Wednesday, 14 April 2010
راہ عمل کا بیباک راہی Editorial Mar-Apr 2010
شعور و آگہی
عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری
عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری
راہ عمل کا بیباک راہی
مشہور عالم درسگاہ ہماری مادر علمی جامعہ سلفیہ بنارس کے ابنائے قدیم میں سے صرف انگلیوں کی تعداد کے مساوی فہرست مرتب کی جائے تو ایک نام جس کا ذکر کئے بغیر فہرست نا مکمل رہے گی، وہ ہے ہمارے فاضل دوست جناب مولانا عبدالمتین سلفی، کشن گنج ، بہار کا نام نامی، جنہوں نے گذشتہ تین عشروں میں جو تعلیمی، دعوتی اور رفاہی کارنامے انجام دیئے وہ اپنی نظیر آپ ہیں۔ہمہ جہت خدمات کی بنا پرجنہیں محسن ملت کے لقب سے یاد کیا جانا چاہئے۔
جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد دانش کدۂ طیبہ۔ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ ۔ کی فیض یابی اور پھر بنگلہ دیش کی دس سالہ مصلحانہ تگ ودو نے انہیں حرکت و عمل، جوش و نشاط اور فکر وتدبر سے معمور کردیا تھا،جہاں ان کی صلاحیتوں کو جلا ملی، شب وروز کی انتھک محنت کا حوصلہ ملا، اس حوصلہ مندی کا نتیجہ تھا کہ حکمراں کی قبوری بدعقیدگی ان کی نظروں میں کھٹکنے لگی، جس کا اظہار سخت الفاظ کے ذریعہ ہوا، جسے جنرل ارشاد کی فوجی وردی انگیز نہ کرسکی اور ایک موقع پر’’ حکم حاکم‘‘،’’ مرگ مفاجات‘‘ کا سبب بن گیا، یعنی ایک غریب الدیار مرشد کا جذبۂ ارشاد جنرل ارشاد کے جذبۂ باطل سے ٹکراگیا اور پھر چند لمحوں میں ڈھاکہ سے کلکتہ کا سفر اتنی سرعت سے طے ہوا کہ مال ومتاع کو سمیٹنے کی مہلت بھی نہ ملی۔ یہ ایک المیہ تھا اس ملک کے لئے جہاں کے باشندوں کی غالب اکثریت مسلمان اور حکمراں کلمہ گو تھا، لیکن یہ تو ہماری چودہ سو سالہ تاریخ کا حصہ رہا ہے، حکمراں ہر دور میں اہل حق کی حق گوئی سے خائف ہوکر درپئے آزار ہوتے رہے ہیں۔ پھر گلہ کیسا؟
خدمت ملت کے عملی تجربات کی روشنی لے کر وہ ہندوستان آگئے، ان کی دوربیں نگاہیں اس خطۂ ارض پر جم گئیں جو دست ہنر مند کی فیض رسانیوں کا منتظر تھا، مولانا عبدالمتین رحمہ اللہ کے ذہن میں جو خاکہ تھا، اس سے علاقے کی تصویر بدلنے والی تھی، وہ اس میں رنگ بھرتے رہے، دیکھتے دیکھتے پورا علاقہ رشک چمن بن گیا۔بے نام ونشان گھرانوں کے نونہال ان کے قائم کردہ اداروں سے فیض یاب ہوکر ’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ کا پیکر بننے لگے۔
شیخ رحمہ اللہ کا امتیاز یہ بھی تھا کہ وہ جماعتی غیرت سے سرشار تھے، گفتگو ہوتی تو مسلک کی ترقی اور بھلائی کی، اس کے لئے جو راہ اختیار کرتے ، دشواریوں سے بے نیاز ہوکر اس پہ چلتے ہوئے منزل پہ پہونچ کر ہی دم لیتے ۔
ان کا یہ وصف بھی قابل بیان ہے کہ کبھی بھی کسی بڑے کے مادی بڑکپن سے مرعوب نہیں ہوئے، وہ کسی بڑے سے بڑے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہنے اور اسے منوا لینے کے فن سے آگاہ تھے۔
مجھے ان کے ساتھ رہ کر علمی، سیاسی اور سماجی سطح کی بلند قامت شخصیات سے ملاقات کے مواقع میسر آئے، ہر مقام پر مجھے محسوس ہوا کہ ہمارا یہ بھائی، ہمارا یہ دوست نگاہ بلند اور سخن دلنواز سے مخاطب کے دل میں گھر بنا کر اپنی شخصیت کی اہمیت بھی تسلیم کرالیتاتھا۔
انہیں اپنے وقت کی قدروقیمت کا احساس تھا، وہ ٹی وی اور اخبارات کو فضولیات میں شمار کرتے، اخبارات کی ورق گردانی کبھی کرلی توکرلی ورنہ بالعموم وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے، جبکہ ہم جیسے لوگ پہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک خبریں ہی نہیں اشتہارات پر بھی نگاہ ڈال لیتے ہیں،
جس سے کبھی کبھی تضییع اوقات کا شبہ بھی ہونے لگتا ہے۔
وہ صبح فجر کے بعد گھر سے نکل پڑتے، جامعہ اور اس کے شعبہ جات کا جائزہ لیتے، تعمیری امور سے متعلق مشورے دیتے، ضروریات کی تکمیل کی ہدایت کرتے، مختلف مقامات پہ جاری تعمیرات پر ایک نگاہ ڈالتے، اس دوران ملک و بیرون ملک سے سمعی رابطہ بھی جاری رہتا، ملاقات کے لئے آنے والوں سے گفتگو بھی چلتی رہتی، اگر کوئی ذی علم مہمان ہمراہ ہوتا تو چلتے چلتے اپنے کسی ادارے میں استقبالیہ تقریب کا بھی وقت نکال لیتے، وقتاً فوقتاً خوردنوش کے لوازم سے ضیافت کا اہتمام بھی کرتے رہتے۔
ضیافت بھی ان کاوصف خاص تھی، احباب و زائرین کے لئے پر تکلف دستر خوان سجاتے، اپنے ہاتھوں سے مہمان کی پلیٹ درست ہی نہیں کرتے گاہ بہ گاہ پلیٹ میں ماکولات کا اضافہ بھی کرتے رہتے اور خوش ہوتے، ساتھ ہی اپنی بذلہ سنجی سے ماحول کو خوش گوار بنائے رکھتے۔یہ وہ فن ہے، جس کی نزاکت متقاضی ہے کہ آدمی بہت محتاط رہے،ورنہ وہ پھکڑپن سے بے وزن بھی ہوسکتا ہے۔
ہمارے بھائی شیخ سلفی رحمہ اللہ کو اس فن میں بھی مہارت حاصل تھی، وہ ایک زبان کے لطائف کو دوسری زبان میں منتقل کرکے اہل مجلس کو مسکرانے پر مجبور کردیتے،جلوت میں تفریح کا یہ وہ واحد ذریعہ تھا جسے انہوں نے اپنے لئے روا رکھا تھا۔
جب کبھی ایسا موقع آیا، میں نے ہمیشہ یہی محسوس کیا کہ مختلف النوع ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ایک انسان اس طرح سے اپنی خوش طبعی کا مظاہرہ کرکے اپنے آپ کو چارج کررہا ہے، تاکہ دوبارہ فرض کی ادائیگی کی خاطر سر گرم عمل ہوسکے، جس کی بہرحال انہیں ضرورت تھی۔
مولانا سلفی رحمہ اللہ نے اپنے وقت کا درست استعمال کیا، زمانہ طالب علمی میں بھی وہ سنجیدہ رہے، حصول علم کے جو مواقع میسر آئے، ان سے بھرپور استفادہ کیا، علمی مسائل میں ان کی رائے باوزن ہوتی ، کبھی کبھی دوران بحث فرماتے: عبداللہ ٖ!اس موضوع پر مجھے چیلنج نہ کرو، میں نے بہت گہرائی سے اس کا مطالعہ کیا ہے۔
وہ ایک ماہر، مستند، معتبر،خوش بیان اور پختہ خیال خطیب تھے، کبھی اردو میں بھی خطاب کرتے تواسے عربی نصوص سے سنواردیتے کہ بیان کا لطف دوبالا ہوجاتا، ان کے سامعین عمومی طور پر بنگلہ زبان کے واقف کار ہوتے ، بنگلہ میں ان کے خطابات کی اثر پذیری سامعین کے دلوں پر دستک دیا کرتی، جس کا تجربہ مجھے باربار ہوا ہے۔
وہ دوستوں کے دوست تھے، دوستی نبھانے کا ہنر جانتے تھے، تحائف سے نوازتے اور انہیں قبول کرکے جذبۂ امتنان کا اظہار بھی کرتے، میرے ان کے تعلقات گذشتہ بیس برسوں پہ محیط ہیں۔ نہ جانے کتنے ایسے لمحات ہیں، جو ہم نے ساتھ گذارے، وہ میرے لئے ایک برادر مشفق اور محب مخلص تھے، ان کی شفقت و عنایت کے رنگ و انداز اقرباء سے قطع نظر ان کے دائرہ احباب میں جومیں نے دیکھے ہیں، اب ان کی یادیں میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں، انہوں نے ایک بھائی کی طرح عزیز رکھا،وہ حقیقتاً میرے مہربان وقدردان تھے،کشن گنج شہر میں پہلی اہلحدیث مسجد کی تعمیر عمل میں آئی، وہ بڑے پرجوش تھے، ان کی مسرت ناقابل بیان ہے، اس تاریخی جامع مسجد کے افتتاح کے موقع پر اپنے اس بھائی راقم کو بڑی محبت سے پہلا خطبہ جمعہ دینے کی دعوت دی، اپنے یہاں منعقدایک اجلاس عام کے موقع پر بھی خطبہ جمعہ کے لئے مجھے ہی آگے بڑھایا، پٹنہ میں اسلامی مرکز قائم کیا، جس کی مسجد کا افتتاح جمعہ کے دن رکھا، خطبہ جمعہ کے لئے مجھے حکم فرمایا۔
جامعۃ الامام البخاری کی پہلی تقریب تقسیم اسناد منعقد کی، وہاں بھی حاضری کی دعوت ملی، بعض دوسرے اجتماعات اور گھریلو تقریبات میں بھی شرکت پہ آمادہ کرتے رہے، جن میں سے اکثر مجھے حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، چند ایک میں کسی مجبوری کے تحت شرکت سے محروم بھی رہا، جس کے لئے خفگی کا اظہار ہوا، مگر میری معذرت قبول کرکے معاف بھی کردیا۔
وہ ایک اچھے منتظم کار تھے، تبھی ان کے قائم کردہ سبھی ادارے ٹھوس بنیادوں پر کھڑے نظر آتے ہیں، ان کے ساتھ ان کا عملہ بھی ہمیشہ مستعد رہا، کیا مجال کوئی سستی کا مظاہرہ کرسکے، اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو میں نے ان کی آنکھوں سے شعلے نکلتے ہوئے دیکھے ہیں، ان کی گرفت بہت سخت ہوتی تھی، مگر تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنی طبیعت کے اصل جوہر رفق ، ملائمت اور حسن سلوک کی طرف لوٹ آتے اور ماحول ساز گار ہوجاتا۔
ایسا نہیں ہے کہ ان کا انتظام وانصرام ہر طرح سے بے عیب رہا ہے، میں نے متعدد بار بعض خامیوں کی طرف توجہ دلائی، میرے نزدیک ایک بڑی کمی یہ تھی کہ سلفی صاحب جیسی عظیم و رفیع شخصیت کا دائرہ کار بہت وسیع ہوسکتا تھا، انہوں نے وسعت کی سعئ مشکور بھی کی، مگر ہمیشہ کھٹکنے والی کمی یہ تھی کہ جامعۃ الامام البخاری اور جامعہ عائشہ للبنات جیسے ادارے بہار میں ہوتے ہوئے بنگلہ زبان کے زیر اثر آگئے، میں نے عرض کیا آپ انہیں اس اثر سے آزاد کیجئے، ورنہ ہمہ گیری کے ساتھ قبولیت عام سے محروم ہوجائیں گے اور فارغین و فارغات کی معلمانہ و داعیانہ کارکردگی بنگال تک محدود رہے گی، اس جانب توجہ کی ضرورت آج بھی باقی ہے، کاش یہ کمی اب پوری کردی جائے اور عربی و اردو زبان کے ذریعہ خدمت دین کی شکل بھی پیدا ہوسکے، تاکہ جناب مولانا عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کا لگایا ہوا یہ شجرۂ مبارکہ بار آور ہوتا رہے اور علمی دنیا بھرپور انداز میں فیض یاب ہوسکے۔
محترم سلفیؔ صاحب نے اپنی عملی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملت اسلامیہ کی منفعت کے لئے کار خیر کی انجام دہی میں گذارا، موت سے چند ساعت قبل تک رفاہی عمل کی ادائیگی میں مشغول رہے، انہیں عیش و راحت کے اسباب میسر تھے، مگر حیات مستعار کا بیش تر وقت اللہ کے اس جلیل القدر بندے نے احساس ذمہ داری کے پیش نظر حالت سفر میں گذاردیا، وہ مستقل تگ ودو کے قائل تھے، انہیں اپنی کار کردگی کا صلہ بھی دنیا سے مطلوب نہیں تھا، میں نے دیکھا کہ بہار اسمبلی کے ایک معزز ممبر نے ایک بڑے صاحب منصب کے سامنے ان سے ذاتی معلومات طلب کرتے ہوئے کہا : چچا! آپ اپنا بایوڈاٹا دیدیں، میں پوری کوشش کروں گا کہ حکومت ہند آپ کو پدم شری کا ایوارڈ عطا کرے۔ جس کے آپ بجا طور پر مستحق ہیں، مگر بڑی بے نیازی سے آپ نے مسکرا کر ٹال دیا۔
یہ سطور رقم کرتے ہوئے میری آنکھیں نم ہیں،کویت سے رفیق گرامی قدر شیخ صلاح الدین مقبول کے ذریعے وفات کی پہلی خبر سے لے کراب تک گذشتہ پچاس دنوں میں کتنی بار قطرات اشک ٹپکے ہیں۔ جس میں برادرم مولانا عبدالوہاب خلجی اور محب مکرم مولانا محمد اشفاق سلفی (دربھنگہ)نے میرا ساتھ دیا ہے، آج جب کہ یہ اشاعت خاص پیش کرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہے، اس امر کا غم بھی ہے کہ اپنے اس بے باک، طرح دار، خوش خلق، حساس، فعال اورنباض،خادم دین وملت دوست کی رفاقت کا حق ادا نہ ہوسکا، کاش ہم اس کی حیات و خدمات پہ مشتمل کوئی گراں قدر تصنیف پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے اور دنیا کو بتاتے کہ ناموافق حالات میں بھی مجاہدانہ سرگرمیاں کس طرح جاری رکھی جاسکتی ہیں۔
بار الٰہا! تیرا یہ مخلص بندہ جس کی آنکھیں ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء بوقت ظہر۵۶؍سال کی عمر میں ہمیشہ کے لئے بند ہوگئیں، تو اس کی قبر کو کشادہ کردے، جنت کی کھڑکیاں اس کے لئے کھول دے، میدان محشر میں تیرے عرش کے سائے میں اسے جگہ ملے، رحمۃ للعالمین کے ہاتھوں جام نصیب ہو اور جنت الفردوس ان کی جائے قیام قرار پائے۔مولائے کریم! ان کے اداروں کی حفاظت فرما، انہیں عروج و فروغ اور استحکام حاصل ہو۔
رب العالمین! ان کے جملہ پسماندگان کو سلامتی عطا فرما، خاندانی اتحاد و اتفاق ہمیشہ برقرار رہے، ان کے غمزدہ اہل و عیال،اولاد و احفاداور وفاشعار برادران کے دل میں خدمت دین کی وہی تڑپ پیدا کردے، جو سلفی صاحب رحمہ اللہ کا طرہ امتیاز تھی۔اوران سب کو اور ہم جیسے ان کے احباب کو صبر جمیل کی توفیق بخش۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
قارئین کرام! آخر میں میری آپ سے یہی گذارش ہے کہ سلفیؔ صاحب رحمہ اللہ کے حق میں ملی خدمات کی قبولیت اور مغفرت کی دعا فرماتے رہیں، یہ مجھ راقم پر ذاتی احسان بھی ہوگا۔***
جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد دانش کدۂ طیبہ۔ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ ۔ کی فیض یابی اور پھر بنگلہ دیش کی دس سالہ مصلحانہ تگ ودو نے انہیں حرکت و عمل، جوش و نشاط اور فکر وتدبر سے معمور کردیا تھا،جہاں ان کی صلاحیتوں کو جلا ملی، شب وروز کی انتھک محنت کا حوصلہ ملا، اس حوصلہ مندی کا نتیجہ تھا کہ حکمراں کی قبوری بدعقیدگی ان کی نظروں میں کھٹکنے لگی، جس کا اظہار سخت الفاظ کے ذریعہ ہوا، جسے جنرل ارشاد کی فوجی وردی انگیز نہ کرسکی اور ایک موقع پر’’ حکم حاکم‘‘،’’ مرگ مفاجات‘‘ کا سبب بن گیا، یعنی ایک غریب الدیار مرشد کا جذبۂ ارشاد جنرل ارشاد کے جذبۂ باطل سے ٹکراگیا اور پھر چند لمحوں میں ڈھاکہ سے کلکتہ کا سفر اتنی سرعت سے طے ہوا کہ مال ومتاع کو سمیٹنے کی مہلت بھی نہ ملی۔ یہ ایک المیہ تھا اس ملک کے لئے جہاں کے باشندوں کی غالب اکثریت مسلمان اور حکمراں کلمہ گو تھا، لیکن یہ تو ہماری چودہ سو سالہ تاریخ کا حصہ رہا ہے، حکمراں ہر دور میں اہل حق کی حق گوئی سے خائف ہوکر درپئے آزار ہوتے رہے ہیں۔ پھر گلہ کیسا؟
خدمت ملت کے عملی تجربات کی روشنی لے کر وہ ہندوستان آگئے، ان کی دوربیں نگاہیں اس خطۂ ارض پر جم گئیں جو دست ہنر مند کی فیض رسانیوں کا منتظر تھا، مولانا عبدالمتین رحمہ اللہ کے ذہن میں جو خاکہ تھا، اس سے علاقے کی تصویر بدلنے والی تھی، وہ اس میں رنگ بھرتے رہے، دیکھتے دیکھتے پورا علاقہ رشک چمن بن گیا۔بے نام ونشان گھرانوں کے نونہال ان کے قائم کردہ اداروں سے فیض یاب ہوکر ’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ کا پیکر بننے لگے۔
شیخ رحمہ اللہ کا امتیاز یہ بھی تھا کہ وہ جماعتی غیرت سے سرشار تھے، گفتگو ہوتی تو مسلک کی ترقی اور بھلائی کی، اس کے لئے جو راہ اختیار کرتے ، دشواریوں سے بے نیاز ہوکر اس پہ چلتے ہوئے منزل پہ پہونچ کر ہی دم لیتے ۔
ان کا یہ وصف بھی قابل بیان ہے کہ کبھی بھی کسی بڑے کے مادی بڑکپن سے مرعوب نہیں ہوئے، وہ کسی بڑے سے بڑے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہنے اور اسے منوا لینے کے فن سے آگاہ تھے۔
مجھے ان کے ساتھ رہ کر علمی، سیاسی اور سماجی سطح کی بلند قامت شخصیات سے ملاقات کے مواقع میسر آئے، ہر مقام پر مجھے محسوس ہوا کہ ہمارا یہ بھائی، ہمارا یہ دوست نگاہ بلند اور سخن دلنواز سے مخاطب کے دل میں گھر بنا کر اپنی شخصیت کی اہمیت بھی تسلیم کرالیتاتھا۔
انہیں اپنے وقت کی قدروقیمت کا احساس تھا، وہ ٹی وی اور اخبارات کو فضولیات میں شمار کرتے، اخبارات کی ورق گردانی کبھی کرلی توکرلی ورنہ بالعموم وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے، جبکہ ہم جیسے لوگ پہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک خبریں ہی نہیں اشتہارات پر بھی نگاہ ڈال لیتے ہیں،
جس سے کبھی کبھی تضییع اوقات کا شبہ بھی ہونے لگتا ہے۔
وہ صبح فجر کے بعد گھر سے نکل پڑتے، جامعہ اور اس کے شعبہ جات کا جائزہ لیتے، تعمیری امور سے متعلق مشورے دیتے، ضروریات کی تکمیل کی ہدایت کرتے، مختلف مقامات پہ جاری تعمیرات پر ایک نگاہ ڈالتے، اس دوران ملک و بیرون ملک سے سمعی رابطہ بھی جاری رہتا، ملاقات کے لئے آنے والوں سے گفتگو بھی چلتی رہتی، اگر کوئی ذی علم مہمان ہمراہ ہوتا تو چلتے چلتے اپنے کسی ادارے میں استقبالیہ تقریب کا بھی وقت نکال لیتے، وقتاً فوقتاً خوردنوش کے لوازم سے ضیافت کا اہتمام بھی کرتے رہتے۔
ضیافت بھی ان کاوصف خاص تھی، احباب و زائرین کے لئے پر تکلف دستر خوان سجاتے، اپنے ہاتھوں سے مہمان کی پلیٹ درست ہی نہیں کرتے گاہ بہ گاہ پلیٹ میں ماکولات کا اضافہ بھی کرتے رہتے اور خوش ہوتے، ساتھ ہی اپنی بذلہ سنجی سے ماحول کو خوش گوار بنائے رکھتے۔یہ وہ فن ہے، جس کی نزاکت متقاضی ہے کہ آدمی بہت محتاط رہے،ورنہ وہ پھکڑپن سے بے وزن بھی ہوسکتا ہے۔
ہمارے بھائی شیخ سلفی رحمہ اللہ کو اس فن میں بھی مہارت حاصل تھی، وہ ایک زبان کے لطائف کو دوسری زبان میں منتقل کرکے اہل مجلس کو مسکرانے پر مجبور کردیتے،جلوت میں تفریح کا یہ وہ واحد ذریعہ تھا جسے انہوں نے اپنے لئے روا رکھا تھا۔
جب کبھی ایسا موقع آیا، میں نے ہمیشہ یہی محسوس کیا کہ مختلف النوع ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ایک انسان اس طرح سے اپنی خوش طبعی کا مظاہرہ کرکے اپنے آپ کو چارج کررہا ہے، تاکہ دوبارہ فرض کی ادائیگی کی خاطر سر گرم عمل ہوسکے، جس کی بہرحال انہیں ضرورت تھی۔
مولانا سلفی رحمہ اللہ نے اپنے وقت کا درست استعمال کیا، زمانہ طالب علمی میں بھی وہ سنجیدہ رہے، حصول علم کے جو مواقع میسر آئے، ان سے بھرپور استفادہ کیا، علمی مسائل میں ان کی رائے باوزن ہوتی ، کبھی کبھی دوران بحث فرماتے: عبداللہ ٖ!اس موضوع پر مجھے چیلنج نہ کرو، میں نے بہت گہرائی سے اس کا مطالعہ کیا ہے۔
وہ ایک ماہر، مستند، معتبر،خوش بیان اور پختہ خیال خطیب تھے، کبھی اردو میں بھی خطاب کرتے تواسے عربی نصوص سے سنواردیتے کہ بیان کا لطف دوبالا ہوجاتا، ان کے سامعین عمومی طور پر بنگلہ زبان کے واقف کار ہوتے ، بنگلہ میں ان کے خطابات کی اثر پذیری سامعین کے دلوں پر دستک دیا کرتی، جس کا تجربہ مجھے باربار ہوا ہے۔
وہ دوستوں کے دوست تھے، دوستی نبھانے کا ہنر جانتے تھے، تحائف سے نوازتے اور انہیں قبول کرکے جذبۂ امتنان کا اظہار بھی کرتے، میرے ان کے تعلقات گذشتہ بیس برسوں پہ محیط ہیں۔ نہ جانے کتنے ایسے لمحات ہیں، جو ہم نے ساتھ گذارے، وہ میرے لئے ایک برادر مشفق اور محب مخلص تھے، ان کی شفقت و عنایت کے رنگ و انداز اقرباء سے قطع نظر ان کے دائرہ احباب میں جومیں نے دیکھے ہیں، اب ان کی یادیں میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں، انہوں نے ایک بھائی کی طرح عزیز رکھا،وہ حقیقتاً میرے مہربان وقدردان تھے،کشن گنج شہر میں پہلی اہلحدیث مسجد کی تعمیر عمل میں آئی، وہ بڑے پرجوش تھے، ان کی مسرت ناقابل بیان ہے، اس تاریخی جامع مسجد کے افتتاح کے موقع پر اپنے اس بھائی راقم کو بڑی محبت سے پہلا خطبہ جمعہ دینے کی دعوت دی، اپنے یہاں منعقدایک اجلاس عام کے موقع پر بھی خطبہ جمعہ کے لئے مجھے ہی آگے بڑھایا، پٹنہ میں اسلامی مرکز قائم کیا، جس کی مسجد کا افتتاح جمعہ کے دن رکھا، خطبہ جمعہ کے لئے مجھے حکم فرمایا۔
جامعۃ الامام البخاری کی پہلی تقریب تقسیم اسناد منعقد کی، وہاں بھی حاضری کی دعوت ملی، بعض دوسرے اجتماعات اور گھریلو تقریبات میں بھی شرکت پہ آمادہ کرتے رہے، جن میں سے اکثر مجھے حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، چند ایک میں کسی مجبوری کے تحت شرکت سے محروم بھی رہا، جس کے لئے خفگی کا اظہار ہوا، مگر میری معذرت قبول کرکے معاف بھی کردیا۔
وہ ایک اچھے منتظم کار تھے، تبھی ان کے قائم کردہ سبھی ادارے ٹھوس بنیادوں پر کھڑے نظر آتے ہیں، ان کے ساتھ ان کا عملہ بھی ہمیشہ مستعد رہا، کیا مجال کوئی سستی کا مظاہرہ کرسکے، اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو میں نے ان کی آنکھوں سے شعلے نکلتے ہوئے دیکھے ہیں، ان کی گرفت بہت سخت ہوتی تھی، مگر تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنی طبیعت کے اصل جوہر رفق ، ملائمت اور حسن سلوک کی طرف لوٹ آتے اور ماحول ساز گار ہوجاتا۔
ایسا نہیں ہے کہ ان کا انتظام وانصرام ہر طرح سے بے عیب رہا ہے، میں نے متعدد بار بعض خامیوں کی طرف توجہ دلائی، میرے نزدیک ایک بڑی کمی یہ تھی کہ سلفی صاحب جیسی عظیم و رفیع شخصیت کا دائرہ کار بہت وسیع ہوسکتا تھا، انہوں نے وسعت کی سعئ مشکور بھی کی، مگر ہمیشہ کھٹکنے والی کمی یہ تھی کہ جامعۃ الامام البخاری اور جامعہ عائشہ للبنات جیسے ادارے بہار میں ہوتے ہوئے بنگلہ زبان کے زیر اثر آگئے، میں نے عرض کیا آپ انہیں اس اثر سے آزاد کیجئے، ورنہ ہمہ گیری کے ساتھ قبولیت عام سے محروم ہوجائیں گے اور فارغین و فارغات کی معلمانہ و داعیانہ کارکردگی بنگال تک محدود رہے گی، اس جانب توجہ کی ضرورت آج بھی باقی ہے، کاش یہ کمی اب پوری کردی جائے اور عربی و اردو زبان کے ذریعہ خدمت دین کی شکل بھی پیدا ہوسکے، تاکہ جناب مولانا عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کا لگایا ہوا یہ شجرۂ مبارکہ بار آور ہوتا رہے اور علمی دنیا بھرپور انداز میں فیض یاب ہوسکے۔
محترم سلفیؔ صاحب نے اپنی عملی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملت اسلامیہ کی منفعت کے لئے کار خیر کی انجام دہی میں گذارا، موت سے چند ساعت قبل تک رفاہی عمل کی ادائیگی میں مشغول رہے، انہیں عیش و راحت کے اسباب میسر تھے، مگر حیات مستعار کا بیش تر وقت اللہ کے اس جلیل القدر بندے نے احساس ذمہ داری کے پیش نظر حالت سفر میں گذاردیا، وہ مستقل تگ ودو کے قائل تھے، انہیں اپنی کار کردگی کا صلہ بھی دنیا سے مطلوب نہیں تھا، میں نے دیکھا کہ بہار اسمبلی کے ایک معزز ممبر نے ایک بڑے صاحب منصب کے سامنے ان سے ذاتی معلومات طلب کرتے ہوئے کہا : چچا! آپ اپنا بایوڈاٹا دیدیں، میں پوری کوشش کروں گا کہ حکومت ہند آپ کو پدم شری کا ایوارڈ عطا کرے۔ جس کے آپ بجا طور پر مستحق ہیں، مگر بڑی بے نیازی سے آپ نے مسکرا کر ٹال دیا۔
یہ سطور رقم کرتے ہوئے میری آنکھیں نم ہیں،کویت سے رفیق گرامی قدر شیخ صلاح الدین مقبول کے ذریعے وفات کی پہلی خبر سے لے کراب تک گذشتہ پچاس دنوں میں کتنی بار قطرات اشک ٹپکے ہیں۔ جس میں برادرم مولانا عبدالوہاب خلجی اور محب مکرم مولانا محمد اشفاق سلفی (دربھنگہ)نے میرا ساتھ دیا ہے، آج جب کہ یہ اشاعت خاص پیش کرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہے، اس امر کا غم بھی ہے کہ اپنے اس بے باک، طرح دار، خوش خلق، حساس، فعال اورنباض،خادم دین وملت دوست کی رفاقت کا حق ادا نہ ہوسکا، کاش ہم اس کی حیات و خدمات پہ مشتمل کوئی گراں قدر تصنیف پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے اور دنیا کو بتاتے کہ ناموافق حالات میں بھی مجاہدانہ سرگرمیاں کس طرح جاری رکھی جاسکتی ہیں۔
بار الٰہا! تیرا یہ مخلص بندہ جس کی آنکھیں ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء بوقت ظہر۵۶؍سال کی عمر میں ہمیشہ کے لئے بند ہوگئیں، تو اس کی قبر کو کشادہ کردے، جنت کی کھڑکیاں اس کے لئے کھول دے، میدان محشر میں تیرے عرش کے سائے میں اسے جگہ ملے، رحمۃ للعالمین کے ہاتھوں جام نصیب ہو اور جنت الفردوس ان کی جائے قیام قرار پائے۔مولائے کریم! ان کے اداروں کی حفاظت فرما، انہیں عروج و فروغ اور استحکام حاصل ہو۔
رب العالمین! ان کے جملہ پسماندگان کو سلامتی عطا فرما، خاندانی اتحاد و اتفاق ہمیشہ برقرار رہے، ان کے غمزدہ اہل و عیال،اولاد و احفاداور وفاشعار برادران کے دل میں خدمت دین کی وہی تڑپ پیدا کردے، جو سلفی صاحب رحمہ اللہ کا طرہ امتیاز تھی۔اوران سب کو اور ہم جیسے ان کے احباب کو صبر جمیل کی توفیق بخش۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
قارئین کرام! آخر میں میری آپ سے یہی گذارش ہے کہ سلفیؔ صاحب رحمہ اللہ کے حق میں ملی خدمات کی قبولیت اور مغفرت کی دعا فرماتے رہیں، یہ مجھ راقم پر ذاتی احسان بھی ہوگا۔***
Mar-Apr 2010آہ! عبد المتین اب اس دنیا میں نہ رہے
آہ! عبد المتین اب اس دنیا میں نہ رہے
۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء کو دوپہر کا وقت تھا، اچانک ہمیں اس افسوس ناک خبر سے دوچار ہونا پڑا کہ عبدالمتین سلفی کا کشن گنج، بہار میں ہارٹ فیل ہوکر انتقال ہوگیا، وہاں صبح کسی قریبی گاؤں میں ایک رفاہی کام، غریبوں میں کمبل تقسیم کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے، گھر واپس آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد یہ جاں گسل سانحہ پیش آیا، إنا للہ وإنا الیہ راجعون، اللہ انہیں رحمت ومغفرت سے نوازے اورجنت الفردوس نصیب فرمائے اور ان کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ایسے تو ہر انسان کو کسی نہ کسی روز اس دار فانی سے دارالبقاء کی طرف سفر کرنا ہی ہوگا، لیکن عبدالمتین رحمہ اللہ کی اس رحلت نے ان کے متروکہ عظیم الشان ادارہ توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج کے تحت چلنے والے متعدد تعلیمی اداروں کو چلانے کے لئے ان کے کسی جانشین کی تعیین کے سلسلے میں ہمیں ایک آزمائش میں ڈال دیا تھا اور گویا ایک چھوٹااجتماعِ بنو سقیفہ کا منظر پیش آنے لگا تھا، لیکن بالآخر جس طرح وہاں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ کا متفقہ حل کرادیا تھا، اسی طرح یہاں بھی بالآخر اللہ تعالیٰ نے اراکین ٹرسٹ کو باتفاق آراء مسئلہ کو حل کراکے عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کے باصلاحیت بڑے صاحب زادے عزیزم مطیع الرحمن مدنی کو ان کا جانشین بنانے کی توفیق دی۔
فللہ الحمد،ماشاء اللہ کان وما لم یشالم یکن۔
محمد عطاء الرحمن مدنیؔ
نئی دہلی
نئی دہلی
تحریک اہلحدیث کے ایک عہد کا خاتمہ Mar-Apr 2010
مولانا عبد الوہاب خلجی
صدر انڈین اصلاحی موومنٹ
