں وسعت قلبی کا ثبوت دیتے۔ عام طور پر بڑے اور شہرت یافتہ لوگ خوردوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اورنہ انہیں پنپنے کا موقع دیتے ہیں ۔ سارا کریڈٹ خود ہی لینا چاہتے ہیں ۔لیکن شیخ رحمہ اللہ کا معاملہ اس کے بر عکس تھا۔ وہ ماشاء اللہ اس معاملہ میں بڑی سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ باطن کا صحیح حال تو اللہ ہی کو معلوم ہے لیکن بظاہر میں نے ان کو کسی سے حسد رکھنے والا نہیں پایا ۔ دوستوں کے دوست تھے اور مخالفین سے تعرض نہیں فرماتے تھے، ان کو ان کے حال پر چھوڑدیتے تھے۔
جب کسی دینی اسٹیج پر تشریف فرما ہوتے تو مجلس بڑی با وقار معلوم ہوتی ۔ جب عربی میں بولتے یا خطاب کرتے تو ان کا خالص عربی لہجہ عربی دانوں کی توجہ کا مرکز ومحور ہوجاتا ۔ بنگلہ زبان کے تو مایہ ناز ادیب اور قادر الکلام خطیب تھے۔ ان کا اپنا منفر داسلوب خطابت تھا۔ جب تقریر کیا کرتے تو ایک سماں باندھ دیتے ، تمام سامعین سمٹ کر او رقریب آکر بیٹھ جاتے ، سوتا ہوا شخص جاگ جاتا اور نہایت توجہ و انہماک سے ان کا بیان سماعت کرتا ۔ ان کی باتیں بڑی موثر اور دلوں میں اترنے والی ہواکرتی تھیں۔ عمدہ مثالوں سے باتیں سمجھاتے ۔درمیان میں کچھ علمی لطائف بیان کر کے مجلس کو گلزار کردیتے ۔ بنگلہ زبان سے ناواقفیت کے باوجود میں بھی ان کے اس انداز سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ جلسوں میں ان کی حاضری بحمد اللہ کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی۔ عام طور پر خطاب سے قبل چند آیات واحادیث اور امثال وحکایات اور علمی نکات دوران سفر یا اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے نوٹ فرمالیتے اور ان کی عمدہ تشریح کیا کرتے ، گویا ان کے اکثر خطابات برجستہ ہوتے تھے جو ان کی علمیت اور ذہانت کی دلیل تھے۔ ماشاء اللہ موقع ومناسبت کے لحاظ سے خطاب فرمایا کرتے جو ایک کامیاب خطیب اور داعی کا طرۂ امتیاز ہے۔ اپنے عزم وارادہ کے بڑے پکے اور حصول مقاصد کی راہ میں رات ودن ایک کردینے والے شخص تھے۔ سستی وکاہلی ان کو چھوکر بھی نہیں گزری تھی۔ حرکت وعمل اور قوت ونشاط کا دوسرا نام عبد المتین سلفی تھا۔
موصوف نہایت باذوق ، نفیس ، خوش خوراک ، خوش پوشاک ، عالمانہ شان اور رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ ملک اور بیرون ملک کے علمی اور دینی ودعوتی حلقوں میں بڑی عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جو اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک ان کی محبوبیت ومقبولیت کی دلیل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے اور حسنات کو قبول فرماکر جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب کرے، ان کے پسماندگان ، رفقاء کار اور ان کے احباب واصحاب کو صبر جمیل عطا کرے اور ان کے علمی ترکوں کی حفاظت وصیانت کے ساتھ ان کی روز افزوں ترقی کے اسباب ووسائل فراہم فرمائے۔ ان کی رحلت سے علمی، دعوتی اور انسانی خدمت کے میدانوں میں جو عظیم خلا پیدا ہوا ہے اس کو رب کریم اپنے خاص لطف وکرم سے پرُ فرمائے اور سلفی دعوت وفکر کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔
اے ابوالمطیع ، ہم آپ کی جدائی پر بڑے افسردہ اور دل گرفتہ ہیں ۔ لیکن اللہ تعالی کے فیصلہ پر راضی ہیں ۔ کیوں کہ اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے۔ آپ کی کامیاب علمی ، دعوتی اور ادارتی وتنظیمی زندگی کا میں نے تقریبا اٹھارہ سالوں تک قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور آپ کی وفات اور جنازہ کا دلدوز منظر بھی اپنی گریہ کناں آنکھوں سے دیکھا ہے اور بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ زندگی کوئی آپ جیسی جیئے اور موت بھی آپ جیسی ہو۔ جنازہ وتدفین میں چالیس سے پچاس ہزار شرکا کی تعداد اور ان کی دعائیں نصیب والوں ہی کو ملتی ہیں۔ رحمک اللہ یا ابا المطیع!!!
ظظظ

No comments:

Post a Comment