مطیع اللہ حقیق اللہ مدنی
دعوت إلی اللہ،فضیلت، اسلوب،بعض مشکلات
دعوت إلی اللہ اور وعظ و ارشاد کا عمل انتہائی اہم ترین عمل ہے اسکا مقام و
مرتبہ بہت عظیم ہے اسکی شرف و بزرگی کیلئے یہ کافی ہے کہ یہ انبیاء و رسل
اور ان کے مخلص و صادق متبعین کا مقام ہے۔
دعوت إلی اللہ خیر و حق اور صدق و عدل کی دعوت ہے اسلئے کہ یہ ایمان باللہ، توحید الوہیت توحید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات کی دعوت ہے ان تمام کے تقاضوں پرعمل کی دعوت ہے۔
دعوت إلی اللہ کی اصل روح یہ ہے کہ تمام بندوں کو تنہا اللہ تعالی کی عبادت کی طرف بلایا جائے، اور صراط مستقیم پر گامزن ہونے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی دعوت دی جائے، ساتھ ہی مکارم اخلاق، محاسن شیم اور صالح اعمال کی طرف بلاتے ہوئے اقامت عدل و انصاف نیز حفظ حقوق کی دعوت دی جائے۔
دعوت و ارشاد یہ ہے کہ ہر سطح پر بقدر استطاعت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کیا جائے، اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین و وصیت کی جائے تاکہ معاشرہ میں اسلامی اخلاق و دینی اقدار کا فروغ ہو خیر کا چلن عام ہو اور شر پنپنے نہ پائے۔
دعوت کا اصل میدان وہ غیر مسلم معاشرہ ہے جنہیں اللہ اور رسول اور معاد (یوم آخرت) کی معرفت حاصل نہیں ہے، یا ان کی معرفت میں کذب و بطلان اور تحریف و تبدیل اور فساد و خرابی کی ایسی آمیزش ہو چکی ہے جس کی وجہ سے حق پر پردہ پڑچکا ہے اور وہ نگاہوں سے اوجھل ہے، با صلاحیت اہل علم دعاۃ کی ذمہ داری ہے کہ دعوت حق و دعوت توحید سے اس ناواقف حق و حقیقت معاشرہ کو اللہ خالق ارض و سماء، خالق کائنات اور اس کے عظیم حق’’ توحید عبادت‘‘ سے آگاہ و آشنا کریں ان کو ان کی اپنی زندگی کی غایت سے روشناس کرائیں،أخروی نجات اور اس کے حقیقی انجام سے آگاہ کریں اور ان پر حجت تمام کریں۔ ساتھ ہی مسلم معاشرہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کریں تا کہ مسلم معاشرہ اپنی تمام تراسلامی خصائص کے ساتھ زندہ و پائندہ اور تابندہ رہے۔
دعوت اور دعوتی امور کی اسی اہمیت کے پیش نظر کتاب اللہ اور احادیث نبویہ میں اس کی فضیلت اور اس کے اجر عظیم کا بیان وارد ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
(ولکل أمۃ جعلنا منسکا ہم نا سکوہ، فلا ینازعنک فی الأمر وادع إلی ربک إنک لعلیٰ ہدی مستقیم)
ترجمہ : اور ہر امت کے لئے ہم نے ایک طریقہ قربانی مقرر کیا ہے، جس کو وہ اپنانے والے ہیں، پس وہ تم سے امر دیں کو نزاع نہ کریں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیں، بلاشبہ آپ سیدھی اور معقول ہدایت پر ہیں۔
اللہ تعالی کا یہ قول دعوت کی فضیلت واہمیت اور اس کے اساسی ضوابط و آداب پر مشتمل ہے:
فلذلک فادع واستقم کما أمرت ولا تتبع أہواء ہم۔
اسی کے لئے آپ دعوت دیجئے اور استقامت اپنائیے جیساکہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور آپ ان کے خواہشات نفس کی پیروی مت کیجئے۔
اس مسلم معاشرہ میں امت داعیہ کا وجود ہونا چاہئے تاکہ وہ داعیانہ کردار کرنے اور رشد و ہدایت عام کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھائے۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے:ولتکن منکم أمۃ یدعون إلی الخیر ویأ مرون بالمعروف و ینہون عن المنکر، وأولٰئک ہم المفلحون(آل عمران)