آج سے ایک ماہ زائد عرصہ قبل برادر عزیز مولانا عبدالعظیم مدنی جھنڈانگری کافون آیا کہ نورتوحید کے لئے شیخ عبدالمتین سلفی سے متعلق کچھ لکھوں پھرایک دن اسی درمیان طویل عرصہ بعدماہنامہ نوائے اسلام دہلی کے مدیر دبیر برادر مکرم مولانا عبدالعزیز سلفی کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی انہوں نے بھی ہمارے قابل رشک تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے خاکسار کو نوائے اسلام میں کچھ لکھنے کے لئے فرمائش کی، جی نے چاہا کہ یادوں کے دفتروں کو کنگھال دوں، مگرمیرے لئے مشکل یہ تھی کہ میں محسن گرامی برادرمحترم ڈاکٹر سعید احمدفیضی حفظہ اللہ امیرصوبائی جمعیت اہل حدیث مہاراشٹر کی پراصرار دعوت پر ممبئی میں احسن البیان کے مراٹھی ترجمہ کی تقریب اجراء اور برادر عزیز مولاناارشد مختار زیدہ مجدہ کی دعوت پر جامعہ محمدیہ مالیگاؤں میں کلےۃ عائشہ کی نو تعمیرعمارت کی تقریب افتتاح میں شرکت کے لئے چند روزہ سفر کے لئے پابرکاب تھا اورماہنامہ نوائے اسلام کی کاپی پریس جانے کے لئے آخری مراحل میں تھی دوطرفہ مجبوریوں کے پیش نظر یہ آروز ئے یاراں قابل تعمیل وتکمیل نہ ہوسکی۔
عبادلہ واخوان ثلاثہ، عبدالمتین سلفی، عبداللہ مدنی اورعبدالوہاب خلجی کی مثلث کی ایک اہم کڑی برادر عبداللہ مدنی کی خواہش کا احترام نہ کرنا ایک قدح اخوت سے کم نہیں،مگرمیں نے جب جب قلم اٹھایا پورا جسم کپکپانے لگتا، ہاتھ تھرانے لگتے، قلب مضطر، ذہن پرملال اور چشم پُرنم سے اشکہائے حزن کاسلسلہ جاری ہوجاتا۔ گذشتہ تین راتوں سے مسلسل تین چاربجے رات تک کوشش کے باوجود ہمت نہ جٹاپایا تھا۔ حقِ رفاقت کی ادائیگی اوربھائی عبداللہ مدنی کی محبت بھری ملامت بھری ڈانٹ کے ڈرسے کچھ نہ کچھ تولکھنا ہی تھا مصائب عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہماری مصیبت کا کوئی موازنہ نہیں، سیرت نبوی کے دروس صبروعزاء نے ہمت دلائی تویہ سطریں رقمطراز ہیں۔ جبکہ بیہقی وقت مولانا رئیس احمدندوی، مفکر ملت ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، قائد ملت سلفیہ مولانا مختاراحمد ندوی، نمونۂ سلف استاد دوران علامہ عبدالغفار حسن رحمانی اوررمزشناش علم وحکمت پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہم اللہ پرکچھ لکھنے کا قرض باقی ہے وفقنی اللہ لتحقیق آمالی ورؤیای عن ہٰولاء الجہابذہ۔
برادر راحل عبدالمتین سلفی میرے دوست بھی تھے اور بھائی بھی، آج نہیں ربع صدی سے زائد عرصہ سے جو پلک جھپکتے گذرگیا، میں ۱۹۷۳ء میں جامعہ رحمانیہ بنارس گیا وہ جامعہ سلفیہ میں تھے دور دور سے شناسائی تھی۔ نہ بات نہ چیت ۔۱۹۷۴ء کے آخرمیں میرا داخلہ دارالحدیث مدینہ طیبہ علی صاحبہا افضل الصلاۃ و التسلیم میں ہوا، پھر میں وہاں سے المعہدالثانوی میں آیا، اسی دوران جامعہ سلفیہ سے عبدالمتین سلفی، ڈاکٹر محمد ابراہیم محمد ہارون سلفی اورشیخ ابوالکلام عبداللہ سلفی پرمشتمل جامعہ سلفیہ بنارس سے منتخب ممتاز ٹیم جامعہ اسلامیہ میں وارد ہوئی اول الذکر دونوں نے کلےۃ الشریعہ اورشیخ ابوالکلام نے کلےۃ الدعوۃ واصول الدین کو اپنی علمی آسودگی کے لئے چنا، یہ تینوں حضرات اپنی اپنی کلیات کے ہونہار طلباء شمار ہوتے تھے، یہ دور بھی رواروی اورعلیک سلیک کی حدتک ہی رہا جوطالب علما نہ نفسا نفسی اورہما ہمی کا دورہوتا ہے۔ اس دوران ان کا ایک تعارف یہ نکلا کہ وہ شیخ عطاء الرحمن مدنی کے داماد ہیں۔ وہ جب ملتے تپاک وفروتنی سے ملتے اپنائیت ان کا وصف عالی تھی۔ کلیہ سے فراغت کے بعد ان کا تعاقد (تقرری) بنگلہ دیش میں ہوگیا، خاکسار ’’جرف‘‘۔ وہ مقام جہاں تک صدیق اکبر لشکر اسامہ کو وداع کرنے آئے تھے اورجو دجال کے مدینہ تک پہنچنے کی آخری حد ہے۔ میں رہائش پذیر تھا۔ میرے اورشیخ عبدالمتین سلفی کے بڑے بھائی مولانا عبدالرشید مظہری کے مکان کے درمیان ایک دیوار حائل تھی عبدالمتین وہیں نزیل تھے۔ مسجد آتے جاتے ملتے باتیں ہوتیں ا طعمہ واشربہ کا تبادلہ ہوتا فاصلے سمٹنے لگے قربتیں بڑھنے لگیں اور عبدالمتین حیات طالب علمی سے نکل کر استاد وداعیہ اور شیخ بنکر ڈھاکہ روانہ ہوئے۔ وہ کبھی کبھی مدینہ آتے تھے توبھائی عبدالرشید کے یہاں نزیل ہوتے کبھی گفتگو ہوتی بڑے چھوٹے کی جھجھک ضرور درمیان میں حائل ہوتی۔ عملی میدان میں جہد مسلسل اور فکری ہم آہنگی نے فاصلے اوربھی کم کردےئے اس کے بعد قربتیں بڑھتی ہی گئیں اور من توشدم تومن شدی کی کیفیت پیدا ہوگئی حتی کہ ان کا وقت موعود آگیا ۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
ہمارے درمیان ان تعلقات کو ان کی تحریر کے عکس میں ملاحظہ کریں جوانہوں نے سال ۲۰۰۲ء میں میری مرتبہ لیل ونہار ڈائری کے لئے پیغام میں تحریر کئے: ’’آپ کو کچھ لکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے گویا میں خود اپنے آپ کو کچھ لکھ رہا ہوں کیوں کہ ہمارے دینی، علمی، مسلکی، جماعتی اور ذاتی روابط وتعلقات ہرآدمی پر آشکارا ہیں جسے بیان کی ضرورت نہیں۔ جس پر مثل صادق آتی ہے۔ع
من توشدم تومن شدی
من تن شدم توجاں شدی
تاکس نہ گوید بعدازیں
من دیگرم تو دیگری
وہ گوناں گوں صلاحیتوں کے مالک تھے، زمانہ طالب علمی کسب علم کی جولانیوں میں گذرا، جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف سے اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں اعلی تعلیم کے لئے ان کاانتخاب ان کی علمی صلاحیتوں کا غماز تھا، مدینہ میں وہ ایک ہونہار پختہ ذہن وفکر کے خوشہ چیں رہے، مسلک سلف اور قافلہ توحید کے لئے جاں نثاری گویاان کو ورثہ میں ملی تھی، سرزمین بنگال توحید وسنت، حریت فکروعمل اوراستقلال وطن کی تحریک کے لئے ہمیشہ زرخیررہی ہے اسی نسبت سے تحریک ونشاط ان کی پوری زندگی میں رچا بسا رہا وہ انتھک وبے لوث تھے جوٹھان لیتے وہ کرڈالتے، ہمیشہ رواں دواں محرک اورمتحرک رہے، وہ اس عصر عیش کو شی میں جانبازوسخت جان رہے، سست روی ان کا مذہب نہ تھی، وہ ایک رواں دواں زندگی کے قائل تھے، چلتے پھرتے سفر وحضر اور موسموں کے تنوعات میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنااوروں کو بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی ترغیب دینا اورکرنے والوں کی حوصلہ افزائی ان کی زندگی کا معمول تھا۔خاموش بیٹھے رہنا یا کچھ نہ کرنا ان کے نزدیک ایک اجتماعی گناہ سے کم نہ تھا، جو خود تیز چلتا ہے دوسروں کو بھی تیز چلاتاہے ، نفس پرستی کے دور میں ایسے لوگ کم ہی ملتے ہیں۔ اپنی انتھک عملی زندگی کی روش کو انہوں نے اپنے برادران، اولاد اور ماتحت ذمہ داران وکارکنان میں پیدا کرنے کی کوشش کی ایسے لوگ ہی تاریخ ساز ہوتے ہیں۔
عبدالمتین سلفی کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ دوستوں کے دوست اور اہل علم کے قدرشناس تھے، علمی کام کرنے والوں کو پسند کرتے اوران کی حوصلہ افزائی کرتے ان کے پاس جاتے ان کے احوال وظروف کا جائزہ لیتے مطالعہ کرتے ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے، ان کی طبیعت سادگی وظرافت کا مرقع تھی اہل علم کی مجلس ہوتی توان کی نیاز مندی دیدنی ہوتی، ہم عصروں کی محفل میں ان سے بڑھ کر ظرافت پسند کوئی نہ ہوتا وہ اپنی تقریروں میں عربی اشعار خوب پڑھتے، بنگالی زبان ونسل کے امتیاز کو اردو کی بجائے عربی میں پورا کرتے، موضوع علمی ہوکہ فقہی اجتماعی کو کہ سیاسی لیکن وہ گفتگو میں بھرپور حصہ لیتے اوراپنی بات کو باور کرانے اوراسے ثابت کرنے کی وہ آخر حدتک کوشش کرتے، بہت کم دیکھا گیا کہ انہوں نے اپنی رائے تبدیل کی ہو۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد ادارات البحوث العلمیہ والإفتاء والدعوۃ والإرشاد۔ عرف عام میں سعودی دارالافتاء۔ کی طرف سے ان کی تقرری (تعاقد) جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش کی مرکزی درسگاہ جامعہ محمدیہ ڈھاکہ میں ہوئی شروع میں ان کے نشاطات درس وتدریس دعوت وارشاد اورذاتی طورپر تالیف وترجمہ کی حدتک محدود رہے، اس عرصہ میں انہوں نے اپنے آپ کو ایک کامیاب مدرس، پُراثر داعی وخطیب اورمنجھے ہوئے مترجم ہونے کا ثبوت فراہم کیا، وہ بنگلہ اور عربی زبان میں بلاکے مقرروخطیب تھے۔
ڈھاکہ میں ان کا قیام ان کے علمی سفر کے کامیاب تجربوں کا دور تھا اس دوران انہوں نے کئی اہم ومستند علمی کتابوں اور مفید لٹریچر کاعربی سے بنگلہ میں ترجمہ کیا۔ کچھ رسالے بھی مرتب کئے، بارہا ایک داعیہ ،بنگلہ زبان کے ممتاز عالم دین کی حیثیت سے ایام حج میں حاجیوں کی علمی رہنمائی کے لئے ان کو سعودی وزارت حج، یا وزارت اسلامی امور کی طرف سے مدعو کیا جاتا رہا ہے ۔ جہاں وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے بلکہ انحائے عالم سے تشریف لانے والے حاجیوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ سلفی تحریک کے مقتدر حضرات اور عمائدین سے بھرپور فائدہ اٹھاتے۔
ڈھاکہ میں قیام کے دوران بھائی عبدالمتین کو تحریک اہل حدیث کے عظیم خانوادہ کے فردفرید علامہ ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ سابق امیر بنگلہ دیش جمعیت اہل حدیث و وائس چانسلر راج شاہی یونیورسٹی سے بھرپور استفادہ کاموقعہ ملا اور انہوں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، علامہ ڈاکٹر عبدالباری کی صحبت ورفاقت اورعملی جدوجہد سے ان کی شخصیت کو بننے سنورنے اور ابھرنے کا موقعہ ملا۔ اس دوران ان کی علمی، دعوتی تدریسی اورانتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تنظیمی صلاحیتوں کو بھی جلا ملی ،جس سے وہ ایک سلفی رہنما بن کر ابھرے۔
قیام ڈھاکہ دوران ان کے تحریکی مزاج، کتاب وسنت اورمسلک سلف سے ان کی غیرت وحمیت نے جوش مارا اور وہ اپنی دیگر علمی دعوتی اور تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تنظیمی سرگرمیو ں سے بھی وابستہ ہوگئے اوراپنے شعورو مزاج اورڈاکٹر عبدالباری صاحب کی معیت میں وہاں جمعیت اہل حدیث کو متحرک وفعال بنانے میں اہم رول ادا کیا، پورے ملک میں بیداری پیدا کی، ڈاکٹرعبدالباری کو تیار کیا کہ وہ دنیائے سلفیت سے جڑیں،عالم عرب سے تعلقات ،روابط کو مضبوط بنائیں برادر گرامی شیخ عبدالمتین سلفی کی تحریک وترغیب پر قائدین جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش نے سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات کے علمی، دعوتی، مطالعاتی اورباہمی اشتراک وعمل کے لئے اسفار کا سلسلہ شروع کیا تووہ ایک معاون ومشیر اوربالغ نظر مترجم کی حیثیت سے ان کے ہم سفر ہوتے، شیخ عبدالمتین کی جماعت کے لئے فرزانگی کا نتیجہ تھا عالم عرب کی سلفی تنظیموں اورممتاز شخصیات کے درمیان باہمی رابطوں کے بعد تعاون کا سلسلہ شروع ہوا، اس شناخت کاسہرا صرف اورصرف شیخ عبدالمتین کے سرپر جاتاہے۔
جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش سے وابستہ عمائدین وذمہ داران اس وقت زیادہ تروہ لوگ تھے جو یا توبڑے بڑے سرکاری مناصب پر فائز تھے یا تاجر پیشہ، علماء کی تعداد کم اور اس ہمت وحوصلہ سے فروتر تھی جو ایک تاریخ ساز جماعت او رتحریک کے لئے درکار ہوتی ہے۔ خود جمعیت اہل حدیث بنگلہ کے صدر ڈاکٹر عبدالباری اپنی بے شمار خداداد صلاحیتوں کے سبب کئی ایک اہم سرکاری ذمہ داریوں پر فائز تھے جن میں (یوجی سی) یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے چیئرمین کی ذمہ داری بھی تھی، ایسے میں ان کے لئے وقت نکالنا اورتحریک کو سنوارنا مشکل کام تھا ،یہ وقت تھا کہ برادرم عبدالمتین سلفی نے اپنی حرکت وعمل سے وہاں کی قیادت کو احساس ذمہ داری، تاجروں کو ان کے کردار اورعلماء وکارکنان کو ان کی مسؤلیت سے باخبر کیا۔ خاکسار کو اس کا علم ومشاہدہ اس وقت ہوا جب میں ۱۹۸۷ء میں مرکزی جمعیت اہل ہند کی منصبی ذمہ داریوں کے دوران رابطہ عالم اسلامی مکہ کی تیسری عالمی عمومی کانفرنس میں شرکت کے بعد اس وقت کے امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر، رابطہ عالم اسلامی مکہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل مفکر اسلام علامہ پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن الترکی کا ڈاکٹر عبدالباری صدرجمعیت کے نام ایک پیغام لیکر ڈھاکہ گیا اورجمعیت نے میرے اعزازمیں ایک تقریب منعقد کی اوراعیان واخوان جماعت نے شیخ عبدالمتین کی کوششوں کا ذکرکیا۔
اورپھرتاریخ نے وہ دوربھی محسوس کیا کہ جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش اپنے ملک میں دینی اسلامی دعوتی تعلیمی اوررفاہی جماعتوں کی صف اول میں شمار کی جانے لگی اوراسے ایک بلند مقام حاصل ہوا جسے اس مقام پر لانے کے لئے برادرفاضل کا بڑا حصہ تھا۔جمعیت نے بنگلہ دیش میں سیلابی طوفان اورآفات سماوی کی ہلاکت خیزیوں کے دوران خدمت خلق کے وہ کارہائے نمایاں انجام دےئے جو رفاہی تاریخ کا اہم حصہ بنے۔
یہ کام جہاں انسانی ہمدردی ، مصیبت زدگان کی راحت رسانی اورپریشان حالوں کے لیے غیبی مدد کا ذریعہ بنا وہاں بعض حاسدوں ، کینہ پروروں اور بدخواہوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اس میں اپنے وغیراور سرکاری لوگ سب شامل ہیں، کلمہ حق کو بلند ہوتے دیکھ کر اصحاب اقتدار نے اپنے پیروں تلے مٹی کھکستے دیکھ کر ناکردہ گناہ کی سزا ان کو دلائی جو محسن وخیر خواہ تھے، جنرل ارشادکے دور استبداد میں ایک غیر واضح سرکاری حکمنامے کے ذریعہ شیخ عبدالمتین کو بنگلہ دیش کی سرزمین سے چند گھنٹوں کے دوران نکل جانا پڑا کہ انھیں اپنے بچوں کو اسکول سے گھرلانے تک کی اجازت نہ ملی۔
حق ہمیشہ سربلند ہوتا ہے سرنگوں نہیں، وہ وقت بھی آیا کہ شیخ معزز ومکرم ہوکر اپنے رفقائے عزیز عبداللہ مدنی اور عبدالوہاب خلجی کے ہمراہ ڈھاکہ پہنچے توحید کے فرزانوں نے ان کا والہانہ اورشاہانہ استقبال کیا، شیخ عبدالمتین کو ملک بدر کرنے والے ایوان اقتدار میں براجمان قیدوبند کی سلاخوں میں تھے، اور داعی حق محسن ملت اپنے دیوانوں کے جھرمٹ میں تلک الأیام نداولہا بین الناس کی یہی تفسیر تھی ،ارشاد جوجنرل تھا وہ جیل میں اور درویش عبدالمتین مسجد مکرم میں ڈھاکہ وراجشاہی کے منبروں پر۔
اس کی دوسری تفسیریہ تھی کہ مشیت ایزدی کو کچھ اور منظور تھا، اپنے اس بندے سے کمیونسٹوں کی جائرانہ پالیسیوں سے دب رہی سرزمین بنگال اور بہار وجھارکھنڈ کے پسماندہ علاقوں میں علم ومعرفت کی شمع روشن کرانے کے لئے اسے اپنے وطن بلاناچاہتی تاکہ وہ آگے بڑھیں اور ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی گورنر بہار، بنگال اورہریانہ، سابق کابینہ سیکریٹری حکومت ہند ظفرسیف اللہ ، وزرائے اعلی بہار لالو و رابڑی اورنتیش وزیر خزانہ پرنب مکھرجی مرکزی وزیر تسلیم الدین جیسی قدرآور شخصیتیں ان کی ممدومعاون بنیں۔
شیخ عبدالمتین سلفی کی بنگلہ دیش سے واپسی بھلے کسی حادثہ کے سبب ہوئی مگریہ حادثہ رُبَّ ضارۃ نافعۃ بسااوقات ضررساں چیزیں نفع بخش بن جاتی ہیں شیخ عبدالمتین سلفی کی زندگی اس کی عملی تصویرہے۔
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی تاسیس وقیام غارحراء سے پھوٹنے والی تعلیمی اور کوہ صفا سے بلند ہونے والی دعوتی تحریکوں کا تسلسل ہے جواس نام کی برکت ہے۔
توحید ٹرسٹ، جامعہ الامام بخاری اور جامعہ عائشہ نسواں سے معنون ادارے اس شخص کی کتاب وسنت سے وابستگی، خواتین میں عورتوں کی تعلیم، اسلام کی خاتون اول سے لگاؤ، مسلک محدثین اورجادہ سلف سے گہرے تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔
کشن گنج کے بنجر علاقہ میں ان کا لگایا ہوا پودا، اس کی ساخت وپرداخت میں امت کے خیرخواہان، ان کے رفقاء، ہمدردان وبہی خواہان اوربرادران کی مشترکہ جدوجہد اور کوششوں کا نتیجہ ہے ،توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ اوراس کے بانی علیہ الرحمہ نے جو شبانہ وروز کوششیں کی ہیں وہ عیاں ہیں جن کاذکر دیگر حضرات کی تحریروں باتوں اور یادوں میںآئے گا جسے دوہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔بلاشبہ ان کا ہم سے جدا ہوجانا علمی تحریک کے ایک اہم ستون کے انہدام، اورتحریک اہل حدیث ہند کے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ع
موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
انہوں نے اپنے ادارے کو کسی بھی حیثیت سے معیاری بنانے میں کسرنہیں چھوڑی، دینی تعلیم وتربیت کے ساتھ سماجی کاموں اورجسمانی ورزشوں کے ذریعہ ایک کامل مرد مؤمن کی جرأت مندانہ صلاحیتوں کے ابھارنے کا سامان بھی فراہم کیا، وہ اپنے زیر تربیت طلباء کوذہنی وجسمانی طورپر بھی مضبوط ومستحکم بنانا چاہتے تھے۔ اس رخ پر انہوں نے گردوپیش کے مدارس میں ایک نئی طرح ڈالی، مختلف جسمانی تربیتوں کے مقابلوں میں بھرپور صلاحیتوں کو اجاگر کیا،گذشتہ چند سال پیشتر ان کے ادارہ کے طلباء نے ایرفورس کی ٹیم سے فٹ بال مقابلہ میں سبقت حاصل کرکے مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے درمیان ایک اہم تاریخ رقم کی۔
آج بھی سرزمین بنگال عددی اعتبارسے سب سے بڑا علاقہ ہے اوراہل حدیثان ہند، ہم اور ذمہ دار ان جمعیت ، جماعت اس عدد کثیر پر اپنے فخر وانبساط کا اظہارکرتے ہیں لیکن جس طرح کمیونسٹوں نے بنگال کے ساتھ سوتیلا پن کیا، طویل حکمرانی کے دورمیں اس کی تعمیر وترقی کی جانب پیش قدمی نہ ہوسکی بالخصوص اہل حدیث اکثریتی ضلعے مالدہ ومرشد آباد اپنی مفلوک الحالی پر ماتم کناں ہیں بنگال کی صوبائی حکومت کی طرح ہماری صوبائی جمعیت بھی ہرمیدان میں پیچھے ہے۔ ناخواندگی غربت وبیروزگاری اوردعوتی سرگرمیوں سے دوری کی وجہ سے اہل حدیث افراد تبلیغی چلوں کے جال کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ عیسائی مشنریوں اورقادیانیوں کے دام فریب میں پھنسے جارہے ہیں، صوبہ میں تنظیم کے موہوم تصور، اورامیر صوبہ کے سال کے ہر اتوار کو جماعتی کاموں کے لئے وقف کرنے کے راگ کوہم نے اپنے جماعتی کاموں کی معراج تصور کرلیا۔ شیخ عبدالمتین اس سلسلے میں بے حد فکرمند رہتے تھے انہوں نے جمعےۃ کو منظم کرنے اوربیداری کی مہم کے لئے کتنے جتن کئے، ان کی ایک نہ چلنے دی گئی، اتنے باصلاحیت شخص کو آگے بڑھانے کی بجائے کسی نہ کسی طرح پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ بعض الزامات عائد کرکے بنگلہ دیش سے واپسی کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ کبھی کبیدہ خاطر نہیں ہوئے اورنہ ہی شکوہ کیا، وہ مسلسل تگ ودو میں لگے رہے، اپنی کوششوں میں انہوں نے صوبہ ومرکز کے ذمہ داران کو شامل کرنے کی بھی کوشش کی خاکسار نے اپنی مرکزی ذمہ داریوں کے درمیان جتنے بھی دعوتی پروگرام بنائے یا مطالعاتی دورے کئے مجھے نہیں معلوم کہ صوبائی جمعیت کی یک نفری قیادت نے کلکتہ کے علاوہ کوئی پروگرام ترتیب دیا ہووالی اللہ المشتکی۔
میں عنداللہ مسؤلیت کے پیش نظرپوری ذمہ داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ گذشتہ بیس سال کے دوران جماعت اہل حدیث کی فلاح وبہبود کے سلسلہ میں جوکام شیخ عبدالمتین نے کئے اس کے مقابلہ میں صوبائی قیادت بہت پیچھے ہے۔
بنگال میں تحریک اہل حدیث کے فروغ کے تئیں ہم سب ذمہ دار ہیں، اگرایماندارانہ جائزہ لیکر صحیح اقدامات نہ کئے گئے تومستقبل میں عددی تصورات کی رٹ سے توہم خوش ہوتے رہیں گے مگر علم ومعرفت عقیدہ ومنہج کے تعلق سے صرف لکیر پیٹے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہی صورت حال بہار کی ہے، صوبائی جمعیت برسوں سے فرید ہاؤس کی یرغمال ہے، صوبائی تنظیم اسی ذہنی فکر کے حضرات سے ترتیب دی جاتی ہے، مخلصین تڑپتے بلکتے رہ جاتے ہیں۔ شیخ عبدالمتین سلفی بہارکو جو سلفی عددی اعتبارسے بڑی ریاست ہے اس کی شایان شان مقام دلانے کا عزم رکھتے تھے، اس کے لئے نہ ان کو موقعہ فراہم کیا گیا اورنہ ان کی صلاحیتوں یا خدما ت سے فائدہ اٹھایا جاسکا۔ جاری میعاد سے قبل ۹۹ء میں صوبائی انتخابات کے موقعہ پرایک بڑی تعداد شیخ عبدالمتین سلفی کو امیر صوبہ بناکران کی صلاحیتوں سے صوبائی جمعیت بہار کو تقویت فراہم کرنا چاہتی تھی لیکن سیاست دانوں کی طرح صوبائی ارکان شوری کوجس انداز میں فرید ہاؤس میں یرغمال بنایاگیا اور انتخابی اجلاس سے پیشتر باہمی ملاقات سے بازرکھا گیا وہ بھی جادہ حق کی صورت سے میل توکیا کھاتا اخلاقی قدروں کی پامالی ہوئی تھی۔
امیر صوبہ نے منتخب ہونے کے بعد جو رویہ اختیار کیا شاید قیامت میں جوابدہی کا انھیں خیال نہ رہا ہو۔ جماعتی مفادات کے پیش نظر خاکسارکے اصراروسفارش پرانھیں صوبہ کی جانب سے مرکز کے لئے نامزد شوری میں توشامل کرلیا گیا مگر پوری پانچ سالہ میعاد میں میٹنگوں میں ان کی حاضری تک کواہمیت نہیں دی گئی۔
جاری میعاد میں توانھیں یک لخت مکھی کی طرح نکال باہر کیا، دلوں کے بھید توعلیم بذات الصدور ہی جانے لیکن نقش پا قافلوں کی جہت متعین کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
صوبائی جمعیتہائے بنگال وبہار کے امراء مرکز میں نائب امراء کے مناصب پر فائزہیں انھیں ذرہ برابر احساس نہیں کہ اس علاقہ کی ان دونوں سے فعال ومتحرک شخصیت جمعیت سے دورہے تو کیوں؟ کیوں کہ عبدالمتین کسی بھی صورت زہرہلا ہل کوقند نہیں کہہ سکتے تھے۔ أتستبدلون الذی ہو أدنی بالذی ہوخیر۔
شیخ عبدالمتین دومیعادوں میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکی مجلس عاملہ و شوری کے ممبررہے اورانہوں نے دونوں میعادوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا، صوبوں اورمرکز کے ذمہ داران کے ساتھ حسن عمل و احترام کے سلسلہ میں کوئی کمی نہیں کی، انہیں اپنے ادارے کے پروگراموں کی زینت بنایا مگر صوبہ ومرکزنے ان کے ساتھ جو جابرانہ سلوک کیا اسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی اذا جاء کم فاسق بنباء فتبینوا کی ہدایت ربانی، عدل وانصاف اور قضاء اسلامی کے اصو ل وتقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے ذمہ داران نے خفیہ طورپر ان کے خلاف کوئی قرار داد مذمت پاس کی ، اس کا نہ کوئی ذکر نہ کسی کو علم اورنہ اعلان؟ شایدعاملہ وشوری کے ارکان کی اکثریت بھی نہ جانتی ہو، مگر زبان درزباں اس کی جس طرح تشہیر کی گئی وہ یہودی روش توہوسکتی مومنانہ عمل نہیں۔ ایک سے زائد حضرات نے میرے ان کے اور بعض دیگر حضرات کے خلاف قرار داد مذمت پاس کرنے کی خبر دی تو ہمیں یقین نہیں آیالیکن ہمیں اس وقت تعجب ہوا جب عبدالمتین نے اس کی تصدیق کی اور بتلایا کہ مولانا اصغر علی سلفی صاحب نے کہا کہ آپ معافی نامہ لکھدیں ،ہم آپ کو جمعیت میں واپس لے لیں گے۔ جب سلفی صاحب نے کہا آپ لکھ کر دیں کہ آپ کا یہ جرم ہے تومیں بتاسکتا ہوں مجھے کیا کرنا چاہیے۔
لیکن جمعیت اہل حدیث کے ناظم عمومی صاحب کو جماعت کے اجتماعی فیصلے میں فرد جرم بتانے کی ہمت نہ ہوئی اورنہ ہی مجرم سے اس سے کوئی وضاحت طلب کی گئی، کیا جمعیت اہل حدیث کے غیر معلن اراکین گرامی بتانے کی زحمت فرمائیں گے کہ یہ فیصلہ کب اورکیو ں ہوا؟ ہمارے علم کی حدتک شیخ عبدالمتین سلفی نے کوئی معافی نامہ نہیں لکھا اورنہ زبانی معافی طلب کی تو کیا ایسی صورت میں مولانا اصغر علی سلفی اوران کے رفقاء کی نظرمیں ان کی رحلت ایک جماعتی محسن نہیں بلکہ مجرم کی حیثیت سے ہوئی ہے؟
مولانا اصغرعلی سلفی کی پریس ریلیز میں ان کی رحلت کو قوم وملت اورجماعت کا خسارہ قرار دیا جانا ایک ڈھونگ کے علاوہ کچھ نہیں۔ جماعت کے اعیان وافراد ناظم عمومی سے شیخ عبدالمتین کے خلاف قرار داد مذمت اور اس کی وجہ معلوم کرتے ہیں؟
وہ میرے دورنظامت اوربعدکی پانچ سالہ میعاد میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکی مجلس شوری وعاملہ کے رکن رکین رہے، وہ بلا عذر غیرحاضر نہیں ہوتے تھے اورجب حاضرہوتے توپوری دلچسپی لگن اورایجنڈا کی دفعات پرگفتگو میں بھرپور حصہ لیتے، کبھی نقد بھی کرتے اور سوالات بھی کرتے لیکن جماعتی امورمیں ہماری دوستی آڑے نہیں آتی ، مجھے خوشی ہوتی کہ وہ ضمیرکی آواز پر بولتے ہیں۔
وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے ،لیکن جماعتی منصب اورذمہ داریوں کے سبب انہوں نے ہمیشہ میرا احترام کیا، اپنے سے بڑے ہونے کا درجہ عطا کیا، مزاحیہ اندازمیں کبھی ایسی بات نہیں کی جس سے کسی طرح کی فروتنی کا احساس ہو، میری منصبی ذمہ داریوں کے بعد بھی ان کا میرے ساتھ وہی انداز واسلوب اوررویہ برقرار رہا اورانہوں نے چھوٹے بھائی کو بڑے بھائی کا درجہ دیا۔ اتنی بات ہی نہیں بلکہ کبھی غصہ کاانداز بھی اختیار نہیں کیا ۔
بھائی عبداللہ مدنی جھنڈانگری جب دہلی تشریف لاتے ہیں عموما میرے غریب خانہ میں فروکش ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ سلفی صاحب ان سے ملنے کے لئے میرے گھرآئے، بچوں نے چچا حضرات کے سامنے ماحضر پیش کیا۔ انہوں نے عبداللہ بھائی سے پلیٹ چھین کرکہا: ابے بس کرو تین دن سے بستر پر پڑے روٹیاں توڑرہے ہو، میرے لئے چھوڑو! عالمانہ روش سے ہٹ کر یہ ان کی اپنائیت ودلداری اورظرافت کا نمونہ ہے لیکن انہوں نے سفر وحضر میں میرے ساتھ کبھی ایسا رویہ نہیں اپنایا جب بولے ادب و احترامِ زائد کے ساتھ بولے۔
شیخ عبدالمتین سلفی، مولانا عبداللہ مدنی اورخاکسارکی دوستی، مودت اوراخوت پوری دنیا میں ضرب المثل بنی، لیکن اسے لوگوں نے رشک و غبطہ اورحسد وجلن دونو ں اعتبار سے دیکھا۔ حاسدوں اورجلنے والوں نے ہمیں افیال اللہ وغیرہ سے تعبیر کیا، رشک کناں حضرات نے ہمیں دعاؤں اور دوستی کی مضبوط وغیر منفصل چٹانوں سے تعبیر کیا۔
ایک روز شیخ عبداللہ مدنی سے گویا ہوئے کہ بھئی ہم تینوں کی دوستی، اخوت کے اس مرحلے میں پہنچ گئی ہے کہ اگرہم میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخصت ہوجائے توہمیں ان کے بال بچوں اور اہل خانہ کی کفالت پرغور کرنا چاہیے۔ بلاریب یہ بھائی عبدالمتین کی اعلی سوچ اور اپنائیت کی انتہا تھی، ایسی مثال اورسوچ کے لوگ خال خال ہی ہوتے ہیں۔
آہ! عبدالمتین۔ برادر عبدالمتین جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ عبدالمتین!
