Monday, 6 September 2010
Tuesday, 24 August 2010
الکتاب الحکمۃ agu 2010
الکتاب
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤمِنُونَ* الَّذِیْنَ ھُمْ فِی صَلاَتِھِمْ خَاشِعُوْنَ* والَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ * والَّذِیْنَ ھُمْ للزَّکوٰۃ فَاعِلُوْنَ*(سورہ مومنون:۱تا۴)
ترجمہ: ایماندار لوگ کامیاب ہوگئے، جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہی، اور جو بیہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں، اور جو زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں۔
تشریح: نماز میں خشوع کا مقام اور اثرات: خَشَعَ کے معنی عاجزی ہے، جو دل میں ڈر اور ہیبت طاری ہونے کی وجہ سے ہو، پھر اس ڈر و عاجزی کے اثرات اعضاء وجوارح پر بھی ظاہر ہونے لگیں، آنکھیں مرعوب ہوکر جھک جائیں اور آپ کی آواز پست ہوجائے،چنانچہ ایسے مقامات پر بھی قرآن نے یہی لفظ استعمال فرمایا ہے، پھر اسی خشوع کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ انسان نماز میں باادب کھڑا ہو، ادھر ادھر نہ دیکھے، نہ اپنے کپڑے سنوارتا رہے، نہ اپنی داڑھی وغیرہ سے کھیلتا رہے اور نہ دل میں نماز پر توجہ کے علاوہ دوسرے خیالات آنے دے۔
اور خیالات آنے بھی لگیں تو فوراً ادھرسے توجہ ہٹا کر یہ سوچنے لگے کہ وہ نماز میں اپنے مالک کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے اور اس بات پر توجہ دے کہ وہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے ، خشوع اگرچہ اجزائے صلوٰۃ کے لئے شرط نہیں تاہم حسن قبول کے لئے لازمی شرط ہے۔
الحکمۃ
عَن أَبی ھُرَیرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قَال: ’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَاناً واحتِساباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ‘‘ (متفق علیہ)ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(رات کو تراویح پڑھیں) اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (بخاری،مسلم)
تشریح:(۱) قیام رمضان یقیناًایک مؤکدہ اور اجر وثواب کے لحاظ سے نہایت اہم عبادت ہے، تاہم اس کی حیثیت نفل ہی کی ہے ، واجب کی نہیں،(۲) جو گناہ معاف ہوتے ہیں وہ صغیرہ گناہ ہیں ورنہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیر اور حقوق العباد میں کی گئی کوتاہیاں ان کا ازالہ کئے بغیر معاف نہیں ہوں گے، (۳)رمضان کا یہ قیام نبیﷺکے عمل سے بھی ثابت ہے، آپ نے ایک رمضان میں تین راتوں کو قیام فرمایا یعنی صحابہ کرام کو جماعت کے ساتھ یہ نفلی نماز پڑھائی، تین راتوں میں آپ نے کتنی رکعت پڑھائیں؟ وہ صحیح احادیث کی رو سے ۸رکعات ہیں اور ۳وترہیں، اس لئے قیام رمضان کی مسنون صرف آٹھ رکعات ہیں اور وتر سمیت گیارہ، (۴) احادیث میں اس نفلی نماز کو قیام رمضان سے ہی تعبیر کیا گیا ہے،بعد میں اس کا نام تراویح قرار پاگیا۔
رحمت الٰہی کا خاص مہینہ agu 2010 Editorial
شعور وآگہی
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری
۱۱؍ماہ کے انتظار کے بعد آنے والا یہ مہینہ اپنے دامن میں کیسی کیسی رحمتیں لے کر نمودار ہوا ہے، اس کا لطف، اس کا سرور، اس کی فرحت کوئی مرد مومن کے دل سے پوچھے، بلاشبہ کچھ ایسا احساس ہوتا ہے کہ رب کریم نے انسانیت نوازی کی تمام راہیں کھول رکھی ہیں، روزہ معاصی کے مقابلے میں ڈھال بنا ہوا ہے،آسمان کی راہیں وا ہیں، جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں، شیطان اپنی زندگی کے بڑے ہی کربناک اور سخت مرحلہ سے گذرتے ہوئے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار ہے، گناہوں کی معافی کی راہ ہموار ہورہی ہے، گناہ گار لطف عام سے فیض یاب ہورہے ہیں، رحمت اور مغفرت کے دہے سے گذرتے ہوئے۔ عتق من النار ۔ جہنم سے آزادی کی نوید بھی سنائی دے رہی ہے۔
یہ سارے انعامات، فیض و عطا اور بخشش کے یہ مظاہر مرد مومن کے لئے ہیں جو اب صفت تقویٰ سے بہرہ ور ہوکر اپنے رب کے نزدیک بڑی برگزیدہ ہستی قرار دیا جاچکا ہے، جس کی وضاحت خاتم النبیینﷺ نے فرمائی ہے: ’’قیل للنبی ﷺ: من أکرم الناس قال:أکرمہم أتقاہم‘‘ (بخاری، مسلم)
روزہ دار وں کو رب العالمین نے ایک ہلکی مشقت کے بدلے میں اپنی رحیمی اور رحمانیت کا سزاوار بنادیا ہے۔ جہاں یہ سب حاصل ہورہا ہو، جہاں ایسی فضا ہو، جہاں دینے والا مائل بہ کرم ہووہاں اگر انسان کلمہ گو ہوتے ہوئے بھی غافل رہ کر فرض سے بے نیاز ہوجائے اسے بدقسمتی کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔
رب العالمین کا یہ کرم ہی ہے کہ مسلمانان عالم اس مہینے میں لطف و عنایت کا پیکر بن کر اہل حاجت کی غمگساری کا ثبوت پیش کرتے ہیں، ہر طرح کے ضرورت مند اس بابرکت مہینے میں اپنی بے بسی کا غم بھول جاتے ہیں کہ انہیں ہر مقام پر چارہ ساز میسر رہتے ہیں، جو شریک غم بن کر اسلامی اخوت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے اخروی سعادت کا سامان فراہم کرلیتے ہیں۔
خود ذات رسالتمآب ﷺ نے جو دوسخا کا عملی مظاہرہ فرمایا اور رمضان میں آپ کی سخاوت تیز آندھیوں سے بھی آگے بڑھتی ہوئی دکھائی پڑی، امت اسی طریقہ پر گامزن ہے۔ اس زمانے میں امت مسلمہ جتنا کچھ کار خیر میں صرف کرلیتی ہے شاید ہی دنیا کی کوئی قوم اس کے مقابل آسکے، صرف عیدالفطر کے دن صدقہ کے نام پر دی جانے والی امداد کی نظیر پیش کرنے کی سکت کس قوم میں ہے؟
ہاں! فی سبیل اللہ خرچ کی جانے والی ان رقوم کو اگر منظم طریقے پر صرف کرنے کی سبیل نکالی جاسکے تو یہ امت کا ایک ایسا مثبت عمل ہوگا جس سے ہمارے زخموں کا علاج ہوسکے گا، فقیری اور بھک منگائی کے سلسلے رک جائیں گے، خود دینی مدارس اپنے فرائض کی انجام دہی میں بڑی حد تک آزاد ہوں گے، مال ومنال کی قلت رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔اللہ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری
رحمت الٰہی کا خاص مہینہ
انسانی دنیا پر ماہ مبارک کی لطیف ساعتیں ایک بار پھر سایہ فگن ہیں، یہ وہ ماہ سعید ہے جس میں رب کریم کی بے پایاں نوازشیں بندگان الٰہی کے لئے مخصوص کردی جاتی ہیں،دن میں روزہ اور رات میں عبادت و تلاوت کی ایک ایسی فضا بنتی ہے کہ عالم اسلام ہی نہیں کائنات انسانی بھی جس کی پاکیزگی کے نور سے منور نظر آتی ہے، ہرطرف سکون، قرار و اطمینان کی مہک پھیل جاتی ہے اور پورا ماحول معطر ہوکر خوش گوار ہوجاتا ہے۔۱۱؍ماہ کے انتظار کے بعد آنے والا یہ مہینہ اپنے دامن میں کیسی کیسی رحمتیں لے کر نمودار ہوا ہے، اس کا لطف، اس کا سرور، اس کی فرحت کوئی مرد مومن کے دل سے پوچھے، بلاشبہ کچھ ایسا احساس ہوتا ہے کہ رب کریم نے انسانیت نوازی کی تمام راہیں کھول رکھی ہیں، روزہ معاصی کے مقابلے میں ڈھال بنا ہوا ہے،آسمان کی راہیں وا ہیں، جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں، شیطان اپنی زندگی کے بڑے ہی کربناک اور سخت مرحلہ سے گذرتے ہوئے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار ہے، گناہوں کی معافی کی راہ ہموار ہورہی ہے، گناہ گار لطف عام سے فیض یاب ہورہے ہیں، رحمت اور مغفرت کے دہے سے گذرتے ہوئے۔ عتق من النار ۔ جہنم سے آزادی کی نوید بھی سنائی دے رہی ہے۔
یہ سارے انعامات، فیض و عطا اور بخشش کے یہ مظاہر مرد مومن کے لئے ہیں جو اب صفت تقویٰ سے بہرہ ور ہوکر اپنے رب کے نزدیک بڑی برگزیدہ ہستی قرار دیا جاچکا ہے، جس کی وضاحت خاتم النبیینﷺ نے فرمائی ہے: ’’قیل للنبی ﷺ: من أکرم الناس قال:أکرمہم أتقاہم‘‘ (بخاری، مسلم)
روزہ دار وں کو رب العالمین نے ایک ہلکی مشقت کے بدلے میں اپنی رحیمی اور رحمانیت کا سزاوار بنادیا ہے۔ جہاں یہ سب حاصل ہورہا ہو، جہاں ایسی فضا ہو، جہاں دینے والا مائل بہ کرم ہووہاں اگر انسان کلمہ گو ہوتے ہوئے بھی غافل رہ کر فرض سے بے نیاز ہوجائے اسے بدقسمتی کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔
رب العالمین کا یہ کرم ہی ہے کہ مسلمانان عالم اس مہینے میں لطف و عنایت کا پیکر بن کر اہل حاجت کی غمگساری کا ثبوت پیش کرتے ہیں، ہر طرح کے ضرورت مند اس بابرکت مہینے میں اپنی بے بسی کا غم بھول جاتے ہیں کہ انہیں ہر مقام پر چارہ ساز میسر رہتے ہیں، جو شریک غم بن کر اسلامی اخوت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے اخروی سعادت کا سامان فراہم کرلیتے ہیں۔
خود ذات رسالتمآب ﷺ نے جو دوسخا کا عملی مظاہرہ فرمایا اور رمضان میں آپ کی سخاوت تیز آندھیوں سے بھی آگے بڑھتی ہوئی دکھائی پڑی، امت اسی طریقہ پر گامزن ہے۔ اس زمانے میں امت مسلمہ جتنا کچھ کار خیر میں صرف کرلیتی ہے شاید ہی دنیا کی کوئی قوم اس کے مقابل آسکے، صرف عیدالفطر کے دن صدقہ کے نام پر دی جانے والی امداد کی نظیر پیش کرنے کی سکت کس قوم میں ہے؟
ہاں! فی سبیل اللہ خرچ کی جانے والی ان رقوم کو اگر منظم طریقے پر صرف کرنے کی سبیل نکالی جاسکے تو یہ امت کا ایک ایسا مثبت عمل ہوگا جس سے ہمارے زخموں کا علاج ہوسکے گا، فقیری اور بھک منگائی کے سلسلے رک جائیں گے، خود دینی مدارس اپنے فرائض کی انجام دہی میں بڑی حد تک آزاد ہوں گے، مال ومنال کی قلت رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔اللہ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔
قرآن کریم اور تلاوت کے آداب agu 2010
جناب رانا محمد شفیق خاں پسروری
انسان کو صحیح معنوں میں مسجود ملائکہ اور اشرف المخلوقات بنانے کے لئے اللہ نے خیر و شفاء کا یہ منبع سب نبیوں کے سردار اور رسولوں کے امام حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا اور اس عظیم کتاب کے تھامنے والوں کو سب امتوں سے افضل اور پڑھنے والوں کو سب انسانوں سے بہتر قرار دیا، یہ کتاب اللہ کے حضرت انسان اور امت مسلمہ سے حددرجہ پیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت انسان اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس عظمت و رفعت کے مرکب کی کماحقہ قدر کرے اور اپنا انگ انگ اس کے حوالے کردے، تبھی اس کی رحمت و برکات، مغفرت و ہدایت اور قرب الٰہی و انعامات ربانی کا حصول ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید معبود حقیقی اور محبوب و مطلوب کا کلام خاص ہے، محبوب کی تقریر وتحریر کی کسی دل کھوئے کے ہاں جو وقعت ہوتی ہے اور کے ساتھ جو وارفتگی و شیفتگی کا معاملہ ہوتا ہے وہ اختیار کرنا چاہئے ، پھر یہ عظیم کتاب تو احکم الحاکمین کا کلام اور سلطان السلاطین، بادشاہوں کے بادشاہ کا فرمان ہے اس سطوت و جبروت والے شہنشاہ کا قانون ہے جس کی ہمسری نہ کسی سے ہوئی نہ ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں کو سلاطین کے دربار سے واسطہ پڑا ہے وہ تجربے سے اور جن کو نہیں پڑا وہ اندازے سے سلطانی فرمان کی ہیبت جان سکتے ہیں،کلام الٰہی محبوب و حاکم کا کلام ہے اس لئے دونوں آداب کا خیال رکھنا چاہئے، حضرت عکرمہ جب کلام پاک پڑھنے کے لئے کھولتے تو بے ہوش ہوکر گر پڑتے ، زبان پر یہی جاری ہوتا تھا: ہذا کلام ربی، ہذا کلام ربی۔یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔
یعنی اس کو ایک عام فرد کی طرح نہیں پڑھنا چاہئے، صرف بندہ بن کر اپنے آقا، مالک، محسن اور منعم کا کلام سمجھ کر پڑھے اس کے حضور حاضر ہو جس طرح کسی خاص تقریب میں آقا کے حضور حاضر ہے، اچھی طرح مسواک کرکے، وضو کرکے ایسی جگہ جہاں یکسوئی حاصل ہو، نہایت وقار اور تواضع کے ساتھ قبلہ روبیٹھئے، نہایت حضور قلب اور خشوع کے ساتھ اس طرح پڑھئے گویا حق تعالیٰ سبحانہ کو کلام پاک سنارہا ہے یا اس ذات برحق سے گفتگو کا شرف حاصل کررہا ہے،(اگر معنی جانتا ہو تو کیا ہی خوب۔۔۔) نہایت تدبر و تفکر کے ساتھ وعدے اور رحمت و مغفرت کی آیات پر مغفرت و رحمت کا بھکاری بن جائے اور خوب دعا مانگے کہ اس کے سوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں، جن آیات اللہ کی تقدیس و تحمید ہے وہاں سبحان اللہ کہے، تلاوت کے درمیان ازخود رونا آئے تو بہت خوب، ورنہ بہ تکلف رونے کی سعی کرے، دوران تلاوت کسی اور سے ہم کلام نہ ہو،دوران تلاوت اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو تلاوت بند کرکے ضرورت پوری کرے اور پھر تعوذ پڑھ کر دوبارہ تلاوت کرے، بلند آواز سے پڑھنا اولیٰ ہے لیکن کوئی نماز پڑھ رہا ہو یا لوگ مجمع میں دیگر امور میں مشغول ہوں تو آہستہ پڑھے۔
اس کتاب کی تلاوت کے آداب جو قرآن و احادیث سے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) اس عظیم کتاب کو برحق، شک و شبہ سے بالاتر اور انسان کی فلاح و خیر ، رشد و ہدایت اور شفا کا باعث جاننا منزل من اللہ ، منز ل برسول اللہ سمجھنا اور باعث ثواب و اجر قرار دینا، اس میں درج احکامات پر عمل کرنااور تمام کے تمام پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی بہتری کیلئے کوشش کرنا (دنیا وآخرت کی کامیابی کا باعث قرار دے کر اس کی آیات کو لازم حیات بنالینا)۔
(۲) اس کتاب مقدس کو انتہائی پاک جگہ پر رکھا جائے، اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے ’’مرفوعۃ مطہرۃ‘‘کے الفاظ بیان کئے ہیں یعنی بلند و پاک ،سو اس کتاب مقدس کو کسی اونچی جگہ اور پاکیزہ مقام پر رکھا جائے۔
(۳) اس کو ناپاک ہاتھ نہ لگنے چاہئیں، جب بھی چھوا جائے باوضو ہوکر ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ میں یہی حکم ہے، نیز رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ بھی ہے ’’لایمس القرآن الا طاہر‘‘ کہ ہرگز قرآن کو بے وضو نہ چھوا جائے، یہ وہ حکم نبوی ﷺ ہے جو حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو بھیجا گیا تھا۔(مؤطا کتاب القرآن)
(۴) حالت جنابت اور حیض و نفاس میں قرآن کی تلاوت بھی جائز نہیں ہے،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تقرا الحائض والجنب شیئا من القرآن ۔ (حائضہ اور جنبی قرآن کو کچھ بھی نہ پڑھے)
نوٹ: احکام القرآن للجصاص، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی وغیرہ کے حوالے سے صحابہ کرام بغیر وضو کے قرآن پاک پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے، مگر چھونے کو ناروا۔ یعنی بے وضو قرآن کو چھونا نہیں چاہئے،البتہ زبانی پڑھا جاسکتا ہے، البتہ حالت جنابت ، حیض ونفاس میں زبانی بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔
اسی طرح اگر کوئی جنبی اور حائضہ کے سامنے قرآن پاک پڑھ رہا ہو اور وہ غلطی کرجائے تو اس صورت میں غلطی کی درستی کے لئے جنبی اور حائضہ کے قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ہے، ایسے ہی عام معمولات میں کلمات خیر مثلا الحمدللہ،سبحان اللہ، ان شاء اللہ وغیرہ کہنے کی بھی اجازت ہے۔
(۵) جب بھی قرآن پاک پڑھے بلند آواز سے پڑھے کہ اس کا سننا بھی باعث ثواب و رحمت ہے اور سے یہ بھی مقصود ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوتو کوئی سننے والا درست کردے۔ امام بخاری نے جامع الصحیح میں باقاعدہ بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنے کا باب باندھا ہے اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا وہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور لوچدار لہجے میں بلند آواز سے سورہ فتح پڑھ رہے تھے(کتاب التفسیر،بخاری)
(۶) قرآن پاک خوش الحانی اورخوش لہجہ سے پڑھنا چاہئے رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے: حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا۔ تم لوگ اپنی آوازوں سے قرآن پاک کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔
(۷)قرآن پاک پڑھنے میں تیزی نہیں کرنی چاہئے کہ الفاظ آپس میں گھل جائیں اور سمجھ نہ آئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ کہ قرآن پڑھتے ہوئے جلد بازی میں زبان نہیں ہلانی چاہئے۔ (القیامہ)
(۸)ایک ایک لفظ کھینچ کھینچ کر اور موتیوں کی صورت الگ پڑھنا چاہئے، جیسے ہر لفظ کا مزا لے کر پڑھا جائے، بخاری شریف میں باقاعدہ الفاظ کھینچ کر پڑھنے کا باب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ خوب کھینچ کر پڑھتے تھے۔
دوسری جگہ حدیث میں ہے:
فقال کانت مدثم قراء بسم اللہ الرحمن الرحیم یمد بسم اللہ و یمد بالرحمن ویمد بالرحیم ۔ (بخاری کتاب التفسیر)
(۹)ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، اللہ رب العزت کاارشاد ہے: ورتل القرآن ترتیلا۔(مزمل) کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے رات پوری مفصل سورتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن نہیں پڑھا بلکہ یہ تو گھاس کاٹنا ہوا۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں : یقطع قراتہ یقول الحمد للہ رب العالمین ثم یقف ویقول الرحمن الرحیم ثم یقف وکان یقرا مالک یوم الدین(شمائل ترمذی) کہ رسول اللہ ﷺہر آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے، کہ الحمدللہ رب العالمین پڑھتے پھر ٹھہر جاتے، پھر الرحمن الرحیم پڑھتے پھر رک جاتے پھر مالک یوم الدین پڑھتے۔ یعنی ہر آیت پر رکنا اور وقف کرنا ہی سنت اور ترتیل ہے۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں ترتیل سے القارعۃ اور اذازلزلت پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہوں، اس سے کہ سورہ بقرہ اور آل عمران بلا ترتیل پڑھوں۔
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قرآن پڑھنے والوں سے کہے گا کہ ترتیل سے پڑھتا جا جس طرح دنیا میں پڑھتا تھا اور جنت کے درجات طے کرتا جا۔ جہاں آیات ختم ہونگی وہی تیری منزل ہے۔ (سنن اربعہ، احمد ،ابن حبان، باب فضائل القرآن)۔
(۱۰) قرآن پاک کو جتنا بھی غور سے پڑھا جائے بہتر ہے کم از کم مدت ایک ماہ میں ختم کرنا چاہئے، اگر مزید استطاعت ہوتو پندرہ دن میں، مزید استطاعت ہو تو سات دن میں اس سے کم بالکل نہیں پڑھنا چاہئے۔
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے دو حدیثیں روایت ہیں جن میں ایک ماہ میں قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ، حد سات دن کا حکم ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اقرء القرآن فی شہر قلت انی اجد قوۃ حتی قال فاقراہ فی سبع ولا تزد علیہ۔ یعنی قرآن کو تم ایک ماہ میں پڑھو (حضرت عبداللہ کہتے ہیں) میں نے کہا میں اس سے زیادہ کی استطاعت رکھتا ہوں، فرمایا زیادہ سے زیادہ سات دن میں پڑھو اور سات سے کم میں بالکل نہیں( بخاری کتاب التفسیر)
اسی وجہ سے قرآن کی سات منازل بنائی گئی ہیں، تاکہ حفاظ و قراء ایک ہفتے میں قرآن کا دور کر سکیں، صحابہ کرام و تابعین نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے پورے قرآن کی کل سات منازل ہیں۔
ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لم یفقہ من قرء القرآن فی اقل من ثلث۔ یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے قرآن کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ (کتاب القرآن)۔
قرآن کریم اور تلاوت کے آداب
قرآن مجید، انسان کے لئے اللہ تعالی کی ایک خاص نعمت ہے، جس میں موعظت و ہدایت، تفصیل و تکثیر انعامات الٰہی، تقرب ربانی اور کرامات کا دریا موجزن ہے، یہ ہر طرح انسان کے لئے باعث رحمت، باعث برکت، باعث مغفرت اور ہدایت کاملہ ہے،اللہ کی خوشنودی و رضامندی برائیوں سے بچاؤ، اچھائیوں کی راہ، آلام و مصائب سے چھٹکارا، دکھ تکلیف، رنج و کلفت سے بچاؤ کا طریقہ، امن و سکینت کا سبب اور رشد وہدایت نیز انسانی فلاح و بہبود کا منبع ہے۔انسان کو صحیح معنوں میں مسجود ملائکہ اور اشرف المخلوقات بنانے کے لئے اللہ نے خیر و شفاء کا یہ منبع سب نبیوں کے سردار اور رسولوں کے امام حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا اور اس عظیم کتاب کے تھامنے والوں کو سب امتوں سے افضل اور پڑھنے والوں کو سب انسانوں سے بہتر قرار دیا، یہ کتاب اللہ کے حضرت انسان اور امت مسلمہ سے حددرجہ پیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت انسان اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس عظمت و رفعت کے مرکب کی کماحقہ قدر کرے اور اپنا انگ انگ اس کے حوالے کردے، تبھی اس کی رحمت و برکات، مغفرت و ہدایت اور قرب الٰہی و انعامات ربانی کا حصول ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید معبود حقیقی اور محبوب و مطلوب کا کلام خاص ہے، محبوب کی تقریر وتحریر کی کسی دل کھوئے کے ہاں جو وقعت ہوتی ہے اور کے ساتھ جو وارفتگی و شیفتگی کا معاملہ ہوتا ہے وہ اختیار کرنا چاہئے ، پھر یہ عظیم کتاب تو احکم الحاکمین کا کلام اور سلطان السلاطین، بادشاہوں کے بادشاہ کا فرمان ہے اس سطوت و جبروت والے شہنشاہ کا قانون ہے جس کی ہمسری نہ کسی سے ہوئی نہ ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں کو سلاطین کے دربار سے واسطہ پڑا ہے وہ تجربے سے اور جن کو نہیں پڑا وہ اندازے سے سلطانی فرمان کی ہیبت جان سکتے ہیں،کلام الٰہی محبوب و حاکم کا کلام ہے اس لئے دونوں آداب کا خیال رکھنا چاہئے، حضرت عکرمہ جب کلام پاک پڑھنے کے لئے کھولتے تو بے ہوش ہوکر گر پڑتے ، زبان پر یہی جاری ہوتا تھا: ہذا کلام ربی، ہذا کلام ربی۔یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔
یعنی اس کو ایک عام فرد کی طرح نہیں پڑھنا چاہئے، صرف بندہ بن کر اپنے آقا، مالک، محسن اور منعم کا کلام سمجھ کر پڑھے اس کے حضور حاضر ہو جس طرح کسی خاص تقریب میں آقا کے حضور حاضر ہے، اچھی طرح مسواک کرکے، وضو کرکے ایسی جگہ جہاں یکسوئی حاصل ہو، نہایت وقار اور تواضع کے ساتھ قبلہ روبیٹھئے، نہایت حضور قلب اور خشوع کے ساتھ اس طرح پڑھئے گویا حق تعالیٰ سبحانہ کو کلام پاک سنارہا ہے یا اس ذات برحق سے گفتگو کا شرف حاصل کررہا ہے،(اگر معنی جانتا ہو تو کیا ہی خوب۔۔۔) نہایت تدبر و تفکر کے ساتھ وعدے اور رحمت و مغفرت کی آیات پر مغفرت و رحمت کا بھکاری بن جائے اور خوب دعا مانگے کہ اس کے سوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں، جن آیات اللہ کی تقدیس و تحمید ہے وہاں سبحان اللہ کہے، تلاوت کے درمیان ازخود رونا آئے تو بہت خوب، ورنہ بہ تکلف رونے کی سعی کرے، دوران تلاوت کسی اور سے ہم کلام نہ ہو،دوران تلاوت اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو تلاوت بند کرکے ضرورت پوری کرے اور پھر تعوذ پڑھ کر دوبارہ تلاوت کرے، بلند آواز سے پڑھنا اولیٰ ہے لیکن کوئی نماز پڑھ رہا ہو یا لوگ مجمع میں دیگر امور میں مشغول ہوں تو آہستہ پڑھے۔
اس کتاب کی تلاوت کے آداب جو قرآن و احادیث سے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) اس عظیم کتاب کو برحق، شک و شبہ سے بالاتر اور انسان کی فلاح و خیر ، رشد و ہدایت اور شفا کا باعث جاننا منزل من اللہ ، منز ل برسول اللہ سمجھنا اور باعث ثواب و اجر قرار دینا، اس میں درج احکامات پر عمل کرنااور تمام کے تمام پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی بہتری کیلئے کوشش کرنا (دنیا وآخرت کی کامیابی کا باعث قرار دے کر اس کی آیات کو لازم حیات بنالینا)۔
(۲) اس کتاب مقدس کو انتہائی پاک جگہ پر رکھا جائے، اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے ’’مرفوعۃ مطہرۃ‘‘کے الفاظ بیان کئے ہیں یعنی بلند و پاک ،سو اس کتاب مقدس کو کسی اونچی جگہ اور پاکیزہ مقام پر رکھا جائے۔
(۳) اس کو ناپاک ہاتھ نہ لگنے چاہئیں، جب بھی چھوا جائے باوضو ہوکر ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ میں یہی حکم ہے، نیز رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ بھی ہے ’’لایمس القرآن الا طاہر‘‘ کہ ہرگز قرآن کو بے وضو نہ چھوا جائے، یہ وہ حکم نبوی ﷺ ہے جو حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو بھیجا گیا تھا۔(مؤطا کتاب القرآن)
(۴) حالت جنابت اور حیض و نفاس میں قرآن کی تلاوت بھی جائز نہیں ہے،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تقرا الحائض والجنب شیئا من القرآن ۔ (حائضہ اور جنبی قرآن کو کچھ بھی نہ پڑھے)
نوٹ: احکام القرآن للجصاص، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی وغیرہ کے حوالے سے صحابہ کرام بغیر وضو کے قرآن پاک پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے، مگر چھونے کو ناروا۔ یعنی بے وضو قرآن کو چھونا نہیں چاہئے،البتہ زبانی پڑھا جاسکتا ہے، البتہ حالت جنابت ، حیض ونفاس میں زبانی بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔
اسی طرح اگر کوئی جنبی اور حائضہ کے سامنے قرآن پاک پڑھ رہا ہو اور وہ غلطی کرجائے تو اس صورت میں غلطی کی درستی کے لئے جنبی اور حائضہ کے قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ہے، ایسے ہی عام معمولات میں کلمات خیر مثلا الحمدللہ،سبحان اللہ، ان شاء اللہ وغیرہ کہنے کی بھی اجازت ہے۔
(۵) جب بھی قرآن پاک پڑھے بلند آواز سے پڑھے کہ اس کا سننا بھی باعث ثواب و رحمت ہے اور سے یہ بھی مقصود ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوتو کوئی سننے والا درست کردے۔ امام بخاری نے جامع الصحیح میں باقاعدہ بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنے کا باب باندھا ہے اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا وہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور لوچدار لہجے میں بلند آواز سے سورہ فتح پڑھ رہے تھے(کتاب التفسیر،بخاری)
