عبدالصبور ندویؔ جھنڈانگری
تقوی کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کوئی بھی کام کریں جس سے اللہ کی اطاعت ثابت ہو اور آپ اس کام پر اللہ سے ثواب کی امید رکھیں، نیز اللہ کے عقاب کے خوف سے ہر اس کام کو چھوڑ دیں جس سے اللہ کی معصیت ونافرمانی ہو۔
روزہ دارو! بندے کا تقوی اس وقت مکمل ہوجاتا ہے جب وہ جان لے کہ ہمیں کن چیزوں سے بچنا چاہئے اور وہ پھر اس پر عمل پیرا ہوجائے، چنانچہ یہ مہینہ ہمیں تقوی سیکھنے کی اور متقی بننے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اس لئے کہ تقویٰ ہی ہمارے روزوں کی حکمت ہے اور قرآن عظیم اس مہینہ کو تقوی کے نام سے موسوم کرکے اعلان کررہا ہے: ’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقی و پرہیز گار بن جاؤ‘‘ (البقرہ:۱۸۳)۔
شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: روزہ تقوی کے بڑے اسباب میں سے ہے،اس لئے کہ بندہ روزے کی حالت میں اللہ کا حکم بجالاتا ہے، منکرات سے بچتا ہے، وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جس کی طرف انسانی طبیعت فطری میلان رکھتی ہے، جیسے کھانا،پینا، جماع وغیرہ، آخرکیوں؟ اس لئے کہ بندہ اللہ کی قربت کی چاہ اور اس سے ثواب کی امید رکھتا ہے اوریہی تقوی کہلاتا ہے۔
روزہ دار اس ماہ مبارک میں اپنے نفس کی تربیت چاہتاہے،اسے اللہ کی نگرانی کا ہمہ وقت خیال رہتا ہے اور نفسانی خواہشات کو قربان کردیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
روزہ شیطان کے راستوں کو تنگ کردیتا ہے، اگرچہ وہ انسان کے ساتھ اس طرح لگا رہتا ہے جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے، اس کے باوجود اس کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور روزہ دار سے گناہوں کا ارتکاب کم ہوجاتاہے۔
روزہ دار بندہ اللہ کی اطاعت میں منہمک ہوجاتاہے، اللہ کی فرمانبرداری اس کا نصب العین بن جاتا ہے اور یہ جذبۂ اطاعت انسان کو پرہیز گار بناتی ہے، روزے کی حالت میں مالدار شخص کو جب بھوک کا درد ستائے تو اس پر واجب ہے کہ فقیروں اور ضرورت مندوں کو یاد کرے، ان کی خبر گیری کرے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا، یہ بھی تقوی کی صفت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو معصیت سے بچائے اور پرہیزگار و متقی بنائے۔ آمین
دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے اسی طرح جس طرح تم لڑائی کے وقت ڈھال کا استعمال کرتے ہو‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہر وہ چیز جو انسان کے لئے آڑ،ستر یا بچاؤ کا کام کرے وہ ڈھال ہے،محدث ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:روزہ جہنم کے لئے ڈھال اس لئے ہے کیونکہ انسان اپنے آپ کو نفسانی خواہشات و شہوات سے روکے رکھتا ہے اور جہنم شہوات سے گھیردی گئی ہے تو جو شخص شہوت نفس یا حرام لذتوں سے دنیا میں پرہیز کرے گا، آخرت میں جہنم اس کے لئے آڑ بن جائے گی۔(فتح الباری۴؍۱۰۴)
معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں انسان کو اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا چاہئے، جہالت بھرے کام ، شہوت، لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنا چاہئے، غیبت، چغلی اور ریاکاری سے بچنا چاہئے، تاکہ ہم سب کے لئے جہنم آڑ بن جائے اور اللہ کے روزہ دار بندے بآسانی جنت میں داخل ہوسکیں۔
حدیث میں روزہ دار کو جن چیزوں سے روکا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ عداوت ، تعصب اور شہوت نفس کو دعوت نہ دے، لیکن اگر مسئلہ سنگین ہو، آپ حق پر ہوں ، فریق مخالف آپ پر زیادتی کئے جارہا ہو، ایسی صورت میں آپ اس کی باتوں اور لڑائی کا مؤثر جواب دے سکتے ہیں،اس لئے کہ مقصد انصاف اور حق کی سربلندی ہے، مگر یاد رہے گالی گلوچ کا جواب گالی سے نہیں دیں گے اور مندرج ذیل حدیث کو یاد رکھیں گے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے،اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی کو رسوا کرے، اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھے، اس پر ظلم ڈھائے، تقویٰ تو یہاں ہے، آپ ﷺ نے تین مرتبہ اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کیا، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو سے کھلواڑ حرام ہے۔(مسلم)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں : بعض سلف کی رائے ہے کہ جب روزہ دا رسے کوئی شخص گالی گلوچ یا جھگڑا پر آمادہ ہو تو روزہ داربلند آواز سے یہ جملہ’’میں روزے سے ہوں‘‘کہے اس سے مخالف کے خاموش ہونے کی زیادہ امید ہے،یا اپنے نفس کو سمجھائے کہ میں روزے سے ہوں، اس کے گالی گلوچ میں کیوں پڑوں بلکہ اپنا راستہ ہی بدل لوں اور اپنے روزے کو آلودگی سے محفوظ رکھوں۔
اس حدیث سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ روزے کے علاوہ ایام میں گالی گلوچ، لڑنا جھگڑنا جائز ہے،یہ ناجائز ہے ہر حال میں، یہاں روزے کے ساتھ اس نہی کی تاکید کی گئی ہے کہ روزے کی حالت میں بندہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ دار کو غصہ پی جانا چاہئے، گفتگوکے آداب کا خیا ل رکھنا چاہئے اور ہر حال میں زبان کی حفاظت کرنی چاہئے، اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے: جو اپنے دونوں رخساروں کے بیچ (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے بیچ (شرمگاہ) کی ضمانت دے دے ، میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا ہوں۔
حضرت اکثم بن صیفی کہتے ہیں: انسان کی زبان اس کی قتل گاہ ہے، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا:پاؤں پھسلنے سے ہڈی کی چوٹ صحیح ہوسکتی ہے مگر زبان کی لغزش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
