Tuesday 24 August, 2010

قرآن کریم اور تلاوت کے آداب agu 2010

جناب رانا محمد شفیق خاں پسروری
قرآن کریم اور تلاوت کے آداب
قرآن مجید، انسان کے لئے اللہ تعالی کی ایک خاص نعمت ہے، جس میں موعظت و ہدایت، تفصیل و تکثیر انعامات الٰہی، تقرب ربانی اور کرامات کا دریا موجزن ہے، یہ ہر طرح انسان کے لئے باعث رحمت، باعث برکت، باعث مغفرت اور ہدایت کاملہ ہے،اللہ کی خوشنودی و رضامندی برائیوں سے بچاؤ، اچھائیوں کی راہ، آلام و مصائب سے چھٹکارا، دکھ تکلیف، رنج و کلفت سے بچاؤ کا طریقہ، امن و سکینت کا سبب اور رشد وہدایت نیز انسانی فلاح و بہبود کا منبع ہے۔
انسان کو صحیح معنوں میں مسجود ملائکہ اور اشرف المخلوقات بنانے کے لئے اللہ نے خیر و شفاء کا یہ منبع سب نبیوں کے سردار اور رسولوں کے امام حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا اور اس عظیم کتاب کے تھامنے والوں کو سب امتوں سے افضل اور پڑھنے والوں کو سب انسانوں سے بہتر قرار دیا، یہ کتاب اللہ کے حضرت انسان اور امت مسلمہ سے حددرجہ پیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت انسان اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس عظمت و رفعت کے مرکب کی کماحقہ قدر کرے اور اپنا انگ انگ اس کے حوالے کردے، تبھی اس کی رحمت و برکات، مغفرت و ہدایت اور قرب الٰہی و انعامات ربانی کا حصول ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید معبود حقیقی اور محبوب و مطلوب کا کلام خاص ہے، محبوب کی تقریر وتحریر کی کسی دل کھوئے کے ہاں جو وقعت ہوتی ہے اور کے ساتھ جو وارفتگی و شیفتگی کا معاملہ ہوتا ہے وہ اختیار کرنا چاہئے ، پھر یہ عظیم کتاب تو احکم الحاکمین کا کلام اور سلطان السلاطین، بادشاہوں کے بادشاہ کا فرمان ہے اس سطوت و جبروت والے شہنشاہ کا قانون ہے جس کی ہمسری نہ کسی سے ہوئی نہ ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں کو سلاطین کے دربار سے واسطہ پڑا ہے وہ تجربے سے اور جن کو نہیں پڑا وہ اندازے سے سلطانی فرمان کی ہیبت جان سکتے ہیں،کلام الٰہی محبوب و حاکم کا کلام ہے اس لئے دونوں آداب کا خیال رکھنا چاہئے، حضرت عکرمہ جب کلام پاک پڑھنے کے لئے کھولتے تو بے ہوش ہوکر گر پڑتے ، زبان پر یہی جاری ہوتا تھا: ہذا کلام ربی، ہذا کلام ربی۔یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔
یعنی اس کو ایک عام فرد کی طرح نہیں پڑھنا چاہئے، صرف بندہ بن کر اپنے آقا، مالک، محسن اور منعم کا کلام سمجھ کر پڑھے اس کے حضور حاضر ہو جس طرح کسی خاص تقریب میں آقا کے حضور حاضر ہے، اچھی طرح مسواک کرکے، وضو کرکے ایسی جگہ جہاں یکسوئی حاصل ہو، نہایت وقار اور تواضع کے ساتھ قبلہ روبیٹھئے، نہایت حضور قلب اور خشوع کے ساتھ اس طرح پڑھئے گویا حق تعالیٰ سبحانہ کو کلام پاک سنارہا ہے یا اس ذات برحق سے گفتگو کا شرف حاصل کررہا ہے،(اگر معنی جانتا ہو تو کیا ہی خوب۔۔۔) نہایت تدبر و تفکر کے ساتھ وعدے اور رحمت و مغفرت کی آیات پر مغفرت و رحمت کا بھکاری بن جائے اور خوب دعا مانگے کہ اس کے سوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں، جن آیات اللہ کی تقدیس و تحمید ہے وہاں سبحان اللہ کہے، تلاوت کے درمیان ازخود رونا آئے تو بہت خوب، ورنہ بہ تکلف رونے کی سعی کرے، دوران تلاوت کسی اور سے ہم کلام نہ ہو،دوران تلاوت اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو تلاوت بند کرکے ضرورت پوری کرے اور پھر تعوذ پڑھ کر دوبارہ تلاوت کرے، بلند آواز سے پڑھنا اولیٰ ہے لیکن کوئی نماز پڑھ رہا ہو یا لوگ مجمع میں دیگر امور میں مشغول ہوں تو آہستہ پڑھے۔
