الکتاب
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤمِنُونَ* الَّذِیْنَ ھُمْ فِی صَلاَتِھِمْ خَاشِعُوْنَ* والَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ * والَّذِیْنَ ھُمْ للزَّکوٰۃ فَاعِلُوْنَ*(سورہ مومنون:۱تا۴)
ترجمہ: ایماندار لوگ کامیاب ہوگئے، جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہی، اور جو بیہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں، اور جو زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں۔
تشریح: نماز میں خشوع کا مقام اور اثرات: خَشَعَ کے معنی عاجزی ہے، جو دل میں ڈر اور ہیبت طاری ہونے کی وجہ سے ہو، پھر اس ڈر و عاجزی کے اثرات اعضاء وجوارح پر بھی ظاہر ہونے لگیں، آنکھیں مرعوب ہوکر جھک جائیں اور آپ کی آواز پست ہوجائے،چنانچہ ایسے مقامات پر بھی قرآن نے یہی لفظ استعمال فرمایا ہے، پھر اسی خشوع کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ انسان نماز میں باادب کھڑا ہو، ادھر ادھر نہ دیکھے، نہ اپنے کپڑے سنوارتا رہے، نہ اپنی داڑھی وغیرہ سے کھیلتا رہے اور نہ دل میں نماز پر توجہ کے علاوہ دوسرے خیالات آنے دے۔
اور خیالات آنے بھی لگیں تو فوراً ادھرسے توجہ ہٹا کر یہ سوچنے لگے کہ وہ نماز میں اپنے مالک کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے اور اس بات پر توجہ دے کہ وہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے ، خشوع اگرچہ اجزائے صلوٰۃ کے لئے شرط نہیں تاہم حسن قبول کے لئے لازمی شرط ہے۔
الحکمۃ
عَن أَبی ھُرَیرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قَال: ’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَاناً واحتِساباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ‘‘ (متفق علیہ)ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(رات کو تراویح پڑھیں) اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (بخاری،مسلم)
تشریح:(۱) قیام رمضان یقیناًایک مؤکدہ اور اجر وثواب کے لحاظ سے نہایت اہم عبادت ہے، تاہم اس کی حیثیت نفل ہی کی ہے ، واجب کی نہیں،(۲) جو گناہ معاف ہوتے ہیں وہ صغیرہ گناہ ہیں ورنہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیر اور حقوق العباد میں کی گئی کوتاہیاں ان کا ازالہ کئے بغیر معاف نہیں ہوں گے، (۳)رمضان کا یہ قیام نبیﷺکے عمل سے بھی ثابت ہے، آپ نے ایک رمضان میں تین راتوں کو قیام فرمایا یعنی صحابہ کرام کو جماعت کے ساتھ یہ نفلی نماز پڑھائی، تین راتوں میں آپ نے کتنی رکعت پڑھائیں؟ وہ صحیح احادیث کی رو سے ۸رکعات ہیں اور ۳وترہیں، اس لئے قیام رمضان کی مسنون صرف آٹھ رکعات ہیں اور وتر سمیت گیارہ، (۴) احادیث میں اس نفلی نماز کو قیام رمضان سے ہی تعبیر کیا گیا ہے،بعد میں اس کا نام تراویح قرار پاگیا۔
No comments:
Post a Comment