روزہ دارو! معلوم ہوا کہ ہم جو کچھ بھی بولیں سوچ کر بولیں، زبان سے غلط جملے اور فقرے نہ نکالیں، ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت ادب کے جامے میں رہیں، ہماری بات سے کسی کو تکلیف نہ پہونچے، ورنہ ہمارے روزوں کا ثواب گھٹ جائے گا، آئیے کو شش کریں اس جنت کے حصول کے لئے جس کی بشارت نبیﷺ نے دی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہمارا روزہ قبول نہیں ہوگا یا اس کا اجر وثواب ضائع ہوجائے گا، اگر ہم نے جھوٹ ، لغو اور بیہودہ چیزوں میں اپنا وقت ضائع کیا۔ علماء نے لکھا ہے: کہ حدیث میں لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جھوٹ اور اس کے متعلقات سے بچیں، اللہ نہ کرے اگر آپ سے کوئی جھوٹ سرزد ہوجائے تو اس کی وجہ سے اپنا روزہ ترک کردیں۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حدیث میں روزہ کی عدم قبولیت کی طرف اشارہ ہے جیسے کوئی مالک اپنے ملازم سے کوئی کام کرنے کو کہے اور وہ اس طرح نہ کرے جس طرح کہا تھا، تو مالک غصہ ہو جائے گا اور کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے تو جھوٹ کے مقابل اس کا روزہ ضائع کردیا جائے گا اور جو سالم حصہ بچے گا اسے قبول کرلیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا ، بلکہ تمہارا تقوی پہونچتا ہے، ظاہر ہے کہ اگر اس کی رضا کے مطابق کام نہیں ہوا تو پھر قبو ل کہاں سے ہوگا۔
مشہور مفسر علامہ بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: روزہ کی فرضیت کا مقصد یہ نہیں کہ انسان کو بھوکا اور پیاسا رکھا جائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی نفسانی شہوت کا زور ٹوٹ جائے اور بندہ اپنے نفس امارہ (برائیوں پر آمادہ کرنے والا) کو ترک کرکے نفس مطمئنہ (نیکیوں پر اکسانے والا) کی طرف راغب ہو جائے، اب اس کے بعد بھی روزہ کا مقصد حاصل نہ ہو تو اللہ اس کے روزے کو قبولیت کی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھے گا۔
معلوم ہوا کہ جھوٹ ایک مذموم شئی ہے، کفر ونفاق کی خصلت ہے اورانسان کو اس کے بلند مرتبے سے گرادیتا ہے، عزت کی رفعتوں سے حقارت و ذلت کے گڈھوں میں انسان کو پھینک دیتا ہے، اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں: لوگو! جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ یہ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائی انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے، ایک شخص جو برابر جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہتا ہے،اللہ کے یہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری،مسلم)
حضرت حسن بصر ی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ جھوٹ نفاق کی جڑ ہے،حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بعض گورنروں کو لکھا تھا: جھوٹ کا سہارا ہرگز مت لینا، اگر جھوٹ کی آمیزش کروگے ہلا ک وبرباد ہو جاؤگے۔
سحری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: سحری کھاؤ اس لئے کہ اس میں برکت ہے (بخاری ، مسلم) اس حدیث میں مسلمانوں کو سحری کھانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ وہ روزے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں اور اللہ کی برکت کے مستحق ہوں، یاد رہے برکت انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے، دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ کچھ لوگ سحری کو کوئی حیثیت نہیں دیتے، آدھی رات کو ہی کھا لیتے ہیںیا وہ نیند کے رسیا ہوتے ہیں یا اس کی برکتوں سے ناواقف ہوتے ہیں، یہ سنت کی مخالفت ہے، لہٰذا ہر روزہ دار کو سحری کا اہتمام کرنا چاہئے اور فجر سے کچھ پہلے اٹھ کر سحری کرنی چاہئے، حضرت سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار جلدی اور سحری میں تاخیر کرتے رہیں گے۔ (بخاری، مسلم)، افطار کے جلدی کا مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبے ،آپ افطار کرلیں، سیاہی کے پھیلنے کا انتظار نہ کریں اور سحری فجر (صبح صادق) کے وقت سے پہلے (یعنی رات کے آخری لمحات میں) کرنی چاہئے تاکہ فجر کی نماز جماعت سے ادا کرسکیں۔
سحری مسلمانوں کا شعار ہے اور یہود ونصاریٰ کی مخالفت، جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری ہے (مسلم)۔
سحری میں آدمی کچھ بھی کھائے لیکن رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے شروع کرے، کھجور دستیاب نہ ہو تو پانی سے افطار کرے، اس لئے کہ وہ پاک شئی ہے۔ (احمد،ترمذی،ابوداؤد)
بعض لوگ افطار میں سنت کی پیروی نہیں کرتے، انہیں دسترخوان پر جو مرغوب غذا نظر آئی، اسی سے شروع کردیا، حالانکہ اب کھجور و چھوہارے کی متعدد اقسام تقریبا دنیا کے سبھی خطہ میں پائی جاتی ہیں، لہٰذا اس کا اہتمام نہ کرنا بھی خلاف سنت ہے، اگر بازار میں دستیاب نہیں یا خریدنے کی طاقت نہیں تو ایسی صورت میں پانی سے افطار کرنا مستحب ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: روزے کی حالت میں معدہ جب غذا سے خالی ہوتا ہے، تو اس میں پہونچنے والی میٹھی چیز کھجور وغیرہ کلیجہ کو تقویت بخشتی ہے، کلیجہ بہت تیزی سے اس کی مٹھاس کوجذب کرکے جسم کے دوسرے حصوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے اورپانی معدے کی حرارت و جلن کو ختم کردیتا ہے۔
آج ہم بہت سے روزہ دار بھائیوں کو دیکھتے ہیں کہ ماہ رمضان کو کھانے پینے کا مہینہ بنالیتے ہیں، انواع و اقسام کے پکوان سے دسترخوان سجائے جاتے ہیں، خود اپنے لئے بہت ساری نئی ڈشوں کا اہتمام کرتے ہیں، جو رمضان کے علاوہ دنوں میں نہیں ہوتا، بازاروں میں لذیذ اشیاء کی خرید کے لئے وہ بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے جو عام دنوں میں دکھائی نہیں دیتی، اگر یہ بھیڑ اور کثرت خریداری ان مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے ہے جن کے یہاں افطار و سحری کا انتظام نہیں ہے یا مشکل سے گذر بسر ہے، تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن اگر نیت یہ ہے کہ دن بھر بھوکے رہنے کے بعد طرح طرح کے پکوان سے افطار و کھانے میں جم کر اپنا پیٹ بھرنا ہے ، تو یہ آپ کے لئے ہرگز مناسب نہیں، کیونکہ آپ زیادہ کھانے کے نتیجے میں اپنے جسم کو بوجھل بناتے ہیں، عبادات کی ادائیگی سے آپ کی طبیعت بھاگنے لگتی ہے اور اسلام ہر اس فعل کو ناپسند کرتا ہے جو مسلمان کو اللہ کے ذکر سے غافل کردے ، لہٰذا زیادہ کھانا یا کھانوں و پھلوں کا پھینک دینایہ اسراف (فضول خرچی)ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کھاؤ اور پیؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرو، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تمام میڈیکل (طب)جمع کردیا ہے، اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: ابن آدم کے پیٹ کا شریر برتن نہیں بھرتاہے، حالانکہ اس کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں،جو اس کو متحرک رکھ سکیں، اگر تھوڑے سے کام نہ چلے تو اپنے پیٹ کے تین حصے کرلو، ایک حصہ کھانے کے لئے، دوسرا پینے کے لئے اور تیسرا سانس لینے کے لئے۔ (مسند احمد)
زیادہ کھانا جہاں بدن کو مرض میں مبتلا کرتا ہے وہیں شیطان کو اپنے اوپر مسلط ہونے کی بھی دعوت دیتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو پیٹ بھر کر کھاتا ہے وہ اللہ کے ذکر کی لذت و حلاوت کو نہیں پاسکتا ، بعض حکماء کا کہنا ہے کہ کھانا کم کرو، اچھے خواب دیکھو گے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کثرت طعام بہت ساری برائیوں کو جنم دیتی ہے، اعضاء و جوارح کو معصیت پر اکساتی ہے، اللہ کی اطاعت سے بندے کو غافل کردیتی ہے، یہ بہت بڑا شرہے، اندازہ لگائیے کہ خوراک میں اعتدال نہ برتنے والے کتنی نافرمانیوں کا شکار ہوتے ہیں اور اللہ کی اطاعت میں یہ کثرت اکل حائل بن جاتی ہے، لہٰذا جو شخص اپنے پیٹ کے شر سے محفوظ رہا، وہ عظیم برائی سے بچ گیا، اس لئے کہ شیطان پیٹو شخص پر بآسانی غلبہ پالیتا ہے۔
مشہور محدث اور فقیہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح یوں کرتے ہیں: اس حدیث کے دو معانی ہیں۔ (۱)جس شخص نے اللہ کی عبادت و اطاعت کی اور دنیا میں اپنے عمل کے ذریعہ اس کی خوشنودی طلب کی اور کبھی اطاعت کے نتیجے میں لوگوں کو اس کی کچھ چیزیں ناپسند ہوجاتی ہیں، مگر وہ اللہ کے نزدیک محبوب ہیں کیونکہ بندے نے اپنی نہیں بلکہ اللہ کی مرضی کی اتباع اور چاہت کی ہے، چنانچہ عبادت گذار بندوں کو اپنے منہ کی بو کی فکر نہیں کرنی چاہئے، اگر چہ دنیا والے اسے ناپسند کرتے ہوں۔
(۲) روزہ اس فانی دنیا میں اللہ اور بندے کے دمیان ایک راز ہوتا ہے، جسے وہ آخرت کے دن تمام مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گااور اس دن روزہ داروں کی شہرت ہوگی اور وہ اپنے روزوں کی وجہ سے سب میں نمایاں ہوں گے، کبھی روزہ دار کو آخرت سے پہلے ہی اللہ ایسی خوشبو سے نوازتا ہے جسے دیکھ کر دنیا والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔جسے انسان اپنے حواس (دیکھنے، سننے، سونگھنے) سے محسوس کرے، عبداللہ بن غالب رحمہ اللہ بہت بڑے عابد اور مجتہد گذرے ہیں، جب وہ دفن کئے گئے تو ان کے قبر کی مٹی سے مشک کی خوشبو بکھر رہی تھی، ان کے کسی ساتھی نے خواب میں انہیں دیکھا تو خوشبو کے بارے میں پوچھا ، انہوں نے جواب دیا وہ روزہ اور تلاوت کی خوشبو تھی۔
۲۔ جو دلوں اور روحوں کو معطر کردے، یہ ان روزہ دار بندوں کو حاصل ہوتا ہے جن کا عمل اخلاص پر مبنی ہوتا ہے، ریاء و نمود کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا اور ایسے لوگوں سے تمام مومن دلی محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ان کے لئے اللہ محبت پیدا کردے گا۔(مریم:۹۶)
اللہ تعالیٰ وقت کی اہمیت کے پیش نظر اس کی قسم کھا کے کہتا ہے: قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے(الضحیٰ۱،۲) دوسری جگہ سورہ عصر میں فرماتا ہے: قسم ہے زمانے کی (یعنی شب وروز کی گردش کی) بیشک انسان گھاٹے اور خسارے میں ہے، معلوم ہوا کہ وقت امانت ہے اور قیامت کے دن وقت کے متعلق سوال ہوگا، حدیث میں آتا ہے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن بندے کے دونوں پاؤں اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے:
(۱) اپنی عمر کن چیزوں میں صرف کی۔ (۲) جوانی کہاں خرچ کی۔ (۳) مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (۴)اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا۔ (ترمذی)
دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جس میں اکثر لوگ غفلت کا شکار ہیں: صحت اور خالی وقت۔ (بخاری)یقین مانیں ، اگر یہ دونوں چیزیں کسی شخص کے پاس اکٹھی ہوجائیں، تو اس پر سستی اور نافرمانی کا غلبہ ہوجاتا ہے،اسے وقت کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہوتا ، حالانکہ عبداللہ بن عمرؓ کہتے تھے: جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرنا اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرنا،اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ (بخاری)
ہماری عبادتوں کا وقت سے بہت گہرا رشتہ ہے اگر ان عبادتوں کو وقت پر ادا نہ کیا جائے تو ہمارے اجر و ثواب ضائع ہوجاتے ہیں،جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل عمل نماز کا وقت پر پڑھنا ہے، اسی طرح آپ نے فرمایا: روزہ رکھو چاند دیکھ کراور عید بھی مناؤ چاند دیکھ کر۔
معلوم ہوا کہ سارے نظام کا دارومدار وقت پر ہے اور رمضان کے مقدس مہینے میں ٹی وی دیکھنے یا بہت زیادہ سونے، فالتو اور فضول باتوں سے ہر مسلمان کو بچنا ہوگا۔ ان اوقات کی قدر کرنی ہوگی، جنہوں نے وقت کی قدر نہیں سیکھی وہ دنیا میں رسوا ہوئے اور آخرت میں بھی ہونگے، لہٰذا اللہ کا یہ قول ہمیشہ ذہن نشین رکھیں وہ فرماتا ہے تم سب اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کئے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے، ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہے، ہائے افسوس!میں نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی، بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا۔ (ترمذی)
اللہ ہم سب کو وقت کی قدر و حفاظت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
روزہ بڑی عظیم عبادت ہے، اگر یہ دونوں شرطیں ہمارے روزوں سے مفقود ہیں یا کوئی ایک، تو ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی، اخلاص ہماری ہر عبادت اور ہر عمل کے لئے لازمی شئے ہے، آیئے دیکھتے ہیں کہ اخلاص کسے کہتے ہیں: اخلاص نام ہے اعمال وعبادات کا ہر طرح کے عیب و آمیزش سے پاک وصاف ہونا۔
بندہ جب تہیہ کرلیتا ہے کہ اس کا ہر عمل اللہ کے حکم و اس کے ارادے کے موافق ہوگا،نفسانی آمیزش سے پرہیز کرے گا، وہ مخلص کہلائے گا، روزہ بھی عموما اخلاص سے پرہوتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بندہ اپنا کھانا پینا اور تمام خواہشات میرے لئے ترک کردیتا ہے ،اس کا روزہ صرف میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔(بخاری)
اس حدیث میں روزہ دار کا اخلاص صاف جھلکتا ہے، اگر یہی کھانا پینا روزہ دار کسی اورکے لئے چھوڑے ، مثلا لوگوں کو بتانے کے لئے، شہرت کے لئے کہ روزہ رکھ رہا ہوں (حالانکہ ایسا کم ہوتا ہے) پھر وہ ریاکاری ہوگی، خلوص کا نام ونشان نہ ہوگا، علماء نے لکھا ہے : روزہ ایک خاموش عبادت ہے بندہ اور رب کے درمیان ایک راز کی مانند ہے جہاں صرف اخلاص ہے، ریاء کو داخل ہونے کا موقع شاذ ونادر ہی ملتا ہے۔
