Thursday, 7 July 2011

’’عالم اسلام کا اتھل پتھل‘‘ اور سعودی عرب March 2011

’’عالم اسلام کا اتھل پتھل‘‘ اور سعودی عرب
پچھلے چند ماہ سے عالم اسلام میں ایک اتھل پتھل جاری ہے، ایک طوفان ہے۔ ایک بے سمت شورش ہے، جمہوریت کے نام پر ایک عجیب وغریب طوفان ہے۔ احتجاج ہے، مظاہرے ہیں،ہڑتال ہے۔ بعض ممالک کے شاہ اور صدر تبدیل ہورہے ہیں بعض کی تبدیلی یقینی ہے بعض جگہوں پر مظاہروں کا اہتمام زوروں پر ہے کچھ نہ کچھ ہوکر رہے گا، ایسا اچانک کیوں ہو رہا ہے ؟ کون ہے اس کے پردہ میں جس کے اشارۂ چشم وابرو پر جان دینے کو قومیں آمادہ نظر آرہی ہیں۔ اس وقت وہاں کے حکام کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی کا خیال کیوں آیا؟اس پورے انقلاب و تغیر و تبدل کے پیچھے کون مضمرات پوشیدہ ہیں ؟ ان تمام حرکتوں اور انقلابی مساعی کا فائدہ کن کو حاصل ہوگا داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے ان تمام تر رونما ہونے والے وقائع سے کون کیا نفع حاصل کرے گا؟ کون کتنا خسارہ اور نقصان اٹھائے گا؟۔
اگر تبدیلی حکام و ملوک اورتغیر وزراء و صدور کا یہ سلسلہ طویل سے طویل تر ہوا تو عالم اسلام پر کس قسم کے اثرات و نتائج مرتب ہوں گے؟ پھر ان سب کا آخری کلائمکس کیا ہوگا؟
عصر حاضر کی بات کریں تو عالم اسلام سقوط خلافت کے ساتھ ہی زیرو زبر کا شکار رہا ہے۔ استعمار نے ان کو ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے کمزور بنا دیا۔ عصر جدید کی اقتصادی و معاشی خوش حالی کی آمدکے بعد بھی اس کی کوشش رہی کہ انہیں کمزور اور نکما بنانے کے ساتھ مرعوب اور خوف زدہ بھی بنائے رکھا جائے اور ہمیشہ انہیں فکری و اعتقادی طور پر کھوکھلا رکھا جائے۔
واضح رہے کہ(یریدون لیطفؤ ا نور اللہ بأفواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون) کے تحت ٹھیک اس وقت جب پورا عالم اسلام اعتقادی طور پر کمزوریوں کا تھا بالخصوص عقیدہ توحید اور حقوق توحید پامال تھے،جب عقیدہ اور اس کا اشرف ترین شعبہ توحید خالص ہی درست نہ رہ جائے۔ پھر اعمال کی صلاح اور تحکیم شرع اور زندگی کے جملہ شعبوں میں اسلام کے احکام و معاملات اور اخلاق و اقدار کی کار فرمائی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ٹھیک ایسے ہی عالم میں جزیرہ العرب میں نجد عرب سے شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب التمیمی النجدی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کے تجدیدی جہود و مساعی سے توحید خالص کا پرچم بلند ہوا اور امام محمد بن سعود رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملکر ان کے تعاون سے دولۃ التوحید کی داغ بیل ڈالی گئی۔ انہوں نے خالص اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اسی سلسلہ حکومت کی کڑی، اسی خاندان عالی مرتبت کے بطل جلیل اورفرد فرید شاہ عبدالعزیز عبدالرحمن آل سعود رحمہ اللہ تعالی تھے،جنہوں مملکت توحید کو متحد کیااور مستحکم کیا۔ ایمان واسلام، توحید وسنت کی مستحکم بنیادوں پر اپنی حکمرانی کی پختہ بنیادرکھی۔ (اصلہا ثابت وفرعہا فی السماء)
