شعور و آگہی
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
ہماری ملی ضرورت
اتحاد کا خورشید جہاں تاب
اتحاد کا خورشید جہاں تاب
گذشتہ دنوں ملکی حالات کچھ عجیب بے جہت سے رہے،اندازہ لگانا مشکل تھا، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، تمام سیاسی جماعتیں دستور نو کے حوالے سے بے یقینی کا شکار رہیں، وزیر اعظم کے استعفاء کا مطالبہ ہوتا رہا، پارلیمنٹ کی کاروائی موقوف کردی گئی، خواتین بھی سرگرم عمل رہیں، ایوان میں ان کی نعرہ بازی نے بڑی مضحکہ خیز صورت پید اکر رکھی تھی۔
بالآخر طے پایا کہ دستور کی تکمیل و تشکیل کے لئے ایک سال کی مدت بڑھادی جائے، ہنگامے کچھ سرد پڑے، مگر استعفاء کی مانگ جاری رہی، یہ ایک طرح سے سرد جنگ تھی۔
اب وزیر اعظم اپنا استعفاء پیش کرچکے ہیں، جملہ سیاسی احزاب باہمی گفت وشنید کے ذریعہ اقتدار کی لیلائے نازک بدن سے ہم آغوشی کی چاہ میں بے قرار ہیں، اضطراب کی یہ وہ کیفیت ہے، جو جہاں بھی پیدا ہوگی، ترقی کی رفتار رک جائے گی، عوام مایوسی سے دوچار ہوں گے، ملکی معیشت کو گھن لگ جائے گا اور امن وامان کے لب پر ایک پھیکی مسکراہٹ پھیلتی چلی جائے گی، جو ہر شہری کو مضطرب رکھنے کے لئے کافی ہے۔
نئے دستور کی تشکیل کی مدت دو برس تھی، جس کے لئے ۶۰۱؍ارکان پر مشتمل جہازی سائز کا ایوان بنا ہوا تھا، مگر مقررہ مدت میں دستور بنانے میں یہ ایوان ناکام رہا، پارلیمان کے قیمتی لمحات لایعنی اورفضول ہنگامہ آرائیوں کی نذر ہوتے رہے، قومی سرمائے کا یہ زیاں حساس اہل وطن کے لئے بے حد اذیت ناک تھا۔
سیاست داں مزے اڑاتے رہے، وہ قوم کی فکر سے بے نیاز اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کوشاں رہے، دیکھتے دیکھتے دو سال کے گراں قدر صبح و شام یوں ہی گزر گئے، بے بس شہری خالی ہاتھ رہ گیا، اب اسے ایک سال کے غم انگیز روز و شب مزید برداشت کرنے پڑیں گے۔
اب تک دستور میں جو دفعات جگہ پاچکے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ سب ہمارے لئے بہت خوش کن ہوں، ہر طبقہ اتحاد اور جہد مسلسل کے ذریعے بہت کچھ پانے کی امید میں ہے، مگر ایک ہم ہیں جو ابھی تک اتحاد کی اہمیت سے واقف ہی نہ ہوسکے، تگ و دو بہت ہوئی، تنظیمیں کئی ایک وجود میں آئیں، سب نے اپنی توانائی صرف کی، اخراجات بھی ہوئے، سیاسی قائدین سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر ان جہود و مساعی کے مقابلے میں جو حصولیابی ہوئی، وہ دلوں کے خوش اور مطمئن ہونے کے لئے ناکافی ہے، دراصل مسئلہ وہی پرانا ہے:
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
بکھرے ہوئے تاروں اور جگنووں کی چمک سے اندھیرے کافور نہیں ہوتے، اس کے لئے ایک خورشید جہاں تاب کی ضرورت ہوتی ہے، آج ہمیں اتحاد کے ذریعے ایک ایسا ہی آفتاب تازہ پیدا کرنا ہے، جس سے بے جہتی کا اندھیرا چھٹ جائے، بے یقینی کی سیاہی مٹ جائے اور ہمیں ہمارے حقوق کی ضمانت کی وہ روشنی حاصل ہو، جس سے شاہراہ حیات پہ چلنا سہل ہوجائے، تاریکیاں ہماری پیش قدمی میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