اخلاص نہایت پاکیزہ اور محبوب شئی ہے، مخلص شخص سماج اور خاندان میں اثر انداز ہوتا ہے اور ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے، جس پر چل کر نسلیں نجات و کامرانی کی حقدار بن جاتی ہیں،مخلص بندہ نیکی کے سارے کام دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوکے کرتا ہے ، جب وہ دائیں ہاتھ سے کسی کو صدقہ دیتا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی،اشعب بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی ایک گلی میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا تمہارے خاندان میں کتنے افرادہیں؟ اشعب جو نہایت مسکین آدمی تھے، افراد کی تعداد بتائی۔ اس کے بعد اس شخص نے اشعب سے کہا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے اہل وعیال کے کھانے پینے اورکپڑے کا برابر انتظام کرتارہوں جب تک تم زندہ ہو، کہا: کس نے حکم دیا ہے ،جواب ملا : میں نہیں بتا سکتا، پھر میں نے کہا: میں اس کی نیکی پر بیحد ممنون ومشکور ہوں، وہ شخص گویا ہوا: جس نے مجھے حکم دیا ہے وہ تمہارے شکریہ کے جواب سے معذور ہے، اشعب کہتے ہیں: میں برابر وظیفہ (خرچ) لیتا رہا، یہاں تک کہ خالد بن عبداللہ کا انتقال ہوا، لوگوں کی بھیڑ لگ گئی میں بھی جنازے میں شریک تھا کہ اس شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا:اے اشعب! یہی وہ ہستی تھی جو تمہارے نان ونفقہ کا انتظام کرتی تھی اور میں تمہیں دیا کرتا تھا۔
پردے کے پیچھے یہ وہ صاحب خیر تھے جو مدینہ میں بے شمار خاندانوں کی کفالت کرتے تھے اور لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ تھی، یہ صرف ان کا خلوص تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت کی صبحوں میں برکت رکھی ہے، اگر ہمارے پڑھنے لکھنے،تجارت، بازار وغیرہ غرضیکہ سارے کام فجر کے معاً بعد شروع ہو جایا کریں تو یقیناًہم اللہ رب العزت کی بے پناہ برکتوں سے فیضیاب ہوسکتے ہیں اللہ نے امت محمدیہ کو بہترین امت قرار دیکر اس کی تکریم کی، اللہ ہماری عزت افزائی کررہا ہے اور ہم اس کا شکریہ بھی ادا کرنے سے قاصر رہیں!!
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو دنیا کے احوال پر نظر رکھتا ہے وہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ سدیدالرأی اور عقلمند پائے گا، انہوں نے مختصر مدت میں علم و عمل کی دنیا سے کئی گنا دولت کمائی، جو ان کے سوا دوسری اقوام کئی صدیوں اور نسلوں میں بھی نہ پاسکیں۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: پیارے نبی ﷺ کی نبوت کی یہ برکت ہے کہ اللہ نے لوگوں کو ہدایت بخشی اور اس ہدایت سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹے، ہر ایک نے اپنی بساط بھر فائدہ اٹھایا، علم نافع اور عمل صالح کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا، بلند اخلاق کی حامل ایک ایسی امت بن کر ابھر ی جو علم و عمل کا پیکر تھی ہر آلودگی سے پاک تھی اور اس پر ہر مسلمان اللہ کا شکر بجالاتا تھا۔
میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ ان شکر گزار بندوں جن کی آمدنی بیحد کم ہوتی ہے، اس میں اتنی برکت دیتا ہے،کہ وہ شخص سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ کا م کیسے ہوگیا؟ وہ فورا اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہے، برکت کے حصول کے لئے سب سے اہم چیز ہے کہ ہر معاملے میں سنت صحیحہ کی اتباع کی جائے، شریعت کے مطابق ہمارا عمل ہو، لین دین اور بزنس و تجارت میں ہر قسم کے عیب، جھوٹ اور سود سے بچیں، سچائی اور راست بازی کے اختیار کرنے سے ہی آپ اللہ کی برکتوں کے مستحق ہوسکتے ہیں، گھروں میں اگر کوئی شخص دین کی گفتگو کرتا ہے، یا علم دین کے حصول میں منہمک ہے تو ایسے لوگوں کی قدر ہونی چاہئے اس لئے بہت ممکن ہے کہ آپ کے گھر میں آمدنی اور برکت اسی علم کے نتیجہ میں آرہی ہے۔
روزہ دارو! ضرورت ہے کہ ہم اللہ کی برکتوں کو تلاش کریں، اس کی خوشبوؤں سے اپنے گھروں کو معطر کریں، یہ ممکن ہے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ، توبہ اور گناہوں سے دوری برتنے پر، اخلاص اور سنت نبوی کی اطاعت میں۔
اللہ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازے۔(آمین)
وصلی اللہ علی النبی الکریم
رمضان کریم : برکات وثمرات
الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ، أمابعد: تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ
محترم اسلامی بھائیو! رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے، یہ مہینہ ہمیں بہت سارے دروس دیتا ہے، ان میں سب سے بڑا درس تقوی و پرہیز گاری کا درس ہے، تقوی مومن کا بہترین لباس ہے اس کا بہترین توشہ ہے، مصیبت کے وقت اس کا بہترین ساتھی ہے، اس کے صبر و سکون کی جگہ ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی وصیت ہے تمام بنی آدم کے لئے۔تقوی کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کوئی بھی کام کریں جس سے اللہ کی اطاعت ثابت ہو اور آپ اس کام پر اللہ سے ثواب کی امید رکھیں، نیز اللہ کے عقاب کے خوف سے ہر اس کام کو چھوڑ دیں جس سے اللہ کی معصیت ونافرمانی ہو۔
روزہ دارو! بندے کا تقوی اس وقت مکمل ہوجاتا ہے جب وہ جان لے کہ ہمیں کن چیزوں سے بچنا چاہئے اور وہ پھر اس پر عمل پیرا ہوجائے، چنانچہ یہ مہینہ ہمیں تقوی سیکھنے کی اور متقی بننے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اس لئے کہ تقویٰ ہی ہمارے روزوں کی حکمت ہے اور قرآن عظیم اس مہینہ کو تقوی کے نام سے موسوم کرکے اعلان کررہا ہے: ’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقی و پرہیز گار بن جاؤ‘‘ (البقرہ:۱۸۳)۔
شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: روزہ تقوی کے بڑے اسباب میں سے ہے،اس لئے کہ بندہ روزے کی حالت میں اللہ کا حکم بجالاتا ہے، منکرات سے بچتا ہے، وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جس کی طرف انسانی طبیعت فطری میلان رکھتی ہے، جیسے کھانا،پینا، جماع وغیرہ، آخرکیوں؟ اس لئے کہ بندہ اللہ کی قربت کی چاہ اور اس سے ثواب کی امید رکھتا ہے اوریہی تقوی کہلاتا ہے۔
روزہ دار اس ماہ مبارک میں اپنے نفس کی تربیت چاہتاہے،اسے اللہ کی نگرانی کا ہمہ وقت خیال رہتا ہے اور نفسانی خواہشات کو قربان کردیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