اسلام کو باذن اللہ بلندی عطا ہوئی کفر کو تو پسپائی مقدر ہے توحید کو جلا بخشی اور شرک اور شرک کے آثار و نشانات کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ دیا۔
پوری دنیا میں صوفیت،الحاد،زندقہ اور بد دینی کے پجاری اور قبروں کے پرستار اور مشائخ و اولیاء کے بد عقیدہ بد عقیدت مند تلملا اٹھے، دولۃ التوحید مملکت سعودی عرب کو بدنام کیا اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوئے۔ اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بزعم خویش ظاہری و باطنی کوشش بھی صرف کی خذلان کی کوئی شکل نہ چھوڑی برائت کا اظہار کیا حج روکو کانفرنس کا انعقاد ہوااس پر مختلف اتہامات و الزامات عائد کیا۔
دوسری طرف اغیار اعداء اسلام، یہود و نصاری اور عام مشرکین اور وثن پرست اقوام ورطۂ حیرت میں ڈوب گئی تھیں۔ تمام خطہائے زمین پر اسلام ماننے والوں کا ہم نے کئی طرح سے گلا گھونٹ دیا، خلافت عثمانیہ ہم نے ختم کردیا، مصر و شام اور عراق کوبعثی علمانی یعنی جمہوری،ڈیموکریسی بنا دیایعنی اسلامیوں میں ہم نے تو روح اسلام نکال کر پھینک دیا،اعتقادی و فکری طور پر وہ پہلے ہی ناکارہ تھے ہم نے عملی، اخلاقی،سیاسی،معاشی،اقتصادی اور تعلیمی طور پر بھی انہیں تقریباً ناکارہ بنا ڈالا۔
لیکن یہ خطۂ زمین جواقتصادی و سیاسی طور پر غایت درجہ پسماندہ تھا جہاں عرب کا بدو اونٹ اسکے دودھ اور کھجور پر گذارہ کرلینا ہی کافی سمجھتا تھا یہی کل کائنات تھی اسکی جس کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ شریف مکہ۔ اردن والا۔ وہاں ذلیل و پامال ہوا اور دیکھتے دیکھتے ایک خالص دینی اسلامی حکومت قائم ہوگئی اور پورے ملک میں اسلامی حدود و قوانین کا نفاذ ہورہا ہے۔ اسلام اپنی ماضی کی روشن و تابناک تاریخ دہرا رہا ہے۔
توحید کی شمع روشن ہے سنت مصطفی ﷺ کا بول بالا ہے، امن و سلامتی کا دور دورہ ہے حق و صداقت عدل وانصاف قائم ہے، سب کے حقوق کی پابندی ہورہی ہے۔
یہ سعودی عرب کی حکومت۔ اللہ تعالی کے فرمان(واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون) کی مصداق بن گئی۔ یہ دولۃ التوحید (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون) کی مصداق اور اس کی صحیح تعبیر و تفسیر بن گئی۔ اگر یہ توحید و سنت، حق و صداقت، عدل و انصاف اور تحکیم شریعت کے موقف پر قائم رہی اور عملی ثبوت دیتی رہی تو ان شاء اللہ العزیز یہ حکومت حاسدوں، حاقدوں، معاندوں، ملحدوں، زندیقوں ،صوفیوں و قبوریوں اور دیگر جملہ داخلی اور خارجی اعداء کے علی الرغم قائم اور باقی رہے گی،جیسے کہ ابتک حاسدوں اور حاقدوں اور تمام اعداء اسلام کی ہزار عداوت کے باوصف یہ قائم ودائم ہے۔
