تحریر: عبد الرحمن رافت پاشا
ترجمہ: ضیاء الدین بخاری
ان آیتوں کا تعلق ایک ایسے واقعے سے ہے جس میں ایک نوجوان شرکے مقابلے میں خیر اور کفر کے مقابلے میں ایمان کو اپنا مقصد حیات بناتاہے، یہ جس جواں سال کا واقعہ ہے وہ مکہ مکرمہ کے نوجوانوں میں اپنے ماں باپ دونوں کے اعلیٰ اور پر وقار خاندان کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور نوجوان کا نام تھا سعد بن ابی وقاص۔
جن دنوں رسول اللہ ﷺ نے سرزمین مکہ میں نبوت کا اعلان فرمایا تو سعد نو عمر تھے، خوبصورت و جمیل تھے، حد درجہ رحم دل تھے، والدین اور بالخصوص والدہ کا حد درجہ احترام کرتے، عمر کے اعتبار سے وہ صرف سترہ سال کے تھے، لیکن ذہانت، ذکاوت اور بالغ نظری میں بہت سے پختہ عمر آپ کے مقابلے میں بچے دکھائی دیتے ، یہی وجہ تھی کہ سعد نے اپنا بچپن اور بچوں کی طرح کھیل کود اور لہو لعب میں برباد نہیں کیا بلکہ تیر اندازی کمانوں کی درستگی میں وہ اپنا وقت صرف کرتے۔ گویا اس طرح وہ کسی آنے والے بڑے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھے، ساتھ ہی اپنی قوم کے مفسد عقیدوں اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے وہ حد درجہ غیر مطمئن رہا کرتے اور یہ محسوس ہوتا کہ انہیں کسی مضبوط ہاتھوں کا انتظار ہے جو ان کی قوم کو ان اندھیاروں سے نکال سکے۔
ان کی انہی کیفیات کے درمیان اللہ تعالی نے عالم انسانیت کے لئے اس انسان کو مبعوث فرمادیا جس کا انتظار تھا اور یہ ہاتھ مخلوق کے سردار محمد بن عبداللہ ﷺ کا اور آپ کے دست مبارک میں نور الٰہی کا وہ ستارہ موجود تھا جو کبھی غروب نہیں ہوتا یعنی ’’اللہ کی کتاب‘‘۔ سعد بن ابی وقاص حق و ہدایت کی اس دعوت کی جانب لپک پڑے اور یہ خوش نصیبی آپ کے حصہ میں آئی کہ آپ تین اولین اسلام قبول کرنے والوں میں تیسرے یا چار اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے تھے اور اکثر سعد رضی اللہ عنہ فخر سے کہا کرتے: میں نے قبول اسلام میں ہفتہ بھر تاخیر کی لیکن بحمدللہ میں اولین اسلام کا تہائی ہوں۔
سعد کے اسلام سے رسول اللہ ﷺ کو بے پناہ مسرت ہوئی، اس لئے کہ آپ میں شرافت کی جملہ علامتیں موجود تھیں جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہلال بہت جلد بدر کامل بن جائے گا اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ نسبی نے مکہ کے دیگر نوجوانوں کو بھی اس امر پر اکسایا کہ وہ بھی اپنے ہم عمر سعد کے نقوش پا کو اپنالیں۔
ان تمام باتوں کے علاوہ سعد رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کا ننہال کا رشتہ بھی تھا، اس لئے کہ سعد رضی اللہ عنہ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ ﷺ کی والدہ آمنہ بھی اسی قبیلے سے تھیں، لیکن سعد بن ابی وقاص کو قبول اسلام کے بعد اپنی زندگی کے بدترین امتحان سے گزنا پڑا اور بے پناہ روحانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ نوجوان ان تمام دشوار گزار مراحل سے بایں انداز گزر گیا کہ ان کی مدح اور تعریف میں اللہ بزرگ و برتر نے قرآنی آیتیں نازل فرمائیں۔
سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اسلام قبول کرنے سے پہلے میں تین راتوں تک ہر رات یہ خواب دیکھتا رہا کہ میں گہرے اندھیرے میں کھو گیاہوں، اور اس اندھیارے کے گہرے سمندر سے جوں ہی میں نے اپنا سر اٹھایاتو مجھے چاند کی ایک روشنی دکھائی دی اور میں نے دیکھا کہ ایک صاحب مجھ سے پہلے اس روشنی تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اس کے بعد میں نے زید بن حارث ، علی بن ابی طالب اور ابوبکر صدیق کو دیکھا اور ان سے دریافت کیا: تم یہاں کب سے ہو، انہوں نے کہا : کچھ دیر پہلے ہم یہاں پہنچے ہیں۔