(۶) قرآن پاک خوش الحانی اورخوش لہجہ سے پڑھنا چاہئے رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے: حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا۔ تم لوگ اپنی آوازوں سے قرآن پاک کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔
(۷)قرآن پاک پڑھنے میں تیزی نہیں کرنی چاہئے کہ الفاظ آپس میں گھل جائیں اور سمجھ نہ آئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ کہ قرآن پڑھتے ہوئے جلد بازی میں زبان نہیں ہلانی چاہئے۔ (القیامہ)
(۸)ایک ایک لفظ کھینچ کھینچ کر اور موتیوں کی صورت الگ پڑھنا چاہئے، جیسے ہر لفظ کا مزا لے کر پڑھا جائے، بخاری شریف میں باقاعدہ الفاظ کھینچ کر پڑھنے کا باب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ خوب کھینچ کر پڑھتے تھے۔
دوسری جگہ حدیث میں ہے:
فقال کانت مدثم قراء بسم اللہ الرحمن الرحیم یمد بسم اللہ و یمد بالرحمن ویمد بالرحیم ۔ (بخاری کتاب التفسیر)
(۹)ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، اللہ رب العزت کاارشاد ہے: ورتل القرآن ترتیلا۔(مزمل) کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے رات پوری مفصل سورتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن نہیں پڑھا بلکہ یہ تو گھاس کاٹنا ہوا۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں : یقطع قراتہ یقول الحمد للہ رب العالمین ثم یقف ویقول الرحمن الرحیم ثم یقف وکان یقرا مالک یوم الدین(شمائل ترمذی) کہ رسول اللہ ﷺہر آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے، کہ الحمدللہ رب العالمین پڑھتے پھر ٹھہر جاتے، پھر الرحمن الرحیم پڑھتے پھر رک جاتے پھر مالک یوم الدین پڑھتے۔ یعنی ہر آیت پر رکنا اور وقف کرنا ہی سنت اور ترتیل ہے۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں ترتیل سے القارعۃ اور اذازلزلت پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہوں، اس سے کہ سورہ بقرہ اور آل عمران بلا ترتیل پڑھوں۔
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قرآن پڑھنے والوں سے کہے گا کہ ترتیل سے پڑھتا جا جس طرح دنیا میں پڑھتا تھا اور جنت کے درجات طے کرتا جا۔ جہاں آیات ختم ہونگی وہی تیری منزل ہے۔ (سنن اربعہ، احمد ،ابن حبان، باب فضائل القرآن)۔
(۱۰) قرآن پاک کو جتنا بھی غور سے پڑھا جائے بہتر ہے کم از کم مدت ایک ماہ میں ختم کرنا چاہئے، اگر مزید استطاعت ہوتو پندرہ دن میں، مزید استطاعت ہو تو سات دن میں اس سے کم بالکل نہیں پڑھنا چاہئے۔
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے دو حدیثیں روایت ہیں جن میں ایک ماہ میں قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ، حد سات دن کا حکم ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اقرء القرآن فی شہر قلت انی اجد قوۃ حتی قال فاقراہ فی سبع ولا تزد علیہ۔ یعنی قرآن کو تم ایک ماہ میں پڑھو (حضرت عبداللہ کہتے ہیں) میں نے کہا میں اس سے زیادہ کی استطاعت رکھتا ہوں، فرمایا زیادہ سے زیادہ سات دن میں پڑھو اور سات سے کم میں بالکل نہیں( بخاری کتاب التفسیر)
اسی وجہ سے قرآن کی سات منازل بنائی گئی ہیں، تاکہ حفاظ و قراء ایک ہفتے میں قرآن کا دور کر سکیں، صحابہ کرام و تابعین نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے پورے قرآن کی کل سات منازل ہیں۔
ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لم یفقہ من قرء القرآن فی اقل من ثلث۔ یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے قرآن کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ (کتاب القرآن)۔
رمضان کریم : برکات وثمرات agu 2010
عبدالصبور ندویؔ جھنڈانگری
تقوی کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کوئی بھی کام کریں جس سے اللہ کی اطاعت ثابت ہو اور آپ اس کام پر اللہ سے ثواب کی امید رکھیں، نیز اللہ کے عقاب کے خوف سے ہر اس کام کو چھوڑ دیں جس سے اللہ کی معصیت ونافرمانی ہو۔
روزہ دارو! بندے کا تقوی اس وقت مکمل ہوجاتا ہے جب وہ جان لے کہ ہمیں کن چیزوں سے بچنا چاہئے اور وہ پھر اس پر عمل پیرا ہوجائے، چنانچہ یہ مہینہ ہمیں تقوی سیکھنے کی اور متقی بننے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اس لئے کہ تقویٰ ہی ہمارے روزوں کی حکمت ہے اور قرآن عظیم اس مہینہ کو تقوی کے نام سے موسوم کرکے اعلان کررہا ہے: ’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقی و پرہیز گار بن جاؤ‘‘ (البقرہ:۱۸۳)۔
شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: روزہ تقوی کے بڑے اسباب میں سے ہے،اس لئے کہ بندہ روزے کی حالت میں اللہ کا حکم بجالاتا ہے، منکرات سے بچتا ہے، وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جس کی طرف انسانی طبیعت فطری میلان رکھتی ہے، جیسے کھانا،پینا، جماع وغیرہ، آخرکیوں؟ اس لئے کہ بندہ اللہ کی قربت کی چاہ اور اس سے ثواب کی امید رکھتا ہے اوریہی تقوی کہلاتا ہے۔
روزہ دار اس ماہ مبارک میں اپنے نفس کی تربیت چاہتاہے،اسے اللہ کی نگرانی کا ہمہ وقت خیال رہتا ہے اور نفسانی خواہشات کو قربان کردیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
روزہ شیطان کے راستوں کو تنگ کردیتا ہے، اگرچہ وہ انسان کے ساتھ اس طرح لگا رہتا ہے جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے، اس کے باوجود اس کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور روزہ دار سے گناہوں کا ارتکاب کم ہوجاتاہے۔
روزہ دار بندہ اللہ کی اطاعت میں منہمک ہوجاتاہے، اللہ کی فرمانبرداری اس کا نصب العین بن جاتا ہے اور یہ جذبۂ اطاعت انسان کو پرہیز گار بناتی ہے، روزے کی حالت میں مالدار شخص کو جب بھوک کا درد ستائے تو اس پر واجب ہے کہ فقیروں اور ضرورت مندوں کو یاد کرے، ان کی خبر گیری کرے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا، یہ بھی تقوی کی صفت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو معصیت سے بچائے اور پرہیزگار و متقی بنائے۔ آمین
دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے اسی طرح جس طرح تم لڑائی کے وقت ڈھال کا استعمال کرتے ہو‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہر وہ چیز جو انسان کے لئے آڑ،ستر یا بچاؤ کا کام کرے وہ ڈھال ہے،محدث ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:روزہ جہنم کے لئے ڈھال اس لئے ہے کیونکہ انسان اپنے آپ کو نفسانی خواہشات و شہوات سے روکے رکھتا ہے اور جہنم شہوات سے گھیردی گئی ہے تو جو شخص شہوت نفس یا حرام لذتوں سے دنیا میں پرہیز کرے گا، آخرت میں جہنم اس کے لئے آڑ بن جائے گی۔(فتح الباری۴؍۱۰۴)
معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں انسان کو اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا چاہئے، جہالت بھرے کام ، شہوت، لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنا چاہئے، غیبت، چغلی اور ریاکاری سے بچنا چاہئے، تاکہ ہم سب کے لئے جہنم آڑ بن جائے اور اللہ کے روزہ دار بندے بآسانی جنت میں داخل ہوسکیں۔
حدیث میں روزہ دار کو جن چیزوں سے روکا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ عداوت ، تعصب اور شہوت نفس کو دعوت نہ دے، لیکن اگر مسئلہ سنگین ہو، آپ حق پر ہوں ، فریق مخالف آپ پر زیادتی کئے جارہا ہو، ایسی صورت میں آپ اس کی باتوں اور لڑائی کا مؤثر جواب دے سکتے ہیں،اس لئے کہ مقصد انصاف اور حق کی سربلندی ہے، مگر یاد رہے گالی گلوچ کا جواب گالی سے نہیں دیں گے اور مندرج ذیل حدیث کو یاد رکھیں گے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے،اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی کو رسوا کرے، اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھے، اس پر ظلم ڈھائے، تقویٰ تو یہاں ہے، آپ ﷺ نے تین مرتبہ اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کیا، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو سے کھلواڑ حرام ہے۔(مسلم)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں : بعض سلف کی رائے ہے کہ جب روزہ دا رسے کوئی شخص گالی گلوچ یا جھگڑا پر آمادہ ہو تو روزہ داربلند آواز سے یہ جملہ’’میں روزے سے ہوں‘‘کہے اس سے مخالف کے خاموش ہونے کی زیادہ امید ہے،یا اپنے نفس کو سمجھائے کہ میں روزے سے ہوں، اس کے گالی گلوچ میں کیوں پڑوں بلکہ اپنا راستہ ہی بدل لوں اور اپنے روزے کو آلودگی سے محفوظ رکھوں۔
اس حدیث سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ روزے کے علاوہ ایام میں گالی گلوچ، لڑنا جھگڑنا جائز ہے،یہ ناجائز ہے ہر حال میں، یہاں روزے کے ساتھ اس نہی کی تاکید کی گئی ہے کہ روزے کی حالت میں بندہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ دار کو غصہ پی جانا چاہئے، گفتگوکے آداب کا خیا ل رکھنا چاہئے اور ہر حال میں زبان کی حفاظت کرنی چاہئے، اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے: جو اپنے دونوں رخساروں کے بیچ (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے بیچ (شرمگاہ) کی ضمانت دے دے ، میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا ہوں۔
حضرت اکثم بن صیفی کہتے ہیں: انسان کی زبان اس کی قتل گاہ ہے، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا:پاؤں پھسلنے سے ہڈی کی چوٹ صحیح ہوسکتی ہے مگر زبان کی لغزش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
روزہ دارو! معلوم ہوا کہ ہم جو کچھ بھی بولیں سوچ کر بولیں، زبان سے غلط جملے اور فقرے نہ نکالیں، ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت ادب کے جامے میں رہیں، ہماری بات سے کسی کو تکلیف نہ پہونچے، ورنہ ہمارے روزوں کا ثواب گھٹ جائے گا، آئیے کو شش کریں اس جنت کے حصول کے لئے جس کی بشارت نبیﷺ نے دی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہمارا روزہ قبول نہیں ہوگا یا اس کا اجر وثواب ضائع ہوجائے گا، اگر ہم نے جھوٹ ، لغو اور بیہودہ چیزوں میں اپنا وقت ضائع کیا۔ علماء نے لکھا ہے: کہ حدیث میں لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جھوٹ اور اس کے متعلقات سے بچیں، اللہ نہ کرے اگر آپ سے کوئی جھوٹ سرزد ہوجائے تو اس کی وجہ سے اپنا روزہ ترک کردیں۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حدیث میں روزہ کی عدم قبولیت کی طرف اشارہ ہے جیسے کوئی مالک اپنے ملازم سے کوئی کام کرنے کو کہے اور وہ اس طرح نہ کرے جس طرح کہا تھا، تو مالک غصہ ہو جائے گا اور کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے تو جھوٹ کے مقابل اس کا روزہ ضائع کردیا جائے گا اور جو سالم حصہ بچے گا اسے قبول کرلیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا ، بلکہ تمہارا تقوی پہونچتا ہے، ظاہر ہے کہ اگر اس کی رضا کے مطابق کام نہیں ہوا تو پھر قبو ل کہاں سے ہوگا۔
مشہور مفسر علامہ بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: روزہ کی فرضیت کا مقصد یہ نہیں کہ انسان کو بھوکا اور پیاسا رکھا جائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی نفسانی شہوت کا زور ٹوٹ جائے اور بندہ اپنے نفس امارہ (برائیوں پر آمادہ کرنے والا) کو ترک کرکے نفس مطمئنہ (نیکیوں پر اکسانے والا) کی طرف راغب ہو جائے، اب اس کے بعد بھی روزہ کا مقصد حاصل نہ ہو تو اللہ اس کے روزے کو قبولیت کی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھے گا۔
معلوم ہوا کہ جھوٹ ایک مذموم شئی ہے، کفر ونفاق کی خصلت ہے اورانسان کو اس کے بلند مرتبے سے گرادیتا ہے، عزت کی رفعتوں سے حقارت و ذلت کے گڈھوں میں انسان کو پھینک دیتا ہے، اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں: لوگو! جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ یہ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائی انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے، ایک شخص جو برابر جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہتا ہے،اللہ کے یہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری،مسلم)
حضرت حسن بصر ی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ جھوٹ نفاق کی جڑ ہے،حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بعض گورنروں کو لکھا تھا: جھوٹ کا سہارا ہرگز مت لینا، اگر جھوٹ کی آمیزش کروگے ہلا ک وبرباد ہو جاؤگے۔
سحری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: سحری کھاؤ اس لئے کہ اس میں برکت ہے (بخاری ، مسلم) اس حدیث میں مسلمانوں کو سحری کھانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ وہ روزے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں اور اللہ کی برکت کے مستحق ہوں، یاد رہے برکت انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے، دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ کچھ لوگ سحری کو کوئی حیثیت نہیں دیتے، آدھی رات کو ہی کھا لیتے ہیںیا وہ نیند کے رسیا ہوتے ہیں یا اس کی برکتوں سے ناواقف ہوتے ہیں، یہ سنت کی مخالفت ہے، لہٰذا ہر روزہ دار کو سحری کا اہتمام کرنا چاہئے اور فجر سے کچھ پہلے اٹھ کر سحری کرنی چاہئے، حضرت سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار جلدی اور سحری میں تاخیر کرتے رہیں گے۔ (بخاری، مسلم)، افطار کے جلدی کا مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبے ،آپ افطار کرلیں، سیاہی کے پھیلنے کا انتظار نہ کریں اور سحری فجر (صبح صادق) کے وقت سے پہلے (یعنی رات کے آخری لمحات میں) کرنی چاہئے تاکہ فجر کی نماز جماعت سے ادا کرسکیں۔
سحری مسلمانوں کا شعار ہے اور یہود ونصاریٰ کی مخالفت، جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری ہے (مسلم)۔
سحری میں آدمی کچھ بھی کھائے لیکن رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے شروع کرے، کھجور دستیاب نہ ہو تو پانی سے افطار کرے، اس لئے کہ وہ پاک شئی ہے۔ (احمد،ترمذی،ابوداؤد)
بعض لوگ افطار میں سنت کی پیروی نہیں کرتے، انہیں دسترخوان پر جو مرغوب غذا نظر آئی، اسی سے شروع کردیا، حالانکہ اب کھجور و چھوہارے کی متعدد اقسام تقریبا دنیا کے سبھی خطہ میں پائی جاتی ہیں، لہٰذا اس کا اہتمام نہ کرنا بھی خلاف سنت ہے، اگر بازار میں دستیاب نہیں یا خریدنے کی طاقت نہیں تو ایسی صورت میں پانی سے افطار کرنا مستحب ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: روزے کی حالت میں معدہ جب غذا سے خالی ہوتا ہے، تو اس میں پہونچنے والی میٹھی چیز کھجور وغیرہ کلیجہ کو تقویت بخشتی ہے، کلیجہ بہت تیزی سے اس کی مٹھاس کوجذب کرکے جسم کے دوسرے حصوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے اورپانی معدے کی حرارت و جلن کو ختم کردیتا ہے۔
آج ہم بہت سے روزہ دار بھائیوں کو دیکھتے ہیں کہ ماہ رمضان کو کھانے پینے کا مہینہ بنالیتے ہیں، انواع و اقسام کے پکوان سے دسترخوان سجائے جاتے ہیں، خود اپنے لئے بہت ساری نئی ڈشوں کا اہتمام کرتے ہیں، جو رمضان کے علاوہ دنوں میں نہیں ہوتا، بازاروں میں لذیذ اشیاء کی خرید کے لئے وہ بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے جو عام دنوں میں دکھائی نہیں دیتی، اگر یہ بھیڑ اور کثرت خریداری ان مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے ہے جن کے یہاں افطار و سحری کا انتظام نہیں ہے یا مشکل سے گذر بسر ہے، تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن اگر نیت یہ ہے کہ دن بھر بھوکے رہنے کے بعد طرح طرح کے پکوان سے افطار و کھانے میں جم کر اپنا پیٹ بھرنا ہے ، تو یہ آپ کے لئے ہرگز مناسب نہیں، کیونکہ آپ زیادہ کھانے کے نتیجے میں اپنے جسم کو بوجھل بناتے ہیں، عبادات کی ادائیگی سے آپ کی طبیعت بھاگنے لگتی ہے اور اسلام ہر اس فعل کو ناپسند کرتا ہے جو مسلمان کو اللہ کے ذکر سے غافل کردے ، لہٰذا زیادہ کھانا یا کھانوں و پھلوں کا پھینک دینایہ اسراف (فضول خرچی)ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کھاؤ اور پیؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرو، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تمام میڈیکل (طب)جمع کردیا ہے، اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: ابن آدم کے پیٹ کا شریر برتن نہیں بھرتاہے، حالانکہ اس کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں،جو اس کو متحرک رکھ سکیں، اگر تھوڑے سے کام نہ چلے تو اپنے پیٹ کے تین حصے کرلو، ایک حصہ کھانے کے لئے، دوسرا پینے کے لئے اور تیسرا سانس لینے کے لئے۔ (مسند احمد)
زیادہ کھانا جہاں بدن کو مرض میں مبتلا کرتا ہے وہیں شیطان کو اپنے اوپر مسلط ہونے کی بھی دعوت دیتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو پیٹ بھر کر کھاتا ہے وہ اللہ کے ذکر کی لذت و حلاوت کو نہیں پاسکتا ، بعض حکماء کا کہنا ہے کہ کھانا کم کرو، اچھے خواب دیکھو گے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کثرت طعام بہت ساری برائیوں کو جنم دیتی ہے، اعضاء و جوارح کو معصیت پر اکساتی ہے، اللہ کی اطاعت سے بندے کو غافل کردیتی ہے، یہ بہت بڑا شرہے، اندازہ لگائیے کہ خوراک میں اعتدال نہ برتنے والے کتنی نافرمانیوں کا شکار ہوتے ہیں اور اللہ کی اطاعت میں یہ کثرت اکل حائل بن جاتی ہے، لہٰذا جو شخص اپنے پیٹ کے شر سے محفوظ رہا، وہ عظیم برائی سے بچ گیا، اس لئے کہ شیطان پیٹو شخص پر بآسانی غلبہ پالیتا ہے۔
مشہور محدث اور فقیہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح یوں کرتے ہیں: اس حدیث کے دو معانی ہیں۔ (۱)جس شخص نے اللہ کی عبادت و اطاعت کی اور دنیا میں اپنے عمل کے ذریعہ اس کی خوشنودی طلب کی اور کبھی اطاعت کے نتیجے میں لوگوں کو اس کی کچھ چیزیں ناپسند ہوجاتی ہیں، مگر وہ اللہ کے نزدیک محبوب ہیں کیونکہ بندے نے اپنی نہیں بلکہ اللہ کی مرضی کی اتباع اور چاہت کی ہے، چنانچہ عبادت گذار بندوں کو اپنے منہ کی بو کی فکر نہیں کرنی چاہئے، اگر چہ دنیا والے اسے ناپسند کرتے ہوں۔
(۲) روزہ اس فانی دنیا میں اللہ اور بندے کے دمیان ایک راز ہوتا ہے، جسے وہ آخرت کے دن تمام مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گااور اس دن روزہ داروں کی شہرت ہوگی اور وہ اپنے روزوں کی وجہ سے سب میں نمایاں ہوں گے، کبھی روزہ دار کو آخرت سے پہلے ہی اللہ ایسی خوشبو سے نوازتا ہے جسے دیکھ کر دنیا والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔جسے انسان اپنے حواس (دیکھنے، سننے، سونگھنے) سے محسوس کرے، عبداللہ بن غالب رحمہ اللہ بہت بڑے عابد اور مجتہد گذرے ہیں، جب وہ دفن کئے گئے تو ان کے قبر کی مٹی سے مشک کی خوشبو بکھر رہی تھی، ان کے کسی ساتھی نے خواب میں انہیں دیکھا تو خوشبو کے بارے میں پوچھا ، انہوں نے جواب دیا وہ روزہ اور تلاوت کی خوشبو تھی۔
۲۔ جو دلوں اور روحوں کو معطر کردے، یہ ان روزہ دار بندوں کو حاصل ہوتا ہے جن کا عمل اخلاص پر مبنی ہوتا ہے، ریاء و نمود کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا اور ایسے لوگوں سے تمام مومن دلی محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ان کے لئے اللہ محبت پیدا کردے گا۔(مریم:۹۶)
اللہ تعالیٰ وقت کی اہمیت کے پیش نظر اس کی قسم کھا کے کہتا ہے: قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے(الضحیٰ۱،۲) دوسری جگہ سورہ عصر میں فرماتا ہے: قسم ہے زمانے کی (یعنی شب وروز کی گردش کی) بیشک انسان گھاٹے اور خسارے میں ہے، معلوم ہوا کہ وقت امانت ہے اور قیامت کے دن وقت کے متعلق سوال ہوگا، حدیث میں آتا ہے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن بندے کے دونوں پاؤں اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے:
(۱) اپنی عمر کن چیزوں میں صرف کی۔ (۲) جوانی کہاں خرچ کی۔ (۳) مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (۴)اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا۔ (ترمذی)
دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جس میں اکثر لوگ غفلت کا شکار ہیں: صحت اور خالی وقت۔ (بخاری)یقین مانیں ، اگر یہ دونوں چیزیں کسی شخص کے پاس اکٹھی ہوجائیں، تو اس پر سستی اور نافرمانی کا غلبہ ہوجاتا ہے،اسے وقت کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہوتا ، حالانکہ عبداللہ بن عمرؓ کہتے تھے: جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرنا اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرنا،اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ (بخاری)
ہماری عبادتوں کا وقت سے بہت گہرا رشتہ ہے اگر ان عبادتوں کو وقت پر ادا نہ کیا جائے تو ہمارے اجر و ثواب ضائع ہوجاتے ہیں،جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل عمل نماز کا وقت پر پڑھنا ہے، اسی طرح آپ نے فرمایا: روزہ رکھو چاند دیکھ کراور عید بھی مناؤ چاند دیکھ کر۔
معلوم ہوا کہ سارے نظام کا دارومدار وقت پر ہے اور رمضان کے مقدس مہینے میں ٹی وی دیکھنے یا بہت زیادہ سونے، فالتو اور فضول باتوں سے ہر مسلمان کو بچنا ہوگا۔ ان اوقات کی قدر کرنی ہوگی، جنہوں نے وقت کی قدر نہیں سیکھی وہ دنیا میں رسوا ہوئے اور آخرت میں بھی ہونگے، لہٰذا اللہ کا یہ قول ہمیشہ ذہن نشین رکھیں وہ فرماتا ہے تم سب اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کئے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے، ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہے، ہائے افسوس!میں نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی، بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا۔ (ترمذی)
اللہ ہم سب کو وقت کی قدر و حفاظت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
روزہ بڑی عظیم عبادت ہے، اگر یہ دونوں شرطیں ہمارے روزوں سے مفقود ہیں یا کوئی ایک، تو ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی، اخلاص ہماری ہر عبادت اور ہر عمل کے لئے لازمی شئے ہے، آیئے دیکھتے ہیں کہ اخلاص کسے کہتے ہیں: اخلاص نام ہے اعمال وعبادات کا ہر طرح کے عیب و آمیزش سے پاک وصاف ہونا۔
بندہ جب تہیہ کرلیتا ہے کہ اس کا ہر عمل اللہ کے حکم و اس کے ارادے کے موافق ہوگا،نفسانی آمیزش سے پرہیز کرے گا، وہ مخلص کہلائے گا، روزہ بھی عموما اخلاص سے پرہوتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بندہ اپنا کھانا پینا اور تمام خواہشات میرے لئے ترک کردیتا ہے ،اس کا روزہ صرف میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔(بخاری)
اس حدیث میں روزہ دار کا اخلاص صاف جھلکتا ہے، اگر یہی کھانا پینا روزہ دار کسی اورکے لئے چھوڑے ، مثلا لوگوں کو بتانے کے لئے، شہرت کے لئے کہ روزہ رکھ رہا ہوں (حالانکہ ایسا کم ہوتا ہے) پھر وہ ریاکاری ہوگی، خلوص کا نام ونشان نہ ہوگا، علماء نے لکھا ہے : روزہ ایک خاموش عبادت ہے بندہ اور رب کے درمیان ایک راز کی مانند ہے جہاں صرف اخلاص ہے، ریاء کو داخل ہونے کا موقع شاذ ونادر ہی ملتا ہے۔
اخلاص نہایت پاکیزہ اور محبوب شئی ہے، مخلص شخص سماج اور خاندان میں اثر انداز ہوتا ہے اور ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے، جس پر چل کر نسلیں نجات و کامرانی کی حقدار بن جاتی ہیں،مخلص بندہ نیکی کے سارے کام دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوکے کرتا ہے ، جب وہ دائیں ہاتھ سے کسی کو صدقہ دیتا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی،اشعب بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی ایک گلی میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا تمہارے خاندان میں کتنے افرادہیں؟ اشعب جو نہایت مسکین آدمی تھے، افراد کی تعداد بتائی۔ اس کے بعد اس شخص نے اشعب سے کہا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے اہل وعیال کے کھانے پینے اورکپڑے کا برابر انتظام کرتارہوں جب تک تم زندہ ہو، کہا: کس نے حکم دیا ہے ،جواب ملا : میں نہیں بتا سکتا، پھر میں نے کہا: میں اس کی نیکی پر بیحد ممنون ومشکور ہوں، وہ شخص گویا ہوا: جس نے مجھے حکم دیا ہے وہ تمہارے شکریہ کے جواب سے معذور ہے، اشعب کہتے ہیں: میں برابر وظیفہ (خرچ) لیتا رہا، یہاں تک کہ خالد بن عبداللہ کا انتقال ہوا، لوگوں کی بھیڑ لگ گئی میں بھی جنازے میں شریک تھا کہ اس شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا:اے اشعب! یہی وہ ہستی تھی جو تمہارے نان ونفقہ کا انتظام کرتی تھی اور میں تمہیں دیا کرتا تھا۔
پردے کے پیچھے یہ وہ صاحب خیر تھے جو مدینہ میں بے شمار خاندانوں کی کفالت کرتے تھے اور لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ تھی، یہ صرف ان کا خلوص تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت کی صبحوں میں برکت رکھی ہے، اگر ہمارے پڑھنے لکھنے،تجارت، بازار وغیرہ غرضیکہ سارے کام فجر کے معاً بعد شروع ہو جایا کریں تو یقیناًہم اللہ رب العزت کی بے پناہ برکتوں سے فیضیاب ہوسکتے ہیں اللہ نے امت محمدیہ کو بہترین امت قرار دیکر اس کی تکریم کی، اللہ ہماری عزت افزائی کررہا ہے اور ہم اس کا شکریہ بھی ادا کرنے سے قاصر رہیں!!
