Monday 23 August, 2010

یہ قانون فطرت ہے agu 2010

مولانا محمد مظہر الاعظمیؔ   
یہ قانون فطرت ہے

مدارس و جامعات کے اساتذہ اور طلبہ کی صورت حال روزبروز ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے ، مدارس کے بعض ہمدردان کی بے عملی اور بے کرداری پر اپنے درد و کرب کا اظہار کرتے ہیں اوربعض مخالفین استہزاء کے انداز میں اپنے حیرت کا اظہار کرتے ہیں، جس حیرت کا مختلف محفلوں اور مجلسوں میں ذکر کرکے تعاون کے خواستگار ہوتے ہیں،میرے نزدیک حیرت کی کوئی وجہ نہیں ہے، چاہے موافقین کی جانب سے ہویا مخالفین کی جانب سے ، بلکہ مجھے تو ان کی حیرت پر حیرت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے اسباب و علل بالکل واضح اور نمایاں ہیں، منطق و فلسفہ کی پیچیدہ گتھی نہیں جسے سلجھانے اور سمجھنے کے لئے حکمت و دانائی درکار ہو، بلکہ یہ فطرت کی کھلی کتاب ہے۔؂
یہ قانون فطرت ہے کاٹوگے وہی جو بووگے
شیشے کی دیوار کے پیچھے بیٹھ کے مت پتھراؤ کرو
بڑی دیانت اور متانت سے اس حقیقت پر غور فرمائیں کہ طلبہ وہ پھل ہیں جو اساتذہ کی شاخوں میں لگتے ہیں اور اساتذہ کی شاخیں اپنی انتظامیہ کے تنے سے اپنی غذا حاصل کرتی ہیں اور یہ تنا اعمال کی ان جڑوں پر قائم ہے جو جڑیں نیتوں کی زمین میں پرورش پاتی ہیں، یعنی مدرسہ و جامعہ نام ہے اس مثلث کا جس کے تین زاوئے طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ ہوتے ہیں ان تینوں زاویوں میں سے ہر ایک کی اپنی مسلمہ حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، البتہ آغاز ہوتا ہے انتظامیہ سے۔
اساتذہ کا انتخاب انتظامیہ کرتی ہے، جس انتخاب میں ادارہ کے اغراض و مقاصد ملحوظ ہوتے ہیں، ہم جن اداروں کی بات کررہے ہیں ان کے بنیادی مقاصد میں سب سے اہم اعلاء کلمہ ہے، باقی تمام امور اسی محور پر گھومتے ہیں، جب مقصد اعلاء کلمہ ہے تو حصول مقصد کے لئے ایسے اساتذہ کا انتخاب ہونا چاہئے جو اعلاء کلمہ کے فریضہ کو انجام دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں یعنی صلاحیت اور صالحیت ، کیونکہ صلاحیت کے بغیر کماحقہ نہ درس دیا جاسکتا اور نہ ہی صالحیت کے بغیر طلبہ کی تربیت کی جاسکتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلاف نے اساتذہ کے لئے ان دونوں صفتوں کو لازمی قرار دیا تھا،مذکورہ صفتوں میں سے کوئی بھی کمی حصول مقصد میں مانع سمجھی جاتی تھی، جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ماضی قریب تک تفسیر و حدیث و دیگر اسلامی علوم وفنون کے ماہرین کتنی تعداد میں پید ا ہوئے اور آسمان علم پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے، جن کے غروب کے بعد آج بھی اس قدر روشنی موجود ہے کہ متلاشیان حق کا ایک بہت بڑا طبقہ اسی روشنی میں رواں دواں ہے۔
اب جب کہ نہ صلاحیت معیار رہی اور نہ ہی صالحیت، پھر بھی امیدیں حسب سابق وابستہ رکھی جائیں اور محدثین ، مفسرین اور باعمل علماء و صالحین کی توقع رکھی جائے تو یہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور نیم کا درخت لگا کر انگور توڑنے اور اس سے فائدہ اٹھانے جیسی حماقت کے مساوی ہے، جس حماقت کی توقع کسی باشعور سے نہیں کی جاسکتی، اس لئے مدارس و جامعات کے اساتذہ اور طلبہ کی بے عملی اور بے کرداری پر تبصرہ کے ساتھ اس کے اسباب و علل پر بھی غور کیا جائے، بصورت دیگر یہ سمجھا جائے گاکہ اساتذہ اور طلبہ کی موجودہ ناگفتہ بہ صورت حال پر غیر سنجیدہ تبصرہ کرکے ان کی عزت و آبرو سربازار نیلام کرنے والا اپنے عیب کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے اور حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے کیونکہ تعلیم وتربیت پر توجہ تو وہی دیگا جس کا مقصد و مطمح نظر تعلیم و تربیت ہو مگر جن کے اذہان وقلوب کسی ایسی فکر سے عاری و ننگے ہوں بھلا وہ اس طرح کی بات سوچ کر یا اسے عملی جامہ پہنا کر اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کریں گے۔
چونکہ بیشتر ادارے جمہوری اصول کے حامل ہیں ان کے عہدیداران و اراکین کا انتخاب جمہوری طرز پر ہوتا ہے اس لئے عام جمہوری انتخابات میں جو چیز غالب رہتی ہے اور جس بنیاد پر نمائندے منتخب ہو کے آتے ہیں، اسی انداز اور طریقہ پر ان جمہوری اداروں میں بھی منتخب ہوکے آتے ہیں،بلکہ اگر یہ کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جو نیتیں عام انتخابات میں کار فرما ہوتی ہیں وہی نیتیں ان اداروں کے انتخابات میں بھی اور جب طرز و انداز وہی ہوتا ہے تو کیا ہمارے مخلص نمائندوں نے ہندوستان کی جو صورت حال بنارکھی ہے کہ ایک طرف دعوی سپر پاور ہونے کے ساتھ مختلف علوم و فنون میں نمائندگی اور امامت کا اور دوسری طرف غربت و تنگدستی کی وجہ سے خودکشی نیز قتل و غارت گری اور زنا بالجبر جیسے جرائم سے اخبار کا ورق ورق مزین کہ ایک حساس اور درد مند شخص ان اخبارات کو صبح کے وقت لرزتے ہوئے ہاتھوں سے چھوتا ہے اور بادیدہ نم پڑھتے ہوئے حواس پرقابو پانے کے لئے اپنی پوری صلاحیت جھونک دیتا ہے۔
جب طریقہ کاران اداروں کا وہی ہے جو ایک جمہور ملک کا تو انجام کیوں اس سے مختلف ہوگا؟ بلکہ سچائی تویہ ہے کہ جس طرح ہندو تو وادی اور ہندو دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں دھماکہ کرتے ہیں اور میڈیا کی طاقت سے اس کا رخ فورا مسلمانوں کی طرف پھیردیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ان اداروں میں بھی بہت سے جرائم جو اپنے لوگ انجام دیتے ہیں اسے غیروں کی طرف منسوب کردیاجاتا ہے اور اس چیز کو اتنا اچھالا جاتاہے کہ حقیقت پس پردہ چلی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصل مجرم کے کیفر کردار تک نہ پہونچنے کی وجہ سے وہ بڑے ہی اطمینان سے جرائم کا ارتکاب باربار کرتا رہتا ہے اور مظلوم ہندوستانی مسلمانوں کی طرح ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتا رہتا ہے۔
جب بھی نفس و شیطان کا غلبہ ہوگا اور روحانیت مغلوب ہوگی تو انجام کار یہی ہونا ہے،چاہے جو بھی شعبہ حیات ہو، اسی غلبہ کا نتیجہ ہے کہ بعض اداروں میں اساتذہ کے لئے جگہیں خالی ہیں ، سخت ضرورت بھی مگر رسہ کشی کا سلسلہ جو انتظامیہ کی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دیتا، کیونکہ ہر رکن یہی چاہتا ہے کہ اسی کا امید وار ہی اس جگہ پر آئے چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے، اگرچہ وہ صلاحیت و صالحیت سے دور کا بھی واسطہ نہ رکھتا ہو۔
نفس و شیطان کے غلبہ اور حذع و فریب کے متعلق عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے مغلوب ہوکر لوگ بتکدوں کا رخ کرتے ہیں ،مگر مولانا ابوالکلام آزاد کے لکھنے کے مطابق اگر اسے تلاش کرنا ہے تو مدرسوں اور خانقاہوں میں تلاش کرنا چاہئے جہاں شاید جلد مل جائے۔
