Friday 30 July, 2010

سسکتی انسانیت کا مداوا jun-jul 2010

مولانا محمد مظہر اعظمی
سسکتی انسانیت کا مداوا
پوری دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے اور اس سسکتی ہوئی انسانیت کے لئے روز بڑی بڑی کانفرنسیں اور سیمینار ہورہے ہیں جہاں انسانیت کا درد رکھنے والے کہنہ مشق ماہرین اکٹھا ہوتے ہیں اور علاج اور اس کی تدبیر کی تلاش میں دل سوزی اور عرق ریزی کا مظاہرہ کرتے ہیں، دنیا ان کے مظاہرے کا مشاہدہ کرتی ہے اور ایک موہوم سی امید کے ساتھ کانفرنس اپنے اختتام کو پہونچتی ہے۔
کانفرنس کے اختتام کے بعد ایک طرف پاس شدہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں اور اس میں آنے والے اخراجات کے لئے بڑے سے بڑا فنڈ اکٹھا کیا جاتا اور دوسری طرف عوام اس شخص کی طرح کامیابی کی امید لگاتے ہیں جیسے کسی مریض نے عدم شفایابی کی صورت میں ڈاکٹر بدل کر شفایابی کی امید لگا رکھی ہو، مگر کانفرنس اور اس کی تجاویز کا انجام حسب سابق ہی ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا مرض بڑھ جاتا ہے اور مریض کی پریشانیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ؂
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی
اگر یہ کہا جائے کہ اب تک کی تمام کانفرنسیں جو سسکتی انسانیت کے لئے منعقد ہوئی تھیں فیل اور ان میں پاس ہونے والی تمام تجاویز ناکام ہوگئیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ جو صورت حال پہلے تھی اور جن مسائل سے دنیا دوچار تھی ان میں کوئی اور کسی طرح کی تبدیلی اب تک رونما نہیں ہوئی ہے اور اگر حالات میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو مستقبل جس قدر تاریک ہوگا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مذکورہ مسلسل ناکامیوں کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں انسانیت کے لئے درد ہے اور وہ واقعی مداوا چاہتے ہیں تو اب اس موضوع پر کانفرنس کریں اور سرجوڑ کر بیٹھیں کہ ہماری تمام تجاویزکیوں فیل ہوجاتی ہیں اور اس کے ثمرات و نتائج خاطر خواہ کیوں نہیں برآمد ہوتے ؟ ہماری نیت میں کھوٹ ہے یا تشخیص میں کوئی غلطی ہورہی ہے؟
نیت کا تعلق آدمی کے دل سے ہوتا ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لئے نیت کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے البتہ کردار و عمل کی روشنی میں رائے قائم کی جاسکتی مگر اس رائے کے قائم کرنے میں غلطی تو ہوہی سکتی ہے، قوم اور انسانیت کے لئے جو کچھ ہوتا ہے اس سے بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ نیت میں اخلاص کی کمی کی وجہ سے نتائج و ثمرات امید اور توقع کے مطابق نہیں ہوتے۔
دوسرا پہلو تشخیص کی غلطی کا ہے، جس کے متعلق مشاہدات و تجربات کی روشنی میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سسکتی ہوئی انسانیت کے مرض کی تشخیص صحیح نہیں ہورہی ہے، اگر صحیح ہوتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ علاج موثر ہونے کے بجائے مرض میں اضافہ ہوتا۔ اور جب یہ متحقق ہے کہ تشخیص کی غلطی صحت و شفا میں مانع ہے تو کیوں نہ صحیح تشخیص پر توجہ دی جائے اور نیک نیتی کے ساتھ اسے عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا جائے۔
انسانیت سسک رہی ہے یہ مسلم ہے کیونکہ جان، مال اور آبرو جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں، اگر آج ان تینوں چیزوں کو تحفظ مہیا کیا جائے تو جہاں سے کراہنے اور سسکنے کی آواز آرہی ہے ابھی وہیں سے خوشی اور مسرت کے شادیانے سننے میں آئیں گے، جب اصل مرض یہ ہے جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں تو کیوں نہ ان کو تحفظ مہیا کرایا جائے اور تحفظ کے لئے تاریخ کے جھروکوں میں دیکھا جائے کہ جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی تو اس کا مداوا کیسے اور کس طرح اور کہاں سے حاصل کیا گیا۔
مادی ترقی اور ظاہری چم وخم کو چھوڑ کر اگر بنظر غائر انسانیت کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں ڈیڑھ ہزار سال پہلے کھڑے تھے، صورت حال میں کوئی فرق نہیں، طاقت و قوت کا راج تب بھی تھا اور اب بھی ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو بالادستی تب بھی حاصل تھی اور اب بھی حاصل ہے، گھر کے اندر اور گھر کے باہر جان و مال اور عزت و آبرو تب بھی محفوظ نہیں تھا اور اب بھی محفوظ نہیں ہے مگر ہم ہیں کہ سیاروں پر کمندیں ڈال کر خلا میں پرواز کرکے مگن ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے سب کچھ حاصل کرلیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم انسانیت کو تحفظ نہ دے سکے تو گویا ہم نے بہت کچھ حاصل کرکے بھی کچھ نہیں پایا۔