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو دنیا کے احوال پر نظر رکھتا ہے وہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ سدیدالرأی اور عقلمند پائے گا، انہوں نے مختصر مدت میں علم و عمل کی دنیا سے کئی گنا دولت کمائی، جو ان کے سوا دوسری اقوام کئی صدیوں اور نسلوں میں بھی نہ پاسکیں۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: پیارے نبی ﷺ کی نبوت کی یہ برکت ہے کہ اللہ نے لوگوں کو ہدایت بخشی اور اس ہدایت سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹے، ہر ایک نے اپنی بساط بھر فائدہ اٹھایا، علم نافع اور عمل صالح کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا، بلند اخلاق کی حامل ایک ایسی امت بن کر ابھر ی جو علم و عمل کا پیکر تھی ہر آلودگی سے پاک تھی اور اس پر ہر مسلمان اللہ کا شکر بجالاتا تھا۔
میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ ان شکر گزار بندوں جن کی آمدنی بیحد کم ہوتی ہے، اس میں اتنی برکت دیتا ہے،کہ وہ شخص سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ کا م کیسے ہوگیا؟ وہ فورا اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہے، برکت کے حصول کے لئے سب سے اہم چیز ہے کہ ہر معاملے میں سنت صحیحہ کی اتباع کی جائے، شریعت کے مطابق ہمارا عمل ہو، لین دین اور بزنس و تجارت میں ہر قسم کے عیب، جھوٹ اور سود سے بچیں، سچائی اور راست بازی کے اختیار کرنے سے ہی آپ اللہ کی برکتوں کے مستحق ہوسکتے ہیں، گھروں میں اگر کوئی شخص دین کی گفتگو کرتا ہے، یا علم دین کے حصول میں منہمک ہے تو ایسے لوگوں کی قدر ہونی چاہئے اس لئے بہت ممکن ہے کہ آپ کے گھر میں آمدنی اور برکت اسی علم کے نتیجہ میں آرہی ہے۔
روزہ دارو! ضرورت ہے کہ ہم اللہ کی برکتوں کو تلاش کریں، اس کی خوشبوؤں سے اپنے گھروں کو معطر کریں، یہ ممکن ہے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ، توبہ اور گناہوں سے دوری برتنے پر، اخلاص اور سنت نبوی کی اطاعت میں۔
اللہ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازے۔(آمین)
وصلی اللہ علی النبی الکریم
رمضان کریم : برکات وثمرات
الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ، أمابعد: تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ
محترم اسلامی بھائیو! رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے، یہ مہینہ ہمیں بہت سارے دروس دیتا ہے، ان میں سب سے بڑا درس تقوی و پرہیز گاری کا درس ہے، تقوی مومن کا بہترین لباس ہے اس کا بہترین توشہ ہے، مصیبت کے وقت اس کا بہترین ساتھی ہے، اس کے صبر و سکون کی جگہ ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی وصیت ہے تمام بنی آدم کے لئے۔تقوی کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کوئی بھی کام کریں جس سے اللہ کی اطاعت ثابت ہو اور آپ اس کام پر اللہ سے ثواب کی امید رکھیں، نیز اللہ کے عقاب کے خوف سے ہر اس کام کو چھوڑ دیں جس سے اللہ کی معصیت ونافرمانی ہو۔
روزہ دارو! بندے کا تقوی اس وقت مکمل ہوجاتا ہے جب وہ جان لے کہ ہمیں کن چیزوں سے بچنا چاہئے اور وہ پھر اس پر عمل پیرا ہوجائے، چنانچہ یہ مہینہ ہمیں تقوی سیکھنے کی اور متقی بننے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اس لئے کہ تقویٰ ہی ہمارے روزوں کی حکمت ہے اور قرآن عظیم اس مہینہ کو تقوی کے نام سے موسوم کرکے اعلان کررہا ہے: ’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقی و پرہیز گار بن جاؤ‘‘ (البقرہ:۱۸۳)۔
شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: روزہ تقوی کے بڑے اسباب میں سے ہے،اس لئے کہ بندہ روزے کی حالت میں اللہ کا حکم بجالاتا ہے، منکرات سے بچتا ہے، وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جس کی طرف انسانی طبیعت فطری میلان رکھتی ہے، جیسے کھانا،پینا، جماع وغیرہ، آخرکیوں؟ اس لئے کہ بندہ اللہ کی قربت کی چاہ اور اس سے ثواب کی امید رکھتا ہے اوریہی تقوی کہلاتا ہے۔
روزہ دار اس ماہ مبارک میں اپنے نفس کی تربیت چاہتاہے،اسے اللہ کی نگرانی کا ہمہ وقت خیال رہتا ہے اور نفسانی خواہشات کو قربان کردیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
روزہ شیطان کے راستوں کو تنگ کردیتا ہے، اگرچہ وہ انسان کے ساتھ اس طرح لگا رہتا ہے جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے، اس کے باوجود اس کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور روزہ دار سے گناہوں کا ارتکاب کم ہوجاتاہے۔
روزہ دار بندہ اللہ کی اطاعت میں منہمک ہوجاتاہے، اللہ کی فرمانبرداری اس کا نصب العین بن جاتا ہے اور یہ جذبۂ اطاعت انسان کو پرہیز گار بناتی ہے، روزے کی حالت میں مالدار شخص کو جب بھوک کا درد ستائے تو اس پر واجب ہے کہ فقیروں اور ضرورت مندوں کو یاد کرے، ان کی خبر گیری کرے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا، یہ بھی تقوی کی صفت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو معصیت سے بچائے اور پرہیزگار و متقی بنائے۔ آمین
روزہ ڈھال ہے
اللہ رب العزت نے اس روزہ کو بہت ساری چیزوں سے نجات کا ذریعہ بنادیا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال اور آڑ ہے، پس کوئی شخص شہوت نفس کا کام نہ کرے، جاہلوں کی عادت وطریقہ کو نہ اپنائے اور نہ ہی شوروشغب برپا کرے‘‘ (بخاری، مسلم)دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے اسی طرح جس طرح تم لڑائی کے وقت ڈھال کا استعمال کرتے ہو‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہر وہ چیز جو انسان کے لئے آڑ،ستر یا بچاؤ کا کام کرے وہ ڈھال ہے،محدث ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:روزہ جہنم کے لئے ڈھال اس لئے ہے کیونکہ انسان اپنے آپ کو نفسانی خواہشات و شہوات سے روکے رکھتا ہے اور جہنم شہوات سے گھیردی گئی ہے تو جو شخص شہوت نفس یا حرام لذتوں سے دنیا میں پرہیز کرے گا، آخرت میں جہنم اس کے لئے آڑ بن جائے گی۔(فتح الباری۴؍۱۰۴)
معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں انسان کو اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا چاہئے، جہالت بھرے کام ، شہوت، لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنا چاہئے، غیبت، چغلی اور ریاکاری سے بچنا چاہئے، تاکہ ہم سب کے لئے جہنم آڑ بن جائے اور اللہ کے روزہ دار بندے بآسانی جنت میں داخل ہوسکیں۔
حدیث میں روزہ دار کو جن چیزوں سے روکا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ عداوت ، تعصب اور شہوت نفس کو دعوت نہ دے، لیکن اگر مسئلہ سنگین ہو، آپ حق پر ہوں ، فریق مخالف آپ پر زیادتی کئے جارہا ہو، ایسی صورت میں آپ اس کی باتوں اور لڑائی کا مؤثر جواب دے سکتے ہیں،اس لئے کہ مقصد انصاف اور حق کی سربلندی ہے، مگر یاد رہے گالی گلوچ کا جواب گالی سے نہیں دیں گے اور مندرج ذیل حدیث کو یاد رکھیں گے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے،اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی کو رسوا کرے، اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھے، اس پر ظلم ڈھائے، تقویٰ تو یہاں ہے، آپ ﷺ نے تین مرتبہ اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کیا، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو سے کھلواڑ حرام ہے۔(مسلم)
میں روزے سے ہوں
روزے کا یہ مہینہ ہمیں صبر، بردباری اور برائی کا جواب بھلائی سے دینے کی تعلیم دیتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو اس روزہ دارکو چاہئے کہ وہ لعن طعن، گالی گلوچ، چیخ پکار اور شور شرابہ جیسے کام ہرگز نہ کرے، اگر روزہ دار کو کوئی دوسرا شخص گالی دے یا جھگڑے پر آمادہ کرے تو روزہ دار کہے’’میں روزے سے ہوں‘‘ ۔ (بخاری، مسلم)امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں : بعض سلف کی رائے ہے کہ جب روزہ دا رسے کوئی شخص گالی گلوچ یا جھگڑا پر آمادہ ہو تو روزہ داربلند آواز سے یہ جملہ’’میں روزے سے ہوں‘‘کہے اس سے مخالف کے خاموش ہونے کی زیادہ امید ہے،یا اپنے نفس کو سمجھائے کہ میں روزے سے ہوں، اس کے گالی گلوچ میں کیوں پڑوں بلکہ اپنا راستہ ہی بدل لوں اور اپنے روزے کو آلودگی سے محفوظ رکھوں۔
اس حدیث سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ روزے کے علاوہ ایام میں گالی گلوچ، لڑنا جھگڑنا جائز ہے،یہ ناجائز ہے ہر حال میں، یہاں روزے کے ساتھ اس نہی کی تاکید کی گئی ہے کہ روزے کی حالت میں بندہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ دار کو غصہ پی جانا چاہئے، گفتگوکے آداب کا خیا ل رکھنا چاہئے اور ہر حال میں زبان کی حفاظت کرنی چاہئے، اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے: جو اپنے دونوں رخساروں کے بیچ (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے بیچ (شرمگاہ) کی ضمانت دے دے ، میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا ہوں۔
حضرت اکثم بن صیفی کہتے ہیں: انسان کی زبان اس کی قتل گاہ ہے، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا:پاؤں پھسلنے سے ہڈی کی چوٹ صحیح ہوسکتی ہے مگر زبان کی لغزش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
روزہ دارو! معلوم ہوا کہ ہم جو کچھ بھی بولیں سوچ کر بولیں، زبان سے غلط جملے اور فقرے نہ نکالیں، ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت ادب کے جامے میں رہیں، ہماری بات سے کسی کو تکلیف نہ پہونچے، ورنہ ہمارے روزوں کا ثواب گھٹ جائے گا، آئیے کو شش کریں اس جنت کے حصول کے لئے جس کی بشارت نبیﷺ نے دی ہے۔
اللہ کو ایسے روزے پسند نہیں
ہم روزہ رکھ کر اگر ایسے کام کریں جو اللہ کے غضب وناپسندیدگی کا سبب بنتے ہوں، پھر ہمارے روزوں کا کیا ہوگا؟ حدیث نبوی دیکھئے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو ایسے بندے اور روزے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ بیٹھے۔ (بخاری، مسلم)اس کا مطلب ہے کہ ہمارا روزہ قبول نہیں ہوگا یا اس کا اجر وثواب ضائع ہوجائے گا، اگر ہم نے جھوٹ ، لغو اور بیہودہ چیزوں میں اپنا وقت ضائع کیا۔ علماء نے لکھا ہے: کہ حدیث میں لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جھوٹ اور اس کے متعلقات سے بچیں، اللہ نہ کرے اگر آپ سے کوئی جھوٹ سرزد ہوجائے تو اس کی وجہ سے اپنا روزہ ترک کردیں۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حدیث میں روزہ کی عدم قبولیت کی طرف اشارہ ہے جیسے کوئی مالک اپنے ملازم سے کوئی کام کرنے کو کہے اور وہ اس طرح نہ کرے جس طرح کہا تھا، تو مالک غصہ ہو جائے گا اور کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے تو جھوٹ کے مقابل اس کا روزہ ضائع کردیا جائے گا اور جو سالم حصہ بچے گا اسے قبول کرلیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا ، بلکہ تمہارا تقوی پہونچتا ہے، ظاہر ہے کہ اگر اس کی رضا کے مطابق کام نہیں ہوا تو پھر قبو ل کہاں سے ہوگا۔
مشہور مفسر علامہ بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: روزہ کی فرضیت کا مقصد یہ نہیں کہ انسان کو بھوکا اور پیاسا رکھا جائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی نفسانی شہوت کا زور ٹوٹ جائے اور بندہ اپنے نفس امارہ (برائیوں پر آمادہ کرنے والا) کو ترک کرکے نفس مطمئنہ (نیکیوں پر اکسانے والا) کی طرف راغب ہو جائے، اب اس کے بعد بھی روزہ کا مقصد حاصل نہ ہو تو اللہ اس کے روزے کو قبولیت کی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھے گا۔
معلوم ہوا کہ جھوٹ ایک مذموم شئی ہے، کفر ونفاق کی خصلت ہے اورانسان کو اس کے بلند مرتبے سے گرادیتا ہے، عزت کی رفعتوں سے حقارت و ذلت کے گڈھوں میں انسان کو پھینک دیتا ہے، اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں: لوگو! جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ یہ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائی انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے، ایک شخص جو برابر جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہتا ہے،اللہ کے یہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری،مسلم)
حضرت حسن بصر ی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ جھوٹ نفاق کی جڑ ہے،حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بعض گورنروں کو لکھا تھا: جھوٹ کا سہارا ہرگز مت لینا، اگر جھوٹ کی آمیزش کروگے ہلا ک وبرباد ہو جاؤگے۔
سحری اور افطار
رمضان کی اس بابرکت فضا میں اگر سحری اور افطا ر کا ذکر نہ ہو تو روزے کا لطف بے مزہ ہوجائے گا، آئیے اس کی فضیلت و اہمیت ملاحظہ کرتے ہیں:سحری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: سحری کھاؤ اس لئے کہ اس میں برکت ہے (بخاری ، مسلم) اس حدیث میں مسلمانوں کو سحری کھانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ وہ روزے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں اور اللہ کی برکت کے مستحق ہوں، یاد رہے برکت انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے، دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ کچھ لوگ سحری کو کوئی حیثیت نہیں دیتے، آدھی رات کو ہی کھا لیتے ہیںیا وہ نیند کے رسیا ہوتے ہیں یا اس کی برکتوں سے ناواقف ہوتے ہیں، یہ سنت کی مخالفت ہے، لہٰذا ہر روزہ دار کو سحری کا اہتمام کرنا چاہئے اور فجر سے کچھ پہلے اٹھ کر سحری کرنی چاہئے، حضرت سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار جلدی اور سحری میں تاخیر کرتے رہیں گے۔ (بخاری، مسلم)، افطار کے جلدی کا مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبے ،آپ افطار کرلیں، سیاہی کے پھیلنے کا انتظار نہ کریں اور سحری فجر (صبح صادق) کے وقت سے پہلے (یعنی رات کے آخری لمحات میں) کرنی چاہئے تاکہ فجر کی نماز جماعت سے ادا کرسکیں۔
سحری مسلمانوں کا شعار ہے اور یہود ونصاریٰ کی مخالفت، جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری ہے (مسلم)۔
سحری میں آدمی کچھ بھی کھائے لیکن رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے شروع کرے، کھجور دستیاب نہ ہو تو پانی سے افطار کرے، اس لئے کہ وہ پاک شئی ہے۔ (احمد،ترمذی،ابوداؤد)
بعض لوگ افطار میں سنت کی پیروی نہیں کرتے، انہیں دسترخوان پر جو مرغوب غذا نظر آئی، اسی سے شروع کردیا، حالانکہ اب کھجور و چھوہارے کی متعدد اقسام تقریبا دنیا کے سبھی خطہ میں پائی جاتی ہیں، لہٰذا اس کا اہتمام نہ کرنا بھی خلاف سنت ہے، اگر بازار میں دستیاب نہیں یا خریدنے کی طاقت نہیں تو ایسی صورت میں پانی سے افطار کرنا مستحب ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: روزے کی حالت میں معدہ جب غذا سے خالی ہوتا ہے، تو اس میں پہونچنے والی میٹھی چیز کھجور وغیرہ کلیجہ کو تقویت بخشتی ہے، کلیجہ بہت تیزی سے اس کی مٹھاس کوجذب کرکے جسم کے دوسرے حصوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے اورپانی معدے کی حرارت و جلن کو ختم کردیتا ہے۔
کھا ؤ اور پیؤ مگر..
روزے کے جہاں بہت سارے آداب ہیں جن کی ہم رعایت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہی میں سے کھانے پینے کے آداب بھی ہیں جن کا پاس ولحاظ بیحد ضروری ہے۔آج ہم بہت سے روزہ دار بھائیوں کو دیکھتے ہیں کہ ماہ رمضان کو کھانے پینے کا مہینہ بنالیتے ہیں، انواع و اقسام کے پکوان سے دسترخوان سجائے جاتے ہیں، خود اپنے لئے بہت ساری نئی ڈشوں کا اہتمام کرتے ہیں، جو رمضان کے علاوہ دنوں میں نہیں ہوتا، بازاروں میں لذیذ اشیاء کی خرید کے لئے وہ بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے جو عام دنوں میں دکھائی نہیں دیتی، اگر یہ بھیڑ اور کثرت خریداری ان مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے ہے جن کے یہاں افطار و سحری کا انتظام نہیں ہے یا مشکل سے گذر بسر ہے، تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن اگر نیت یہ ہے کہ دن بھر بھوکے رہنے کے بعد طرح طرح کے پکوان سے افطار و کھانے میں جم کر اپنا پیٹ بھرنا ہے ، تو یہ آپ کے لئے ہرگز مناسب نہیں، کیونکہ آپ زیادہ کھانے کے نتیجے میں اپنے جسم کو بوجھل بناتے ہیں، عبادات کی ادائیگی سے آپ کی طبیعت بھاگنے لگتی ہے اور اسلام ہر اس فعل کو ناپسند کرتا ہے جو مسلمان کو اللہ کے ذکر سے غافل کردے ، لہٰذا زیادہ کھانا یا کھانوں و پھلوں کا پھینک دینایہ اسراف (فضول خرچی)ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کھاؤ اور پیؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرو، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تمام میڈیکل (طب)جمع کردیا ہے، اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: ابن آدم کے پیٹ کا شریر برتن نہیں بھرتاہے، حالانکہ اس کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں،جو اس کو متحرک رکھ سکیں، اگر تھوڑے سے کام نہ چلے تو اپنے پیٹ کے تین حصے کرلو، ایک حصہ کھانے کے لئے، دوسرا پینے کے لئے اور تیسرا سانس لینے کے لئے۔ (مسند احمد)
زیادہ کھانا جہاں بدن کو مرض میں مبتلا کرتا ہے وہیں شیطان کو اپنے اوپر مسلط ہونے کی بھی دعوت دیتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو پیٹ بھر کر کھاتا ہے وہ اللہ کے ذکر کی لذت و حلاوت کو نہیں پاسکتا ، بعض حکماء کا کہنا ہے کہ کھانا کم کرو، اچھے خواب دیکھو گے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کثرت طعام بہت ساری برائیوں کو جنم دیتی ہے، اعضاء و جوارح کو معصیت پر اکساتی ہے، اللہ کی اطاعت سے بندے کو غافل کردیتی ہے، یہ بہت بڑا شرہے، اندازہ لگائیے کہ خوراک میں اعتدال نہ برتنے والے کتنی نافرمانیوں کا شکار ہوتے ہیں اور اللہ کی اطاعت میں یہ کثرت اکل حائل بن جاتی ہے، لہٰذا جو شخص اپنے پیٹ کے شر سے محفوظ رہا، وہ عظیم برائی سے بچ گیا، اس لئے کہ شیطان پیٹو شخص پر بآسانی غلبہ پالیتا ہے۔
مشک سے زیادہ معطر
اللہ رب العزت نے ہمیں روزے کی شکل میں اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین موقع عطا فرمایا ہے، اللہ کے بندے اس ماہ مبارک میں اطاعت کے سارے کام بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں، صبح سے شام تک مستقل بھوکے اور پیاسے رہنے کا جو عمل دہراتے ہیں، اللہ کے یہاں اس عمل پر بے پناہ اجر و ثواب ہے، جسے ہم شمار نہیں کرسکتے، صبح سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھانے پینے کے سبب روزہ دار کے منہ سے بو آنے لگتی ہے، جو بعض لوگوں کو پسند نہیں آتی، مگر اس اللہ وحدہ لاشریک کو، جس کے ہم بندے ہیں، اسے بے انتہا پسند آتی ہے، حدیث میں اس کا ذکر یوں آتا ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ معطر اور پاکیزہ ہے۔ (بخاری، مسلم)مشہور محدث اور فقیہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح یوں کرتے ہیں: اس حدیث کے دو معانی ہیں۔ (۱)جس شخص نے اللہ کی عبادت و اطاعت کی اور دنیا میں اپنے عمل کے ذریعہ اس کی خوشنودی طلب کی اور کبھی اطاعت کے نتیجے میں لوگوں کو اس کی کچھ چیزیں ناپسند ہوجاتی ہیں، مگر وہ اللہ کے نزدیک محبوب ہیں کیونکہ بندے نے اپنی نہیں بلکہ اللہ کی مرضی کی اتباع اور چاہت کی ہے، چنانچہ عبادت گذار بندوں کو اپنے منہ کی بو کی فکر نہیں کرنی چاہئے، اگر چہ دنیا والے اسے ناپسند کرتے ہوں۔
(۲) روزہ اس فانی دنیا میں اللہ اور بندے کے دمیان ایک راز ہوتا ہے، جسے وہ آخرت کے دن تمام مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گااور اس دن روزہ داروں کی شہرت ہوگی اور وہ اپنے روزوں کی وجہ سے سب میں نمایاں ہوں گے، کبھی روزہ دار کو آخرت سے پہلے ہی اللہ ایسی خوشبو سے نوازتا ہے جسے دیکھ کر دنیا والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔جسے انسان اپنے حواس (دیکھنے، سننے، سونگھنے) سے محسوس کرے، عبداللہ بن غالب رحمہ اللہ بہت بڑے عابد اور مجتہد گذرے ہیں، جب وہ دفن کئے گئے تو ان کے قبر کی مٹی سے مشک کی خوشبو بکھر رہی تھی، ان کے کسی ساتھی نے خواب میں انہیں دیکھا تو خوشبو کے بارے میں پوچھا ، انہوں نے جواب دیا وہ روزہ اور تلاوت کی خوشبو تھی۔
۲۔ جو دلوں اور روحوں کو معطر کردے، یہ ان روزہ دار بندوں کو حاصل ہوتا ہے جن کا عمل اخلاص پر مبنی ہوتا ہے، ریاء و نمود کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا اور ایسے لوگوں سے تمام مومن دلی محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ان کے لئے اللہ محبت پیدا کردے گا۔(مریم:۹۶)
وقت کی قدر کیجئے
جس طرح ہماری عمروں کا وقت سانسوں میں مقرر ہے، اسی طرح ماہ مبارک گنتی کے چند ایام ہیں، یہ وہ قیمتی مہینہ ہے جس کا لمحہ لمحہ اللہ کی اطاعت و اس کے اجر وثواب کے حصول میں صرف ہونا چاہئے، پتہ نہیں یہ وقت آئندہ کسی کو ملے نہ ملے، میرے بھائیو! ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ نہایت بیش قیمت ہے، کوشش کیجئے کہ آپ ہر گھنٹے ایک ایسی اینٹ رکھیں جس سے آپ کی بزرگی وشرافت کی عمارت بلند ہوجائے اور آپ کی قوم آپ کے ذریعہ سعادت مند ہوجائے۔اللہ تعالیٰ وقت کی اہمیت کے پیش نظر اس کی قسم کھا کے کہتا ہے: قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے(الضحیٰ۱،۲) دوسری جگہ سورہ عصر میں فرماتا ہے: قسم ہے زمانے کی (یعنی شب وروز کی گردش کی) بیشک انسان گھاٹے اور خسارے میں ہے، معلوم ہوا کہ وقت امانت ہے اور قیامت کے دن وقت کے متعلق سوال ہوگا، حدیث میں آتا ہے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن بندے کے دونوں پاؤں اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے:
(۱) اپنی عمر کن چیزوں میں صرف کی۔ (۲) جوانی کہاں خرچ کی۔ (۳) مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (۴)اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا۔ (ترمذی)
دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جس میں اکثر لوگ غفلت کا شکار ہیں: صحت اور خالی وقت۔ (بخاری)یقین مانیں ، اگر یہ دونوں چیزیں کسی شخص کے پاس اکٹھی ہوجائیں، تو اس پر سستی اور نافرمانی کا غلبہ ہوجاتا ہے،اسے وقت کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہوتا ، حالانکہ عبداللہ بن عمرؓ کہتے تھے: جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرنا اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرنا،اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ (بخاری)
ہماری عبادتوں کا وقت سے بہت گہرا رشتہ ہے اگر ان عبادتوں کو وقت پر ادا نہ کیا جائے تو ہمارے اجر و ثواب ضائع ہوجاتے ہیں،جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل عمل نماز کا وقت پر پڑھنا ہے، اسی طرح آپ نے فرمایا: روزہ رکھو چاند دیکھ کراور عید بھی مناؤ چاند دیکھ کر۔
معلوم ہوا کہ سارے نظام کا دارومدار وقت پر ہے اور رمضان کے مقدس مہینے میں ٹی وی دیکھنے یا بہت زیادہ سونے، فالتو اور فضول باتوں سے ہر مسلمان کو بچنا ہوگا۔ ان اوقات کی قدر کرنی ہوگی، جنہوں نے وقت کی قدر نہیں سیکھی وہ دنیا میں رسوا ہوئے اور آخرت میں بھی ہونگے، لہٰذا اللہ کا یہ قول ہمیشہ ذہن نشین رکھیں وہ فرماتا ہے تم سب اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کئے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے، ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہے، ہائے افسوس!میں نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی، بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا۔ (ترمذی)
اللہ ہم سب کو وقت کی قدر و حفاظت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
روزہ اور اخلاص
مسلمانو! ہم جو کچھ عبادت کرتے ہیں، ان کی قبولیت کا دار ومدار دو شرطوں پر ہے:(۱) اخلاص (۲) رسول اللہ ﷺ کی متابعت۔روزہ بڑی عظیم عبادت ہے، اگر یہ دونوں شرطیں ہمارے روزوں سے مفقود ہیں یا کوئی ایک، تو ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی، اخلاص ہماری ہر عبادت اور ہر عمل کے لئے لازمی شئے ہے، آیئے دیکھتے ہیں کہ اخلاص کسے کہتے ہیں: اخلاص نام ہے اعمال وعبادات کا ہر طرح کے عیب و آمیزش سے پاک وصاف ہونا۔
بندہ جب تہیہ کرلیتا ہے کہ اس کا ہر عمل اللہ کے حکم و اس کے ارادے کے موافق ہوگا،نفسانی آمیزش سے پرہیز کرے گا، وہ مخلص کہلائے گا، روزہ بھی عموما اخلاص سے پرہوتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بندہ اپنا کھانا پینا اور تمام خواہشات میرے لئے ترک کردیتا ہے ،اس کا روزہ صرف میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔(بخاری)
اس حدیث میں روزہ دار کا اخلاص صاف جھلکتا ہے، اگر یہی کھانا پینا روزہ دار کسی اورکے لئے چھوڑے ، مثلا لوگوں کو بتانے کے لئے، شہرت کے لئے کہ روزہ رکھ رہا ہوں (حالانکہ ایسا کم ہوتا ہے) پھر وہ ریاکاری ہوگی، خلوص کا نام ونشان نہ ہوگا، علماء نے لکھا ہے : روزہ ایک خاموش عبادت ہے بندہ اور رب کے درمیان ایک راز کی مانند ہے جہاں صرف اخلاص ہے، ریاء کو داخل ہونے کا موقع شاذ ونادر ہی ملتا ہے۔
اخلاص نہایت پاکیزہ اور محبوب شئی ہے، مخلص شخص سماج اور خاندان میں اثر انداز ہوتا ہے اور ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے، جس پر چل کر نسلیں نجات و کامرانی کی حقدار بن جاتی ہیں،مخلص بندہ نیکی کے سارے کام دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوکے کرتا ہے ، جب وہ دائیں ہاتھ سے کسی کو صدقہ دیتا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی،اشعب بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی ایک گلی میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا تمہارے خاندان میں کتنے افرادہیں؟ اشعب جو نہایت مسکین آدمی تھے، افراد کی تعداد بتائی۔ اس کے بعد اس شخص نے اشعب سے کہا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے اہل وعیال کے کھانے پینے اورکپڑے کا برابر انتظام کرتارہوں جب تک تم زندہ ہو، کہا: کس نے حکم دیا ہے ،جواب ملا : میں نہیں بتا سکتا، پھر میں نے کہا: میں اس کی نیکی پر بیحد ممنون ومشکور ہوں، وہ شخص گویا ہوا: جس نے مجھے حکم دیا ہے وہ تمہارے شکریہ کے جواب سے معذور ہے، اشعب کہتے ہیں: میں برابر وظیفہ (خرچ) لیتا رہا، یہاں تک کہ خالد بن عبداللہ کا انتقال ہوا، لوگوں کی بھیڑ لگ گئی میں بھی جنازے میں شریک تھا کہ اس شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا:اے اشعب! یہی وہ ہستی تھی جو تمہارے نان ونفقہ کا انتظام کرتی تھی اور میں تمہیں دیا کرتا تھا۔
پردے کے پیچھے یہ وہ صاحب خیر تھے جو مدینہ میں بے شمار خاندانوں کی کفالت کرتے تھے اور لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ تھی، یہ صرف ان کا خلوص تھا۔
امت محمدیہ کی برکت
محترم قارئین! اللہ رب العالمین نے اس امت پر برکتوں کا اس قدر فیضان کیا ہے جس کی سابقہ امتوں میں مثال نہیں ملتی اور سب سے بڑی برکت اس امت کے لئے اس کے پیارے نبی محمدﷺ ہیں، جن پر اللہ کا فضل خاص رہا، قرآن کریم آپﷺ پر نازل ہوا، اس کی برکت اور اجر وثواب سے لوگوں کو آگاہ کیا، زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں برکت پانے کے اسباب بتائے، اب ان اسباب اور راستوں کو اختیار کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے، برکت کوئی روپیہ پیسہ سے خریدی جانے والی شئی نہیں ہے، یہ وہ عظیم دولت ہے جو اللہ کے شکر گزار بندوں کو عطا ہوتی ہے، برکت منعم حقیقی کی جانب سے وہ قیمتی تحفہ ہے جس کا احساس و ادراک صرف مؤمن بندہ ہی کرسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کی صبحوں میں برکت رکھی ہے، اگر ہمارے پڑھنے لکھنے،تجارت، بازار وغیرہ غرضیکہ سارے کام فجر کے معاً بعد شروع ہو جایا کریں تو یقیناًہم اللہ رب العزت کی بے پناہ برکتوں سے فیضیاب ہوسکتے ہیں اللہ نے امت محمدیہ کو بہترین امت قرار دیکر اس کی تکریم کی، اللہ ہماری عزت افزائی کررہا ہے اور ہم اس کا شکریہ بھی ادا کرنے سے قاصر رہیں!!
