Wednesday 28 July, 2010

ماہ شعبان، حقیقت کے تناظر میں

مشتاق احمد مختار احمد
جامعۃ الامام، ریاض

ماہ شعبان، حقیقت کے تناظر میں
برصغیر ہند وپاک بشمول بنگلہ دیش ونیپال یہ ممالک ایسے ہیں جہاں شرک وبدعات ، خرافات و خزعبلات میں شب و روز اضافہ ہوتا رہتا ہے ،اور روز کوئی نہ کوئی بدعت ایجاد ہوتی ہے اور سنت رسول(ﷺ) کی خوب پامالی کی جاتی ہے۔ اور اس کی طرف دعوت دینے والوں کوطعن و تشنیع کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔
آمدم بر سر مطلب! ہمارے یہاں سال میں کچھ ایسے مہینے ہیں جنکی تعظیم میں اس قدر غلو سے کام لیا جاتا ہے کہ اسلام کے دوسرے احکام انکے مد مقابل بہت ہلکے نظر آنے لگتے ہیں اور بے چارہ جاہل انسان پوری زندگی اسی مذموم عمل میں گزارتا رہتا ہے اور خوب خوش فہمی کا شکار رہتا ہے اور دوسرے کوجو ان افعال کو نہیں کرتے ، انہیں بد دین سمجھتا ہے ، در اصل اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں بلکہ غلطی تو ان گمراہ اور امت کے ان مولویوں کی ہے جو انہیں منکرات میں پھنسائے رکھتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
ویسے تو ہمارے یہاں بدعات و خرافات کی ایک طویل فہرست ہے جن کا شمارناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور جنہیں لوگ بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں ۔اس مضمون میں ہم بات کریں گے ’’شعبان ‘‘ کے تعلق سے کہ آیا اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کی فضیلت میں جو احادیث ذکر کی جاتی ہیں اسکی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ ۔
شعبان کی وجہ تسمیہ: اہل علم نے شعبان کی وجہ تسمیہ یوں بتلائی ہے کہ چونکہ لوگ اسمیں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے واسطے قبیلے کی شکل میں تقسیم ہوجاتے ، یا پانی اور چراگاہ کی تلاش میں منتشر ہوجاتے تھے۔ ( دیکھئے:معجم مقاییس اللغۃلابن فارس باب ’’شعر‘‘مادہ’’شعب‘‘)۔چونکہ اس سے قبل ماہ رجب جو کہ حرمت والے مہینے میں سے ایک مہینہ ہے اس میں قتال حرام ہے جب یہ مہینہ ختم ہوجاتا اس کے بعد شعبان کا مہینہ آتا تو سارے کے سارے لوگ قتل و غارت گری کرنے کے واسطے منتشر ہوجاتے تھے ۔
صاحب (العلم المنثور)کے بقول:شعبان یہ ایسا مہینہ ہے جس میں قبائل گروہ در گروہ تقسیم ہوجاتے اور بادشاہوں کا قصد کرتے اور ان سے عطیہ طلب کرتے (العلم المنثور‘‘ص:۱۸۹)
( ’’بدع و أخطاء تتعلق بالأیام والشہور‘‘ جمع و ترتیب :أحمد بن عبد اللہ السلمی)
ملاحظہ:اکثر وبیشتر کیلنڈروں میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ لوگ شعبان کے آگے جلی حرف میں ’’ المکرم ‘‘یا بلفظ دیگر’’المعظم‘‘کا اضافہ کئے رہتے ہیں یہ دین میں بدعت کے مترادف ہے ۔ علامہ أبو بکر زید (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ ’’شعبان المکرم‘‘ کہناشعبان مہینے کی فضیلت میں یہ سنت میں ثابت نہیں ہے۔ہاں نبی (ﷺ) سے اتنا ثابت ہے کہ آپ شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے ۔ رہی بات اس مہینے کے تعلق سے یہ کہنا کہ ’’فضل شعبان علی سائر الشہور کفضلی علی سائر الأنبیاء‘‘ تو یہ حدیث موضوع ہے۔ جسکی تخریج آگے آرہی ہے ۔(معجم المناہی اللفظیہ۔ لبکر أبی زید (رحمہ اللہ)
شعبان کی فضیلت:انصاف کا تقاضہ یہی ہے جس مہینے کی جتنی فضیلت وارد ہو اس کو اسی طرح ہی بیان کیا جائے ناکہ اس میں غلو سے کام لیا جائے ۔صحیح منہج و فکر والوں کا یہی وطیرہ ہر دور اور زمانہ میں رہا ہے اور رہے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ)۔
شعبان ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ بایں وجہ اللہ کے رسو ل (ﷺ) اس مہینے میں بکثرت روزہ رکھتے تھے ۔اس لئے سنت کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ کی اقتداء اور اتباع میں ہم بھی بکثرت روزہ رکھیں ناکہ ایک خاص دن متعین کرلیں اور اس میں پورے سا ل کی عبادت کی قضا کریں، اور اپنی طرف سے خود ساختہ عبادتوں کو رواج دیں۔