آنکھ کھلی تومجھے پتہ چلا کہ رسول اللہﷺ خفیہ طریقے پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، مجھے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی، یوں محسوس ہوا کہ اللہ میری بھلائی چاہتاہے اور اپنے رسول کے ذریعے مجھے اندھیاروں سے روشنی تک پہونچانا چاہتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں تیزی سے آپ ﷺ کی جانب چل پڑا، جیاد کی گھاٹی میں آپ سے ملاقات کی، اس وقت آپﷺنماز عصر ادا فرماچکے تھے، میں نے سلام کیا اوردیکھا کہ میرے علاوہ صرف وہی تین افراد آپ ﷺ کی خدمت میں ہیں جنہیں میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔
سعد رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کے بعد کے حالات یوں سناتے ہیں :جب میری والدہ کو میرے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو بہت سخت ناراض ہوگئیں اور مجھے بلا کر ڈانٹتے ہوئے کہا :سعد! یہ کون سا دین تم نے قبول کرلیا اور اپنی ماں اور باپ کے دین کو چھوڑ بیٹھا۔ اللہ کی قسم یا تو تو اپنا نیا دین چھوڑ دے یا پھر میں موت تک کھانا پینا چھوڑدوں گی، پھر میری موت کے بعد تو اپنے کئے پر پچھتائے گا اورلوگ زندگی بھر تجھے طعنے دیتے رہیں گے۔
میں بولا: ماں ! ایسا نہ کرو، میں کسی بھی قیمت پر اپنا نیا دین نہیں چھوڑنا چاہتا،لیکن وہ دھمکی پر قائم رہی اور عرصہ بیت گیا کہ اس نے کھانے پانی کو ہاتھ نہیں لگایا، اس کا جسم ڈھل گیا، ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور ہاتھ پیر نے جواب دے دیا، میں وقفے وقفے سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتارہتا اور انہیں اس قدر کھانے پینے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا کہ جس سے ان کی زندگی بچ جائے۔ لیکن میرے ہر مطالبے کو وہ شدت سے رد کردیا کرتی اور بار بار قسم کھاتی کہ یا تو میں اپنا نیا دین چھوڑ دوں یا ان کی موت کا انتظار کروں۔
بالآخر میں نے فیصلہ کن انداز میں اپنی ماں کو بتلایا کہ ’’اے ماں! مجھے اللہ اور رسول کے بعدتجھ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہے لیکن آج تم اچھی طرح سن لو کہ اگر اللہ تمہیں ایک ہزار جان دیااور یکے بعد دیگرے تمہاری جان جاتی رہے تب بھی میں تمہاری جان بچانے کے لئے اپنا دین ہرگز نہ چھوڑوں گا۔
جب میری والدہ نے میرے پختہ ارادے کو بھانپ لیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا پینا شروع کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ہم ماں بیٹوں سے متعلق یہ آیتیں نازل فرمائیں، اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا،ہاں دنیا کے کاموں میں اچھی طرح ساتھ دینا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بھلائی کی راہ دکھلائی اور انہیں دین اسلام کی قبولیت کی جانب راغب کیا، جنگ بدر کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی عمیر رضی اللہ عنہ کا ایثار ناقابل فراموش ہے ، ابھی عمیر رضی اللہ عنہ نے جوانی میں قدم رکھا ہی تھا، ادھر جب آپ ﷺجنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا بنفس نفیس معائنہ فرمایا تو عمیر رضی اللہ عنہ اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ کے پیچھے چھپ گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صغر سنی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ انہیں اپنے ساتھ لے