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو دنیا کے احوال پر نظر رکھتا ہے وہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ سدیدالرأی اور عقلمند پائے گا، انہوں نے مختصر مدت میں علم و عمل کی دنیا سے کئی گنا دولت کمائی، جو ان کے سوا دوسری اقوام کئی صدیوں اور نسلوں میں بھی نہ پاسکیں۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: پیارے نبی ﷺ کی نبوت کی یہ برکت ہے کہ اللہ نے لوگوں کو ہدایت بخشی اور اس ہدایت سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹے، ہر ایک نے اپنی بساط بھر فائدہ اٹھایا، علم نافع اور عمل صالح کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا، بلند اخلاق کی حامل ایک ایسی امت بن کر ابھر ی جو علم و عمل کا پیکر تھی ہر آلودگی سے پاک تھی اور اس پر ہر مسلمان اللہ کا شکر بجالاتا تھا۔
میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ ان شکر گزار بندوں جن کی آمدنی بیحد کم ہوتی ہے، اس میں اتنی برکت دیتا ہے،کہ وہ شخص سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ کا م کیسے ہوگیا؟ وہ فورا اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہے، برکت کے حصول کے لئے سب سے اہم چیز ہے کہ ہر معاملے میں سنت صحیحہ کی اتباع کی جائے، شریعت کے مطابق ہمارا عمل ہو، لین دین اور بزنس و تجارت میں ہر قسم کے عیب، جھوٹ اور سود سے بچیں، سچائی اور راست بازی کے اختیار کرنے سے ہی آپ اللہ کی برکتوں کے مستحق ہوسکتے ہیں، گھروں میں اگر کوئی شخص دین کی گفتگو کرتا ہے، یا علم دین کے حصول میں منہمک ہے تو ایسے لوگوں کی قدر ہونی چاہئے اس لئے بہت ممکن ہے کہ آپ کے گھر میں آمدنی اور برکت اسی علم کے نتیجہ میں آرہی ہے۔
روزہ دارو! ضرورت ہے کہ ہم اللہ کی برکتوں کو تلاش کریں، اس کی خوشبوؤں سے اپنے گھروں کو معطر کریں، یہ ممکن ہے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ، توبہ اور گناہوں سے دوری برتنے پر، اخلاص اور سنت نبوی کی اطاعت میں۔
اللہ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازے۔(آمین)
وصلی اللہ علی النبی الکریم
رمضان المبارک: فضائل واحکام agu 2010
مطیع اللہ حقیق اللہ المدنیؔ
روزہ کا مقصود محض بھوک پیاس کی شدت برداشت کرنا نہیں ہے، نہ ہی اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ انسانوں کو دشواری میں مبتلا کرنا چاہتا ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ آسانی چاہتا ہے، مطلوب روزہ یہ ہے کہ تقرب الٰہی کے مقصد سے ان چند گنے چنے ایام کی ر وزے کی حالت میں تکمیل ہو، اور ہدایات ربانی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بڑائی وبزرگی بیان کرنے کا اہتمام ہو، اللہ کی توحید کا نقش دلو ں پر قائم ہو اس کی عبادت کا ذوق دلوں میں پیدا ہو، اور یوں اس کی شکر گذاری کا عملی ثبوت فراہم ہو۔
رمضان المبارک مومن کی سالانہ عبادت کے احتساب کا موسم ہے، اس میں روزے کے ساتھ اور دیگر عبادات کا بڑھ چڑھ کر اہتمام ہو، تاکہ عبادات میں کمی و کوتاہی کی بھرپائی ہوجائے، صلاۃ فریضہ کی ادائیگی تو رکن اسلام ہے ہی روزہ رمضان بھی رکن اسلام ہے، اس کے دنوں کا شرعی حقیقی روزہ رکھ کر رب کی تابع داری اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ ہو تو اس کی راتوں میں قیام کے ذریعہ رب کی رضا و قربت کی حقیقی طلب پیدا کی جائے ، اور اپنے کو صالحین کے زمرہ میں شامل کرنے کے لئے سعی کی جائے۔
رمضان کا روزہ ایمان و احتساب کے طور پر گزشتہ گناہوں اور سابقہ خطاؤں کی مغفرت کا سامان ہے۔
حدیث نبوی ہے ’’من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘جس شخص نے رمضان کا روزہ ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
اور ایک روایت میں نبی ﷺنے فرمایا ہے ’’من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرماتقدم من ذنبہ‘‘۔
جس شخص نے رمضان کا قیام ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں
رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت ہی فضیلت کا حامل ہے، اسی آخری عشرے کی کوئی طاق رات ’’قدر کی رات‘‘ ہوتی ہے، اسی طاق رات یعنی قدر والی رات کو پانے کے لئے نبیﷺ آخری عشرے میں عبادات میں کافی اجتہاد و مشقت سے کام لیتے تھے، آپ کے آخری عشرے کے معمول کے متعلق ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ’’إن النبی ﷺ کان اذا دخلہ العشرأحیا لیلہ و أیقض أھلہ وشد مئذرہ‘‘ جب رمضان المبارک کا آخری عشر ہ آن پہونچتا تو اپنی راتیں یعنی اس کا بیشتر حصہ برائے قیام و عبادات بیداری میں گزارتے اپنے اہل یعنی ازواج مطہرات کو عبادات کرنے کے لئے بیدار کرتے اور کمر کس لیتے یعنی چوکس اور مستعد رہتے یوں پورے رمضان کا قیام باعث مغفرت ہے آپ نے قدر کی رات کے متعلق فرمایا ’’من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘جس شخص نے شب قدر کا قیام ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک خیرات وبرکات اور فضائل کا ایک بیش بہاخزینہ اپنے اندر رکھتا ہے، یہ مہینہ مومن کے لئے اللہ کی رحمت و مغفرت اور بشارت کا ایک بے بہا گنجینہ اپنے دامن میں رکھتا ہے، جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے، تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور نار جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین خصوصا سرکش وکڑیل شیاطین پابند سلاسل کردیئے جاتے ہیں، رمضان کے روزے کے متعلق نبیﷺ کا ارشاد گرامی روزے کی اہمیت و فضیلت پر بوضاحت دلالت کرتا ہے، آپﷺ نے فرمایا ’’ الصوم جنۃ‘‘ روزہ ایک ڈھال ہے یعنی روزہ روزے دار کے لئے معاصی و ذنوب سے بچاؤ کا ایک معنوی ڈھال ہے جو شخص رب کی تابعداری اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے طعام و شراب وغیرہ مباحات کو مخصوص وقت میں چھوڑے رکھتا ہے وہ یقیناًرضائے رب اور قربت مولائے کریم کے لئے معاصی و ذنوب سے احتراز کرے گا۔
روزے کی جزا بہت عظیم و بے پایاں ہے، یوں تو تمام اعمال کا بدلہ دینے والا اللہ ہی ہے مگر حدیث قدسی ’’ الصوم لی وأنا أجزی بہ‘‘ یعنی روزہ تو میرا ہے میں ہی اس کا بدلہ دونگا کی روشنی میں یہ نسبت کس قدر باعث تشریف و تکریم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ میرا ہے اس کا بدلہ میں ہی دونگا۔
صوم اور اس کی جزا عطا کرنے کی نسبت رب العالمین نے خصوصی طور پر اپنی طرف کی ہے اس سے صوم اور صائمین کی قدر افزائی مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محسن و مخلص بندوں کے ساتھ یوں الطاف و افضال مقصود اور رحمت و مہربانی کا معاملہ کرتا ہے اور انہیں اپنے پاس سے جزائے کریم عطا کرتا ہے۔
روزہ دار کی تکریم و قدر افزائی کا انداز کتنا پیارا ہے جس کا ذکر قول رسول صادق ومصدوق ﷺ میں یوں وارد ہے ’’واللہ لخلوف فم الصام اطیب عند اللہ من ریح المسک‘‘ یعنی روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی پاکیزہ ہے۔ اس پر روزے دار جس قدر ناز کرے کم ہے شرط یہ ہے روزے دار صاحب ایمان اور حامل احتساب ہو، ایمان قوی اور احتساب کا جذبہ صادق انسان کو صوم کی حالت اللہ تعالیٰ کا اتنا محبوب بنادیتا ہے کہ منہ کی بساند (بھوک کی وجہ سے بدلی ہوئی بو) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے کہیں زیادہ پاکیزہ قرار پاتی ہے،ع
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
رمضان اپنے اندر برکات و خیرات کا ایک بہت بڑا خزانہ رکھتا ہے مگر ان برکات و خیرات کے مستفیدین در حقیقت وہ ہیں جن میں اگر ایک ایمان کامل اور احتساب صادق ہو تو دوسری طرف رمضان کے جملہ حقوق کی ادائیگی کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔
افضل زمان ومکان کسی کو افضل و بہتر نہیں بناتے ہیں، بلکہ ان افضل زمان و مکان میں اللہ کی ودیعت کردہ فضیلتوں کو حاصل کرنے کے لئے ان تمام اقوال واعمال اور اوصاف و خصائل کو اپنانا ہوگا جن کی بنا پر کوئی شخص صحیح معنوں میں ان فضائل کا مستحق ٹھہر سکتا ہے رمضان اور روزے دار کے اپنے حقوق ہیں اگر ان حقوق و واجبات کی پامالی کی جائے تو پھر رمضان کے ایام معدودات اور ان کے روزے کے اوقات فاضلہ یوں ہی گزر جائیں گے اور حقوق پامال کرنے والا محروم فضیلت رہ جائے گا۔
خود ان حقوق کی پامالی کے درجات ہیں جس درجے میں پامالی حق ہوگی اسی اعتبار سے فضیلت سے محرومی ہاتھ آئے گی۔
صوم رکھنے والوں کے بھی مختلف مراتب ہیں:
کچھ لوگ واقعی حکم الٰہی کی تابعداری سنت نبی اکرم ﷺ کی پاسداری اور سلف صالحین کو قدوہ سمجھتے ہوئے روزہ رکھتے اور اس کے حقوق و آداب بجالاتے ہیں۔۔۔ عبادات میں انہماک رکھتے ہیں اخلاص اور اتباع کے ساتھ ریا و نمود سے کوسوں دور رہتے ہیں، یہ وہ ہیں جن کی شان میں حدیث قدسی وارد ہے نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے قال اللہ عز وجل:’’ الصوم لی وأنا أجزی بہ یترک طعامہ وشرابہ و شہوتہ من أجلی‘‘ ۔
ترجمہ: روزہ تو میرا ہے اور میں خود اس کی جزاء دونگا، وہ اپنا کھانا، پینا اور اپنی شہوت میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔
صائمین کا ایک طبقہ وہ ہے جو واقعی روزہ رکھنا اپنا مقصد عظیم سمجھتا ہے، یوں وہ اپنے کو جملہ معاصی و سیئات سے روک لیتا ہے، نہ صرف رمضا ن میں بلکہ دیگر ایام و شہور میں بھی رضائے الٰہی کا طالب رہتا ہے اور طاعت کی زندگی بسر کرتا ہے، گناہوں سے اجتناب کرتا ہے یہی وہ عظیم مقصد صوم ہے کہ ایسا روزہ دار اللہ کے متقی بندوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔
روزے داروں کا ایک طبقہ وہ ہے جو طعام وشراب اور شہوت سے تو باز رہتا ہے مگر وہ بہت ساری سئیات و معاصی سے باز نہیں رہ پاتا ہے، بسا اوقات وہ بدعات و خرافات اور شرکیات سے بھی اپنا دامن آلودہ رکھتا ہے۔
ایسے ہی صائمین کے متعلق حدیث وارد ہے جو ان پر صادق آتی ہے ’’من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ‘‘۔
ترجمہ: جوشخص جھوٹ اور باطل کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں ہے وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔
بعض روزے دار ایسے بھی ہوتے ہیں جو روزہ تو رکھتے ہیں مگر صلاۃ جیسے اہم رکن اسلام عبادت سے کامل غفلت کے شکار ہوتے ہیں۔
اس لئے اس طبقہ کو سوائے بھو ک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے کے کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے،اس کی حالت دینی اعتبار سے ابتر کی ابتر ہی رہتی ہے بلکہ فضیلت زمان سے عدم استفادہ اس کی شقاوت و بدبختی میں اضافہ کا سبب بن جاتا ہے۔
بعض صائمین ایسے ہوتے ہیں جو حرام اور فسق وفجور سے تائب ہوکر بالکل کنارہ کش نہیں ہوتے ہیں جن محرمات و منہیات کا ارتکاب وہ پہلے کرتے رہتے تھے ان کا سلسلہ جاری رکھے ہوتے ہیں، بظاہر صوم رکھنے کے باوجود وہ عنداللہ صفرالیدین رہ جاتے ہیں۔
ایسے حرام و باطل کے خوگر اور آثام و ذنوب کے عادی حضرات خواہ مخواہ طعام و شراب کی لذت سے محروم رہتے ہیں، ایسے روزہ دراوں کے روزوں کی اللہ کے نزدیک معمولی قدر وقیمت نہیں ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسی ماہ میں قرآ ن کریم کا نزول ہوا ہے۔
شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدی للناس و بینا ت من الہدی والفرقان (البقرہ)
اس طرح قرآن مجید کا رمضان سے گہرا تعلق ہے، اس لئے اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن کریم کا زبردست اہتمام ہونا چاہئے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ اور سلف صالحین اس کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔***
رمضان المبارک: فضائل واحکام
رمضان المبارک اسلامی تقویم کا وہ فضیلت مآب مہینہ ہے جس کے ایام کا روزہ اس امت کے افراد پر فرض کیا گیا ہے، جیساکہ سابقہ امم پر روزہ فرض کیا گیا، اس روزہ کی غایت یہ ہے لوگوں میں اللہ کا تقویٰ پیدا ہوجائے، تقویٰ مومن کی ایمانی زندگی کا سب سے بہتر زاد راہ ہے، یہی تقویٰ جملہ اسلامی عبادات کی روح ہے ۔روزہ کا مقصود محض بھوک پیاس کی شدت برداشت کرنا نہیں ہے، نہ ہی اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ انسانوں کو دشواری میں مبتلا کرنا چاہتا ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ آسانی چاہتا ہے، مطلوب روزہ یہ ہے کہ تقرب الٰہی کے مقصد سے ان چند گنے چنے ایام کی ر وزے کی حالت میں تکمیل ہو، اور ہدایات ربانی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بڑائی وبزرگی بیان کرنے کا اہتمام ہو، اللہ کی توحید کا نقش دلو ں پر قائم ہو اس کی عبادت کا ذوق دلوں میں پیدا ہو، اور یوں اس کی شکر گذاری کا عملی ثبوت فراہم ہو۔
رمضان المبارک مومن کی سالانہ عبادت کے احتساب کا موسم ہے، اس میں روزے کے ساتھ اور دیگر عبادات کا بڑھ چڑھ کر اہتمام ہو، تاکہ عبادات میں کمی و کوتاہی کی بھرپائی ہوجائے، صلاۃ فریضہ کی ادائیگی تو رکن اسلام ہے ہی روزہ رمضان بھی رکن اسلام ہے، اس کے دنوں کا شرعی حقیقی روزہ رکھ کر رب کی تابع داری اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ ہو تو اس کی راتوں میں قیام کے ذریعہ رب کی رضا و قربت کی حقیقی طلب پیدا کی جائے ، اور اپنے کو صالحین کے زمرہ میں شامل کرنے کے لئے سعی کی جائے۔
رمضان کا روزہ ایمان و احتساب کے طور پر گزشتہ گناہوں اور سابقہ خطاؤں کی مغفرت کا سامان ہے۔
حدیث نبوی ہے ’’من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘جس شخص نے رمضان کا روزہ ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
اور ایک روایت میں نبی ﷺنے فرمایا ہے ’’من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرماتقدم من ذنبہ‘‘۔
جس شخص نے رمضان کا قیام ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں
رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت ہی فضیلت کا حامل ہے، اسی آخری عشرے کی کوئی طاق رات ’’قدر کی رات‘‘ ہوتی ہے، اسی طاق رات یعنی قدر والی رات کو پانے کے لئے نبیﷺ آخری عشرے میں عبادات میں کافی اجتہاد و مشقت سے کام لیتے تھے، آپ کے آخری عشرے کے معمول کے متعلق ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ’’إن النبی ﷺ کان اذا دخلہ العشرأحیا لیلہ و أیقض أھلہ وشد مئذرہ‘‘ جب رمضان المبارک کا آخری عشر ہ آن پہونچتا تو اپنی راتیں یعنی اس کا بیشتر حصہ برائے قیام و عبادات بیداری میں گزارتے اپنے اہل یعنی ازواج مطہرات کو عبادات کرنے کے لئے بیدار کرتے اور کمر کس لیتے یعنی چوکس اور مستعد رہتے یوں پورے رمضان کا قیام باعث مغفرت ہے آپ نے قدر کی رات کے متعلق فرمایا ’’من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘جس شخص نے شب قدر کا قیام ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک خیرات وبرکات اور فضائل کا ایک بیش بہاخزینہ اپنے اندر رکھتا ہے، یہ مہینہ مومن کے لئے اللہ کی رحمت و مغفرت اور بشارت کا ایک بے بہا گنجینہ اپنے دامن میں رکھتا ہے، جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے، تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور نار جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین خصوصا سرکش وکڑیل شیاطین پابند سلاسل کردیئے جاتے ہیں، رمضان کے روزے کے متعلق نبیﷺ کا ارشاد گرامی روزے کی اہمیت و فضیلت پر بوضاحت دلالت کرتا ہے، آپﷺ نے فرمایا ’’ الصوم جنۃ‘‘ روزہ ایک ڈھال ہے یعنی روزہ روزے دار کے لئے معاصی و ذنوب سے بچاؤ کا ایک معنوی ڈھال ہے جو شخص رب کی تابعداری اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے طعام و شراب وغیرہ مباحات کو مخصوص وقت میں چھوڑے رکھتا ہے وہ یقیناًرضائے رب اور قربت مولائے کریم کے لئے معاصی و ذنوب سے احتراز کرے گا۔
روزے کی جزا بہت عظیم و بے پایاں ہے، یوں تو تمام اعمال کا بدلہ دینے والا اللہ ہی ہے مگر حدیث قدسی ’’ الصوم لی وأنا أجزی بہ‘‘ یعنی روزہ تو میرا ہے میں ہی اس کا بدلہ دونگا کی روشنی میں یہ نسبت کس قدر باعث تشریف و تکریم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ میرا ہے اس کا بدلہ میں ہی دونگا۔
صوم اور اس کی جزا عطا کرنے کی نسبت رب العالمین نے خصوصی طور پر اپنی طرف کی ہے اس سے صوم اور صائمین کی قدر افزائی مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محسن و مخلص بندوں کے ساتھ یوں الطاف و افضال مقصود اور رحمت و مہربانی کا معاملہ کرتا ہے اور انہیں اپنے پاس سے جزائے کریم عطا کرتا ہے۔
روزہ دار کی تکریم و قدر افزائی کا انداز کتنا پیارا ہے جس کا ذکر قول رسول صادق ومصدوق ﷺ میں یوں وارد ہے ’’واللہ لخلوف فم الصام اطیب عند اللہ من ریح المسک‘‘ یعنی روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی پاکیزہ ہے۔ اس پر روزے دار جس قدر ناز کرے کم ہے شرط یہ ہے روزے دار صاحب ایمان اور حامل احتساب ہو، ایمان قوی اور احتساب کا جذبہ صادق انسان کو صوم کی حالت اللہ تعالیٰ کا اتنا محبوب بنادیتا ہے کہ منہ کی بساند (بھوک کی وجہ سے بدلی ہوئی بو) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے کہیں زیادہ پاکیزہ قرار پاتی ہے،ع
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
رمضان اپنے اندر برکات و خیرات کا ایک بہت بڑا خزانہ رکھتا ہے مگر ان برکات و خیرات کے مستفیدین در حقیقت وہ ہیں جن میں اگر ایک ایمان کامل اور احتساب صادق ہو تو دوسری طرف رمضان کے جملہ حقوق کی ادائیگی کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔
افضل زمان ومکان کسی کو افضل و بہتر نہیں بناتے ہیں، بلکہ ان افضل زمان و مکان میں اللہ کی ودیعت کردہ فضیلتوں کو حاصل کرنے کے لئے ان تمام اقوال واعمال اور اوصاف و خصائل کو اپنانا ہوگا جن کی بنا پر کوئی شخص صحیح معنوں میں ان فضائل کا مستحق ٹھہر سکتا ہے رمضان اور روزے دار کے اپنے حقوق ہیں اگر ان حقوق و واجبات کی پامالی کی جائے تو پھر رمضان کے ایام معدودات اور ان کے روزے کے اوقات فاضلہ یوں ہی گزر جائیں گے اور حقوق پامال کرنے والا محروم فضیلت رہ جائے گا۔
خود ان حقوق کی پامالی کے درجات ہیں جس درجے میں پامالی حق ہوگی اسی اعتبار سے فضیلت سے محرومی ہاتھ آئے گی۔
صوم رکھنے والوں کے بھی مختلف مراتب ہیں:
کچھ لوگ واقعی حکم الٰہی کی تابعداری سنت نبی اکرم ﷺ کی پاسداری اور سلف صالحین کو قدوہ سمجھتے ہوئے روزہ رکھتے اور اس کے حقوق و آداب بجالاتے ہیں۔۔۔ عبادات میں انہماک رکھتے ہیں اخلاص اور اتباع کے ساتھ ریا و نمود سے کوسوں دور رہتے ہیں، یہ وہ ہیں جن کی شان میں حدیث قدسی وارد ہے نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے قال اللہ عز وجل:’’ الصوم لی وأنا أجزی بہ یترک طعامہ وشرابہ و شہوتہ من أجلی‘‘ ۔
ترجمہ: روزہ تو میرا ہے اور میں خود اس کی جزاء دونگا، وہ اپنا کھانا، پینا اور اپنی شہوت میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔
صائمین کا ایک طبقہ وہ ہے جو واقعی روزہ رکھنا اپنا مقصد عظیم سمجھتا ہے، یوں وہ اپنے کو جملہ معاصی و سیئات سے روک لیتا ہے، نہ صرف رمضا ن میں بلکہ دیگر ایام و شہور میں بھی رضائے الٰہی کا طالب رہتا ہے اور طاعت کی زندگی بسر کرتا ہے، گناہوں سے اجتناب کرتا ہے یہی وہ عظیم مقصد صوم ہے کہ ایسا روزہ دار اللہ کے متقی بندوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔
روزے داروں کا ایک طبقہ وہ ہے جو طعام وشراب اور شہوت سے تو باز رہتا ہے مگر وہ بہت ساری سئیات و معاصی سے باز نہیں رہ پاتا ہے، بسا اوقات وہ بدعات و خرافات اور شرکیات سے بھی اپنا دامن آلودہ رکھتا ہے۔
ایسے ہی صائمین کے متعلق حدیث وارد ہے جو ان پر صادق آتی ہے ’’من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ‘‘۔
ترجمہ: جوشخص جھوٹ اور باطل کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں ہے وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔
بعض روزے دار ایسے بھی ہوتے ہیں جو روزہ تو رکھتے ہیں مگر صلاۃ جیسے اہم رکن اسلام عبادت سے کامل غفلت کے شکار ہوتے ہیں۔
اس لئے اس طبقہ کو سوائے بھو ک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے کے کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے،اس کی حالت دینی اعتبار سے ابتر کی ابتر ہی رہتی ہے بلکہ فضیلت زمان سے عدم استفادہ اس کی شقاوت و بدبختی میں اضافہ کا سبب بن جاتا ہے۔
بعض صائمین ایسے ہوتے ہیں جو حرام اور فسق وفجور سے تائب ہوکر بالکل کنارہ کش نہیں ہوتے ہیں جن محرمات و منہیات کا ارتکاب وہ پہلے کرتے رہتے تھے ان کا سلسلہ جاری رکھے ہوتے ہیں، بظاہر صوم رکھنے کے باوجود وہ عنداللہ صفرالیدین رہ جاتے ہیں۔
ایسے حرام و باطل کے خوگر اور آثام و ذنوب کے عادی حضرات خواہ مخواہ طعام و شراب کی لذت سے محروم رہتے ہیں، ایسے روزہ دراوں کے روزوں کی اللہ کے نزدیک معمولی قدر وقیمت نہیں ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسی ماہ میں قرآ ن کریم کا نزول ہوا ہے۔
شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدی للناس و بینا ت من الہدی والفرقان (البقرہ)
اس طرح قرآن مجید کا رمضان سے گہرا تعلق ہے، اس لئے اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن کریم کا زبردست اہتمام ہونا چاہئے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ اور سلف صالحین اس کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔***
Monday, 23 August 2010
یہ قانون فطرت ہے agu 2010
مولانا محمد مظہر الاعظمیؔ
یہ قانون فطرت ہے
مدارس و جامعات کے اساتذہ اور طلبہ کی صورت حال روزبروز ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے ، مدارس کے بعض ہمدردان کی بے عملی اور بے کرداری پر اپنے درد و کرب کا اظہار کرتے ہیں اوربعض مخالفین استہزاء کے انداز میں اپنے حیرت کا اظہار کرتے ہیں، جس حیرت کا مختلف محفلوں اور مجلسوں میں ذکر کرکے تعاون کے خواستگار ہوتے ہیں،میرے نزدیک حیرت کی کوئی وجہ نہیں ہے، چاہے موافقین کی جانب سے ہویا مخالفین کی جانب سے ، بلکہ مجھے تو ان کی حیرت پر حیرت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے اسباب و علل بالکل واضح اور نمایاں ہیں، منطق و فلسفہ کی پیچیدہ گتھی نہیں جسے سلجھانے اور سمجھنے کے لئے حکمت و دانائی درکار ہو، بلکہ یہ فطرت کی کھلی کتاب ہے۔
یہ قانون فطرت ہے کاٹوگے وہی جو بووگے
شیشے کی دیوار کے پیچھے بیٹھ کے مت پتھراؤ کرو
بڑی دیانت اور متانت سے اس حقیقت پر غور فرمائیں کہ طلبہ وہ پھل ہیں جو اساتذہ کی شاخوں میں لگتے ہیں اور اساتذہ کی شاخیں اپنی انتظامیہ کے تنے سے اپنی غذا حاصل کرتی ہیں اور یہ تنا اعمال کی ان جڑوں پر قائم ہے جو جڑیں نیتوں کی زمین میں پرورش پاتی ہیں، یعنی مدرسہ و جامعہ نام ہے اس مثلث کا جس کے تین زاوئے طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ ہوتے ہیں ان تینوں زاویوں میں سے ہر ایک کی اپنی مسلمہ حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، البتہ آغاز ہوتا ہے انتظامیہ سے۔
اساتذہ کا انتخاب انتظامیہ کرتی ہے، جس انتخاب میں ادارہ کے اغراض و مقاصد ملحوظ ہوتے ہیں، ہم جن اداروں کی بات کررہے ہیں ان کے بنیادی مقاصد میں سب سے اہم اعلاء کلمہ ہے، باقی تمام امور اسی محور پر گھومتے ہیں، جب مقصد اعلاء کلمہ ہے تو حصول مقصد کے لئے ایسے اساتذہ کا انتخاب ہونا چاہئے جو اعلاء کلمہ کے فریضہ کو انجام دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں یعنی صلاحیت اور صالحیت ، کیونکہ صلاحیت کے بغیر کماحقہ نہ درس دیا جاسکتا اور نہ ہی صالحیت کے بغیر طلبہ کی تربیت کی جاسکتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلاف نے اساتذہ کے لئے ان دونوں صفتوں کو لازمی قرار دیا تھا،مذکورہ صفتوں میں سے کوئی بھی کمی حصول مقصد میں مانع سمجھی جاتی تھی، جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ماضی قریب تک تفسیر و حدیث و دیگر اسلامی علوم وفنون کے ماہرین کتنی تعداد میں پید ا ہوئے اور آسمان علم پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے، جن کے غروب کے بعد آج بھی اس قدر روشنی موجود ہے کہ متلاشیان حق کا ایک بہت بڑا طبقہ اسی روشنی میں رواں دواں ہے۔
اب جب کہ نہ صلاحیت معیار رہی اور نہ ہی صالحیت، پھر بھی امیدیں حسب سابق وابستہ رکھی جائیں اور محدثین ، مفسرین اور باعمل علماء و صالحین کی توقع رکھی جائے تو یہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور نیم کا درخت لگا کر انگور توڑنے اور اس سے فائدہ اٹھانے جیسی حماقت کے مساوی ہے، جس حماقت کی توقع کسی باشعور سے نہیں کی جاسکتی، اس لئے مدارس و جامعات کے اساتذہ اور طلبہ کی بے عملی اور بے کرداری پر تبصرہ کے ساتھ اس کے اسباب و علل پر بھی غور کیا جائے، بصورت دیگر یہ سمجھا جائے گاکہ اساتذہ اور طلبہ کی موجودہ ناگفتہ بہ صورت حال پر غیر سنجیدہ تبصرہ کرکے ان کی عزت و آبرو سربازار نیلام کرنے والا اپنے عیب کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے اور حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے کیونکہ تعلیم وتربیت پر توجہ تو وہی دیگا جس کا مقصد و مطمح نظر تعلیم و تربیت ہو مگر جن کے اذہان وقلوب کسی ایسی فکر سے عاری و ننگے ہوں بھلا وہ اس طرح کی بات سوچ کر یا اسے عملی جامہ پہنا کر اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کریں گے۔
چونکہ بیشتر ادارے جمہوری اصول کے حامل ہیں ان کے عہدیداران و اراکین کا انتخاب جمہوری طرز پر ہوتا ہے اس لئے عام جمہوری انتخابات میں جو چیز غالب رہتی ہے اور جس بنیاد پر نمائندے منتخب ہو کے آتے ہیں، اسی انداز اور طریقہ پر ان جمہوری اداروں میں بھی منتخب ہوکے آتے ہیں،بلکہ اگر یہ کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جو نیتیں عام انتخابات میں کار فرما ہوتی ہیں وہی نیتیں ان اداروں کے انتخابات میں بھی اور جب طرز و انداز وہی ہوتا ہے تو کیا ہمارے مخلص نمائندوں نے ہندوستان کی جو صورت حال بنارکھی ہے کہ ایک طرف دعوی سپر پاور ہونے کے ساتھ مختلف علوم و فنون میں نمائندگی اور امامت کا اور دوسری طرف غربت و تنگدستی کی وجہ سے خودکشی نیز قتل و غارت گری اور زنا بالجبر جیسے جرائم سے اخبار کا ورق ورق مزین کہ ایک حساس اور درد مند شخص ان اخبارات کو صبح کے وقت لرزتے ہوئے ہاتھوں سے چھوتا ہے اور بادیدہ نم پڑھتے ہوئے حواس پرقابو پانے کے لئے اپنی پوری صلاحیت جھونک دیتا ہے۔
جب طریقہ کاران اداروں کا وہی ہے جو ایک جمہور ملک کا تو انجام کیوں اس سے مختلف ہوگا؟ بلکہ سچائی تویہ ہے کہ جس طرح ہندو تو وادی اور ہندو دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں دھماکہ کرتے ہیں اور میڈیا کی طاقت سے اس کا رخ فورا مسلمانوں کی طرف پھیردیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ان اداروں میں بھی بہت سے جرائم جو اپنے لوگ انجام دیتے ہیں اسے غیروں کی طرف منسوب کردیاجاتا ہے اور اس چیز کو اتنا اچھالا جاتاہے کہ حقیقت پس پردہ چلی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصل مجرم کے کیفر کردار تک نہ پہونچنے کی وجہ سے وہ بڑے ہی اطمینان سے جرائم کا ارتکاب باربار کرتا رہتا ہے اور مظلوم ہندوستانی مسلمانوں کی طرح ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتا رہتا ہے۔
جب بھی نفس و شیطان کا غلبہ ہوگا اور روحانیت مغلوب ہوگی تو انجام کار یہی ہونا ہے،چاہے جو بھی شعبہ حیات ہو، اسی غلبہ کا نتیجہ ہے کہ بعض اداروں میں اساتذہ کے لئے جگہیں خالی ہیں ، سخت ضرورت بھی مگر رسہ کشی کا سلسلہ جو انتظامیہ کی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دیتا، کیونکہ ہر رکن یہی چاہتا ہے کہ اسی کا امید وار ہی اس جگہ پر آئے چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے، اگرچہ وہ صلاحیت و صالحیت سے دور کا بھی واسطہ نہ رکھتا ہو۔
نفس و شیطان کے غلبہ اور حذع و فریب کے متعلق عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے مغلوب ہوکر لوگ بتکدوں کا رخ کرتے ہیں ،مگر مولانا ابوالکلام آزاد کے لکھنے کے مطابق اگر اسے تلاش کرنا ہے تو مدرسوں اور خانقاہوں میں تلاش کرنا چاہئے جہاں شاید جلد مل جائے۔
’’ایک دنیادار فاسق اور ایک دنیادار عالم میں فرق یہی ہے کہ پہلا اپنی ہوا پرستیوں کو اعتراف فسق کے ساتھ انجام دیتا ہے اور دوسرا دین داری اور احتساب شرعی کے ظاہری فریب سے۔۔۔ نفس و شیطان کے حذع و فریب کے کاروبار بہت وسیع ہیں، لوگو ں نے ہمیشہ اس کومیکدوں میں ڈھونڈھا، مدرسوں اور خانقاہوں میں ڈھونڈھتے تو شاید جلد پتہ لگ جاتا
یارب! زسیل حادثہ طوفان رسیدہ بود
بت خانہ کہ خانقہش نام کردہ اند‘‘
(تذکرہ:۵۵)
