Tuesday 24 August, 2010

رمضان المبارک: فضائل واحکام agu 2010

مطیع اللہ حقیق اللہ المدنیؔ
رمضان المبارک: فضائل واحکام
رمضان المبارک اسلامی تقویم کا وہ فضیلت مآب مہینہ ہے جس کے ایام کا روزہ اس امت کے افراد پر فرض کیا گیا ہے، جیساکہ سابقہ امم پر روزہ فرض کیا گیا، اس روزہ کی غایت یہ ہے لوگوں میں اللہ کا تقویٰ پیدا ہوجائے، تقویٰ مومن کی ایمانی زندگی کا سب سے بہتر زاد راہ ہے، یہی تقویٰ جملہ اسلامی عبادات کی روح ہے ۔
روزہ کا مقصود محض بھوک پیاس کی شدت برداشت کرنا نہیں ہے، نہ ہی اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ انسانوں کو دشواری میں مبتلا کرنا چاہتا ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ آسانی چاہتا ہے، مطلوب روزہ یہ ہے کہ تقرب الٰہی کے مقصد سے ان چند گنے چنے ایام کی ر وزے کی حالت میں تکمیل ہو، اور ہدایات ربانی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بڑائی وبزرگی بیان کرنے کا اہتمام ہو، اللہ کی توحید کا نقش دلو ں پر قائم ہو اس کی عبادت کا ذوق دلوں میں پیدا ہو، اور یوں اس کی شکر گذاری کا عملی ثبوت فراہم ہو۔
رمضان المبارک مومن کی سالانہ عبادت کے احتساب کا موسم ہے، اس میں روزے کے ساتھ اور دیگر عبادات کا بڑھ چڑھ کر اہتمام ہو، تاکہ عبادات میں کمی و کوتاہی کی بھرپائی ہوجائے، صلاۃ فریضہ کی ادائیگی تو رکن اسلام ہے ہی روزہ رمضان بھی رکن اسلام ہے، اس کے دنوں کا شرعی حقیقی روزہ رکھ کر رب کی تابع داری اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ ہو تو اس کی راتوں میں قیام کے ذریعہ رب کی رضا و قربت کی حقیقی طلب پیدا کی جائے ، اور اپنے کو صالحین کے زمرہ میں شامل کرنے کے لئے سعی کی جائے۔
رمضان کا روزہ ایمان و احتساب کے طور پر گزشتہ گناہوں اور سابقہ خطاؤں کی مغفرت کا سامان ہے۔
حدیث نبوی ہے ’’من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘جس شخص نے رمضان کا روزہ ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
اور ایک روایت میں نبی ﷺنے فرمایا ہے ’’من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرماتقدم من ذنبہ‘‘۔
جس شخص نے رمضان کا قیام ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں
رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت ہی فضیلت کا حامل ہے، اسی آخری عشرے کی کوئی طاق رات ’’قدر کی رات‘‘ ہوتی ہے، اسی طاق رات یعنی قدر والی رات کو پانے کے لئے نبیﷺ آخری عشرے میں عبادات میں کافی اجتہاد و مشقت سے کام لیتے تھے، آپ کے آخری عشرے کے معمول کے متعلق ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ’’إن النبی ﷺ کان اذا دخلہ العشرأحیا لیلہ و أیقض أھلہ وشد مئذرہ‘‘ جب رمضان المبارک کا آخری عشر ہ آن پہونچتا تو اپنی راتیں یعنی اس کا بیشتر حصہ برائے قیام و عبادات بیداری میں گزارتے اپنے اہل یعنی ازواج مطہرات کو عبادات کرنے کے لئے بیدار کرتے اور کمر کس لیتے یعنی چوکس اور مستعد رہتے یوں پورے رمضان کا قیام باعث مغفرت ہے آپ نے قدر کی رات کے متعلق فرمایا ’’من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘جس شخص نے شب قدر کا قیام ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک خیرات وبرکات اور فضائل کا ایک بیش