’’ایک دنیادار فاسق اور ایک دنیادار عالم میں فرق یہی ہے کہ پہلا اپنی ہوا پرستیوں کو اعتراف فسق کے ساتھ انجام دیتا ہے اور دوسرا دین داری اور احتساب شرعی کے ظاہری فریب سے۔۔۔ نفس و شیطان کے حذع و فریب کے کاروبار بہت وسیع ہیں، لوگو ں نے ہمیشہ اس کومیکدوں میں ڈھونڈھا، مدرسوں اور خانقاہوں میں ڈھونڈھتے تو شاید جلد پتہ لگ جاتا ؂
یارب! زسیل حادثہ طوفان رسیدہ بود
بت خانہ کہ خانقہش نام کردہ اند‘‘
(تذکرہ:۵۵)
علامہ شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی مبارکپوری (رحمہ اللہ) نے استاذ محترم مولانا محمد الاعظمی سابق شیخ الجامعہ العالیہ العربیہ مؤناتھ بھنجن کو مورخہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۹ء ؁ ایک خط میں مدارس کے حالات سے رنجیدہ ہوکر بڑے دکھ کے ساتھ مدارس کے ماحول کی عکاسی کی ہے جس کا اقتباس درج ذیل ہے:
’’اس میں شک نہیں کہ پہلے یہ صیغہ بہت باعزت اور شریف سمجھا جاتا تھا، مدرسین اور علماء کی بڑی توقیر ہوتی تھی، تعلیمی بار بھی ہلکا ہوا کرتا تھا، لیکن اب دنیا کا جیسا کچھ حال ہے وہ آپ سے مخفی نہیں ہے، چھوٹے مدارس کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہوتی، بسا اوقات خود مدرس کو اپنی تنخواہ کے لئے چندہ دہندگان کی دریوزہ گری کرنی ہوتی ہے، پھر وہاں امامت اور خطابت کا فریضہ بھی مدرس ہی کو انجام دینا پڑتا ہے، اراکین و ذمہ داران کی دلجوئی اور خوش آمد اور ان کی رضامندی کا الگ ہمہ وقت خیال رکھنا پڑتا ہے،تعلیمی نصاب بالکل معمولی ہوتا ہے، بسا اوقات کھانے کا معقول انتظام نہیں ہوتا، بڑے مدارس میں جہاں پورے درس نظامی کا انتظام ہوتا ہے، وہاں بھی مختلف قسم کی شدید بیماریاں ہوتی ہیں، جو آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں، خود مجھ کو اب تک اس کے متعلق جو کچھ تھوڑی بہت معلومات حاصل ہیں ان کی بنیاد پر میرے نزدیک یہ بات ثابت شدہ حقیقت ہے کہ مدارس دینیہ عربیہ کی دنیا نہایت گندی ہوچکی ہے، کسی خودار، شریف اور کریم عالم کا وہاں ٹکنا بہت مشکل ہے، ہاں وہاں پہنچ کر وہ بھی اسی رنگ میں رنگ جائے تو اور بات ہے، بہرحال مجھ کو اس سے ذاتی طور پر نفرت ہوچکی ہے، اس لئے حتی الامکان آپ جیسے لوگوں کو اس دنیا میں قدم رکھنے کا مشورہ دینا بہت مشکل ہے، الا ان یضطر الیہ احد من معارفی و تلامذی عبدالرحمن سلمہ کے متعلق شروع سے میرا خیال بلکہ فیصلہ یہ تھا کہ وہ طب کی لائن میں جائیں، لیکن صورت حال اس وقت ایسی تھی کہ وہ تعلیمی لائن میں آگئے، اب بھی میری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ وہ اس ذریعہ معاش کو چھوڑ کر طبی لائن میں آجائیں مگر اس کی ابتداء اور تکمیل سب کچھ خود ان کی جدوجہد پر موقوف ہے‘‘۔ (نقوش شیخ رحمانی،صفحہ: ۳۵،۳۶)
مذکورہ دو عظیم شخصیات کے اہم اقتباسات کے بعد مدارس کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھلانے کے مترادف ہے، اس لئے مدارس اور موجودہ حالات کی روشنی میں اقدام کی ضرورت ہے، بصورت دیگر فطری اصول کے مطابق ہمیں وہی کاٹنا ہوگا بلکہ کاٹنے پر مجبور ہوں گے جوپہلے بو چکے ہیں۔
***

No comments:

Post a Comment