علامہ شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی مبارکپوری (رحمہ اللہ) نے استاذ محترم مولانا محمد الاعظمی سابق شیخ الجامعہ العالیہ العربیہ مؤناتھ بھنجن کو مورخہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۹ء ایک خط میں مدارس کے حالات سے رنجیدہ ہوکر بڑے دکھ کے ساتھ مدارس کے ماحول کی عکاسی کی ہے جس کا اقتباس درج ذیل ہے:
’’اس میں شک نہیں کہ پہلے یہ صیغہ بہت باعزت اور شریف سمجھا جاتا تھا، مدرسین اور علماء کی بڑی توقیر ہوتی تھی، تعلیمی بار بھی ہلکا ہوا کرتا تھا، لیکن اب دنیا کا جیسا کچھ حال ہے وہ آپ سے مخفی نہیں ہے، چھوٹے مدارس کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہوتی، بسا اوقات خود مدرس کو اپنی تنخواہ کے لئے چندہ دہندگان کی دریوزہ گری کرنی ہوتی ہے، پھر وہاں امامت اور خطابت کا فریضہ بھی مدرس ہی کو انجام دینا پڑتا ہے، اراکین و ذمہ داران کی دلجوئی اور خوش آمد اور ان کی رضامندی کا الگ ہمہ وقت خیال رکھنا پڑتا ہے،تعلیمی نصاب بالکل معمولی ہوتا ہے، بسا اوقات کھانے کا معقول انتظام نہیں ہوتا، بڑے مدارس میں جہاں پورے درس نظامی کا انتظام ہوتا ہے، وہاں بھی مختلف قسم کی شدید بیماریاں ہوتی ہیں، جو آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں، خود مجھ کو اب تک اس کے متعلق جو کچھ تھوڑی بہت معلومات حاصل ہیں ان کی بنیاد پر میرے نزدیک یہ بات ثابت شدہ حقیقت ہے کہ مدارس دینیہ عربیہ کی دنیا نہایت گندی ہوچکی ہے، کسی خودار، شریف اور کریم عالم کا وہاں ٹکنا بہت مشکل ہے، ہاں وہاں پہنچ کر وہ بھی اسی رنگ میں رنگ جائے تو اور بات ہے، بہرحال مجھ کو اس سے ذاتی طور پر نفرت ہوچکی ہے، اس لئے حتی الامکان آپ جیسے لوگوں کو اس دنیا میں قدم رکھنے کا مشورہ دینا بہت مشکل ہے، الا ان یضطر الیہ احد من معارفی و تلامذی عبدالرحمن سلمہ کے متعلق شروع سے میرا خیال بلکہ فیصلہ یہ تھا کہ وہ طب کی لائن میں جائیں، لیکن صورت حال اس وقت ایسی تھی کہ وہ تعلیمی لائن میں آگئے، اب بھی میری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ وہ اس ذریعہ معاش کو چھوڑ کر طبی لائن میں آجائیں مگر اس کی ابتداء اور تکمیل سب کچھ خود ان کی جدوجہد پر موقوف ہے‘‘۔ (نقوش شیخ رحمانی،صفحہ: ۳۵،۳۶)
مذکورہ دو عظیم شخصیات کے اہم اقتباسات کے بعد مدارس کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھلانے کے مترادف ہے، اس لئے مدارس اور موجودہ حالات کی روشنی میں اقدام کی ضرورت ہے، بصورت دیگر فطری اصول کے مطابق ہمیں وہی کاٹنا ہوگا بلکہ کاٹنے پر مجبور ہوں گے جوپہلے بو چکے ہیں۔
***
Sunday, 22 August 2010
نزول قرآن کی سالگرہ: agu 2010
عبد الباری شفیق احمد اکرہروی
نزول قرآن کی سالگرہ:
ماہ رمضان بڑی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اس مہینہ کا روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر کوئی انسان پکاسچا مومن نہیں ہوسکتا، تمام کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے کہ ’’بنی الاسلام علی خمس شہادۃ ان لا إلٰہ إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکاۃ وصوم رمضان وحج البیت‘‘ (متفق علیہ)۔
اس مہینہ کا روزہ تمام مسلمان عاقل وبالغ، صحت مند و مقیم مرد و عورت پر فرض ہے جسے کوئی شرعی عذر لاحق نہ ہو، اس مہینہ کا روزہ تقوی و پرہیزگاری کا ضامن اور گنہگاروں کے لئے اس مہینہ کی رحمتوں اور برکتوں کے سائے میں رہ کر اپنے گناہوں کو دھلنے اور نیکیاں سمیٹنے کا موسم بہار ہے اس مہینہ کی فضیلت تمام مہینوں کے اعتبار سے بہت زیادہ ہے اس کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسی مبارک ماہ رمضان میں اللہ نے اپنی آخری مقدس کتاب متقیوں کے لئے ہدایت اور تمام انسانوں کے لئے خیر وبرکت کا سرچشمہ بناکر سیدالمرسلین حضرت محمدﷺ پر نازل کیا اور ارشاد فرمایا:(شہر رمضان الذی أنزل فیہ القرآن ہدی للناس وبینات من الہدیٰ والفرقان فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ۔۔۔) نیز اللہ نے سورہ قدر میں ارشاد فرمایا: (إنا أنزلناہ فی لیلۃ القدر، وما ادراک مالیلۃ القدر، لیلۃ القدر خیر من الف شہر) اور سورہ دخان میں بھی ارشاد فرمایا (إنا أنزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ) ۔
مذکورہ آیتوں کے علاوہ اس مبارک مہینے کی فضیلت میں اللہ کے رسولﷺ نے متعدد جگہ ارشاد فرمایا کہ ’’ تمہیں رمضان مل رہا ہے، یہ بڑا بابرکت مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے تم پر فرض لئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو پابہ زنجیر کردیا جاتا ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر وافضل ہے، جو شخص اس بابرکت رات کی فضیلت و خیر سے محروم رہ گیا تو وہ (واقعی) محروم ہی ہے۔(مسند احمد)
نزول قرآن کی سالگرہ: ماہ رمضان قرآن کریم کے نزول کی سالگرہ ہے اس لئے اس ماہ کو قرآن کریم سے گہرا تعلق ہے، قرآن کریم کی تلاوت عموما تمام مہینوں اور خصوصا ماہ رمضان میں ایک بڑی عبادت اور افضل ترین عمل ہے، اللہ کے رسولﷺ ماہ رمضان میں دیگر مہینوں کی بہ نسبت قرآن کریم کی زیادہ تلاوت فرماتے تھے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام ہر سال اس مہینہ میں آپ کو قرآن کا دور کراتے اور جب آپ کی زندگی کا آخری سال تھا تو انہوں نے دومرتبہ آپ پر قرآن پیش کیا، اللہ کے رسولﷺ خود پڑھتے اور صحابہ کرام کو بھی تلاوت کرنے کی ترغیب دیتے اور اس کے فضائل و محاسن بیان فرماتے چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشا فرمایا: من قرأحرفا من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشر امثالہا ، لاأقول الم حرف، ولکن الف حرف، واللام حرف،ومیم حرف (ترمذی:۳۰۷۵)
یعنی جس نے قرآن کے ایک حرف کی تلاوت کی اس کے بدلے اسے ایک نیکی ملے گی اور وہ نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوں گی، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے،میم ایک حرف ہے اور دوسری حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ’’جوبھی جماعت اللہ کے کسی گھر میں اللہ کے کتاب کی تلاوت کرنے اور باہم اسے پڑھنے کے لئے اکٹھا ہوتی ہے تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت الٰہی انہیں ڈھانک لیتی ہے، فرشتے سایہ فگن ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں کے درمیان ان کا تذکرہ کرتاہے۔(مسلم)
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺنے تلاوت کرنے والے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : ’’وہ مومن جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس کی مثال نارنگی جیسی ہے کہ اسکی بو اچھی ہے اور ذائقہ بھی عمدہ ہے۔۔۔‘‘(بخاری)
دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن پڑھنے اور پڑھانے والے کے بارے میں فرمایا کہ ’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ (بخاری) تم میں بہتر شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے، نیز دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے کم پڑھے لکھے لوگوں کو خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’قرآن کی تلاوت میں مہارت رکھنے والا بزرگوں اور نیکوکار لکھنے والوں (یعنی اللہ کے فرشتوں ) کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر مشقت سے پڑھتا ہے (یعنی ماہرین کی طرح روانی اور سہولت سے نہیں پڑھ پاتا ہے) تو اس کے لئے دہرا اجر و ثواب ہے۔ (بخاری)
تلاوت قرآن کے بارے میں ایک مشہور اور صحیح روایت ہے کہ ’’قرآن کریم قیامت کے دن تلاوت کرنے والوں کی سفارش کرے گا اور اس کی سفارش مقبول ہوگی، نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا کہ قرآن کی تلاوت کرو اس لئے کہ قرآن قیامت کے دن پڑھنے والوں کا سفارشی بن کر آئے گا۔ (مسلم)
قرآن کریم کے بے شمار فضائل ہیں جن میں سے چند فضیلتیں ذکر کی گئیں ہیں، لہٰذا ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کرے لیکن جب بھی کرے یکسو اور حضور قلب کے ساتھ کرے تاکہ اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھے اور ان پر عمل کرے، جیسا کہ نبیﷺنے ارشاد فرمایاکہ ’’ قرآن پڑھو جب تک تمہارے دل متوجہ ہوں،اور تمہیں یکسوئی حاصل ہو اور جب تمہارے دل میں انتشار پید اہوجائے اور یکسوئی ختم ہوجائے تو اٹھ جاؤ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم جب تک قرآن کی تلاوت کریں تو اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھ کر پڑھیں، تبھی اس کی لذت اور چاشنی کو پاسکیں گے اور یہی قرآن اتارنے کا مطلوب و مقصود بھی ہے کہ بندے اس کی تلاوت کریں اور اس کے معانی کو سمجھیں اور خلوص للہیت کے ساتھ اس پر عمل کریں ، اس کے احکامات کو بجالائیں اور منہیات سے دور رہیں اور اس کے اخلاق و آداب سے اپنی زندگی کو سنواریں اور دنیاوی و اخروی زندگی سے اپنے آپ کو ہمکنار کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو صراط مستقیم پر چلا، ہمیں اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین*
اس مہینہ کا روزہ تمام مسلمان عاقل وبالغ، صحت مند و مقیم مرد و عورت پر فرض ہے جسے کوئی شرعی عذر لاحق نہ ہو، اس مہینہ کا روزہ تقوی و پرہیزگاری کا ضامن اور گنہگاروں کے لئے اس مہینہ کی رحمتوں اور برکتوں کے سائے میں رہ کر اپنے گناہوں کو دھلنے اور نیکیاں سمیٹنے کا موسم بہار ہے اس مہینہ کی فضیلت تمام مہینوں کے اعتبار سے بہت زیادہ ہے اس کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسی مبارک ماہ رمضان میں اللہ نے اپنی آخری مقدس کتاب متقیوں کے لئے ہدایت اور تمام انسانوں کے لئے خیر وبرکت کا سرچشمہ بناکر سیدالمرسلین حضرت محمدﷺ پر نازل کیا اور ارشاد فرمایا:(شہر رمضان الذی أنزل فیہ القرآن ہدی للناس وبینات من الہدیٰ والفرقان فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ۔۔۔) نیز اللہ نے سورہ قدر میں ارشاد فرمایا: (إنا أنزلناہ فی لیلۃ القدر، وما ادراک مالیلۃ القدر، لیلۃ القدر خیر من الف شہر) اور سورہ دخان میں بھی ارشاد فرمایا (إنا أنزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ) ۔
مذکورہ آیتوں کے علاوہ اس مبارک مہینے کی فضیلت میں اللہ کے رسولﷺ نے متعدد جگہ ارشاد فرمایا کہ ’’ تمہیں رمضان مل رہا ہے، یہ بڑا بابرکت مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے تم پر فرض لئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو پابہ زنجیر کردیا جاتا ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر وافضل ہے، جو شخص اس بابرکت رات کی فضیلت و خیر سے محروم رہ گیا تو وہ (واقعی) محروم ہی ہے۔(مسند احمد)
نزول قرآن کی سالگرہ: ماہ رمضان قرآن کریم کے نزول کی سالگرہ ہے اس لئے اس ماہ کو قرآن کریم سے گہرا تعلق ہے، قرآن کریم کی تلاوت عموما تمام مہینوں اور خصوصا ماہ رمضان میں ایک بڑی عبادت اور افضل ترین عمل ہے، اللہ کے رسولﷺ ماہ رمضان میں دیگر مہینوں کی بہ نسبت قرآن کریم کی زیادہ تلاوت فرماتے تھے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام ہر سال اس مہینہ میں آپ کو قرآن کا دور کراتے اور جب آپ کی زندگی کا آخری سال تھا تو انہوں نے دومرتبہ آپ پر قرآن پیش کیا، اللہ کے رسولﷺ خود پڑھتے اور صحابہ کرام کو بھی تلاوت کرنے کی ترغیب دیتے اور اس کے فضائل و محاسن بیان فرماتے چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشا فرمایا: من قرأحرفا من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشر امثالہا ، لاأقول الم حرف، ولکن الف حرف، واللام حرف،ومیم حرف (ترمذی:۳۰۷۵)
یعنی جس نے قرآن کے ایک حرف کی تلاوت کی اس کے بدلے اسے ایک نیکی ملے گی اور وہ نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوں گی، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے،میم ایک حرف ہے اور دوسری حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ’’جوبھی جماعت اللہ کے کسی گھر میں اللہ کے کتاب کی تلاوت کرنے اور باہم اسے پڑھنے کے لئے اکٹھا ہوتی ہے تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت الٰہی انہیں ڈھانک لیتی ہے، فرشتے سایہ فگن ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں کے درمیان ان کا تذکرہ کرتاہے۔(مسلم)
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺنے تلاوت کرنے والے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : ’’وہ مومن جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس کی مثال نارنگی جیسی ہے کہ اسکی بو اچھی ہے اور ذائقہ بھی عمدہ ہے۔۔۔‘‘(بخاری)
دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن پڑھنے اور پڑھانے والے کے بارے میں فرمایا کہ ’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ (بخاری) تم میں بہتر شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے، نیز دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے کم پڑھے لکھے لوگوں کو خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’قرآن کی تلاوت میں مہارت رکھنے والا بزرگوں اور نیکوکار لکھنے والوں (یعنی اللہ کے فرشتوں ) کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر مشقت سے پڑھتا ہے (یعنی ماہرین کی طرح روانی اور سہولت سے نہیں پڑھ پاتا ہے) تو اس کے لئے دہرا اجر و ثواب ہے۔ (بخاری)
تلاوت قرآن کے بارے میں ایک مشہور اور صحیح روایت ہے کہ ’’قرآن کریم قیامت کے دن تلاوت کرنے والوں کی سفارش کرے گا اور اس کی سفارش مقبول ہوگی، نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا کہ قرآن کی تلاوت کرو اس لئے کہ قرآن قیامت کے دن پڑھنے والوں کا سفارشی بن کر آئے گا۔ (مسلم)
قرآن کریم کے بے شمار فضائل ہیں جن میں سے چند فضیلتیں ذکر کی گئیں ہیں، لہٰذا ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کرے لیکن جب بھی کرے یکسو اور حضور قلب کے ساتھ کرے تاکہ اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھے اور ان پر عمل کرے، جیسا کہ نبیﷺنے ارشاد فرمایاکہ ’’ قرآن پڑھو جب تک تمہارے دل متوجہ ہوں،اور تمہیں یکسوئی حاصل ہو اور جب تمہارے دل میں انتشار پید اہوجائے اور یکسوئی ختم ہوجائے تو اٹھ جاؤ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم جب تک قرآن کی تلاوت کریں تو اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھ کر پڑھیں، تبھی اس کی لذت اور چاشنی کو پاسکیں گے اور یہی قرآن اتارنے کا مطلوب و مقصود بھی ہے کہ بندے اس کی تلاوت کریں اور اس کے معانی کو سمجھیں اور خلوص للہیت کے ساتھ اس پر عمل کریں ، اس کے احکامات کو بجالائیں اور منہیات سے دور رہیں اور اس کے اخلاق و آداب سے اپنی زندگی کو سنواریں اور دنیاوی و اخروی زندگی سے اپنے آپ کو ہمکنار کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو صراط مستقیم پر چلا، ہمیں اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین*
آہ! بڑے ابا agu 2010
مولانا فضل حق مدنی
استاذ جامعہ سراج العلوم ،جھنڈانگر
مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے ذہانت و فطانت اور صفائی ستھرائی کا وافر حصہ اللہ نے آپ کو عطاء کیا تھا،دینداری اور تدین آپ کے چہرے سے نمایاں اور واضح تھا محلہ کی مسجد میں پنجوقتہ امامت کا فریضہ آپ ہی کے سر تھا، لیکن چھٹیوں میں جب ہم لوگ گھر پہونچتے تو ازراہ محبت یہ فریضہ ہم لوگوں کے سپرد کردیتے آپ خاندان کے تمام پڑھے لکھے بچوں کی بہت قدر کرتے ان کی خواہش ہوتی کہ عصر کے بعد چائے نوشی انہیں کے ساتھ کروں لیکن ان کے تکلفات سے بچنے کے لئے اکثر میں کسی نہ کسی بہانے ان کے ساتھ جانے سے انکاری ہوجاتا جب کہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے خاندان کے متعلق نیز دہلی رحمانیہ اور ہندوستان کے بہت سارے شہروں اور خلیجی ممالک کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں معلوم ہوتیں، کیونکہ سیروافی الأرض کے تحت انہوں نے جوانی میں خوب خوب سیروتفریح اور معیشت سے متعلق سفر کئے، آپ مدارس کا چندہ رمضان المبارک کے مہینہ میں بہت شوق سے تقسیم کرتے کبھی کسی چندہ کنندہ کو انہوں نے دوبارہ گھر پر اس کام کے لئے نہیں بلایا نیز غریبوں اور مسکینوں کا بہت خیال کرتے تھے ہم لوگوں کو بھی ان کی مدد پر ابھارتے رہتے، مطالعہ کا بہت شوق تھا،روزنامہ اخبار اور اکثر جماعتی پرچوں کے خریدار تھے، کوئی خاص بات ہوتی تو ہم لوگوں سے بھی اس کا ذکر کرتے اور پڑھنے کے لئے وہ پرچہ دیتے،لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی واپسی کا ذکر کرتے چونکہ آپ نے دہلی رحمانیہ میں چند سال طالب علمی کے ایام گزارے تھے اور وہاں کے بہترین اور ذہین طلباء میں آپ کا شمار ہوتا تھالیکن قسمت نے یاوری نہیں کی اور آپ فراغت سے محروم رہے پھر بھی آپ علماء کے بڑے قدردان تھے چھٹیوں میں میرے گھر پہونچنے پر جھنڈے نگر کے تمام علماء کا حال چال معلوم کرتے، نیز اہل کدربٹوا اور خاندان میاں زکریا صاحب و اطراف و جوانب کے پرانے علماء کے حالات معلوم کرتے ، آپ کی خواہش تھی کہ خاندان کے اندر آپس میں کچھ رشتے ہونے چاہئے تاکہ بڑھتی ہوئی دوریاں سمٹ جائیں اس کا بار بار اظہار بھی کرتے جس کی وجہ سے میرے چچازاد بھائی مولوی افضل سلمہ امام و خطیب کانپور، کی شادی بڑے چچا محترم مولانا عبدالرحمن صاحب حفظہ اللہ کی صاحبزادی ثمامہ سلمہا کے ساتھ ہوئی اور میرے بڑے لڑکے حافظ صہیب حسن مدنی سلمہ کی شادی چھوٹے چچا ڈاکٹر حافظ عبدالعزیز صاحب حفظہ اللہ کی صاحبزادی صفیہ محمدی سلمہا کے ساتھ ہوئی اور تیسرا رشتہ آپ کے لڑکے شبیہ اختر صاحب کی صاحبزادی رفیدہ سلمہا کا میرے بھتیجے ضیاء الحق سلمہ کے ساتھ ہونا طے پایا جو اس وقت مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔
آپ نے اپنے پیچھے ایک بھراپرا خاندان چھوڑا جو چھ بچوں اور ایک بچی اور ان کی اولاد پر مشتمل ہے، ماشاء اللہ دوبچے عالم دین دو ڈاکٹر اور دو اچھے تاجر ہیں اللہ ان سب کو صبر وشکر کی توفیق عطاء کرے اور دین کا سچا شیدائی بنائے اور خاندان رحمانی کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ ***
استاذ جامعہ سراج العلوم ،جھنڈانگر
آہ! بڑے ابا
محترم بڑے دادا جناب شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ صاحب رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ کے بڑے صاحبزادے جناب مولوی فضل الباری صاحب رحمہ اللہ کا ۱۵؍جولائی بروز پنجشنبہ ۲۰۱۰ء کو بوقت فجر تقریبا ۸۸؍سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے ذہانت و فطانت اور صفائی ستھرائی کا وافر حصہ اللہ نے آپ کو عطاء کیا تھا،دینداری اور تدین آپ کے چہرے سے نمایاں اور واضح تھا محلہ کی مسجد میں پنجوقتہ امامت کا فریضہ آپ ہی کے سر تھا، لیکن چھٹیوں میں جب ہم لوگ گھر پہونچتے تو ازراہ محبت یہ فریضہ ہم لوگوں کے سپرد کردیتے آپ خاندان کے تمام پڑھے لکھے بچوں کی بہت قدر کرتے ان کی خواہش ہوتی کہ عصر کے بعد چائے نوشی انہیں کے ساتھ کروں لیکن ان کے تکلفات سے بچنے کے لئے اکثر میں کسی نہ کسی بہانے ان کے ساتھ جانے سے انکاری ہوجاتا جب کہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے خاندان کے متعلق نیز دہلی رحمانیہ اور ہندوستان کے بہت سارے شہروں اور خلیجی ممالک کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں معلوم ہوتیں، کیونکہ سیروافی الأرض کے تحت انہوں نے جوانی میں خوب خوب سیروتفریح اور معیشت سے متعلق سفر کئے، آپ مدارس کا چندہ رمضان المبارک کے مہینہ میں بہت شوق سے تقسیم کرتے کبھی کسی چندہ کنندہ کو انہوں نے دوبارہ گھر پر اس کام کے لئے نہیں بلایا نیز غریبوں اور مسکینوں کا بہت خیال کرتے تھے ہم لوگوں کو بھی ان کی مدد پر ابھارتے رہتے، مطالعہ کا بہت شوق تھا،روزنامہ اخبار اور اکثر جماعتی پرچوں کے خریدار تھے، کوئی خاص بات ہوتی تو ہم لوگوں سے بھی اس کا ذکر کرتے اور پڑھنے کے لئے وہ پرچہ دیتے،لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی واپسی کا ذکر کرتے چونکہ آپ نے دہلی رحمانیہ میں چند سال طالب علمی کے ایام گزارے تھے اور وہاں کے بہترین اور ذہین طلباء میں آپ کا شمار ہوتا تھالیکن قسمت نے یاوری نہیں کی اور آپ فراغت سے محروم رہے پھر بھی آپ علماء کے بڑے قدردان تھے چھٹیوں میں میرے گھر پہونچنے پر جھنڈے نگر کے تمام علماء کا حال چال معلوم کرتے، نیز اہل کدربٹوا اور خاندان میاں زکریا صاحب و اطراف و جوانب کے پرانے علماء کے حالات معلوم کرتے ، آپ کی خواہش تھی کہ خاندان کے اندر آپس میں کچھ رشتے ہونے چاہئے تاکہ بڑھتی ہوئی دوریاں سمٹ جائیں اس کا بار بار اظہار بھی کرتے جس کی وجہ سے میرے چچازاد بھائی مولوی افضل سلمہ امام و خطیب کانپور، کی شادی بڑے چچا محترم مولانا عبدالرحمن صاحب حفظہ اللہ کی صاحبزادی ثمامہ سلمہا کے ساتھ ہوئی اور میرے بڑے لڑکے حافظ صہیب حسن مدنی سلمہ کی شادی چھوٹے چچا ڈاکٹر حافظ عبدالعزیز صاحب حفظہ اللہ کی صاحبزادی صفیہ محمدی سلمہا کے ساتھ ہوئی اور تیسرا رشتہ آپ کے لڑکے شبیہ اختر صاحب کی صاحبزادی رفیدہ سلمہا کا میرے بھتیجے ضیاء الحق سلمہ کے ساتھ ہونا طے پایا جو اس وقت مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔
آپ نے اپنے پیچھے ایک بھراپرا خاندان چھوڑا جو چھ بچوں اور ایک بچی اور ان کی اولاد پر مشتمل ہے، ماشاء اللہ دوبچے عالم دین دو ڈاکٹر اور دو اچھے تاجر ہیں اللہ ان سب کو صبر وشکر کی توفیق عطاء کرے اور دین کا سچا شیدائی بنائے اور خاندان رحمانی کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ ***
Friday, 30 July 2010
الکتاب الحکمۃ jun-jul 2010
الکتاب
(وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنیٰ دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجٍعُوْنَ. وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہِ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْھَا، اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ )ترجمہ: بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں۔ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر اس نے ان سے منہ پھیر لیا،(یقین مانو) کہ ہم بھی گنہگاروں سے انتقام لینے والے ہیں۔
تشریح: ۔عذاب ادنیٰ (چھوٹے سے یا قریب کے بعض عذاب) سے دنیا کا عذاب یا دنیا کی مصیبتیں اور بیماریاں وغیرہ مراد ہیں، بعض کے نزدیک وہ قتل اس سے مراد ہے جس سے جنگ بدر میں کافر دو چار ہوئے یا وہ قحط سالی ہے جو اہل مکہ پر مسلط کی گئی تھی، امام شوکانی فرماتے ہیں تمام صورتیں ہی اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔
یہ آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب بھیجنے کی علت ہے کہ شاید وہ کفر و شرک اور معصیت سے باز آجائیں۔ یعنی اللہ کی آیتیں سن کر جو ایمان و اطاعت کی موجب ہیں ، جو شخص ان سے اعراض کرتا ہے، اس سے بڑا ظالم کون ہے؟ یعنی سب سے بڑا ظالم ہے۔
(تفسیر احسن البیان)
الحکمۃ
(وعن أبی سعید الخدریِّ رضی اللّٰہُ عنہ قال: کانَ النَّبیُّ ﷺ یَقُولُ:’’ إذا وُضِعَتِ الجَنَازَۃُ، فاحتَمَلَھَا الرِّجالُ علی أعْنَاقِھِمْ، فإنْ کانَتْ صالحۃً قالتْ: قَدِّمُوْنی، وإنْ کانتْ غیرَ صالحۃٍ قالت لأھلھا: یَا وَیْلَھا! أینَ تَذْھَبُوْنَ بِھَا، یَسْمَعُ صَوْتَھا کُلُّ شئیٍ إلاَّ الإنسانَ، وَلَوْ سمعَ الإنْساَنُ لَصَعِقَ‘‘ (رواہ البخاری)ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے جب جنازہ رکھا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھالیتے ہیں پس اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے آگے لے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو لوگوں سے کہتا ہے ہائے ہلاکت! تم اسے کہاں لے جارہے ہو، اس کی آواز انسان کے سوا ہر چیز سنتی ہے اور اگر انسان سن لے تو یقیناًبے ہوش ہوجائے۔
تشریح: میت کس طرح بولتی ہے؟ اس کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے، تاہم اس کا بولنا ممکن نہیں ہے، اللہ تعالیٰ جسے بلوانا چاہے، بلواسکتا ہے مردے کا یہ بولنا صحیح حدیث سے ثابت ہے اس لئے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، لیکن اس سے میت کا عام گفتگو کرنا یا گفتگو سننا اور آنا جانا یا دنیا والوں کی ضروریات پوری کرنا یا مشکلات آسان کرنا وغیرہ ثابت نہیں ہوتا ہے، افسوس کچھ لوگ اس قسم کی احادیث سے اس طرح کی باتیں کشید کرتے ہیں اور اسے عقیدۂ اہل سنت مشتہر کرتے ہیں ، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اتباع حق کی توفیق دے۔ آمین۔
(دلیل الطالبین)
ہماری ملی ضرورت اتحاد کا خورشید جہاں تاب Editorial jun-jul 2010
شعور و آگہی
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
ہماری ملی ضرورت
اتحاد کا خورشید جہاں تاب
اتحاد کا خورشید جہاں تاب
گذشتہ دنوں ملکی حالات کچھ عجیب بے جہت سے رہے،اندازہ لگانا مشکل تھا، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، تمام سیاسی جماعتیں دستور نو کے حوالے سے بے یقینی کا شکار رہیں، وزیر اعظم کے استعفاء کا مطالبہ ہوتا رہا، پارلیمنٹ کی کاروائی موقوف کردی گئی، خواتین بھی سرگرم عمل رہیں، ایوان میں ان کی نعرہ بازی نے بڑی مضحکہ خیز صورت پید اکر رکھی تھی۔
بالآخر طے پایا کہ دستور کی تکمیل و تشکیل کے لئے ایک سال کی مدت بڑھادی جائے، ہنگامے کچھ سرد پڑے، مگر استعفاء کی مانگ جاری رہی، یہ ایک طرح سے سرد جنگ تھی۔
اب وزیر اعظم اپنا استعفاء پیش کرچکے ہیں، جملہ سیاسی احزاب باہمی گفت وشنید کے ذریعہ اقتدار کی لیلائے نازک بدن سے ہم آغوشی کی چاہ میں بے قرار ہیں، اضطراب کی یہ وہ کیفیت ہے، جو جہاں بھی پیدا ہوگی، ترقی کی رفتار رک جائے گی، عوام مایوسی سے دوچار ہوں گے، ملکی معیشت کو گھن لگ جائے گا اور امن وامان کے لب پر ایک پھیکی مسکراہٹ پھیلتی چلی جائے گی، جو ہر شہری کو مضطرب رکھنے کے لئے کافی ہے۔
نئے دستور کی تشکیل کی مدت دو برس تھی، جس کے لئے ۶۰۱؍ارکان پر مشتمل جہازی سائز کا ایوان بنا ہوا تھا، مگر مقررہ مدت میں دستور بنانے میں یہ ایوان ناکام رہا، پارلیمان کے قیمتی لمحات لایعنی اورفضول ہنگامہ آرائیوں کی نذر ہوتے رہے، قومی سرمائے کا یہ زیاں حساس اہل وطن کے لئے بے حد اذیت ناک تھا۔
سیاست داں مزے اڑاتے رہے، وہ قوم کی فکر سے بے نیاز اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کوشاں رہے، دیکھتے دیکھتے دو سال کے گراں قدر صبح و شام یوں ہی گزر گئے، بے بس شہری خالی ہاتھ رہ گیا، اب اسے ایک سال کے غم انگیز روز و شب مزید برداشت کرنے پڑیں گے۔
اب تک دستور میں جو دفعات جگہ پاچکے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ سب ہمارے لئے بہت خوش کن ہوں، ہر طبقہ اتحاد اور جہد مسلسل کے ذریعے بہت کچھ پانے کی امید میں ہے، مگر ایک ہم ہیں جو ابھی تک اتحاد کی اہمیت سے واقف ہی نہ ہوسکے، تگ و دو بہت ہوئی، تنظیمیں کئی ایک وجود میں آئیں، سب نے اپنی توانائی صرف کی، اخراجات بھی ہوئے، سیاسی قائدین سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر ان جہود و مساعی کے مقابلے میں جو حصولیابی ہوئی، وہ دلوں کے خوش اور مطمئن ہونے کے لئے ناکافی ہے، دراصل مسئلہ وہی پرانا ہے:
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
بکھرے ہوئے تاروں اور جگنووں کی چمک سے اندھیرے کافور نہیں ہوتے، اس کے لئے ایک خورشید جہاں تاب کی ضرورت ہوتی ہے، آج ہمیں اتحاد کے ذریعے ایک ایسا ہی آفتاب تازہ پیدا کرنا ہے، جس سے بے جہتی کا اندھیرا چھٹ جائے، بے یقینی کی سیاہی مٹ جائے اور ہمیں ہمارے حقوق کی ضمانت کی وہ روشنی حاصل ہو، جس سے شاہراہ حیات پہ چلنا سہل ہوجائے، تاریکیاں ہماری پیش قدمی میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
ہمارے ملک کی سیاسی دنیا کے بزر چمہر یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ اتحاد و اتفاق کی روشنی والی اس اقلیت کو ساتھ لئے بغیر ان کے گہرے اندھیرے دور نہیں ہو پائیں گے اور اقتدار سے دوری ان کا مقدر بن جائے گی۔پھر وہ خود ہی ہمارے حقوق کے لئے کوشاں نظر آئیں گے۔
بالآخر طے پایا کہ دستور کی تکمیل و تشکیل کے لئے ایک سال کی مدت بڑھادی جائے، ہنگامے کچھ سرد پڑے، مگر استعفاء کی مانگ جاری رہی، یہ ایک طرح سے سرد جنگ تھی۔
اب وزیر اعظم اپنا استعفاء پیش کرچکے ہیں، جملہ سیاسی احزاب باہمی گفت وشنید کے ذریعہ اقتدار کی لیلائے نازک بدن سے ہم آغوشی کی چاہ میں بے قرار ہیں، اضطراب کی یہ وہ کیفیت ہے، جو جہاں بھی پیدا ہوگی، ترقی کی رفتار رک جائے گی، عوام مایوسی سے دوچار ہوں گے، ملکی معیشت کو گھن لگ جائے گا اور امن وامان کے لب پر ایک پھیکی مسکراہٹ پھیلتی چلی جائے گی، جو ہر شہری کو مضطرب رکھنے کے لئے کافی ہے۔