جانے اور جنگ بدر میں شرکت سے منع فرمادیں اور ساتھ ہی زور زور سے رونے لگے،جب آپ ﷺ نے رونے کی وجہ دریافت کی تو عمیر کا جواب سن کر آپ ﷺ کا دل پسیجا اور آپ نے انہیں ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، یہ دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ خوشی خوشی سامنے آئے اور اپنے چھوٹے بھائی کے بدن پر تلوار لگائی کیونکہ بچپنے کی وجہ سے عمیر تلوار لگانا بھی نہیں جانتے تھے اور پھر دونوں بھائی اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے، جنگ کے خاتمے پر سعد رضی اللہ عنہ تنہا مدینہ لوٹے، اس لئے کہ ان کے بھائی شہید کردئیے گئے تھے۔
جنگ احد میں جب مسلم افواج کے قدم اکھڑنے لگے اور آپ ﷺ سے دور ہوتے چلے گئے اور دس افراد سے زیادہ صحابہ آپ ﷺ کے اردگرد نہ رہے، ایسے نازک اور صبر آزما موقعے پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی کمان سے آپ ﷺ کے دفاع میں تیر برسارہے تھے، ادھر آپ کا تیر کمان سے نکلتا ادھر مشرک ڈھیر ہوجاتا، جب آپ ﷺ نے تیز اندازی کی یہ شان دیکھی تو آپﷺ یہ کہہ کر سعد رضی اللہ عنہ کی ہمت افرائی فرماتے رہے، سعد تیر چلاؤ! تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
سعد رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے اس جملے کو زندگی بھر فخریہ انداز میں لوگوں کو سناتے اور فرماتے : سوائے میرے اور کسی کے لئے آپ نے بیک وقت اپنے ماں باپ دونوں کے فدا ہونے کی بات نہیں کہی۔
سعد رضی اللہ عنہ اس وقت سعادت کے نقطہ عروج پر پہنچے جب امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اہل فارس سے جنگ کی تیاریاں شروع کیں، امیر المومنین نے اہل فارس کے اثر و رسوخ کو انجام تک پہنچادینے کا فیصلہ کیا نیز فیصلہ فرمایا کہ اب بتوں کی پرستش کے جملہ اثرات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، لہٰذا آپ نے تمام اسلامی ریاستوں کے عمال کو حکم دیا کہ وہ جس قدر ممکن ہو نہ صرف اسلحہ، گھوڑے اور دیگر سامان جنگ مدینہ روانہ کریں بلکہ تاکید کی کہ اگر اس جنگ میں فتح کے لئے کوئی رائے، کسی شاعر کا کلام یا کسی خطیب کا خطبہ ضروری جانو تو بلا تکلف بھیج دو تاکہ ہر محاذ پر مکمل تیاری کے ساتھ یلغار کردی جائے۔
اس پیغام کے ساتھ ہی ہر سمت سے مدینہ منورہ میں مجاہدین کے وفود آنے شروع ہوگئے،جب پوری تیاریاں مکمل ہوگئیں تو امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے ذمہ دار اور صاحب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا کہ اس جنگ میں کسے سپہ سالار بنایا جائے؟ تمام ذمہ داروں نے بیک زبان سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا۔ لہٰذا امیر المومنین نے سعد رضی اللہ عنہ سے استدعا کی اورفوج کا جھنڈا آپ کے حوالے کیا۔
جب اسلامی فوج کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینہ سے روانہ ہونے لگاتو عمر رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو الوداع کہتے ہوئے سپہ سالار فوج کویوں نصیحت فرمائی: ’’اے سعد! یہ بات تمہیں کہیں اللہ سے دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تم محمدﷺ کے رشتے دار ہو یا یہ کہ تم صحابی رسول ہو۔ اس لئے کسی گناہ کو گناہ سے نہیں بلکہ ہر گناہ کو نیکی سے مٹاناہے۔اے سعد! کسی بھی شخص اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اطاعت و فرماں برداری کے سوا کوئی رشتہ نہیں، شریف اور بد ذات اللہ کے نزدیک برابر ہیں، اللہ ان کا رب اور وہ سب اس کے بندے ہیں، لیکن اگر ان میں کسی کو کسی پر برتری ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ بھی پائیں گے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے پائیں گے، لہٰذا اے سعد! جس بات کا حکم محمد ﷺ نے دیا ہے یاد رکھو کہ وہی حکم لائق عمل ہے۔
