Wednesday 14 April, 2010

کیوں تری روشن نگاہی کی سحر روپوش ہے- Mar-Apr 2010

 
عبد العظیم سلفی جھنڈا نگری
کیوں تری روشن نگاہی کی سحر روپوش ہے
گذشتہ چند مہینوں میں ہماری جماعت کی نامور ہستیاں اس دارفانی سے دارالبقاء کو کوچ کرگئیں، ابھی ۳؍ماہ قبل مفکر جماعت حضرت علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ صدر مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ (بنارس) کی رحلت ہمارے لئے باعث رنج وغم بنی ہوئی تھی کہ مورخہ ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء ؁ سنیچر بوقت ظہر صدر جمعیۃ التوحید التعلیمیۃوالخیریۃ (چیر مین توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ، کشن گنج،بہار) شیخ عبدالمتین عبدالرحمن سلفی رحمہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی) کے انتقال کی خبر نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔
سرزمین بنگال و بہار کی جن اعلیٰ شخصیتوں نے عالمی پیمانے پر اپنی شخصیت کا لوہا منوایا اور دینی خدمات انجام دے کر نام روشن کیا ان میں شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے، آپ نے کشن گنج بہار میں طلباء کے لئے جامعۃ الامام البخاری قائم کیا جو جماعت کے اداروں میں ایک عظیم ادارے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، جس کا سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے الحاق ہے، جہاں علماء و مشائخ کی برابر آمد ہوتی رہی اور وہ اپنے اچھے تاثرات کا اظہار کرتے رہے، مختلف مواقع پروہاں دورۂ تدریبیہ کا اہتمام ہوا جس میں یوپی، بہار و بنگال کے علاوہ اور دوسرے صوبہ جات کے طلباء نے بھرپور استفادہ کیااور جہاں کے طلباء شرعی علوم حاصل کرکے علمی و دعوتی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ نے ’’جامعہ عائشہ الاسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھ کر بچیوں کی تعلیم کا بھرپور انتظام کیاجو اس علاقے میں اپنی نوعیت کا ایک عظیم ادارہ ہے اور سرزمین بہار میں ایک نعمت عظمیٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان دو اداروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ خود کشن گنج کے طلباء و طالبات بھی ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ فجر کے بعدخوشگوارفضا میں تعلیم شروع ہوجاتی ہے اور ظہر سے قبل وہ تعلیم سے فارغ ہوجاتے ہیں۔
آپ نے جہاں اسلامی نہج پر دو عظیم ادارے قائم کئے، وہیں ان بچوں کے لئے جن کی تعلیم انگریزی لائن سے ہوئی ہے، آئی،ٹی،آئی۔(توحید انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج )قائم کیا، جن میں بچے مختلف علوم وفنون کی تعلیم حاصل کرکے بے روزگاری سے نجات حاصل کررہے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے جس وقت میری فراغت ہوئی، شیخ رحمہ اللہ نے جامعۃ الامام البخاری کشن گنج، بہار میں تدریسی فرائض انجام دینے کے لئے دعوت دی، میرے لئے اجنبی ماحول تھا، وہاں زبان وبیان اور رہن ،سہن کا انداز دوسرا تھا، میری طرف سے ہچکچاہٹ ہورہی تھی، لیکن تعلقات کچھ ایسے تھے کہ انکار کی گنجائش نہیں تھی، برادر محترم شیخ عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری حفظہ اللہ نے موافقت دے دی، وہاں پہونچ کر متنوع خدمات دیکھنے کا موقع ملااور دل سے دعائیں نکلیں۔
آپ فجر کی نماز کے بعد جامعہ حاضر ہوتے اور پورے ادارے کا جائزہ لیتے، کبھی کبھی طلباء کے ہاسٹل جاتے، ان کی خبر گیری کرتے اور ان کے مسائل حل کیا کرتے تھے، اورکبھی آپ اساتذۂ کرام کے ساتھ کلاس میں ہوتے،ان کے پڑھانے کا نہج دیکھتے، اگر اس میں کسی طرح کی کمی پاتے تو اصلاح فرماتے تھے۔
وہاں عربی جماعت کے ساتھ ساتھ مکتب کی تعلیم خصوصی طور سے ہم نے بہت ٹھوس دیکھی، وہاں پوری مکتب کی تعلیم صرف درجہ چہارم تک ہے، طفلاں کے طلباء منہاج العربیہ ابتدائی حصہ پڑھتے ہیں، پھر درجہ ایک میں حصہ اول اسی طرح درجہ چہارم تک حصہ چہارم پڑھایا جاتا ہے، عربی جماعت تک پہونچتے پہونچتے عربی الفاظ کا ان کے پاس اچھا ذخیرہ جمع ہوتا ہے اور اس کے ابتدائی قواعد سے بھی وہ واقف ہوچکے ہوتے ہیں اور دھیرے دھیرے جس طرح کلاس اونچی ہوتی رہتی ہے اس میں پختگی آتی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں کے طلبہ عربی زبان و بیان پر قدرت رکھتے ہیں۔