روزہ شیطان کے راستوں کو تنگ کردیتا ہے، اگرچہ وہ انسان کے ساتھ اس طرح لگا رہتا ہے جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے، اس کے باوجود اس کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور روزہ دار سے گناہوں کا ارتکاب کم ہوجاتاہے۔
روزہ دار بندہ اللہ کی اطاعت میں منہمک ہوجاتاہے، اللہ کی فرمانبرداری اس کا نصب العین بن جاتا ہے اور یہ جذبۂ اطاعت انسان کو پرہیز گار بناتی ہے، روزے کی حالت میں مالدار شخص کو جب بھوک کا درد ستائے تو اس پر واجب ہے کہ فقیروں اور ضرورت مندوں کو یاد کرے، ان کی خبر گیری کرے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا، یہ بھی تقوی کی صفت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو معصیت سے بچائے اور پرہیزگار و متقی بنائے۔ آمین
روزہ ڈھال ہے
اللہ رب العزت نے اس روزہ کو بہت ساری چیزوں سے نجات کا ذریعہ بنادیا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال اور آڑ ہے، پس کوئی شخص شہوت نفس کا کام نہ کرے، جاہلوں کی عادت وطریقہ کو نہ اپنائے اور نہ ہی شوروشغب برپا کرے‘‘ (بخاری، مسلم)دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے اسی طرح جس طرح تم لڑائی کے وقت ڈھال کا استعمال کرتے ہو‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہر وہ چیز جو انسان کے لئے آڑ،ستر یا بچاؤ کا کام کرے وہ ڈھال ہے،محدث ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:روزہ جہنم کے لئے ڈھال اس لئے ہے کیونکہ انسان اپنے آپ کو نفسانی خواہشات و شہوات سے روکے رکھتا ہے اور جہنم شہوات سے گھیردی گئی ہے تو جو شخص شہوت نفس یا حرام لذتوں سے دنیا میں پرہیز کرے گا، آخرت میں جہنم اس کے لئے آڑ بن جائے گی۔(فتح الباری۴؍۱۰۴)
معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں انسان کو اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا چاہئے، جہالت بھرے کام ، شہوت، لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنا چاہئے، غیبت، چغلی اور ریاکاری سے بچنا چاہئے، تاکہ ہم سب کے لئے جہنم آڑ بن جائے اور اللہ کے روزہ دار بندے بآسانی جنت میں داخل ہوسکیں۔
حدیث میں روزہ دار کو جن چیزوں سے روکا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ عداوت ، تعصب اور شہوت نفس کو دعوت نہ دے، لیکن اگر مسئلہ سنگین ہو، آپ حق پر ہوں ، فریق مخالف آپ پر زیادتی کئے جارہا ہو، ایسی صورت میں آپ اس کی باتوں اور لڑائی کا مؤثر جواب دے سکتے ہیں،اس لئے کہ مقصد انصاف اور حق کی سربلندی ہے، مگر یاد رہے گالی گلوچ کا جواب گالی سے نہیں دیں گے اور مندرج ذیل حدیث کو یاد رکھیں گے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے،اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی کو رسوا کرے، اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھے، اس پر ظلم ڈھائے، تقویٰ تو یہاں ہے، آپ ﷺ نے تین مرتبہ اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کیا، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو سے کھلواڑ حرام ہے۔(مسلم)
میں روزے سے ہوں
روزے کا یہ مہینہ ہمیں صبر، بردباری اور برائی کا جواب بھلائی سے دینے کی تعلیم دیتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو اس روزہ دارکو چاہئے کہ وہ لعن طعن، گالی گلوچ، چیخ پکار اور شور شرابہ جیسے کام ہرگز نہ کرے، اگر روزہ دار کو کوئی دوسرا شخص گالی دے یا جھگڑے پر آمادہ کرے تو روزہ دار کہے’’میں روزے سے ہوں‘‘ ۔ (بخاری، مسلم)امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں : بعض سلف کی رائے ہے کہ جب روزہ دا رسے کوئی شخص گالی گلوچ یا جھگڑا پر آمادہ ہو تو روزہ داربلند آواز سے یہ جملہ’’میں روزے سے ہوں‘‘کہے اس سے مخالف کے خاموش ہونے کی زیادہ امید ہے،یا اپنے نفس کو سمجھائے کہ میں روزے سے ہوں، اس کے گالی گلوچ میں کیوں پڑوں بلکہ اپنا راستہ ہی بدل لوں اور اپنے روزے کو آلودگی سے محفوظ رکھوں۔
اس حدیث سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ روزے کے علاوہ ایام میں گالی گلوچ، لڑنا جھگڑنا جائز ہے،یہ ناجائز ہے ہر حال میں، یہاں روزے کے ساتھ اس نہی کی تاکید کی گئی ہے کہ روزے کی حالت میں بندہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ دار کو غصہ پی جانا چاہئے، گفتگوکے آداب کا خیا ل رکھنا چاہئے اور ہر حال میں زبان کی حفاظت کرنی چاہئے، اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے: جو اپنے دونوں رخساروں کے بیچ (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے بیچ (شرمگاہ) کی ضمانت دے دے ، میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا ہوں۔
حضرت اکثم بن صیفی کہتے ہیں: انسان کی زبان اس کی قتل گاہ ہے، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا:پاؤں پھسلنے سے ہڈی کی چوٹ صحیح ہوسکتی ہے مگر زبان کی لغزش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
روزہ دارو! معلوم ہوا کہ ہم جو کچھ بھی بولیں سوچ کر بولیں، زبان سے غلط جملے اور فقرے نہ نکالیں، ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت ادب کے جامے میں رہیں، ہماری بات سے کسی کو تکلیف نہ پہونچے، ورنہ ہمارے روزوں کا ثواب گھٹ جائے گا، آئیے کو شش کریں اس جنت کے حصول کے لئے جس کی بشارت نبیﷺ نے دی ہے۔
اللہ کو ایسے روزے پسند نہیں
ہم روزہ رکھ کر اگر ایسے کام کریں جو اللہ کے غضب وناپسندیدگی کا سبب بنتے ہوں، پھر ہمارے روزوں کا کیا ہوگا؟ حدیث نبوی دیکھئے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو ایسے بندے اور روزے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ بیٹھے۔ (بخاری، مسلم)اس کا مطلب ہے کہ ہمارا روزہ قبول نہیں ہوگا یا اس کا اجر وثواب ضائع ہوجائے گا، اگر ہم نے جھوٹ ، لغو اور بیہودہ چیزوں میں اپنا وقت ضائع کیا۔ علماء نے لکھا ہے: کہ حدیث میں لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جھوٹ اور اس کے متعلقات سے بچیں، اللہ نہ کرے اگر آپ سے کوئی جھوٹ سرزد ہوجائے تو اس کی وجہ سے اپنا روزہ ترک کردیں۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حدیث میں روزہ کی عدم قبولیت کی طرف اشارہ ہے جیسے کوئی مالک اپنے ملازم سے کوئی کام کرنے کو کہے اور وہ اس طرح نہ کرے جس طرح کہا تھا، تو مالک غصہ ہو جائے گا اور کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے تو جھوٹ کے مقابل اس کا روزہ ضائع کردیا جائے گا اور جو سالم حصہ بچے گا اسے قبول کرلیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا ، بلکہ تمہارا تقوی پہونچتا ہے، ظاہر ہے کہ اگر اس کی رضا کے مطابق کام نہیں ہوا تو پھر قبو ل کہاں سے ہوگا۔