پھر مسلمان کے لئے اہم مسئلہ حکومت اور طرز حکومت کا نہیں ہے حتی کہ حکومت کی بقاء و استحکام کا بھی نہیں ہے۔ دنیا کی سعادت اور آخرت کی نجات کا انحصار حکومت اور طرز حکومت، بقائے حکومت اور زوال حکومت پر نہیں بلکہ توحید و ایمان پر نجات کا انحصار ہے، کفرو شرک اور نفاق اکبر ہی آخرت میں باعث دخول نار اور موجب خسران و دمار ہے۔
اگر ہم بیسویں صدی میں عالم اسلام کا جائزہ لیں تو بات لمبی ہوگی، مگر یہ حقیقت ہر مسلمان کو جاننی چاہئے کہ یہود نصاری نے ہمیشہ عالم اسلام کو تہ و بالا رکھنے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا ہے۔
سقوط خلافت کے بعد عالم اسلام کا بندر بانٹ عمل میں آیا، استعمار سے اگر آزادی بھی نصیب ہوئی تو اسکے مختلف آثارکے طور پر ایسے پیچیدہ مسائل چھوڑ دئے گئے جنکو آج تک حل نہیں کیا جا سکا ہے، مسئلہ فلسطین کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے اسرائیل کی کاشت ایک زہر ناک کاشت تھی جس کے مسموم نتائج سے عالم اسلام جانکنی کے عالم میں ہے اور اسی وقت سے ابتک جس قدر عظیم ترین حوادث و وقائع رونما ہوئے، عرب دنیا اور عالم اسلام میں جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں ان تمام کا حاصل یہ رہا ہے کہ اسرائیل مضبوط سے مضبوط تر ہوجائے، آج تک ایسا ہی ہوا ہے اور ابھی کچھ دنوں تک ایسا ہی ہوگا اسلئے کہ یہودیوں کی اپنی آخری ذلت آمیز موت کا انہیں نظارہ کرنا مقدر ہے جب اللہ کے موحد بندوں کے ہاتھوں وہ قتل کئے جائیں گے۔
یہاں تک کہ شجر و حجر بولیں گے ’’یا عبداللہ، یا مسلم تعال ہذا یہودی و رائی فاقتلہ‘‘ اے اللہ کے بندے ! اے مرد مسلماں ! آجا یہ یہودی میرے پیچھے ہے اسکو قتل کرڈال۔ اسی دن کے تکوینی انتظام میں ہے ساری یہودیت اور ان کی موجودہ ہمنوا نصرانیت اور ان کے حلیف رافضیت و باطنیت اور فریب خوردہ گمراہ ابلہیت بھی اور قدیم ترین جملہ انواع و اقسام کی زندیقیت، خواہ اس کا نام کچھ بھی ہو۔
اسکے علاوہ بھی ملکی و لسانی و قبائلی اور مسلکی و مذہبی تنازعات کوشہ دیا گیا۔ اور قوموں کو لڑنے اور مرنے نتیجتاً کمزور ہونے اور نکما رہنے کے مواقع فراہم کئے گئے۔
عالم اسلام کے کسی تنازعہ کو حل نہیں ہونے دیا گیا۔ اگر حل کی کوئی صورت قبول بھی کی گئی تو اس رعایت کے ساتھ کہ دونوں فریق خائب و خاسر اور ضعیف سے ضعیف تر ہوجائیں اور پھر مستقبل میں ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے رہیں۔
حبش( ایتھوپیا)، سوڈان ،کشمیر وغیرہ اسکی بہت سی مثالیں ہیں۔ماضی قریب میں عالم اسلام میں کئی جنگیں بپا ہوئیں جن میں جان ومال کی عظیم تباہی و بربادی ہوئی۔ آٹھ نو سالہ ایران عراق جنگ میں لاکھوں مارے گئے۔ اور ایک خاص مقصد کے علاوہ قطعی طور پر بظاہر بے نتیجہ جنگ تھی افغانستان پر روس نے یلغار کی اور لاکھوں افغان جیالے موت کے گھاٹ اتاردئے گئے۔ روس جب اپنے طور پر اس بہادر قوم کو زیر نہ کرسکا اور سرخ بھالو دم دبا کر وہاں سے ذلیل و خوار واپس ہواتو پھر بعد کے ادوار میں صلیبیت کے پرستاروں نے اس بدحال ملک پر حملہ کرکے اسکی اینٹ سے اینٹ بجا کر وہاں پر اپنی من پسند حکومت قائم کی اور تادم تحریر اس ملک پر فوجی تسلط و اقتدار قائم رکھکر اس غیور و جیالی قوم کو قتل و خون سے دوچار کئے ہوئے ہیں۔