دعوت کی فضیلت اور داعی کے مقام و مرتبہ کی بلندی کے لئے اللہ کا یہ فرمان کافی ہے:
ومن أحسن قولاً ممن دعاإلی اللہ وعمل صالحاً وقال إننی من المسلمین(حمٓ السجدہ) ترجمہ: اس شخص سے بہتر گفتگو کے اعتبار سے کون ہے؟ جو اللہ کی طرف دعوت دے اور صالح عمل کرے اور کہ بالیقین میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
دعوت إلی اللہ، دعوت الی الاسلام، دعوت إلی التوحید عمل کس قدر باعث اجر و ثواب ہے اس کا بیان احادیث نبویہ میں کچھ یوں ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجا اور انہیں توحید، إقامت صلاۃ اور ادائیگی زکاۃ کی دعوت کا حکم دیا۔
سہل بن سعد الساعدی کی روایت ہے کہ نبی ﷺ خیبر کے روز گفتگو میں فرمایا: پھر وہاں ان یہود کے پاس پہونچنے کے بعد انہیں اسلام کی دعوت دو اور ان کو ان کے اوپر اللہ کے واجب حق (توحید اور اس کے تقاضے) سے آگاہ اور باخبر کرو۔
قسم اللہ کی: اللہ تعالی تمہاری دعوت کی وجہ سے ایک انسان کو ہدایت عطا کردے تو یہ تمہارے لے سرخ چوپایوں(اونٹوں) سے بہتر رہے گا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی اس کے لئے اس کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے مانند اجر ہوگا۔ یہ ان متبعین ہدایت کے اجر و ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔
داعی کے اوصاف:
علم: داعی کو علم وفقہ فی الدین کی گہری معلومات ہونی چاہئے۔ ورنہ جہل کے ساتھ کسی داعی کی دعوت خالص توحید وسنت کی دعوت نہ ہوگی بلکہ بعض ایسے امور کی طرف وہ دعوت ہوگی جو خود منافی ایمان و توحید ہوں گے۔
بصیرت: دین و شریعت کی گہری سوجھ بوجھ کے ساتھ اس کے عواقب پر نظر ہونی چاہئے۔
رفق ولین: داعی کو دعوتی اسلوب میں رفق ونرمی اور گفتگو کی خوش بیانی سے کام لینا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ سخت کلامی سے احتراز کرنا چاہئے کہ اس سے فائدہ کی امید کم ہی ہوتی ہے۔
نرمی کا تعلق زبان کی گفتگو اور اسلوب سے ہے۔ ورنہ دعوت کے مضمون میں نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اصل دعوت توحید ہے تو اس کو بدل کر اصل دعوت اور اس کا موضوع إقامت اعراس اقامت مجالس موالید کو بنا لیا جائے۔
ایسی نرمی جس سے اصل مضمون دعوت ہی متاثر ہوجائے یہ تماشا ہے، دراصل دعوتی اسلوب مدعو کے حالات سے متاثر ہونا چاہئے، جیسا مدعو ہو ویسے اسلوب و انداز اختیار کیا جائے۔
اگر وہ خیرو صلاح کی طرف رغبت رکھتا ہے تو اس کو اساسیات دین و ایمان اور شعائر اسلام اور مکارم اخلاق کی باتیں سادہ و شیریں انداز میں بتا دی جائیں۔
اگر مدعو خیر و فلاح سے اعراض کرنے کی خو رکھتا ہے اسکا جھکاؤ شرور دفتن کی طرف زیادہ ہے تو اسکو بہتر مؤثر انداز میں موعظت کیجائے۔ اسے امور خیر و صلاح میں رغبت دلائی جائے ۔
اگر وہ خیر کی طرف راغب بھی نہیں ساتھ ہی بحث وتکرار کا خوگر ہے تو پھر اسکو دعوت پیش کرنے میں موعظت کے ساتھ بحث و جدال سے بھی کام لیا جائے گا۔ البتہ مسلم داعیہ کا طریقۂ بحث و جدال حسن و جمال کا آئینہ دار ہو۔