پیشوائے ملت دین نبی چل بسا
اسے جانا نہیں تھا ہوگیا ہم سے جدا
کرگیا ہے ہم کو پیچھے پرملال واشکبار
اس کی فرقت ہم کو تڑپائے گی دنیامیں سدا
وہ جس قدر مضبوط عزم وارادہ کے مالک تھے خاموش نہ بیٹھنے والایہ مرد مجاہد اتنی جلدی زندگی سے منہ موڑلے گا تصور سے باہر ہے، لیکن ہم تواپنے عمل کومیزان عقیدہ سے تولتے ہیں ’’واللہ غالب علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون‘‘ قرآن کریم کا ایک حتمی اور اٹل فیصلہ ہے: ’’لوگ اس حقیقت سے کتنے بے بہرہ ہیں کہ اللہ ہی کا فیصلہ ہمیشہ غالب ہوکر رہتا ہے‘‘ خدا کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم ہے۔ غم واندوہ کی وادی میں ایک مومن کس قد سعادت مند ہوتا ہے کہ وہ عزیز ترین ہستی کوخودہی منوں مٹی کے تلے منتقل کردے اور یاس وقنوط کے ہرزاویہ کو جھٹک دے، میرے لئے غموں کی دبنیر چادر میں فرحت کا ایک احساس یہ تھا کہ تینوں میں سے دونے ایک بھائی کی فرخندہ جبیں کو بوسہ دیا اوراپنے ہاتھوں سے مرقدمیں اتارنے کی سعاد ت حاصل کی۔
اے خاک تیرہ دلبر مارا عزیزدار
ایں نورِچشم مااست کہ دربرگرفتہ ای
شیخ صلاح الدین مقبول مدنی کے ہاتف رنانہ کی گھنٹی ہمیشہ کسی دینی دعوتی علمی تحقیقی جماعتی ملی مسئلہ کی شنیدوخیر کا پیغام لیکر آتی تھی۔ مگر ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء کی دوپہروہ اندوہ ملال کی ایسی چٹان گرنے کی خبرلائی کہ سنانے اورسننے والوں کی آنکھوں سے آنسوؤں جھڑی لگ گئی، دوسری خبر غیرمکذوب ہم سب کے مشترکہ صدیق بھائی عزیز الرحمن مینجینگ ڈائریکٹر پٹاکاانڈسٹریز نے دی، پھر ملک وبیرون ملک سے خبروں کا غیرمنقطع سلسلہ جاری ہوگیا۔ عبداللہ بھائی ہچکیوں کے ساتھ ممبئی سے تسلی دینے کی بجائے افسردہ تھے، شیخ وصی اللہ جامعہ ام القری میں درس دیتے دیتے باہر نکل کرخبر وفات کی تصدیق طلب کررہے تھے مولانا عبداللہ سعود‘،شیخ رضاء اللہ مدنی، ڈاکٹرسعید فیضی، ڈاکٹر عتیق اثر، برادرآفتاب عالم کلکتہ ، نذیربھائی حیدرآباد، مولانا شمس الدین سلفی، ڈاکٹر حسین مدوورکیرالہ، برادر ارشد مختار، عطاء الرحمن بھائی، جبل پور، وفا صدیقی بھوپال، ڈاکٹر عبدالحکیم ممبئی کس کس کو لکھوں اورکس کو گناؤں، اس یار غار کی مغفرت کی دعاؤں کے ساتھ راحل عزیزکو یادکررہا تھا، جانے والے کا ذکر خیر اس کے انجام بخیر کا عکاس ہوتا ہے۔ ۱۷جنوری کو صبح کشن گنج میں پھر دوپہر بھولکی میں تیس ہزار سے زائد مؤحدین کی صلاۃجنازہ وتدفین میں شرکت امام المؤحدین احمد بن جنبل رحمہ اللہ کے اس قول کی تصدیق کر رہی تھی بینا وبینہم یوم الجنائز جسے لوگوں نے دیکھا ان حاضرین میں اپنے کیا اورغیرکیا، ہندوکیا، مسلم کیا اور سکھ کیا، صحافی، سیاستداں ،ڈاکٹر، وکیل، مزدور، عامی، پولیس وانتظامیہ اور تمام شعبہ حیات کے لوگ بلا استثناء موجود تھے، جو ان کی مقبولیت کی زندہ مثال تھی۔
ان کی وفات کے بعد اندیشہ ہائے دور دراز نے لوگوں کے ذہنو ں کو منتشر کرنا شروع کردیا، کیا ہوگا جامعۃ الامام البخاری کا، مدرسہ عائشہ، توحید اکیڈمی اور توحید آئی ٹی آئی کی دیکھ بھال کیسے ہوگی، ٹرسٹ کے جاری مشاریع کیسے سمٹیں گے؟ شیخ صلاح الدین مقبول کی حکمت ان کے رفیق دیرینہ حافظ سلیمان میر ٹھی کی موجودگی، ارکان ٹرسٹ کے اتحاد، برادران عبدالمتین: شیخ عبدالرشید مظہری، عبدالقادر، معین الدین اور منیرالدین کی بالغ نظری اور عزیز القدر مطیع الرحمن مدنی سلمہ کی صلاحیتوں نے تمام اداروں کے استحکام و بقاء اور اس مشن کو جاری رکھنے کے عزم مصمم نے ان تمام خدشا ت کو ختم کر دیا جو شیطانی وساوس کی پیداوار تھے۔
پرسوں یکم مارچ کو عزیز القدرمطیع الرحمن مدنی سلمہ کی اپنے والد کی نہج و عادت کو برقرار رکھتے ہوئے دہلی آمد کی مناسبت سے غریب خانے پر تشریف آوری، والد کے دوست کو والد کے درجہ کی نظر سے دیکھنے کی سعادتمندانہ روش نے ان امیدوں کو یقین میں تبدیل کر دیاکہ عبدالمتین کا بسایا ہوایہ شہر علم و عرفان اسی طرح آباد رہے گا بلکہ اس میں اور چار چاندلگیں گے۔ ان شاء اللہ
عبدالمتین اپنی دھن کے پکے تھے اور مقاصد کے حصول کے لئے وہ کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی مال ومنال کی پرواہ کرتے۔ ہاتھ کے بھی کشادہ تھے، دل کے بھی فیاض ،کوئی بات سمجھ میںآئی تو وہ اس کے پیچھے پڑ گئے۔ انہوں نے ادارے بنائے ،مکاتب کھولے،مساجد تعمیر کیں انہیں ایک مقام دلایا،مارکیٹ دکانیں بنائیں اور اسطرح کے مشاریع کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتے ، ہندوستان کے سلفی مدارس میں سب سے پہلے اس فکر کو شیدائے سلفیت حضرت مولانا عبدالحمید رحمانی حفظہ اللہ نے مرکز ابوالکلام آزاد للتوعۃ الاسلامیہ نئی دہلی اور پھر برادر عبدالمتین سلفی نے اپنے ٹرسٹ میں جاری کیا۔
وہ ادارے کیلئے سفر کرتے کئی مہینے باہر رہتے، خلیجی ممالک کا سفر تو گھر میں آنگن و دالان کی طرح تھا، وہ کب چلے جائیں گے کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ گذشتہ دوسال قبل جمعیتہ خریجین جامعات سعودیہ کی میٹنگ تھی۔دن بھر ہم لوگ شیخ ابو سبحان ندوی،مولانا عبداللہ مدنی ،شیخ ابوالمکارم ازہری، مولانا طاہر مدنی ، ڈاکٹر آرکے نور، ڈاکٹر عبدالحکیم مدنی، وہ خود اور خاکسار بحث و مباحثہ میں لگے رہے،پروگرام بنتے اور منسوخ ہوتے رہے انہوں نے دوسرے دن کا پروگرام طے کیا صبح ہوکرپتہ چلاکہ حضرت شیخ کو یت روانہ ہوگئے۔ ٹرسٹ کے لئے ان کی خصوصی دلچسپی اور اس قدر انہماک تھا کہ وہ جمعیت خریجین کے لئے وہ سب نہیں کر سکے جو ان سے متوقع تھیں۔
ان کے چند سالہ دور صدارت میں کشن گنج اور پھر دہلی میں جو دو ملتقی جات ہوئے وہ اپنی مثال آپ تھے۔جس کی کامیابی کے لئے شیخ ابوسبحان ندوی ،مولانا عبداللہ مدنی ،ڈاکٹرآرکے نور، شیخ ابوالمکارم،مولانا محمد اشفاق سلفی،شیخ محمد رضوان مدنی اور خاکسار کے علاوہ ایام ملتقی میں عزیزم مطیع الرحمٰن مدنی کی دلچسپیوں کا بھی خاص دخل تھا۔
انہیں نوجوانوں کو آگے بڑھانے اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں خاص دلچسپی تھی، وہ چاہتے تھے کہ معاصر نوجوان تحریکوں کی طرح ہمارے سلفی نوجوانوں کا قافلہ بھی نہ صرف آگے بڑھے بلکہ تیز گام وتیزرفتار بھی ہو،اس سلسلہ میں انہوں نے کلکتہ میں ایک پروگرام بھی منعقد کیا،خاکسار اور کویت انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر محترم شیخ باسم اللوغانی کو چیف گیسٹ کے طورپر مدعوکیا،جس میں انہوں نے نوجوانوں کی پریڈ،جھنڈا سلامی اور علمی مظاہرے کو دیکھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا، برا ہو ہماری صفوں میں ان کالی بھیڑوں کا جن کو شباب کی پیش قدمی ایک آنکھ نہیں بھاتی، یہ پروگرام اسی نظر بدکاشکار ہوکر کسی منڈھے سر نہ چڑھ سکا۔
شیخ عبدالمتین کی سرگرمیوں کا محور عموماً ہمارے عام سلفی ذہن کی طرح زیادہ تر اپنی فکر وجماعت تک محدود رہتا ،وہ کوشش کے باوجود ملی جماعتوں اور اداروں سے رابطہ و تعلقات استوارنہ کر سکے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ملک و ملت سے بے بہرہ تھے۔ وہ اپنی مشغولیات کے سامنے روزانہ اخبارات کے مطالعہ کو بے سود تصور کرتے تھے،لیکن اس کے باوجود وہ ملکی حدود سے باہر ہوکر عالمی مسائل پر بحث کرتے تھے۔ اس لئے ملکی و ملی اجتماعات میں ان کی شرکت معدود ے تھی۔ البتہ وہ سلفی اجتماعات میں خوب شرکت کرتے، بنگال وبہار کے علاوہ اور صوبوں میں جاتے ۔ملکی اسفار طویلہ بالخصوص عرب مشائخ و عمائدین کی رفاقت و ہمراہی میں اسفار کی فہرست طویل ہے، خلیجی ممالک کے علاوہ انہوں نے چین،سری لنکا، امریکہ، برطانیہ، نیپال اور بھوٹان کے اسفار بھی کئے اورجہاں گئے اپنی محبتوں کی چھاپ چھوڑ کر آئے۔جس کسی سے ملتے انتہائی اپنائیت اور محبت سے ملتے،سادگی و شگفتگی ان کی طبیعت اور مزاج کا حصہ تھی،جس سے ملتے مسکراتے، دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کھل مل جاتے گویا برسوں کا یارانہ ہے۔
۸؍جنوری کو ہماری ان سے ملاقات ہوئی، جوآخری ملاقات ثابت ہوئی، ہم لوگ مولانا عبداللہ،شیخ ابوالمکارم شاہین باغ ابوالفضل انکلیو جامعہ نگر نئی دہلی میں واقع ان کے دولت کدہ پر جمع تھے، مجھے ان کے علاوہ کئی اور لوگوں سے ملنا تھا، کہنے لگے ان کو یہیں بلالو تم ڈرائنگ روم میں الگ سے اپنی بات کرلینا ہم لوگ دوسرے کمرے میں بیٹھ جائیں گے ،مجھے ان کی تجویز اچھی لگی، میراوقت بھی بچا اور ان سے نشست و گفتگو بھی طویل ہوگئی۔ مجھ سے جولوگ ملنے آئے آخر میں وہ بھی سب سے آکرملتے سب سے آخر میں برادر عزیز سہیل انجم بھی تشریف لائے، میں نے دونوں کا باہمی تعارف کرایا، سہیل انجم کی صحافیانہ سرگرمیوں، دلچسپیوں اور اخبارات و میڈیا سے گہرے تعلق کی بات سن کر ان کو زبردستی اپنے کمرے میں کھینچ لائے جہاں مولانا عبداللہ ،شیخ ازہری، عبدالخبیرزاہد آزاد جھنڈا نگری اور شمیم احمد ان کے رفیق خاص موجود تھے،چائے نوشی اور مختصر ناشتہ کے دوران موضوع در موضوع باتوں میں ڈیڑھ گھنٹہ گذر گیااسی دوران ’’میڈیا کے اصلاحی وتعمیری کردار ہندوستان کے تناظر میں‘‘ کے زیرعنوان ایک سمینار کے انعقاد کی تجویز بھی سامنے آئی،کشن گنج و دہلی میں مقام انعقادکی بجائے پٹنہ میں سیمنار کا ہونا طے پایا، بلکہ اپریل کا مہینہ بھی مقرر ہواکہ جگہ و مقام دیکھنے کے بعد تاریخ متعین کرلی جائیگی، ابھی بات اپنے انجام کو پہنچ ہی رہی تھی کہ آواز دی اور دستر خوان لگادیا ، پھر ہم لوگ معرکۂ دست و دہن میں لگ گئے۔
سہیل انجم کہنے لگے کہ بھئی ’’ہم تو ان کو صرف واعظ خشک بیاں سمجھتے تھے ،انہوں نے تو مجھے اپنا گرویدہ بنالیا‘‘ مزاج کی سادگی اور شگفتگی سے وہ دلوں کو اسطرح موہ لیتے کہ آدمی بے بس ہوکر رہ جاتا۔
عبدالمتین وہ عبدالمتین رفیق، صدیق، عزیز، برادر بھائی آخر جس کی اب یادیں ہی یادیں رہ گئیں، باتیں ختم ہوئیں صبح علی الصبح فجر بعد فون کی گھنٹی بجتی تھی، سرشام ان کا فون آتا جو برسوں کی عادت ہوگئی ،کبھی سوتے سوتے آواز کیف الحال ؟ میرے بھائی کہاں ہو؟ کی آواز آتی، گھنٹیاں تو بجتی ہیں مگر وقت وہ نہیں ہوتا اورآواز نہیں آتی، اپنے جدامجد سے لیکر اپنے گھر کے قریب سے قریب تر بزرگوں تک ،والدین سے لیکر اپنی عزیز ترین ہمشیرہ اعزاء احباء،اصدقاء علماء مفکرین اور دانشوروں کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کیا جو جماعت وملت اور خاندانوں کے گنج ہائے گرا نمایہ تھے۔رب ذوالجلال نے مرور ایام کے ساتھ صبربھی دیا، لیکن عبدالمتین کی رحلت کا غم اور صدمہ اس قدر کاری ہے جس کا احساس ہوتے ہی آنسوؤں کی لڑی بکھر جاتی ہے۔
وہ ایک دوست تھا گنج گرانمایہ نہیں گنج ہائے گرانمایہ کے مساوی تھا یاأیتہاالنفس المطمئنۃ ارجعی اِلی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔
عبدالمتین سلفی وہ میرا محبوب تھا عزیز تھا، عزیز ترین تھا، زندگی میں قریب تھا اور موت کے بعد قریب تر ہوگیا، عبداللہ سے کہوں تو کیا کہوں وہ بھی تو اسی مصیبت کے گھائل ہیں، ایک اشفاق بھائی ہیں جو عموماً نقطہ وصل رہے، آج بھی ملقن صبر کافریضہ انجام دیتے ہیں۔
اس لئے کہ میرا محب میرے محبوبوں کا محب وہ محبت ترک کر کے گریباں سی چکا، وہ وہاں چلاگیا جہاں سب کو جانا ہے، دنیا کے مسافر لوٹ کر اپنے گھر ضرور آتے ہیں۔
لیکن عبدالمتین اس سفر پر چلاگیا جہاں سے کوئی مسافر نہ لوٹاہے نہ لوٹے گا۔مگر وہ جاتے جاتے ہمیں سبق دے گیا کہ میں دنیا میں سفر پر آیا تھا اپنے حصہ کا کام کر چکا ،بقیہ تم سب سنبھالو اور اب اپنے گھر لوٹ کر جارہا ہوں:
آسماں تری لحدپر شبنم افشانی کرے
صدر انڈین اصلاحی موومنٹ
شیخ عبد المتین سلفی کی رحلت
ایک اہم ستون کا انہدام اور تحریک اہلحدیث کے ایک عہد کا خاتمہ
عزم وہمت کا کوہ گراں براد رمحترم مولانا عبدالمتین سلفی کی رحلت وہ صدمہ جانکاہ ہے جس کا باراٹھانے سے بھی نہیں اٹھ پارہا، وہ تحریک وجماعت اہل حدیث اورملت اسلامیہ ہند کا عظیم نقصان اور تادیر پُرنہ ہونے والا خسارہ توہے ہی میرے لئے وہ کسی ذاتی خسارہ سے کم نہیں، ایک دوست، رفیق، صدیق، ہمدم، غم گسار، ہم نوا، ہم خیال وہم فکر کے ساتھ ساتھ وہ میرے بڑے بھائی تھے اورہمیشہ ایک بڑے بھائی ہونے کا ثبوت بھی دیا اوراسے پورے اخلاص ومحبت سے نبھایا بھی، آج انھیں ہمیشہ ہمیش کے لئے ہم سے جدا ہوئے پینتالیس دن ہوگئے، مگر کوئی دن ایسا نہیں کہ وہ آنکھوں سے اوجھل ہوئے ہوں، تیس سال سے زائد عرصہ پرمحیط ہمارے درمیان رفاقت، صداقت، مودت ،اخوت اور بھائی چارگی کی داستان طویل کے واقعات کالامتناہی سلسلہ یادوں اوریادگار لمحات کا ایک ہجوم متلاطم سامنے سرگرداں ودوراں ہے اورہرواقعہ اس با ت کا متقاضی ہے کہ اسے قلم وقرطاس کے حوالہ کیا جائے، یادیں فریادکناں ہیں کہ انھیں نوک قلم پرلایا جائے یکے بعد دیگرے تیس سالہ دور رفتہ کی داستانیں صف بستہ کھڑی ہوئی پکار رہی ہیں کہ پہلے مجھے چنو، پہلے مجھے لکھواور پہلے میرا انتخاب کرو لیکن ان کا سمیٹنا کوئی سہل کام نہیں اورنہ ہی آسانی سے لکھا جاسکتا ہے ان کے قلم بند کرنے کے لئے لمبی مدت اور ایک دفترچاہئیے۔ایک اہم ستون کا انہدام اور تحریک اہلحدیث کے ایک عہد کا خاتمہ
آج سے ایک ماہ زائد عرصہ قبل برادر عزیز مولانا عبدالعظیم مدنی جھنڈانگری کافون آیا کہ نورتوحید کے لئے شیخ عبدالمتین سلفی سے متعلق کچھ لکھوں پھرایک دن اسی درمیان طویل عرصہ بعدماہنامہ نوائے اسلام دہلی کے مدیر دبیر برادر مکرم مولانا عبدالعزیز سلفی کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی انہوں نے بھی ہمارے قابل رشک تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے خاکسار کو نوائے اسلام میں کچھ لکھنے کے لئے فرمائش کی، جی نے چاہا کہ یادوں کے دفتروں کو کنگھال دوں، مگرمیرے لئے مشکل یہ تھی کہ میں محسن گرامی برادرمحترم ڈاکٹر سعید احمدفیضی حفظہ اللہ امیرصوبائی جمعیت اہل حدیث مہاراشٹر کی پراصرار دعوت پر ممبئی میں احسن البیان کے مراٹھی ترجمہ کی تقریب اجراء اور برادر عزیز مولاناارشد مختار زیدہ مجدہ کی دعوت پر جامعہ محمدیہ مالیگاؤں میں کلےۃ عائشہ کی نو تعمیرعمارت کی تقریب افتتاح میں شرکت کے لئے چند روزہ سفر کے لئے پابرکاب تھا اورماہنامہ نوائے اسلام کی کاپی پریس جانے کے لئے آخری مراحل میں تھی دوطرفہ مجبوریوں کے پیش نظر یہ آروز ئے یاراں قابل تعمیل وتکمیل نہ ہوسکی۔
عبادلہ واخوان ثلاثہ، عبدالمتین سلفی، عبداللہ مدنی اورعبدالوہاب خلجی کی مثلث کی ایک اہم کڑی برادر عبداللہ مدنی کی خواہش کا احترام نہ کرنا ایک قدح اخوت سے کم نہیں،مگرمیں نے جب جب قلم اٹھایا پورا جسم کپکپانے لگتا، ہاتھ تھرانے لگتے، قلب مضطر، ذہن پرملال اور چشم پُرنم سے اشکہائے حزن کاسلسلہ جاری ہوجاتا۔ گذشتہ تین راتوں سے مسلسل تین چاربجے رات تک کوشش کے باوجود ہمت نہ جٹاپایا تھا۔ حقِ رفاقت کی ادائیگی اوربھائی عبداللہ مدنی کی محبت بھری ملامت بھری ڈانٹ کے ڈرسے کچھ نہ کچھ تولکھنا ہی تھا مصائب عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہماری مصیبت کا کوئی موازنہ نہیں، سیرت نبوی کے دروس صبروعزاء نے ہمت دلائی تویہ سطریں رقمطراز ہیں۔ جبکہ بیہقی وقت مولانا رئیس احمدندوی، مفکر ملت ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، قائد ملت سلفیہ مولانا مختاراحمد ندوی، نمونۂ سلف استاد دوران علامہ عبدالغفار حسن رحمانی اوررمزشناش علم وحکمت پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہم اللہ پرکچھ لکھنے کا قرض باقی ہے وفقنی اللہ لتحقیق آمالی ورؤیای عن ہٰولاء الجہابذہ۔
برادر راحل عبدالمتین سلفی میرے دوست بھی تھے اور بھائی بھی، آج نہیں ربع صدی سے زائد عرصہ سے جو پلک جھپکتے گذرگیا، میں ۱۹۷۳ء میں جامعہ رحمانیہ بنارس گیا وہ جامعہ سلفیہ میں تھے دور دور سے شناسائی تھی۔ نہ بات نہ چیت ۔۱۹۷۴ء کے آخرمیں میرا داخلہ دارالحدیث مدینہ طیبہ علی صاحبہا افضل الصلاۃ و التسلیم میں ہوا، پھر میں وہاں سے المعہدالثانوی میں آیا، اسی دوران جامعہ سلفیہ سے عبدالمتین سلفی، ڈاکٹر محمد ابراہیم محمد ہارون سلفی اورشیخ ابوالکلام عبداللہ سلفی پرمشتمل جامعہ سلفیہ بنارس سے منتخب ممتاز ٹیم جامعہ اسلامیہ میں وارد ہوئی اول الذکر دونوں نے کلےۃ الشریعہ اورشیخ ابوالکلام نے کلےۃ الدعوۃ واصول الدین کو اپنی علمی آسودگی کے لئے چنا، یہ تینوں حضرات اپنی اپنی کلیات کے ہونہار طلباء شمار ہوتے تھے، یہ دور بھی رواروی اورعلیک سلیک کی حدتک ہی رہا جوطالب علما نہ نفسا نفسی اورہما ہمی کا دورہوتا ہے۔ اس دوران ان کا ایک تعارف یہ نکلا کہ وہ شیخ عطاء الرحمن مدنی کے داماد ہیں۔ وہ جب ملتے تپاک وفروتنی سے ملتے اپنائیت ان کا وصف عالی تھی۔ کلیہ سے فراغت کے بعد ان کا تعاقد (تقرری) بنگلہ دیش میں ہوگیا، خاکسار ’’جرف‘‘۔ وہ مقام جہاں تک صدیق اکبر لشکر اسامہ کو وداع کرنے آئے تھے اورجو دجال کے مدینہ تک پہنچنے کی آخری حد ہے۔ میں رہائش پذیر تھا۔ میرے اورشیخ عبدالمتین سلفی کے بڑے بھائی مولانا عبدالرشید مظہری کے مکان کے درمیان ایک دیوار حائل تھی عبدالمتین وہیں نزیل تھے۔ مسجد آتے جاتے ملتے باتیں ہوتیں ا طعمہ واشربہ کا تبادلہ ہوتا فاصلے سمٹنے لگے قربتیں بڑھنے لگیں اور عبدالمتین حیات طالب علمی سے نکل کر استاد وداعیہ اور شیخ بنکر ڈھاکہ روانہ ہوئے۔ وہ کبھی کبھی مدینہ آتے تھے توبھائی عبدالرشید کے یہاں نزیل ہوتے کبھی گفتگو ہوتی بڑے چھوٹے کی جھجھک ضرور درمیان میں حائل ہوتی۔ عملی میدان میں جہد مسلسل اور فکری ہم آہنگی نے فاصلے اوربھی کم کردےئے اس کے بعد قربتیں بڑھتی ہی گئیں اور من توشدم تومن شدی کی کیفیت پیدا ہوگئی حتی کہ ان کا وقت موعود آگیا ۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
ہمارے درمیان ان تعلقات کو ان کی تحریر کے عکس میں ملاحظہ کریں جوانہوں نے سال ۲۰۰۲ء میں میری مرتبہ لیل ونہار ڈائری کے لئے پیغام میں تحریر کئے: ’’آپ کو کچھ لکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے گویا میں خود اپنے آپ کو کچھ لکھ رہا ہوں کیوں کہ ہمارے دینی، علمی، مسلکی، جماعتی اور ذاتی روابط وتعلقات ہرآدمی پر آشکارا ہیں جسے بیان کی ضرورت نہیں۔ جس پر مثل صادق آتی ہے۔ع
من توشدم تومن شدی
من تن شدم توجاں شدی
تاکس نہ گوید بعدازیں
من دیگرم تو دیگری
وہ گوناں گوں صلاحیتوں کے مالک تھے، زمانہ طالب علمی کسب علم کی جولانیوں میں گذرا، جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف سے اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں اعلی تعلیم کے لئے ان کاانتخاب ان کی علمی صلاحیتوں کا غماز تھا، مدینہ میں وہ ایک ہونہار پختہ ذہن وفکر کے خوشہ چیں رہے، مسلک سلف اور قافلہ توحید کے لئے جاں نثاری گویاان کو ورثہ میں ملی تھی، سرزمین بنگال توحید وسنت، حریت فکروعمل اوراستقلال وطن کی تحریک کے لئے ہمیشہ زرخیررہی ہے اسی نسبت سے تحریک ونشاط ان کی پوری زندگی میں رچا بسا رہا وہ انتھک وبے لوث تھے جوٹھان لیتے وہ کرڈالتے، ہمیشہ رواں دواں محرک اورمتحرک رہے، وہ اس عصر عیش کو شی میں جانبازوسخت جان رہے، سست روی ان کا مذہب نہ تھی، وہ ایک رواں دواں زندگی کے قائل تھے، چلتے پھرتے سفر وحضر اور موسموں کے تنوعات میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنااوروں کو بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی ترغیب دینا اورکرنے والوں کی حوصلہ افزائی ان کی زندگی کا معمول تھا۔خاموش بیٹھے رہنا یا کچھ نہ کرنا ان کے نزدیک ایک اجتماعی گناہ سے کم نہ تھا، جو خود تیز چلتا ہے دوسروں کو بھی تیز چلاتاہے ، نفس پرستی کے دور میں ایسے لوگ کم ہی ملتے ہیں۔ اپنی انتھک عملی زندگی کی روش کو انہوں نے اپنے برادران، اولاد اور ماتحت ذمہ داران وکارکنان میں پیدا کرنے کی کوشش کی ایسے لوگ ہی تاریخ ساز ہوتے ہیں۔
عبدالمتین سلفی کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ دوستوں کے دوست اور اہل علم کے قدرشناس تھے، علمی کام کرنے والوں کو پسند کرتے اوران کی حوصلہ افزائی کرتے ان کے پاس جاتے ان کے احوال وظروف کا جائزہ لیتے مطالعہ کرتے ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے، ان کی طبیعت سادگی وظرافت کا مرقع تھی اہل علم کی مجلس ہوتی توان کی نیاز مندی دیدنی ہوتی، ہم عصروں کی محفل میں ان سے بڑھ کر ظرافت پسند کوئی نہ ہوتا وہ اپنی تقریروں میں عربی اشعار خوب پڑھتے، بنگالی زبان ونسل کے امتیاز کو اردو کی بجائے عربی میں پورا کرتے، موضوع علمی ہوکہ فقہی اجتماعی کو کہ سیاسی لیکن وہ گفتگو میں بھرپور حصہ لیتے اوراپنی بات کو باور کرانے اوراسے ثابت کرنے کی وہ آخر حدتک کوشش کرتے، بہت کم دیکھا گیا کہ انہوں نے اپنی رائے تبدیل کی ہو۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد ادارات البحوث العلمیہ والإفتاء والدعوۃ والإرشاد۔ عرف عام میں سعودی دارالافتاء۔ کی طرف سے ان کی تقرری (تعاقد) جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش کی مرکزی درسگاہ جامعہ محمدیہ ڈھاکہ میں ہوئی شروع میں ان کے نشاطات درس وتدریس دعوت وارشاد اورذاتی طورپر تالیف وترجمہ کی حدتک محدود رہے، اس عرصہ میں انہوں نے اپنے آپ کو ایک کامیاب مدرس، پُراثر داعی وخطیب اورمنجھے ہوئے مترجم ہونے کا ثبوت فراہم کیا، وہ بنگلہ اور عربی زبان میں بلاکے مقرروخطیب تھے۔
ڈھاکہ میں ان کا قیام ان کے علمی سفر کے کامیاب تجربوں کا دور تھا اس دوران انہوں نے کئی اہم ومستند علمی کتابوں اور مفید لٹریچر کاعربی سے بنگلہ میں ترجمہ کیا۔ کچھ رسالے بھی مرتب کئے، بارہا ایک داعیہ ،بنگلہ زبان کے ممتاز عالم دین کی حیثیت سے ایام حج میں حاجیوں کی علمی رہنمائی کے لئے ان کو سعودی وزارت حج، یا وزارت اسلامی امور کی طرف سے مدعو کیا جاتا رہا ہے ۔ جہاں وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے بلکہ انحائے عالم سے تشریف لانے والے حاجیوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ سلفی تحریک کے مقتدر حضرات اور عمائدین سے بھرپور فائدہ اٹھاتے۔
ڈھاکہ میں قیام کے دوران بھائی عبدالمتین کو تحریک اہل حدیث کے عظیم خانوادہ کے فردفرید علامہ ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ سابق امیر بنگلہ دیش جمعیت اہل حدیث و وائس چانسلر راج شاہی یونیورسٹی سے بھرپور استفادہ کاموقعہ ملا اور انہوں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، علامہ ڈاکٹر عبدالباری کی صحبت ورفاقت اورعملی جدوجہد سے ان کی شخصیت کو بننے سنورنے اور ابھرنے کا موقعہ ملا۔ اس دوران ان کی علمی، دعوتی تدریسی اورانتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تنظیمی صلاحیتوں کو بھی جلا ملی ،جس سے وہ ایک سلفی رہنما بن کر ابھرے۔
قیام ڈھاکہ دوران ان کے تحریکی مزاج، کتاب وسنت اورمسلک سلف سے ان کی غیرت وحمیت نے جوش مارا اور وہ اپنی دیگر علمی دعوتی اور تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تنظیمی سرگرمیو ں سے بھی وابستہ ہوگئے اوراپنے شعورو مزاج اورڈاکٹر عبدالباری صاحب کی معیت میں وہاں جمعیت اہل حدیث کو متحرک وفعال بنانے میں اہم رول ادا کیا، پورے ملک میں بیداری پیدا کی، ڈاکٹرعبدالباری کو تیار کیا کہ وہ دنیائے سلفیت سے جڑیں،عالم عرب سے تعلقات ،روابط کو مضبوط بنائیں برادر گرامی شیخ عبدالمتین سلفی کی تحریک وترغیب پر قائدین جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش نے سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات کے علمی، دعوتی، مطالعاتی اورباہمی اشتراک وعمل کے لئے اسفار کا سلسلہ شروع کیا تووہ ایک معاون ومشیر اوربالغ نظر مترجم کی حیثیت سے ان کے ہم سفر ہوتے، شیخ عبدالمتین کی جماعت کے لئے فرزانگی کا نتیجہ تھا عالم عرب کی سلفی تنظیموں اورممتاز شخصیات کے درمیان باہمی رابطوں کے بعد تعاون کا سلسلہ شروع ہوا، اس شناخت کاسہرا صرف اورصرف شیخ عبدالمتین کے سرپر جاتاہے۔
جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش سے وابستہ عمائدین وذمہ داران اس وقت زیادہ تروہ لوگ تھے جو یا توبڑے بڑے سرکاری مناصب پر فائز تھے یا تاجر پیشہ، علماء کی تعداد کم اور اس ہمت وحوصلہ سے فروتر تھی جو ایک تاریخ ساز جماعت او رتحریک کے لئے درکار ہوتی ہے۔ خود جمعیت اہل حدیث بنگلہ کے صدر ڈاکٹر عبدالباری اپنی بے شمار خداداد صلاحیتوں کے سبب کئی ایک اہم سرکاری ذمہ داریوں پر فائز تھے جن میں (یوجی سی) یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے چیئرمین کی ذمہ داری بھی تھی، ایسے میں ان کے لئے وقت نکالنا اورتحریک کو سنوارنا مشکل کام تھا ،یہ وقت تھا کہ برادرم عبدالمتین سلفی نے اپنی حرکت وعمل سے وہاں کی قیادت کو احساس ذمہ داری، تاجروں کو ان کے کردار اورعلماء وکارکنان کو ان کی مسؤلیت سے باخبر کیا۔ خاکسار کو اس کا علم ومشاہدہ اس وقت ہوا جب میں ۱۹۸۷ء میں مرکزی جمعیت اہل ہند کی منصبی ذمہ داریوں کے دوران رابطہ عالم اسلامی مکہ کی تیسری عالمی عمومی کانفرنس میں شرکت کے بعد اس وقت کے امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر، رابطہ عالم اسلامی مکہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل مفکر اسلام علامہ پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن الترکی کا ڈاکٹر عبدالباری صدرجمعیت کے نام ایک پیغام لیکر ڈھاکہ گیا اورجمعیت نے میرے اعزازمیں ایک تقریب منعقد کی اوراعیان واخوان جماعت نے شیخ عبدالمتین کی کوششوں کا ذکرکیا۔
اورپھرتاریخ نے وہ دوربھی محسوس کیا کہ جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش اپنے ملک میں دینی اسلامی دعوتی تعلیمی اوررفاہی جماعتوں کی صف اول میں شمار کی جانے لگی اوراسے ایک بلند مقام حاصل ہوا جسے اس مقام پر لانے کے لئے برادرفاضل کا بڑا حصہ تھا۔جمعیت نے بنگلہ دیش میں سیلابی طوفان اورآفات سماوی کی ہلاکت خیزیوں کے دوران خدمت خلق کے وہ کارہائے نمایاں انجام دےئے جو رفاہی تاریخ کا اہم حصہ بنے۔
یہ کام جہاں انسانی ہمدردی ، مصیبت زدگان کی راحت رسانی اورپریشان حالوں کے لیے غیبی مدد کا ذریعہ بنا وہاں بعض حاسدوں ، کینہ پروروں اور بدخواہوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اس میں اپنے وغیراور سرکاری لوگ سب شامل ہیں، کلمہ حق کو بلند ہوتے دیکھ کر اصحاب اقتدار نے اپنے پیروں تلے مٹی کھکستے دیکھ کر ناکردہ گناہ کی سزا ان کو دلائی جو محسن وخیر خواہ تھے، جنرل ارشادکے دور استبداد میں ایک غیر واضح سرکاری حکمنامے کے ذریعہ شیخ عبدالمتین کو بنگلہ دیش کی سرزمین سے چند گھنٹوں کے دوران نکل جانا پڑا کہ انھیں اپنے بچوں کو اسکول سے گھرلانے تک کی اجازت نہ ملی۔
حق ہمیشہ سربلند ہوتا ہے سرنگوں نہیں، وہ وقت بھی آیا کہ شیخ معزز ومکرم ہوکر اپنے رفقائے عزیز عبداللہ مدنی اور عبدالوہاب خلجی کے ہمراہ ڈھاکہ پہنچے توحید کے فرزانوں نے ان کا والہانہ اورشاہانہ استقبال کیا، شیخ عبدالمتین کو ملک بدر کرنے والے ایوان اقتدار میں براجمان قیدوبند کی سلاخوں میں تھے، اور داعی حق محسن ملت اپنے دیوانوں کے جھرمٹ میں تلک الأیام نداولہا بین الناس کی یہی تفسیر تھی ،ارشاد جوجنرل تھا وہ جیل میں اور درویش عبدالمتین مسجد مکرم میں ڈھاکہ وراجشاہی کے منبروں پر۔
اس کی دوسری تفسیریہ تھی کہ مشیت ایزدی کو کچھ اور منظور تھا، اپنے اس بندے سے کمیونسٹوں کی جائرانہ پالیسیوں سے دب رہی سرزمین بنگال اور بہار وجھارکھنڈ کے پسماندہ علاقوں میں علم ومعرفت کی شمع روشن کرانے کے لئے اسے اپنے وطن بلاناچاہتی تاکہ وہ آگے بڑھیں اور ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی گورنر بہار، بنگال اورہریانہ، سابق کابینہ سیکریٹری حکومت ہند ظفرسیف اللہ ، وزرائے اعلی بہار لالو و رابڑی اورنتیش وزیر خزانہ پرنب مکھرجی مرکزی وزیر تسلیم الدین جیسی قدرآور شخصیتیں ان کی ممدومعاون بنیں۔
شیخ عبدالمتین سلفی کی بنگلہ دیش سے واپسی بھلے کسی حادثہ کے سبب ہوئی مگریہ حادثہ رُبَّ ضارۃ نافعۃ بسااوقات ضررساں چیزیں نفع بخش بن جاتی ہیں شیخ عبدالمتین سلفی کی زندگی اس کی عملی تصویرہے۔
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی تاسیس وقیام غارحراء سے پھوٹنے والی تعلیمی اور کوہ صفا سے بلند ہونے والی دعوتی تحریکوں کا تسلسل ہے جواس نام کی برکت ہے۔
توحید ٹرسٹ، جامعہ الامام بخاری اور جامعہ عائشہ نسواں سے معنون ادارے اس شخص کی کتاب وسنت سے وابستگی، خواتین میں عورتوں کی تعلیم، اسلام کی خاتون اول سے لگاؤ، مسلک محدثین اورجادہ سلف سے گہرے تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔
کشن گنج کے بنجر علاقہ میں ان کا لگایا ہوا پودا، اس کی ساخت وپرداخت میں امت کے خیرخواہان، ان کے رفقاء، ہمدردان وبہی خواہان اوربرادران کی مشترکہ جدوجہد اور کوششوں کا نتیجہ ہے ،توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ اوراس کے بانی علیہ الرحمہ نے جو شبانہ وروز کوششیں کی ہیں وہ عیاں ہیں جن کاذکر دیگر حضرات کی تحریروں باتوں اور یادوں میںآئے گا جسے دوہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔بلاشبہ ان کا ہم سے جدا ہوجانا علمی تحریک کے ایک اہم ستون کے انہدام، اورتحریک اہل حدیث ہند کے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ع
موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
انہوں نے اپنے ادارے کو کسی بھی حیثیت سے معیاری بنانے میں کسرنہیں چھوڑی، دینی تعلیم وتربیت کے ساتھ سماجی کاموں اورجسمانی ورزشوں کے ذریعہ ایک کامل مرد مؤمن کی جرأت مندانہ صلاحیتوں کے ابھارنے کا سامان بھی فراہم کیا، وہ اپنے زیر تربیت طلباء کوذہنی وجسمانی طورپر بھی مضبوط ومستحکم بنانا چاہتے تھے۔ اس رخ پر انہوں نے گردوپیش کے مدارس میں ایک نئی طرح ڈالی، مختلف جسمانی تربیتوں کے مقابلوں میں بھرپور صلاحیتوں کو اجاگر کیا،گذشتہ چند سال پیشتر ان کے ادارہ کے طلباء نے ایرفورس کی ٹیم سے فٹ بال مقابلہ میں سبقت حاصل کرکے مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے درمیان ایک اہم تاریخ رقم کی۔
آج بھی سرزمین بنگال عددی اعتبارسے سب سے بڑا علاقہ ہے اوراہل حدیثان ہند، ہم اور ذمہ دار ان جمعیت ، جماعت اس عدد کثیر پر اپنے فخر وانبساط کا اظہارکرتے ہیں لیکن جس طرح کمیونسٹوں نے بنگال کے ساتھ سوتیلا پن کیا، طویل حکمرانی کے دورمیں اس کی تعمیر وترقی کی جانب پیش قدمی نہ ہوسکی بالخصوص اہل حدیث اکثریتی ضلعے مالدہ ومرشد آباد اپنی مفلوک الحالی پر ماتم کناں ہیں بنگال کی صوبائی حکومت کی طرح ہماری صوبائی جمعیت بھی ہرمیدان میں پیچھے ہے۔ ناخواندگی غربت وبیروزگاری اوردعوتی سرگرمیوں سے دوری کی وجہ سے اہل حدیث افراد تبلیغی چلوں کے جال کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ عیسائی مشنریوں اورقادیانیوں کے دام فریب میں پھنسے جارہے ہیں، صوبہ میں تنظیم کے موہوم تصور، اورامیر صوبہ کے سال کے ہر اتوار کو جماعتی کاموں کے لئے وقف کرنے کے راگ کوہم نے اپنے جماعتی کاموں کی معراج تصور کرلیا۔ شیخ عبدالمتین اس سلسلے میں بے حد فکرمند رہتے تھے انہوں نے جمعےۃ کو منظم کرنے اوربیداری کی مہم کے لئے کتنے جتن کئے، ان کی ایک نہ چلنے دی گئی، اتنے باصلاحیت شخص کو آگے بڑھانے کی بجائے کسی نہ کسی طرح پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ بعض الزامات عائد کرکے بنگلہ دیش سے واپسی کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ کبھی کبیدہ خاطر نہیں ہوئے اورنہ ہی شکوہ کیا، وہ مسلسل تگ ودو میں لگے رہے، اپنی کوششوں میں انہوں نے صوبہ ومرکز کے ذمہ داران کو شامل کرنے کی بھی کوشش کی خاکسار نے اپنی مرکزی ذمہ داریوں کے درمیان جتنے بھی دعوتی پروگرام بنائے یا مطالعاتی دورے کئے مجھے نہیں معلوم کہ صوبائی جمعیت کی یک نفری قیادت نے کلکتہ کے علاوہ کوئی پروگرام ترتیب دیا ہووالی اللہ المشتکی۔
میں عنداللہ مسؤلیت کے پیش نظرپوری ذمہ داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ گذشتہ بیس سال کے دوران جماعت اہل حدیث کی فلاح وبہبود کے سلسلہ میں جوکام شیخ عبدالمتین نے کئے اس کے مقابلہ میں صوبائی قیادت بہت پیچھے ہے۔
بنگال میں تحریک اہل حدیث کے فروغ کے تئیں ہم سب ذمہ دار ہیں، اگرایماندارانہ جائزہ لیکر صحیح اقدامات نہ کئے گئے تومستقبل میں عددی تصورات کی رٹ سے توہم خوش ہوتے رہیں گے مگر علم ومعرفت عقیدہ ومنہج کے تعلق سے صرف لکیر پیٹے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہی صورت حال بہار کی ہے، صوبائی جمعیت برسوں سے فرید ہاؤس کی یرغمال ہے، صوبائی تنظیم اسی ذہنی فکر کے حضرات سے ترتیب دی جاتی ہے، مخلصین تڑپتے بلکتے رہ جاتے ہیں۔ شیخ عبدالمتین سلفی بہارکو جو سلفی عددی اعتبارسے بڑی ریاست ہے اس کی شایان شان مقام دلانے کا عزم رکھتے تھے، اس کے لئے نہ ان کو موقعہ فراہم کیا گیا اورنہ ان کی صلاحیتوں یا خدما ت سے فائدہ اٹھایا جاسکا۔ جاری میعاد سے قبل ۹۹ء میں صوبائی انتخابات کے موقعہ پرایک بڑی تعداد شیخ عبدالمتین سلفی کو امیر صوبہ بناکران کی صلاحیتوں سے صوبائی جمعیت بہار کو تقویت فراہم کرنا چاہتی تھی لیکن سیاست دانوں کی طرح صوبائی ارکان شوری کوجس انداز میں فرید ہاؤس میں یرغمال بنایاگیا اور انتخابی اجلاس سے پیشتر باہمی ملاقات سے بازرکھا گیا وہ بھی جادہ حق کی صورت سے میل توکیا کھاتا اخلاقی قدروں کی پامالی ہوئی تھی۔
امیر صوبہ نے منتخب ہونے کے بعد جو رویہ اختیار کیا شاید قیامت میں جوابدہی کا انھیں خیال نہ رہا ہو۔ جماعتی مفادات کے پیش نظر خاکسارکے اصراروسفارش پرانھیں صوبہ کی جانب سے مرکز کے لئے نامزد شوری میں توشامل کرلیا گیا مگر پوری پانچ سالہ میعاد میں میٹنگوں میں ان کی حاضری تک کواہمیت نہیں دی گئی۔
جاری میعاد میں توانھیں یک لخت مکھی کی طرح نکال باہر کیا، دلوں کے بھید توعلیم بذات الصدور ہی جانے لیکن نقش پا قافلوں کی جہت متعین کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
صوبائی جمعیتہائے بنگال وبہار کے امراء مرکز میں نائب امراء کے مناصب پر فائزہیں انھیں ذرہ برابر احساس نہیں کہ اس علاقہ کی ان دونوں سے فعال ومتحرک شخصیت جمعیت سے دورہے تو کیوں؟ کیوں کہ عبدالمتین کسی بھی صورت زہرہلا ہل کوقند نہیں کہہ سکتے تھے۔ أتستبدلون الذی ہو أدنی بالذی ہوخیر۔
شیخ عبدالمتین دومیعادوں میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکی مجلس عاملہ و شوری کے ممبررہے اورانہوں نے دونوں میعادوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا، صوبوں اورمرکز کے ذمہ داران کے ساتھ حسن عمل و احترام کے سلسلہ میں کوئی کمی نہیں کی، انہیں اپنے ادارے کے پروگراموں کی زینت بنایا مگر صوبہ ومرکزنے ان کے ساتھ جو جابرانہ سلوک کیا اسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی اذا جاء کم فاسق بنباء فتبینوا کی ہدایت ربانی، عدل وانصاف اور قضاء اسلامی کے اصو ل وتقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے ذمہ داران نے خفیہ طورپر ان کے خلاف کوئی قرار داد مذمت پاس کی ، اس کا نہ کوئی ذکر نہ کسی کو علم اورنہ اعلان؟ شایدعاملہ وشوری کے ارکان کی اکثریت بھی نہ جانتی ہو، مگر زبان درزباں اس کی جس طرح تشہیر کی گئی وہ یہودی روش توہوسکتی مومنانہ عمل نہیں۔ ایک سے زائد حضرات نے میرے ان کے اور بعض دیگر حضرات کے خلاف قرار داد مذمت پاس کرنے کی خبر دی تو ہمیں یقین نہیں آیالیکن ہمیں اس وقت تعجب ہوا جب عبدالمتین نے اس کی تصدیق کی اور بتلایا کہ مولانا اصغر علی سلفی صاحب نے کہا کہ آپ معافی نامہ لکھدیں ،ہم آپ کو جمعیت میں واپس لے لیں گے۔ جب سلفی صاحب نے کہا آپ لکھ کر دیں کہ آپ کا یہ جرم ہے تومیں بتاسکتا ہوں مجھے کیا کرنا چاہیے۔
لیکن جمعیت اہل حدیث کے ناظم عمومی صاحب کو جماعت کے اجتماعی فیصلے میں فرد جرم بتانے کی ہمت نہ ہوئی اورنہ ہی مجرم سے اس سے کوئی وضاحت طلب کی گئی، کیا جمعیت اہل حدیث کے غیر معلن اراکین گرامی بتانے کی زحمت فرمائیں گے کہ یہ فیصلہ کب اورکیو ں ہوا؟ ہمارے علم کی حدتک شیخ عبدالمتین سلفی نے کوئی معافی نامہ نہیں لکھا اورنہ زبانی معافی طلب کی تو کیا ایسی صورت میں مولانا اصغر علی سلفی اوران کے رفقاء کی نظرمیں ان کی رحلت ایک جماعتی محسن نہیں بلکہ مجرم کی حیثیت سے ہوئی ہے؟
مولانا اصغرعلی سلفی کی پریس ریلیز میں ان کی رحلت کو قوم وملت اورجماعت کا خسارہ قرار دیا جانا ایک ڈھونگ کے علاوہ کچھ نہیں۔ جماعت کے اعیان وافراد ناظم عمومی سے شیخ عبدالمتین کے خلاف قرار داد مذمت اور اس کی وجہ معلوم کرتے ہیں؟
وہ میرے دورنظامت اوربعدکی پانچ سالہ میعاد میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکی مجلس شوری وعاملہ کے رکن رکین رہے، وہ بلا عذر غیرحاضر نہیں ہوتے تھے اورجب حاضرہوتے توپوری دلچسپی لگن اورایجنڈا کی دفعات پرگفتگو میں بھرپور حصہ لیتے، کبھی نقد بھی کرتے اور سوالات بھی کرتے لیکن جماعتی امورمیں ہماری دوستی آڑے نہیں آتی ، مجھے خوشی ہوتی کہ وہ ضمیرکی آواز پر بولتے ہیں۔
وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے ،لیکن جماعتی منصب اورذمہ داریوں کے سبب انہوں نے ہمیشہ میرا احترام کیا، اپنے سے بڑے ہونے کا درجہ عطا کیا، مزاحیہ اندازمیں کبھی ایسی بات نہیں کی جس سے کسی طرح کی فروتنی کا احساس ہو، میری منصبی ذمہ داریوں کے بعد بھی ان کا میرے ساتھ وہی انداز واسلوب اوررویہ برقرار رہا اورانہوں نے چھوٹے بھائی کو بڑے بھائی کا درجہ دیا۔ اتنی بات ہی نہیں بلکہ کبھی غصہ کاانداز بھی اختیار نہیں کیا ۔
بھائی عبداللہ مدنی جھنڈانگری جب دہلی تشریف لاتے ہیں عموما میرے غریب خانہ میں فروکش ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ سلفی صاحب ان سے ملنے کے لئے میرے گھرآئے، بچوں نے چچا حضرات کے سامنے ماحضر پیش کیا۔ انہوں نے عبداللہ بھائی سے پلیٹ چھین کرکہا: ابے بس کرو تین دن سے بستر پر پڑے روٹیاں توڑرہے ہو، میرے لئے چھوڑو! عالمانہ روش سے ہٹ کر یہ ان کی اپنائیت ودلداری اورظرافت کا نمونہ ہے لیکن انہوں نے سفر وحضر میں میرے ساتھ کبھی ایسا رویہ نہیں اپنایا جب بولے ادب و احترامِ زائد کے ساتھ بولے۔
شیخ عبدالمتین سلفی، مولانا عبداللہ مدنی اورخاکسارکی دوستی، مودت اوراخوت پوری دنیا میں ضرب المثل بنی، لیکن اسے لوگوں نے رشک و غبطہ اورحسد وجلن دونو ں اعتبار سے دیکھا۔ حاسدوں اورجلنے والوں نے ہمیں افیال اللہ وغیرہ سے تعبیر کیا، رشک کناں حضرات نے ہمیں دعاؤں اور دوستی کی مضبوط وغیر منفصل چٹانوں سے تعبیر کیا۔
ایک روز شیخ عبداللہ مدنی سے گویا ہوئے کہ بھئی ہم تینوں کی دوستی، اخوت کے اس مرحلے میں پہنچ گئی ہے کہ اگرہم میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخصت ہوجائے توہمیں ان کے بال بچوں اور اہل خانہ کی کفالت پرغور کرنا چاہیے۔ بلاریب یہ بھائی عبدالمتین کی اعلی سوچ اور اپنائیت کی انتہا تھی، ایسی مثال اورسوچ کے لوگ خال خال ہی ہوتے ہیں۔
آہ! عبدالمتین۔ برادر عبدالمتین جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ عبدالمتین!