عالم اسلام پر بزن بولنے کا بہانہ تراشا گیا۔ یہودی صہیونی طاقتوں کے تھٹک ٹینک نے امریکی صلیبی کو اپنی تدبیر پر عملی جامہ پہنا کر قدیم عمارت کو بذریعہ ڈائنا میٹ مواد مسمار و منہدم کرنے کاعیاری و مکاری کے ساتھ ایک انتہائی شاندار ڈرامہ اسٹیج کیا۔دنیا بظاہر تھرا اٹھی۔ فوری الزام بن لادن اور اسکی تنظیم القاعدہ پر عائد کیا گیا۔ اور افغانستا ن کی طالبان کی حکومت کو جو اسامہ کی میزبان تھی اسے حوالہ کرنے بصورت دیگر اس پر حملہ کرنے کی دھمکی دی گئی اور آن کی آن میں اس دھمکی کو عملی جامہ پہنایا گیا اور اپنا ساتھ دینے پر پوری دنیا کو آمادہ کیا گیا۔ صاف لفظوں میں اعلان کیا گیا کہ جو میرا ساتھ دے گا وہ دوست اور جو ساتھ نہیں دے گا وہ میرا دشمن۔
پاکستان کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا گیا، اسکے لئے پہلے سے انتظام کیا جا چکا تھا(پاکستانی مصطفی کمال) پرویز مشرف کو کرسی صدارت پر پہلے بٹھا یا جا چکا تھا۔اس نے’’ پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ دیکر پوری قوم کو یرغمال کرلیا، اور اپنی بد بختانہ روش پر قائم رہ کر صلیبی اتحاد کا ساتھ دیا، اور پھر افغانستان کو مکمل طور پر خاک و خون میں نہلا دیاگیا،طالبان کو ہزیمت سے دو چار ہونا پڑااور وہاں کے مظلوم جیالوں کوگو انتا نا مو بے کا قیدی بنا لیا گیا۔
اگست ۱۹۹۰ء ؁ میں صلیبی آقاؤں کے اشارہ پر بعثی ملحد یعنی صدام نے اپنے محسن کویت پر چڑھائی کرکے اسکو ہتھیا لیا اور دوسرے محسن کو دھمکیاں دینی شروع کردی،بہر حال ہر شخص اپنے وطن کے استخلاص کا حق رکھتا ہے، ہر کسی کو اپنے وطن کی حفاظت و صیانت کا حق رکھتا ہے۔
کویت نے امریکہ کی مدد لی، اور امریکہ نے کمال عیاری سے پوری دنیائے صلیبیت اور بے ضمیر مسلم طاقتوں کو اپنے ساتھ لے کر عراق پربزن بول دیا۔ اور کویت کی آزادی کے نام پر عراق کی کمر توڑدی۔
اس کے بعد مغربی قزاق اور عیسائی جلاد نے ایک نئی بات یہ کہی کہ دنیا کے اندر بدی کے تین شیطانی محور ہیں شمالی کوریا، ایران اور عراق۔ پھر اس بدحال عراق کے بارے میں یہ جھوٹا افسانہ عام کیا گیا کہ اس کے پاس عمومی تباہی کے ہتھیار کے ذخائر ہیں اسلئے صدام حسین کے عراق پر چڑھائی کردی، جملہ قزاق عالم اور ان کے ہمنوا اقوام نے ایک بار پھر عراق کو غارت کرنے اور ڈرامہ کو آخری سین تک پہونچانے کا بھر پور نوٹنکی کے انداز میں کردار ادا کیا۔عراق شکست کھا گیا، صدام حسین ڈرامائی انداز میں گرفتار ہوا،عراق، افغانستان دونوں مقامات غیر ملکی، مغربی و صہیونی و صلیبی الحادی فوجیں براجمان ہوگئیں۔ اور بچے کھچے با غیرت مسلمانوں کو ہلاک و برباد کرتی رہیں۔ اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے ان دونوں ملکوں کا اصل انجام یہ ہوا کہ افغانستان میں غیور با حمیت اسلام پسند مسلم قیادت کی جگہ امریکہ و یورپ کی ساختہ و پر داختہ قیادت افغانیوں پر مسلط کردی گئی۔ اگر وہاں کے ارباب بست کشادکے عقائد و نظریات کا صحیح علم لگایا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ یہ کن لوگوں کا ٹولہ ہے جن کوآقائے نامدار’’چاچا سام‘‘ نے ان آہنی عزم رکھنے والوں افغان عوام پر جبراً مسلط کردیاہے۔