جان و مال اور عزت و آبرو کو جس طرح ڈیڑھ ہزار سال پہلے سے تحفظ درکار تھا اسی طرح آج بھی درکار ہے اور جن اصولوں کے سایہ میں تب تحفظ ملا تھا اسی میں آج میں ملنا ہے، کیونکہ مذکورہ تمام چیزیں آج بھی اپنی اسی اصل پر ہیں جس پر پہلے تھیں مگر افسوس کہ کچھ انسانیت کے دشمنوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس وقت کے جو اصول و ضوابط تھے وہ اس وقت کی غیر مہذب اور غیر متمدن قوم کے لحاظ سے وضع کئے گئے تھے آج کا مہذب انسان اس اصولوں کا متحمل نہیں ہے، ا ن کے لئے آج کے حالات اور زمان ومکان کو سامنے رکھ کر قانون و ضع کیا جائے گا تو بہتر اور موثر ہوگا۔
جان کی قیمت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، سیم و زر تب بھی معیار تھے اور آج بھی معیار ہیں کسی کی عزت وآبرو سے کھیلنا اس وقت بھی گناہ تھا اور آج بھی گناہ ہے، جب یہ تمام چیزیں اپنی اصل پر ہیں تو پھر کیوں اصول بدل جائے گا؟ کل ایک شخص پراگندہ حال اور پراگندہ بال اپنے ہاتھ میں کنداور زنگ آلود تلوار لے کر آتا اور قتل کردیتا تھا تو وہ قتل کے عوض قتل کئے جانے کا مستحق ہے کیونکہ وہ اپنی شکل و صورت اور ہیئت سے غیر مہذب اور غیر سنجیدہ بلکہ الٹھر دکھلائی دیتا ہے اور آج ایک شخص عمدہ قسم کی گاڑی میں سوار ہوکر آتا ہے، سراپا لباس فاخرہ میں ملبوس ہے اور ہاتھ میں قیمتی آتشی ہتھیار ہے کسی کا قتل کرتا ہے اور شان سے فضا میں فائرنگ کرتا ہوا فرار ہوجاتا ہے، تو کیا ایسا شخص قتل کا مستحق نہیں کیونکہ بڑا مہذب اور باوقار معلوم ہورہاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سزائیں جرم کے لحاظ سے ہوتی ہیں مجرم کی وضع قطع اور لباس کے لحاظ سے نہیں اس لئے قتل کا مستحق وہ بھی ہے جو پراگندہ حال، کند اور زنگ آلود تلوار سے گردن مارتا ہے اور وہ شخص بھی قتل کا مستحق ہے جو لباس فاخرہ میں ملبوس آتشی ہتھیار سے قتل کرتا ہے کیونکہ قتل دونوں نے کیا ہے، اگرچہ دونوں کا طریقہ کا ر الگ الگ تھا، اس لئے قتل تو دونوں کئے جائیں گے ہاں دونوں کے قتل کا طریقہ کار الگ الگ تھا اس لئے دونوں مجرموں کے قتل کے لئے بھی طریقہ الگ الگ اختیار کیا جاسکتا ایک کو مہذب انداز میں آتشی ہتھیار سے دوسرے کو غیر مہذب انداز میں کند تلوار سے مگر قتل دونوں کا ہوگا۔
جس طرح جان کے تحفظ کا معاملہ ہے اسی طرح مال ودولت اور عزت و آبرو کا بھی ہے ، ان تمام چیزوں کا تحفظ ہر شخص ہر حال میں چاہتا ہے وہ مہذب ہو یا غیر مہذب، جاہل ہو یا عالم اس لئے مذہب اسلام نے ان کے تحفظ کے لئے مستحکم اور مضبوط قانون و اصول عنایت کیا ہے، جس کے سایہ میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے بھی انسانیت کو سکون و اطمینان ملاتھا آج بھی اسی میں ممکن ہے، اس لئے انسانیت کے لئے آنسو بہانے والوں اور کانفرنس کرنے والوں کو چاہئے کہ ایک مرتبہ اسے بھی عملی جامہ پہنا کر دیکھیں کہ کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے اور سسکتی ہوئی انسانیت کا کس قدر مداوا ہوپاتا ہے، بلکہ مناسب تو ہوگا کہ ان ملکوں کی طرف ایک نگاہ اٹھا کر دیکھیں جہاں یہ قوانین جزوی طور پر نافذ ہیں کہ وہاں جرائم کی کیا رفتار ہے، جن جرائم سے انسانیت بلک رہی ہے اور ان مہذب ملکوں میں کیا رفتار ہے جن کو اپنی تہذیب و تمدن، کلچر اور ترقی پر ناز ہے۔
اس تہذیب و تمدن کا کیا مطلب،اس کلچر کی کیا حیثیت اور اس ترقی کا کیا مفہوم اور فائدہ جس میں گھر باہر کہیں بھی سکون میسر نہیں ہے، ہر شخص ہر وقت مکمل ذہنی تناؤ میں رہتا ہو اگرچہ آسائش کے تمام تر لوازمات موجود ہوں، اس لئے انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کو چاہئے کہ بجائے مگرمچھ کا آنسو بہانے کے ان اصولوں کو اپنائیں جس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں، اگر مذہب کے نام پر اپنانے میں شرم آرہی ہو تو قانون کے نام پر ہی سہی کیونکہ مریض کو تو مفید اور زور اثر دوا چاہئے چاہے اس دوا کا جو بھی نام رکھ لیا جائے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بیشتر مریض نہ تو دوا کا نام جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو نام سے کیا مطلب ان کو اگر مطلب ہے تو صرف شفاء سے اور وہ بھی جتنی جلدی ہوسکے۔
***

No comments:

Post a Comment