مشہور مفسر علامہ بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: روزہ کی فرضیت کا مقصد یہ نہیں کہ انسان کو بھوکا اور پیاسا رکھا جائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی نفسانی شہوت کا زور ٹوٹ جائے اور بندہ اپنے نفس امارہ (برائیوں پر آمادہ کرنے والا) کو ترک کرکے نفس مطمئنہ (نیکیوں پر اکسانے والا) کی طرف راغب ہو جائے، اب اس کے بعد بھی روزہ کا مقصد حاصل نہ ہو تو اللہ اس کے روزے کو قبولیت کی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھے گا۔
معلوم ہوا کہ جھوٹ ایک مذموم شئی ہے، کفر ونفاق کی خصلت ہے اورانسان کو اس کے بلند مرتبے سے گرادیتا ہے، عزت کی رفعتوں سے حقارت و ذلت کے گڈھوں میں انسان کو پھینک دیتا ہے، اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں: لوگو! جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ یہ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائی انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے، ایک شخص جو برابر جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہتا ہے،اللہ کے یہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری،مسلم)
حضرت حسن بصر ی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ جھوٹ نفاق کی جڑ ہے،حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بعض گورنروں کو لکھا تھا: جھوٹ کا سہارا ہرگز مت لینا، اگر جھوٹ کی آمیزش کروگے ہلا ک وبرباد ہو جاؤگے۔
سحری اور افطار
رمضان کی اس بابرکت فضا میں اگر سحری اور افطا ر کا ذکر نہ ہو تو روزے کا لطف بے مزہ ہوجائے گا، آئیے اس کی فضیلت و اہمیت ملاحظہ کرتے ہیں:سحری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: سحری کھاؤ اس لئے کہ اس میں برکت ہے (بخاری ، مسلم) اس حدیث میں مسلمانوں کو سحری کھانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ وہ روزے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں اور اللہ کی برکت کے مستحق ہوں، یاد رہے برکت انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے، دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ کچھ لوگ سحری کو کوئی حیثیت نہیں دیتے، آدھی رات کو ہی کھا لیتے ہیںیا وہ نیند کے رسیا ہوتے ہیں یا اس کی برکتوں سے ناواقف ہوتے ہیں، یہ سنت کی مخالفت ہے، لہٰذا ہر روزہ دار کو سحری کا اہتمام کرنا چاہئے اور فجر سے کچھ پہلے اٹھ کر سحری کرنی چاہئے، حضرت سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار جلدی اور سحری میں تاخیر کرتے رہیں گے۔ (بخاری، مسلم)، افطار کے جلدی کا مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبے ،آپ افطار کرلیں، سیاہی کے پھیلنے کا انتظار نہ کریں اور سحری فجر (صبح صادق) کے وقت سے پہلے (یعنی رات کے آخری لمحات میں) کرنی چاہئے تاکہ فجر کی نماز جماعت سے ادا کرسکیں۔
سحری مسلمانوں کا شعار ہے اور یہود ونصاریٰ کی مخالفت، جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری ہے (مسلم)۔
سحری میں آدمی کچھ بھی کھائے لیکن رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے شروع کرے، کھجور دستیاب نہ ہو تو پانی سے افطار کرے، اس لئے کہ وہ پاک شئی ہے۔ (احمد،ترمذی،ابوداؤد)
بعض لوگ افطار میں سنت کی پیروی نہیں کرتے، انہیں دسترخوان پر جو مرغوب غذا نظر آئی، اسی سے شروع کردیا، حالانکہ اب کھجور و چھوہارے کی متعدد اقسام تقریبا دنیا کے سبھی خطہ میں پائی جاتی ہیں، لہٰذا اس کا اہتمام نہ کرنا بھی خلاف سنت ہے، اگر بازار میں دستیاب نہیں یا خریدنے کی طاقت نہیں تو ایسی صورت میں پانی سے افطار کرنا مستحب ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: روزے کی حالت میں معدہ جب غذا سے خالی ہوتا ہے، تو اس میں پہونچنے والی میٹھی چیز کھجور وغیرہ کلیجہ کو تقویت بخشتی ہے، کلیجہ بہت تیزی سے اس کی مٹھاس کوجذب کرکے جسم کے دوسرے حصوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے اورپانی معدے کی حرارت و جلن کو ختم کردیتا ہے۔
کھا ؤ اور پیؤ مگر..
روزے کے جہاں بہت سارے آداب ہیں جن کی ہم رعایت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہی میں سے کھانے پینے کے آداب بھی ہیں جن کا پاس ولحاظ بیحد ضروری ہے۔آج ہم بہت سے روزہ دار بھائیوں کو دیکھتے ہیں کہ ماہ رمضان کو کھانے پینے کا مہینہ بنالیتے ہیں، انواع و اقسام کے پکوان سے دسترخوان سجائے جاتے ہیں، خود اپنے لئے بہت ساری نئی ڈشوں کا اہتمام کرتے ہیں، جو رمضان کے علاوہ دنوں میں نہیں ہوتا، بازاروں میں لذیذ اشیاء کی خرید کے لئے وہ بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے جو عام دنوں میں دکھائی نہیں دیتی، اگر یہ بھیڑ اور کثرت خریداری ان مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے ہے جن کے یہاں افطار و سحری کا انتظام نہیں ہے یا مشکل سے گذر بسر ہے، تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن اگر نیت یہ ہے کہ دن بھر بھوکے رہنے کے بعد طرح طرح کے پکوان سے افطار و کھانے میں جم کر اپنا پیٹ بھرنا ہے ، تو یہ آپ کے لئے ہرگز مناسب نہیں، کیونکہ آپ زیادہ کھانے کے نتیجے میں اپنے جسم کو بوجھل بناتے ہیں، عبادات کی ادائیگی سے آپ کی طبیعت بھاگنے لگتی ہے اور اسلام ہر اس فعل کو ناپسند کرتا ہے جو مسلمان کو اللہ کے ذکر سے غافل کردے ، لہٰذا زیادہ کھانا یا کھانوں و پھلوں کا پھینک دینایہ اسراف (فضول خرچی)ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کھاؤ اور پیؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرو، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تمام میڈیکل (طب)جمع کردیا ہے، اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: ابن آدم کے پیٹ کا شریر برتن نہیں بھرتاہے، حالانکہ اس کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں،جو اس کو متحرک رکھ سکیں، اگر تھوڑے سے کام نہ چلے تو اپنے پیٹ کے تین حصے کرلو، ایک حصہ کھانے کے لئے، دوسرا پینے کے لئے اور تیسرا سانس لینے کے لئے۔ (مسند احمد)