پیشوائے ملت دین نبی چل بسا
اسے جانا نہیں تھا ہوگیا ہم سے جدا
کرگیا ہے ہم کو پیچھے پرملال واشکبار
اس کی فرقت ہم کو تڑپائے گی دنیامیں سدا
وہ جس قدر مضبوط عزم وارادہ کے مالک تھے خاموش نہ بیٹھنے والایہ مرد مجاہد اتنی جلدی زندگی سے منہ موڑلے گا تصور سے باہر ہے، لیکن ہم تواپنے عمل کومیزان عقیدہ سے تولتے ہیں ’’واللہ غالب علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون‘‘ قرآن کریم کا ایک حتمی اور اٹل فیصلہ ہے: ’’لوگ اس حقیقت سے کتنے بے بہرہ ہیں کہ اللہ ہی کا فیصلہ ہمیشہ غالب ہوکر رہتا ہے‘‘ خدا کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم ہے۔ غم واندوہ کی وادی میں ایک مومن کس قد سعادت مند ہوتا ہے کہ وہ عزیز ترین ہستی کوخودہی منوں مٹی کے تلے منتقل کردے اور یاس وقنوط کے ہرزاویہ کو جھٹک دے، میرے لئے غموں کی دبنیر چادر میں فرحت کا ایک احساس یہ تھا کہ تینوں میں سے دونے ایک بھائی کی فرخندہ جبیں کو بوسہ دیا اوراپنے ہاتھوں سے مرقدمیں اتارنے کی سعاد ت حاصل کی۔
اے خاک تیرہ دلبر مارا عزیزدار
ایں نورِچشم مااست کہ دربرگرفتہ ای
شیخ صلاح الدین مقبول مدنی کے ہاتف رنانہ کی گھنٹی ہمیشہ کسی دینی دعوتی علمی تحقیقی جماعتی ملی مسئلہ کی شنیدوخیر کا پیغام لیکر آتی تھی۔ مگر ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء کی دوپہروہ اندوہ ملال کی ایسی چٹان گرنے کی خبرلائی کہ سنانے اورسننے والوں کی آنکھوں سے آنسوؤں جھڑی لگ گئی، دوسری خبر غیرمکذوب ہم سب کے مشترکہ صدیق بھائی عزیز الرحمن مینجینگ ڈائریکٹر پٹاکاانڈسٹریز نے دی، پھر ملک وبیرون ملک سے خبروں کا غیرمنقطع سلسلہ جاری ہوگیا۔ عبداللہ بھائی ہچکیوں کے ساتھ ممبئی سے تسلی دینے کی بجائے افسردہ تھے، شیخ وصی اللہ جامعہ ام القری میں درس دیتے دیتے باہر نکل کرخبر وفات کی تصدیق طلب کررہے تھے مولانا عبداللہ سعود‘،شیخ رضاء اللہ مدنی، ڈاکٹرسعید فیضی، ڈاکٹر عتیق اثر، برادرآفتاب عالم کلکتہ ، نذیربھائی حیدرآباد، مولانا شمس الدین سلفی، ڈاکٹر حسین مدوورکیرالہ، برادر ارشد مختار، عطاء الرحمن بھائی، جبل پور، وفا صدیقی بھوپال، ڈاکٹر عبدالحکیم ممبئی کس کس کو لکھوں اورکس کو گناؤں، اس یار غار کی مغفرت کی دعاؤں کے ساتھ راحل عزیزکو یادکررہا تھا، جانے والے کا ذکر خیر اس کے انجام بخیر کا عکاس ہوتا ہے۔ ۱۷جنوری کو صبح کشن گنج میں پھر دوپہر بھولکی میں تیس ہزار سے زائد مؤحدین کی صلاۃجنازہ وتدفین میں شرکت امام المؤحدین احمد بن جنبل رحمہ اللہ کے اس قول کی تصدیق کر رہی تھی بینا وبینہم یوم الجنائز جسے لوگوں نے دیکھا ان حاضرین میں اپنے کیا اورغیرکیا، ہندوکیا، مسلم کیا اور سکھ کیا، صحافی، سیاستداں ،ڈاکٹر، وکیل، مزدور، عامی، پولیس وانتظامیہ اور تمام شعبہ حیات کے لوگ بلا استثناء موجود تھے، جو ان کی مقبولیت کی زندہ مثال تھی۔
ان کی وفات کے بعد اندیشہ ہائے دور دراز نے لوگوں کے ذہنو ں کو منتشر کرنا شروع کردیا، کیا ہوگا جامعۃ الامام البخاری کا، مدرسہ عائشہ، توحید اکیڈمی اور توحید آئی ٹی آئی کی دیکھ بھال کیسے ہوگی، ٹرسٹ کے جاری مشاریع کیسے سمٹیں گے؟ شیخ صلاح الدین مقبول کی حکمت ان کے رفیق دیرینہ حافظ سلیمان میر ٹھی کی موجودگی، ارکان ٹرسٹ کے اتحاد، برادران عبدالمتین: شیخ عبدالرشید مظہری، عبدالقادر، معین الدین اور منیرالدین کی بالغ نظری اور عزیز القدر مطیع الرحمن مدنی سلمہ کی صلاحیتوں نے تمام اداروں کے استحکام و بقاء اور اس مشن کو جاری رکھنے کے عزم مصمم نے ان تمام خدشا ت کو ختم کر دیا جو شیطانی وساوس کی پیداوار تھے۔
پرسوں یکم مارچ کو عزیز القدرمطیع الرحمن مدنی سلمہ کی اپنے والد کی نہج و عادت کو برقرار رکھتے ہوئے دہلی آمد کی مناسبت سے غریب خانے پر تشریف آوری، والد کے دوست کو والد کے درجہ کی نظر سے دیکھنے کی سعادتمندانہ روش نے ان امیدوں کو یقین میں تبدیل کر دیاکہ عبدالمتین کا بسایا ہوایہ شہر علم و عرفان اسی طرح آباد رہے گا بلکہ اس میں اور چار چاندلگیں گے۔ ان شاء اللہ
عبدالمتین اپنی دھن کے پکے تھے اور مقاصد کے حصول کے لئے وہ کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی مال ومنال کی پرواہ کرتے۔ ہاتھ کے بھی کشادہ تھے، دل کے بھی فیاض ،کوئی بات سمجھ میںآئی تو وہ اس کے پیچھے پڑ گئے۔ انہوں نے ادارے بنائے ،مکاتب کھولے،مساجد تعمیر کیں انہیں ایک مقام دلایا،مارکیٹ دکانیں بنائیں اور اسطرح کے مشاریع کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتے ، ہندوستان کے سلفی مدارس میں سب سے پہلے اس فکر کو شیدائے سلفیت حضرت مولانا عبدالحمید رحمانی حفظہ اللہ نے مرکز ابوالکلام آزاد للتوعۃ الاسلامیہ نئی دہلی اور پھر برادر عبدالمتین سلفی نے اپنے ٹرسٹ میں جاری کیا۔
وہ ادارے کیلئے سفر کرتے کئی مہینے باہر رہتے، خلیجی ممالک کا سفر تو گھر میں آنگن و دالان کی طرح تھا، وہ کب چلے جائیں گے کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ گذشتہ دوسال قبل جمعیتہ خریجین جامعات سعودیہ کی میٹنگ تھی۔دن بھر ہم لوگ شیخ ابو سبحان ندوی،مولانا عبداللہ مدنی ،شیخ ابوالمکارم ازہری، مولانا طاہر مدنی ، ڈاکٹر آرکے نور، ڈاکٹر عبدالحکیم مدنی، وہ خود اور خاکسار بحث و مباحثہ میں لگے رہے،پروگرام بنتے اور منسوخ ہوتے رہے انہوں نے دوسرے دن کا پروگرام طے کیا صبح ہوکرپتہ چلاکہ حضرت شیخ کو یت روانہ ہوگئے۔ ٹرسٹ کے لئے ان کی خصوصی دلچسپی اور اس قدر انہماک تھا کہ وہ جمعیت خریجین کے لئے وہ سب نہیں کر سکے جو ان سے متوقع تھیں۔
ان کے چند سالہ دور صدارت میں کشن گنج اور پھر دہلی میں جو دو ملتقی جات ہوئے وہ اپنی مثال آپ تھے۔جس کی کامیابی کے لئے شیخ ابوسبحان ندوی ،مولانا عبداللہ مدنی ،ڈاکٹرآرکے نور، شیخ ابوالمکارم،مولانا محمد اشفاق سلفی،شیخ محمد رضوان مدنی اور خاکسار کے علاوہ ایام ملتقی میں عزیزم مطیع الرحمٰن مدنی کی دلچسپیوں کا بھی خاص دخل تھا۔
انہیں نوجوانوں کو آگے بڑھانے اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں خاص دلچسپی تھی، وہ چاہتے تھے کہ معاصر نوجوان تحریکوں کی طرح ہمارے سلفی نوجوانوں کا قافلہ بھی نہ صرف آگے بڑھے بلکہ تیز گام وتیزرفتار بھی ہو،اس سلسلہ میں انہوں نے کلکتہ میں ایک پروگرام بھی منعقد کیا،خاکسار اور کویت انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر محترم شیخ باسم اللوغانی کو چیف گیسٹ کے طورپر مدعوکیا،جس میں انہوں نے نوجوانوں کی پریڈ،جھنڈا سلامی اور علمی مظاہرے کو دیکھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا، برا ہو ہماری صفوں میں ان کالی بھیڑوں کا جن کو شباب کی پیش قدمی ایک آنکھ نہیں بھاتی، یہ پروگرام اسی نظر بدکاشکار ہوکر کسی منڈھے سر نہ چڑھ سکا۔
شیخ عبدالمتین کی سرگرمیوں کا محور عموماً ہمارے عام سلفی ذہن کی طرح زیادہ تر اپنی فکر وجماعت تک محدود رہتا ،وہ کوشش کے باوجود ملی جماعتوں اور اداروں سے رابطہ و تعلقات استوارنہ کر سکے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ملک و ملت سے بے بہرہ تھے۔ وہ اپنی مشغولیات کے سامنے روزانہ اخبارات کے مطالعہ کو بے سود تصور کرتے تھے،لیکن اس کے باوجود وہ ملکی حدود سے باہر ہوکر عالمی مسائل پر بحث کرتے تھے۔ اس لئے ملکی و ملی اجتماعات میں ان کی شرکت معدود ے تھی۔ البتہ وہ سلفی اجتماعات میں خوب شرکت کرتے، بنگال وبہار کے علاوہ اور صوبوں میں جاتے ۔ملکی اسفار طویلہ بالخصوص عرب مشائخ و عمائدین کی رفاقت و ہمراہی میں اسفار کی فہرست طویل ہے، خلیجی ممالک کے علاوہ انہوں نے چین،سری لنکا، امریکہ، برطانیہ، نیپال اور بھوٹان کے اسفار بھی کئے اورجہاں گئے اپنی محبتوں کی چھاپ چھوڑ کر آئے۔جس کسی سے ملتے انتہائی اپنائیت اور محبت سے ملتے،سادگی و شگفتگی ان کی طبیعت اور مزاج کا حصہ تھی،جس سے ملتے مسکراتے، دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کھل مل جاتے گویا برسوں کا یارانہ ہے۔
۸؍جنوری کو ہماری ان سے ملاقات ہوئی، جوآخری ملاقات ثابت ہوئی، ہم لوگ مولانا عبداللہ،شیخ ابوالمکارم شاہین باغ ابوالفضل انکلیو جامعہ نگر نئی دہلی میں واقع ان کے دولت کدہ پر جمع تھے، مجھے ان کے علاوہ کئی اور لوگوں سے ملنا تھا، کہنے لگے ان کو یہیں بلالو تم ڈرائنگ روم میں الگ سے اپنی بات کرلینا ہم لوگ دوسرے کمرے میں بیٹھ جائیں گے ،مجھے ان کی تجویز اچھی لگی، میراوقت بھی بچا اور ان سے نشست و گفتگو بھی طویل ہوگئی۔ مجھ سے جولوگ ملنے آئے آخر میں وہ بھی سب سے آکرملتے سب سے آخر میں برادر عزیز سہیل انجم بھی تشریف لائے، میں نے دونوں کا باہمی تعارف کرایا، سہیل انجم کی صحافیانہ سرگرمیوں، دلچسپیوں اور اخبارات و میڈیا سے گہرے تعلق کی بات سن کر ان کو زبردستی اپنے کمرے میں کھینچ لائے جہاں مولانا عبداللہ ،شیخ ازہری، عبدالخبیرزاہد آزاد جھنڈا نگری اور شمیم احمد ان کے رفیق خاص موجود تھے،چائے نوشی اور مختصر ناشتہ کے دوران موضوع در موضوع باتوں میں ڈیڑھ گھنٹہ گذر گیااسی دوران ’’میڈیا کے اصلاحی وتعمیری کردار ہندوستان کے تناظر میں‘‘ کے زیرعنوان ایک سمینار کے انعقاد کی تجویز بھی سامنے آئی،کشن گنج و دہلی میں مقام انعقادکی بجائے پٹنہ میں سیمنار کا ہونا طے پایا، بلکہ اپریل کا مہینہ بھی مقرر ہواکہ جگہ و مقام دیکھنے کے بعد تاریخ متعین کرلی جائیگی، ابھی بات اپنے انجام کو پہنچ ہی رہی تھی کہ آواز دی اور دستر خوان لگادیا ، پھر ہم لوگ معرکۂ دست و دہن میں لگ گئے۔
سہیل انجم کہنے لگے کہ بھئی ’’ہم تو ان کو صرف واعظ خشک بیاں سمجھتے تھے ،انہوں نے تو مجھے اپنا گرویدہ بنالیا‘‘ مزاج کی سادگی اور شگفتگی سے وہ دلوں کو اسطرح موہ لیتے کہ آدمی بے بس ہوکر رہ جاتا۔
عبدالمتین وہ عبدالمتین رفیق، صدیق، عزیز، برادر بھائی آخر جس کی اب یادیں ہی یادیں رہ گئیں، باتیں ختم ہوئیں صبح علی الصبح فجر بعد فون کی گھنٹی بجتی تھی، سرشام ان کا فون آتا جو برسوں کی عادت ہوگئی ،کبھی سوتے سوتے آواز کیف الحال ؟ میرے بھائی کہاں ہو؟ کی آواز آتی، گھنٹیاں تو بجتی ہیں مگر وقت وہ نہیں ہوتا اورآواز نہیں آتی، اپنے جدامجد سے لیکر اپنے گھر کے قریب سے قریب تر بزرگوں تک ،والدین سے لیکر اپنی عزیز ترین ہمشیرہ اعزاء احباء،اصدقاء علماء مفکرین اور دانشوروں کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کیا جو جماعت وملت اور خاندانوں کے گنج ہائے گرا نمایہ تھے۔رب ذوالجلال نے مرور ایام کے ساتھ صبربھی دیا، لیکن عبدالمتین کی رحلت کا غم اور صدمہ اس قدر کاری ہے جس کا احساس ہوتے ہی آنسوؤں کی لڑی بکھر جاتی ہے۔
وہ ایک دوست تھا گنج گرانمایہ نہیں گنج ہائے گرانمایہ کے مساوی تھا یاأیتہاالنفس المطمئنۃ ارجعی اِلی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔
عبدالمتین سلفی وہ میرا محبوب تھا عزیز تھا، عزیز ترین تھا، زندگی میں قریب تھا اور موت کے بعد قریب تر ہوگیا، عبداللہ سے کہوں تو کیا کہوں وہ بھی تو اسی مصیبت کے گھائل ہیں، ایک اشفاق بھائی ہیں جو عموماً نقطہ وصل رہے، آج بھی ملقن صبر کافریضہ انجام دیتے ہیں۔
اس لئے کہ میرا محب میرے محبوبوں کا محب وہ محبت ترک کر کے گریباں سی چکا، وہ وہاں چلاگیا جہاں سب کو جانا ہے، دنیا کے مسافر لوٹ کر اپنے گھر ضرور آتے ہیں۔
لیکن عبدالمتین اس سفر پر چلاگیا جہاں سے کوئی مسافر نہ لوٹاہے نہ لوٹے گا۔مگر وہ جاتے جاتے ہمیں سبق دے گیا کہ میں دنیا میں سفر پر آیا تھا اپنے حصہ کا کام کر چکا ،بقیہ تم سب سنبھالو اور اب اپنے گھر لوٹ کر جارہا ہوں:
آسماں تری لحدپر شبنم افشانی کرے
شیخ عبد المتین سلفی، جسے زمانہ یاد رکھے گا Mar-Apr 2010
مولانا محمد اشفاق سلفی دربھنگہ
شیخ عبد المتین سلفی، جسے زمانہ یاد رکھے گا
ارشا د نبوی ہے: ’’ ان اللہ اذا أراد بعبد خیرا استعملہ......‘‘. الحدیث (أحمد والترمذی وسندہ صحیح)
اللہ سبحانہ وتعالی جب کسی بندہ سے خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے استعمال کرتا ہے، کہا گیا :اے اللہ کے رسول! وہ کیسے؟ ، فرمایا:’’موت سے قبل اسے عمل صالح کی توفیق عطا کرتا ہے‘‘۔
الحمد للہ ہمارے شیخ عبد المتین سلفی رحمہ اللہ ایسے ہی چند خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالی خیر اور عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے اور وہ اس کی تائید وتوفیق ، نصرت وحمایت سے قلیل مدت میں کارہائے نمایاں انجام دے کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ لوگ انہیں ان کے اچھے کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھتے اور ان کے حق میں دعائے رحمت ومغفرت کرتے ہیں ۔ بلا شبہ ایسے ہی لوگ اپنے اعمال صالحہ اور صدقات جاریہ کے ذریعہ زندہ وپائندہ رہتے ہیں اگرچہ وہ خود اپنے جسموں سے زیر زمین مدفون ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمارے مخلص ومشفق ، ہمدرد وغمگسار ، مشیر ومرشد اور ناصح وامین فضیلۃ العلامہ الشیخ عبد المتین سلفی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ، ان کی قبر کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنادے، فردوس اعلی کو ان کی روح کا مقام ومستقر بنائے اور ان کی علمی، دعوتی اور رفاہی عظیم خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ انہ تعالی رؤوف رحیم.
یقیناًیہ اللہ سبحانہ وتعالی کی توفیق خیر کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے ممدوح شیخ رحمہ اللہ نے بیس بائیس سال کی قلیل مدت میں تعلیمی اداروں اور دینی مکاتب کا جال بچھادیا۔ بفضلہ تعالی ان کے بدست سینکڑوں مساجد ومکاتب کی تعمیر عمل میں آئی ۔ بہار وبنگال کے وسیع حلقے ان کی خدمات دینیہ سے مستفید اور ان کی علمی شمعوں سے مستنیر ہوئے۔ کشن گنج (بہار) جیسے علمی واقتصادی لحاظ سے پسماندہ علاقہ کو انہوں نے اپنی جولانگاہ بنایا اور دیکھتے دیکھتے توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج (بہار) کے تحت جامعۃ الامام البخاری اور جامعہ عائشہ صدیقہؓ کی شکل میں لڑکوں او رلڑکیوں کے لئے اعلی دینی تعلیم کے دو مراکز قائم کردئیے جو عمدہ تعلیم ، حسن انتظام اور پر شکوہ عمارتوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ اس وقت ان جامعات کی حیثیت ایسے علمی تناور درخت کی ہے جو سر سبز وشاداب ہے اور اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے۔ ان کے علاوہ تکنیکی تعلیم کے لئے توحید ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور نونہالان ملت کی عصری تعلیم کے لئے توحید اکیڈمی او ر ان کے علاوہ دیگر کئی تعلیمی، اشاعتی اور تربیتی ادارے اپنے واجبات کی ادائیگی میں رواں دواں ہیں۔ اللہ تعالی موصوف کے لگائے ہوئے علمی چمن کو ہمیشہ ہر ا بھرا رکھے او رچشمۂ فیض کو تا قیامت جاری رکھے تاکہ تشنگان علوم شرعیہ وعصریہ اس سے اپنی پیاس بجھاتے رہیں اور شیخ موصوف اور جملہ محسنین کرام کے لئے سبب نجات اور ذریعۂ ثواب بنتے رہیں۔
مولانا عبد المتین عبد الرحمن سلفی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ اعلی ادارتی اور انتظامی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ایک وسیع النظر عالم کتاب وسنت بھی تھے۔ دقیق علمی مباحث پر ان کی نظر تھی۔ میں نے متعدد موقعوں پر ان سے مختلف فیہ اور پیچیدہ مسائل میں رجوع کیا ہے اور ان کی معلومات سے مستفید ہوا ہوں۔ مجھے ان کی دقت نظر ، وسعت مطالعہ اور دلائل کے استحضار اور قوت استنباط پر حیرت ہوتی تھی۔ خاص کر مصطلح الحدیث کے دقیق فن پر ان کی نظر عمیق تھی ،گویا یہ ان کا فن ہو۔ دوران سفرمختلف دینی وفقہی موضوعات پر گفتکو کیا کرتے تھے۔ میں نے بہت قریب سے ان کو دیکھا ہے ، الحمدللہ انہیں متبع سنت اور فرائض وواجبات اور شعائر دینیہ کا پابند پایا ہے ۔ ان کی بے داغ توحید اور بے لچک سلفیت قابل رشک تھی۔ اللہ کرے وہ میرے گمان سے بھی اعلی و ارفع رہے ہوں۔
متانت وسنجیدگی ، صبر وتحمل، قلت کلام،دور اندیشی ، اصابت رائے، فرط ذکاء، نرم گفتاری ، شیریں کلامی، خوش اخلاقی ان کے خاص اور نمایاں اوصاف تھے۔ بڑے نازک اور سنگین موقع پر بھی ان کو کبھی آپے سے باہر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ اپنے مخالفین کے حق میں بھی کوئی نازیبا کلمہ استعمال نہیں کرتے تھے ۔بلکہ جب کبھی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی تو خندہ پیشانی سے ملتے اور عزت وتکریم میں کمی نہ کرتے ۔ مختصر بولتے لیکن نہایت جچا تلا جملہ بولتے جو اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتا تھا۔ چنانچہ تاڑنے والے معاملہ تاڑ جاتے اور مخالف چپ رہنے پر خود کو بے بس پاتا۔ مہمان نوازی تو وراثت میں ملی تھی ۔ جس نے بھی ان کے جامعہ کی زیارت کی ہے وہ یقیناًاس کا گواہ ہے کہ شیخ موصوف ہر خاص وعام کا والہانہ استقبال کرتے اور ان کی عمدہ ضیافت فرماتے ۔ اپنے مکان پر اور پنے ہاتھ سے دستر خوان پر خدمت اور میزبانی کے فرائض انجام دیتے ۔ علم اور علماء کے بڑے قدر دان تھے۔ طالب علموں اور نئے فارغین کی بھی قدر دانی کرتے اور انہیں آگے بڑھانے میں وسعت قلبی کا ثبوت دیتے۔ عام طور پر بڑے اور شہرت یافتہ لوگ خوردوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اورنہ انہیں پنپنے کا موقع دیتے ہیں ۔ سارا کریڈٹ خود ہی لینا چاہتے ہیں ۔لیکن شیخ رحمہ اللہ کا معاملہ اس کے بر عکس تھا۔ وہ ماشاء اللہ اس معاملہ میں بڑی سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ باطن کا صحیح حال تو اللہ ہی کو معلوم ہے لیکن بظاہر میں نے ان کو کسی سے حسد رکھنے والا نہیں پایا ۔ دوستوں کے دوست تھے اور مخالفین سے تعرض نہیں فرماتے تھے، ان کو ان کے حال پر چھوڑدیتے تھے۔
جب کسی دینی اسٹیج پر تشریف فرما ہوتے تو مجلس بڑی با وقار معلوم ہوتی ۔ جب عربی میں بولتے یا خطاب کرتے تو ان کا خالص عربی لہجہ عربی دانوں کی توجہ کا مرکز ومحور ہوجاتا ۔ بنگلہ زبان کے تو مایہ ناز ادیب اور قادر الکلام خطیب تھے۔ ان کا اپنا منفر داسلوب خطابت تھا۔ جب تقریر کیا کرتے تو ایک سماں باندھ دیتے ، تمام سامعین سمٹ کر او رقریب آکر بیٹھ جاتے ، سوتا ہوا شخص جاگ جاتا اور نہایت توجہ و انہماک سے ان کا بیان سماعت کرتا ۔ ان کی باتیں بڑی موثر اور دلوں میں اترنے والی ہواکرتی تھیں۔ عمدہ مثالوں سے باتیں سمجھاتے ۔درمیان میں کچھ علمی لطائف بیان کر کے مجلس کو گلزار کردیتے ۔ بنگلہ زبان سے ناواقفیت کے باوجود میں بھی ان کے اس انداز سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ جلسوں میں ان کی حاضری بحمد اللہ کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی۔ عام طور پر خطاب سے قبل چند آیات واحادیث اور امثال وحکایات اور علمی نکات دوران سفر یا اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے نوٹ فرمالیتے اور ان کی عمدہ تشریح کیا کرتے ، گویا ان کے اکثر خطابات برجستہ ہوتے تھے جو ان کی علمیت اور ذہانت کی دلیل تھے۔ ماشاء اللہ موقع ومناسبت کے لحاظ سے خطاب فرمایا کرتے جو ایک کامیاب خطیب اور داعی کا طرۂ امتیاز ہے۔ اپنے عزم وارادہ کے بڑے پکے اور حصول مقاصد کی راہ میں رات ودن ایک کردینے والے شخص تھے۔ سستی وکاہلی ان کو چھوکر بھی نہیں گزری تھی۔ حرکت وعمل اور قوت ونشاط کا دوسرا نام عبد المتین سلفی تھا۔
موصوف نہایت باذوق ، نفیس ، خوش خوراک ، خوش پوشاک ، عالمانہ شان اور رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ ملک اور بیرون ملک کے علمی اور دینی ودعوتی حلقوں میں بڑی عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جو اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک ان کی محبوبیت ومقبولیت کی دلیل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے اور حسنات کو قبول فرماکر جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب کرے، ان کے پسماندگان ، رفقاء کار اور ان کے احباب واصحاب کو صبر جمیل عطا کرے اور ان کے علمی ترکوں کی حفاظت وصیانت کے ساتھ ان کی روز افزوں ترقی کے اسباب ووسائل فراہم فرمائے۔ ان کی رحلت سے علمی، دعوتی اور انسانی خدمت کے میدانوں میں جو عظیم خلا پیدا ہوا ہے اس کو رب کریم اپنے خاص لطف وکرم سے پرُ فرمائے اور سلفی دعوت وفکر کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔
اے ابوالمطیع ، ہم آپ کی جدائی پر بڑے افسردہ اور دل گرفتہ ہیں ۔ لیکن اللہ تعالی کے فیصلہ پر راضی ہیں ۔ کیوں کہ اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے۔ آپ کی کامیاب علمی ، دعوتی اور ادارتی وتنظیمی زندگی کا میں نے تقریبا اٹھارہ سالوں تک قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور آپ کی وفات اور جنازہ کا دلدوز منظر بھی اپنی گریہ کناں آنکھوں سے دیکھا ہے اور بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ زندگی کوئی آپ جیسی جیئے اور موت بھی آپ جیسی ہو۔ جنازہ وتدفین میں چالیس سے پچاس ہزار شرکا کی تعداد اور ان کی دعائیں نصیب والوں ہی کو ملتی ہیں۔ رحمک اللہ یا ابا المطیع!!!
ظظظ
اللہ سبحانہ وتعالی جب کسی بندہ سے خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے استعمال کرتا ہے، کہا گیا :اے اللہ کے رسول! وہ کیسے؟ ، فرمایا:’’موت سے قبل اسے عمل صالح کی توفیق عطا کرتا ہے‘‘۔
الحمد للہ ہمارے شیخ عبد المتین سلفی رحمہ اللہ ایسے ہی چند خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالی خیر اور عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے اور وہ اس کی تائید وتوفیق ، نصرت وحمایت سے قلیل مدت میں کارہائے نمایاں انجام دے کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ لوگ انہیں ان کے اچھے کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھتے اور ان کے حق میں دعائے رحمت ومغفرت کرتے ہیں ۔ بلا شبہ ایسے ہی لوگ اپنے اعمال صالحہ اور صدقات جاریہ کے ذریعہ زندہ وپائندہ رہتے ہیں اگرچہ وہ خود اپنے جسموں سے زیر زمین مدفون ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمارے مخلص ومشفق ، ہمدرد وغمگسار ، مشیر ومرشد اور ناصح وامین فضیلۃ العلامہ الشیخ عبد المتین سلفی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ، ان کی قبر کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنادے، فردوس اعلی کو ان کی روح کا مقام ومستقر بنائے اور ان کی علمی، دعوتی اور رفاہی عظیم خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ انہ تعالی رؤوف رحیم.