اسلامی فوج کا یہ عظیم قافلہ اس شان سے چل پڑا کہ اس میں ۹۹ صحابہ کرام جنگ بدر کے شریک تھے،۳۱۳ صحابہ کرام بیعت رضوان کے شریک تھے، ۳۰۰صحابہ کرام فتح مکہ کے شریک تھے ۷۰۰صحابہ کرام کی اولاد تھے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر قادسیہ پہنچے اور مسلمانوں نے اس جنگ کو فیصلہ کن بنادیا،فارس کی فوج کے سپہ سالار ’’رستم‘‘ کا سر مسلمانوں نے اپنے نیزے پر اٹھا رکھا تھا،جس کی وجہ سے اللہ کے دشمنوں کے دلوں میں ایسا رعب بیٹھ گیا کہ مسلم فوجی جس فارسی کو بھی آواز دیتا وہ بلا چوں چرا حاضر ہوجاتا اور اسے قتل کردیا جاتا، بلکہ بعض اوقا ت اسی بلائے جانے والے کا ہتھیار لے کر اسی کے ہتھیار سے مارڈالا جاتااور وہ مارے خوف کے مقابلہ نہ کرتا،بے پناہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے طویل عمر پائی اور انہیں اللہ نے بے پناہ مال و دولت سے نوازا، لیکن جب وفات کی گھڑی آن پہنچی تو آپ نے اپنا پرانا اونی پیراہن طلب فرمایا اور کہا: مجھے اسی پیراہن کا کفن دینا، اس لئے کہ بدر کے موقع پر اسی کو پہن کر میں نے مشرکین سے مقابلہ کیا تھا اور میری دلی خواہش ہے کہ اسی پیراہن کو پہن کر میں اپنے رب سے ملوں۔
ترجمہ: ضیاء الدین بخاری
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
اور ہم نے انسان کو جسے اس کی ماں تکلیف پرتکلیف سہ کر اٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور آخر کار دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کرآنا ہے اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا، ہاں دنیا کے کاموں میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے اس کے رستے پر چلنا، پھر تم کو میری طرف لوٹ کرآنا ہے تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا۔ (سورہ لقمان:۱۴)ان آیتوں کا تعلق ایک ایسے واقعے سے ہے جس میں ایک نوجوان شرکے مقابلے میں خیر اور کفر کے مقابلے میں ایمان کو اپنا مقصد حیات بناتاہے، یہ جس جواں سال کا واقعہ ہے وہ مکہ مکرمہ کے نوجوانوں میں اپنے ماں باپ دونوں کے اعلیٰ اور پر وقار خاندان کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور نوجوان کا نام تھا سعد بن ابی وقاص۔
جن دنوں رسول اللہ ﷺ نے سرزمین مکہ میں نبوت کا اعلان فرمایا تو سعد نو عمر تھے، خوبصورت و جمیل تھے، حد درجہ رحم دل تھے، والدین اور بالخصوص والدہ کا حد درجہ احترام کرتے، عمر کے اعتبار سے وہ صرف سترہ سال کے تھے، لیکن ذہانت، ذکاوت اور بالغ نظری میں بہت سے پختہ عمر آپ کے مقابلے میں بچے دکھائی دیتے ، یہی وجہ تھی کہ سعد نے اپنا بچپن اور بچوں کی طرح کھیل کود اور لہو لعب میں برباد نہیں کیا بلکہ تیر اندازی کمانوں کی درستگی میں وہ اپنا وقت صرف کرتے۔ گویا اس طرح وہ کسی آنے والے بڑے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھے، ساتھ ہی اپنی قوم کے مفسد عقیدوں اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے وہ حد درجہ غیر مطمئن رہا کرتے اور یہ محسوس ہوتا کہ انہیں کسی مضبوط ہاتھوں کا انتظار ہے جو ان کی قوم کو ان اندھیاروں سے نکال سکے۔