بہاخزینہ اپنے اندر رکھتا ہے، یہ مہینہ مومن کے لئے اللہ کی رحمت و مغفرت اور بشارت کا ایک بے بہا گنجینہ اپنے دامن میں رکھتا ہے، جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے، تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور نار جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین خصوصا سرکش وکڑیل شیاطین پابند سلاسل کردیئے جاتے ہیں، رمضان کے روزے کے متعلق نبیﷺ کا ارشاد گرامی روزے کی اہمیت و فضیلت پر بوضاحت دلالت کرتا ہے، آپﷺ نے فرمایا ’’ الصوم جنۃ‘‘ روزہ ایک ڈھال ہے یعنی روزہ روزے دار کے لئے معاصی و ذنوب سے بچاؤ کا ایک معنوی ڈھال ہے جو شخص رب کی تابعداری اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے طعام و شراب وغیرہ مباحات کو مخصوص وقت میں چھوڑے رکھتا ہے وہ یقیناًرضائے رب اور قربت مولائے کریم کے لئے معاصی و ذنوب سے احتراز کرے گا۔
روزے کی جزا بہت عظیم و بے پایاں ہے، یوں تو تمام اعمال کا بدلہ دینے والا اللہ ہی ہے مگر حدیث قدسی ’’ الصوم لی وأنا أجزی بہ‘‘ یعنی روزہ تو میرا ہے میں ہی اس کا بدلہ دونگا کی روشنی میں یہ نسبت کس قدر باعث تشریف و تکریم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ میرا ہے اس کا بدلہ میں ہی دونگا۔
صوم اور اس کی جزا عطا کرنے کی نسبت رب العالمین نے خصوصی طور پر اپنی طرف کی ہے اس سے صوم اور صائمین کی قدر افزائی مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محسن و مخلص بندوں کے ساتھ یوں الطاف و افضال مقصود اور رحمت و مہربانی کا معاملہ کرتا ہے اور انہیں اپنے پاس سے جزائے کریم عطا کرتا ہے۔
روزہ دار کی تکریم و قدر افزائی کا انداز کتنا پیارا ہے جس کا ذکر قول رسول صادق ومصدوق ﷺ میں یوں وارد ہے ’’واللہ لخلوف فم الصام اطیب عند اللہ من ریح المسک‘‘ یعنی روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی پاکیزہ ہے۔ اس پر روزے دار جس قدر ناز کرے کم ہے شرط یہ ہے روزے دار صاحب ایمان اور حامل احتساب ہو، ایمان قوی اور احتساب کا جذبہ صادق انسان کو صوم کی حالت اللہ تعالیٰ کا اتنا محبوب بنادیتا ہے کہ منہ کی بساند (بھوک کی وجہ سے بدلی ہوئی بو) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے کہیں زیادہ پاکیزہ قرار پاتی ہے،ع
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
رمضان اپنے اندر برکات و خیرات کا ایک بہت بڑا خزانہ رکھتا ہے مگر ان برکات و خیرات کے مستفیدین در حقیقت وہ ہیں جن میں اگر ایک ایمان کامل اور احتساب صادق ہو تو دوسری طرف رمضان کے جملہ حقوق کی ادائیگی کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔
افضل زمان ومکان کسی کو افضل و بہتر نہیں بناتے ہیں، بلکہ ان افضل زمان و مکان میں اللہ کی ودیعت کردہ فضیلتوں کو حاصل کرنے کے لئے ان تمام اقوال واعمال اور اوصاف و خصائل کو اپنانا ہوگا جن کی بنا پر کوئی شخص صحیح معنوں میں ان فضائل کا مستحق ٹھہر سکتا ہے رمضان اور روزے دار کے اپنے حقوق ہیں اگر ان حقوق و واجبات کی پامالی کی جائے تو پھر رمضان کے ایام معدودات اور ان کے روزے کے اوقات فاضلہ یوں ہی گزر جائیں گے اور حقوق پامال کرنے والا محروم فضیلت رہ جائے گا۔
خود ان حقوق کی پامالی کے درجات ہیں جس درجے میں پامالی حق ہوگی اسی اعتبار سے فضیلت سے محرومی ہاتھ آئے گی۔