امام نسائی بسند حسن أسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں آپ کو دیگر مہینوں میں کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں جتنا کہ آپ شعبان کے مہینے میں رکھتے ہیں ، اس پر آپ نے جواب دیا : یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ اکثر غافل رہتے ہیں جو کہ رجب اور رمضان کے بیچ پڑتا ہے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کے اندر رب کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میری خواہش یہی ہوتی ہے کہ میر ے اعمال حالت صوم میں رب کی بارگاہ میں پیش ہوں۔ (سنن نسائی۴؍۴۲۰۱، سلسلۃ الأحادیث الصحیحہ للألبانی ۴؍۱۸۹۸)۔
اس حدیث سے یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ آپ (ﷺ) کثرت سے روزہ رکھتے تھے نا کہ صرف پندرہویں شعبان کو خاص کرکے خوب عبادت کرتے تھے ۔تو اگر ہمیں سنت رسول سے لگاؤ اور عقیدت کا دعویٰ ہے تو ہم بھی اس مہینے میں کثرت سے روزہ رکھیں۔وگرنہ دعوی سے کوئی فائدہ نہیں ۔ بقول شاعر:
دعوی بغیر دلیل کوئی معتبر نہیں
ہر بات پہ دلیل و برہان چاہےئے
دوسری حدیث جو أم المومنین عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ : رسول اکرم (ﷺ) اتنی کثرت سے روزہ رکھتے کہ ہم یہی تصور کرتے کہ اب افطار کریں گے ہی نہیں۔ اور جب افطار کرنا شروع کردیتے تو یہ تصور کرتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے ۔اور میں نے رسول اکرم کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ، اسی طرح شعبان مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔(بخاری ،رقم الحدیث؍۱۹۶۹، مسلم،رقم؍۱۱۵۶)
اس مہینے میں کثرت سے روزہ کی حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔لیکن اتنی بات ضرور ہے آپ (ﷺ) یہ بات پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال صوم کی حالت میں پیش ہوں، جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بعد رمضان کا مہینہ آنے والا ہوتا تھا تو اس کی مشق کے لیے آپ کثرت سے روزہ رکھتے رہے ہوں تاکہ زیادہ گراں نہ گزرے اور پہلے ہی سے عادت بنی رہی۔ ایک حکمت یہ بھی بتلائی جاتی ہے کہ آپ سے جو نفلی روزے چھوٹ جاتے تھے اس کی قضا آپ شعبان میں کرتے تھے یہاں تک کہ رمضان سے قبل آپ مکمل کرلیتے تھے اور اسی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ام المؤمنین عائشہ (رضی اللہ عنہا)بھی اپنے ان روزوں کی قضا کرلیتی تھیں جو ان سے حیض وغیرہ کی وجہ سے چھوٹے رہتے تھے چونکہ دوسرے مہینے میں نبی (ﷺ) کے ساتھ مشغول رہنے کی وجہ سے آپ قضا نہیں کرپاتیں اس لیے جب آپ (ﷺ) روزہ رکھتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ اسی مہینے میں اپنے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرلیتیں۔
(لطائف المعارف فیمالمواسم العام من الوظائف تالیف؍ الامام الحافظ زین الدین بن رجب الحنبلی(ت:۷۹۵) ص:۱۴۸۔۱۴۹)
شعبان کی فضیلت میں وارد احادیث کا جائزہ:شعبان کی فضیلت میں ڈھیر ساری موضوع اور ضعیف روایتیں ہیں جو کتابوں اور واعظوں اور مقررروں کی زینت بنی ہوئی ہیں جنہیں علماء سوء اور جاہل علماء شعبان کے مہینے میں بڑے کر وفر کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور سامعین سے داد وتحسین حاصل کرلیتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ کچھ لوگ کثرت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر روایتیں ہیں جس سے کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت کا سراغ ملتا ہے ۔ ایسے ہی ایک مرتبہ شعبان کے مہینے میں دہلی کی شاہین باغ کی ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کا اتفاق ہوا اور اتفاق سے وہ دن پندرہویں شعبان کا تھا مغرب کی نماز کے بعدمولوی صاحب بے چارے کھڑے ہوئے اور فضیلت شعبان کے تعلق سے تھوڑی موڑی روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر احادیث مروی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت ضرور ہے ۔ان بے چارے مولوی صاحب کو کیا پتہ کہ کسی چیز پر لوگوں کا عمل کرنا یا کسی چیز کا شہرت پاجانا یہ اس کی صحت کی دلیل ہوسکتی ہے تو کیا کسی چیز پر عوام کا کثرت سے عمل کرنا اس کے صحت کی دلیل ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں ہم یہاں بالاختصار ان موضوع احادیث کا ذکر کرتے ہیں جن سے علماء اہل بدعت استدلال کرتے ہوئے اپنا الّو خوب سیدھا کرتے ہیں۔