ان کی انہی کیفیات کے درمیان اللہ تعالی نے عالم انسانیت کے لئے اس انسان کو مبعوث فرمادیا جس کا انتظار تھا اور یہ ہاتھ مخلوق کے سردار محمد بن عبداللہ ﷺ کا اور آپ کے دست مبارک میں نور الٰہی کا وہ ستارہ موجود تھا جو کبھی غروب نہیں ہوتا یعنی ’’اللہ کی کتاب‘‘۔ سعد بن ابی وقاص حق و ہدایت کی اس دعوت کی جانب لپک پڑے اور یہ خوش نصیبی آپ کے حصہ میں آئی کہ آپ تین اولین اسلام قبول کرنے والوں میں تیسرے یا چار اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے تھے اور اکثر سعد رضی اللہ عنہ فخر سے کہا کرتے: میں نے قبول اسلام میں ہفتہ بھر تاخیر کی لیکن بحمدللہ میں اولین اسلام کا تہائی ہوں۔
سعد کے اسلام سے رسول اللہ ﷺ کو بے پناہ مسرت ہوئی، اس لئے کہ آپ میں شرافت کی جملہ علامتیں موجود تھیں جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہلال بہت جلد بدر کامل بن جائے گا اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ نسبی نے مکہ کے دیگر نوجوانوں کو بھی اس امر پر اکسایا کہ وہ بھی اپنے ہم عمر سعد کے نقوش پا کو اپنالیں۔
ان تمام باتوں کے علاوہ سعد رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کا ننہال کا رشتہ بھی تھا، اس لئے کہ سعد رضی اللہ عنہ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ ﷺ کی والدہ آمنہ بھی اسی قبیلے سے تھیں، لیکن سعد بن ابی وقاص کو قبول اسلام کے بعد اپنی زندگی کے بدترین امتحان سے گزنا پڑا اور بے پناہ روحانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ نوجوان ان تمام دشوار گزار مراحل سے بایں انداز گزر گیا کہ ان کی مدح اور تعریف میں اللہ بزرگ و برتر نے قرآنی آیتیں نازل فرمائیں۔
سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اسلام قبول کرنے سے پہلے میں تین راتوں تک ہر رات یہ خواب دیکھتا رہا کہ میں گہرے اندھیرے میں کھو گیاہوں، اور اس اندھیارے کے گہرے سمندر سے جوں ہی میں نے اپنا سر اٹھایاتو مجھے چاند کی ایک روشنی دکھائی دی اور میں نے دیکھا کہ ایک صاحب مجھ سے پہلے اس روشنی تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اس کے بعد میں نے زید بن حارث ، علی بن ابی طالب اور ابوبکر صدیق کو دیکھا اور ان سے دریافت کیا: تم یہاں کب سے ہو، انہوں نے کہا : کچھ دیر پہلے ہم یہاں پہنچے ہیں۔
آنکھ کھلی تومجھے پتہ چلا کہ رسول اللہﷺ خفیہ طریقے پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، مجھے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی، یوں محسوس ہوا کہ اللہ میری بھلائی چاہتاہے اور اپنے رسول کے ذریعے مجھے اندھیاروں سے روشنی تک پہونچانا چاہتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں تیزی سے آپ ﷺ کی جانب چل پڑا، جیاد کی گھاٹی میں آپ سے ملاقات کی، اس وقت آپﷺنماز عصر ادا فرماچکے تھے، میں نے سلام کیا اوردیکھا کہ میرے علاوہ صرف وہی تین افراد آپ ﷺ کی خدمت میں ہیں جنہیں میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔
سعد رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کے بعد کے حالات یوں سناتے ہیں :جب میری والدہ کو میرے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو بہت سخت ناراض ہوگئیں اور مجھے بلا کر ڈانٹتے ہوئے کہا :سعد! یہ کون سا دین تم نے قبول کرلیا اور اپنی ماں اور باپ کے دین کو چھوڑ بیٹھا۔ اللہ کی قسم یا تو تو اپنا نیا دین چھوڑ دے یا پھر میں موت تک کھانا پینا چھوڑدوں گی، پھر میری موت کے بعد تو اپنے کئے پر پچھتائے گا اورلوگ زندگی بھر تجھے طعنے دیتے رہیں گے۔