ایسے ہی سابقہ الذکر مدعوکے متعلق یہ آیت ہمیں سبق سکھاتی ہے( ادع إلی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی أحسن) اگر انسان اعراض و جہالت کا شکار ہو عناد و مخالفت اور استکبار و مکابرہ اور ظلم و عدوان پر آمادہ ہو تو ان کا معاملہ دیگر ہے ان سے حکومت وقت نپٹے گی اور وہ طریقہ اپنائے گی جو اسلام نے عطا کیا ہے۔ دعوت میں ترتیب اولویات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ الاہم فالأہم سے آغاز کیا جائے گا۔
دعوتی راہ کے مشکلات:دعوتی راہ ایک انتہائی مشکل ترین راہ ہے، اسمیں مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ تقدیری فیصلہ ہے کہ حق و باطل کی کشمکش جاری رہے گی۔ اسلئے دعوت حق کی راہ میں باطل پرست ہمیشہ روڑے اٹکاتے ہیں، شیطان اور اسکی ذریت کے علاوہ خود انسانوں بلکہ اسلام کے نام لیواؤں میں بہت سے طوائف وجماعات ہیں۔ یہ تمام درجہ بدرجہ دعوتی راہ میں مشکلات کے سبب ہیں۔
اساسی مشکلات اور بنیادی دشواریوں کا خلاصہ یہ ہے۔
۱۔ مسلمانوں کی اپنی ذات بھی بعض مشکلات پیدا کرتی ہے۔ انہیں میں منحرفین، شرک و بدعات کے رسیا، اخلاقیات میں پست، معاملات میں بہر نوع برائی کے شکار، بے نماز، نشہ خور، سودی کاروبار میں ملوث وغیرہ۔
۲۔ مسلمانوں کا آپسی اختلاف۔ مسلمانوں کے موجودہ عقائدی، مذہبی فقہی اختلاف نے دعوت پرسب سے زیادہ مضر اثر ڈالا ہے۔ غیر مسلم کبھی حیرت زدہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اسلام قبول کرے تو کس اعتقادی و فقہی مذہب کو اختیار کرے۔
۳۔ گمراہ اور باطل فرقوں کا وجود بھی راہ دعوت کا ایک بہت بڑا روڑا ہے، شیعیت۔ قبوریت و صوفیت اور اس سے بڑھ کر قادیانیت وغیرہ۔ دعوت إلی الاسلام کا وہ سنگ راہ ہے جو دعوت إلی اللہ کے لئے سم قاتل رہے۔
۴۔ دنیا میں اور بالخصوص بر صغیر میں مختلف دیانات کا وجود اس ارضی کائنات پر ان کی حرکت و نشاط اور اس راہ میں ان کی ہر طرح کی مالی اور مادی قربانیاں وغیرہ اور ان تمام کا صحیح دین، دین خالص توحید الوہیت سے حقدو عداوت دعوت کی راہ کا سب سے عظیم سنگ گراں ہے جو راہ حق میں حائل ہے۔
۵۔ اہل علم، اہل صلاح، اصحاب ورع، ارباب تقوی، گروہ علماء ودعاۃ کی قلت بھی کچھ کم مصیبت نہیں ہے، اسی لئے جہل کے مرکب اور قلت علم کے شکار، بلکہ بصیرت و تدبر سے عاری لوگ ضلال و اضلال کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔
۶۔ دنیاوی اعراض کے رسیا لوگوں کی بہتات ہے، ہر کوئی متاع الحیاۃ الدنیاکا بھوکا بھیڑیا ہے جس کو آسودگی ہونے والی نہیں ہے۔ اسی لئے ثمن قلیل کے عوض متاع دین اور علم الکتاب والسنۃ کی خریدو فروخت ہورہی ہے اور یہ سب کچھ دعوت وارشاد کے نام پرکھلے بندوں ہورہا ہے۔
اسی لئے پورا کاروبار دعوت کا خلاصہ’’عاملۃ ناصبہ‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔
دعوت إلی اللہ خیر و حق اور صدق و عدل کی دعوت ہے اسلئے کہ یہ ایمان باللہ، توحید الوہیت توحید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات کی دعوت ہے ان تمام کے تقاضوں پرعمل کی دعوت ہے۔
دعوت إلی اللہ کی اصل روح یہ ہے کہ تمام بندوں کو تنہا اللہ تعالی کی عبادت کی طرف بلایا جائے، اور صراط مستقیم پر گامزن ہونے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی دعوت دی جائے، ساتھ ہی مکارم اخلاق، محاسن شیم اور صالح اعمال کی طرف بلاتے ہوئے اقامت عدل و انصاف نیز حفظ حقوق کی دعوت دی جائے۔