نئے دستور کی تشکیل کی مدت دو برس تھی، جس کے لئے ۶۰۱؍ارکان پر مشتمل جہازی سائز کا ایوان بنا ہوا تھا، مگر مقررہ مدت میں دستور بنانے میں یہ ایوان ناکام رہا، پارلیمان کے قیمتی لمحات لایعنی اورفضول ہنگامہ آرائیوں کی نذر ہوتے رہے، قومی سرمائے کا یہ زیاں حساس اہل وطن کے لئے بے حد اذیت ناک تھا۔
سیاست داں مزے اڑاتے رہے، وہ قوم کی فکر سے بے نیاز اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کوشاں رہے، دیکھتے دیکھتے دو سال کے گراں قدر صبح و شام یوں ہی گزر گئے، بے بس شہری خالی ہاتھ رہ گیا، اب اسے ایک سال کے غم انگیز روز و شب مزید برداشت کرنے پڑیں گے۔
اب تک دستور میں جو دفعات جگہ پاچکے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ سب ہمارے لئے بہت خوش کن ہوں، ہر طبقہ اتحاد اور جہد مسلسل کے ذریعے بہت کچھ پانے کی امید میں ہے، مگر ایک ہم ہیں جو ابھی تک اتحاد کی اہمیت سے واقف ہی نہ ہوسکے، تگ و دو بہت ہوئی، تنظیمیں کئی ایک وجود میں آئیں، سب نے اپنی توانائی صرف کی، اخراجات بھی ہوئے، سیاسی قائدین سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر ان جہود و مساعی کے مقابلے میں جو حصولیابی ہوئی، وہ دلوں کے خوش اور مطمئن ہونے کے لئے ناکافی ہے، دراصل مسئلہ وہی پرانا ہے:
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
بکھرے ہوئے تاروں اور جگنووں کی چمک سے اندھیرے کافور نہیں ہوتے، اس کے لئے ایک خورشید جہاں تاب کی ضرورت ہوتی ہے، آج ہمیں اتحاد کے ذریعے ایک ایسا ہی آفتاب تازہ پیدا کرنا ہے، جس سے بے جہتی کا اندھیرا چھٹ جائے، بے یقینی کی سیاہی مٹ جائے اور ہمیں ہمارے حقوق کی ضمانت کی وہ روشنی حاصل ہو، جس سے شاہراہ حیات پہ چلنا سہل ہوجائے، تاریکیاں ہماری پیش قدمی میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
ہمارے ملک کی سیاسی دنیا کے بزر چمہر یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ اتحاد و اتفاق کی روشنی والی اس اقلیت کو ساتھ لئے بغیر ان کے گہرے اندھیرے دور نہیں ہو پائیں گے اور اقتدار سے دوری ان کا مقدر بن جائے گی۔پھر وہ خود ہی ہمارے حقوق کے لئے کوشاں نظر آئیں گے۔
سسکتی انسانیت کا مداوا jun-jul 2010
مولانا محمد مظہر اعظمی
سسکتی انسانیت کا مداوا
پوری دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے اور اس سسکتی ہوئی انسانیت کے لئے روز بڑی بڑی کانفرنسیں اور سیمینار ہورہے ہیں جہاں انسانیت کا درد رکھنے والے کہنہ مشق ماہرین اکٹھا ہوتے ہیں اور علاج اور اس کی تدبیر کی تلاش میں دل سوزی اور عرق ریزی کا مظاہرہ کرتے ہیں، دنیا ان کے مظاہرے کا مشاہدہ کرتی ہے اور ایک موہوم سی امید کے ساتھ کانفرنس اپنے اختتام کو پہونچتی ہے۔
کانفرنس کے اختتام کے بعد ایک طرف پاس شدہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں اور اس میں آنے والے اخراجات کے لئے بڑے سے بڑا فنڈ اکٹھا کیا جاتا اور دوسری طرف عوام اس شخص کی طرح کامیابی کی امید لگاتے ہیں جیسے کسی مریض نے عدم شفایابی کی صورت میں ڈاکٹر بدل کر شفایابی کی امید لگا رکھی ہو، مگر کانفرنس اور اس کی تجاویز کا انجام حسب سابق ہی ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا مرض بڑھ جاتا ہے اور مریض کی پریشانیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی
اگر یہ کہا جائے کہ اب تک کی تمام کانفرنسیں جو سسکتی انسانیت کے لئے منعقد ہوئی تھیں فیل اور ان میں پاس ہونے والی تمام تجاویز ناکام ہوگئیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ جو صورت حال پہلے تھی اور جن مسائل سے دنیا دوچار تھی ان میں کوئی اور کسی طرح کی تبدیلی اب تک رونما نہیں ہوئی ہے اور اگر حالات میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو مستقبل جس قدر تاریک ہوگا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مذکورہ مسلسل ناکامیوں کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں انسانیت کے لئے درد ہے اور وہ واقعی مداوا چاہتے ہیں تو اب اس موضوع پر کانفرنس کریں اور سرجوڑ کر بیٹھیں کہ ہماری تمام تجاویزکیوں فیل ہوجاتی ہیں اور اس کے ثمرات و نتائج خاطر خواہ کیوں نہیں برآمد ہوتے ؟ ہماری نیت میں کھوٹ ہے یا تشخیص میں کوئی غلطی ہورہی ہے؟
نیت کا تعلق آدمی کے دل سے ہوتا ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لئے نیت کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے البتہ کردار و عمل کی روشنی میں رائے قائم کی جاسکتی مگر اس رائے کے قائم کرنے میں غلطی تو ہوہی سکتی ہے، قوم اور انسانیت کے لئے جو کچھ ہوتا ہے اس سے بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ نیت میں اخلاص کی کمی کی وجہ سے نتائج و ثمرات امید اور توقع کے مطابق نہیں ہوتے۔
دوسرا پہلو تشخیص کی غلطی کا ہے، جس کے متعلق مشاہدات و تجربات کی روشنی میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سسکتی ہوئی انسانیت کے مرض کی تشخیص صحیح نہیں ہورہی ہے، اگر صحیح ہوتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ علاج موثر ہونے کے بجائے مرض میں اضافہ ہوتا۔ اور جب یہ متحقق ہے کہ تشخیص کی غلطی صحت و شفا میں مانع ہے تو کیوں نہ صحیح تشخیص پر توجہ دی جائے اور نیک نیتی کے ساتھ اسے عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا جائے۔
انسانیت سسک رہی ہے یہ مسلم ہے کیونکہ جان، مال اور آبرو جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں، اگر آج ان تینوں چیزوں کو تحفظ مہیا کیا جائے تو جہاں سے کراہنے اور سسکنے کی آواز آرہی ہے ابھی وہیں سے خوشی اور مسرت کے شادیانے سننے میں آئیں گے، جب اصل مرض یہ ہے جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں تو کیوں نہ ان کو تحفظ مہیا کرایا جائے اور تحفظ کے لئے تاریخ کے جھروکوں میں دیکھا جائے کہ جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی تو اس کا مداوا کیسے اور کس طرح اور کہاں سے حاصل کیا گیا۔
مادی ترقی اور ظاہری چم وخم کو چھوڑ کر اگر بنظر غائر انسانیت کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں ڈیڑھ ہزار سال پہلے کھڑے تھے، صورت حال میں کوئی فرق نہیں، طاقت و قوت کا راج تب بھی تھا اور اب بھی ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو بالادستی تب بھی حاصل تھی اور اب بھی حاصل ہے، گھر کے اندر اور گھر کے باہر جان و مال اور عزت و آبرو تب بھی محفوظ نہیں تھا اور اب بھی محفوظ نہیں ہے مگر ہم ہیں کہ سیاروں پر کمندیں ڈال کر خلا میں پرواز کرکے مگن ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے سب کچھ حاصل کرلیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم انسانیت کو تحفظ نہ دے سکے تو گویا ہم نے بہت کچھ حاصل کرکے بھی کچھ نہیں پایا۔
جان و مال اور عزت و آبرو کو جس طرح ڈیڑھ ہزار سال پہلے سے تحفظ درکار تھا اسی طرح آج بھی درکار ہے اور جن اصولوں کے سایہ میں تب تحفظ ملا تھا اسی میں آج میں ملنا ہے، کیونکہ مذکورہ تمام چیزیں آج بھی اپنی اسی اصل پر ہیں جس پر پہلے تھیں مگر افسوس کہ کچھ انسانیت کے دشمنوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس وقت کے جو اصول و ضوابط تھے وہ اس وقت کی غیر مہذب اور غیر متمدن قوم کے لحاظ سے وضع کئے گئے تھے آج کا مہذب انسان اس اصولوں کا متحمل نہیں ہے، ا ن کے لئے آج کے حالات اور زمان ومکان کو سامنے رکھ کر قانون و ضع کیا جائے گا تو بہتر اور موثر ہوگا۔
جان کی قیمت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، سیم و زر تب بھی معیار تھے اور آج بھی معیار ہیں کسی کی عزت وآبرو سے کھیلنا اس وقت بھی گناہ تھا اور آج بھی گناہ ہے، جب یہ تمام چیزیں اپنی اصل پر ہیں تو پھر کیوں اصول بدل جائے گا؟ کل ایک شخص پراگندہ حال اور پراگندہ بال اپنے ہاتھ میں کنداور زنگ آلود تلوار لے کر آتا اور قتل کردیتا تھا تو وہ قتل کے عوض قتل کئے جانے کا مستحق ہے کیونکہ وہ اپنی شکل و صورت اور ہیئت سے غیر مہذب اور غیر سنجیدہ بلکہ الٹھر دکھلائی دیتا ہے اور آج ایک شخص عمدہ قسم کی گاڑی میں سوار ہوکر آتا ہے، سراپا لباس فاخرہ میں ملبوس ہے اور ہاتھ میں قیمتی آتشی ہتھیار ہے کسی کا قتل کرتا ہے اور شان سے فضا میں فائرنگ کرتا ہوا فرار ہوجاتا ہے، تو کیا ایسا شخص قتل کا مستحق نہیں کیونکہ بڑا مہذب اور باوقار معلوم ہورہاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سزائیں جرم کے لحاظ سے ہوتی ہیں مجرم کی وضع قطع اور لباس کے لحاظ سے نہیں اس لئے قتل کا مستحق وہ بھی ہے جو پراگندہ حال، کند اور زنگ آلود تلوار سے گردن مارتا ہے اور وہ شخص بھی قتل کا مستحق ہے جو لباس فاخرہ میں ملبوس آتشی ہتھیار سے قتل کرتا ہے کیونکہ قتل دونوں نے کیا ہے، اگرچہ دونوں کا طریقہ کا ر الگ الگ تھا، اس لئے قتل تو دونوں کئے جائیں گے ہاں دونوں کے قتل کا طریقہ کار الگ الگ تھا اس لئے دونوں مجرموں کے قتل کے لئے بھی طریقہ الگ الگ اختیار کیا جاسکتا ایک کو مہذب انداز میں آتشی ہتھیار سے دوسرے کو غیر مہذب انداز میں کند تلوار سے مگر قتل دونوں کا ہوگا۔
جس طرح جان کے تحفظ کا معاملہ ہے اسی طرح مال ودولت اور عزت و آبرو کا بھی ہے ، ان تمام چیزوں کا تحفظ ہر شخص ہر حال میں چاہتا ہے وہ مہذب ہو یا غیر مہذب، جاہل ہو یا عالم اس لئے مذہب اسلام نے ان کے تحفظ کے لئے مستحکم اور مضبوط قانون و اصول عنایت کیا ہے، جس کے سایہ میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے بھی انسانیت کو سکون و اطمینان ملاتھا آج بھی اسی میں ممکن ہے، اس لئے انسانیت کے لئے آنسو بہانے والوں اور کانفرنس کرنے والوں کو چاہئے کہ ایک مرتبہ اسے بھی عملی جامہ پہنا کر دیکھیں کہ کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے اور سسکتی ہوئی انسانیت کا کس قدر مداوا ہوپاتا ہے، بلکہ مناسب تو ہوگا کہ ان ملکوں کی طرف ایک نگاہ اٹھا کر دیکھیں جہاں یہ قوانین جزوی طور پر نافذ ہیں کہ وہاں جرائم کی کیا رفتار ہے، جن جرائم سے انسانیت بلک رہی ہے اور ان مہذب ملکوں میں کیا رفتار ہے جن کو اپنی تہذیب و تمدن، کلچر اور ترقی پر ناز ہے۔
اس تہذیب و تمدن کا کیا مطلب،اس کلچر کی کیا حیثیت اور اس ترقی کا کیا مفہوم اور فائدہ جس میں گھر باہر کہیں بھی سکون میسر نہیں ہے، ہر شخص ہر وقت مکمل ذہنی تناؤ میں رہتا ہو اگرچہ آسائش کے تمام تر لوازمات موجود ہوں، اس لئے انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کو چاہئے کہ بجائے مگرمچھ کا آنسو بہانے کے ان اصولوں کو اپنائیں جس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں، اگر مذہب کے نام پر اپنانے میں شرم آرہی ہو تو قانون کے نام پر ہی سہی کیونکہ مریض کو تو مفید اور زور اثر دوا چاہئے چاہے اس دوا کا جو بھی نام رکھ لیا جائے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بیشتر مریض نہ تو دوا کا نام جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو نام سے کیا مطلب ان کو اگر مطلب ہے تو صرف شفاء سے اور وہ بھی جتنی جلدی ہوسکے۔
***
کانفرنس کے اختتام کے بعد ایک طرف پاس شدہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں اور اس میں آنے والے اخراجات کے لئے بڑے سے بڑا فنڈ اکٹھا کیا جاتا اور دوسری طرف عوام اس شخص کی طرح کامیابی کی امید لگاتے ہیں جیسے کسی مریض نے عدم شفایابی کی صورت میں ڈاکٹر بدل کر شفایابی کی امید لگا رکھی ہو، مگر کانفرنس اور اس کی تجاویز کا انجام حسب سابق ہی ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا مرض بڑھ جاتا ہے اور مریض کی پریشانیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی
اگر یہ کہا جائے کہ اب تک کی تمام کانفرنسیں جو سسکتی انسانیت کے لئے منعقد ہوئی تھیں فیل اور ان میں پاس ہونے والی تمام تجاویز ناکام ہوگئیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ جو صورت حال پہلے تھی اور جن مسائل سے دنیا دوچار تھی ان میں کوئی اور کسی طرح کی تبدیلی اب تک رونما نہیں ہوئی ہے اور اگر حالات میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو مستقبل جس قدر تاریک ہوگا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مذکورہ مسلسل ناکامیوں کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں انسانیت کے لئے درد ہے اور وہ واقعی مداوا چاہتے ہیں تو اب اس موضوع پر کانفرنس کریں اور سرجوڑ کر بیٹھیں کہ ہماری تمام تجاویزکیوں فیل ہوجاتی ہیں اور اس کے ثمرات و نتائج خاطر خواہ کیوں نہیں برآمد ہوتے ؟ ہماری نیت میں کھوٹ ہے یا تشخیص میں کوئی غلطی ہورہی ہے؟
نیت کا تعلق آدمی کے دل سے ہوتا ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لئے نیت کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے البتہ کردار و عمل کی روشنی میں رائے قائم کی جاسکتی مگر اس رائے کے قائم کرنے میں غلطی تو ہوہی سکتی ہے، قوم اور انسانیت کے لئے جو کچھ ہوتا ہے اس سے بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ نیت میں اخلاص کی کمی کی وجہ سے نتائج و ثمرات امید اور توقع کے مطابق نہیں ہوتے۔
دوسرا پہلو تشخیص کی غلطی کا ہے، جس کے متعلق مشاہدات و تجربات کی روشنی میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سسکتی ہوئی انسانیت کے مرض کی تشخیص صحیح نہیں ہورہی ہے، اگر صحیح ہوتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ علاج موثر ہونے کے بجائے مرض میں اضافہ ہوتا۔ اور جب یہ متحقق ہے کہ تشخیص کی غلطی صحت و شفا میں مانع ہے تو کیوں نہ صحیح تشخیص پر توجہ دی جائے اور نیک نیتی کے ساتھ اسے عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا جائے۔
انسانیت سسک رہی ہے یہ مسلم ہے کیونکہ جان، مال اور آبرو جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں، اگر آج ان تینوں چیزوں کو تحفظ مہیا کیا جائے تو جہاں سے کراہنے اور سسکنے کی آواز آرہی ہے ابھی وہیں سے خوشی اور مسرت کے شادیانے سننے میں آئیں گے، جب اصل مرض یہ ہے جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں تو کیوں نہ ان کو تحفظ مہیا کرایا جائے اور تحفظ کے لئے تاریخ کے جھروکوں میں دیکھا جائے کہ جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی تو اس کا مداوا کیسے اور کس طرح اور کہاں سے حاصل کیا گیا۔
مادی ترقی اور ظاہری چم وخم کو چھوڑ کر اگر بنظر غائر انسانیت کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں ڈیڑھ ہزار سال پہلے کھڑے تھے، صورت حال میں کوئی فرق نہیں، طاقت و قوت کا راج تب بھی تھا اور اب بھی ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو بالادستی تب بھی حاصل تھی اور اب بھی حاصل ہے، گھر کے اندر اور گھر کے باہر جان و مال اور عزت و آبرو تب بھی محفوظ نہیں تھا اور اب بھی محفوظ نہیں ہے مگر ہم ہیں کہ سیاروں پر کمندیں ڈال کر خلا میں پرواز کرکے مگن ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے سب کچھ حاصل کرلیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم انسانیت کو تحفظ نہ دے سکے تو گویا ہم نے بہت کچھ حاصل کرکے بھی کچھ نہیں پایا۔
جان و مال اور عزت و آبرو کو جس طرح ڈیڑھ ہزار سال پہلے سے تحفظ درکار تھا اسی طرح آج بھی درکار ہے اور جن اصولوں کے سایہ میں تب تحفظ ملا تھا اسی میں آج میں ملنا ہے، کیونکہ مذکورہ تمام چیزیں آج بھی اپنی اسی اصل پر ہیں جس پر پہلے تھیں مگر افسوس کہ کچھ انسانیت کے دشمنوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس وقت کے جو اصول و ضوابط تھے وہ اس وقت کی غیر مہذب اور غیر متمدن قوم کے لحاظ سے وضع کئے گئے تھے آج کا مہذب انسان اس اصولوں کا متحمل نہیں ہے، ا ن کے لئے آج کے حالات اور زمان ومکان کو سامنے رکھ کر قانون و ضع کیا جائے گا تو بہتر اور موثر ہوگا۔
جان کی قیمت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، سیم و زر تب بھی معیار تھے اور آج بھی معیار ہیں کسی کی عزت وآبرو سے کھیلنا اس وقت بھی گناہ تھا اور آج بھی گناہ ہے، جب یہ تمام چیزیں اپنی اصل پر ہیں تو پھر کیوں اصول بدل جائے گا؟ کل ایک شخص پراگندہ حال اور پراگندہ بال اپنے ہاتھ میں کنداور زنگ آلود تلوار لے کر آتا اور قتل کردیتا تھا تو وہ قتل کے عوض قتل کئے جانے کا مستحق ہے کیونکہ وہ اپنی شکل و صورت اور ہیئت سے غیر مہذب اور غیر سنجیدہ بلکہ الٹھر دکھلائی دیتا ہے اور آج ایک شخص عمدہ قسم کی گاڑی میں سوار ہوکر آتا ہے، سراپا لباس فاخرہ میں ملبوس ہے اور ہاتھ میں قیمتی آتشی ہتھیار ہے کسی کا قتل کرتا ہے اور شان سے فضا میں فائرنگ کرتا ہوا فرار ہوجاتا ہے، تو کیا ایسا شخص قتل کا مستحق نہیں کیونکہ بڑا مہذب اور باوقار معلوم ہورہاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سزائیں جرم کے لحاظ سے ہوتی ہیں مجرم کی وضع قطع اور لباس کے لحاظ سے نہیں اس لئے قتل کا مستحق وہ بھی ہے جو پراگندہ حال، کند اور زنگ آلود تلوار سے گردن مارتا ہے اور وہ شخص بھی قتل کا مستحق ہے جو لباس فاخرہ میں ملبوس آتشی ہتھیار سے قتل کرتا ہے کیونکہ قتل دونوں نے کیا ہے، اگرچہ دونوں کا طریقہ کا ر الگ الگ تھا، اس لئے قتل تو دونوں کئے جائیں گے ہاں دونوں کے قتل کا طریقہ کار الگ الگ تھا اس لئے دونوں مجرموں کے قتل کے لئے بھی طریقہ الگ الگ اختیار کیا جاسکتا ایک کو مہذب انداز میں آتشی ہتھیار سے دوسرے کو غیر مہذب انداز میں کند تلوار سے مگر قتل دونوں کا ہوگا۔
جس طرح جان کے تحفظ کا معاملہ ہے اسی طرح مال ودولت اور عزت و آبرو کا بھی ہے ، ان تمام چیزوں کا تحفظ ہر شخص ہر حال میں چاہتا ہے وہ مہذب ہو یا غیر مہذب، جاہل ہو یا عالم اس لئے مذہب اسلام نے ان کے تحفظ کے لئے مستحکم اور مضبوط قانون و اصول عنایت کیا ہے، جس کے سایہ میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے بھی انسانیت کو سکون و اطمینان ملاتھا آج بھی اسی میں ممکن ہے، اس لئے انسانیت کے لئے آنسو بہانے والوں اور کانفرنس کرنے والوں کو چاہئے کہ ایک مرتبہ اسے بھی عملی جامہ پہنا کر دیکھیں کہ کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے اور سسکتی ہوئی انسانیت کا کس قدر مداوا ہوپاتا ہے، بلکہ مناسب تو ہوگا کہ ان ملکوں کی طرف ایک نگاہ اٹھا کر دیکھیں جہاں یہ قوانین جزوی طور پر نافذ ہیں کہ وہاں جرائم کی کیا رفتار ہے، جن جرائم سے انسانیت بلک رہی ہے اور ان مہذب ملکوں میں کیا رفتار ہے جن کو اپنی تہذیب و تمدن، کلچر اور ترقی پر ناز ہے۔
اس تہذیب و تمدن کا کیا مطلب،اس کلچر کی کیا حیثیت اور اس ترقی کا کیا مفہوم اور فائدہ جس میں گھر باہر کہیں بھی سکون میسر نہیں ہے، ہر شخص ہر وقت مکمل ذہنی تناؤ میں رہتا ہو اگرچہ آسائش کے تمام تر لوازمات موجود ہوں، اس لئے انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کو چاہئے کہ بجائے مگرمچھ کا آنسو بہانے کے ان اصولوں کو اپنائیں جس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں، اگر مذہب کے نام پر اپنانے میں شرم آرہی ہو تو قانون کے نام پر ہی سہی کیونکہ مریض کو تو مفید اور زور اثر دوا چاہئے چاہے اس دوا کا جو بھی نام رکھ لیا جائے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بیشتر مریض نہ تو دوا کا نام جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو نام سے کیا مطلب ان کو اگر مطلب ہے تو صرف شفاء سے اور وہ بھی جتنی جلدی ہوسکے۔
***
Wednesday, 28 July 2010
ماہ شعبان، حقیقت کے تناظر میں
مشتاق احمد مختار احمد
جامعۃ الامام، ریاض
آمدم بر سر مطلب! ہمارے یہاں سال میں کچھ ایسے مہینے ہیں جنکی تعظیم میں اس قدر غلو سے کام لیا جاتا ہے کہ اسلام کے دوسرے احکام انکے مد مقابل بہت ہلکے نظر آنے لگتے ہیں اور بے چارہ جاہل انسان پوری زندگی اسی مذموم عمل میں گزارتا رہتا ہے اور خوب خوش فہمی کا شکار رہتا ہے اور دوسرے کوجو ان افعال کو نہیں کرتے ، انہیں بد دین سمجھتا ہے ، در اصل اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں بلکہ غلطی تو ان گمراہ اور امت کے ان مولویوں کی ہے جو انہیں منکرات میں پھنسائے رکھتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
ویسے تو ہمارے یہاں بدعات و خرافات کی ایک طویل فہرست ہے جن کا شمارناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور جنہیں لوگ بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں ۔اس مضمون میں ہم بات کریں گے ’’شعبان ‘‘ کے تعلق سے کہ آیا اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کی فضیلت میں جو احادیث ذکر کی جاتی ہیں اسکی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ ۔
شعبان کی وجہ تسمیہ: اہل علم نے شعبان کی وجہ تسمیہ یوں بتلائی ہے کہ چونکہ لوگ اسمیں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے واسطے قبیلے کی شکل میں تقسیم ہوجاتے ، یا پانی اور چراگاہ کی تلاش میں منتشر ہوجاتے تھے۔ ( دیکھئے:معجم مقاییس اللغۃلابن فارس باب ’’شعر‘‘مادہ’’شعب‘‘)۔چونکہ اس سے قبل ماہ رجب جو کہ حرمت والے مہینے میں سے ایک مہینہ ہے اس میں قتال حرام ہے جب یہ مہینہ ختم ہوجاتا اس کے بعد شعبان کا مہینہ آتا تو سارے کے سارے لوگ قتل و غارت گری کرنے کے واسطے منتشر ہوجاتے تھے ۔
صاحب (العلم المنثور)کے بقول:شعبان یہ ایسا مہینہ ہے جس میں قبائل گروہ در گروہ تقسیم ہوجاتے اور بادشاہوں کا قصد کرتے اور ان سے عطیہ طلب کرتے (العلم المنثور‘‘ص:۱۸۹)
( ’’بدع و أخطاء تتعلق بالأیام والشہور‘‘ جمع و ترتیب :أحمد بن عبد اللہ السلمی)
ملاحظہ:اکثر وبیشتر کیلنڈروں میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ لوگ شعبان کے آگے جلی حرف میں ’’ المکرم ‘‘یا بلفظ دیگر’’المعظم‘‘کا اضافہ کئے رہتے ہیں یہ دین میں بدعت کے مترادف ہے ۔ علامہ أبو بکر زید (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ ’’شعبان المکرم‘‘ کہناشعبان مہینے کی فضیلت میں یہ سنت میں ثابت نہیں ہے۔ہاں نبی (ﷺ) سے اتنا ثابت ہے کہ آپ شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے ۔ رہی بات اس مہینے کے تعلق سے یہ کہنا کہ ’’فضل شعبان علی سائر الشہور کفضلی علی سائر الأنبیاء‘‘ تو یہ حدیث موضوع ہے۔ جسکی تخریج آگے آرہی ہے ۔(معجم المناہی اللفظیہ۔ لبکر أبی زید (رحمہ اللہ)
شعبان کی فضیلت:انصاف کا تقاضہ یہی ہے جس مہینے کی جتنی فضیلت وارد ہو اس کو اسی طرح ہی بیان کیا جائے ناکہ اس میں غلو سے کام لیا جائے ۔صحیح منہج و فکر والوں کا یہی وطیرہ ہر دور اور زمانہ میں رہا ہے اور رہے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ)۔
شعبان ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ بایں وجہ اللہ کے رسو ل (ﷺ) اس مہینے میں بکثرت روزہ رکھتے تھے ۔اس لئے سنت کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ کی اقتداء اور اتباع میں ہم بھی بکثرت روزہ رکھیں ناکہ ایک خاص دن متعین کرلیں اور اس میں پورے سا ل کی عبادت کی قضا کریں، اور اپنی طرف سے خود ساختہ عبادتوں کو رواج دیں۔
امام نسائی بسند حسن أسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں آپ کو دیگر مہینوں میں کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں جتنا کہ آپ شعبان کے مہینے میں رکھتے ہیں ، اس پر آپ نے جواب دیا : یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ اکثر غافل رہتے ہیں جو کہ رجب اور رمضان کے بیچ پڑتا ہے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کے اندر رب کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میری خواہش یہی ہوتی ہے کہ میر ے اعمال حالت صوم میں رب کی بارگاہ میں پیش ہوں۔ (سنن نسائی۴؍۴۲۰۱، سلسلۃ الأحادیث الصحیحہ للألبانی ۴؍۱۸۹۸)۔
اس حدیث سے یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ آپ (ﷺ) کثرت سے روزہ رکھتے تھے نا کہ صرف پندرہویں شعبان کو خاص کرکے خوب عبادت کرتے تھے ۔تو اگر ہمیں سنت رسول سے لگاؤ اور عقیدت کا دعویٰ ہے تو ہم بھی اس مہینے میں کثرت سے روزہ رکھیں۔وگرنہ دعوی سے کوئی فائدہ نہیں ۔ بقول شاعر:
دعوی بغیر دلیل کوئی معتبر نہیں
ہر بات پہ دلیل و برہان چاہےئے
دوسری حدیث جو أم المومنین عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ : رسول اکرم (ﷺ) اتنی کثرت سے روزہ رکھتے کہ ہم یہی تصور کرتے کہ اب افطار کریں گے ہی نہیں۔ اور جب افطار کرنا شروع کردیتے تو یہ تصور کرتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے ۔اور میں نے رسول اکرم کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ، اسی طرح شعبان مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔(بخاری ،رقم الحدیث؍۱۹۶۹، مسلم،رقم؍۱۱۵۶)
اس مہینے میں کثرت سے روزہ کی حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔لیکن اتنی بات ضرور ہے آپ (ﷺ) یہ بات پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال صوم کی حالت میں پیش ہوں، جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بعد رمضان کا مہینہ آنے والا ہوتا تھا تو اس کی مشق کے لیے آپ کثرت سے روزہ رکھتے رہے ہوں تاکہ زیادہ گراں نہ گزرے اور پہلے ہی سے عادت بنی رہی۔ ایک حکمت یہ بھی بتلائی جاتی ہے کہ آپ سے جو نفلی روزے چھوٹ جاتے تھے اس کی قضا آپ شعبان میں کرتے تھے یہاں تک کہ رمضان سے قبل آپ مکمل کرلیتے تھے اور اسی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ام المؤمنین عائشہ (رضی اللہ عنہا)بھی اپنے ان روزوں کی قضا کرلیتی تھیں جو ان سے حیض وغیرہ کی وجہ سے چھوٹے رہتے تھے چونکہ دوسرے مہینے میں نبی (ﷺ) کے ساتھ مشغول رہنے کی وجہ سے آپ قضا نہیں کرپاتیں اس لیے جب آپ (ﷺ) روزہ رکھتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ اسی مہینے میں اپنے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرلیتیں۔
(لطائف المعارف فیمالمواسم العام من الوظائف تالیف؍ الامام الحافظ زین الدین بن رجب الحنبلی(ت:۷۹۵) ص:۱۴۸۔۱۴۹)
شعبان کی فضیلت میں وارد احادیث کا جائزہ:شعبان کی فضیلت میں ڈھیر ساری موضوع اور ضعیف روایتیں ہیں جو کتابوں اور واعظوں اور مقررروں کی زینت بنی ہوئی ہیں جنہیں علماء سوء اور جاہل علماء شعبان کے مہینے میں بڑے کر وفر کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور سامعین سے داد وتحسین حاصل کرلیتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ کچھ لوگ کثرت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر روایتیں ہیں جس سے کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت کا سراغ ملتا ہے ۔ ایسے ہی ایک مرتبہ شعبان کے مہینے میں دہلی کی شاہین باغ کی ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کا اتفاق ہوا اور اتفاق سے وہ دن پندرہویں شعبان کا تھا مغرب کی نماز کے بعدمولوی صاحب بے چارے کھڑے ہوئے اور فضیلت شعبان کے تعلق سے تھوڑی موڑی روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر احادیث مروی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت ضرور ہے ۔ان بے چارے مولوی صاحب کو کیا پتہ کہ کسی چیز پر لوگوں کا عمل کرنا یا کسی چیز کا شہرت پاجانا یہ اس کی صحت کی دلیل ہوسکتی ہے تو کیا کسی چیز پر عوام کا کثرت سے عمل کرنا اس کے صحت کی دلیل ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں ہم یہاں بالاختصار ان موضوع احادیث کا ذکر کرتے ہیں جن سے علماء اہل بدعت استدلال کرتے ہوئے اپنا الّو خوب سیدھا کرتے ہیں۔
(۱)’’اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان‘‘
ترجمہ:اے اللہ تو ہمیں رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور رمضان کا مہینہ نصیب فرما۔
یہ روایت ضعیف ہے اس روایت کے اندر ’’زائدہ بن ابی رقاد ‘‘ راوی ہے ۔امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے ۔
(میزان الاعتدال للذہبی۲؍۹۶ ، مجمع الزوائد للہیثمی۳؍۱۶۵،وضعیف الجامع للالبانیرقم؍ ۴۳۹۵ )
(۲)’’فضل شہر شعبان کفضلی علی سائر الانبیاء‘‘
شعبان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسی کہ میری فضیلت تمام انبیاء پر ۔ ابن حجر (رحمہ اللہ )نے ’’ تبیین العجب‘‘ کے اندر اس روایت کو موضوع کہا ہے۔
(کشف الخفاء للعجلونی۲؍۸۵، المقاصد الحسنہ للسخاوی۱؍۴۷۹ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع لعلی القاری الہروی المکی، تحقیق: عبد الفتاح ابو غدہ۱؍۱۲۸)
(۳)’’اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا‘‘الخ...