اس کتاب کی تلاوت کے آداب جو قرآن و احادیث سے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) اس عظیم کتاب کو برحق، شک و شبہ سے بالاتر اور انسان کی فلاح و خیر ، رشد و ہدایت اور شفا کا باعث جاننا منزل من اللہ ، منز ل برسول اللہ سمجھنا اور باعث ثواب و اجر قرار دینا، اس میں درج احکامات پر عمل کرنااور تمام کے تمام پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی بہتری کیلئے کوشش کرنا (دنیا وآخرت کی کامیابی کا باعث قرار دے کر اس کی آیات کو لازم حیات بنالینا)۔
(۲) اس کتاب مقدس کو انتہائی پاک جگہ پر رکھا جائے، اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے ’’مرفوعۃ مطہرۃ‘‘کے الفاظ بیان کئے ہیں یعنی بلند و پاک ،سو اس کتاب مقدس کو کسی اونچی جگہ اور پاکیزہ مقام پر رکھا جائے۔
(۳) اس کو ناپاک ہاتھ نہ لگنے چاہئیں، جب بھی چھوا جائے باوضو ہوکر ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ میں یہی حکم ہے، نیز رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ بھی ہے ’’لایمس القرآن الا طاہر‘‘ کہ ہرگز قرآن کو بے وضو نہ چھوا جائے، یہ وہ حکم نبوی ﷺ ہے جو حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو بھیجا گیا تھا۔(مؤطا کتاب القرآن)
(۴) حالت جنابت اور حیض و نفاس میں قرآن کی تلاوت بھی جائز نہیں ہے،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تقرا الحائض والجنب شیئا من القرآن ۔ (حائضہ اور جنبی قرآن کو کچھ بھی نہ پڑھے)
نوٹ: احکام القرآن للجصاص، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی وغیرہ کے حوالے سے صحابہ کرام بغیر وضو کے قرآن پاک پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے، مگر چھونے کو ناروا۔ یعنی بے وضو قرآن کو چھونا نہیں چاہئے،البتہ زبانی پڑھا جاسکتا ہے، البتہ حالت جنابت ، حیض ونفاس میں زبانی بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔
اسی طرح اگر کوئی جنبی اور حائضہ کے سامنے قرآن پاک پڑھ رہا ہو اور وہ غلطی کرجائے تو اس صورت میں غلطی کی درستی کے لئے جنبی اور حائضہ کے قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ہے، ایسے ہی عام معمولات میں کلمات خیر مثلا الحمدللہ،سبحان اللہ، ان شاء اللہ وغیرہ کہنے کی بھی اجازت ہے۔
(۵) جب بھی قرآن پاک پڑھے بلند آواز سے پڑھے کہ اس کا سننا بھی باعث ثواب و رحمت ہے اور سے یہ بھی مقصود ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوتو کوئی سننے والا درست کردے۔ امام بخاری نے جامع الصحیح میں باقاعدہ بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنے کا باب باندھا ہے اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا وہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور لوچدار لہجے میں بلند آواز سے سورہ فتح پڑھ رہے تھے(کتاب التفسیر،بخاری)
(۶) قرآن پاک خوش الحانی اورخوش لہجہ سے پڑھنا چاہئے رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے: حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا۔ تم لوگ اپنی آوازوں سے قرآن پاک کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔
(۷)قرآن پاک پڑھنے میں تیزی نہیں کرنی چاہئے کہ الفاظ آپس میں گھل جائیں اور سمجھ نہ آئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ کہ قرآن پڑھتے ہوئے جلد بازی میں زبان نہیں ہلانی چاہئے۔ (القیامہ)
(۸)ایک ایک لفظ کھینچ کھینچ کر اور موتیوں کی صورت الگ پڑھنا چاہئے، جیسے ہر لفظ کا مزا لے کر پڑھا جائے، بخاری شریف میں باقاعدہ الفاظ کھینچ کر پڑھنے کا باب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ خوب کھینچ کر پڑھتے تھے۔
دوسری جگہ حدیث میں ہے:
فقال کانت مدثم قراء بسم اللہ الرحمن الرحیم یمد بسم اللہ و یمد بالرحمن ویمد بالرحیم ۔ (بخاری کتاب التفسیر)
(۹)ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، اللہ رب العزت کاارشاد ہے: ورتل القرآن ترتیلا۔(مزمل) کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے رات پوری مفصل سورتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن نہیں پڑھا بلکہ یہ تو گھاس کاٹنا ہوا۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں : یقطع قراتہ یقول الحمد للہ رب العالمین ثم یقف ویقول الرحمن الرحیم ثم یقف وکان یقرا مالک یوم الدین(شمائل ترمذی) کہ رسول اللہ ﷺہر آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے، کہ الحمدللہ رب العالمین پڑھتے پھر ٹھہر جاتے، پھر الرحمن الرحیم پڑھتے پھر رک جاتے پھر مالک یوم الدین پڑھتے۔ یعنی ہر آیت پر رکنا اور وقف کرنا ہی سنت اور ترتیل ہے۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں ترتیل سے القارعۃ اور اذازلزلت پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہوں، اس سے کہ سورہ بقرہ اور آل عمران بلا ترتیل پڑھوں۔
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قرآن پڑھنے والوں سے کہے گا کہ ترتیل سے پڑھتا جا جس طرح دنیا میں پڑھتا تھا اور جنت کے درجات طے کرتا جا۔ جہاں آیات ختم ہونگی وہی تیری منزل ہے۔ (سنن اربعہ، احمد ،ابن حبان، باب فضائل القرآن)۔
(۱۰) قرآن پاک کو جتنا بھی غور سے پڑھا جائے بہتر ہے کم از کم مدت ایک ماہ میں ختم کرنا چاہئے، اگر مزید استطاعت ہوتو پندرہ دن میں، مزید استطاعت ہو تو سات دن میں اس سے کم بالکل نہیں پڑھنا چاہئے۔
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے دو حدیثیں روایت ہیں جن میں ایک ماہ میں قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ، حد سات دن کا حکم ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اقرء القرآن فی شہر قلت انی اجد قوۃ حتی قال فاقراہ فی سبع ولا تزد علیہ۔ یعنی قرآن کو تم ایک ماہ میں پڑھو (حضرت عبداللہ کہتے ہیں) میں نے کہا میں اس سے زیادہ کی استطاعت رکھتا ہوں، فرمایا زیادہ سے زیادہ سات دن میں پڑھو اور سات سے کم میں بالکل نہیں( بخاری کتاب التفسیر)
اسی وجہ سے قرآن کی سات منازل بنائی گئی ہیں، تاکہ حفاظ و قراء ایک ہفتے میں قرآن کا دور کر سکیں، صحابہ کرام و تابعین نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے پورے قرآن کی کل سات منازل ہیں۔
ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لم یفقہ من قرء القرآن فی اقل من ثلث۔ یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے قرآن کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ (کتاب القرآن)۔

No comments:

Post a Comment