زیادہ کھانا جہاں بدن کو مرض میں مبتلا کرتا ہے وہیں شیطان کو اپنے اوپر مسلط ہونے کی بھی دعوت دیتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو پیٹ بھر کر کھاتا ہے وہ اللہ کے ذکر کی لذت و حلاوت کو نہیں پاسکتا ، بعض حکماء کا کہنا ہے کہ کھانا کم کرو، اچھے خواب دیکھو گے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کثرت طعام بہت ساری برائیوں کو جنم دیتی ہے، اعضاء و جوارح کو معصیت پر اکساتی ہے، اللہ کی اطاعت سے بندے کو غافل کردیتی ہے، یہ بہت بڑا شرہے، اندازہ لگائیے کہ خوراک میں اعتدال نہ برتنے والے کتنی نافرمانیوں کا شکار ہوتے ہیں اور اللہ کی اطاعت میں یہ کثرت اکل حائل بن جاتی ہے، لہٰذا جو شخص اپنے پیٹ کے شر سے محفوظ رہا، وہ عظیم برائی سے بچ گیا، اس لئے کہ شیطان پیٹو شخص پر بآسانی غلبہ پالیتا ہے۔
مشک سے زیادہ معطر
اللہ رب العزت نے ہمیں روزے کی شکل میں اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین موقع عطا فرمایا ہے، اللہ کے بندے اس ماہ مبارک میں اطاعت کے سارے کام بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں، صبح سے شام تک مستقل بھوکے اور پیاسے رہنے کا جو عمل دہراتے ہیں، اللہ کے یہاں اس عمل پر بے پناہ اجر و ثواب ہے، جسے ہم شمار نہیں کرسکتے، صبح سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھانے پینے کے سبب روزہ دار کے منہ سے بو آنے لگتی ہے، جو بعض لوگوں کو پسند نہیں آتی، مگر اس اللہ وحدہ لاشریک کو، جس کے ہم بندے ہیں، اسے بے انتہا پسند آتی ہے، حدیث میں اس کا ذکر یوں آتا ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ معطر اور پاکیزہ ہے۔ (بخاری، مسلم)مشہور محدث اور فقیہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح یوں کرتے ہیں: اس حدیث کے دو معانی ہیں۔ (۱)جس شخص نے اللہ کی عبادت و اطاعت کی اور دنیا میں اپنے عمل کے ذریعہ اس کی خوشنودی طلب کی اور کبھی اطاعت کے نتیجے میں لوگوں کو اس کی کچھ چیزیں ناپسند ہوجاتی ہیں، مگر وہ اللہ کے نزدیک محبوب ہیں کیونکہ بندے نے اپنی نہیں بلکہ اللہ کی مرضی کی اتباع اور چاہت کی ہے، چنانچہ عبادت گذار بندوں کو اپنے منہ کی بو کی فکر نہیں کرنی چاہئے، اگر چہ دنیا والے اسے ناپسند کرتے ہوں۔
(۲) روزہ اس فانی دنیا میں اللہ اور بندے کے دمیان ایک راز ہوتا ہے، جسے وہ آخرت کے دن تمام مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گااور اس دن روزہ داروں کی شہرت ہوگی اور وہ اپنے روزوں کی وجہ سے سب میں نمایاں ہوں گے، کبھی روزہ دار کو آخرت سے پہلے ہی اللہ ایسی خوشبو سے نوازتا ہے جسے دیکھ کر دنیا والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔جسے انسان اپنے حواس (دیکھنے، سننے، سونگھنے) سے محسوس کرے، عبداللہ بن غالب رحمہ اللہ بہت بڑے عابد اور مجتہد گذرے ہیں، جب وہ دفن کئے گئے تو ان کے قبر کی مٹی سے مشک کی خوشبو بکھر رہی تھی، ان کے کسی ساتھی نے خواب میں انہیں دیکھا تو خوشبو کے بارے میں پوچھا ، انہوں نے جواب دیا وہ روزہ اور تلاوت کی خوشبو تھی۔
۲۔ جو دلوں اور روحوں کو معطر کردے، یہ ان روزہ دار بندوں کو حاصل ہوتا ہے جن کا عمل اخلاص پر مبنی ہوتا ہے، ریاء و نمود کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا اور ایسے لوگوں سے تمام مومن دلی محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ان کے لئے اللہ محبت پیدا کردے گا۔(مریم:۹۶)
وقت کی قدر کیجئے
جس طرح ہماری عمروں کا وقت سانسوں میں مقرر ہے، اسی طرح ماہ مبارک گنتی کے چند ایام ہیں، یہ وہ قیمتی مہینہ ہے جس کا لمحہ لمحہ اللہ کی اطاعت و اس کے اجر وثواب کے حصول میں صرف ہونا چاہئے، پتہ نہیں یہ وقت آئندہ کسی کو ملے نہ ملے، میرے بھائیو! ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ نہایت بیش قیمت ہے، کوشش کیجئے کہ آپ ہر گھنٹے ایک ایسی اینٹ رکھیں جس سے آپ کی بزرگی وشرافت کی عمارت بلند ہوجائے اور آپ کی قوم آپ کے ذریعہ سعادت مند ہوجائے۔اللہ تعالیٰ وقت کی اہمیت کے پیش نظر اس کی قسم کھا کے کہتا ہے: قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے(الضحیٰ۱،۲) دوسری جگہ سورہ عصر میں فرماتا ہے: قسم ہے زمانے کی (یعنی شب وروز کی گردش کی) بیشک انسان گھاٹے اور خسارے میں ہے، معلوم ہوا کہ وقت امانت ہے اور قیامت کے دن وقت کے متعلق سوال ہوگا، حدیث میں آتا ہے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن بندے کے دونوں پاؤں اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے:
(۱) اپنی عمر کن چیزوں میں صرف کی۔ (۲) جوانی کہاں خرچ کی۔ (۳) مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (۴)اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا۔ (ترمذی)
دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جس میں اکثر لوگ غفلت کا شکار ہیں: صحت اور خالی وقت۔ (بخاری)یقین مانیں ، اگر یہ دونوں چیزیں کسی شخص کے پاس اکٹھی ہوجائیں، تو اس پر سستی اور نافرمانی کا غلبہ ہوجاتا ہے،اسے وقت کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہوتا ، حالانکہ عبداللہ بن عمرؓ کہتے تھے: جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرنا اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرنا،اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ (بخاری)
ہماری عبادتوں کا وقت سے بہت گہرا رشتہ ہے اگر ان عبادتوں کو وقت پر ادا نہ کیا جائے تو ہمارے اجر و ثواب ضائع ہوجاتے ہیں،جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل عمل نماز کا وقت پر پڑھنا ہے، اسی طرح آپ نے فرمایا: روزہ رکھو چاند دیکھ کراور عید بھی مناؤ چاند دیکھ کر۔
معلوم ہوا کہ سارے نظام کا دارومدار وقت پر ہے اور رمضان کے مقدس مہینے میں ٹی وی دیکھنے یا بہت زیادہ سونے، فالتو اور فضول باتوں سے ہر مسلمان کو بچنا ہوگا۔ ان اوقات کی قدر کرنی ہوگی، جنہوں نے وقت کی قدر نہیں سیکھی وہ دنیا میں رسوا ہوئے اور آخرت میں بھی ہونگے، لہٰذا اللہ کا یہ قول ہمیشہ ذہن نشین رکھیں وہ فرماتا ہے تم سب اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کئے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے، ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہے، ہائے افسوس!میں نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی، بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا۔ (ترمذی)
اللہ ہم سب کو وقت کی قدر و حفاظت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
روزہ اور اخلاص