یقیناًیہ اللہ سبحانہ وتعالی کی توفیق خیر کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے ممدوح شیخ رحمہ اللہ نے بیس بائیس سال کی قلیل مدت میں تعلیمی اداروں اور دینی مکاتب کا جال بچھادیا۔ بفضلہ تعالی ان کے بدست سینکڑوں مساجد ومکاتب کی تعمیر عمل میں آئی ۔ بہار وبنگال کے وسیع حلقے ان کی خدمات دینیہ سے مستفید اور ان کی علمی شمعوں سے مستنیر ہوئے۔ کشن گنج (بہار) جیسے علمی واقتصادی لحاظ سے پسماندہ علاقہ کو انہوں نے اپنی جولانگاہ بنایا اور دیکھتے دیکھتے توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج (بہار) کے تحت جامعۃ الامام البخاری اور جامعہ عائشہ صدیقہؓ کی شکل میں لڑکوں او رلڑکیوں کے لئے اعلی دینی تعلیم کے دو مراکز قائم کردئیے جو عمدہ تعلیم ، حسن انتظام اور پر شکوہ عمارتوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ اس وقت ان جامعات کی حیثیت ایسے علمی تناور درخت کی ہے جو سر سبز وشاداب ہے اور اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے۔ ان کے علاوہ تکنیکی تعلیم کے لئے توحید ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور نونہالان ملت کی عصری تعلیم کے لئے توحید اکیڈمی او ر ان کے علاوہ دیگر کئی تعلیمی، اشاعتی اور تربیتی ادارے اپنے واجبات کی ادائیگی میں رواں دواں ہیں۔ اللہ تعالی موصوف کے لگائے ہوئے علمی چمن کو ہمیشہ ہر ا بھرا رکھے او رچشمۂ فیض کو تا قیامت جاری رکھے تاکہ تشنگان علوم شرعیہ وعصریہ اس سے اپنی پیاس بجھاتے رہیں اور شیخ موصوف اور جملہ محسنین کرام کے لئے سبب نجات اور ذریعۂ ثواب بنتے رہیں۔
مولانا عبد المتین عبد الرحمن سلفی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ اعلی ادارتی اور انتظامی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ایک وسیع النظر عالم کتاب وسنت بھی تھے۔ دقیق علمی مباحث پر ان کی نظر تھی۔ میں نے متعدد موقعوں پر ان سے مختلف فیہ اور پیچیدہ مسائل میں رجوع کیا ہے اور ان کی معلومات سے مستفید ہوا ہوں۔ مجھے ان کی دقت نظر ، وسعت مطالعہ اور دلائل کے استحضار اور قوت استنباط پر حیرت ہوتی تھی۔ خاص کر مصطلح الحدیث کے دقیق فن پر ان کی نظر عمیق تھی ،گویا یہ ان کا فن ہو۔ دوران سفرمختلف دینی وفقہی موضوعات پر گفتکو کیا کرتے تھے۔ میں نے بہت قریب سے ان کو دیکھا ہے ، الحمدللہ انہیں متبع سنت اور فرائض وواجبات اور شعائر دینیہ کا پابند پایا ہے ۔ ان کی بے داغ توحید اور بے لچک سلفیت قابل رشک تھی۔ اللہ کرے وہ میرے گمان سے بھی اعلی و ارفع رہے ہوں۔
متانت وسنجیدگی ، صبر وتحمل، قلت کلام،دور اندیشی ، اصابت رائے، فرط ذکاء، نرم گفتاری ، شیریں کلامی، خوش اخلاقی ان کے خاص اور نمایاں اوصاف تھے۔ بڑے نازک اور سنگین موقع پر بھی ان کو کبھی آپے سے باہر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ اپنے مخالفین کے حق میں بھی کوئی نازیبا کلمہ استعمال نہیں کرتے تھے ۔بلکہ جب کبھی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی تو خندہ پیشانی سے ملتے اور عزت وتکریم میں کمی نہ کرتے ۔ مختصر بولتے لیکن نہایت جچا تلا جملہ بولتے جو اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتا تھا۔ چنانچہ تاڑنے والے معاملہ تاڑ جاتے اور مخالف چپ رہنے پر خود کو بے بس پاتا۔ مہمان نوازی تو وراثت میں ملی تھی ۔ جس نے بھی ان کے جامعہ کی زیارت کی ہے وہ یقیناًاس کا گواہ ہے کہ شیخ موصوف ہر خاص وعام کا والہانہ استقبال کرتے اور ان کی عمدہ ضیافت فرماتے ۔ اپنے مکان پر اور پنے ہاتھ سے دستر خوان پر خدمت اور میزبانی کے فرائض انجام دیتے ۔ علم اور علماء کے بڑے قدر دان تھے۔ طالب علموں اور نئے فارغین کی بھی قدر دانی کرتے اور انہیں آگے بڑھانے میں وسعت قلبی کا ثبوت دیتے۔ عام طور پر بڑے اور شہرت یافتہ لوگ خوردوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اورنہ انہیں پنپنے کا موقع دیتے ہیں ۔ سارا کریڈٹ خود ہی لینا چاہتے ہیں ۔لیکن شیخ رحمہ اللہ کا معاملہ اس کے بر عکس تھا۔ وہ ماشاء اللہ اس معاملہ میں بڑی سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ باطن کا صحیح حال تو اللہ ہی کو معلوم ہے لیکن بظاہر میں نے ان کو کسی سے حسد رکھنے والا نہیں پایا ۔ دوستوں کے دوست تھے اور مخالفین سے تعرض نہیں فرماتے تھے، ان کو ان کے حال پر چھوڑدیتے تھے۔
جب کسی دینی اسٹیج پر تشریف فرما ہوتے تو مجلس بڑی با وقار معلوم ہوتی ۔ جب عربی میں بولتے یا خطاب کرتے تو ان کا خالص عربی لہجہ عربی دانوں کی توجہ کا مرکز ومحور ہوجاتا ۔ بنگلہ زبان کے تو مایہ ناز ادیب اور قادر الکلام خطیب تھے۔ ان کا اپنا منفر داسلوب خطابت تھا۔ جب تقریر کیا کرتے تو ایک سماں باندھ دیتے ، تمام سامعین سمٹ کر او رقریب آکر بیٹھ جاتے ، سوتا ہوا شخص جاگ جاتا اور نہایت توجہ و انہماک سے ان کا بیان سماعت کرتا ۔ ان کی باتیں بڑی موثر اور دلوں میں اترنے والی ہواکرتی تھیں۔ عمدہ مثالوں سے باتیں سمجھاتے ۔درمیان میں کچھ علمی لطائف بیان کر کے مجلس کو گلزار کردیتے ۔ بنگلہ زبان سے ناواقفیت کے باوجود میں بھی ان کے اس انداز سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ جلسوں میں ان کی حاضری بحمد اللہ کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی۔ عام طور پر خطاب سے قبل چند آیات واحادیث اور امثال وحکایات اور علمی نکات دوران سفر یا اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے نوٹ فرمالیتے اور ان کی عمدہ تشریح کیا کرتے ، گویا ان کے اکثر خطابات برجستہ ہوتے تھے جو ان کی علمیت اور ذہانت کی دلیل تھے۔ ماشاء اللہ موقع ومناسبت کے لحاظ سے خطاب فرمایا کرتے جو ایک کامیاب خطیب اور داعی کا طرۂ امتیاز ہے۔ اپنے عزم وارادہ کے بڑے پکے اور حصول مقاصد کی راہ میں رات ودن ایک کردینے والے شخص تھے۔ سستی وکاہلی ان کو چھوکر بھی نہیں گزری تھی۔ حرکت وعمل اور قوت ونشاط کا دوسرا نام عبد المتین سلفی تھا۔
موصوف نہایت باذوق ، نفیس ، خوش خوراک ، خوش پوشاک ، عالمانہ شان اور رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ ملک اور بیرون ملک کے علمی اور دینی ودعوتی حلقوں میں بڑی عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جو اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک ان کی محبوبیت ومقبولیت کی دلیل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے اور حسنات کو قبول فرماکر جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب کرے، ان کے پسماندگان ، رفقاء کار اور ان کے احباب واصحاب کو صبر جمیل عطا کرے اور ان کے علمی ترکوں کی حفاظت وصیانت کے ساتھ ان کی روز افزوں ترقی کے اسباب ووسائل فراہم فرمائے۔ ان کی رحلت سے علمی، دعوتی اور انسانی خدمت کے میدانوں میں جو عظیم خلا پیدا ہوا ہے اس کو رب کریم اپنے خاص لطف وکرم سے پرُ فرمائے اور سلفی دعوت وفکر کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔
اے ابوالمطیع ، ہم آپ کی جدائی پر بڑے افسردہ اور دل گرفتہ ہیں ۔ لیکن اللہ تعالی کے فیصلہ پر راضی ہیں ۔ کیوں کہ اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے۔ آپ کی کامیاب علمی ، دعوتی اور ادارتی وتنظیمی زندگی کا میں نے تقریبا اٹھارہ سالوں تک قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور آپ کی وفات اور جنازہ کا دلدوز منظر بھی اپنی گریہ کناں آنکھوں سے دیکھا ہے اور بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ زندگی کوئی آپ جیسی جیئے اور موت بھی آپ جیسی ہو۔ جنازہ وتدفین میں چالیس سے پچاس ہزار شرکا کی تعداد اور ان کی دعائیں نصیب والوں ہی کو ملتی ہیں۔ رحمک اللہ یا ابا المطیع!!!
ظظظ
مولانا عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ Mar-Apr 2010
ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی
شعبۂ عربی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
شعبۂ عربی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
مولانا عبدالمتین سلفی کے لئے رحمہ اللہ کہنے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جس شخص کو آپ عرصہ سے جانتے ہوں،بارہا ساتھ رہے ہوں، ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہاہو، جس کے علمی برتاو کے علاوہ ذاتی اطوار کو بھی آپ نے برتا ہو، اچانک وہ آپ سے جدا ہو جائے ہمیشہ کے لئے، یہ صدمہ معمولی نہیں ہوتا۔ لیکن قانون قدرت ہے کہ ہمیشگی فانی مخلوق کو میسر نہیں ۔ کل من علیہا فان و یبقی وجہ ربک ذو الجلال و الاکرام۔ صبر جمیل کے علاوہ بندہ مومن کے پاس چارہ اور ہے ہی کیا؟
مولانا رحمہ اللہ سے میرے مراسم کافی قدیم تھے۔ آخر پندرہ سالوں کا عرصہ کسی بھی حساب سے کم نہیں ہوتا۔ میری علی گڑھ آمد کے تھوڑے دنوں بعد ہی سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔شمالی بہار کا خطہ پوری انسانی تاریخ میں مردم خیز رہاہے۔ قدیم و جدید ہندوستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے والوں کے لئے اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ ہمیں مثال نہ تو ہمہ کی دینی ہے اور نہ شما کی۔ دو ٹوک بات یہ کہنی ہے کہ مولانا عبد المتین رحمہ اللہ جس شخصیت کے مالک تھے اور جو اہم کارنامے انہوں نے ملت کے لئے انجام دئے ہیں وہ تاریخ ملت میں سنہرے حرفوں سے لکھے جائیں گے۔
کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے جب پہلی بار میری ملاقات مولانا سے ہوئی۔ان دنوں میں نیا نیا لکچرار بنا تھا۔ مولانا کسی کام سے علی گڑھ تشریف لائے تھے۔ ملاقات کے لئے وہ خود میری رہائش گاہ تشریف لائے۔ گفتگو زیادہ تر ملت اور مسلک کے علمی اور سماجی موضوعات پر رہی۔ اپنے علاقہ اور اس کی تعلیمی بہبود پر بھی باتیں ہوئیں۔ علی گڑھ کے کردار پر بھی گفتگو ہوئی۔ مولانا در اصل ایسے ذہنوں کی تلاش میں تھے جو کچھ کرنے کی تڑپ رکھتے ہوں۔ اس وقت کشن گنج میں مولانا کے کارناموں کا منظر نامہ وہ نہیں تھا جو اس وقت ہے۔ علی گڑھ اور کشن گنج کی دوری کو مولانا مستقبل قریب میں کم کرنا چاہتے تھے۔ اس سمت میں پہلا قدم معہد کی سند کا علی گڑھ سے معادلہ تھا ۔ شعبہ عربی کی بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹنگ میں معہد کے سند کی منظوری کا پہلا مرحلہ کامیابی کے ساتھ طے کر لیا گیا۔ لیکن ایک خاص مرحلہ میں یونیورسیٹی کے کچھ خاص اہل کاروں نے اپنے گروہی اور مسلکی عصبیتوں سے مجبور ہوکر آگے کے لئے رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ دوبارہ معہد کی فائل منگوائی گئی۔ دوبارہ شعبہ کی میٹنگ میں معادلہ کی سفارش کی گئی۔ شعبہ صرف سفارش کر سکتا ہے۔ آگے کا کام رجسٹرار آفس کا ہے۔
راقم کی ذہنی تربیت جس ماحول میں ہوئی تھی وہاں مسلکی ترجیحات کو ملی مسائل کے ایجنڈے میں بنیادی مقام حاصل نہیں تھا۔ لیکن اسلامیان ہند کا عملی رویہ اس زاویہ نگاہ سے بیر رکھتا ہے۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے جس کا سامنا ہم آئے دن کرتے ہیں اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ مسلکی ترجیحات کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ مفاہمت کل بھی پر کار اورمصلحت آمیز ہوتی ہے اور سادہ لوحی کو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ دینی قدروں کی اساسیات کی تشریح و تعبیر میں بین مسلکی مفاہمت کے لئے کس حد تک زبان، بیان اور طرز عمل کو لچیلا بنایا جا سکتا ہے اور خرد کی آنکھوں کو موند کر رکھنے کی تلقین کی جا سکتی ہے چشم فلک نے یہی دیکھا ہے کہ ہوشمندی کے آذرکس طرح نئے صنم تراش لیتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے ایک لمحہء فکریہ ہے جو بقوت ہمیں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مستقبل کی تعمیر میں ماضی کی یاد داشت کو پس پشت ڈالنا خود فریبی ہے جو کبھی مثبت نہیں ہوتی۔ مولانا اپنی نجی مجلسوں اور گفتگووں میں اس مسئلہ کی ہمہ جہتی اہمیت کا احساس دلاتے تھے۔
دہلی میں مولانا کی رہائش گاہ میں ایک دفعہ ایک ملاقات کے دوران اسلام کے خلاف معاندانہ رویہ رکھنے والوں کے ضمن میں گفتگو ہوئی۔ اہل وطن کے ساتھ ساتھ مستشرقین یورپ کے رویوں کا حوالہ بھی آیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس سلسلہ میں عالم اسلام میں جو کام ہوا ہے اس کو واضح الفاظ میں سراہا جانا چاہئے۔ لیکن کچھ پہلو ہیں جن پر مفصل کام ہونا باقی ہے۔ مستشرقین یا تو غالی قسم کے یہودی یا عیسائی ہیں جن کی اسلام دشمنی ایک کھلی کتاب ہے جسے کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔ یا پھرکٹر عقلیت پرست ہیں جو اساسیات دین کو مارکسی فلسفہ کے طور پر برتنا چاہتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے رد عیسائیت کے علاوہ منطقیوں اور فلسفیوں کی بے مایگی پر بے مثال بصیرت افروزانہ کارنامے انجام دئے ہیں۔ ان کی کتابیں خاص کرالجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح اور کتاب الرد علی الدہریین نمائندہ مثالیں ہیں۔ اس موضوع کو اس کے مناسب سیاق و سباق میں آج کی زبان میں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا کام یہ ہے کہ مستشرقین یورپ نے اسلامیات کے مطالعہ میں جو طریقہ کار کو اپنایا ہے اس کا معروضی تجزیہ کیا جاہے۔ مستشرقین یورپ پر سرسری انداز سے گفتگو کرنا بہت آسان ہے۔ ان کے لئے ناموزوں الفاظ کا استعمال کرنا اور بھی آسا ن ہے۔ مگر استشراق کی جڑوں کو سمجھنے کے لئے صرف اردو عربی کا سرمایہ کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے یورپی زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔ انگریزی یورپ کی ایک زبان ہے جس سے واقفیت ضروری بھی ہے۔ لیکن یہ سمجھ لینا کہ صرف انگریزی سمجھ لینے سے استشراق اور مستشرقین کو سمجھنا کافی ہوگا ایک بنیادی غلطی ہے۔ فرانسیسی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں میں مستشرقین نے زیادہ کام کئے ہیں۔ ان زبانوں کے جاننے وا لے بر صغیرکے مسلمانوں میں کتنے ہیں؟ لہذا ضرورت ایسے مطالعوں کو سامنے لانے کی ہے جن میں استشراق کو اس کے اصل مصادر میں پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ میرے ناقص مطالعہ کی حد تک اب تک اس موضوع پرسب سے اہم کام فرانسیسی میں کیا گیا ہے جس کو میں اردو میں منتقل کرنا چاہتاہوں۔ یہ کام L'Islam dans le miroir de l'occident کے نام سے ہے جس کا مصنف Jean-Jacques Waardenburg ہے اور جو سنہ ۱۹۶۲ میں پیرس سے شائع ہو ئی ہے۔ اس کتاب کا انداز اڈوارڈ سعید کی مشہور کتاب Orientalism (1977) اور نارمن دانیال کی معروف تصانیف سے جدا ہے۔ لیکن عربی میں بھی ایک اہم کتاب سامنے آئی ہے جو دراصل متعدد علمی اور تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب مناھج المستشرقین فی الدراسات العربیۃ و الاسلامیۃ کے نام سے ہے جس کو مکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج نے شائع کیا تھا۔ اس کو میں اردو میں منتقل کر چکاہوں۔ مولانا نے برجستہ فرمایا کہ آپ اس کا مسودہ ہمیں دے دیں۔ کتاب ایک ہفتہ میں چھپ جائیگی۔ اور ہوا بھی یہی۔ ایک ہفتہ میں کتاب چھپ گئی اور علمی حلقوں نے اس کی بڑی پزیرائی کی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے رد یہود ، نصاری ، مناطقہ ، فلاسفہ کے بارہ میں سلسلہ وار مضامین کے لئے ماہنامہ ’’پیام توحید‘‘ کے صفحات خاص کر دئے گئے۔ بعد میں اس رسالہ کی ادارت بھی راقم کے سپرد کر دی گئی۔ مولانا کی علم نوازی کی یہ ایک ادنی مثال ہے۔
مولانا بڑے ملنسار انسان تھے۔ ان جیسی قامت کے لوگوں کے لئے ملنساری کو پابندی سے برتنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ جس انسان کے دوستانہ تعلقات وزرائے اعظم، گورنروں، مرکزی وزیروں ، سفیروں اور حکومت کے اعلی افسران سے ہو اور جس کی ایک دعوت سے کشن گنج جیسے ایک معمولی شہر میں ملکی و غیر ملکی عظیم ہستیوں اور معزز مہمانوں کا تانتا بندھ جاتا ہو، اس کو عمومی اخلاقیات سے آپ بھلے ہی نظریاتی طور پر مستثنی نہ کریں لیکن ملنساری کے ان پیمانوں کی توقع عملی طور پر بیجا ہوتی ہے ۔ لیکن مولانا کا طرز عمل اس پہلو سے منفرد تھا۔ ان کی ملنساری اور خورد نوازی کم علموں کو بھی عظیم ہونے کا احساس دلاتی تھی۔ مولانا کی عظمت کا یہ ایک منفرد پہلو تھا۔
مولانا ایک طرف اگر ادارہ ساز تھے تو دوسری طرف مردم ساز بھی۔ روایتی دینی تعلیم کے وقار کو بلند کرنے میں مولانا نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کی نظر میں دینی تعلیم کو بیساکھی
بننے سے روکنا سماج کااہم فریضہ تھا۔ معہد کو عصری ملکی و غیر ملکی اداروں سے جوڑنا اور ایسے اداروں کی تاسیس جو انسان کو خود کفیل بناتے ہوں مولانا کی دور بینی اور ژرف نگاہی کے واضح ثبوت ہیں۔
علی گڑھ سے مولانا کی بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس کے لئے صفحات درکار ہیں۔ اسی سلسلہ میں مسلم یونیورسیٹی کے سابق نسیم احمد صاحب سے راقم نے ایک وفد کی ملاقات کرائی تھی جس کی سربراہی مولانا نے کی تھی۔ اصل میں علی گڑھ کا ایک اپنا ورک اسٹائل ہے۔ یہ خود کس حد تک مسئلہ ہے اس پر بڑے خوبصورت افسانے تحریرکئے جا سکتے ہیں۔ عملی زندگی میں فسوں بھی ہوتے ہیں افسانے بھی۔ وہ ٹھوس سچائیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ زندگی ان سب کا حسین آمیزہ ہوتی ہے۔ اس آمیزہ میں ترشی بھی ہوتی ہے، شیرینی بھی۔ کمال صنعت گری تو یہ ہے کہ اسی آمیزہ سے آب حیات تیار کیا جائے۔ مولانا میں یہ کمال تھا۔
مولانا رحمہ اللہ سے میرے مراسم کافی قدیم تھے۔ آخر پندرہ سالوں کا عرصہ کسی بھی حساب سے کم نہیں ہوتا۔ میری علی گڑھ آمد کے تھوڑے دنوں بعد ہی سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔شمالی بہار کا خطہ پوری انسانی تاریخ میں مردم خیز رہاہے۔ قدیم و جدید ہندوستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے والوں کے لئے اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ ہمیں مثال نہ تو ہمہ کی دینی ہے اور نہ شما کی۔ دو ٹوک بات یہ کہنی ہے کہ مولانا عبد المتین رحمہ اللہ جس شخصیت کے مالک تھے اور جو اہم کارنامے انہوں نے ملت کے لئے انجام دئے ہیں وہ تاریخ ملت میں سنہرے حرفوں سے لکھے جائیں گے۔
کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے جب پہلی بار میری ملاقات مولانا سے ہوئی۔ان دنوں میں نیا نیا لکچرار بنا تھا۔ مولانا کسی کام سے علی گڑھ تشریف لائے تھے۔ ملاقات کے لئے وہ خود میری رہائش گاہ تشریف لائے۔ گفتگو زیادہ تر ملت اور مسلک کے علمی اور سماجی موضوعات پر رہی۔ اپنے علاقہ اور اس کی تعلیمی بہبود پر بھی باتیں ہوئیں۔ علی گڑھ کے کردار پر بھی گفتگو ہوئی۔ مولانا در اصل ایسے ذہنوں کی تلاش میں تھے جو کچھ کرنے کی تڑپ رکھتے ہوں۔ اس وقت کشن گنج میں مولانا کے کارناموں کا منظر نامہ وہ نہیں تھا جو اس وقت ہے۔ علی گڑھ اور کشن گنج کی دوری کو مولانا مستقبل قریب میں کم کرنا چاہتے تھے۔ اس سمت میں پہلا قدم معہد کی سند کا علی گڑھ سے معادلہ تھا ۔ شعبہ عربی کی بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹنگ میں معہد کے سند کی منظوری کا پہلا مرحلہ کامیابی کے ساتھ طے کر لیا گیا۔ لیکن ایک خاص مرحلہ میں یونیورسیٹی کے کچھ خاص اہل کاروں نے اپنے گروہی اور مسلکی عصبیتوں سے مجبور ہوکر آگے کے لئے رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ دوبارہ معہد کی فائل منگوائی گئی۔ دوبارہ شعبہ کی میٹنگ میں معادلہ کی سفارش کی گئی۔ شعبہ صرف سفارش کر سکتا ہے۔ آگے کا کام رجسٹرار آفس کا ہے۔
راقم کی ذہنی تربیت جس ماحول میں ہوئی تھی وہاں مسلکی ترجیحات کو ملی مسائل کے ایجنڈے میں بنیادی مقام حاصل نہیں تھا۔ لیکن اسلامیان ہند کا عملی رویہ اس زاویہ نگاہ سے بیر رکھتا ہے۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے جس کا سامنا ہم آئے دن کرتے ہیں اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ مسلکی ترجیحات کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ مفاہمت کل بھی پر کار اورمصلحت آمیز ہوتی ہے اور سادہ لوحی کو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ دینی قدروں کی اساسیات کی تشریح و تعبیر میں بین مسلکی مفاہمت کے لئے کس حد تک زبان، بیان اور طرز عمل کو لچیلا بنایا جا سکتا ہے اور خرد کی آنکھوں کو موند کر رکھنے کی تلقین کی جا سکتی ہے چشم فلک نے یہی دیکھا ہے کہ ہوشمندی کے آذرکس طرح نئے صنم تراش لیتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے ایک لمحہء فکریہ ہے جو بقوت ہمیں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مستقبل کی تعمیر میں ماضی کی یاد داشت کو پس پشت ڈالنا خود فریبی ہے جو کبھی مثبت نہیں ہوتی۔ مولانا اپنی نجی مجلسوں اور گفتگووں میں اس مسئلہ کی ہمہ جہتی اہمیت کا احساس دلاتے تھے۔
دہلی میں مولانا کی رہائش گاہ میں ایک دفعہ ایک ملاقات کے دوران اسلام کے خلاف معاندانہ رویہ رکھنے والوں کے ضمن میں گفتگو ہوئی۔ اہل وطن کے ساتھ ساتھ مستشرقین یورپ کے رویوں کا حوالہ بھی آیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس سلسلہ میں عالم اسلام میں جو کام ہوا ہے اس کو واضح الفاظ میں سراہا جانا چاہئے۔ لیکن کچھ پہلو ہیں جن پر مفصل کام ہونا باقی ہے۔ مستشرقین یا تو غالی قسم کے یہودی یا عیسائی ہیں جن کی اسلام دشمنی ایک کھلی کتاب ہے جسے کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔ یا پھرکٹر عقلیت پرست ہیں جو اساسیات دین کو مارکسی فلسفہ کے طور پر برتنا چاہتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے رد عیسائیت کے علاوہ منطقیوں اور فلسفیوں کی بے مایگی پر بے مثال بصیرت افروزانہ کارنامے انجام دئے ہیں۔ ان کی کتابیں خاص کرالجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح اور کتاب الرد علی الدہریین نمائندہ مثالیں ہیں۔ اس موضوع کو اس کے مناسب سیاق و سباق میں آج کی زبان میں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا کام یہ ہے کہ مستشرقین یورپ نے اسلامیات کے مطالعہ میں جو طریقہ کار کو اپنایا ہے اس کا معروضی تجزیہ کیا جاہے۔ مستشرقین یورپ پر سرسری انداز سے گفتگو کرنا بہت آسان ہے۔ ان کے لئے ناموزوں الفاظ کا استعمال کرنا اور بھی آسا ن ہے۔ مگر استشراق کی جڑوں کو سمجھنے کے لئے صرف اردو عربی کا سرمایہ کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے یورپی زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔ انگریزی یورپ کی ایک زبان ہے جس سے واقفیت ضروری بھی ہے۔ لیکن یہ سمجھ لینا کہ صرف انگریزی سمجھ لینے سے استشراق اور مستشرقین کو سمجھنا کافی ہوگا ایک بنیادی غلطی ہے۔ فرانسیسی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں میں مستشرقین نے زیادہ کام کئے ہیں۔ ان زبانوں کے جاننے وا لے بر صغیرکے مسلمانوں میں کتنے ہیں؟ لہذا ضرورت ایسے مطالعوں کو سامنے لانے کی ہے جن میں استشراق کو اس کے اصل مصادر میں پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ میرے ناقص مطالعہ کی حد تک اب تک اس موضوع پرسب سے اہم کام فرانسیسی میں کیا گیا ہے جس کو میں اردو میں منتقل کرنا چاہتاہوں۔ یہ کام L'Islam dans le miroir de l'occident کے نام سے ہے جس کا مصنف Jean-Jacques Waardenburg ہے اور جو سنہ ۱۹۶۲ میں پیرس سے شائع ہو ئی ہے۔ اس کتاب کا انداز اڈوارڈ سعید کی مشہور کتاب Orientalism (1977) اور نارمن دانیال کی معروف تصانیف سے جدا ہے۔ لیکن عربی میں بھی ایک اہم کتاب سامنے آئی ہے جو دراصل متعدد علمی اور تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب مناھج المستشرقین فی الدراسات العربیۃ و الاسلامیۃ کے نام سے ہے جس کو مکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج نے شائع کیا تھا۔ اس کو میں اردو میں منتقل کر چکاہوں۔ مولانا نے برجستہ فرمایا کہ آپ اس کا مسودہ ہمیں دے دیں۔ کتاب ایک ہفتہ میں چھپ جائیگی۔ اور ہوا بھی یہی۔ ایک ہفتہ میں کتاب چھپ گئی اور علمی حلقوں نے اس کی بڑی پزیرائی کی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے رد یہود ، نصاری ، مناطقہ ، فلاسفہ کے بارہ میں سلسلہ وار مضامین کے لئے ماہنامہ ’’پیام توحید‘‘ کے صفحات خاص کر دئے گئے۔ بعد میں اس رسالہ کی ادارت بھی راقم کے سپرد کر دی گئی۔ مولانا کی علم نوازی کی یہ ایک ادنی مثال ہے۔
مولانا بڑے ملنسار انسان تھے۔ ان جیسی قامت کے لوگوں کے لئے ملنساری کو پابندی سے برتنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ جس انسان کے دوستانہ تعلقات وزرائے اعظم، گورنروں، مرکزی وزیروں ، سفیروں اور حکومت کے اعلی افسران سے ہو اور جس کی ایک دعوت سے کشن گنج جیسے ایک معمولی شہر میں ملکی و غیر ملکی عظیم ہستیوں اور معزز مہمانوں کا تانتا بندھ جاتا ہو، اس کو عمومی اخلاقیات سے آپ بھلے ہی نظریاتی طور پر مستثنی نہ کریں لیکن ملنساری کے ان پیمانوں کی توقع عملی طور پر بیجا ہوتی ہے ۔ لیکن مولانا کا طرز عمل اس پہلو سے منفرد تھا۔ ان کی ملنساری اور خورد نوازی کم علموں کو بھی عظیم ہونے کا احساس دلاتی تھی۔ مولانا کی عظمت کا یہ ایک منفرد پہلو تھا۔
مولانا ایک طرف اگر ادارہ ساز تھے تو دوسری طرف مردم ساز بھی۔ روایتی دینی تعلیم کے وقار کو بلند کرنے میں مولانا نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کی نظر میں دینی تعلیم کو بیساکھی
بننے سے روکنا سماج کااہم فریضہ تھا۔ معہد کو عصری ملکی و غیر ملکی اداروں سے جوڑنا اور ایسے اداروں کی تاسیس جو انسان کو خود کفیل بناتے ہوں مولانا کی دور بینی اور ژرف نگاہی کے واضح ثبوت ہیں۔
علی گڑھ سے مولانا کی بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس کے لئے صفحات درکار ہیں۔ اسی سلسلہ میں مسلم یونیورسیٹی کے سابق نسیم احمد صاحب سے راقم نے ایک وفد کی ملاقات کرائی تھی جس کی سربراہی مولانا نے کی تھی۔ اصل میں علی گڑھ کا ایک اپنا ورک اسٹائل ہے۔ یہ خود کس حد تک مسئلہ ہے اس پر بڑے خوبصورت افسانے تحریرکئے جا سکتے ہیں۔ عملی زندگی میں فسوں بھی ہوتے ہیں افسانے بھی۔ وہ ٹھوس سچائیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ زندگی ان سب کا حسین آمیزہ ہوتی ہے۔ اس آمیزہ میں ترشی بھی ہوتی ہے، شیرینی بھی۔ کمال صنعت گری تو یہ ہے کہ اسی آمیزہ سے آب حیات تیار کیا جائے۔ مولانا میں یہ کمال تھا۔
Mar-Apr 2010کشن گنج میں فکر و آگہی کا روشن چراغ
مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی
استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
کشن گنج میں فکر و آگہی کا روشن چراغ
برصغیر ہندوستان اور سرزمین نیپال میں فکر و عقیدہ، علم و عرفان، تالیف و تصنیف، بحث و تحقیق، صحافت و ادب، دعوت وتبلیغ، افتاء و قضا اور درس و تدریس کے میدان میں مدینہ یونیورسٹی کے فارغین خدمات انجام دے رہے ہیں، تعمیر مساجد، تحفیظ القرآن الکریم کے مدارس، دینی ادارے، اسکول وکالج اور تعلیم نسواں کی دانش گاہیں قائم کرنے میں فضلائے مدینہ کا نمایاں حصہ رہا ہے ان میں سر فہرست ہمارے محب مکرم شیخ عبدالمتین سلفی ہیں جو ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء کو اس دنیائے دوں سے رخصت ہوئے۔
(اللہھم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ الجنۃ وقہ من النار)۔
آپمدینہ یونیورسٹی کے سرگرم اور فعال اور کچھ کر گزرنے کی فکر رکھنے والے ہونہار فرزند تھے، وہ بہار و بنگال کی سرحد ’’کشن گنج‘‘کے ایک سلفی خانوادے کے فرد فرید تھے، جامعہ سلفیہ بنارس میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ، مدینہ کا رخ کیا اور فیکلٹی آف شرعیہ میں چار سالہ گریجویشن کا کورس کرنے کے بعد ۷۹ء میں اپنے وطن کشن گنج واپس آگئے اور وہیں اپنی تگ وتاز سنوانے میں لگ گئے۔
کشن گنج کا علاقہ جس کو شیخ عبدالمتین نے اپنی جدو جہد اور میدان عمل کا مرکز بنایا وہ غریب اور پسماندہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے، اس خطہ میں جہالت، شرک وبدعت
اور غیر اسلامی رسم ورواج کا دور دورہ تھا لہٰذا اس دینی و سماجی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے شیخ عبدالمتین نے ’’توحیدایجوکیشنل ٹرسٹ‘‘کی بنیاد رکھی اور اس کے ماتحت کئی ادارے قائم کئے جن میں جامعۃ الامام البخاری اپنی نوعیت کا ایک منفرد ادارہ ہے جو اس علاقے کی تعلیمی ضرورت پوری کرتا ہے، اس جامعہ نے روز افزوں ترقی کی اور وہاں سے کھیپ کی کھیپ طلبہ کی تعداد علم وآگہی سے آراستہ ہوکر فارغ التحصیل ہوئی اور پھر ان فارغین کی ایک بڑی تعداد جامعہ ام القریٰ، مکہ مکرمہ اور مدینہ یونیورسٹی میں اپنی علمی پیاس بجھا رہی ہے۔
شیخ عبدالمتین کو کام کرنے کی دھن تھی اور سلیقہ بھی تھا، وہ عربوں کے مزاج سے واقف تھے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے دینی حلقوں کو ان کی کارکردگی پر اعتماد تھا وہ ان کے طریقۂ کار سے مطمئن اور خوش تھے، عرب شیوخ کے اعتماد سے جامعہ امام البخاری کے کاز کو ہر طرح کا فائدہ پہونچا ، شیخ عبدالمتین کو کشن گنج اور صوبہ بہار کی انتظامیہ کا اعتماد بھی حاصل تھا، بہار کی انتظامیہ جامعہ امام بخاری کے ہر بڑے فنگشن میں شریک ہوتی،شیخ جامعہ کا سالانہ تعلیمی مظاہرہ بڑے اہتمام سے منعقد کرتے،اجلاس عام میں برصغیر کے مشہور مقررین حضرات مدعو ہوتے، راقم کو بھی ایک بار جامعہ کے اجلاس عام میں خطاب کرنے کا موقع ملا، ان جلسوں سے جامعہ کا اچھا تعارف ہوا، شیخ عبدالمتین نے جامعہ امام بخاری قائم کرکے کشن گنج کے علاقے میں فکر وآگہی کا جوت جگایا اور ان علاقوں کے لئے زبردست علمی و دینی اور ملی سرمایہ چھوڑ گئے جن کو سنبھالنا صرف برادران عبدالمتین اور ان کے فرزند ارجمند مطیع الرحمن سلمہ کی ذمہ داری ہے بلکہ اس خطے میں بسنے والی ہر ہستی کی فکر کا باعث ہے۔
بلاشبہ برادرم عبدالمتین کشن گنج اور اس کے اطراف کی ضرورت تھے، سلفی دعوت اور فکر ونظر کو ان کی ذات سے بڑا فروغ ملا، وہ بڑے بیدار مغز، روشن دماغ، دل درمند اور فکر ارجمند کے مالک تھے، وہ دن رات کام کرتے، کام کی دھن میں ان کی مثال مولانا رضوان ندوی کی سی ہے، جنہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد لکھنؤ میں تعلیم نسواں کے لئے ایک عظیم الشان ادارہ ’’جامعۃ المؤمنات الاسلامیۃ‘‘ قائم کیا جو پورے آب وتاب کے ساتھ رواں دواں ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے ان دونوں ساتھیوں کی مغفرت فرمائے اور ان کے قائم کردہ اداروں کو ہمیشہ فیض رسانی کا باعث بنائے اور اس صدقۂ جاریہ کا ثواب انہیں ملتا رہے۔
(اللہھم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ الجنۃ وقہ من النار)۔