یعنی جب پندرہویں شعبان ہو تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔
(العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍رقم؍۹۲۳ص؍۵۶۲، مصباح الزجاجہ لشہاب الدین البوصیری الکنانی،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان،الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ ص؍۵۱، تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ’’باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان‘‘جزء۳؍ص؍۳۶۶ ، ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم۱۳۸۸،ضعیف الترغیب والترہیب للالبانی رقم ؍۶۲۳،وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم؍۲۱۳۲)
(۴)’’خمس لیال لا ترد فیہن الدعوۃ: اول لیلۃ من رجب ،ولیلۃ النصف من شعبان، ولیلۃ الجمعۃ، ولیلۃ الفطر ،ولیلۃ النحر‘‘
ترجمہ: پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دعاء رد نہیں ہوتی(۱)رجب کی پہلی رات(۲)پندرہویں شعبان کی رات (۳)جمعہ کی رات (۴)عید الفطر کی رات (۵)عید الاضحی کی رات۔(موضوع)
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی جزء ؍۳رقم؍۱۴۵۲)
(۵)’’اتانی جبریل علیہ السلام فقال لی ہذہ لیلۃ النصف من شعبان وللہ فیہا عتقاء من النار بعدد شعر غنم‘‘(نہایت ضعیف روایت ہے)
ترجمہ:جبریل علیہ السلام میر ے پاس شعبان کی رات آئے اور خبر دی کہ اللہ نے پندرہویں شعبان کی رات جہنم سے بکریوں کے بالوں کی مقدار لوگوں کو آزاد کیا۔
(ضعیف الترغیب والترہیب للالبانیجزء ؍ ، رقم؍ ۱۲۴۷، العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍ص؍ ۵۵۶ )
اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت جس کا متن نہ ذکرکرکے صرف اس کے ترجمے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
(۶)عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات اللہ کے رسول (ﷺ)کو گم پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکل پڑی دیکھا تو آپ بقیع میں تھے، آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا تمہیں خوف تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے ، اس پر ام المؤمنین نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) میں نے سمجھا کہ آپ اپنی دوسری بیویوں کے پاس گئے ہوں گے اس پر آپ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالی پندرہ شعبان کی رات سماء دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کے بکریوں کے بال کے مقدار سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
(ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم؍۲۹۵، ضعیف سنن ترمذی للالبانی رقم؍۷۳۹ العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍ ۲،رقم؍۹۱۵)
(۷)’’قولہ (ﷺ) یا علی من صلی لیلۃ النصف من شعبان مءۃ رکعۃ بالف قل ہو اللہ احد قضی اللہ لہ کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ‘‘
ترجمہ:آپ (ﷺ) نے علی (رضی اللہ عنہ)سے فرمایا اے علی: جو شخص پندرہویں شعبان کو ۱۰۰ رکعت میں ہزار مرتبہ’’ قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے گا اللہ اس کی تمام ضروریات اس رات طلب کرے گا پورا کردے گا۔
( المنار المنیف فی الصحیح والضعیف لابن القیم الجوزیہ، کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶، الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ص؍۵۰، ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۸)’’من قرأ لیلۃ النصف من شعبان ألف مرۃ قل ہو اللہ احد بعث اللہ الیہ مءۃ الف ملک یبشرونہ‘‘
ترجمہ: جو شخص پندرہویں شعبان کو ایک ہزار مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے اللہ تعالی اس کے پاس خوشخبری دینے کے لیے ایک لاکھ فرشتوں کو بھیجے گا۔
(لسان المیزان لابن حجر جزء؍۵،ص؍؍۲۷۱ ، المنار المنیف لابن القیم جزء؍۱،ص؍۹۹۔
(۹)’’ من صلی لیلۃ النصف من شعبان ثلاث مءۃ رکعۃ(فی لفظ ثنتی عشر رکعۃ)یقرأ فی کل رکعۃ ثلاثین مرۃ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ شفع فی عشرۃ قد استوجبوا النار‘‘
ترجمہ:جس شخص نے پندرہویں شعبان کو ۳۰۰ رکعت (دوسرے لفظ میں ۱۲ رکعت) پڑھا، ہر رکعت میں ۳۰ مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھا، تو ایسا شخص دس ایسے شخص کی سفارش کرسکتا ہے جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔
(کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶،ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۱۰)قولہ (ﷺ) ’’رجب شہر اللہ وشعبان شہری ورمضان شہر امتی‘‘
ترجمہ:رجب اللہ کا مہینہ ہے ،شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔
( الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانیص:۴۷،۱۰۰،الموضوعات لابن الجوزی ۲؍ص؍۲۰۵، والموضوعات لحسن بن محمدالصغانی جزء ؍۱،رقم؍ ۱۲۹، واللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی جز ؍۲؍ ص ؍۴۶، وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم حدیث؍۴۴۰۰،)
(۱۱)’’من احیا لیلتی العید ولیلۃ النصف من شعبان لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب‘‘
ترجمہ:جو شخص عید الفطر کی رات اور پندرہویں شعبان کی رات زندہ کرے گا(زندہ کرنے کا مطلب عباد ت وغیرہ ہے )تو اس کا دل بروز قیامت مردہ نہ ہوگا جبکہ لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے ۔(یعنی ایسے شخص کا دل بروز قیامت روشن رہے گا۔)
(میزان الاعتدال للذہبی جزء؍ ۳؍ ص؍ ۳۰۸، الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجرجزء؍ ۵؍ ص؍۵۸۰، التلخیص الحبیر لابن حجرجزء ؍۲، ص؍۸۰، العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍۲؍رقم؍۹۲۴، ص؍۵۶۲)
اس کے علاوہ ہزاروں موضوع اور ضعیف روایتیں ایسی ہیں (یہاں بالاختصار کام لیا گیاہے)جو کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں ، اور علماء سوء خوب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ،اور اپنی و عوام الناس کی عاقبت برباد کررہے ہیں۔جبکہ پندرہویں شعبان کی تخصیص ،اس دن کا روزہ اور اس رات کے قیام کے تعلق سے کوئی بھی حدیث ثابت نہیں ہے ، جتنی بھی حدیثیں ہیں سب منکر ہیں جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں نہیں ہے۔
صلاۃ الفیہ یا صلاۃ الرغائبکا موجد:امام ابو بکر محمد بن الولید بن محمد طرطوشی (ت:۵۲۰) کہتے ہیں کہ مجھے ابو محمد المقدسی نے بتلایا کہ ہمارے یہاں بیت المقدس میں صلاۃ الرغائب نامی نماز جو رجب اور شعبان میں پڑھی جاتی ہے اس کاکوئی وجود نہ تھا ، لیکن ۴۴۸ ھ میں ’’ابن ابی الحمراء‘‘ نامی ایک شخص جو کہ اہل نابلس سے تھابیت المقدس آیا ، اور پندرہویں شعبان کی رات مسجد اقصی میں نماز پڑھنا شروع کردیا اور یہ شخص کافی خوش الحان تھا،اس طرح لوگ یکے بعد دیگرے آتے گئے اور اس کے پیچھے صف بناتے چلے گئے ، پھر اسی طرح دوسرے سال بھی آیا اور اس کے پیچھے ایک جم غفیرنے نماز ادا کی ، اس نماز کا خوب چرچا ہوا اور لوگوں میں یہ نماز خوب مقبول ہوئی اور پھر یہ سنت بن گئی۔امام ابو بکر طرطوشی کہتے ہیں کہ میں نے ان ( ابو محمد المقدسی)سے کہا کہ میں آپ کو بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں ، اس پر انہوں نے کہا ہاں اور اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔
(الحوادث والبدع لامام ابی بکر طرطوشی (رحمہ اللہ ت:۵۲۰)تحقیق وتخریج ؍محمد بشیر عیون)
جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ صلاۃ الفیہ جو نصف شعبان کی رات ادا کی جاتی ہے بدعت ہے ۔ کیونکہ نہ یہ رسول اللہ(ﷺ)سے ثابت ہے اور نہ ہی خلفاء راشدین سے ثابت ہے اور نہ ہی ائمہ اربعہ (رحمہم اللہ)بشمول امام ثوری ،امام اوزاعی امام لیث وغیرہم سے ۔
اور اس قبیل سے جتنی بھی روایات ہیں سب کی سب باتفاق اہل علم موضوع ہیں یا تو ضعیف ہیں ۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے: اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ ۲؍۶۲۸،التحذیر من البدع للشیخ ابن باز ، بحوالہ ’’ البدع الحولیہ‘‘ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری)
پندرہویں شعبان کی رات دین کے نام پر اس قدر فواحش ومنکرات و خرافات کا ارتکاب کیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ہم ان خرافات ومنکرات کا نہایت تلخیص کے ساتھ یہاں ذکرکر رہے ہیں جو کہ اس رات انجام دئے جاتے ہیں ،اور جوکہ شرعا ناجائز اور حرام ہیں۔
(۱)دین کے نام پر اسراف اور فضول خرچی جو کہ انتہائی معیوب عمل ہے۔
(۲)مختلف اور متنوع لائٹوں اور قمقموں کا استعمال ،جو کہ مال کا ضیاع کا ایک سبب خاص طور سے جبکہ یہ مال وقف کا ہو یا عوام الناس سے بطور چندہ لیا گیاہو۔
(۳)عورتوں کا گروہ در گروہ اس پروگرام میں شرکت کرنا جو بلا شبہ برائی کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے۔
(۴)مساجد میں اجتماعی حاضری اور غیرمشروع عبادات کو انجام دینا۔
(۵)مساجد میں لغو باتوں کا استعمال ، اور کثرت سے کلام کرنا جو کہ خشوع وخضوع کے بالکل خلاف ہے۔
(۶)عورتوں کا اس رات قبرستان میں جانا ، (جبکہ شرعی طور سے عورتوں کا قبرستان میں جانا ایک مکروہ عمل ہے)مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط۔
(۷) قبروں کی طرف سج دھج کر جاناجو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قبروں کی زیارت کا مقصود تفریح ہے نا کہ عبرت و موعظت۔ جبکہ قبروں کی زیارت کو اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے کیونکہ ذکر آخرت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
(۸)منکرات اور بدعات کا ارتکاب کرکے مسلمان مردوں کو اذیت دینا۔
(۹)لوگوں کا یہ اعتقاد رکھنا کہ اس رات کی عبادت پوری زندگی کے لیے کافی ہے اور تقرب الہی کا ایک عظیم ذریعہ ہے ۔
(حذف واختصار اور اضافہ کے ساتھ’’البدع الحولیہ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری‘‘ ص:۳۰۰،۳۰۱،۳۰۲)
حرف اخیر:ہرایک مسلمان (جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے محبت کا دعویدارہے ) پر یہ فرض ہے کہ دین کے تمام اقوال وافعال میں اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو مقدم رکھے،اور ہمیشہ حق بات کی تلاش میں رہے ، اورحق بات جہاں بھی ملے اسے حرزجاں بنالے ،مذہبیت اور عصبیت سے کوسوں دور رہے کیونکہ اسلام میں مذہبیت اور عصبیت نہیں۔ مذہب اسلام اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے فرمودات کے مجموعے کا نام ہے، جس میں کسی اور قول کی ادنی گنجائش نہیں چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم ،مفتی کیوں نہ ہو۔
***
جامعۃ الامام، ریاض
ماہ شعبان، حقیقت کے تناظر میں
برصغیر ہند وپاک بشمول بنگلہ دیش ونیپال یہ ممالک ایسے ہیں جہاں شرک وبدعات ، خرافات و خزعبلات میں شب و روز اضافہ ہوتا رہتا ہے ،اور روز کوئی نہ کوئی بدعت ایجاد ہوتی ہے اور سنت رسول(ﷺ) کی خوب پامالی کی جاتی ہے۔ اور اس کی طرف دعوت دینے والوں کوطعن و تشنیع کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔آمدم بر سر مطلب! ہمارے یہاں سال میں کچھ ایسے مہینے ہیں جنکی تعظیم میں اس قدر غلو سے کام لیا جاتا ہے کہ اسلام کے دوسرے احکام انکے مد مقابل بہت ہلکے نظر آنے لگتے ہیں اور بے چارہ جاہل انسان پوری زندگی اسی مذموم عمل میں گزارتا رہتا ہے اور خوب خوش فہمی کا شکار رہتا ہے اور دوسرے کوجو ان افعال کو نہیں کرتے ، انہیں بد دین سمجھتا ہے ، در اصل اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں بلکہ غلطی تو ان گمراہ اور امت کے ان مولویوں کی ہے جو انہیں منکرات میں پھنسائے رکھتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
ویسے تو ہمارے یہاں بدعات و خرافات کی ایک طویل فہرست ہے جن کا شمارناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور جنہیں لوگ بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں ۔اس مضمون میں ہم بات کریں گے ’’شعبان ‘‘ کے تعلق سے کہ آیا اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کی فضیلت میں جو احادیث ذکر کی جاتی ہیں اسکی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ ۔
شعبان کی وجہ تسمیہ: اہل علم نے شعبان کی وجہ تسمیہ یوں بتلائی ہے کہ چونکہ لوگ اسمیں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے واسطے قبیلے کی شکل میں تقسیم ہوجاتے ، یا پانی اور چراگاہ کی تلاش میں منتشر ہوجاتے تھے۔ ( دیکھئے:معجم مقاییس اللغۃلابن فارس باب ’’شعر‘‘مادہ’’شعب‘‘)۔چونکہ اس سے قبل ماہ رجب جو کہ حرمت والے مہینے میں سے ایک مہینہ ہے اس میں قتال حرام ہے جب یہ مہینہ ختم ہوجاتا اس کے بعد شعبان کا مہینہ آتا تو سارے کے سارے لوگ قتل و غارت گری کرنے کے واسطے منتشر ہوجاتے تھے ۔
صاحب (العلم المنثور)کے بقول:شعبان یہ ایسا مہینہ ہے جس میں قبائل گروہ در گروہ تقسیم ہوجاتے اور بادشاہوں کا قصد کرتے اور ان سے عطیہ طلب کرتے (العلم المنثور‘‘ص:۱۸۹)
( ’’بدع و أخطاء تتعلق بالأیام والشہور‘‘ جمع و ترتیب :أحمد بن عبد اللہ السلمی)
ملاحظہ:اکثر وبیشتر کیلنڈروں میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ لوگ شعبان کے آگے جلی حرف میں ’’ المکرم ‘‘یا بلفظ دیگر’’المعظم‘‘کا اضافہ کئے رہتے ہیں یہ دین میں بدعت کے مترادف ہے ۔ علامہ أبو بکر زید (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ ’’شعبان المکرم‘‘ کہناشعبان مہینے کی فضیلت میں یہ سنت میں ثابت نہیں ہے۔ہاں نبی (ﷺ) سے اتنا ثابت ہے کہ آپ شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے ۔ رہی بات اس مہینے کے تعلق سے یہ کہنا کہ ’’فضل شعبان علی سائر الشہور کفضلی علی سائر الأنبیاء‘‘ تو یہ حدیث موضوع ہے۔ جسکی تخریج آگے آرہی ہے ۔(معجم المناہی اللفظیہ۔ لبکر أبی زید (رحمہ اللہ)
شعبان کی فضیلت:انصاف کا تقاضہ یہی ہے جس مہینے کی جتنی فضیلت وارد ہو اس کو اسی طرح ہی بیان کیا جائے ناکہ اس میں غلو سے کام لیا جائے ۔صحیح منہج و فکر والوں کا یہی وطیرہ ہر دور اور زمانہ میں رہا ہے اور رہے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ)۔
شعبان ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ بایں وجہ اللہ کے رسو ل (ﷺ) اس مہینے میں بکثرت روزہ رکھتے تھے ۔اس لئے سنت کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ کی اقتداء اور اتباع میں ہم بھی بکثرت روزہ رکھیں ناکہ ایک خاص دن متعین کرلیں اور اس میں پورے سا ل کی عبادت کی قضا کریں، اور اپنی طرف سے خود ساختہ عبادتوں کو رواج دیں۔
امام نسائی بسند حسن أسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں آپ کو دیگر مہینوں میں کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں جتنا کہ آپ شعبان کے مہینے میں رکھتے ہیں ، اس پر آپ نے جواب دیا : یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ اکثر غافل رہتے ہیں جو کہ رجب اور رمضان کے بیچ پڑتا ہے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کے اندر رب کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میری خواہش یہی ہوتی ہے کہ میر ے اعمال حالت صوم میں رب کی بارگاہ میں پیش ہوں۔ (سنن نسائی۴؍۴۲۰۱، سلسلۃ الأحادیث الصحیحہ للألبانی ۴؍۱۸۹۸)۔
اس حدیث سے یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ آپ (ﷺ) کثرت سے روزہ رکھتے تھے نا کہ صرف پندرہویں شعبان کو خاص کرکے خوب عبادت کرتے تھے ۔تو اگر ہمیں سنت رسول سے لگاؤ اور عقیدت کا دعویٰ ہے تو ہم بھی اس مہینے میں کثرت سے روزہ رکھیں۔وگرنہ دعوی سے کوئی فائدہ نہیں ۔ بقول شاعر:
دعوی بغیر دلیل کوئی معتبر نہیں
ہر بات پہ دلیل و برہان چاہےئے
دوسری حدیث جو أم المومنین عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ : رسول اکرم (ﷺ) اتنی کثرت سے روزہ رکھتے کہ ہم یہی تصور کرتے کہ اب افطار کریں گے ہی نہیں۔ اور جب افطار کرنا شروع کردیتے تو یہ تصور کرتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے ۔اور میں نے رسول اکرم کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ، اسی طرح شعبان مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔(بخاری ،رقم الحدیث؍۱۹۶۹، مسلم،رقم؍۱۱۵۶)
اس مہینے میں کثرت سے روزہ کی حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔لیکن اتنی بات ضرور ہے آپ (ﷺ) یہ بات پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال صوم کی حالت میں پیش ہوں، جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بعد رمضان کا مہینہ آنے والا ہوتا تھا تو اس کی مشق کے لیے آپ کثرت سے روزہ رکھتے رہے ہوں تاکہ زیادہ گراں نہ گزرے اور پہلے ہی سے عادت بنی رہی۔ ایک حکمت یہ بھی بتلائی جاتی ہے کہ آپ سے جو نفلی روزے چھوٹ جاتے تھے اس کی قضا آپ شعبان میں کرتے تھے یہاں تک کہ رمضان سے قبل آپ مکمل کرلیتے تھے اور اسی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ام المؤمنین عائشہ (رضی اللہ عنہا)بھی اپنے ان روزوں کی قضا کرلیتی تھیں جو ان سے حیض وغیرہ کی وجہ سے چھوٹے رہتے تھے چونکہ دوسرے مہینے میں نبی (ﷺ) کے ساتھ مشغول رہنے کی وجہ سے آپ قضا نہیں کرپاتیں اس لیے جب آپ (ﷺ) روزہ رکھتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ اسی مہینے میں اپنے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرلیتیں۔
(لطائف المعارف فیمالمواسم العام من الوظائف تالیف؍ الامام الحافظ زین الدین بن رجب الحنبلی(ت:۷۹۵) ص:۱۴۸۔۱۴۹)
شعبان کی فضیلت میں وارد احادیث کا جائزہ:شعبان کی فضیلت میں ڈھیر ساری موضوع اور ضعیف روایتیں ہیں جو کتابوں اور واعظوں اور مقررروں کی زینت بنی ہوئی ہیں جنہیں علماء سوء اور جاہل علماء شعبان کے مہینے میں بڑے کر وفر کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور سامعین سے داد وتحسین حاصل کرلیتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ کچھ لوگ کثرت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر روایتیں ہیں جس سے کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت کا سراغ ملتا ہے ۔ ایسے ہی ایک مرتبہ شعبان کے مہینے میں دہلی کی شاہین باغ کی ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کا اتفاق ہوا اور اتفاق سے وہ دن پندرہویں شعبان کا تھا مغرب کی نماز کے بعدمولوی صاحب بے چارے کھڑے ہوئے اور فضیلت شعبان کے تعلق سے تھوڑی موڑی روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر احادیث مروی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت ضرور ہے ۔ان بے چارے مولوی صاحب کو کیا پتہ کہ کسی چیز پر لوگوں کا عمل کرنا یا کسی چیز کا شہرت پاجانا یہ اس کی صحت کی دلیل ہوسکتی ہے تو کیا کسی چیز پر عوام کا کثرت سے عمل کرنا اس کے صحت کی دلیل ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں ہم یہاں بالاختصار ان موضوع احادیث کا ذکر کرتے ہیں جن سے علماء اہل بدعت استدلال کرتے ہوئے اپنا الّو خوب سیدھا کرتے ہیں۔
(۱)’’اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان‘‘
ترجمہ:اے اللہ تو ہمیں رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور رمضان کا مہینہ نصیب فرما۔
یہ روایت ضعیف ہے اس روایت کے اندر ’’زائدہ بن ابی رقاد ‘‘ راوی ہے ۔امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے ۔
(میزان الاعتدال للذہبی۲؍۹۶ ، مجمع الزوائد للہیثمی۳؍۱۶۵،وضعیف الجامع للالبانیرقم؍ ۴۳۹۵ )
(۲)’’فضل شہر شعبان کفضلی علی سائر الانبیاء‘‘
شعبان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسی کہ میری فضیلت تمام انبیاء پر ۔ ابن حجر (رحمہ اللہ )نے ’’ تبیین العجب‘‘ کے اندر اس روایت کو موضوع کہا ہے۔
(کشف الخفاء للعجلونی۲؍۸۵، المقاصد الحسنہ للسخاوی۱؍۴۷۹ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع لعلی القاری الہروی المکی، تحقیق: عبد الفتاح ابو غدہ۱؍۱۲۸)
(۳)’’اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا‘‘الخ...