(۱)’’اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان‘‘
ترجمہ:اے اللہ تو ہمیں رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور رمضان کا مہینہ نصیب فرما۔
یہ روایت ضعیف ہے اس روایت کے اندر ’’زائدہ بن ابی رقاد ‘‘ راوی ہے ۔امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے ۔
(میزان الاعتدال للذہبی۲؍۹۶ ، مجمع الزوائد للہیثمی۳؍۱۶۵،وضعیف الجامع للالبانیرقم؍ ۴۳۹۵ )
(۲)’’فضل شہر شعبان کفضلی علی سائر الانبیاء‘‘
شعبان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسی کہ میری فضیلت تمام انبیاء پر ۔ ابن حجر (رحمہ اللہ )نے ’’ تبیین العجب‘‘ کے اندر اس روایت کو موضوع کہا ہے۔
(کشف الخفاء للعجلونی۲؍۸۵، المقاصد الحسنہ للسخاوی۱؍۴۷۹ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع لعلی القاری الہروی المکی، تحقیق: عبد الفتاح ابو غدہ۱؍۱۲۸)
(۳)’’اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا‘‘الخ...
یعنی جب پندرہویں شعبان ہو تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔
(العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍رقم؍۹۲۳ص؍۵۶۲، مصباح الزجاجہ لشہاب الدین البوصیری الکنانی،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان،الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ ص؍۵۱، تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ’’باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان‘‘جزء۳؍ص؍۳۶۶ ، ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم۱۳۸۸،ضعیف الترغیب والترہیب للالبانی رقم ؍۶۲۳،وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم؍۲۱۳۲)
(۴)’’خمس لیال لا ترد فیہن الدعوۃ: اول لیلۃ من رجب ،ولیلۃ النصف من شعبان، ولیلۃ الجمعۃ، ولیلۃ الفطر ،ولیلۃ النحر‘‘
ترجمہ: پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دعاء رد نہیں ہوتی(۱)رجب کی پہلی رات(۲)پندرہویں شعبان کی رات (۳)جمعہ کی رات (۴)عید الفطر کی رات (۵)عید الاضحی کی رات۔(موضوع)
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی جزء ؍۳رقم؍۱۴۵۲)
(۵)’’اتانی جبریل علیہ السلام فقال لی ہذہ لیلۃ النصف من شعبان وللہ فیہا عتقاء من النار بعدد شعر غنم‘‘(نہایت ضعیف روایت ہے)
ترجمہ:جبریل علیہ السلام میر ے پاس شعبان کی رات آئے اور خبر دی کہ اللہ نے پندرہویں شعبان کی رات جہنم سے بکریوں کے بالوں کی مقدار لوگوں کو آزاد کیا۔
(ضعیف الترغیب والترہیب للالبانیجزء ؍ ، رقم؍ ۱۲۴۷، العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍ص؍ ۵۵۶ )
اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت جس کا متن نہ ذکرکرکے صرف اس کے ترجمے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
(۶)عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات اللہ کے رسول (ﷺ)کو گم پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکل پڑی دیکھا تو آپ بقیع میں تھے، آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا تمہیں خوف تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے ، اس پر ام المؤمنین نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) میں نے سمجھا کہ آپ اپنی دوسری بیویوں کے پاس گئے ہوں گے اس پر آپ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالی پندرہ شعبان کی رات سماء دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کے بکریوں کے بال کے مقدار سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
(ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم؍۲۹۵، ضعیف سنن ترمذی للالبانی رقم؍۷۳۹ العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍ ۲،رقم؍۹۱۵)
(۷)’’قولہ (ﷺ) یا علی من صلی لیلۃ النصف من شعبان مءۃ رکعۃ بالف قل ہو اللہ احد قضی اللہ لہ کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ‘‘
ترجمہ:آپ (ﷺ) نے علی (رضی اللہ عنہ)سے فرمایا اے علی: جو شخص پندرہویں شعبان کو ۱۰۰ رکعت میں ہزار مرتبہ’’ قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے گا اللہ اس کی تمام ضروریات اس رات طلب کرے گا پورا کردے گا۔
( المنار المنیف فی الصحیح والضعیف لابن القیم الجوزیہ، کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶، الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ص؍۵۰، ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۸)’’من قرأ لیلۃ النصف من شعبان ألف مرۃ قل ہو اللہ احد بعث اللہ الیہ مءۃ الف ملک یبشرونہ‘‘
ترجمہ: جو شخص پندرہویں شعبان کو ایک ہزار مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے اللہ تعالی اس کے پاس خوشخبری دینے کے لیے ایک لاکھ فرشتوں کو بھیجے گا۔
(لسان المیزان لابن حجر جزء؍۵،ص؍؍۲۷۱ ، المنار المنیف لابن القیم جزء؍۱،ص؍۹۹۔
(۹)’’ من صلی لیلۃ النصف من شعبان ثلاث مءۃ رکعۃ(فی لفظ ثنتی عشر رکعۃ)یقرأ فی کل رکعۃ ثلاثین مرۃ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ شفع فی عشرۃ قد استوجبوا النار‘‘
ترجمہ:جس شخص نے پندرہویں شعبان کو ۳۰۰ رکعت (دوسرے لفظ میں ۱۲ رکعت) پڑھا، ہر رکعت میں ۳۰ مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھا، تو ایسا شخص دس ایسے شخص کی سفارش کرسکتا ہے جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔
(کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶،ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۱۰)قولہ (ﷺ) ’’رجب شہر اللہ وشعبان شہری ورمضان شہر امتی‘‘
ترجمہ:رجب اللہ کا مہینہ ہے ،شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔
( الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانیص:۴۷،۱۰۰،الموضوعات لابن الجوزی ۲؍ص؍۲۰۵، والموضوعات لحسن بن محمدالصغانی جزء ؍۱،رقم؍ ۱۲۹، واللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی جز ؍۲؍ ص ؍۴۶، وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم حدیث؍۴۴۰۰،)
(۱۱)’’من احیا لیلتی العید ولیلۃ النصف من شعبان لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب‘‘
ترجمہ:جو شخص عید الفطر کی رات اور پندرہویں شعبان کی رات زندہ کرے گا(زندہ کرنے کا مطلب عباد ت وغیرہ ہے )تو اس کا دل بروز قیامت مردہ نہ ہوگا جبکہ لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے ۔(یعنی ایسے شخص کا دل بروز قیامت روشن رہے گا۔)
(میزان الاعتدال للذہبی جزء؍ ۳؍ ص؍ ۳۰۸، الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجرجزء؍ ۵؍ ص؍۵۸۰، التلخیص الحبیر لابن حجرجزء ؍۲، ص؍۸۰، العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍۲؍رقم؍۹۲۴، ص؍۵۶۲)
اس کے علاوہ ہزاروں موضوع اور ضعیف روایتیں ایسی ہیں (یہاں بالاختصار کام لیا گیاہے)جو کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں ، اور علماء سوء خوب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ،اور اپنی و عوام الناس کی عاقبت برباد کررہے ہیں۔جبکہ پندرہویں شعبان کی تخصیص ،اس دن کا روزہ اور اس رات کے قیام کے تعلق سے کوئی بھی حدیث ثابت نہیں ہے ، جتنی بھی حدیثیں ہیں سب منکر ہیں جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں نہیں ہے۔