میں بولا: ماں ! ایسا نہ کرو، میں کسی بھی قیمت پر اپنا نیا دین نہیں چھوڑنا چاہتا،لیکن وہ دھمکی پر قائم رہی اور عرصہ بیت گیا کہ اس نے کھانے پانی کو ہاتھ نہیں لگایا، اس کا جسم ڈھل گیا، ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور ہاتھ پیر نے جواب دے دیا، میں وقفے وقفے سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتارہتا اور انہیں اس قدر کھانے پینے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا کہ جس سے ان کی زندگی بچ جائے۔ لیکن میرے ہر مطالبے کو وہ شدت سے رد کردیا کرتی اور بار بار قسم کھاتی کہ یا تو میں اپنا نیا دین چھوڑ دوں یا ان کی موت کا انتظار کروں۔
بالآخر میں نے فیصلہ کن انداز میں اپنی ماں کو بتلایا کہ ’’اے ماں! مجھے اللہ اور رسول کے بعدتجھ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہے لیکن آج تم اچھی طرح سن لو کہ اگر اللہ تمہیں ایک ہزار جان دیااور یکے بعد دیگرے تمہاری جان جاتی رہے تب بھی میں تمہاری جان بچانے کے لئے اپنا دین ہرگز نہ چھوڑوں گا۔
جب میری والدہ نے میرے پختہ ارادے کو بھانپ لیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا پینا شروع کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ہم ماں بیٹوں سے متعلق یہ آیتیں نازل فرمائیں، اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا،ہاں دنیا کے کاموں میں اچھی طرح ساتھ دینا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بھلائی کی راہ دکھلائی اور انہیں دین اسلام کی قبولیت کی جانب راغب کیا، جنگ بدر کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی عمیر رضی اللہ عنہ کا ایثار ناقابل فراموش ہے ، ابھی عمیر رضی اللہ عنہ نے جوانی میں قدم رکھا ہی تھا، ادھر جب آپ ﷺجنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا بنفس نفیس معائنہ فرمایا تو عمیر رضی اللہ عنہ اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ کے پیچھے چھپ گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صغر سنی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ انہیں اپنے ساتھ لے جانے اور جنگ بدر میں شرکت سے منع فرمادیں اور ساتھ ہی زور زور سے رونے لگے،جب آپ ﷺ نے رونے کی وجہ دریافت کی تو عمیر کا جواب سن کر آپ ﷺ کا دل پسیجا اور آپ نے انہیں ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، یہ دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ خوشی خوشی سامنے آئے اور اپنے چھوٹے بھائی کے بدن پر تلوار لگائی کیونکہ بچپنے کی وجہ سے عمیر تلوار لگانا بھی نہیں جانتے تھے اور پھر دونوں بھائی اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے، جنگ کے خاتمے پر سعد رضی اللہ عنہ تنہا مدینہ لوٹے، اس لئے کہ ان کے بھائی شہید کردئیے گئے تھے۔
جنگ احد میں جب مسلم افواج کے قدم اکھڑنے لگے اور آپ ﷺ سے دور ہوتے چلے گئے اور دس افراد سے زیادہ صحابہ آپ ﷺ کے اردگرد نہ رہے، ایسے نازک اور صبر آزما موقعے پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی کمان سے آپ ﷺ کے دفاع میں تیر برسارہے تھے، ادھر آپ کا تیر کمان سے نکلتا ادھر مشرک ڈھیر ہوجاتا، جب آپ ﷺ نے تیز اندازی کی یہ شان دیکھی تو آپﷺ یہ کہہ کر سعد رضی اللہ عنہ کی ہمت افرائی فرماتے رہے، سعد تیر چلاؤ! تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
سعد رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے اس جملے کو زندگی بھر فخریہ انداز میں لوگوں کو سناتے اور فرماتے : سوائے میرے اور کسی کے لئے آپ نے بیک وقت اپنے ماں باپ دونوں کے فدا ہونے کی بات نہیں کہی۔