عراق کا تلخ انجام یہ نہیں ہے کہ صدام پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ سڑجانے اور بدبودارہوجانے غذا و خوراک کا انجام زبالہ اور گھور ہی ہوتا ہے۔
اصل تلخ انجام یہ ہے کہ حکومت و اقتدار پر رافضیت و باطنیت کو مسلط کردیا گیا۔ یہی درحقیقت کلائمکس تھا پورے اس ڈرامہ کا جو ۱۹۷۹ء ؁ سے ۲۰۰۳ء ؁ اور اس کے بعد تک مختلف عنوان مختلف انداز سے کھیلا گیا۔
ایران کاحرب خلیج اول کے پورے خون اور ساری تباہ شدہ جائداد کی قیمت صلیبی صہیونی طاقت نے اسے ادا کردیا۔عراق شیعوں کی گود میں چلا گیا، اور یوں ایران اسرائیل سے اور اسرائیل ایران سے مزید قریب آگیا۔ذہنی و فکری قربت کے ساتھ دونوں میں زمینی فاصلے بھی گھٹ گئے۔
لبنان کے حزب اللہ اور اسرائیل کے خونی ڈرامے جس میں زیادہ جانی و مالی نقصان اہلسنت اور عام فلسطینیوں کا ہوتا ہے اس کا انجام۔
آج اس وقت کی تبدیلی اور سیاسی اتھل پتھل کا بھیانک نتیجہ سامنے آئے گا، اور اس کا مستفید اول یہودو نصاری کے ساتھ مسلمانوں کا وہی طبقہ ہوگا جو ابتک ماضی کے حروب دفتن کا مستفید رہ چکا ہے۔ وہ قوت رافضیت وبا طنیت کی ہے جس نے ہمیشہ عالم اسلام اور اہل اسلام کو اپنی غارت کا نشانہ بنایا ہے، اہل سنت اور ان کی حکومتوں کو تاراج کیاہے اور بہر نوع زک پہونچا یا ،ان کے عزائم اورسنی مسلمانوں کے تعلق سے ان کے منصوبے بہت ہی خطرناک اور بھیانک ہیں۔یاد رہے کہ موجودہ اتھل پتھل کا آغاز افریقہ سے ہوا مگر بالکل شروع میں ہی نام نہاد مسلم قلمکاروں نے سعودی عرب میں تبدیلی پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے اور اپنے حسد و بغض اور حقد و کینہ کو ظاہر کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ بے ایمان و بے ضمیر ذرائع ابلاغ نے جھوٹی خبر شائع کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔کہ’’ سعودی عرب میں بھی حکومت مخالف مظاہرے ہوتے ہیں‘‘ یہ یاد رہے کہ بعض علاقوں میں اسطرح کی حرکت کا ارتکاب کیاگیا حتیٰ ائمہ حرم اور دیگر خطباء نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا اور عامۃ الناس کو کسی بھی فتنہ میں ملوث ہونے سے بچنے کی تاکید کی۔
سچ بات یہ ہے کہ عالم اسلام کی اس افرا تفری سے اصل مقصود یہ نہیں ہے کہ مصر میں ’’حسنی مبارک‘‘صدارت سے معزول ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ مصر کی صدارت پر وہ تیس سال سے مسلط ہے۔ اس کی اچھائی یا برائی کا طویل تجربہ و مشاہدہ عوام کو تھا، آخر تیس سال پورا ہونے کے بعد ہی کیوں عوامی غیظ وغضب پھٹ پڑا،پانچ دس سال آزمانے کے بعد آخر التحریر اسکوائر پرطویل احتجاج اور پر امن ہڑتال کیوں نہیں کیا گیا۔آخراس ڈکٹیٹر کے خلاف تبدیلی کی ہوا اس وقت کیوں چلی جب خود وہ اپنی حیات کے آخری دور میں پہونچ چکا تھا۔