آپمدینہ یونیورسٹی کے سرگرم اور فعال اور کچھ کر گزرنے کی فکر رکھنے والے ہونہار فرزند تھے، وہ بہار و بنگال کی سرحد ’’کشن گنج‘‘کے ایک سلفی خانوادے کے فرد فرید تھے، جامعہ سلفیہ بنارس میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ، مدینہ کا رخ کیا اور فیکلٹی آف شرعیہ میں چار سالہ گریجویشن کا کورس کرنے کے بعد ۷۹ء میں اپنے وطن کشن گنج واپس آگئے اور وہیں اپنی تگ وتاز سنوانے میں لگ گئے۔
کشن گنج کا علاقہ جس کو شیخ عبدالمتین نے اپنی جدو جہد اور میدان عمل کا مرکز بنایا وہ غریب اور پسماندہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے، اس خطہ میں جہالت، شرک وبدعت
اور غیر اسلامی رسم ورواج کا دور دورہ تھا لہٰذا اس دینی و سماجی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے شیخ عبدالمتین نے ’’توحیدایجوکیشنل ٹرسٹ‘‘کی بنیاد رکھی اور اس کے ماتحت کئی ادارے قائم کئے جن میں جامعۃ الامام البخاری اپنی نوعیت کا ایک منفرد ادارہ ہے جو اس علاقے کی تعلیمی ضرورت پوری کرتا ہے، اس جامعہ نے روز افزوں ترقی کی اور وہاں سے کھیپ کی کھیپ طلبہ کی تعداد علم وآگہی سے آراستہ ہوکر فارغ التحصیل ہوئی اور پھر ان فارغین کی ایک بڑی تعداد جامعہ ام القریٰ، مکہ مکرمہ اور مدینہ یونیورسٹی میں اپنی علمی پیاس بجھا رہی ہے۔
شیخ عبدالمتین کو کام کرنے کی دھن تھی اور سلیقہ بھی تھا، وہ عربوں کے مزاج سے واقف تھے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے دینی حلقوں کو ان کی کارکردگی پر اعتماد تھا وہ ان کے طریقۂ کار سے مطمئن اور خوش تھے، عرب شیوخ کے اعتماد سے جامعہ امام البخاری کے کاز کو ہر طرح کا فائدہ پہونچا ، شیخ عبدالمتین کو کشن گنج اور صوبہ بہار کی انتظامیہ کا اعتماد بھی حاصل تھا، بہار کی انتظامیہ جامعہ امام بخاری کے ہر بڑے فنگشن میں شریک ہوتی،شیخ جامعہ کا سالانہ تعلیمی مظاہرہ بڑے اہتمام سے منعقد کرتے،اجلاس عام میں برصغیر کے مشہور مقررین حضرات مدعو ہوتے، راقم کو بھی ایک بار جامعہ کے اجلاس عام میں خطاب کرنے کا موقع ملا، ان جلسوں سے جامعہ کا اچھا تعارف ہوا، شیخ عبدالمتین نے جامعہ امام بخاری قائم کرکے کشن گنج کے علاقے میں فکر وآگہی کا جوت جگایا اور ان علاقوں کے لئے زبردست علمی و دینی اور ملی سرمایہ چھوڑ گئے جن کو سنبھالنا صرف برادران عبدالمتین اور ان کے فرزند ارجمند مطیع الرحمن سلمہ کی ذمہ داری ہے بلکہ اس خطے میں بسنے والی ہر ہستی کی فکر کا باعث ہے۔
بلاشبہ برادرم عبدالمتین کشن گنج اور اس کے اطراف کی ضرورت تھے، سلفی دعوت اور فکر ونظر کو ان کی ذات سے بڑا فروغ ملا، وہ بڑے بیدار مغز، روشن دماغ، دل درمند اور فکر ارجمند کے مالک تھے، وہ دن رات کام کرتے، کام کی دھن میں ان کی مثال مولانا رضوان ندوی کی سی ہے، جنہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد لکھنؤ میں تعلیم نسواں کے لئے ایک عظیم الشان ادارہ ’’جامعۃ المؤمنات الاسلامیۃ‘‘ قائم کیا جو پورے آب وتاب کے ساتھ رواں دواں ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے ان دونوں ساتھیوں کی مغفرت فرمائے اور ان کے قائم کردہ اداروں کو ہمیشہ فیض رسانی کا باعث بنائے اور اس صدقۂ جاریہ کا ثواب انہیں ملتا رہے۔
وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں Mar-Apr 2010
مولانا رضا ء اللہ عبد الکریم مدنی
وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
یادش بخیر جامعہ سلفیہ بنارس جب جماعت کا واحد مرکزی و تعلیمی ادارہ تھا، جہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلباء تمنا کرتے تھے۔ اس وقت تک جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں یا جامعہ اسلامیہ سنابل دہلی، جامعہ ابن تیمیہ چندن بارہ، جامعہ الامام البخاری کشن گنج بہار جیسے ادارے وجود پذیر نہیں ہوئے تھے۔ میں نے ۱۹۷۳ء میں جامعہ سلفیہ بنارس میں داخلہ عالمیت سال اول میں لیا تھا یادر ہے، اس وقت عالمیت چار سال میں مکمل ہوتی تھی ،یہاں ماحول دہلی کے مقابلہ میں بالکل جدا تھا، جامعہ میں تعلیم و تربیت کا ماحول بھی بہت اچھا تھا ،سینیر و جونیر کا فرق بھی ملحوظ رکھا جاتا تھا، طلبہ میں درسی و غیر درسی مطالعہ کا بے حد ذوق تھا، منتخب روزگار طلبہ جامعہ میں اکھٹے ہوگئے تھے۔
انہی میں ایک نام تھا حضرت مولینا عبد المتین صاحب کا، وہ اس وقت فضیلت سال اول میں تھے ،درس میں اساتذہ کے ساتھ نحوی صرفی یا لغوی مباحث پر الجھنے میں شاید لطف آتاتھا ، جس کا تذکرہ خارج درس بھی ہوتا تھا یہ تھا پہلا تاثر جو اس شخصیت کے بارے میں دل نے قبول کیا، اتفاق سے میرے ساتھیوں میں دو حضرات بنگلہ بھاشی تھے جن سے ملنے مولینا کا آنا میرے کمرے میں ہوتا تھا آپسی گفتگو میں بنگلہ بھاشا کا استعمال کرتے اردو میں وہ روانی نہ تھی جو بنگلہ میں تھی، بذلہ سنجی لطیفہ گوئی، احباب کو ہنسانا اور خود بھرپور انداز میں ہنسنا ان کی عادت میں شامل تھا لیکن یہ تبھی ہوتا تھا جب خاص احباب جمع ہوں۔
میں چونکہ بنگلہ بھاشا سے نابلد تھا لیکن بعض کلموں اور سیاق و سباق کی مدد سے کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا تھا۔ ایک بار مولانا نے بر سبیل تذکرہ کسی شخص کے لیے ’’بوکا‘‘ کے ساتھ چ، و، د، الف کا استعمال کیا میں نے ٹوکا مولانا آپ اور ایسی زبان استعمال کرتے ہیں؟ ۔
مولانانے فورا بچنے کی راہ نکالی، نہیں رضا اس میں کوئی بات نہیں تم لوگوں کو یہ لفظ گالی لگتا ہے بنگلہ بھاشامیں ’’بوکا ، چ، و، د، ا‘‘ بڑے بھائی کو کہتے ہیں۔
ذہن نے یہ بات قبول کرنے سے انکار کر دیا فورا میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ میرے بڑے بھائی ہیں آج سے میں آپ کو بوکا ۔۔۔کہا کروں گا۔ پھر توکمرے کے سارے لوگوں میں وہ ہنسی پڑی کہ لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے اور مولانا کمرے سے نکل گئے۔
جامعہ سلفیہ کے دو سال دیکھتے دیکھتے گزر گئے اور وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ پہونچ گئے، جب میں مدینہ پہونچا تو وہ وہاں سے جا چکے تھے اور بنگلہ دیش میں تعلیمی و تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے تھے، وہاں کی شبانہ روز کی سرگرمیاں کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کو کھلنے لگیں آخر وہاں سے آنا پڑا ۔جن حالات میں وہاں سے آئے وہ کافی پریشان کن تھے لیکن انہوں نے اپنی ہمت حوصلہ اور بیدار مغزی سے یہاں ہندوستان میں کام کرنے کی راہیں تلاش کرلیں اور پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، توحید ایجوکیشنل سوسائٹی کے ذریعہ انہوں نے دینی، تعلیمی، تبلیغی و رفاہی کاموں کا وہ سلسلہ شروع کیا کہ دیکھتے دیکھتے کشن گنج میں ایک شہر علم وہنر آباد کردیا۔
اس درمیان حاسدین نے ان کو کبھی چین سے رہنے کی مہلت نہ دی مگر اللہ کے فضل وکرم کے سہارے وہ اپنی بلند حوصلگی بیدار مغزی اور صحیح سماجی سیاسی اور معاشرتی سوجھ بوجھ کے سہارے ہمیشہ آگے بڑھتے رہے بڑے بڑے پروگرام بنانا ان کو پایہ تکمیل تک پہونچانا اور اس کے لیے دن ورات محنت کرنا افراد کو فراہم کرنا ان کی عادت میں شامل تھا۔
مناسب بند وبست سوجھ بوجھ اور محنت شاقہ کے ذریعہ انہوں نے ملک و ملت اور جماعت کی وہ خد مت انجام دی کہ بہت سے لوگ مل کر نہیں دے سکتے۔
حضرت مولینا عبد الوہاب خلجی کے دور نظامت میں جمعیت کی طرف سے ان کو پورا تعاون ملا، سلفی اخوان کی عالمی تحریک کے وہ ایک متحرک و فعال رکن تھے اور اگر عالمی حالات اچانک اسلام دشمن رخ اختیار نہ کرتے تو یہ تحریک عالمی رابطہ کی بہت بڑی تنظیم ہوتی اور دینی تبلیغی و عالمی امن و شانتی میں مددگار ثابت ہوتی۔
جمعیت اہلحدیث کے کاموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور مفید مشورے بھی دیتے تھے، لیکن کچھ لوگوں کو ان کا ہندوستان آنا اور بنگلہ بھاشی مسلمانوں میں کام کرنا اچھا نہ لگتا تھا انہوں نے ہمیشہ مولینا عبدا لمتین صاحب کے راستے میں کانٹے بوئے اور ان کو کام کرنے سے روکا لیکن مولینا ان کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے کام کرتے گئے یہاں تک کہ آج ان کا کام اپنوں اور پرایوں سبھی کو مجبور کرتاہے کہ اس کااعتراف کریں اوریہ مانیں کہ عبد المتین نے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کا کام کرلیا ہے۔ اور ملک و ملت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور اگر بنگال میں دو تین عبد المتین اور پیدا ہو جائیں تو بنگال کی تقدیر بدل جائے۔ اور جو صورت حا ل ہے اس میں خاصی تبدیلی آجائے۔
خطہ بنگال بلکہ یوں کہیں کہ بہار بنگال اور جھارکھنڈ کے ملتقی پر جو سلفی اخوان کی بھاری تعداد موجود ہے وہ پورے ہندوستان میں کہیں نہیں، لیکن افسوس ہے ذمہ داروں نے اس خطہ کو فراموش کیاہوا ہے، اس خطہ میں قادیانیت سے لیکر دیگر سبھی تحریکوں نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، نوجوان جدھر جارہے ہیں وہ راہ اہلحدیث کی نہیں ہے اور عام مسلمانوں نے جو راستہ گلی گلی نگر نگر پھرنے والوں کا اختیار کیا ہواہے وہ کسی اچھے مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتا ،نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے مفاد اور انانیت کے لیے اس پورے خطہ کو دینی لحاظ سے قابل افسوس حالات تک پہونچادیا ہے اور تمام تحریکات اس علاقہ کو اپنی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں۔
مولانا عبد المتین صاحب کی خدمات دینی تعلیمی رفاہی، سب ہی ملک و ملت کے مفاد میں اور جماعت کے حق میں ہیں اور ان کے دور رس نتائج ان شاء اللہ مستقبل میں بھی ظاہر ہوتے رہیں گے، جو کچھ انہوں نے کیا کل کو وہ جماعت ہی کے خانے میں ڈالا جائے گا۔ مگر جماعت کی ناعاقبت اندیش قیادت نے ان تمام خدمات کے مقابلے میں جو تمغے مرحوم کو دیئے اورجو سلوک ان سے روا رکھا اس کی امید کسی شریف دشمن سے بھی نہیں کی جاسکتی۔
ان کے اندر بڑی صلاحیتیں تھیں اگر ان کو پورے طور پر کام کرنے کے مواقع میسر آتے تو وہ اور بھی بڑے اور مفید کام انجام دیتے۔ جو ملک و جماعت کے لیے مفید ہوتے ۔
آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ان کی کمی دیر تک محسوس کی جائے گی۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان میں سے کسی کو ایسی توفیق دے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھائے اور زندہ رکھے۔ مرحوم کی مدت سے تمنا تھی کہ میں ان کو ایک سے دو ہفتہ تک کا وقت دوں تاکہ وہ علاقہ میں شرک و بدعت کے خلاف ایک مربوط اور مسلسل دعوتی پروگرام چلائیں جس کے دوران ان کے جامعہ کے طلبہ بھی مستفید ہوں، یہ مرحوم کا میرے بارے میں حسن ظن تھا انہوں نے میری ایک دو تقریریں سنی تھیں جس سے شاید وہ متاثر تھے۔ لیکن ان کی وفات سے یہ پروگرام ان کے دل ہی میں چلاگیا۔ اللہ ان کو ان کی نیت کا اچھا صلہ عطا فرمائے۔ آمین۔ دہلی آتے تھے تو کبھی کبھی بلابھی لیا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے مجھ سے بہت کچھ کہہ کر فرمایا تھا ’’ رضاء اللہ لا تکن جندیا مجہولا‘‘ اور پھر چند باتوں کی طرف اور چند اشخاص کے بارے میں جو ان کے تجربات تھے وہ بتائے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ان کی سیئات کو درگزر کرے اور حسنات کو شرف قبولیت سے نوازے، آمین ۔حقیقت یہ ہے کہ میرے جیسے بے کس کے لیے ان کا اٹھ جانا نہایت تکلیف کا باعث ہے، اللہ ہمیں صبر جمیل عطا کرے، دوست احباب کی یادوں کے سہارے انسان دیر تک زندگی گزار لیتاہے، چاہے ان کی ذات سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہو لیکن اتنی امید اسے رہتی ہے کہ وہ اپنی دلی کیفیات ان سے کہہ کر دل ہلکا کر لیگا۔ دوست احباب رفتہ رفتہ اٹھتے جارہے ہیں، غم خوارو غم گسار اس مفاد پرست دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی ملنا دشوار ہے، ایسے میں کسی دیرینہ شناس سے اچانک جدائی ہوجائے تو دل بھر آتا ہے ۔ لیکن کر کیا سکتے ہیں، حکم الہی کے سامنے سب بے بس و لاچار ہیں۔
حضرت مولینا عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری حفظہ اللہ کی محبت ہے کہ انہوں نے یہ چند سطور لکھوائیں ورنہ کسی کی جدائی پر کچھ لکھنا میرے لیے دشوار ہو جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولینا عبد اللہ مدنی صاحب کو جزائے خیر دے۔ کہ انہوں نے نور توحید کا ایک نمبر حضرت مولینا عبد المتین رحمہ اللہ کی شخصیت و خدمات کے لیے وقف کیاہے۔ اور اس طرح اپنے دوست دیرینہ کو خراج تحسین ادا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے اور جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین۔
***
انہی میں ایک نام تھا حضرت مولینا عبد المتین صاحب کا، وہ اس وقت فضیلت سال اول میں تھے ،درس میں اساتذہ کے ساتھ نحوی صرفی یا لغوی مباحث پر الجھنے میں شاید لطف آتاتھا ، جس کا تذکرہ خارج درس بھی ہوتا تھا یہ تھا پہلا تاثر جو اس شخصیت کے بارے میں دل نے قبول کیا، اتفاق سے میرے ساتھیوں میں دو حضرات بنگلہ بھاشی تھے جن سے ملنے مولینا کا آنا میرے کمرے میں ہوتا تھا آپسی گفتگو میں بنگلہ بھاشا کا استعمال کرتے اردو میں وہ روانی نہ تھی جو بنگلہ میں تھی، بذلہ سنجی لطیفہ گوئی، احباب کو ہنسانا اور خود بھرپور انداز میں ہنسنا ان کی عادت میں شامل تھا لیکن یہ تبھی ہوتا تھا جب خاص احباب جمع ہوں۔
میں چونکہ بنگلہ بھاشا سے نابلد تھا لیکن بعض کلموں اور سیاق و سباق کی مدد سے کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا تھا۔ ایک بار مولانا نے بر سبیل تذکرہ کسی شخص کے لیے ’’بوکا‘‘ کے ساتھ چ، و، د، الف کا استعمال کیا میں نے ٹوکا مولانا آپ اور ایسی زبان استعمال کرتے ہیں؟ ۔
مولانانے فورا بچنے کی راہ نکالی، نہیں رضا اس میں کوئی بات نہیں تم لوگوں کو یہ لفظ گالی لگتا ہے بنگلہ بھاشامیں ’’بوکا ، چ، و، د، ا‘‘ بڑے بھائی کو کہتے ہیں۔
ذہن نے یہ بات قبول کرنے سے انکار کر دیا فورا میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ میرے بڑے بھائی ہیں آج سے میں آپ کو بوکا ۔۔۔کہا کروں گا۔ پھر توکمرے کے سارے لوگوں میں وہ ہنسی پڑی کہ لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے اور مولانا کمرے سے نکل گئے۔
جامعہ سلفیہ کے دو سال دیکھتے دیکھتے گزر گئے اور وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ پہونچ گئے، جب میں مدینہ پہونچا تو وہ وہاں سے جا چکے تھے اور بنگلہ دیش میں تعلیمی و تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے تھے، وہاں کی شبانہ روز کی سرگرمیاں کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کو کھلنے لگیں آخر وہاں سے آنا پڑا ۔جن حالات میں وہاں سے آئے وہ کافی پریشان کن تھے لیکن انہوں نے اپنی ہمت حوصلہ اور بیدار مغزی سے یہاں ہندوستان میں کام کرنے کی راہیں تلاش کرلیں اور پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، توحید ایجوکیشنل سوسائٹی کے ذریعہ انہوں نے دینی، تعلیمی، تبلیغی و رفاہی کاموں کا وہ سلسلہ شروع کیا کہ دیکھتے دیکھتے کشن گنج میں ایک شہر علم وہنر آباد کردیا۔
اس درمیان حاسدین نے ان کو کبھی چین سے رہنے کی مہلت نہ دی مگر اللہ کے فضل وکرم کے سہارے وہ اپنی بلند حوصلگی بیدار مغزی اور صحیح سماجی سیاسی اور معاشرتی سوجھ بوجھ کے سہارے ہمیشہ آگے بڑھتے رہے بڑے بڑے پروگرام بنانا ان کو پایہ تکمیل تک پہونچانا اور اس کے لیے دن ورات محنت کرنا افراد کو فراہم کرنا ان کی عادت میں شامل تھا۔
مناسب بند وبست سوجھ بوجھ اور محنت شاقہ کے ذریعہ انہوں نے ملک و ملت اور جماعت کی وہ خد مت انجام دی کہ بہت سے لوگ مل کر نہیں دے سکتے۔
حضرت مولینا عبد الوہاب خلجی کے دور نظامت میں جمعیت کی طرف سے ان کو پورا تعاون ملا، سلفی اخوان کی عالمی تحریک کے وہ ایک متحرک و فعال رکن تھے اور اگر عالمی حالات اچانک اسلام دشمن رخ اختیار نہ کرتے تو یہ تحریک عالمی رابطہ کی بہت بڑی تنظیم ہوتی اور دینی تبلیغی و عالمی امن و شانتی میں مددگار ثابت ہوتی۔
جمعیت اہلحدیث کے کاموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور مفید مشورے بھی دیتے تھے، لیکن کچھ لوگوں کو ان کا ہندوستان آنا اور بنگلہ بھاشی مسلمانوں میں کام کرنا اچھا نہ لگتا تھا انہوں نے ہمیشہ مولینا عبدا لمتین صاحب کے راستے میں کانٹے بوئے اور ان کو کام کرنے سے روکا لیکن مولینا ان کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے کام کرتے گئے یہاں تک کہ آج ان کا کام اپنوں اور پرایوں سبھی کو مجبور کرتاہے کہ اس کااعتراف کریں اوریہ مانیں کہ عبد المتین نے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کا کام کرلیا ہے۔ اور ملک و ملت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور اگر بنگال میں دو تین عبد المتین اور پیدا ہو جائیں تو بنگال کی تقدیر بدل جائے۔ اور جو صورت حا ل ہے اس میں خاصی تبدیلی آجائے۔
خطہ بنگال بلکہ یوں کہیں کہ بہار بنگال اور جھارکھنڈ کے ملتقی پر جو سلفی اخوان کی بھاری تعداد موجود ہے وہ پورے ہندوستان میں کہیں نہیں، لیکن افسوس ہے ذمہ داروں نے اس خطہ کو فراموش کیاہوا ہے، اس خطہ میں قادیانیت سے لیکر دیگر سبھی تحریکوں نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، نوجوان جدھر جارہے ہیں وہ راہ اہلحدیث کی نہیں ہے اور عام مسلمانوں نے جو راستہ گلی گلی نگر نگر پھرنے والوں کا اختیار کیا ہواہے وہ کسی اچھے مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتا ،نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے مفاد اور انانیت کے لیے اس پورے خطہ کو دینی لحاظ سے قابل افسوس حالات تک پہونچادیا ہے اور تمام تحریکات اس علاقہ کو اپنی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں۔
مولانا عبد المتین صاحب کی خدمات دینی تعلیمی رفاہی، سب ہی ملک و ملت کے مفاد میں اور جماعت کے حق میں ہیں اور ان کے دور رس نتائج ان شاء اللہ مستقبل میں بھی ظاہر ہوتے رہیں گے، جو کچھ انہوں نے کیا کل کو وہ جماعت ہی کے خانے میں ڈالا جائے گا۔ مگر جماعت کی ناعاقبت اندیش قیادت نے ان تمام خدمات کے مقابلے میں جو تمغے مرحوم کو دیئے اورجو سلوک ان سے روا رکھا اس کی امید کسی شریف دشمن سے بھی نہیں کی جاسکتی۔
ان کے اندر بڑی صلاحیتیں تھیں اگر ان کو پورے طور پر کام کرنے کے مواقع میسر آتے تو وہ اور بھی بڑے اور مفید کام انجام دیتے۔ جو ملک و جماعت کے لیے مفید ہوتے ۔
آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ان کی کمی دیر تک محسوس کی جائے گی۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان میں سے کسی کو ایسی توفیق دے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھائے اور زندہ رکھے۔ مرحوم کی مدت سے تمنا تھی کہ میں ان کو ایک سے دو ہفتہ تک کا وقت دوں تاکہ وہ علاقہ میں شرک و بدعت کے خلاف ایک مربوط اور مسلسل دعوتی پروگرام چلائیں جس کے دوران ان کے جامعہ کے طلبہ بھی مستفید ہوں، یہ مرحوم کا میرے بارے میں حسن ظن تھا انہوں نے میری ایک دو تقریریں سنی تھیں جس سے شاید وہ متاثر تھے۔ لیکن ان کی وفات سے یہ پروگرام ان کے دل ہی میں چلاگیا۔ اللہ ان کو ان کی نیت کا اچھا صلہ عطا فرمائے۔ آمین۔ دہلی آتے تھے تو کبھی کبھی بلابھی لیا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے مجھ سے بہت کچھ کہہ کر فرمایا تھا ’’ رضاء اللہ لا تکن جندیا مجہولا‘‘ اور پھر چند باتوں کی طرف اور چند اشخاص کے بارے میں جو ان کے تجربات تھے وہ بتائے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ان کی سیئات کو درگزر کرے اور حسنات کو شرف قبولیت سے نوازے، آمین ۔حقیقت یہ ہے کہ میرے جیسے بے کس کے لیے ان کا اٹھ جانا نہایت تکلیف کا باعث ہے، اللہ ہمیں صبر جمیل عطا کرے، دوست احباب کی یادوں کے سہارے انسان دیر تک زندگی گزار لیتاہے، چاہے ان کی ذات سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہو لیکن اتنی امید اسے رہتی ہے کہ وہ اپنی دلی کیفیات ان سے کہہ کر دل ہلکا کر لیگا۔ دوست احباب رفتہ رفتہ اٹھتے جارہے ہیں، غم خوارو غم گسار اس مفاد پرست دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی ملنا دشوار ہے، ایسے میں کسی دیرینہ شناس سے اچانک جدائی ہوجائے تو دل بھر آتا ہے ۔ لیکن کر کیا سکتے ہیں، حکم الہی کے سامنے سب بے بس و لاچار ہیں۔
حضرت مولینا عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری حفظہ اللہ کی محبت ہے کہ انہوں نے یہ چند سطور لکھوائیں ورنہ کسی کی جدائی پر کچھ لکھنا میرے لیے دشوار ہو جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولینا عبد اللہ مدنی صاحب کو جزائے خیر دے۔ کہ انہوں نے نور توحید کا ایک نمبر حضرت مولینا عبد المتین رحمہ اللہ کی شخصیت و خدمات کے لیے وقف کیاہے۔ اور اس طرح اپنے دوست دیرینہ کو خراج تحسین ادا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے اور جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین۔
***
سیمانچل کا سرسید Mar-Apr 2010
مولانا احمد مجتبیٰ مدنی
سیمانچل کا سرسید
جی ہاں! شیخ (مولانا عبدالمتین سلفیؔ ) کے سیمانچل کے مرکزی مقام ’’کشن گنج‘‘ میں تعلیمی کار ہائے نمایاں و کثیرہ دیکھ کر ان پر اس لقب کے فٹ آنے کی تصدیق کرے گا، حیرت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی مدت میں شیخ نے یہ سب کیسے کردیا؟ کیا تعجب اور حیرت کی بات نہیں کہ (۱) لڑکوں کا فضیلت تک ادارہ (۲) لڑکیوں کا فضیلت تک ادارہ (۳) اور ٹیکنیکل ادارہ الگ اور ہر ایک کے لیے بہت ہی وسیع و عریض قطعۂ آراضی۔ اور ہر ایک میں طلبہ اور اساتذہ اور ملازمین کا کثیر اجتماع جو دینی او ر عصری علوم کی تعلیم و تعلم میں ہمہ وقت مشغول اور مصروف ، ملت اور جماعت کی اتنی بڑی تعداد کے لیے ہر ممکن سہولیات مہیا، نیز ملت اور جماعت کے نونہالوں کی ترقی کے لیے متعدد شعبہ جات او ر روبہ عمل فلاحی منصوبے فللہ در الفقید !!! فجزا ہ اللہ عن الإاسلام و المسلمین خیر الجزاء۔
یہ سب صرف سنی ہوئی نہیں بلکہ بچشم خود تین بار آنکھوں دیکھی حقیقت ہے، پہلی بار جب دیکھا تھا تو صرف مذکورہ چیزیں ہی نہیں دیکھی بلکہ بہار و بنگال ہی نہیں ملک کے کونے کونے سے عمائدین ملک و ملت کا ایک کثیر اجتماع تھا جس میں علماء، ماہرین تعلیم، وزراء اورسیاسی عمائدین کی بہت بڑی تعداد ایک اسٹیج پر جمع تھی، یہ شیخ کے ہر طبقے میں معروف ہی نہیں مقبول ہونے کی بین دلیل ہے ، شیخ سے متعلق مقبولیت کی یہ بات صرف اندرون ملک ہی نہیں عالم عرب کا کون سا بڑا آدمی آپ کو جانتا نہ تھا اور مانتا نہ تھا؟؟؟؟ ۔
ماہنامہ ’’نور توحید‘‘ کے اس خصوصی شمارے میں مقالہ نگار حضرات نے برادرم سلفی صاحب کے متعدد کارنامے، اوصاف و خصائل پر روشنی ڈالی ہے اور آپ کی زندگی کے متعدد گوشوں کو اجاگر کیاہے، میں ان کی جس صفت سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہوں اس کا اظہار ان چند لفظوں میں کیا ہے، اللہ ان کے کارہائے گراں مایہ کو شرف قبولیت بخشے، ان کی ترقی درجات کا ذریعہ بنائے، اور ان کے جانشینوں کو توفیق دے کہ ان کی امانت کی کما حقہ حفاظت کرتے ہوئے مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرتے چلے جائیں۔
’’وفقہم اللہ وایانا لما فیہ خیر الإسلام والمسلمین۔ وہو ولی التوفیق، وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وسلم۔
یہ سب صرف سنی ہوئی نہیں بلکہ بچشم خود تین بار آنکھوں دیکھی حقیقت ہے، پہلی بار جب دیکھا تھا تو صرف مذکورہ چیزیں ہی نہیں دیکھی بلکہ بہار و بنگال ہی نہیں ملک کے کونے کونے سے عمائدین ملک و ملت کا ایک کثیر اجتماع تھا جس میں علماء، ماہرین تعلیم، وزراء اورسیاسی عمائدین کی بہت بڑی تعداد ایک اسٹیج پر جمع تھی، یہ شیخ کے ہر طبقے میں معروف ہی نہیں مقبول ہونے کی بین دلیل ہے ، شیخ سے متعلق مقبولیت کی یہ بات صرف اندرون ملک ہی نہیں عالم عرب کا کون سا بڑا آدمی آپ کو جانتا نہ تھا اور مانتا نہ تھا؟؟؟؟ ۔
ماہنامہ ’’نور توحید‘‘ کے اس خصوصی شمارے میں مقالہ نگار حضرات نے برادرم سلفی صاحب کے متعدد کارنامے، اوصاف و خصائل پر روشنی ڈالی ہے اور آپ کی زندگی کے متعدد گوشوں کو اجاگر کیاہے، میں ان کی جس صفت سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہوں اس کا اظہار ان چند لفظوں میں کیا ہے، اللہ ان کے کارہائے گراں مایہ کو شرف قبولیت بخشے، ان کی ترقی درجات کا ذریعہ بنائے، اور ان کے جانشینوں کو توفیق دے کہ ان کی امانت کی کما حقہ حفاظت کرتے ہوئے مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرتے چلے جائیں۔
’’وفقہم اللہ وایانا لما فیہ خیر الإسلام والمسلمین۔ وہو ولی التوفیق، وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وسلم۔
Mar-apr 2010خراج تحسین
مولانا مزمل حق مدنی
پرنسپل جامعۃ الامام البخاری
پرنسپل جامعۃ الامام البخاری
خراج تحسین
ماہ جنوری ۲۰۱۰ء کی ۱۶؍تاریخ بروز سنیچر حسب اتفاق جامعۃ الامام البخاری کا ایک شعبۂ تعلیم جو جامعہ سے مشرقی جانب ۱۰؍کلو میٹر کے فاصلہ پر بمقام بیلوا واقع ہے،موسم سرما کی مناسبت سے طلباء و طالبات کے مابین کمبل تقسیم کے گیا ہوا تھا، جب کہ دوسرے خطہ میں صدر محترم شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ بذات خود اس عمل کو انجام دے رہے تھے۔
دوران عمل دن کے ساڑھے گیارہ بجے شیخ منیرا لدین سلفی کا روتا ہوا فون موصول ہوا کہ بھائی عبدالمتین دنیا میں نہیں رہے۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعوان۔ قلب وجگر پر یہ خبر بجلی بن کر گری، مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں زمین پر ہوں یا زمین مجھ پرہے، اعتماد نہیں ہورہا تھا، دہشت ایسی تھی کہ ساتھیوں تک خبر پہونچانے کی جسارت نہیں جٹا پارہا تھا، لیکن حق تھا کہ داعی حق کو لبیک کہہ چکے تھے۔
مشرقی بہار کا یہ عظیم داعی ۵۷؍ سال کی عمر میں ۱۶؍۱؍۲۰۱۰ء بروز سنیچر ساڑھے گیارہ بجے دن عارضۂ قلب میں اللہ کے پیارے ہوگئے اور وصیت کے مطابق آبائی وطن بھلکی، دومہنا، مغربی بنگال میں بجوار والد محترم دفن کیا گیا۔
آپ سے بڑی محبت و عقیدت تھی، آپ کی زیر سرپرستی ناچیز کو تقریباً ۱۹؍سال گذارنے اور تربیت پانے کا سنہری موقع موقع ملا تھا۔ حضر وسفر کے ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی و ادارتی امور کے علاوہ سری معاملات میں بھی تبادلہ خیال کا شرف حاصل تھا۔ غرض یہ کہ بہت قریب سے آپ سے مستفید ہونے کا موقع نصیب تھا، جواب نہ رہا۔
آپ قد آور عالم، پر رعب صاحب اسلوب و بلند عزائم اور دور اندیش بے باک داعی تھے، آپ کے اندر بہترین قائدانہ صفت پائی جاتی تھی، علم وبصیرت کی روشنی میں اسلام کا سچا پیغام دنیا کو تاحیات دیتے رہے۔
مشرقی بہار کا یہ ضلع کشن گنج مسلم اکثریتی علاقہ ہے، جو علم و دانش کے باب میں بنجر اور جہالت وغیرہ میں پورے ہندوستان میں صف اول میں شمار ہوتاہے۔ ایسے نامساعد حالات میں علم کی شمع روشن کرنا معمولی بات نہ تھی،میدان علم و عمل میں وقت کی تیز و تند آندھیوں کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے رہے، علم کے راستہ میں پہونچنے والے مصائب و مشکلات کی پرواہ نہ کی، حالات سے نبر آزما ہو کر تعلیم و تربیت کے پر خار وادی میں کتاب وسنت ، توحید و سیرت کے علمبردار بن کر امن وشانتی کا پیغام دیتے رہے، گندی سیاست، زہریلے قلم رکھنے والے علم و سماج کے دشمن آپ کی صاف و شفاف حیات کو داغدار کرنے اور ان کے ذریعہ روشن کئے گئے شمع کی کرنوں کو بجھانے کی جاں توڑ کوششیں کرتے رہے، لیکن شرار بولہبی ، چراغ مصطفی کو بجھا نہ سکی۔
خود جہاں سے چلے گئے لیکن ادارے پر آنچ آنے نہ دی، مولانا جیسی شخصیت کی جدائی یقیناًہم سب کے لئے شاق ہے، ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے بظاہر اس کا پورا ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
یقیناًآپ کی وفات پر ’’ موت العالِم، موت العالَم‘‘ کا مقولہ صادق آتا ہے۔
مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ علاقہ تعلیمی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے پسماندہ ہے، یہاں ہمہ جہت پسماندگیوں اور پھیلی ہوئی بدعات و رسومات کے پیش نظر مولانارحمہ اللہ کی قیادت میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ نے جو پیش رفت کی، طلباء وطالبات کو علم و عمل اور حرفت و ہنر کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے جامعۃ الامام البخاری، کلیہ عائشہ الاسلامیہ، توحید اکیڈمی، توحید ایڈیل اکیڈمی اور توحید انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں مستفیدین کی تعداد ۱۶۰۰؍ کے قریب ہے اس کے علاوہ بیرون کشن گنج متعدد تعلیمی شعبے جات کی سرپرستی، مزید برآں ایتام و بیوگان کی کفالت سیلاب و ناگہانی آفتوں سے دوچار افراد کا تعاون جس کے ترجیحات میں شامل رہا ہے۔
یہ ایسے بے شمار احسانات و علمی کاوشیں ہیں جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور جب تک دعوت و تعلیم کے یہ روشن ستارے جگمگاتے رہیں گے ان کا شمار صدقات جاریہ میں ہوتا رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
اللہ سے دعاگو ہیں کہ اے اللہ محسن ملت رحمہ اللہ کی مغفرت فرما، ان کے اعمال حسنہ کو قبول فرما، انہیں بہتر سے بہتر اجر عطا فرما۔ ان کے درجات کو بلند فرماتے ہوئے ان کو انبیاء و صدیقین و شہداء اور صالحین کی معیت عطا فرما اور ان کے جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرما۔ اور ان کے ذریعہ قائم کئے گئے جملہ اداروں کی حفاظت فرما۔ آمین۔
دوران عمل دن کے ساڑھے گیارہ بجے شیخ منیرا لدین سلفی کا روتا ہوا فون موصول ہوا کہ بھائی عبدالمتین دنیا میں نہیں رہے۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعوان۔ قلب وجگر پر یہ خبر بجلی بن کر گری، مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں زمین پر ہوں یا زمین مجھ پرہے، اعتماد نہیں ہورہا تھا، دہشت ایسی تھی کہ ساتھیوں تک خبر پہونچانے کی جسارت نہیں جٹا پارہا تھا، لیکن حق تھا کہ داعی حق کو لبیک کہہ چکے تھے۔
مشرقی بہار کا یہ عظیم داعی ۵۷؍ سال کی عمر میں ۱۶؍۱؍۲۰۱۰ء بروز سنیچر ساڑھے گیارہ بجے دن عارضۂ قلب میں اللہ کے پیارے ہوگئے اور وصیت کے مطابق آبائی وطن بھلکی، دومہنا، مغربی بنگال میں بجوار والد محترم دفن کیا گیا۔
آپ سے بڑی محبت و عقیدت تھی، آپ کی زیر سرپرستی ناچیز کو تقریباً ۱۹؍سال گذارنے اور تربیت پانے کا سنہری موقع موقع ملا تھا۔ حضر وسفر کے ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی و ادارتی امور کے علاوہ سری معاملات میں بھی تبادلہ خیال کا شرف حاصل تھا۔ غرض یہ کہ بہت قریب سے آپ سے مستفید ہونے کا موقع نصیب تھا، جواب نہ رہا۔