یعنی جب پندرہویں شعبان ہو تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔
(العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍رقم؍۹۲۳ص؍۵۶۲، مصباح الزجاجہ لشہاب الدین البوصیری الکنانی،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان،الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ ص؍۵۱، تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ’’باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان‘‘جزء۳؍ص؍۳۶۶ ، ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم۱۳۸۸،ضعیف الترغیب والترہیب للالبانی رقم ؍۶۲۳،وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم؍۲۱۳۲)
(۴)’’خمس لیال لا ترد فیہن الدعوۃ: اول لیلۃ من رجب ،ولیلۃ النصف من شعبان، ولیلۃ الجمعۃ، ولیلۃ الفطر ،ولیلۃ النحر‘‘
ترجمہ: پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دعاء رد نہیں ہوتی(۱)رجب کی پہلی رات(۲)پندرہویں شعبان کی رات (۳)جمعہ کی رات (۴)عید الفطر کی رات (۵)عید الاضحی کی رات۔(موضوع)
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی جزء ؍۳رقم؍۱۴۵۲)
(۵)’’اتانی جبریل علیہ السلام فقال لی ہذہ لیلۃ النصف من شعبان وللہ فیہا عتقاء من النار بعدد شعر غنم‘‘(نہایت ضعیف روایت ہے)
ترجمہ:جبریل علیہ السلام میر ے پاس شعبان کی رات آئے اور خبر دی کہ اللہ نے پندرہویں شعبان کی رات جہنم سے بکریوں کے بالوں کی مقدار لوگوں کو آزاد کیا۔
(ضعیف الترغیب والترہیب للالبانیجزء ؍ ، رقم؍ ۱۲۴۷، العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍ص؍ ۵۵۶ )
اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت جس کا متن نہ ذکرکرکے صرف اس کے ترجمے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
(۶)عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات اللہ کے رسول (ﷺ)کو گم پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکل پڑی دیکھا تو آپ بقیع میں تھے، آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا تمہیں خوف تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے ، اس پر ام المؤمنین نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) میں نے سمجھا کہ آپ اپنی دوسری بیویوں کے پاس گئے ہوں گے اس پر آپ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالی پندرہ شعبان کی رات سماء دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کے بکریوں کے بال کے مقدار سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
(ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم؍۲۹۵، ضعیف سنن ترمذی للالبانی رقم؍۷۳۹ العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍ ۲،رقم؍۹۱۵)
(۷)’’قولہ (ﷺ) یا علی من صلی لیلۃ النصف من شعبان مءۃ رکعۃ بالف قل ہو اللہ احد قضی اللہ لہ کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ‘‘
ترجمہ:آپ (ﷺ) نے علی (رضی اللہ عنہ)سے فرمایا اے علی: جو شخص پندرہویں شعبان کو ۱۰۰ رکعت میں ہزار مرتبہ’’ قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے گا اللہ اس کی تمام ضروریات اس رات طلب کرے گا پورا کردے گا۔
( المنار المنیف فی الصحیح والضعیف لابن القیم الجوزیہ، کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶، الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ص؍۵۰، ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۸)’’من قرأ لیلۃ النصف من شعبان ألف مرۃ قل ہو اللہ احد بعث اللہ الیہ مءۃ الف ملک یبشرونہ‘‘
ترجمہ: جو شخص پندرہویں شعبان کو ایک ہزار مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے اللہ تعالی اس کے پاس خوشخبری دینے کے لیے ایک لاکھ فرشتوں کو بھیجے گا۔
(لسان المیزان لابن حجر جزء؍۵،ص؍؍۲۷۱ ، المنار المنیف لابن القیم جزء؍۱،ص؍۹۹۔
(۹)’’ من صلی لیلۃ النصف من شعبان ثلاث مءۃ رکعۃ(فی لفظ ثنتی عشر رکعۃ)یقرأ فی کل رکعۃ ثلاثین مرۃ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ شفع فی عشرۃ قد استوجبوا النار‘‘
ترجمہ:جس شخص نے پندرہویں شعبان کو ۳۰۰ رکعت (دوسرے لفظ میں ۱۲ رکعت) پڑھا، ہر رکعت میں ۳۰ مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھا، تو ایسا شخص دس ایسے شخص کی سفارش کرسکتا ہے جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔
(کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶،ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۱۰)قولہ (ﷺ) ’’رجب شہر اللہ وشعبان شہری ورمضان شہر امتی‘‘
ترجمہ:رجب اللہ کا مہینہ ہے ،شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔
( الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانیص:۴۷،۱۰۰،الموضوعات لابن الجوزی ۲؍ص؍۲۰۵، والموضوعات لحسن بن محمدالصغانی جزء ؍۱،رقم؍ ۱۲۹، واللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی جز ؍۲؍ ص ؍۴۶، وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم حدیث؍۴۴۰۰،)
(۱۱)’’من احیا لیلتی العید ولیلۃ النصف من شعبان لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب‘‘
ترجمہ:جو شخص عید الفطر کی رات اور پندرہویں شعبان کی رات زندہ کرے گا(زندہ کرنے کا مطلب عباد ت وغیرہ ہے )تو اس کا دل بروز قیامت مردہ نہ ہوگا جبکہ لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے ۔(یعنی ایسے شخص کا دل بروز قیامت روشن رہے گا۔)
(میزان الاعتدال للذہبی جزء؍ ۳؍ ص؍ ۳۰۸، الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجرجزء؍ ۵؍ ص؍۵۸۰، التلخیص الحبیر لابن حجرجزء ؍۲، ص؍۸۰، العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍۲؍رقم؍۹۲۴، ص؍۵۶۲)
اس کے علاوہ ہزاروں موضوع اور ضعیف روایتیں ایسی ہیں (یہاں بالاختصار کام لیا گیاہے)جو کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں ، اور علماء سوء خوب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ،اور اپنی و عوام الناس کی عاقبت برباد کررہے ہیں۔جبکہ پندرہویں شعبان کی تخصیص ،اس دن کا روزہ اور اس رات کے قیام کے تعلق سے کوئی بھی حدیث ثابت نہیں ہے ، جتنی بھی حدیثیں ہیں سب منکر ہیں جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں نہیں ہے۔
صلاۃ الفیہ یا صلاۃ الرغائبکا موجد:امام ابو بکر محمد بن الولید بن محمد طرطوشی (ت:۵۲۰) کہتے ہیں کہ مجھے ابو محمد المقدسی نے بتلایا کہ ہمارے یہاں بیت المقدس میں صلاۃ الرغائب نامی نماز جو رجب اور شعبان میں پڑھی جاتی ہے اس کاکوئی وجود نہ تھا ، لیکن ۴۴۸ ھ میں ’’ابن ابی الحمراء‘‘ نامی ایک شخص جو کہ اہل نابلس سے تھابیت المقدس آیا ، اور پندرہویں شعبان کی رات مسجد اقصی میں نماز پڑھنا شروع کردیا اور یہ شخص کافی خوش الحان تھا،اس طرح لوگ یکے بعد دیگرے آتے گئے اور اس کے پیچھے صف بناتے چلے گئے ، پھر اسی طرح دوسرے سال بھی آیا اور اس کے پیچھے ایک جم غفیرنے نماز ادا کی ، اس نماز کا خوب چرچا ہوا اور لوگوں میں یہ نماز خوب مقبول ہوئی اور پھر یہ سنت بن گئی۔امام ابو بکر طرطوشی کہتے ہیں کہ میں نے ان ( ابو محمد المقدسی)سے کہا کہ میں آپ کو بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں ، اس پر انہوں نے کہا ہاں اور اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔
(الحوادث والبدع لامام ابی بکر طرطوشی (رحمہ اللہ ت:۵۲۰)تحقیق وتخریج ؍محمد بشیر عیون)
جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ صلاۃ الفیہ جو نصف شعبان کی رات ادا کی جاتی ہے بدعت ہے ۔ کیونکہ نہ یہ رسول اللہ(ﷺ)سے ثابت ہے اور نہ ہی خلفاء راشدین سے ثابت ہے اور نہ ہی ائمہ اربعہ (رحمہم اللہ)بشمول امام ثوری ،امام اوزاعی امام لیث وغیرہم سے ۔
اور اس قبیل سے جتنی بھی روایات ہیں سب کی سب باتفاق اہل علم موضوع ہیں یا تو ضعیف ہیں ۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے: اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ ۲؍۶۲۸،التحذیر من البدع للشیخ ابن باز ، بحوالہ ’’ البدع الحولیہ‘‘ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری)
پندرہویں شعبان کی رات دین کے نام پر اس قدر فواحش ومنکرات و خرافات کا ارتکاب کیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ہم ان خرافات ومنکرات کا نہایت تلخیص کے ساتھ یہاں ذکرکر رہے ہیں جو کہ اس رات انجام دئے جاتے ہیں ،اور جوکہ شرعا ناجائز اور حرام ہیں۔
(۱)دین کے نام پر اسراف اور فضول خرچی جو کہ انتہائی معیوب عمل ہے۔
(۲)مختلف اور متنوع لائٹوں اور قمقموں کا استعمال ،جو کہ مال کا ضیاع کا ایک سبب خاص طور سے جبکہ یہ مال وقف کا ہو یا عوام الناس سے بطور چندہ لیا گیاہو۔
(۳)عورتوں کا گروہ در گروہ اس پروگرام میں شرکت کرنا جو بلا شبہ برائی کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے۔
(۴)مساجد میں اجتماعی حاضری اور غیرمشروع عبادات کو انجام دینا۔
(۵)مساجد میں لغو باتوں کا استعمال ، اور کثرت سے کلام کرنا جو کہ خشوع وخضوع کے بالکل خلاف ہے۔
(۶)عورتوں کا اس رات قبرستان میں جانا ، (جبکہ شرعی طور سے عورتوں کا قبرستان میں جانا ایک مکروہ عمل ہے)مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط۔
(۷) قبروں کی طرف سج دھج کر جاناجو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قبروں کی زیارت کا مقصود تفریح ہے نا کہ عبرت و موعظت۔ جبکہ قبروں کی زیارت کو اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے کیونکہ ذکر آخرت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
(۸)منکرات اور بدعات کا ارتکاب کرکے مسلمان مردوں کو اذیت دینا۔
(۹)لوگوں کا یہ اعتقاد رکھنا کہ اس رات کی عبادت پوری زندگی کے لیے کافی ہے اور تقرب الہی کا ایک عظیم ذریعہ ہے ۔
(حذف واختصار اور اضافہ کے ساتھ’’البدع الحولیہ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری‘‘ ص:۳۰۰،۳۰۱،۳۰۲)
حرف اخیر:ہرایک مسلمان (جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے محبت کا دعویدارہے ) پر یہ فرض ہے کہ دین کے تمام اقوال وافعال میں اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو مقدم رکھے،اور ہمیشہ حق بات کی تلاش میں رہے ، اورحق بات جہاں بھی ملے اسے حرزجاں بنالے ،مذہبیت اور عصبیت سے کوسوں دور رہے کیونکہ اسلام میں مذہبیت اور عصبیت نہیں۔ مذہب اسلام اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے فرمودات کے مجموعے کا نام ہے، جس میں کسی اور قول کی ادنی گنجائش نہیں چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم ،مفتی کیوں نہ ہو۔
***
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
تحریر: عبد الرحمن رافت پاشا
ترجمہ: ضیاء الدین بخاری
ان آیتوں کا تعلق ایک ایسے واقعے سے ہے جس میں ایک نوجوان شرکے مقابلے میں خیر اور کفر کے مقابلے میں ایمان کو اپنا مقصد حیات بناتاہے، یہ جس جواں سال کا واقعہ ہے وہ مکہ مکرمہ کے نوجوانوں میں اپنے ماں باپ دونوں کے اعلیٰ اور پر وقار خاندان کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور نوجوان کا نام تھا سعد بن ابی وقاص۔
جن دنوں رسول اللہ ﷺ نے سرزمین مکہ میں نبوت کا اعلان فرمایا تو سعد نو عمر تھے، خوبصورت و جمیل تھے، حد درجہ رحم دل تھے، والدین اور بالخصوص والدہ کا حد درجہ احترام کرتے، عمر کے اعتبار سے وہ صرف سترہ سال کے تھے، لیکن ذہانت، ذکاوت اور بالغ نظری میں بہت سے پختہ عمر آپ کے مقابلے میں بچے دکھائی دیتے ، یہی وجہ تھی کہ سعد نے اپنا بچپن اور بچوں کی طرح کھیل کود اور لہو لعب میں برباد نہیں کیا بلکہ تیر اندازی کمانوں کی درستگی میں وہ اپنا وقت صرف کرتے۔ گویا اس طرح وہ کسی آنے والے بڑے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھے، ساتھ ہی اپنی قوم کے مفسد عقیدوں اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے وہ حد درجہ غیر مطمئن رہا کرتے اور یہ محسوس ہوتا کہ انہیں کسی مضبوط ہاتھوں کا انتظار ہے جو ان کی قوم کو ان اندھیاروں سے نکال سکے۔
ان کی انہی کیفیات کے درمیان اللہ تعالی نے عالم انسانیت کے لئے اس انسان کو مبعوث فرمادیا جس کا انتظار تھا اور یہ ہاتھ مخلوق کے سردار محمد بن عبداللہ ﷺ کا اور آپ کے دست مبارک میں نور الٰہی کا وہ ستارہ موجود تھا جو کبھی غروب نہیں ہوتا یعنی ’’اللہ کی کتاب‘‘۔ سعد بن ابی وقاص حق و ہدایت کی اس دعوت کی جانب لپک پڑے اور یہ خوش نصیبی آپ کے حصہ میں آئی کہ آپ تین اولین اسلام قبول کرنے والوں میں تیسرے یا چار اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے تھے اور اکثر سعد رضی اللہ عنہ فخر سے کہا کرتے: میں نے قبول اسلام میں ہفتہ بھر تاخیر کی لیکن بحمدللہ میں اولین اسلام کا تہائی ہوں۔
سعد کے اسلام سے رسول اللہ ﷺ کو بے پناہ مسرت ہوئی، اس لئے کہ آپ میں شرافت کی جملہ علامتیں موجود تھیں جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہلال بہت جلد بدر کامل بن جائے گا اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ نسبی نے مکہ کے دیگر نوجوانوں کو بھی اس امر پر اکسایا کہ وہ بھی اپنے ہم عمر سعد کے نقوش پا کو اپنالیں۔
ان تمام باتوں کے علاوہ سعد رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کا ننہال کا رشتہ بھی تھا، اس لئے کہ سعد رضی اللہ عنہ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ ﷺ کی والدہ آمنہ بھی اسی قبیلے سے تھیں، لیکن سعد بن ابی وقاص کو قبول اسلام کے بعد اپنی زندگی کے بدترین امتحان سے گزنا پڑا اور بے پناہ روحانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ نوجوان ان تمام دشوار گزار مراحل سے بایں انداز گزر گیا کہ ان کی مدح اور تعریف میں اللہ بزرگ و برتر نے قرآنی آیتیں نازل فرمائیں۔
سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اسلام قبول کرنے سے پہلے میں تین راتوں تک ہر رات یہ خواب دیکھتا رہا کہ میں گہرے اندھیرے میں کھو گیاہوں، اور اس اندھیارے کے گہرے سمندر سے جوں ہی میں نے اپنا سر اٹھایاتو مجھے چاند کی ایک روشنی دکھائی دی اور میں نے دیکھا کہ ایک صاحب مجھ سے پہلے اس روشنی تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اس کے بعد میں نے زید بن حارث ، علی بن ابی طالب اور ابوبکر صدیق کو دیکھا اور ان سے دریافت کیا: تم یہاں کب سے ہو، انہوں نے کہا : کچھ دیر پہلے ہم یہاں پہنچے ہیں۔
آنکھ کھلی تومجھے پتہ چلا کہ رسول اللہﷺ خفیہ طریقے پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، مجھے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی، یوں محسوس ہوا کہ اللہ میری بھلائی چاہتاہے اور اپنے رسول کے ذریعے مجھے اندھیاروں سے روشنی تک پہونچانا چاہتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں تیزی سے آپ ﷺ کی جانب چل پڑا، جیاد کی گھاٹی میں آپ سے ملاقات کی، اس وقت آپﷺنماز عصر ادا فرماچکے تھے، میں نے سلام کیا اوردیکھا کہ میرے علاوہ صرف وہی تین افراد آپ ﷺ کی خدمت میں ہیں جنہیں میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔
سعد رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کے بعد کے حالات یوں سناتے ہیں :جب میری والدہ کو میرے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو بہت سخت ناراض ہوگئیں اور مجھے بلا کر ڈانٹتے ہوئے کہا :سعد! یہ کون سا دین تم نے قبول کرلیا اور اپنی ماں اور باپ کے دین کو چھوڑ بیٹھا۔ اللہ کی قسم یا تو تو اپنا نیا دین چھوڑ دے یا پھر میں موت تک کھانا پینا چھوڑدوں گی، پھر میری موت کے بعد تو اپنے کئے پر پچھتائے گا اورلوگ زندگی بھر تجھے طعنے دیتے رہیں گے۔
میں بولا: ماں ! ایسا نہ کرو، میں کسی بھی قیمت پر اپنا نیا دین نہیں چھوڑنا چاہتا،لیکن وہ دھمکی پر قائم رہی اور عرصہ بیت گیا کہ اس نے کھانے پانی کو ہاتھ نہیں لگایا، اس کا جسم ڈھل گیا، ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور ہاتھ پیر نے جواب دے دیا، میں وقفے وقفے سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتارہتا اور انہیں اس قدر کھانے پینے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا کہ جس سے ان کی زندگی بچ جائے۔ لیکن میرے ہر مطالبے کو وہ شدت سے رد کردیا کرتی اور بار بار قسم کھاتی کہ یا تو میں اپنا نیا دین چھوڑ دوں یا ان کی موت کا انتظار کروں۔
بالآخر میں نے فیصلہ کن انداز میں اپنی ماں کو بتلایا کہ ’’اے ماں! مجھے اللہ اور رسول کے بعدتجھ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہے لیکن آج تم اچھی طرح سن لو کہ اگر اللہ تمہیں ایک ہزار جان دیااور یکے بعد دیگرے تمہاری جان جاتی رہے تب بھی میں تمہاری جان بچانے کے لئے اپنا دین ہرگز نہ چھوڑوں گا۔
جب میری والدہ نے میرے پختہ ارادے کو بھانپ لیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا پینا شروع کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ہم ماں بیٹوں سے متعلق یہ آیتیں نازل فرمائیں، اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا،ہاں دنیا کے کاموں میں اچھی طرح ساتھ دینا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بھلائی کی راہ دکھلائی اور انہیں دین اسلام کی قبولیت کی جانب راغب کیا، جنگ بدر کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی عمیر رضی اللہ عنہ کا ایثار ناقابل فراموش ہے ، ابھی عمیر رضی اللہ عنہ نے جوانی میں قدم رکھا ہی تھا، ادھر جب آپ ﷺجنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا بنفس نفیس معائنہ فرمایا تو عمیر رضی اللہ عنہ اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ کے پیچھے چھپ گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صغر سنی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ انہیں اپنے ساتھ لے جانے اور جنگ بدر میں شرکت سے منع فرمادیں اور ساتھ ہی زور زور سے رونے لگے،جب آپ ﷺ نے رونے کی وجہ دریافت کی تو عمیر کا جواب سن کر آپ ﷺ کا دل پسیجا اور آپ نے انہیں ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، یہ دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ خوشی خوشی سامنے آئے اور اپنے چھوٹے بھائی کے بدن پر تلوار لگائی کیونکہ بچپنے کی وجہ سے عمیر تلوار لگانا بھی نہیں جانتے تھے اور پھر دونوں بھائی اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے، جنگ کے خاتمے پر سعد رضی اللہ عنہ تنہا مدینہ لوٹے، اس لئے کہ ان کے بھائی شہید کردئیے گئے تھے۔
جنگ احد میں جب مسلم افواج کے قدم اکھڑنے لگے اور آپ ﷺ سے دور ہوتے چلے گئے اور دس افراد سے زیادہ صحابہ آپ ﷺ کے اردگرد نہ رہے، ایسے نازک اور صبر آزما موقعے پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی کمان سے آپ ﷺ کے دفاع میں تیر برسارہے تھے، ادھر آپ کا تیر کمان سے نکلتا ادھر مشرک ڈھیر ہوجاتا، جب آپ ﷺ نے تیز اندازی کی یہ شان دیکھی تو آپﷺ یہ کہہ کر سعد رضی اللہ عنہ کی ہمت افرائی فرماتے رہے، سعد تیر چلاؤ! تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
سعد رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے اس جملے کو زندگی بھر فخریہ انداز میں لوگوں کو سناتے اور فرماتے : سوائے میرے اور کسی کے لئے آپ نے بیک وقت اپنے ماں باپ دونوں کے فدا ہونے کی بات نہیں کہی۔
سعد رضی اللہ عنہ اس وقت سعادت کے نقطہ عروج پر پہنچے جب امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اہل فارس سے جنگ کی تیاریاں شروع کیں، امیر المومنین نے اہل فارس کے اثر و رسوخ کو انجام تک پہنچادینے کا فیصلہ کیا نیز فیصلہ فرمایا کہ اب بتوں کی پرستش کے جملہ اثرات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، لہٰذا آپ نے تمام اسلامی ریاستوں کے عمال کو حکم دیا کہ وہ جس قدر ممکن ہو نہ صرف اسلحہ، گھوڑے اور دیگر سامان جنگ مدینہ روانہ کریں بلکہ تاکید کی کہ اگر اس جنگ میں فتح کے لئے کوئی رائے، کسی شاعر کا کلام یا کسی خطیب کا خطبہ ضروری جانو تو بلا تکلف بھیج دو تاکہ ہر محاذ پر مکمل تیاری کے ساتھ یلغار کردی جائے۔
اس پیغام کے ساتھ ہی ہر سمت سے مدینہ منورہ میں مجاہدین کے وفود آنے شروع ہوگئے،جب پوری تیاریاں مکمل ہوگئیں تو امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے ذمہ دار اور صاحب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا کہ اس جنگ میں کسے سپہ سالار بنایا جائے؟ تمام ذمہ داروں نے بیک زبان سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا۔ لہٰذا امیر المومنین نے سعد رضی اللہ عنہ سے استدعا کی اورفوج کا جھنڈا آپ کے حوالے کیا۔
جب اسلامی فوج کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینہ سے روانہ ہونے لگاتو عمر رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو الوداع کہتے ہوئے سپہ سالار فوج کویوں نصیحت فرمائی: ’’اے سعد! یہ بات تمہیں کہیں اللہ سے دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تم محمدﷺ کے رشتے دار ہو یا یہ کہ تم صحابی رسول ہو۔ اس لئے کسی گناہ کو گناہ سے نہیں بلکہ ہر گناہ کو نیکی سے مٹاناہے۔اے سعد! کسی بھی شخص اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اطاعت و فرماں برداری کے سوا کوئی رشتہ نہیں، شریف اور بد ذات اللہ کے نزدیک برابر ہیں، اللہ ان کا رب اور وہ سب اس کے بندے ہیں، لیکن اگر ان میں کسی کو کسی پر برتری ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ بھی پائیں گے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے پائیں گے، لہٰذا اے سعد! جس بات کا حکم محمد ﷺ نے دیا ہے یاد رکھو کہ وہی حکم لائق عمل ہے۔
اسلامی فوج کا یہ عظیم قافلہ اس شان سے چل پڑا کہ اس میں ۹۹ صحابہ کرام جنگ بدر کے شریک تھے،۳۱۳ صحابہ کرام بیعت رضوان کے شریک تھے، ۳۰۰صحابہ کرام فتح مکہ کے شریک تھے ۷۰۰صحابہ کرام کی اولاد تھے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر قادسیہ پہنچے اور مسلمانوں نے اس جنگ کو فیصلہ کن بنادیا،فارس کی فوج کے سپہ سالار ’’رستم‘‘ کا سر مسلمانوں نے اپنے نیزے پر اٹھا رکھا تھا،جس کی وجہ سے اللہ کے دشمنوں کے دلوں میں ایسا رعب بیٹھ گیا کہ مسلم فوجی جس فارسی کو بھی آواز دیتا وہ بلا چوں چرا حاضر ہوجاتا اور اسے قتل کردیا جاتا، بلکہ بعض اوقا ت اسی بلائے جانے والے کا ہتھیار لے کر اسی کے ہتھیار سے مارڈالا جاتااور وہ مارے خوف کے مقابلہ نہ کرتا،بے پناہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے طویل عمر پائی اور انہیں اللہ نے بے پناہ مال و دولت سے نوازا، لیکن جب وفات کی گھڑی آن پہنچی تو آپ نے اپنا پرانا اونی پیراہن طلب فرمایا اور کہا: مجھے اسی پیراہن کا کفن دینا، اس لئے کہ بدر کے موقع پر اسی کو پہن کر میں نے مشرکین سے مقابلہ کیا تھا اور میری دلی خواہش ہے کہ اسی پیراہن کو پہن کر میں اپنے رب سے ملوں۔
ترجمہ: ضیاء الدین بخاری
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
اور ہم نے انسان کو جسے اس کی ماں تکلیف پرتکلیف سہ کر اٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور آخر کار دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کرآنا ہے اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا، ہاں دنیا کے کاموں میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے اس کے رستے پر چلنا، پھر تم کو میری طرف لوٹ کرآنا ہے تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا۔ (سورہ لقمان:۱۴)ان آیتوں کا تعلق ایک ایسے واقعے سے ہے جس میں ایک نوجوان شرکے مقابلے میں خیر اور کفر کے مقابلے میں ایمان کو اپنا مقصد حیات بناتاہے، یہ جس جواں سال کا واقعہ ہے وہ مکہ مکرمہ کے نوجوانوں میں اپنے ماں باپ دونوں کے اعلیٰ اور پر وقار خاندان کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور نوجوان کا نام تھا سعد بن ابی وقاص۔
جن دنوں رسول اللہ ﷺ نے سرزمین مکہ میں نبوت کا اعلان فرمایا تو سعد نو عمر تھے، خوبصورت و جمیل تھے، حد درجہ رحم دل تھے، والدین اور بالخصوص والدہ کا حد درجہ احترام کرتے، عمر کے اعتبار سے وہ صرف سترہ سال کے تھے، لیکن ذہانت، ذکاوت اور بالغ نظری میں بہت سے پختہ عمر آپ کے مقابلے میں بچے دکھائی دیتے ، یہی وجہ تھی کہ سعد نے اپنا بچپن اور بچوں کی طرح کھیل کود اور لہو لعب میں برباد نہیں کیا بلکہ تیر اندازی کمانوں کی درستگی میں وہ اپنا وقت صرف کرتے۔ گویا اس طرح وہ کسی آنے والے بڑے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھے، ساتھ ہی اپنی قوم کے مفسد عقیدوں اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے وہ حد درجہ غیر مطمئن رہا کرتے اور یہ محسوس ہوتا کہ انہیں کسی مضبوط ہاتھوں کا انتظار ہے جو ان کی قوم کو ان اندھیاروں سے نکال سکے۔
ان کی انہی کیفیات کے درمیان اللہ تعالی نے عالم انسانیت کے لئے اس انسان کو مبعوث فرمادیا جس کا انتظار تھا اور یہ ہاتھ مخلوق کے سردار محمد بن عبداللہ ﷺ کا اور آپ کے دست مبارک میں نور الٰہی کا وہ ستارہ موجود تھا جو کبھی غروب نہیں ہوتا یعنی ’’اللہ کی کتاب‘‘۔ سعد بن ابی وقاص حق و ہدایت کی اس دعوت کی جانب لپک پڑے اور یہ خوش نصیبی آپ کے حصہ میں آئی کہ آپ تین اولین اسلام قبول کرنے والوں میں تیسرے یا چار اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے تھے اور اکثر سعد رضی اللہ عنہ فخر سے کہا کرتے: میں نے قبول اسلام میں ہفتہ بھر تاخیر کی لیکن بحمدللہ میں اولین اسلام کا تہائی ہوں۔
سعد کے اسلام سے رسول اللہ ﷺ کو بے پناہ مسرت ہوئی، اس لئے کہ آپ میں شرافت کی جملہ علامتیں موجود تھیں جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہلال بہت جلد بدر کامل بن جائے گا اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ نسبی نے مکہ کے دیگر نوجوانوں کو بھی اس امر پر اکسایا کہ وہ بھی اپنے ہم عمر سعد کے نقوش پا کو اپنالیں۔
ان تمام باتوں کے علاوہ سعد رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کا ننہال کا رشتہ بھی تھا، اس لئے کہ سعد رضی اللہ عنہ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ ﷺ کی والدہ آمنہ بھی اسی قبیلے سے تھیں، لیکن سعد بن ابی وقاص کو قبول اسلام کے بعد اپنی زندگی کے بدترین امتحان سے گزنا پڑا اور بے پناہ روحانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ نوجوان ان تمام دشوار گزار مراحل سے بایں انداز گزر گیا کہ ان کی مدح اور تعریف میں اللہ بزرگ و برتر نے قرآنی آیتیں نازل فرمائیں۔
سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اسلام قبول کرنے سے پہلے میں تین راتوں تک ہر رات یہ خواب دیکھتا رہا کہ میں گہرے اندھیرے میں کھو گیاہوں، اور اس اندھیارے کے گہرے سمندر سے جوں ہی میں نے اپنا سر اٹھایاتو مجھے چاند کی ایک روشنی دکھائی دی اور میں نے دیکھا کہ ایک صاحب مجھ سے پہلے اس روشنی تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اس کے بعد میں نے زید بن حارث ، علی بن ابی طالب اور ابوبکر صدیق کو دیکھا اور ان سے دریافت کیا: تم یہاں کب سے ہو، انہوں نے کہا : کچھ دیر پہلے ہم یہاں پہنچے ہیں۔
آنکھ کھلی تومجھے پتہ چلا کہ رسول اللہﷺ خفیہ طریقے پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، مجھے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی، یوں محسوس ہوا کہ اللہ میری بھلائی چاہتاہے اور اپنے رسول کے ذریعے مجھے اندھیاروں سے روشنی تک پہونچانا چاہتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں تیزی سے آپ ﷺ کی جانب چل پڑا، جیاد کی گھاٹی میں آپ سے ملاقات کی، اس وقت آپﷺنماز عصر ادا فرماچکے تھے، میں نے سلام کیا اوردیکھا کہ میرے علاوہ صرف وہی تین افراد آپ ﷺ کی خدمت میں ہیں جنہیں میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔
سعد رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کے بعد کے حالات یوں سناتے ہیں :جب میری والدہ کو میرے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو بہت سخت ناراض ہوگئیں اور مجھے بلا کر ڈانٹتے ہوئے کہا :سعد! یہ کون سا دین تم نے قبول کرلیا اور اپنی ماں اور باپ کے دین کو چھوڑ بیٹھا۔ اللہ کی قسم یا تو تو اپنا نیا دین چھوڑ دے یا پھر میں موت تک کھانا پینا چھوڑدوں گی، پھر میری موت کے بعد تو اپنے کئے پر پچھتائے گا اورلوگ زندگی بھر تجھے طعنے دیتے رہیں گے۔
میں بولا: ماں ! ایسا نہ کرو، میں کسی بھی قیمت پر اپنا نیا دین نہیں چھوڑنا چاہتا،لیکن وہ دھمکی پر قائم رہی اور عرصہ بیت گیا کہ اس نے کھانے پانی کو ہاتھ نہیں لگایا، اس کا جسم ڈھل گیا، ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور ہاتھ پیر نے جواب دے دیا، میں وقفے وقفے سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتارہتا اور انہیں اس قدر کھانے پینے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا کہ جس سے ان کی زندگی بچ جائے۔ لیکن میرے ہر مطالبے کو وہ شدت سے رد کردیا کرتی اور بار بار قسم کھاتی کہ یا تو میں اپنا نیا دین چھوڑ دوں یا ان کی موت کا انتظار کروں۔
بالآخر میں نے فیصلہ کن انداز میں اپنی ماں کو بتلایا کہ ’’اے ماں! مجھے اللہ اور رسول کے بعدتجھ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہے لیکن آج تم اچھی طرح سن لو کہ اگر اللہ تمہیں ایک ہزار جان دیااور یکے بعد دیگرے تمہاری جان جاتی رہے تب بھی میں تمہاری جان بچانے کے لئے اپنا دین ہرگز نہ چھوڑوں گا۔
جب میری والدہ نے میرے پختہ ارادے کو بھانپ لیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا پینا شروع کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ہم ماں بیٹوں سے متعلق یہ آیتیں نازل فرمائیں، اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا،ہاں دنیا کے کاموں میں اچھی طرح ساتھ دینا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بھلائی کی راہ دکھلائی اور انہیں دین اسلام کی قبولیت کی جانب راغب کیا، جنگ بدر کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی عمیر رضی اللہ عنہ کا ایثار ناقابل فراموش ہے ، ابھی عمیر رضی اللہ عنہ نے جوانی میں قدم رکھا ہی تھا، ادھر جب آپ ﷺجنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا بنفس نفیس معائنہ فرمایا تو عمیر رضی اللہ عنہ اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ کے پیچھے چھپ گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صغر سنی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ انہیں اپنے ساتھ لے جانے اور جنگ بدر میں شرکت سے منع فرمادیں اور ساتھ ہی زور زور سے رونے لگے،جب آپ ﷺ نے رونے کی وجہ دریافت کی تو عمیر کا جواب سن کر آپ ﷺ کا دل پسیجا اور آپ نے انہیں ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، یہ دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ خوشی خوشی سامنے آئے اور اپنے چھوٹے بھائی کے بدن پر تلوار لگائی کیونکہ بچپنے کی وجہ سے عمیر تلوار لگانا بھی نہیں جانتے تھے اور پھر دونوں بھائی اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے، جنگ کے خاتمے پر سعد رضی اللہ عنہ تنہا مدینہ لوٹے، اس لئے کہ ان کے بھائی شہید کردئیے گئے تھے۔
جنگ احد میں جب مسلم افواج کے قدم اکھڑنے لگے اور آپ ﷺ سے دور ہوتے چلے گئے اور دس افراد سے زیادہ صحابہ آپ ﷺ کے اردگرد نہ رہے، ایسے نازک اور صبر آزما موقعے پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی کمان سے آپ ﷺ کے دفاع میں تیر برسارہے تھے، ادھر آپ کا تیر کمان سے نکلتا ادھر مشرک ڈھیر ہوجاتا، جب آپ ﷺ نے تیز اندازی کی یہ شان دیکھی تو آپﷺ یہ کہہ کر سعد رضی اللہ عنہ کی ہمت افرائی فرماتے رہے، سعد تیر چلاؤ! تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
سعد رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے اس جملے کو زندگی بھر فخریہ انداز میں لوگوں کو سناتے اور فرماتے : سوائے میرے اور کسی کے لئے آپ نے بیک وقت اپنے ماں باپ دونوں کے فدا ہونے کی بات نہیں کہی۔
سعد رضی اللہ عنہ اس وقت سعادت کے نقطہ عروج پر پہنچے جب امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اہل فارس سے جنگ کی تیاریاں شروع کیں، امیر المومنین نے اہل فارس کے اثر و رسوخ کو انجام تک پہنچادینے کا فیصلہ کیا نیز فیصلہ فرمایا کہ اب بتوں کی پرستش کے جملہ اثرات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، لہٰذا آپ نے تمام اسلامی ریاستوں کے عمال کو حکم دیا کہ وہ جس قدر ممکن ہو نہ صرف اسلحہ، گھوڑے اور دیگر سامان جنگ مدینہ روانہ کریں بلکہ تاکید کی کہ اگر اس جنگ میں فتح کے لئے کوئی رائے، کسی شاعر کا کلام یا کسی خطیب کا خطبہ ضروری جانو تو بلا تکلف بھیج دو تاکہ ہر محاذ پر مکمل تیاری کے ساتھ یلغار کردی جائے۔
اس پیغام کے ساتھ ہی ہر سمت سے مدینہ منورہ میں مجاہدین کے وفود آنے شروع ہوگئے،جب پوری تیاریاں مکمل ہوگئیں تو امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے ذمہ دار اور صاحب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا کہ اس جنگ میں کسے سپہ سالار بنایا جائے؟ تمام ذمہ داروں نے بیک زبان سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا۔ لہٰذا امیر المومنین نے سعد رضی اللہ عنہ سے استدعا کی اورفوج کا جھنڈا آپ کے حوالے کیا۔
جب اسلامی فوج کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینہ سے روانہ ہونے لگاتو عمر رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو الوداع کہتے ہوئے سپہ سالار فوج کویوں نصیحت فرمائی: ’’اے سعد! یہ بات تمہیں کہیں اللہ سے دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تم محمدﷺ کے رشتے دار ہو یا یہ کہ تم صحابی رسول ہو۔ اس لئے کسی گناہ کو گناہ سے نہیں بلکہ ہر گناہ کو نیکی سے مٹاناہے۔اے سعد! کسی بھی شخص اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اطاعت و فرماں برداری کے سوا کوئی رشتہ نہیں، شریف اور بد ذات اللہ کے نزدیک برابر ہیں، اللہ ان کا رب اور وہ سب اس کے بندے ہیں، لیکن اگر ان میں کسی کو کسی پر برتری ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ بھی پائیں گے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے پائیں گے، لہٰذا اے سعد! جس بات کا حکم محمد ﷺ نے دیا ہے یاد رکھو کہ وہی حکم لائق عمل ہے۔
اسلامی فوج کا یہ عظیم قافلہ اس شان سے چل پڑا کہ اس میں ۹۹ صحابہ کرام جنگ بدر کے شریک تھے،۳۱۳ صحابہ کرام بیعت رضوان کے شریک تھے، ۳۰۰صحابہ کرام فتح مکہ کے شریک تھے ۷۰۰صحابہ کرام کی اولاد تھے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر قادسیہ پہنچے اور مسلمانوں نے اس جنگ کو فیصلہ کن بنادیا،فارس کی فوج کے سپہ سالار ’’رستم‘‘ کا سر مسلمانوں نے اپنے نیزے پر اٹھا رکھا تھا،جس کی وجہ سے اللہ کے دشمنوں کے دلوں میں ایسا رعب بیٹھ گیا کہ مسلم فوجی جس فارسی کو بھی آواز دیتا وہ بلا چوں چرا حاضر ہوجاتا اور اسے قتل کردیا جاتا، بلکہ بعض اوقا ت اسی بلائے جانے والے کا ہتھیار لے کر اسی کے ہتھیار سے مارڈالا جاتااور وہ مارے خوف کے مقابلہ نہ کرتا،بے پناہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے طویل عمر پائی اور انہیں اللہ نے بے پناہ مال و دولت سے نوازا، لیکن جب وفات کی گھڑی آن پہنچی تو آپ نے اپنا پرانا اونی پیراہن طلب فرمایا اور کہا: مجھے اسی پیراہن کا کفن دینا، اس لئے کہ بدر کے موقع پر اسی کو پہن کر میں نے مشرکین سے مقابلہ کیا تھا اور میری دلی خواہش ہے کہ اسی پیراہن کو پہن کر میں اپنے رب سے ملوں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)