زین العابدین صدر تیونس میں جو بھی خوبی و خرابی تھی وہ آج کل کی پیداوار نہیں تھی چالیس سال سے اقتدار کے دور بست پر قابض شخص کے خلاف اس کے حیات کے آخری لمحات میں کیوں انقلاب کی لہر چلی،آخر وہ تو اب خود ناکارگی اور ارزل الحیاۃ کی طرف بڑھ رہاتھا۔ لیبیا کا کرنل قذافی بھی تیس سال سے زائد عرصہ سے اقتدار پر اپنی ساری اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ قابض ہے۔ عمر کے آخری پڑاؤ پر یہ اس کے معزولی کی آندھی کیوں چلی؟ وہ تو اب شائد خود ہی اس لائق نہ رہ گیا تھا کہ وہ مزید خرابی پیدا کرتا۔ اس سوال پر آخر غور کیوں نہیں کیا جاتا۔ وہاں ان ملکوں کے عوام اپنی خواہش سے اس انقلاب کو برپا کرنے پر تیار ہوگئے۔ اور پھر ایک لہر سی چل گئی۔ یہ سب اچانک ہوگیا اور ہورہا ہے، یا معاملہ’’ ہذا أمرتشور بلیل‘‘ کا ہے۔
اگر عالمی منظر نامہ کے تحلیل و تجزیہ نگار گہرائی و گیرائی سے ان سوالوں پر غور کریں اور عدل و انصاف سے کام لیں۔ صداقت کا دامن پکڑیں اور فہم و بصیرت اور فراست سے کام لیں تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ یہ عوام بساط سیاست وہ بے جان کٹھ پتلی ہیں جو پس پردہ آقاؤں کے اشاروں پر ناچ رہی، بساط سیاست کے وہ مہرے جو کسی اور کے ذریعہ ادھر سے ادھر ہوتے ہیں، پھر کسی ملک میں تبدیلی اقتدار اس کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے لوگ ایسے ہی کہتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، اکثر وبیشتر ممالک میں اقتدار اسی طبقہ کو منتقل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ جو عالم صہیونیت و صلیبیت کے حق میں مفید اور عالم اسلام کے حق میں مضر ثابت ہو۔
بحرین کی سیاست کا یہ تماشہ اور وہاں کھچڑی کا جو ابال ہے اس کا مقصد وحید ہے کہ اس چھوٹے سے جزیرہ میں سنیوں کی حکومت کا خاتمہ ہو اور وہاں پر بھی شیعیت و رافضیت کے ہاتھوں میں اقتدار و حکومت دیدی جائے۔
سعودی عرب کی مؤحد حکومت ہمیشہ باطل پرستوں کے نرغہ میں رہی ہے۔ ماضی قریب ۱۹۹۰ء ؁ سے آج تک جن مشکلات و مصائب اور خطرات سے اسے سامنا ہے ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اس حکومت کی خوبیاں اتنی بے شمار ہیں جس کے لئے ایک عظیم دفتر درکار ہے، ہر طرح اور ہر پہلو سے یہ ایک اسلامی، فلاحی ریاست کا اس دور میں سب سے عمدہ نمونہ ہے۔ سب سے عظیم خوبی یہ ہے کہ یہ مؤحد حکومت ہے جہاں پر توحید اور اس کے مظاہر عام ہیں، شرک و آثار شرک اور بدعات کا کوئی نشان نہیں ہے۔ سنت نبویہ کا عملی ظہور اور اس کا غلبہ ہے عوام بھی میں خیر کا پہلو غالب ہے۔ اگر اس زمین پر شر ہے تو اس کا زیادہ تر تعلق وہاں پر مقیم متعدد جالیات سے ہے جو درحقیقت اعدائے دین و وطن ہیں،جو لوگ عقائد کی ضلالت اور فکر کی کجی کا شکار وہ مغلوب ہیں۔