آپ قد آور عالم، پر رعب صاحب اسلوب و بلند عزائم اور دور اندیش بے باک داعی تھے، آپ کے اندر بہترین قائدانہ صفت پائی جاتی تھی، علم وبصیرت کی روشنی میں اسلام کا سچا پیغام دنیا کو تاحیات دیتے رہے۔
مشرقی بہار کا یہ ضلع کشن گنج مسلم اکثریتی علاقہ ہے، جو علم و دانش کے باب میں بنجر اور جہالت وغیرہ میں پورے ہندوستان میں صف اول میں شمار ہوتاہے۔ ایسے نامساعد حالات میں علم کی شمع روشن کرنا معمولی بات نہ تھی،میدان علم و عمل میں وقت کی تیز و تند آندھیوں کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے رہے، علم کے راستہ میں پہونچنے والے مصائب و مشکلات کی پرواہ نہ کی، حالات سے نبر آزما ہو کر تعلیم و تربیت کے پر خار وادی میں کتاب وسنت ، توحید و سیرت کے علمبردار بن کر امن وشانتی کا پیغام دیتے رہے، گندی سیاست، زہریلے قلم رکھنے والے علم و سماج کے دشمن آپ کی صاف و شفاف حیات کو داغدار کرنے اور ان کے ذریعہ روشن کئے گئے شمع کی کرنوں کو بجھانے کی جاں توڑ کوششیں کرتے رہے، لیکن شرار بولہبی ، چراغ مصطفی کو بجھا نہ سکی۔
خود جہاں سے چلے گئے لیکن ادارے پر آنچ آنے نہ دی، مولانا جیسی شخصیت کی جدائی یقیناًہم سب کے لئے شاق ہے، ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے بظاہر اس کا پورا ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
یقیناًآپ کی وفات پر ’’ موت العالِم، موت العالَم‘‘ کا مقولہ صادق آتا ہے۔
مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ علاقہ تعلیمی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے پسماندہ ہے، یہاں ہمہ جہت پسماندگیوں اور پھیلی ہوئی بدعات و رسومات کے پیش نظر مولانارحمہ اللہ کی قیادت میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ نے جو پیش رفت کی، طلباء وطالبات کو علم و عمل اور حرفت و ہنر کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے جامعۃ الامام البخاری، کلیہ عائشہ الاسلامیہ، توحید اکیڈمی، توحید ایڈیل اکیڈمی اور توحید انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں مستفیدین کی تعداد ۱۶۰۰؍ کے قریب ہے اس کے علاوہ بیرون کشن گنج متعدد تعلیمی شعبے جات کی سرپرستی، مزید برآں ایتام و بیوگان کی کفالت سیلاب و ناگہانی آفتوں سے دوچار افراد کا تعاون جس کے ترجیحات میں شامل رہا ہے۔
یہ ایسے بے شمار احسانات و علمی کاوشیں ہیں جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور جب تک دعوت و تعلیم کے یہ روشن ستارے جگمگاتے رہیں گے ان کا شمار صدقات جاریہ میں ہوتا رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
اللہ سے دعاگو ہیں کہ اے اللہ محسن ملت رحمہ اللہ کی مغفرت فرما، ان کے اعمال حسنہ کو قبول فرما، انہیں بہتر سے بہتر اجر عطا فرما۔ ان کے درجات کو بلند فرماتے ہوئے ان کو انبیاء و صدیقین و شہداء اور صالحین کی معیت عطا فرما اور ان کے جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرما۔ اور ان کے ذریعہ قائم کئے گئے جملہ اداروں کی حفاظت فرما۔ آمین۔
ایک عظیم ملی و جماعتی حادثہ Mar-Apr 2010
مولانا ابو العاص وحیدی
ایک عظیم ملی و جماعتی حادثہ
16
؍جنوری ۲۰۱۰ء کی شام کو فون کے ذریعہ میں شیخ اصغر علی سلفی حفظہ اللہ ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند سے رابطہ کیا اور عظمت صحابہ کانفرنس کے متعلق بعض تجاویز اور مشورے ان کے سامنے رکھے، اسی موقع پر انہوں نے یہ المناک خبر دی کہ آج دوپہر کو شیخ عبدالمتین سلفی کی وفات ہوگئی۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
آج میں کرشنانگر،نیپال حاضر ہوا، مولانا عبداللہ مدنیؔ حفظہ اللہ صدر مرکز التوحید سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ جلد ہی شیخ عبدالمتین سلفی کی حیات وخدمات پر ماہنامہ ’’نورتوحید‘‘ کا خصوصی نمبر شائع کرنا ہے، مجھے بڑی خوشی ہوئی، اس لئے کہ رجال و شخصیات کا تذکرہ سلسلہ اسماء الرجال کی ایک کڑی بھی ہے اور حدیث رسول ﷺ ’’اذکرواموتاکم بالخیر‘‘ کی پیروی بھی۔
شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ سے میرا مختصر اور سرسری تعارف رہا ہے، میں نے بعض کانفرنسوں میں عربی اور اردو میں ان کی تقریر سنی ہیں، ان کی سنجیدہ و باوقار اور پر شکوہ و گرجدار آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے، لوگوں نے بتایا کہ وہ بنگلہ زبان کے اچھے ادیب اور عمدہ خطیب تھے۔
ان کی حیات وخدمات کے بارے میں مقالات مضامین وغیرہ پڑھ کر معلوم ہوا کہ وہ ایک عبقری عالم اور دیدہ ور فاضل تھے، اسلامی علوم خصوصاً علم اصول حدیث میں بڑی مہارت رکھتے تھے، اس کے ساتھ وہ ملت و جماعت کے پرجوش خادم بھی تھے، چنانچہ انہوں نے بہارو بنگال کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے مدارس و مساجد کے جال بچھادئے اور کشن گنج بہار میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت جامعۃ الامام البخاری(برائے بنین) اور جامعہ عائشہ صدیقہ (برائے بنات) جیسے اعلیٰ دینی تعلیمی مراکز قائم کئے۔
اس طرح ان کی سماجی وسیاسی خدمات بھی ہیں، بنابریں ان کی وفات یقیناًایک عظیم ملی و جماعتی حادثہ ہے، خدا کرے ان کی تمام سرگرمیاں تادیر باقی رہیں۔ آمین۔
اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں قبول فرمائے، ان کی لغزشوں سے درگذر کرے، ان کی قبر کو نور سے بھردے، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ملت و جماعت کو ان کا بدل عطافرمائے ۔ آمین۔***
آج میں کرشنانگر،نیپال حاضر ہوا، مولانا عبداللہ مدنیؔ حفظہ اللہ صدر مرکز التوحید سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ جلد ہی شیخ عبدالمتین سلفی کی حیات وخدمات پر ماہنامہ ’’نورتوحید‘‘ کا خصوصی نمبر شائع کرنا ہے، مجھے بڑی خوشی ہوئی، اس لئے کہ رجال و شخصیات کا تذکرہ سلسلہ اسماء الرجال کی ایک کڑی بھی ہے اور حدیث رسول ﷺ ’’اذکرواموتاکم بالخیر‘‘ کی پیروی بھی۔
شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ سے میرا مختصر اور سرسری تعارف رہا ہے، میں نے بعض کانفرنسوں میں عربی اور اردو میں ان کی تقریر سنی ہیں، ان کی سنجیدہ و باوقار اور پر شکوہ و گرجدار آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے، لوگوں نے بتایا کہ وہ بنگلہ زبان کے اچھے ادیب اور عمدہ خطیب تھے۔
ان کی حیات وخدمات کے بارے میں مقالات مضامین وغیرہ پڑھ کر معلوم ہوا کہ وہ ایک عبقری عالم اور دیدہ ور فاضل تھے، اسلامی علوم خصوصاً علم اصول حدیث میں بڑی مہارت رکھتے تھے، اس کے ساتھ وہ ملت و جماعت کے پرجوش خادم بھی تھے، چنانچہ انہوں نے بہارو بنگال کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے مدارس و مساجد کے جال بچھادئے اور کشن گنج بہار میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت جامعۃ الامام البخاری(برائے بنین) اور جامعہ عائشہ صدیقہ (برائے بنات) جیسے اعلیٰ دینی تعلیمی مراکز قائم کئے۔
اس طرح ان کی سماجی وسیاسی خدمات بھی ہیں، بنابریں ان کی وفات یقیناًایک عظیم ملی و جماعتی حادثہ ہے، خدا کرے ان کی تمام سرگرمیاں تادیر باقی رہیں۔ آمین۔
اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں قبول فرمائے، ان کی لغزشوں سے درگذر کرے، ان کی قبر کو نور سے بھردے، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ملت و جماعت کو ان کا بدل عطافرمائے ۔ آمین۔***
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا- Mar-Apr 2010
مولانا عبد المنان سلفی
مدیر السراج، جھنڈا نگر، نیپال
مدیر السراج، جھنڈا نگر، نیپال
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
جماعتی، دعوتی ،علمی اوررفاہی حلقوں میں یہ خبر بجلی بن کر گری کہ جماعت اہل حدیث کے مایہ ناز سپوت اور ممتاز عالم دین جناب مولاناعبدالمتین سلفیؔ (کشن گنج،بہار) کا۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء بروزہفتہ ہارٹ اٹیک کے عارضہ میں اچانک انتقال ہوگیا،انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالمتین سلفیؔ رحمہ اللہ ایک بالغ نظر داعی، تجربہ کارمنتظم، حوصلہ مندانسان اورسوجھ بوجھ رکھنے والے قائد تھے، جامعہ سلفیہ بنارس سے فضیلت کی سندحاصل کرنے کے بعدموصوف جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں کلیۃ الشریعۃسے ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۹۷۹ء میں بی.اے. کا کورس مکمل کیا،جامعہ اسلامیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ ایک داعی اورمبلغ کی حیثیت سے بنگلہ دیش تشریف لے گئے اورتقریباً دس برس تک وہاں بڑے اور منظم پیمانہ پر دعوت کے میدان میں موثر،نمایاں اور ٹھوس خدمات انجام دیں، بنگلہ دیش سے واپسی کے بعدبنگال سے لگے بہار کے شہر کشن گنج میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی داغ بیل ڈالی اوراس کے پلیٹ فارم سے تعلیمی، دعوتی، ملی، رفاہی اورسماجی خدمات کا ایک قابل قدرسلسلہ جاری کیا اوربہت جلد اپنی مخلصانہ خدمات کے سبب اس علاقہ میں ملت اسلامیہ کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔
کشن گنج مسلم اکثریتی پارلیمانی حلقۂ انتخاب کے طورپر جاناجاتاہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 65فیصدہے، مگراس خطہ میں تعلیم کا تناسب حددرجہ مایوس کن رہاہے، مولانا سلفیؔ نے اس خطہ سے جہالت اورناخواندگی کو دور کرنے کا عزم مصمم کیا اور جگہ جگہ علم کی شمع روشن کرنے کا بیڑہ اٹھایا،چنانچہ لڑکوں کی تعلیم کے لئے ۱۹۸۸ء میں آپ کے والد بزرگوار مولانا عبدالرحمن سلفی رحمہ اللہ اورآپ کے خسرمحترم مولانا محمدعطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے معہد العلوم الإسلامیۃ کے نام سے جس تعلیمی ادارہ کی داغ بیل ڈالی تھی اسے ترقی دے کر بام عروج پرپہونچایا اوراس کانام جامعۃالامام البخاری رکھا، بچیوں کی تعلیم کے لئے ۱۹۹۳ء میں جامعۃ عائشۃ الإسلامیۃ للبنات کی تاسیس فرمائی اور ان دونوں تعلیمی اداروں کے ذریعہ پہلی بار اس خطہ میں بچوں وبچیوں کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا، کشن گنج میں قائم ان دوبڑے تعلیمی اداروں کے علاوہ آپ نے پورے سیمانچل بلکہ مشرقی بہار،مغربی بنگال ،آسام اورجھارکھنڈ کے مختلف علاقوں میں مکاتب ومدارس کا ایک جال بچھادیا، ساتھ ہی رفاہی اورسماجی خدمات کی جانب بھی بھرپور توجہ دی اوراس پچھڑے اورپسماندہ علاقہ میں بڑے پیمانہ پررفاہی کارنامہ انجام دے کرسماج میں اپنی خاص پہچان بنائی۔
مذکورہ خالص دینی تعلیمی اداروں کے علاوہ آپ نے عصری اورپیشہ ورانہ تعلیم کے لئے بھی معیاری اداروں کے قیام کاخاکہ بنایاتھا، جن میں آئی.ٹی.آئی. کالج کی تعمیر و قیام میں آپ کامیاب بھی ہوئے اوراس کے ذریعہ قوم وملت کے ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل روشن و تابناک ہوا، بی.ایڈ. کالج کامنصوبہ غالباً پایۂ تکمیل کو پہونچنے والا تھاکہ آپ کے انتقال کاسانحہ پیش آگیا، نیز اس کے علاوہ انجینئرنگ کالج اور میڈیکل کالج جیسے اہم منصوبے آپ کے پیش نظر تھے، اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل کاسامان پیدافرمائے۔(آمین)
مولاناعبدالمتین سلفیؔ حددرجہ ذہین اورسوجھ بوجھ رکھنے والے دینی قائد تھے، وہ ہمیشہ ملت کے فلاح وبہبود کے لئے سوچتے، منصوبے بناتے اورانھیں روبہ عمل لانے کی تدبیریں اختیار کرتے، وہ مشکلات ومسائل سے نہ گھبراتے تھے اورنہ کبھی اپنا بڑھایاہوا قدم پیچھے کرنے کے قائل تھے، وہ ہردم رواں دواں رہتے، اپنے مشن کے لئے دوڑدھوپ ہی ان کی زندگی کا مقصدتھا، میں نے سناہے کہ فجرکی نماز کے بعدوہ روزانہ اپنے تعلیمی اداروں اورتعمیراتی کاموں کا معائنہ ومشاہدہ ضرور کرتے تھے اورمتعلقہ ذمہ داران سے مل کرانھیں رہنمائی فرماتے۔
مولاناعبدالمتین سلفی تعلقات بنانے میں بھی یکتاتھے، اپنے رکھ رکھاؤ اور طرز گفتگو سے وہ جلد ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ کرلیتے تھے، ہندوبیرون ہند کی عظیم علمی، دعوتی اورسیاسی شخصیات سے آپ کے دیرینہ اورگہرے روابط تھے، یہ سارے بڑے لوگ آپ کی خدمات کوسراہتے اورقدرکی نظرسے دیکھتے تھے، مولاناسلفی غالباً اپنی جماعت کے منفرد ایسے عالم تھے جن کے سیاسی روابط ملک کے اہم قائدین سے سب سے زیادہ مضبوط تھے، ان سیاسی روابط سے بلا شبہ تعلیمی ودعوتی میدان میں آپ کوسہارا بھی ملاہے۔
ان گونا گوں اوصاف وکمالات کے ساتھ آپ ایک کامیاب داعی اوربے باک مبلغ بھی تھے، بنگلہ جوآپ کی مادری زبان تھی اس میں آپ بڑی موثرتقریر یں کرتے تھے،سال گذشتہ جامعہ سلفیہ حولی،.ضلع برپیٹا، آسام کے ناظم مولانا جمال الدین سلفی کی دعوت پروہاں کے سالانہ دعوتی اجلاس میں مولانا عبدالواجد فیضیؔ (مدیرنوائے اسلام ،دہلی) کی معیت میں شرکت کاموقعہ ملا، وہاں شیخ عبدالمتین سلفیؔ کی بنگلہ تقریر سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، بنگلہ زبان توہمیں نہ آتی تھی تاہم سیاق وسباق سے کچھ باتیں سمجھ میں آجاتی تھیں، موصوف نے اپنے مخصوص انداز میں دیرتک لوگوں کو مستفید فرمایا اورگاہے گاہے اپنی گفتگو سے مجلس کو قہقہہ زار بناتے رہے، عوام آپ کی تقریر بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ سن رہے تھے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ آپ کا بڑا لحاظ کررہے ہیں اور آپ کے منہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو سینوں میں محفوظ کرلینا چاہتے ہیں،آپ بنگلہ کے سوا اردواورعربی پر بھی مکمل قدرت رکھتے تھے بلکہ اردو کے مقابلہ عربی زیادہ روانی سے بولتے اورلکھتے تھے۔
مولاناسلفی بہت ساری خوبیوں اورصلاحیتوں کے مالک تھے، ان کی ایک خوبی جسے میں نے اپنے طورپر محسوس کیا کہ وہ کبھی بھی کسی سے مرعوب نہ ہوتے تھے اور پوری بے باکی اورجرأت کے ساتھ اپنے موقف پرڈٹے رہتے تھے۔جمعیت وجماعت سے بھی وہ وابستہ رہے اوراپنے طورپر اس کی خدمت کرتے رہے، سعودی جامعات کے فارغین کی انجمن کے بھی وہ صدر نشیں تھے اوراس پلیٹ فارم سے بھی وہ تعلیمی ودعوتی خدمات انجام دیتے رہے، علمی باقیات میں بنگلہ اوراردوزبان میں ان کے لکھے گئے کئی چھوٹے موٹے رسالے ہیں جن کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، کچھ سالوں پیشتر موصوف نے پیامِ توحید نام سے ایک اردو ماہنامہ بھی جاری کیا تھا۔
ایسے گونا گوں اوصاف وکمالات کے حامل شخص کے اٹھ جانے سے ملت وجماعت کو جوناقابل تلافی نقصان پہونچاہے اس پرہر حساس دل غمزدہ ہے،اللہ تعالیٰ موصوف کی خدمات قبول فرمائے اوران کے ورثاء اورجانشینوں کواس بات کی توفیق دے کہ وہ ان کے مشن کوکامیابی سے آگے بڑھائیں اوران کے لگائے گئے علمی پودوں کی خلوص کے ساتھ آبیاری کریں کہ بادسموم کے جھونکے انھیں نقصان نہ پہونچاسکیں۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ۔***
مولانا عبدالمتین سلفیؔ رحمہ اللہ ایک بالغ نظر داعی، تجربہ کارمنتظم، حوصلہ مندانسان اورسوجھ بوجھ رکھنے والے قائد تھے، جامعہ سلفیہ بنارس سے فضیلت کی سندحاصل کرنے کے بعدموصوف جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں کلیۃ الشریعۃسے ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۹۷۹ء میں بی.اے. کا کورس مکمل کیا،جامعہ اسلامیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ ایک داعی اورمبلغ کی حیثیت سے بنگلہ دیش تشریف لے گئے اورتقریباً دس برس تک وہاں بڑے اور منظم پیمانہ پر دعوت کے میدان میں موثر،نمایاں اور ٹھوس خدمات انجام دیں، بنگلہ دیش سے واپسی کے بعدبنگال سے لگے بہار کے شہر کشن گنج میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی داغ بیل ڈالی اوراس کے پلیٹ فارم سے تعلیمی، دعوتی، ملی، رفاہی اورسماجی خدمات کا ایک قابل قدرسلسلہ جاری کیا اوربہت جلد اپنی مخلصانہ خدمات کے سبب اس علاقہ میں ملت اسلامیہ کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔
کشن گنج مسلم اکثریتی پارلیمانی حلقۂ انتخاب کے طورپر جاناجاتاہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 65فیصدہے، مگراس خطہ میں تعلیم کا تناسب حددرجہ مایوس کن رہاہے، مولانا سلفیؔ نے اس خطہ سے جہالت اورناخواندگی کو دور کرنے کا عزم مصمم کیا اور جگہ جگہ علم کی شمع روشن کرنے کا بیڑہ اٹھایا،چنانچہ لڑکوں کی تعلیم کے لئے ۱۹۸۸ء میں آپ کے والد بزرگوار مولانا عبدالرحمن سلفی رحمہ اللہ اورآپ کے خسرمحترم مولانا محمدعطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے معہد العلوم الإسلامیۃ کے نام سے جس تعلیمی ادارہ کی داغ بیل ڈالی تھی اسے ترقی دے کر بام عروج پرپہونچایا اوراس کانام جامعۃالامام البخاری رکھا، بچیوں کی تعلیم کے لئے ۱۹۹۳ء میں جامعۃ عائشۃ الإسلامیۃ للبنات کی تاسیس فرمائی اور ان دونوں تعلیمی اداروں کے ذریعہ پہلی بار اس خطہ میں بچوں وبچیوں کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا، کشن گنج میں قائم ان دوبڑے تعلیمی اداروں کے علاوہ آپ نے پورے سیمانچل بلکہ مشرقی بہار،مغربی بنگال ،آسام اورجھارکھنڈ کے مختلف علاقوں میں مکاتب ومدارس کا ایک جال بچھادیا، ساتھ ہی رفاہی اورسماجی خدمات کی جانب بھی بھرپور توجہ دی اوراس پچھڑے اورپسماندہ علاقہ میں بڑے پیمانہ پررفاہی کارنامہ انجام دے کرسماج میں اپنی خاص پہچان بنائی۔
مذکورہ خالص دینی تعلیمی اداروں کے علاوہ آپ نے عصری اورپیشہ ورانہ تعلیم کے لئے بھی معیاری اداروں کے قیام کاخاکہ بنایاتھا، جن میں آئی.ٹی.آئی. کالج کی تعمیر و قیام میں آپ کامیاب بھی ہوئے اوراس کے ذریعہ قوم وملت کے ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل روشن و تابناک ہوا، بی.ایڈ. کالج کامنصوبہ غالباً پایۂ تکمیل کو پہونچنے والا تھاکہ آپ کے انتقال کاسانحہ پیش آگیا، نیز اس کے علاوہ انجینئرنگ کالج اور میڈیکل کالج جیسے اہم منصوبے آپ کے پیش نظر تھے، اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل کاسامان پیدافرمائے۔(آمین)
مولاناعبدالمتین سلفیؔ حددرجہ ذہین اورسوجھ بوجھ رکھنے والے دینی قائد تھے، وہ ہمیشہ ملت کے فلاح وبہبود کے لئے سوچتے، منصوبے بناتے اورانھیں روبہ عمل لانے کی تدبیریں اختیار کرتے، وہ مشکلات ومسائل سے نہ گھبراتے تھے اورنہ کبھی اپنا بڑھایاہوا قدم پیچھے کرنے کے قائل تھے، وہ ہردم رواں دواں رہتے، اپنے مشن کے لئے دوڑدھوپ ہی ان کی زندگی کا مقصدتھا، میں نے سناہے کہ فجرکی نماز کے بعدوہ روزانہ اپنے تعلیمی اداروں اورتعمیراتی کاموں کا معائنہ ومشاہدہ ضرور کرتے تھے اورمتعلقہ ذمہ داران سے مل کرانھیں رہنمائی فرماتے۔
مولاناعبدالمتین سلفی تعلقات بنانے میں بھی یکتاتھے، اپنے رکھ رکھاؤ اور طرز گفتگو سے وہ جلد ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ کرلیتے تھے، ہندوبیرون ہند کی عظیم علمی، دعوتی اورسیاسی شخصیات سے آپ کے دیرینہ اورگہرے روابط تھے، یہ سارے بڑے لوگ آپ کی خدمات کوسراہتے اورقدرکی نظرسے دیکھتے تھے، مولاناسلفی غالباً اپنی جماعت کے منفرد ایسے عالم تھے جن کے سیاسی روابط ملک کے اہم قائدین سے سب سے زیادہ مضبوط تھے، ان سیاسی روابط سے بلا شبہ تعلیمی ودعوتی میدان میں آپ کوسہارا بھی ملاہے۔
ان گونا گوں اوصاف وکمالات کے ساتھ آپ ایک کامیاب داعی اوربے باک مبلغ بھی تھے، بنگلہ جوآپ کی مادری زبان تھی اس میں آپ بڑی موثرتقریر یں کرتے تھے،سال گذشتہ جامعہ سلفیہ حولی،.ضلع برپیٹا، آسام کے ناظم مولانا جمال الدین سلفی کی دعوت پروہاں کے سالانہ دعوتی اجلاس میں مولانا عبدالواجد فیضیؔ (مدیرنوائے اسلام ،دہلی) کی معیت میں شرکت کاموقعہ ملا، وہاں شیخ عبدالمتین سلفیؔ کی بنگلہ تقریر سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، بنگلہ زبان توہمیں نہ آتی تھی تاہم سیاق وسباق سے کچھ باتیں سمجھ میں آجاتی تھیں، موصوف نے اپنے مخصوص انداز میں دیرتک لوگوں کو مستفید فرمایا اورگاہے گاہے اپنی گفتگو سے مجلس کو قہقہہ زار بناتے رہے، عوام آپ کی تقریر بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ سن رہے تھے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ آپ کا بڑا لحاظ کررہے ہیں اور آپ کے منہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو سینوں میں محفوظ کرلینا چاہتے ہیں،آپ بنگلہ کے سوا اردواورعربی پر بھی مکمل قدرت رکھتے تھے بلکہ اردو کے مقابلہ عربی زیادہ روانی سے بولتے اورلکھتے تھے۔
مولاناسلفی بہت ساری خوبیوں اورصلاحیتوں کے مالک تھے، ان کی ایک خوبی جسے میں نے اپنے طورپر محسوس کیا کہ وہ کبھی بھی کسی سے مرعوب نہ ہوتے تھے اور پوری بے باکی اورجرأت کے ساتھ اپنے موقف پرڈٹے رہتے تھے۔جمعیت وجماعت سے بھی وہ وابستہ رہے اوراپنے طورپر اس کی خدمت کرتے رہے، سعودی جامعات کے فارغین کی انجمن کے بھی وہ صدر نشیں تھے اوراس پلیٹ فارم سے بھی وہ تعلیمی ودعوتی خدمات انجام دیتے رہے، علمی باقیات میں بنگلہ اوراردوزبان میں ان کے لکھے گئے کئی چھوٹے موٹے رسالے ہیں جن کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، کچھ سالوں پیشتر موصوف نے پیامِ توحید نام سے ایک اردو ماہنامہ بھی جاری کیا تھا۔
ایسے گونا گوں اوصاف وکمالات کے حامل شخص کے اٹھ جانے سے ملت وجماعت کو جوناقابل تلافی نقصان پہونچاہے اس پرہر حساس دل غمزدہ ہے،اللہ تعالیٰ موصوف کی خدمات قبول فرمائے اوران کے ورثاء اورجانشینوں کواس بات کی توفیق دے کہ وہ ان کے مشن کوکامیابی سے آگے بڑھائیں اوران کے لگائے گئے علمی پودوں کی خلوص کے ساتھ آبیاری کریں کہ بادسموم کے جھونکے انھیں نقصان نہ پہونچاسکیں۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ۔***
آہ! مولانا عبد المتین سلفی رحمہ اللہ Mar-Apr 2010
ڈاکٹر آر کے نور محمد عمری مدنی
ناظم جمعےۃ اہل حدیث تمل ناڈو
ناظم جمعےۃ اہل حدیث تمل ناڈو
آہ! مولانا عبد المتین سلفی رحمہ اللہ
دنیا میں بہت سارے لوگ آتے ہیں اور جاتے ہیں‘ لیکن بہت کم ایسے ہیں جن کو دنیا ان کی عظیم کارکردگیوں کی بنا پر یاد رکھتی ہے‘ انہیں میں سے ایک مولانا عبد المتین سلفی مدنی رحمہ اللہ ہیں‘ آپ نے مختصر سی زندگی میں بہت سارا کام کیا‘ آپ بڑے سنجیدہ مزاج‘ دور اندیش‘ خوش اخلاق عالم تھے۔
اللہ تعالی نے آپ کو بڑی خوبیوں سے نوازا تھا‘ علمی محفلوں میں لوگ آپ کے تبحرعلمی اور زبان عربی پرآپ کی قدرت کاملہ کا اعتراف کئے بغیر نہ رہتے۔
جامعہ سلفیہ میں طالب علمی کے زمانہ میں آپ کا شمار ہمیشہ اوائل میں ہوتا تھا‘ علامہ شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ اور دوسرے ذہین طلبہ آپ کے ہم سبق تھے‘ فضیلت کے دونوں سال آپ کلاس میں پہلے نمبر سے کامیاب ہوئے
علمی تشنگی بجھانے کے لئے آپ نے علامۃ الزمان محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے استفادہ کی خواہش ظاہر کی‘ لیکن شیخ نے اپنی بے پایاں مصروفیتوں کی وجہ سے معذرت کردی‘ فقیہ العصر علامہ شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ سے بھی آپ کے اچھے تعلقات ومراسم تھے‘ آپ نے بنگالی زبان میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی کئی کتابوں کا ترجمہ کیا۔
شیخ عبد المتین سلفی رحمہ اللہ کی امتیازی خصوصیات میں ایک اداری صلاحیت بھی ہے‘ آپ ایک کہنہ مشق تجربہ کار صاحب بصیرت انسان تھے‘ بڑے سے بڑے مسائل کا مقابلہ صبر وتحمل اور حکمت عملی کے ساتھ کرتے اور اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتے۔
عام طور پر لوگوں میں اپنے ذمہ داروں کے بارے میں غلط فہمیاں اور بد گمانیاں ہوتی ہیں‘ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہیکہ صرف منفی پہلووں پر انکی نظر ہوتی ہے‘ اور معمولی اختلافات پر جو کہ اکثر اجتہادی ہیں اپنے ذمہ داروں پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں‘ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے گورنر کو خط لکھتے ہوئے کہتے ہیں (ان للناس نفرۃ عن سلطانہم) کتاب المجا لسۃ (۱۱۹۸) ترجمہ یقیناًلوگوں کی فطرت میں اپنے حاکم کے خلاف نفرت ہوتی ہے‘
کسی پروگرام میں بعض حضرات کیطرف سے مولانا عبد المتین سلفی رحمہ اللہ پر بے جااعتراضات ہوئے‘ میں نے پروگرام کے بعد ان کو تسلی دی اور صبر کرنیکی تاکید کی‘ اور اپنے کام کو جاری رکھنے کی نصیحت کی‘ تو انہوں نے فوراً قرآن کریم کی اس آیت کو پڑہا (وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین) یعنی جب انبیاء کے دشمن تھے‘ تو ہم جیسے لوگوں کی کیا حقیقت ہے؟
امت کے نوجوانوں میں تعلیم عام کرنا آپ کی زندگی کا ایک اہم مشن تھا‘ آپ نے کشن گنج (جو کہ بیک وقت تین صوبوں بنگال جھارکھنڈ اور بہار کا سنگم ہے) میں جامعۃ الإمام البخاری جیسا عظیم الشان ادارہ قائم کیا‘ جہاں سینکڑوں طلبہ علم دین سے فیض یاب ہورہے ہیں‘ اور امت کی بچیوں کے لئے جامعہ عائشہ الاسلامیۃ پر شکوہ ادارہ قائم کیا‘ جدیدٹیکنکل تعلیم کے لئے توحید انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی قائم کیا۔
علاوہ ازیں آپ کی تعلیمی اور رفاہی خدمات کی لمبی فہرست ہے‘ مدرسہ کے لئے آپ نے کئی اوقاف کا انتظام کیا‘ جس سے بحمد اللہ مدرسہ بڑی خوبی کے ساتھ رواں دواں ہے۔
ملک اور بیرون ملک کی بڑی شخصیتوں کیساتھ آپ کے تعلقات تھے‘ پہلی ملاقات میں غیر کو اپنا بنا لیتے‘ طرز گفتگو بڑا اچھوتا ہوتا‘ زبان میں چاشنی ہوتی کہ ملنے والا بہت جلد آپ سے متاثر ہوجاتا‘ اور آپ کا گرویدہ ہوجاتا‘ آپ کے علمی اور عوامی اجتماعات میں وزراء اور میدان سیاست کے نامور حضرات‘ اور عرب ممالک کی علمی اور دینی شخصیتیں شریک رہتیں اور شرکاء محفل کواپنے خطابات سے مستفید کرتے۔
علامہ ڈاکٹر رضاء اللہ سلفی مدنی رحمہ اللہ کے بعد جمعیت ابنائے جامعات سعودیہ کی صدارت آپ کے ذمہ آئی‘ آپ نے نامساعد حالات میں اعضاء جمعیت کے دو بڑے عمومی پروگرام ایک کشن گنج اور دوسرا دہلی میں منعقد کروایا‘ جن میں سعودی عرب ‘کویت‘ اور بحرین وغیرہ کی علمی دنیا کے ماہ وانجم شریک ہوئے‘ اور ان علمی سمینار میں علماء اور مقالہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے علمی مقالات پیش کئے‘ اور اسی مناسبت سے مجلہ صوت الخریجین بھی شائع کیا۔
آپ انتہائی خلیق ‘ ملنسار نیز مہمان نواز بھی تھے‘ یہی وجہ تھی کہ آپ کے دسترخوان پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی مہمان ضرور ہوتا‘ آپ کی شخصیت انسانیت نواز تھی‘ آپ کے علاقہ میں موجود لوگوں کے غم میں برابر شریک رہتے‘ جمعیت ابنائے جامعات سعودیہ کی ورکنگ کمیٹی کی ایک میٹنگ کشن گنج میں رکھی گئی‘ جس میں مجھے شرکت کرنی تھی‘ اتفاق سے اپنے علاقہ کے ایک بزرگ کا انتقال ہوگیا‘ تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے‘ میت کے رشتہ داروں سے ملے‘ تعزیت دی‘ اور اپنی طرف سے ہر قسم کے تعاون کا وعدہ کیا‘ ضروری انتظامات کی تکمیل کے بعد وہاں سے واپس ہوئے۔
غیرت سلفیت آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ جب بھی سلفیت پر کوئی آنچ آتی آپ فوراً بے قابو ہوجاتے‘ اورآپ مسئلہ کے حل کرنے میں ہر قسم کی کد وکاوش کرتے۔
آپ کی عظیم خدمات کا اعتراف ہر کس وناکس کی زبان پر ہے‘ جامعۃ الملک سعود ریاض کے قاعۃ المحاضرات (کانفرنس ہال) میں ایک علمی اجتماع تھا‘ اسٹیج پر مولانا عبدالمتین رحمہ اللہ کے ساتھ جو حضرات تھے وہ سب کے سب دکتور تھے‘ جب مولانا کے تعارف کی باری آئی تو ناظم اجلاس نے آپ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا (ھودکتور بأعمالہ)کہ آپ کے خدمات جلیلہ کی بدولت آپ کو بھی ہم ڈاکٹر کے لقب سے یاد کریں گے۔
بہر کیف شیخ عبد المتین سلفی مدنی رحمہ اللہ تنہا ایک جماعت اور انجمن تھے‘ ان کا ارتحال پوری امت کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ ہے‘ اللہ تعالی آپ کی دینی جہود کو آپ کے لئے ذریعہ نجات بنائے‘ اور آپ کی لغزشوں کو معاف فرماکر جنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔
اللہ تعالی نے آپ کو بڑی خوبیوں سے نوازا تھا‘ علمی محفلوں میں لوگ آپ کے تبحرعلمی اور زبان عربی پرآپ کی قدرت کاملہ کا اعتراف کئے بغیر نہ رہتے۔
جامعہ سلفیہ میں طالب علمی کے زمانہ میں آپ کا شمار ہمیشہ اوائل میں ہوتا تھا‘ علامہ شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ اور دوسرے ذہین طلبہ آپ کے ہم سبق تھے‘ فضیلت کے دونوں سال آپ کلاس میں پہلے نمبر سے کامیاب ہوئے
علمی تشنگی بجھانے کے لئے آپ نے علامۃ الزمان محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے استفادہ کی خواہش ظاہر کی‘ لیکن شیخ نے اپنی بے پایاں مصروفیتوں کی وجہ سے معذرت کردی‘ فقیہ العصر علامہ شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ سے بھی آپ کے اچھے تعلقات ومراسم تھے‘ آپ نے بنگالی زبان میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی کئی کتابوں کا ترجمہ کیا۔
شیخ عبد المتین سلفی رحمہ اللہ کی امتیازی خصوصیات میں ایک اداری صلاحیت بھی ہے‘ آپ ایک کہنہ مشق تجربہ کار صاحب بصیرت انسان تھے‘ بڑے سے بڑے مسائل کا مقابلہ صبر وتحمل اور حکمت عملی کے ساتھ کرتے اور اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتے۔
عام طور پر لوگوں میں اپنے ذمہ داروں کے بارے میں غلط فہمیاں اور بد گمانیاں ہوتی ہیں‘ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہیکہ صرف منفی پہلووں پر انکی نظر ہوتی ہے‘ اور معمولی اختلافات پر جو کہ اکثر اجتہادی ہیں اپنے ذمہ داروں پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں‘ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے گورنر کو خط لکھتے ہوئے کہتے ہیں (ان للناس نفرۃ عن سلطانہم) کتاب المجا لسۃ (۱۱۹۸) ترجمہ یقیناًلوگوں کی فطرت میں اپنے حاکم کے خلاف نفرت ہوتی ہے‘
کسی پروگرام میں بعض حضرات کیطرف سے مولانا عبد المتین سلفی رحمہ اللہ پر بے جااعتراضات ہوئے‘ میں نے پروگرام کے بعد ان کو تسلی دی اور صبر کرنیکی تاکید کی‘ اور اپنے کام کو جاری رکھنے کی نصیحت کی‘ تو انہوں نے فوراً قرآن کریم کی اس آیت کو پڑہا (وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین) یعنی جب انبیاء کے دشمن تھے‘ تو ہم جیسے لوگوں کی کیا حقیقت ہے؟
امت کے نوجوانوں میں تعلیم عام کرنا آپ کی زندگی کا ایک اہم مشن تھا‘ آپ نے کشن گنج (جو کہ بیک وقت تین صوبوں بنگال جھارکھنڈ اور بہار کا سنگم ہے) میں جامعۃ الإمام البخاری جیسا عظیم الشان ادارہ قائم کیا‘ جہاں سینکڑوں طلبہ علم دین سے فیض یاب ہورہے ہیں‘ اور امت کی بچیوں کے لئے جامعہ عائشہ الاسلامیۃ پر شکوہ ادارہ قائم کیا‘ جدیدٹیکنکل تعلیم کے لئے توحید انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی قائم کیا۔
علاوہ ازیں آپ کی تعلیمی اور رفاہی خدمات کی لمبی فہرست ہے‘ مدرسہ کے لئے آپ نے کئی اوقاف کا انتظام کیا‘ جس سے بحمد اللہ مدرسہ بڑی خوبی کے ساتھ رواں دواں ہے۔
