Tuesday, 24 August 2010

رحمت الٰہی کا خاص مہینہ agu 2010 Editorial

شعور وآگہی
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری

رحمت الٰہی کا خاص مہینہ
انسانی دنیا پر ماہ مبارک کی لطیف ساعتیں ایک بار پھر سایہ فگن ہیں، یہ وہ ماہ سعید ہے جس میں رب کریم کی بے پایاں نوازشیں بندگان الٰہی کے لئے مخصوص کردی جاتی ہیں،دن میں روزہ اور رات میں عبادت و تلاوت کی ایک ایسی فضا بنتی ہے کہ عالم اسلام ہی نہیں کائنات انسانی بھی جس کی پاکیزگی کے نور سے منور نظر آتی ہے، ہرطرف سکون، قرار و اطمینان کی مہک پھیل جاتی ہے اور پورا ماحول معطر ہوکر خوش گوار ہوجاتا ہے۔
۱۱؍ماہ کے انتظار کے بعد آنے والا یہ مہینہ اپنے دامن میں کیسی کیسی رحمتیں لے کر نمودار ہوا ہے، اس کا لطف، اس کا سرور، اس کی فرحت کوئی مرد مومن کے دل سے پوچھے، بلاشبہ کچھ ایسا احساس ہوتا ہے کہ رب کریم نے انسانیت نوازی کی تمام راہیں کھول رکھی ہیں، روزہ معاصی کے مقابلے میں ڈھال بنا ہوا ہے،آسمان کی راہیں وا ہیں، جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں، شیطان اپنی زندگی کے بڑے ہی کربناک اور سخت مرحلہ سے گذرتے ہوئے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار ہے، گناہوں کی معافی کی راہ ہموار ہورہی ہے، گناہ گار لطف عام سے فیض یاب ہورہے ہیں، رحمت اور مغفرت کے دہے سے گذرتے ہوئے۔ عتق من النار ۔ جہنم سے آزادی کی نوید بھی سنائی دے رہی ہے۔
یہ سارے انعامات، فیض و عطا اور بخشش کے یہ مظاہر مرد مومن کے لئے ہیں جو اب صفت تقویٰ سے بہرہ ور ہوکر اپنے رب کے نزدیک بڑی برگزیدہ ہستی قرار دیا جاچکا ہے، جس کی وضاحت خاتم النبیینﷺ نے فرمائی ہے: ’’قیل للنبی ﷺ: من أکرم الناس قال:أکرمہم أتقاہم‘‘ (بخاری، مسلم)
روزہ دار وں کو رب العالمین نے ایک ہلکی مشقت کے بدلے میں اپنی رحیمی اور رحمانیت کا سزاوار بنادیا ہے۔ جہاں یہ سب حاصل ہورہا ہو، جہاں ایسی فضا ہو، جہاں دینے والا مائل بہ کرم ہووہاں اگر انسان کلمہ گو ہوتے ہوئے بھی غافل رہ کر فرض سے بے نیاز ہوجائے اسے بدقسمتی کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔
رب العالمین کا یہ کرم ہی ہے کہ مسلمانان عالم اس مہینے میں لطف و عنایت کا پیکر بن کر اہل حاجت کی غمگساری کا ثبوت پیش کرتے ہیں، ہر طرح کے ضرورت مند اس بابرکت مہینے میں اپنی بے بسی کا غم بھول جاتے ہیں کہ انہیں ہر مقام پر چارہ ساز میسر رہتے ہیں، جو شریک غم بن کر اسلامی اخوت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے اخروی سعادت کا سامان فراہم کرلیتے ہیں۔
خود ذات رسالتمآب ﷺ نے جو دوسخا کا عملی مظاہرہ فرمایا اور رمضان میں آپ کی سخاوت تیز آندھیوں سے بھی آگے بڑھتی ہوئی دکھائی پڑی، امت اسی طریقہ پر گامزن ہے۔ اس زمانے میں امت مسلمہ جتنا کچھ کار خیر میں صرف کرلیتی ہے شاید ہی دنیا کی کوئی قوم اس کے مقابل آسکے، صرف عیدالفطر کے دن صدقہ کے نام پر دی جانے والی امداد کی نظیر پیش کرنے کی سکت کس قوم میں ہے؟
ہاں! فی سبیل اللہ خرچ کی جانے والی ان رقوم کو اگر منظم طریقے پر صرف کرنے کی سبیل نکالی جاسکے تو یہ امت کا ایک ایسا مثبت عمل ہوگا جس سے ہمارے زخموں کا علاج ہوسکے گا، فقیری اور بھک منگائی کے سلسلے رک جائیں گے، خود دینی مدارس اپنے فرائض کی انجام دہی میں بڑی حد تک آزاد ہوں گے، مال ومنال کی قلت رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔اللہ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔

No comments:

Post a Comment