اس کے مخلص بانیان اور اس کے جدید مؤسس اور ان کی ذریت طیبہ نے جس طرح توحید وسنت کی سربلندی میں اپنی قربانیاں دی ہیں اسلام اور مسلمانوں کی جس فیاضی کے ساتھ خدمت انجام دی ہے، خدمت حرمین شریفین ایک ایسا روشن باب ہے، جو حکومت آل سعود کے پیشانی کا درخشندہ و تابندہ جھومر ہے ، اس کی تفصیل کسی اور موقع پر پیش کی جائے گی، اسلام اور مسلمانوں کی عقیدہ و عمل میں صلاح و درستی،ان کی تعلیمی و تربیتی معیار کی بلندی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے جس قدر مالی،مادی اور معنوی مدد و معونت کی ہے اس کی نظیر تاریخ میں خیر القرون کے بعد قطعی طور پر نا پید ہے۔ روئے زمین پر کوئی نفس نفوس ایسا نہیں ہے کہ جس پر واسطہ یا بلا واسطہ احسان نہ ہو، یہ ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی مکابر و معاند ہی انکار کر سکتا ہے۔
دنیا ئے کفر و شرک یہود و نصاریٰ اور تمام وثن پرست اقوام اور الحاد و زندقہ والے تو اس خالص توحید و سنت کی پاسبان حکومت کے دشمن ہیں۔ ان کی دشمنی بالکل واضح ہے، مگر یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ کلمہ گو امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس حکومت کی روز اول ہی سے اس کی شدید دشمن رہی ہے، اور آج بھی ان کے بعض و عناد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی وہ حسب مدارج اپنی عداوتوں پر قائم ہیں۔
دنیائے قبوریت و بریلویت کی عداوت ایک کھلی کتاب ہے اس پر دلیل لانے کی حاجت نہیں ہے، دنیائے تقلید اعمی بھی بالخصوص بر صغیر کے حامد مقلدین کے اکابرعلماء اور قدیم بزرگان قوم و ملت کی تحریریں باقی ہیں اور تاریخ نے ان کی عداوت پر مبنی تحریروں کو محفوظ کرلیا ہے۔ لیکن ان کی عداوت و صداقت کا رنگ حالات، ظروف کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک مہارت ہے، مسلمانوں کا ایک طبقہ جو مغرب اور مغرب کی فکری یلغار اور ان کے یہاں سے در آمد ہر ازم کو گلے لگانا ہی اپنے لئے قابل فخر اور لائق شرف سمجھتا رہا ہے ، یہ نام نہاد مسلمانوں کا وہ ملحد طبقہ ہے جسے اعتقادی و عملی کوئی بھی پابندی گوارا نہیں ہے یہ مغرب کا زلہ خور طبقہ ہے اس کی عداوت توحید خالص سے بہت شدید ہے۔ مسلمانوں کا ایک بڑا دھڑا شیعہ ہے، جن کی عداوت جملہ اہل سنت اور بالخصوص اہل حق اور بالأحض خالص مؤحد حکومت سعودی عرب سے اس قدر شدید ہے اس کو تاریخ کا وہ طالب علم ہی جان سکتا ہے جو قرآن و سنت کو دین کا مصدر و مأخد سمجھتے ہوئے صحت ایمان و عقیدہ کے ساتھ ہی تاریخ پر بالبصیرت نگاہ ڈالے۔ اورمستند علماء امت پر اعتماد کرکے ان کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ کرے۔