ہمارے ملک کی سیاسی دنیا کے بزر چمہر یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ اتحاد و اتفاق کی روشنی والی اس اقلیت کو ساتھ لئے بغیر ان کے گہرے اندھیرے دور نہیں ہو پائیں گے اور اقتدار سے دوری ان کا مقدر بن جائے گی۔پھر وہ خود ہی ہمارے حقوق کے لئے کوشاں نظر آئیں گے۔
بالآخر طے پایا کہ دستور کی تکمیل و تشکیل کے لئے ایک سال کی مدت بڑھادی جائے، ہنگامے کچھ سرد پڑے، مگر استعفاء کی مانگ جاری رہی، یہ ایک طرح سے سرد جنگ تھی۔
اب وزیر اعظم اپنا استعفاء پیش کرچکے ہیں، جملہ سیاسی احزاب باہمی گفت وشنید کے ذریعہ اقتدار کی لیلائے نازک بدن سے ہم آغوشی کی چاہ میں بے قرار ہیں، اضطراب کی یہ وہ کیفیت ہے، جو جہاں بھی پیدا ہوگی، ترقی کی رفتار رک جائے گی، عوام مایوسی سے دوچار ہوں گے، ملکی معیشت کو گھن لگ جائے گا اور امن وامان کے لب پر ایک پھیکی مسکراہٹ پھیلتی چلی جائے گی، جو ہر شہری کو مضطرب رکھنے کے لئے کافی ہے۔
نئے دستور کی تشکیل کی مدت دو برس تھی، جس کے لئے ۶۰۱؍ارکان پر مشتمل جہازی سائز کا ایوان بنا ہوا تھا، مگر مقررہ مدت میں دستور بنانے میں یہ ایوان ناکام رہا، پارلیمان کے قیمتی لمحات لایعنی اورفضول ہنگامہ آرائیوں کی نذر ہوتے رہے، قومی سرمائے کا یہ زیاں حساس اہل وطن کے لئے بے حد اذیت ناک تھا۔
سیاست داں مزے اڑاتے رہے، وہ قوم کی فکر سے بے نیاز اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کوشاں رہے، دیکھتے دیکھتے دو سال کے گراں قدر صبح و شام یوں ہی گزر گئے، بے بس شہری خالی ہاتھ رہ گیا، اب اسے ایک سال کے غم انگیز روز و شب مزید برداشت کرنے پڑیں گے۔
اب تک دستور میں جو دفعات جگہ پاچکے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ سب ہمارے لئے بہت خوش کن ہوں، ہر طبقہ اتحاد اور جہد مسلسل کے ذریعے بہت کچھ پانے کی امید میں ہے، مگر ایک ہم ہیں جو ابھی تک اتحاد کی اہمیت سے واقف ہی نہ ہوسکے، تگ و دو بہت ہوئی، تنظیمیں کئی ایک وجود میں آئیں، سب نے اپنی توانائی صرف کی، اخراجات بھی ہوئے، سیاسی قائدین سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر ان جہود و مساعی کے مقابلے میں جو حصولیابی ہوئی، وہ دلوں کے خوش اور مطمئن ہونے کے لئے ناکافی ہے، دراصل مسئلہ وہی پرانا ہے:
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
بکھرے ہوئے تاروں اور جگنووں کی چمک سے اندھیرے کافور نہیں ہوتے، اس کے لئے ایک خورشید جہاں تاب کی ضرورت ہوتی ہے، آج ہمیں اتحاد کے ذریعے ایک ایسا ہی آفتاب تازہ پیدا کرنا ہے، جس سے بے جہتی کا اندھیرا چھٹ جائے، بے یقینی کی سیاہی مٹ جائے اور ہمیں ہمارے حقوق کی ضمانت کی وہ روشنی حاصل ہو، جس سے شاہراہ حیات پہ چلنا سہل ہوجائے، تاریکیاں ہماری پیش قدمی میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
ہمارے ملک کی سیاسی دنیا کے بزر چمہر یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ اتحاد و اتفاق کی روشنی والی اس اقلیت کو ساتھ لئے بغیر ان کے گہرے اندھیرے دور نہیں ہو پائیں گے اور اقتدار سے دوری ان کا مقدر بن جائے گی۔پھر وہ خود ہی ہمارے حقوق کے لئے کوشاں نظر آئیں گے۔
No comments:
Post a Comment