سعد رضی اللہ عنہ اس وقت سعادت کے نقطہ عروج پر پہنچے جب امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اہل فارس سے جنگ کی تیاریاں شروع کیں، امیر المومنین نے اہل فارس کے اثر و رسوخ کو انجام تک پہنچادینے کا فیصلہ کیا نیز فیصلہ فرمایا کہ اب بتوں کی پرستش کے جملہ اثرات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، لہٰذا آپ نے تمام اسلامی ریاستوں کے عمال کو حکم دیا کہ وہ جس قدر ممکن ہو نہ صرف اسلحہ، گھوڑے اور دیگر سامان جنگ مدینہ روانہ کریں بلکہ تاکید کی کہ اگر اس جنگ میں فتح کے لئے کوئی رائے، کسی شاعر کا کلام یا کسی خطیب کا خطبہ ضروری جانو تو بلا تکلف بھیج دو تاکہ ہر محاذ پر مکمل تیاری کے ساتھ یلغار کردی جائے۔
اس پیغام کے ساتھ ہی ہر سمت سے مدینہ منورہ میں مجاہدین کے وفود آنے شروع ہوگئے،جب پوری تیاریاں مکمل ہوگئیں تو امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے ذمہ دار اور صاحب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا کہ اس جنگ میں کسے سپہ سالار بنایا جائے؟ تمام ذمہ داروں نے بیک زبان سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا۔ لہٰذا امیر المومنین نے سعد رضی اللہ عنہ سے استدعا کی اورفوج کا جھنڈا آپ کے حوالے کیا۔
جب اسلامی فوج کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینہ سے روانہ ہونے لگاتو عمر رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو الوداع کہتے ہوئے سپہ سالار فوج کویوں نصیحت فرمائی: ’’اے سعد! یہ بات تمہیں کہیں اللہ سے دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تم محمدﷺ کے رشتے دار ہو یا یہ کہ تم صحابی رسول ہو۔ اس لئے کسی گناہ کو گناہ سے نہیں بلکہ ہر گناہ کو نیکی سے مٹاناہے۔اے سعد! کسی بھی شخص اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اطاعت و فرماں برداری کے سوا کوئی رشتہ نہیں، شریف اور بد ذات اللہ کے نزدیک برابر ہیں، اللہ ان کا رب اور وہ سب اس کے بندے ہیں، لیکن اگر ان میں کسی کو کسی پر برتری ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ بھی پائیں گے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے پائیں گے، لہٰذا اے سعد! جس بات کا حکم محمد ﷺ نے دیا ہے یاد رکھو کہ وہی حکم لائق عمل ہے۔
اسلامی فوج کا یہ عظیم قافلہ اس شان سے چل پڑا کہ اس میں ۹۹ صحابہ کرام جنگ بدر کے شریک تھے،۳۱۳ صحابہ کرام بیعت رضوان کے شریک تھے، ۳۰۰صحابہ کرام فتح مکہ کے شریک تھے ۷۰۰صحابہ کرام کی اولاد تھے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر قادسیہ پہنچے اور مسلمانوں نے اس جنگ کو فیصلہ کن بنادیا،فارس کی فوج کے سپہ سالار ’’رستم‘‘ کا سر مسلمانوں نے اپنے نیزے پر اٹھا رکھا تھا،جس کی وجہ سے اللہ کے دشمنوں کے دلوں میں ایسا رعب بیٹھ گیا کہ مسلم فوجی جس فارسی کو بھی آواز دیتا وہ بلا چوں چرا حاضر ہوجاتا اور اسے قتل کردیا جاتا، بلکہ بعض اوقا ت اسی بلائے جانے والے کا ہتھیار لے کر اسی کے ہتھیار سے مارڈالا جاتااور وہ مارے خوف کے مقابلہ نہ کرتا،بے پناہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے طویل عمر پائی اور انہیں اللہ نے بے پناہ مال و دولت سے نوازا، لیکن جب وفات کی گھڑی آن پہنچی تو آپ نے اپنا پرانا اونی پیراہن طلب فرمایا اور کہا: مجھے اسی پیراہن کا کفن دینا، اس لئے کہ بدر کے موقع پر اسی کو پہن کر میں نے مشرکین سے مقابلہ کیا تھا اور میری دلی خواہش ہے کہ اسی پیراہن کو پہن کر میں اپنے رب سے ملوں۔
No comments:
Post a Comment