ذمہ داران مدارس اور ارباب حل و عقد کو اس موضوع پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عربی کتابوں کا نصاب جماعت اولیٰ سے تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن مکتب کی تعلیم کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، جس طرح انگریزی لائن سے پڑھنے والے طلبہ اسکول کے پہلے ہی دن سے انگلش کتابوں کی شروعات کردیتے ہیں اور پرائمری مکمل کرتے کرتے انگلش لکھنے اور پڑھنے میں کافی حد تک قادر ہوجاتے ہیں، اگر مکتب کا نصاب بھی اسی نہج پر تیار کیا جائے تو عربی طلبہ بھی اس میں فائق ہو کر نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں۔
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کا ایک اہم شعبہ ’’دارالتوحید برائے ترجمہ ، تالیف ونشر‘‘بھی ہے۔ جس کی جانب سے مختلف موضوعات پر اردو اور بنگلہ زبان میں کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں اور مختلف عربی کتا بوں کا ان دو زبانوں میں ترجمہ بھی شائع ہوا۔
اسی شعبہ سے شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ نے ’’پیام توحید‘‘ کے نام سے ایک اسلامی مجلہ جاری کیا، جو اسلامی صحافت میں ایک جانا پہچانا نام ہے، گذشتہ کئی برسوں سے یہ رسالہ پابندی کے ساتھ شائع ہو کر کتاب وسنت کی روشنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
ہمیں ان کی زندگی کا وہ خاکسارانہ لمحہ نہیں بھول رہا ہے جب آپ نے ایک بیوہ خاتون کا نکاح جو آپ کے زیر کفالت تھی اپنے ادارے کے ایک ملازم کے ساتھ اپنی ایک بچی کی شادی کے موقع پر کیا، اس ادارے کے ملازم کواسی اعزاز و اکرام سے نوازا اور اس کے لئے سارے انتظامات کئے جو آپ نے اپنے داماد کے لئے کر رکھا تھا،جس میں ہر طرح کی علمی ، ادبی،سیاسی اور سماجی شخصیتیں موجود تھیں اور اس بیوہ خاتون کو اسی طرح پورے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا جس طرح اپنی لخت جگر کو۔
اگر آپ چاہتے تو کسی اور موقع پر عام طریقہ سے ان کا نکاح کرکے ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجاتے ، لیکن آپ کی عالی ظرفی نے اسے گوارا نہ کیا ،آپ نے اپنی بچی کے نکاح کے موقع پراپنے زیر کفالت بیوہ خاتون کا نکاح کرکے ایک اچھی مثال قا ئم کی۔آپ کی زندگی کا یہ وہ خاکسارانہ اور سنہرا پہلو تھا جس سے میں متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
ان کی زندگی کا ایک خصوصی پہلو میں نے یہ بھی دیکھا کہ عام طور سے لوگ اور ذمہ داران مدارس بھی اپنے گھریلو تقریبات کے لئے ایک دو دن کا موقع نکال لیتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہوتا ہے، لیکن شیخ رحمہ اللہ نے اپنی بچی کے نکاح کے بعد تقریب میں شامل علماء کرام کے ساتھ جامعۃ الامام البخاری کی جامع مسجد میں طلباء کے لئے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا تاکہ علمائے کرام کے گراں قدر خیالات اور نصائح سے طلباء ہر طرح مستفید ہوسکیں۔
صوبہ بہار جو اپنی غربت و افلاس کے لئے بھی مشہور ہے وہاں آپ نے مختلف رفاہی و فلاحی امور انجام دیئے ، بہتوں کی کفالت فرمائی اور زندگی کے آخری لمحات تک اس سے جڑے رہے۔
برادر محترم شیخ عبداللہ مدنی جھنڈانگری حفظہ اللہ سے آپ کے برادرانہ مراسم اور دوستانہ تعلقات تھے، جامعۃ الامام بخاری کشن گنج میں دورۂ تدریبیہ کا موقع ہو یا دینی واصلاحی پروگرام، یا اطراف وجوانب میں کوئی اجلاس عام اس میں آپ کو ضرور مدعو کرتے اور برادر محترم بھی ان کی مخلصانہ دعوت کو قبول فرماتے ۔
علمی،دعوتی ،رفاہی اورسماجی خدمات کے علاوہ آپ کی سیاسی پکڑ بھی بہت مضبوط تھی، بہارکے وزراء اعلیٰ، کشن گنج کے ڈی ایم، اور دوسرے عہدے داران کی وقتاً فوقتاًجامعۃ الامام بخاری آمد ہوتی رہتی، وہاں کے پروگراموں میں شریک ہوکر یہ حضرات شیخ رحمہ اللہ کو داد و تحسین سے نوازتے رہتے۔
انتقال کے دن آپ غرباء ومساکین میں کمبل و لحاف تقسیم کرنے گئے تھے، وہاں سے واپسی پر دنیا سے آپ کی واپسی قدرت کی طرف سے منظور تھی ، حقیقت یہ ہے کہ معنوی وظاہری ہر اعتبار سے ایسی بھاری بھرکم، نشیط و رواں دواں شخصیت میری نظروں نے کم ہی دیکھی تھیں۔
***

No comments:

Post a Comment