ملک اور بیرون ملک کی بڑی شخصیتوں کیساتھ آپ کے تعلقات تھے‘ پہلی ملاقات میں غیر کو اپنا بنا لیتے‘ طرز گفتگو بڑا اچھوتا ہوتا‘ زبان میں چاشنی ہوتی کہ ملنے والا بہت جلد آپ سے متاثر ہوجاتا‘ اور آپ کا گرویدہ ہوجاتا‘ آپ کے علمی اور عوامی اجتماعات میں وزراء اور میدان سیاست کے نامور حضرات‘ اور عرب ممالک کی علمی اور دینی شخصیتیں شریک رہتیں اور شرکاء محفل کواپنے خطابات سے مستفید کرتے۔
علامہ ڈاکٹر رضاء اللہ سلفی مدنی رحمہ اللہ کے بعد جمعیت ابنائے جامعات سعودیہ کی صدارت آپ کے ذمہ آئی‘ آپ نے نامساعد حالات میں اعضاء جمعیت کے دو بڑے عمومی پروگرام ایک کشن گنج اور دوسرا دہلی میں منعقد کروایا‘ جن میں سعودی عرب ‘کویت‘ اور بحرین وغیرہ کی علمی دنیا کے ماہ وانجم شریک ہوئے‘ اور ان علمی سمینار میں علماء اور مقالہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے علمی مقالات پیش کئے‘ اور اسی مناسبت سے مجلہ صوت الخریجین بھی شائع کیا۔
آپ انتہائی خلیق ‘ ملنسار نیز مہمان نواز بھی تھے‘ یہی وجہ تھی کہ آپ کے دسترخوان پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی مہمان ضرور ہوتا‘ آپ کی شخصیت انسانیت نواز تھی‘ آپ کے علاقہ میں موجود لوگوں کے غم میں برابر شریک رہتے‘ جمعیت ابنائے جامعات سعودیہ کی ورکنگ کمیٹی کی ایک میٹنگ کشن گنج میں رکھی گئی‘ جس میں مجھے شرکت کرنی تھی‘ اتفاق سے اپنے علاقہ کے ایک بزرگ کا انتقال ہوگیا‘ تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے‘ میت کے رشتہ داروں سے ملے‘ تعزیت دی‘ اور اپنی طرف سے ہر قسم کے تعاون کا وعدہ کیا‘ ضروری انتظامات کی تکمیل کے بعد وہاں سے واپس ہوئے۔
غیرت سلفیت آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ جب بھی سلفیت پر کوئی آنچ آتی آپ فوراً بے قابو ہوجاتے‘ اورآپ مسئلہ کے حل کرنے میں ہر قسم کی کد وکاوش کرتے۔
آپ کی عظیم خدمات کا اعتراف ہر کس وناکس کی زبان پر ہے‘ جامعۃ الملک سعود ریاض کے قاعۃ المحاضرات (کانفرنس ہال) میں ایک علمی اجتماع تھا‘ اسٹیج پر مولانا عبدالمتین رحمہ اللہ کے ساتھ جو حضرات تھے وہ سب کے سب دکتور تھے‘ جب مولانا کے تعارف کی باری آئی تو ناظم اجلاس نے آپ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا (ھودکتور بأعمالہ)کہ آپ کے خدمات جلیلہ کی بدولت آپ کو بھی ہم ڈاکٹر کے لقب سے یاد کریں گے۔
بہر کیف شیخ عبد المتین سلفی مدنی رحمہ اللہ تنہا ایک جماعت اور انجمن تھے‘ ان کا ارتحال پوری امت کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ ہے‘ اللہ تعالی آپ کی دینی جہود کو آپ کے لئے ذریعہ نجات بنائے‘ اور آپ کی لغزشوں کو معاف فرماکر جنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔
آخری ملاقات- Mar-Apr 2010
مولانا ابوالمکارم ازہریؔ
آخری ملاقات
جمعیۃ خریجی الجامعات السعودیۃ کی مجلس تنفیذی کا اجلاس دہلی میں حسب پروگرام ۸؍جنوری ۲۰۱۰ء کو زیر صدارت صدر جمعیت برادرم مولانا عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ منعقد ہوا، اس موقع پر حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہے اور ان کی صدارت میں یہ آخری اجلاس ہے، اس اجلاس میں مولانا عبداللہ مدنی صاحب (نائب صدر جمعیت) اور مولانا عبدالوہاب خلجی صاحب (نائب صدر جمعیت) شریک تھے، دیگر ممبران مجلس مختلف اعذار کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے تھے، مختصر کا روائی کے بعد اجلاس ختم ہوگیا اور مولانا سلفی رحمہ اللہ دوسرے دن صبح کو دہلی سے بذریعہ طیارہ اپنے وطن کشن گنج چلے گئے، اس کے ٹھیک آٹھ دن بعد ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۰ء کو یہ افسوس ناک خبر ملی کہ مولانا عبدالمتین سلفی ہارٹ اٹیک کے بعد انتقال کر گئے، اس خبر پر بہت مشکل سے یقین آیا، کیونکہ ایک ہفتہ قبل جب وہ دہلی میں تھے تو بظاہر ان کی صحت کا فی بہتر معلوم ہورہی تھی اور کسی غیر معمولی تکلیف یا مرض کا اظہار بھی نہیں کر رہے تھے۔
اب جب کہ وہ ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوچکے ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ وہ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کی دینی و ملی خدمات کو قبول فرمائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے اللہ کی توفیق سے بہت سی دینی، اور رفاہی خدمات انجام دی ہیں، کئی تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں جن میں دینی اور عصری تعلیم کا معقول نظم ہے اور طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد ان سے فائدہ اٹھارہی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے جاری کردہ اعمال خیر میں مزید ترقی ہو اور ملک و ملت کے لئے ان کا فیض ہمیشہ جاری و ساری رہے۔ آمین۔
اب جب کہ وہ ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوچکے ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ وہ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کی دینی و ملی خدمات کو قبول فرمائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے اللہ کی توفیق سے بہت سی دینی، اور رفاہی خدمات انجام دی ہیں، کئی تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں جن میں دینی اور عصری تعلیم کا معقول نظم ہے اور طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد ان سے فائدہ اٹھارہی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے جاری کردہ اعمال خیر میں مزید ترقی ہو اور ملک و ملت کے لئے ان کا فیض ہمیشہ جاری و ساری رہے۔ آمین۔
بھائی عبدالمتین چندیادیں- Mar-Apr 2010
مولانا محمد طاہر مدنیؔ
بھائی عبدالمتین چندیادیں
مولانا عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کی اچانک موت سے ایک خلا پیدا ہوگیا۔موصوف ایک مخلص داعی، سرگرم مبلغ اور عالم باعمل تھے ان کے اندر انتظامی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود تھی جامعۃ الامام البخاری کشن گنج اور دیگر ذیلی ادارے ان کے حسن انتظام کی مثال ہیں۔
دہلی سعود ی سفارت خانہ میں شیخ ولید بن عبدالکریم الخمیس کا زمانہ ایک سنہرا دورتھا جس میں جامعات سعودیہ کے فارغین کو منظم کرنے کا تاریخی کام انجام پایا، جمعیۃ خریجی الجامعات السعودیہ فی الہند ونیبال کے پلیٹ فارم کے ذریعہ فارغین کو باہم مربوط کرنے میں بڑی مدد ملی اسی حوالہ سے شیخ عبدالمتین سلفی سے قریبی تعلقات قائم ہوئے، پہلے وہ جنرل سکریٹری تھے شیخ رضاء اللہ محمد ادریس سلفی کے انتقال کے بعد انہوں نے صدر جمعیت کی ذمہ داری بڑے حسن و خوبی سے نبھائی۔ غارغین کے عمومی اجلاس میں ان کی محنت بہت نمایاں رہتی تھی۔
آپ بہت بااخلاق اور مہمان نواز انسان تھے کشن گنج میں جب فارغین کا اجلاس ہوا اسی و13155ت ان کے گھر بھی جانے کا اتفاق ہوا، گھر کے لوگ بھی بہت ملنسار ہیں، آپ نے اپنے ادارے میں درس وتدریس اور دعوت و ارشاد کے علاوہ تحقیق و تصنیف کے شعبے بھی قائم کئے، عصری تقاضوں سے بھی وہ بخوبی واقف تھے اور ان کے مشیروں میں عصری علوم کے ماہرین بھی تھے،تعلیم وتربیت کے موضوع پر انہوں نے سیمیناروں کا انعقاد بھی کیا۔
بڑی متحرک شخصیت کے مالک تھے ان کی وفات سے ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطافرمائے۔آمین۔
دہلی سعود ی سفارت خانہ میں شیخ ولید بن عبدالکریم الخمیس کا زمانہ ایک سنہرا دورتھا جس میں جامعات سعودیہ کے فارغین کو منظم کرنے کا تاریخی کام انجام پایا، جمعیۃ خریجی الجامعات السعودیہ فی الہند ونیبال کے پلیٹ فارم کے ذریعہ فارغین کو باہم مربوط کرنے میں بڑی مدد ملی اسی حوالہ سے شیخ عبدالمتین سلفی سے قریبی تعلقات قائم ہوئے، پہلے وہ جنرل سکریٹری تھے شیخ رضاء اللہ محمد ادریس سلفی کے انتقال کے بعد انہوں نے صدر جمعیت کی ذمہ داری بڑے حسن و خوبی سے نبھائی۔ غارغین کے عمومی اجلاس میں ان کی محنت بہت نمایاں رہتی تھی۔
آپ بہت بااخلاق اور مہمان نواز انسان تھے کشن گنج میں جب فارغین کا اجلاس ہوا اسی و13155ت ان کے گھر بھی جانے کا اتفاق ہوا، گھر کے لوگ بھی بہت ملنسار ہیں، آپ نے اپنے ادارے میں درس وتدریس اور دعوت و ارشاد کے علاوہ تحقیق و تصنیف کے شعبے بھی قائم کئے، عصری تقاضوں سے بھی وہ بخوبی واقف تھے اور ان کے مشیروں میں عصری علوم کے ماہرین بھی تھے،تعلیم وتربیت کے موضوع پر انہوں نے سیمیناروں کا انعقاد بھی کیا۔
بڑی متحرک شخصیت کے مالک تھے ان کی وفات سے ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطافرمائے۔آمین۔
کیوں تری روشن نگاہی کی سحر روپوش ہے- Mar-Apr 2010
عبد العظیم سلفی جھنڈا نگری
کیوں تری روشن نگاہی کی سحر روپوش ہے
گذشتہ چند مہینوں میں ہماری جماعت کی نامور ہستیاں اس دارفانی سے دارالبقاء کو کوچ کرگئیں، ابھی ۳؍ماہ قبل مفکر جماعت حضرت علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ صدر مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ (بنارس) کی رحلت ہمارے لئے باعث رنج وغم بنی ہوئی تھی کہ مورخہ ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء سنیچر بوقت ظہر صدر جمعیۃ التوحید التعلیمیۃوالخیریۃ (چیر مین توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ، کشن گنج،بہار) شیخ عبدالمتین عبدالرحمن سلفی رحمہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی) کے انتقال کی خبر نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔
سرزمین بنگال و بہار کی جن اعلیٰ شخصیتوں نے عالمی پیمانے پر اپنی شخصیت کا لوہا منوایا اور دینی خدمات انجام دے کر نام روشن کیا ان میں شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے، آپ نے کشن گنج بہار میں طلباء کے لئے جامعۃ الامام البخاری قائم کیا جو جماعت کے اداروں میں ایک عظیم ادارے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، جس کا سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے الحاق ہے، جہاں علماء و مشائخ کی برابر آمد ہوتی رہی اور وہ اپنے اچھے تاثرات کا اظہار کرتے رہے، مختلف مواقع پروہاں دورۂ تدریبیہ کا اہتمام ہوا جس میں یوپی، بہار و بنگال کے علاوہ اور دوسرے صوبہ جات کے طلباء نے بھرپور استفادہ کیااور جہاں کے طلباء شرعی علوم حاصل کرکے علمی و دعوتی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ نے ’’جامعہ عائشہ الاسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھ کر بچیوں کی تعلیم کا بھرپور انتظام کیاجو اس علاقے میں اپنی نوعیت کا ایک عظیم ادارہ ہے اور سرزمین بہار میں ایک نعمت عظمیٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان دو اداروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ خود کشن گنج کے طلباء و طالبات بھی ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ فجر کے بعدخوشگوارفضا میں تعلیم شروع ہوجاتی ہے اور ظہر سے قبل وہ تعلیم سے فارغ ہوجاتے ہیں۔
آپ نے جہاں اسلامی نہج پر دو عظیم ادارے قائم کئے، وہیں ان بچوں کے لئے جن کی تعلیم انگریزی لائن سے ہوئی ہے، آئی،ٹی،آئی۔(توحید انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج )قائم کیا، جن میں بچے مختلف علوم وفنون کی تعلیم حاصل کرکے بے روزگاری سے نجات حاصل کررہے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے جس وقت میری فراغت ہوئی، شیخ رحمہ اللہ نے جامعۃ الامام البخاری کشن گنج، بہار میں تدریسی فرائض انجام دینے کے لئے دعوت دی، میرے لئے اجنبی ماحول تھا، وہاں زبان وبیان اور رہن ،سہن کا انداز دوسرا تھا، میری طرف سے ہچکچاہٹ ہورہی تھی، لیکن تعلقات کچھ ایسے تھے کہ انکار کی گنجائش نہیں تھی، برادر محترم شیخ عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری حفظہ اللہ نے موافقت دے دی، وہاں پہونچ کر متنوع خدمات دیکھنے کا موقع ملااور دل سے دعائیں نکلیں۔
آپ فجر کی نماز کے بعد جامعہ حاضر ہوتے اور پورے ادارے کا جائزہ لیتے، کبھی کبھی طلباء کے ہاسٹل جاتے، ان کی خبر گیری کرتے اور ان کے مسائل حل کیا کرتے تھے، اورکبھی آپ اساتذۂ کرام کے ساتھ کلاس میں ہوتے،ان کے پڑھانے کا نہج دیکھتے، اگر اس میں کسی طرح کی کمی پاتے تو اصلاح فرماتے تھے۔
وہاں عربی جماعت کے ساتھ ساتھ مکتب کی تعلیم خصوصی طور سے ہم نے بہت ٹھوس دیکھی، وہاں پوری مکتب کی تعلیم صرف درجہ چہارم تک ہے، طفلاں کے طلباء منہاج العربیہ ابتدائی حصہ پڑھتے ہیں، پھر درجہ ایک میں حصہ اول اسی طرح درجہ چہارم تک حصہ چہارم پڑھایا جاتا ہے، عربی جماعت تک پہونچتے پہونچتے عربی الفاظ کا ان کے پاس اچھا ذخیرہ جمع ہوتا ہے اور اس کے ابتدائی قواعد سے بھی وہ واقف ہوچکے ہوتے ہیں اور دھیرے دھیرے جس طرح کلاس اونچی ہوتی رہتی ہے اس میں پختگی آتی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں کے طلبہ عربی زبان و بیان پر قدرت رکھتے ہیں۔
ذمہ داران مدارس اور ارباب حل و عقد کو اس موضوع پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عربی کتابوں کا نصاب جماعت اولیٰ سے تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن مکتب کی تعلیم کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، جس طرح انگریزی لائن سے پڑھنے والے طلبہ اسکول کے پہلے ہی دن سے انگلش کتابوں کی شروعات کردیتے ہیں اور پرائمری مکمل کرتے کرتے انگلش لکھنے اور پڑھنے میں کافی حد تک قادر ہوجاتے ہیں، اگر مکتب کا نصاب بھی اسی نہج پر تیار کیا جائے تو عربی طلبہ بھی اس میں فائق ہو کر نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں۔
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کا ایک اہم شعبہ ’’دارالتوحید برائے ترجمہ ، تالیف ونشر‘‘بھی ہے۔ جس کی جانب سے مختلف موضوعات پر اردو اور بنگلہ زبان میں کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں اور مختلف عربی کتا بوں کا ان دو زبانوں میں ترجمہ بھی شائع ہوا۔
اسی شعبہ سے شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ نے ’’پیام توحید‘‘ کے نام سے ایک اسلامی مجلہ جاری کیا، جو اسلامی صحافت میں ایک جانا پہچانا نام ہے، گذشتہ کئی برسوں سے یہ رسالہ پابندی کے ساتھ شائع ہو کر کتاب وسنت کی روشنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
ہمیں ان کی زندگی کا وہ خاکسارانہ لمحہ نہیں بھول رہا ہے جب آپ نے ایک بیوہ خاتون کا نکاح جو آپ کے زیر کفالت تھی اپنے ادارے کے ایک ملازم کے ساتھ اپنی ایک بچی کی شادی کے موقع پر کیا، اس ادارے کے ملازم کواسی اعزاز و اکرام سے نوازا اور اس کے لئے سارے انتظامات کئے جو آپ نے اپنے داماد کے لئے کر رکھا تھا،جس میں ہر طرح کی علمی ، ادبی،سیاسی اور سماجی شخصیتیں موجود تھیں اور اس بیوہ خاتون کو اسی طرح پورے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا جس طرح اپنی لخت جگر کو۔
اگر آپ چاہتے تو کسی اور موقع پر عام طریقہ سے ان کا نکاح کرکے ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجاتے ، لیکن آپ کی عالی ظرفی نے اسے گوارا نہ کیا ،آپ نے اپنی بچی کے نکاح کے موقع پراپنے زیر کفالت بیوہ خاتون کا نکاح کرکے ایک اچھی مثال قا ئم کی۔آپ کی زندگی کا یہ وہ خاکسارانہ اور سنہرا پہلو تھا جس سے میں متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
ان کی زندگی کا ایک خصوصی پہلو میں نے یہ بھی دیکھا کہ عام طور سے لوگ اور ذمہ داران مدارس بھی اپنے گھریلو تقریبات کے لئے ایک دو دن کا موقع نکال لیتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہوتا ہے، لیکن شیخ رحمہ اللہ نے اپنی بچی کے نکاح کے بعد تقریب میں شامل علماء کرام کے ساتھ جامعۃ الامام البخاری کی جامع مسجد میں طلباء کے لئے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا تاکہ علمائے کرام کے گراں قدر خیالات اور نصائح سے طلباء ہر طرح مستفید ہوسکیں۔
صوبہ بہار جو اپنی غربت و افلاس کے لئے بھی مشہور ہے وہاں آپ نے مختلف رفاہی و فلاحی امور انجام دیئے ، بہتوں کی کفالت فرمائی اور زندگی کے آخری لمحات تک اس سے جڑے رہے۔
برادر محترم شیخ عبداللہ مدنی جھنڈانگری حفظہ اللہ سے آپ کے برادرانہ مراسم اور دوستانہ تعلقات تھے، جامعۃ الامام بخاری کشن گنج میں دورۂ تدریبیہ کا موقع ہو یا دینی واصلاحی پروگرام، یا اطراف وجوانب میں کوئی اجلاس عام اس میں آپ کو ضرور مدعو کرتے اور برادر محترم بھی ان کی مخلصانہ دعوت کو قبول فرماتے ۔
علمی،دعوتی ،رفاہی اورسماجی خدمات کے علاوہ آپ کی سیاسی پکڑ بھی بہت مضبوط تھی، بہارکے وزراء اعلیٰ، کشن گنج کے ڈی ایم، اور دوسرے عہدے داران کی وقتاً فوقتاًجامعۃ الامام بخاری آمد ہوتی رہتی، وہاں کے پروگراموں میں شریک ہوکر یہ حضرات شیخ رحمہ اللہ کو داد و تحسین سے نوازتے رہتے۔
انتقال کے دن آپ غرباء ومساکین میں کمبل و لحاف تقسیم کرنے گئے تھے، وہاں سے واپسی پر دنیا سے آپ کی واپسی قدرت کی طرف سے منظور تھی ، حقیقت یہ ہے کہ معنوی وظاہری ہر اعتبار سے ایسی بھاری بھرکم، نشیط و رواں دواں شخصیت میری نظروں نے کم ہی دیکھی تھیں۔
***
سرزمین بنگال و بہار کی جن اعلیٰ شخصیتوں نے عالمی پیمانے پر اپنی شخصیت کا لوہا منوایا اور دینی خدمات انجام دے کر نام روشن کیا ان میں شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے، آپ نے کشن گنج بہار میں طلباء کے لئے جامعۃ الامام البخاری قائم کیا جو جماعت کے اداروں میں ایک عظیم ادارے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، جس کا سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے الحاق ہے، جہاں علماء و مشائخ کی برابر آمد ہوتی رہی اور وہ اپنے اچھے تاثرات کا اظہار کرتے رہے، مختلف مواقع پروہاں دورۂ تدریبیہ کا اہتمام ہوا جس میں یوپی، بہار و بنگال کے علاوہ اور دوسرے صوبہ جات کے طلباء نے بھرپور استفادہ کیااور جہاں کے طلباء شرعی علوم حاصل کرکے علمی و دعوتی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ نے ’’جامعہ عائشہ الاسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھ کر بچیوں کی تعلیم کا بھرپور انتظام کیاجو اس علاقے میں اپنی نوعیت کا ایک عظیم ادارہ ہے اور سرزمین بہار میں ایک نعمت عظمیٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان دو اداروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ خود کشن گنج کے طلباء و طالبات بھی ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ فجر کے بعدخوشگوارفضا میں تعلیم شروع ہوجاتی ہے اور ظہر سے قبل وہ تعلیم سے فارغ ہوجاتے ہیں۔
آپ نے جہاں اسلامی نہج پر دو عظیم ادارے قائم کئے، وہیں ان بچوں کے لئے جن کی تعلیم انگریزی لائن سے ہوئی ہے، آئی،ٹی،آئی۔(توحید انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج )قائم کیا، جن میں بچے مختلف علوم وفنون کی تعلیم حاصل کرکے بے روزگاری سے نجات حاصل کررہے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے جس وقت میری فراغت ہوئی، شیخ رحمہ اللہ نے جامعۃ الامام البخاری کشن گنج، بہار میں تدریسی فرائض انجام دینے کے لئے دعوت دی، میرے لئے اجنبی ماحول تھا، وہاں زبان وبیان اور رہن ،سہن کا انداز دوسرا تھا، میری طرف سے ہچکچاہٹ ہورہی تھی، لیکن تعلقات کچھ ایسے تھے کہ انکار کی گنجائش نہیں تھی، برادر محترم شیخ عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری حفظہ اللہ نے موافقت دے دی، وہاں پہونچ کر متنوع خدمات دیکھنے کا موقع ملااور دل سے دعائیں نکلیں۔
آپ فجر کی نماز کے بعد جامعہ حاضر ہوتے اور پورے ادارے کا جائزہ لیتے، کبھی کبھی طلباء کے ہاسٹل جاتے، ان کی خبر گیری کرتے اور ان کے مسائل حل کیا کرتے تھے، اورکبھی آپ اساتذۂ کرام کے ساتھ کلاس میں ہوتے،ان کے پڑھانے کا نہج دیکھتے، اگر اس میں کسی طرح کی کمی پاتے تو اصلاح فرماتے تھے۔
وہاں عربی جماعت کے ساتھ ساتھ مکتب کی تعلیم خصوصی طور سے ہم نے بہت ٹھوس دیکھی، وہاں پوری مکتب کی تعلیم صرف درجہ چہارم تک ہے، طفلاں کے طلباء منہاج العربیہ ابتدائی حصہ پڑھتے ہیں، پھر درجہ ایک میں حصہ اول اسی طرح درجہ چہارم تک حصہ چہارم پڑھایا جاتا ہے، عربی جماعت تک پہونچتے پہونچتے عربی الفاظ کا ان کے پاس اچھا ذخیرہ جمع ہوتا ہے اور اس کے ابتدائی قواعد سے بھی وہ واقف ہوچکے ہوتے ہیں اور دھیرے دھیرے جس طرح کلاس اونچی ہوتی رہتی ہے اس میں پختگی آتی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں کے طلبہ عربی زبان و بیان پر قدرت رکھتے ہیں۔
ذمہ داران مدارس اور ارباب حل و عقد کو اس موضوع پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عربی کتابوں کا نصاب جماعت اولیٰ سے تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن مکتب کی تعلیم کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، جس طرح انگریزی لائن سے پڑھنے والے طلبہ اسکول کے پہلے ہی دن سے انگلش کتابوں کی شروعات کردیتے ہیں اور پرائمری مکمل کرتے کرتے انگلش لکھنے اور پڑھنے میں کافی حد تک قادر ہوجاتے ہیں، اگر مکتب کا نصاب بھی اسی نہج پر تیار کیا جائے تو عربی طلبہ بھی اس میں فائق ہو کر نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں۔
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کا ایک اہم شعبہ ’’دارالتوحید برائے ترجمہ ، تالیف ونشر‘‘بھی ہے۔ جس کی جانب سے مختلف موضوعات پر اردو اور بنگلہ زبان میں کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں اور مختلف عربی کتا بوں کا ان دو زبانوں میں ترجمہ بھی شائع ہوا۔
اسی شعبہ سے شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ نے ’’پیام توحید‘‘ کے نام سے ایک اسلامی مجلہ جاری کیا، جو اسلامی صحافت میں ایک جانا پہچانا نام ہے، گذشتہ کئی برسوں سے یہ رسالہ پابندی کے ساتھ شائع ہو کر کتاب وسنت کی روشنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
ہمیں ان کی زندگی کا وہ خاکسارانہ لمحہ نہیں بھول رہا ہے جب آپ نے ایک بیوہ خاتون کا نکاح جو آپ کے زیر کفالت تھی اپنے ادارے کے ایک ملازم کے ساتھ اپنی ایک بچی کی شادی کے موقع پر کیا، اس ادارے کے ملازم کواسی اعزاز و اکرام سے نوازا اور اس کے لئے سارے انتظامات کئے جو آپ نے اپنے داماد کے لئے کر رکھا تھا،جس میں ہر طرح کی علمی ، ادبی،سیاسی اور سماجی شخصیتیں موجود تھیں اور اس بیوہ خاتون کو اسی طرح پورے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا جس طرح اپنی لخت جگر کو۔
اگر آپ چاہتے تو کسی اور موقع پر عام طریقہ سے ان کا نکاح کرکے ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجاتے ، لیکن آپ کی عالی ظرفی نے اسے گوارا نہ کیا ،آپ نے اپنی بچی کے نکاح کے موقع پراپنے زیر کفالت بیوہ خاتون کا نکاح کرکے ایک اچھی مثال قا ئم کی۔آپ کی زندگی کا یہ وہ خاکسارانہ اور سنہرا پہلو تھا جس سے میں متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
ان کی زندگی کا ایک خصوصی پہلو میں نے یہ بھی دیکھا کہ عام طور سے لوگ اور ذمہ داران مدارس بھی اپنے گھریلو تقریبات کے لئے ایک دو دن کا موقع نکال لیتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہوتا ہے، لیکن شیخ رحمہ اللہ نے اپنی بچی کے نکاح کے بعد تقریب میں شامل علماء کرام کے ساتھ جامعۃ الامام البخاری کی جامع مسجد میں طلباء کے لئے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا تاکہ علمائے کرام کے گراں قدر خیالات اور نصائح سے طلباء ہر طرح مستفید ہوسکیں۔
صوبہ بہار جو اپنی غربت و افلاس کے لئے بھی مشہور ہے وہاں آپ نے مختلف رفاہی و فلاحی امور انجام دیئے ، بہتوں کی کفالت فرمائی اور زندگی کے آخری لمحات تک اس سے جڑے رہے۔
برادر محترم شیخ عبداللہ مدنی جھنڈانگری حفظہ اللہ سے آپ کے برادرانہ مراسم اور دوستانہ تعلقات تھے، جامعۃ الامام بخاری کشن گنج میں دورۂ تدریبیہ کا موقع ہو یا دینی واصلاحی پروگرام، یا اطراف وجوانب میں کوئی اجلاس عام اس میں آپ کو ضرور مدعو کرتے اور برادر محترم بھی ان کی مخلصانہ دعوت کو قبول فرماتے ۔
علمی،دعوتی ،رفاہی اورسماجی خدمات کے علاوہ آپ کی سیاسی پکڑ بھی بہت مضبوط تھی، بہارکے وزراء اعلیٰ، کشن گنج کے ڈی ایم، اور دوسرے عہدے داران کی وقتاً فوقتاًجامعۃ الامام بخاری آمد ہوتی رہتی، وہاں کے پروگراموں میں شریک ہوکر یہ حضرات شیخ رحمہ اللہ کو داد و تحسین سے نوازتے رہتے۔
انتقال کے دن آپ غرباء ومساکین میں کمبل و لحاف تقسیم کرنے گئے تھے، وہاں سے واپسی پر دنیا سے آپ کی واپسی قدرت کی طرف سے منظور تھی ، حقیقت یہ ہے کہ معنوی وظاہری ہر اعتبار سے ایسی بھاری بھرکم، نشیط و رواں دواں شخصیت میری نظروں نے کم ہی دیکھی تھیں۔
***
عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت- Mar-Apr 2010
عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت
مولانا محمد سلیم ساجد مدنی۔ ریاض توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ، مجلہ ’’پیام توحید‘‘، جامعۃ الامام بخاری اورجامعہ عائشہ جیسے متعدد ملی، دینی او ر رفاہی اداروں کے مؤسس، بانی اور سرپرست، عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کی وفات پر ملال کی خبر میں نے اپنے استاذ محترم شیخ عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری حفظہ اللہ کی زبانی بڑے رنج وغم کے ساتھ سنی، اس جانکاہ خبر نے میرے پورے وجود کو ہلا دیا، میرے پاؤں لڑکھڑا گئے، میرا چہرہ حزن وملال کی تصویر بن گیا اور میں نے کانپتے ہونٹوں سے بمشکل (إناللہ وإنا الیہ راجعون) پڑھا۔
سلفی رحمہ اللہ کی ذات گوناگوں خصوصیات کا مجموعہ تھی، وہ بلند پایہ مربی، بے حد ملنسار، حق گو داعی، بابصیرت مصنف و مترجم، غیور عالم، کہنہ مشق محرر اور بے باک خطیب تھے ، اہل علم اور دینی طلبہ کے ساتھ ان کا مخلصانہ و محبانہ تعلقات تھے، عرب وعجم کے ممتاز علمائے کرام گاہے بگاہے ان کی بے باکی، جرأت مندی اور عملی ودعوتی خدمات کو سراہا کرتے تھے۔
وہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر اخلاص و جذبہ اور ہمت و حوصلہ کے ساتھ باد صبا بن کر نمودار ہوئے اور مرکزی جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش کی مرجھائی ہوئی کلیوں کو شاداب کیا، جمعیت وجماعت کو بیدار کیا، اس کی سست رفتار گاڑی کو برق رفتاری سے دوڑایا، وہاں کے دینی مدارس بالخصوص مدسہ محمدیہ ڈھاکہ کے نظم ونسق کو درست کیا ور اس کے تعلیمی معیار کو نہایت ہی مستحکم کیا، مدرسہ محمدیہ کے فارغین آج بھی شیخ کے جہود و خدمات کو سراہتے ہیں۔
انہوں نے سرزمین بہار وبنگال میں پھیلی ہوئی جہالت و ضلالت اور شرک وبدعات کی تاریکیوں میں کتاب و سنت اور رشد وہدایت کا چراغ جلایا، شرک و بدعات کی جڑ کاٹنے کے لئے چاروں طرف دینی مدارس کے جال بچھادئیے، جہاں ہزاروں طلبہ و طالبات کتاب وسنت کی مقدس اور پاکیزہ تعلیمات سے مسلح ہوکر اپنے اور غیروں کے اخلاق و کردار کو سنوارتے ہیں، ان کی ہمہ جہت خدمات کو شمار کرنا غیر معمولی کام ہے، انہوں نے بہار وبنگال اور مشرقی نیپال میں شعور و آگہی کی ایسی فصلیں اگائی ہیں کہ دیکھنے والا انگشت بدنداں رہ جاتا ہے اور عقل اس مرد مجاہد کی خدمات پر حیران رہ جاتی ہے۔
سلفی رحمہ اللہ کے ساتھ مجھے زیادہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے، جامعہ اسلامیہ مدینہ، جھنڈانگر،کاٹھمنڈو اور سکن الدعاۃ ریاض میں کئی بار مولانا کے قیمتی و ناصحانہ کلمات سے مستفید ہونے کا موقع ملا، ایک بار کاٹھمنڈو کے ایک مشاورتی اجلاس میں مجھے مرکز التوحید جھنڈانگر کی ترجمانی کا موقع ملا، جس میں عرب مشائخ کے علاوہ ہندو نیپال کے ممتاز علمائے کرام نے شرکت فرمائی تھی، اجلاس کے اختتام پر سلفی رحمہ اللہ نے میرے عربی بیان کو سراہا اور بڑی ہمت افزائی فرمائی۔
اے اللہ! سلفی رحمہ اللہ نے جگر کے خون دے دے کر یہ بوٹے پالے تھے انہیں سرسبز و شاداب رکھ، ان کے قائم کردہ تعلیمی و رفاہی اداروں کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنا، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز فرما، پسماندگان کو صبر کی توفیق دے اور جماعت اہلحدیث کو ان کا نعم البدل اور خلف الرشید عطا فرما۔
آمین یارب العالمین۔
سلفی رحمہ اللہ کی ذات گوناگوں خصوصیات کا مجموعہ تھی، وہ بلند پایہ مربی، بے حد ملنسار، حق گو داعی، بابصیرت مصنف و مترجم، غیور عالم، کہنہ مشق محرر اور بے باک خطیب تھے ، اہل علم اور دینی طلبہ کے ساتھ ان کا مخلصانہ و محبانہ تعلقات تھے، عرب وعجم کے ممتاز علمائے کرام گاہے بگاہے ان کی بے باکی، جرأت مندی اور عملی ودعوتی خدمات کو سراہا کرتے تھے۔
وہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر اخلاص و جذبہ اور ہمت و حوصلہ کے ساتھ باد صبا بن کر نمودار ہوئے اور مرکزی جمعیت اہل حدیث بنگلہ دیش کی مرجھائی ہوئی کلیوں کو شاداب کیا، جمعیت وجماعت کو بیدار کیا، اس کی سست رفتار گاڑی کو برق رفتاری سے دوڑایا، وہاں کے دینی مدارس بالخصوص مدسہ محمدیہ ڈھاکہ کے نظم ونسق کو درست کیا ور اس کے تعلیمی معیار کو نہایت ہی مستحکم کیا، مدرسہ محمدیہ کے فارغین آج بھی شیخ کے جہود و خدمات کو سراہتے ہیں۔
انہوں نے سرزمین بہار وبنگال میں پھیلی ہوئی جہالت و ضلالت اور شرک وبدعات کی تاریکیوں میں کتاب و سنت اور رشد وہدایت کا چراغ جلایا، شرک و بدعات کی جڑ کاٹنے کے لئے چاروں طرف دینی مدارس کے جال بچھادئیے، جہاں ہزاروں طلبہ و طالبات کتاب وسنت کی مقدس اور پاکیزہ تعلیمات سے مسلح ہوکر اپنے اور غیروں کے اخلاق و کردار کو سنوارتے ہیں، ان کی ہمہ جہت خدمات کو شمار کرنا غیر معمولی کام ہے، انہوں نے بہار وبنگال اور مشرقی نیپال میں شعور و آگہی کی ایسی فصلیں اگائی ہیں کہ دیکھنے والا انگشت بدنداں رہ جاتا ہے اور عقل اس مرد مجاہد کی خدمات پر حیران رہ جاتی ہے۔
سلفی رحمہ اللہ کے ساتھ مجھے زیادہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے، جامعہ اسلامیہ مدینہ، جھنڈانگر،کاٹھمنڈو اور سکن الدعاۃ ریاض میں کئی بار مولانا کے قیمتی و ناصحانہ کلمات سے مستفید ہونے کا موقع ملا، ایک بار کاٹھمنڈو کے ایک مشاورتی اجلاس میں مجھے مرکز التوحید جھنڈانگر کی ترجمانی کا موقع ملا، جس میں عرب مشائخ کے علاوہ ہندو نیپال کے ممتاز علمائے کرام نے شرکت فرمائی تھی، اجلاس کے اختتام پر سلفی رحمہ اللہ نے میرے عربی بیان کو سراہا اور بڑی ہمت افزائی فرمائی۔
اے اللہ! سلفی رحمہ اللہ نے جگر کے خون دے دے کر یہ بوٹے پالے تھے انہیں سرسبز و شاداب رکھ، ان کے قائم کردہ تعلیمی و رفاہی اداروں کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنا، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز فرما، پسماندگان کو صبر کی توفیق دے اور جماعت اہلحدیث کو ان کا نعم البدل اور خلف الرشید عطا فرما۔
آمین یارب العالمین۔
Subscribe to:
Posts (Atom)