موجودہ دور میں بہت سی اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا، اور ہر وہ اسلامی تحریک جس نے کتاب وسنت کی بلا قید و شرط بالادستی کو نہیں تسلیم کیا اس نے اہل حق، اہل توحید، اہل سنت سلف کے منہج پر گامزن لوگوں سے عداوت کا رویہ اپنایا، اور انہیں کو اپنا حریف اور مد مقابل سمجھا۔ چنانچہ افکارِ اغیار سے مستعار برصغیر کی عصرانی و عقلانی تحریک نے۔ جس کے افراد مختلف افکار کے حامل رہے ہیں۔ سلفی مکتب فکر اور دنیا میں موجود واحد توحیدی حکومت کو اپنا پہلا دشمن سمجھا۔ اور در پردہ ہمیشہ اس حکومت کی خود اس پر الطاف عنایات کے باوصف اس کی جڑ کو کھوکھلا کرنے پر تلی رہی اور ایران کا اسلامی انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتی رہی۔
آج اس وقت بھی عالم اسلام کے موجودہ اضطراب کے نتیجہ میں ان کی یہ تمنا شباب پر ہے کہ کاش’’ملوکیت‘‘ کا خاتمہ ہوجائے اور نجد و حجاز میں ’’جمہوریت‘‘ اپنی تما م تر حشر سامانیوں کے ساتھ یہاں پر براجمان ہوکر رقص کرتی نظر آئے، بلکہ کوئی خمینی کے ایران کا سا انقلاب پیدا ہوجائے،اسالیب و تغیرات سے قطع نظر منزل و مقصد رفض و تشعیع کا غلبہ ہے۔
نام نہاد پروفیسرکا مضمون’’ ہم اہل صفا مردود حرم‘‘ شائع شدہ راشٹر یہ سہارا مورخہ ۲۱؍فروری ملاحظہ کریں تو آپ کو اسکا بغض و عداوت، حسد اور کینہ کا اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہ لگے گی، کہ سعودی حکمرانوں کے تئیں اس ’’ مردود تحریر‘‘ کے ’’مردود قلم‘‘ کی سیاہی کتنی زیادہ سیاہ ہے جس سے اس کے قلب و ضمیر کی سیاہی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ جو اس کے اس حکومت توحید کے تعلق سے ’’سیاہ دل‘‘ ہونے کی روشن دلیل ہے۔
آج اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر عالم اسلام کے اضطراب پر ٹک گئی ہیں اور کلائمکس کا انتظار ان کو ر بختوں کو شدت سے ہے جو اس انقلاب و تبدیلی اقتدار کی لہر کو سعودی عرب تک پہونچتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہودو نصاری سے زیادہ عجلت ان نام نہاد مسلمانوں کو ہے جن کا ابھی سابقہ سطور میں تذکرہ ہوا ہے۔
سعودی حکومت کو اپنی اہمیت کا پورا احساس ہے ان کو اپنے دشمن کا قطعی علم ہے۔ مگر ان کی اعلی ظرفی نے ہمیشہ دشمنوں سے صرف نظر کیا بلکہ ان کو یہ جانتے ہوئے بھی یہ ہمارے دشمن ہیں ان کو نوازنے اور بڑھ چڑھ کر عطیات دینے میں کبھی گریز نہیں کیا ہے۔
اس موقعہ پر یہ بات ازراہ خیر خواہی بہت زیادہ ضروری اور اہم ہے جو شاید نفع بخش ہو کہ سعودی حکومت کو اپنا ماضی از اول تا آخر یاد رکھنا چاہئے اس کا بغو رمطالعہ کرنا چاہئے۔ اپنے آباء و اجداد کے اصل عظیم کارناموں پر توجہ مبذول کرنی چاہئے اس روح حکومت پر دھیان دینے کی ضرورت ہے جس روح نے نا مساعد حالات میں بھی ان کے اسلاف کو کامیابی سے ہمکنار کردیا تھا مغرب کی رضا کی تلاش میں اٹھائے گئے قدم نے ہمیشہ انہیں کو ذلیل و خوار کی ہے،جنھوں نے مغرب پر کچھ زیادہ ہی انحصار کیا اور اپنے ہر اقدام سے رضاء مغرب تلاش کیا، صدام حسین، حسنی مبارک، قذافی اس کی تازہ مثالیں ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ عزت دی ہے، اگر ہم نے عزت اسلام کے سوا سے چاہا تو ذلت و خواری ہے ہمارا مقدر ہے ۔
ان فی ذلک لأیات لقوم یتفکرون

No comments:

Post a Comment