صوم رکھنے والوں کے بھی مختلف مراتب ہیں:
کچھ لوگ واقعی حکم الٰہی کی تابعداری سنت نبی اکرم ﷺ کی پاسداری اور سلف صالحین کو قدوہ سمجھتے ہوئے روزہ رکھتے اور اس کے حقوق و آداب بجالاتے ہیں۔۔۔ عبادات میں انہماک رکھتے ہیں اخلاص اور اتباع کے ساتھ ریا و نمود سے کوسوں دور رہتے ہیں، یہ وہ ہیں جن کی شان میں حدیث قدسی وارد ہے نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے قال اللہ عز وجل:’’ الصوم لی وأنا أجزی بہ یترک طعامہ وشرابہ و شہوتہ من أجلی‘‘ ۔
ترجمہ: روزہ تو میرا ہے اور میں خود اس کی جزاء دونگا، وہ اپنا کھانا، پینا اور اپنی شہوت میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔
صائمین کا ایک طبقہ وہ ہے جو واقعی روزہ رکھنا اپنا مقصد عظیم سمجھتا ہے، یوں وہ اپنے کو جملہ معاصی و سیئات سے روک لیتا ہے، نہ صرف رمضا ن میں بلکہ دیگر ایام و شہور میں بھی رضائے الٰہی کا طالب رہتا ہے اور طاعت کی زندگی بسر کرتا ہے، گناہوں سے اجتناب کرتا ہے یہی وہ عظیم مقصد صوم ہے کہ ایسا روزہ دار اللہ کے متقی بندوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔
روزے داروں کا ایک طبقہ وہ ہے جو طعام وشراب اور شہوت سے تو باز رہتا ہے مگر وہ بہت ساری سئیات و معاصی سے باز نہیں رہ پاتا ہے، بسا اوقات وہ بدعات و خرافات اور شرکیات سے بھی اپنا دامن آلودہ رکھتا ہے۔
ایسے ہی صائمین کے متعلق حدیث وارد ہے جو ان پر صادق آتی ہے ’’من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ‘‘۔
ترجمہ: جوشخص جھوٹ اور باطل کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں ہے وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔
بعض روزے دار ایسے بھی ہوتے ہیں جو روزہ تو رکھتے ہیں مگر صلاۃ جیسے اہم رکن اسلام عبادت سے کامل غفلت کے شکار ہوتے ہیں۔
اس لئے اس طبقہ کو سوائے بھو ک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے کے کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے،اس کی حالت دینی اعتبار سے ابتر کی ابتر ہی رہتی ہے بلکہ فضیلت زمان سے عدم استفادہ اس کی شقاوت و بدبختی میں اضافہ کا سبب بن جاتا ہے۔
بعض صائمین ایسے ہوتے ہیں جو حرام اور فسق وفجور سے تائب ہوکر بالکل کنارہ کش نہیں ہوتے ہیں جن محرمات و منہیات کا ارتکاب وہ پہلے کرتے رہتے تھے ان کا سلسلہ جاری رکھے ہوتے ہیں، بظاہر صوم رکھنے کے باوجود وہ عنداللہ صفرالیدین رہ جاتے ہیں۔
ایسے حرام و باطل کے خوگر اور آثام و ذنوب کے عادی حضرات خواہ مخواہ طعام و شراب کی لذت سے محروم رہتے ہیں، ایسے روزہ دراوں کے روزوں کی اللہ کے نزدیک معمولی قدر وقیمت نہیں ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسی ماہ میں قرآ ن کریم کا نزول ہوا ہے۔
شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدی للناس و بینا ت من الہدی والفرقان (البقرہ)
اس طرح قرآن مجید کا رمضان سے گہرا تعلق ہے، اس لئے اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن کریم کا زبردست اہتمام ہونا چاہئے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ اور سلف صالحین اس کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔***

No comments:

Post a Comment