صلاۃ الفیہ یا صلاۃ الرغائبکا موجد:امام ابو بکر محمد بن الولید بن محمد طرطوشی (ت:۵۲۰) کہتے ہیں کہ مجھے ابو محمد المقدسی نے بتلایا کہ ہمارے یہاں بیت المقدس میں صلاۃ الرغائب نامی نماز جو رجب اور شعبان میں پڑھی جاتی ہے اس کاکوئی وجود نہ تھا ، لیکن ۴۴۸ ؁ھ میں ’’ابن ابی الحمراء‘‘ نامی ایک شخص جو کہ اہل نابلس سے تھابیت المقدس آیا ، اور پندرہویں شعبان کی رات مسجد اقصی میں نماز پڑھنا شروع کردیا اور یہ شخص کافی خوش الحان تھا،اس طرح لوگ یکے بعد دیگرے آتے گئے اور اس کے پیچھے صف بناتے چلے گئے ، پھر اسی طرح دوسرے سال بھی آیا اور اس کے پیچھے ایک جم غفیرنے نماز ادا کی ، اس نماز کا خوب چرچا ہوا اور لوگوں میں یہ نماز خوب مقبول ہوئی اور پھر یہ سنت بن گئی۔امام ابو بکر طرطوشی کہتے ہیں کہ میں نے ان ( ابو محمد المقدسی)سے کہا کہ میں آپ کو بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں ، اس پر انہوں نے کہا ہاں اور اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔
(الحوادث والبدع لامام ابی بکر طرطوشی (رحمہ اللہ ت:۵۲۰)تحقیق وتخریج ؍محمد بشیر عیون)
جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ صلاۃ الفیہ جو نصف شعبان کی رات ادا کی جاتی ہے بدعت ہے ۔ کیونکہ نہ یہ رسول اللہ(ﷺ)سے ثابت ہے اور نہ ہی خلفاء راشدین سے ثابت ہے اور نہ ہی ائمہ اربعہ (رحمہم اللہ)بشمول امام ثوری ،امام اوزاعی امام لیث وغیرہم سے ۔
اور اس قبیل سے جتنی بھی روایات ہیں سب کی سب باتفاق اہل علم موضوع ہیں یا تو ضعیف ہیں ۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے: اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ ۲؍۶۲۸،التحذیر من البدع للشیخ ابن باز ، بحوالہ ’’ البدع الحولیہ‘‘ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری)
پندرہویں شعبان کی رات دین کے نام پر اس قدر فواحش ومنکرات و خرافات کا ارتکاب کیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ہم ان خرافات ومنکرات کا نہایت تلخیص کے ساتھ یہاں ذکرکر رہے ہیں جو کہ اس رات انجام دئے جاتے ہیں ،اور جوکہ شرعا ناجائز اور حرام ہیں۔
(۱)دین کے نام پر اسراف اور فضول خرچی جو کہ انتہائی معیوب عمل ہے۔
(۲)مختلف اور متنوع لائٹوں اور قمقموں کا استعمال ،جو کہ مال کا ضیاع کا ایک سبب خاص طور سے جبکہ یہ مال وقف کا ہو یا عوام الناس سے بطور چندہ لیا گیاہو۔
(۳)عورتوں کا گروہ در گروہ اس پروگرام میں شرکت کرنا جو بلا شبہ برائی کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے۔
(۴)مساجد میں اجتماعی حاضری اور غیرمشروع عبادات کو انجام دینا۔
(۵)مساجد میں لغو باتوں کا استعمال ، اور کثرت سے کلام کرنا جو کہ خشوع وخضوع کے بالکل خلاف ہے۔
(۶)عورتوں کا اس رات قبرستان میں جانا ، (جبکہ شرعی طور سے عورتوں کا قبرستان میں جانا ایک مکروہ عمل ہے)مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط۔
(۷) قبروں کی طرف سج دھج کر جاناجو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قبروں کی زیارت کا مقصود تفریح ہے نا کہ عبرت و موعظت۔ جبکہ قبروں کی زیارت کو اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے کیونکہ ذکر آخرت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
(۸)منکرات اور بدعات کا ارتکاب کرکے مسلمان مردوں کو اذیت دینا۔
(۹)لوگوں کا یہ اعتقاد رکھنا کہ اس رات کی عبادت پوری زندگی کے لیے کافی ہے اور تقرب الہی کا ایک عظیم ذریعہ ہے ۔
(حذف واختصار اور اضافہ کے ساتھ’’البدع الحولیہ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری‘‘ ص:۳۰۰،۳۰۱،۳۰۲)
حرف اخیر:ہرایک مسلمان (جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے محبت کا دعویدارہے ) پر یہ فرض ہے کہ دین کے تمام اقوال وافعال میں اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو مقدم رکھے،اور ہمیشہ حق بات کی تلاش میں رہے ، اورحق بات جہاں بھی ملے اسے حرزجاں بنالے ،مذہبیت اور عصبیت سے کوسوں دور رہے کیونکہ اسلام میں مذہبیت اور عصبیت نہیں۔ مذہب اسلام اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے فرمودات کے مجموعے کا نام ہے، جس میں کسی اور قول کی ادنی گنجائش نہیں چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم ،مفتی کیوں نہ ہو۔
***

No comments:

Post a Comment