مسلمانو! ہم جو کچھ عبادت کرتے ہیں، ان کی قبولیت کا دار ومدار دو شرطوں پر ہے:(۱) اخلاص (۲) رسول اللہ ﷺ کی متابعت۔روزہ بڑی عظیم عبادت ہے، اگر یہ دونوں شرطیں ہمارے روزوں سے مفقود ہیں یا کوئی ایک، تو ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی، اخلاص ہماری ہر عبادت اور ہر عمل کے لئے لازمی شئے ہے، آیئے دیکھتے ہیں کہ اخلاص کسے کہتے ہیں: اخلاص نام ہے اعمال وعبادات کا ہر طرح کے عیب و آمیزش سے پاک وصاف ہونا۔
بندہ جب تہیہ کرلیتا ہے کہ اس کا ہر عمل اللہ کے حکم و اس کے ارادے کے موافق ہوگا،نفسانی آمیزش سے پرہیز کرے گا، وہ مخلص کہلائے گا، روزہ بھی عموما اخلاص سے پرہوتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بندہ اپنا کھانا پینا اور تمام خواہشات میرے لئے ترک کردیتا ہے ،اس کا روزہ صرف میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔(بخاری)
اس حدیث میں روزہ دار کا اخلاص صاف جھلکتا ہے، اگر یہی کھانا پینا روزہ دار کسی اورکے لئے چھوڑے ، مثلا لوگوں کو بتانے کے لئے، شہرت کے لئے کہ روزہ رکھ رہا ہوں (حالانکہ ایسا کم ہوتا ہے) پھر وہ ریاکاری ہوگی، خلوص کا نام ونشان نہ ہوگا، علماء نے لکھا ہے : روزہ ایک خاموش عبادت ہے بندہ اور رب کے درمیان ایک راز کی مانند ہے جہاں صرف اخلاص ہے، ریاء کو داخل ہونے کا موقع شاذ ونادر ہی ملتا ہے۔
اخلاص نہایت پاکیزہ اور محبوب شئی ہے، مخلص شخص سماج اور خاندان میں اثر انداز ہوتا ہے اور ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے، جس پر چل کر نسلیں نجات و کامرانی کی حقدار بن جاتی ہیں،مخلص بندہ نیکی کے سارے کام دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوکے کرتا ہے ، جب وہ دائیں ہاتھ سے کسی کو صدقہ دیتا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی،اشعب بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی ایک گلی میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا تمہارے خاندان میں کتنے افرادہیں؟ اشعب جو نہایت مسکین آدمی تھے، افراد کی تعداد بتائی۔ اس کے بعد اس شخص نے اشعب سے کہا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے اہل وعیال کے کھانے پینے اورکپڑے کا برابر انتظام کرتارہوں جب تک تم زندہ ہو، کہا: کس نے حکم دیا ہے ،جواب ملا : میں نہیں بتا سکتا، پھر میں نے کہا: میں اس کی نیکی پر بیحد ممنون ومشکور ہوں، وہ شخص گویا ہوا: جس نے مجھے حکم دیا ہے وہ تمہارے شکریہ کے جواب سے معذور ہے، اشعب کہتے ہیں: میں برابر وظیفہ (خرچ) لیتا رہا، یہاں تک کہ خالد بن عبداللہ کا انتقال ہوا، لوگوں کی بھیڑ لگ گئی میں بھی جنازے میں شریک تھا کہ اس شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا:اے اشعب! یہی وہ ہستی تھی جو تمہارے نان ونفقہ کا انتظام کرتی تھی اور میں تمہیں دیا کرتا تھا۔
پردے کے پیچھے یہ وہ صاحب خیر تھے جو مدینہ میں بے شمار خاندانوں کی کفالت کرتے تھے اور لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ تھی، یہ صرف ان کا خلوص تھا۔
امت محمدیہ کی برکت
محترم قارئین! اللہ رب العالمین نے اس امت پر برکتوں کا اس قدر فیضان کیا ہے جس کی سابقہ امتوں میں مثال نہیں ملتی اور سب سے بڑی برکت اس امت کے لئے اس کے پیارے نبی محمدﷺ ہیں، جن پر اللہ کا فضل خاص رہا، قرآن کریم آپﷺ پر نازل ہوا، اس کی برکت اور اجر وثواب سے لوگوں کو آگاہ کیا، زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں برکت پانے کے اسباب بتائے، اب ان اسباب اور راستوں کو اختیار کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے، برکت کوئی روپیہ پیسہ سے خریدی جانے والی شئی نہیں ہے، یہ وہ عظیم دولت ہے جو اللہ کے شکر گزار بندوں کو عطا ہوتی ہے، برکت منعم حقیقی کی جانب سے وہ قیمتی تحفہ ہے جس کا احساس و ادراک صرف مؤمن بندہ ہی کرسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کی صبحوں میں برکت رکھی ہے، اگر ہمارے پڑھنے لکھنے،تجارت، بازار وغیرہ غرضیکہ سارے کام فجر کے معاً بعد شروع ہو جایا کریں تو یقیناًہم اللہ رب العزت کی بے پناہ برکتوں سے فیضیاب ہوسکتے ہیں اللہ نے امت محمدیہ کو بہترین امت قرار دیکر اس کی تکریم کی، اللہ ہماری عزت افزائی کررہا ہے اور ہم اس کا شکریہ بھی ادا کرنے سے قاصر رہیں!!
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو دنیا کے احوال پر نظر رکھتا ہے وہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ سدیدالرأی اور عقلمند پائے گا، انہوں نے مختصر مدت میں علم و عمل کی دنیا سے کئی گنا دولت کمائی، جو ان کے سوا دوسری اقوام کئی صدیوں اور نسلوں میں بھی نہ پاسکیں۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: پیارے نبی ﷺ کی نبوت کی یہ برکت ہے کہ اللہ نے لوگوں کو ہدایت بخشی اور اس ہدایت سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹے، ہر ایک نے اپنی بساط بھر فائدہ اٹھایا، علم نافع اور عمل صالح کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا، بلند اخلاق کی حامل ایک ایسی امت بن کر ابھر ی جو علم و عمل کا پیکر تھی ہر آلودگی سے پاک تھی اور اس پر ہر مسلمان اللہ کا شکر بجالاتا تھا۔
میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ ان شکر گزار بندوں جن کی آمدنی بیحد کم ہوتی ہے، اس میں اتنی برکت دیتا ہے،کہ وہ شخص سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ کا م کیسے ہوگیا؟ وہ فورا اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہے، برکت کے حصول کے لئے سب سے اہم چیز ہے کہ ہر معاملے میں سنت صحیحہ کی اتباع کی جائے، شریعت کے مطابق ہمارا عمل ہو، لین دین اور بزنس و تجارت میں ہر قسم کے عیب، جھوٹ اور سود سے بچیں، سچائی اور راست بازی کے اختیار کرنے سے ہی آپ اللہ کی برکتوں کے مستحق ہوسکتے ہیں، گھروں میں اگر کوئی شخص دین کی گفتگو کرتا ہے، یا علم دین کے حصول میں منہمک ہے تو ایسے لوگوں کی قدر ہونی چاہئے اس لئے بہت ممکن ہے کہ آپ کے گھر میں آمدنی اور برکت اسی علم کے نتیجہ میں آرہی ہے۔
روزہ دارو! ضرورت ہے کہ ہم اللہ کی برکتوں کو تلاش کریں، اس کی خوشبوؤں سے اپنے گھروں کو معطر کریں، یہ ممکن ہے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ، توبہ اور گناہوں سے دوری برتنے پر، اخلاص اور سنت نبوی کی اطاعت میں۔
اللہ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازے۔(آمین)
وصلی اللہ علی النبی الکریم
No comments:
Post a Comment