دعوت و ارشاد یہ ہے کہ ہر سطح پر بقدر استطاعت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کیا جائے، اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین و وصیت کی جائے تاکہ معاشرہ میں اسلامی اخلاق و دینی اقدار کا فروغ ہو خیر کا چلن عام ہو اور شر پنپنے نہ پائے۔
دعوت کا اصل میدان وہ غیر مسلم معاشرہ ہے جنہیں اللہ اور رسول اور معاد (یوم آخرت) کی معرفت حاصل نہیں ہے، یا ان کی معرفت میں کذب و بطلان اور تحریف و تبدیل اور فساد و خرابی کی ایسی آمیزش ہو چکی ہے جس کی وجہ سے حق پر پردہ پڑچکا ہے اور وہ نگاہوں سے اوجھل ہے، با صلاحیت اہل علم دعاۃ کی ذمہ داری ہے کہ دعوت حق و دعوت توحید سے اس ناواقف حق و حقیقت معاشرہ کو اللہ خالق ارض و سماء، خالق کائنات اور اس کے عظیم حق’’ توحید عبادت‘‘ سے آگاہ و آشنا کریں ان کو ان کی اپنی زندگی کی غایت سے روشناس کرائیں،أخروی نجات اور اس کے حقیقی انجام سے آگاہ کریں اور ان پر حجت تمام کریں۔ ساتھ ہی مسلم معاشرہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کریں تا کہ مسلم معاشرہ اپنی تمام تراسلامی خصائص کے ساتھ زندہ و پائندہ اور تابندہ رہے۔
دعوت اور دعوتی امور کی اسی اہمیت کے پیش نظر کتاب اللہ اور احادیث نبویہ میں اس کی فضیلت اور اس کے اجر عظیم کا بیان وارد ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
(ولکل أمۃ جعلنا منسکا ہم نا سکوہ، فلا ینازعنک فی الأمر وادع إلی ربک إنک لعلیٰ ہدی مستقیم)
ترجمہ : اور ہر امت کے لئے ہم نے ایک طریقہ قربانی مقرر کیا ہے، جس کو وہ اپنانے والے ہیں، پس وہ تم سے امر دیں کو نزاع نہ کریں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیں، بلاشبہ آپ سیدھی اور معقول ہدایت پر ہیں۔
اللہ تعالی کا یہ قول دعوت کی فضیلت واہمیت اور اس کے اساسی ضوابط و آداب پر مشتمل ہے:
فلذلک فادع واستقم کما أمرت ولا تتبع أہواء ہم۔
اسی کے لئے آپ دعوت دیجئے اور استقامت اپنائیے جیساکہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور آپ ان کے خواہشات نفس کی پیروی مت کیجئے۔
اس مسلم معاشرہ میں امت داعیہ کا وجود ہونا چاہئے تاکہ وہ داعیانہ کردار کرنے اور رشد و ہدایت عام کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھائے۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے:ولتکن منکم أمۃ یدعون إلی الخیر ویأ مرون بالمعروف و ینہون عن المنکر، وأولٰئک ہم المفلحون(آل عمران)
دعوت کی فضیلت اور داعی کے مقام و مرتبہ کی بلندی کے لئے اللہ کا یہ فرمان کافی ہے:
ومن أحسن قولاً ممن دعاإلی اللہ وعمل صالحاً وقال إننی من المسلمین(حمٓ السجدہ) ترجمہ: اس شخص سے بہتر گفتگو کے اعتبار سے کون ہے؟ جو اللہ کی طرف دعوت دے اور صالح عمل کرے اور کہ بالیقین میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
دعوت إلی اللہ، دعوت الی الاسلام، دعوت إلی التوحید عمل کس قدر باعث اجر و ثواب ہے اس کا بیان احادیث نبویہ میں کچھ یوں ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجا اور انہیں توحید، إقامت صلاۃ اور ادائیگی زکاۃ کی دعوت کا حکم دیا۔
سہل بن سعد الساعدی کی روایت ہے کہ نبی ﷺ خیبر کے روز گفتگو میں فرمایا: پھر وہاں ان یہود کے پاس پہونچنے کے بعد انہیں اسلام کی دعوت دو اور ان کو ان کے اوپر اللہ کے واجب حق (توحید اور اس کے تقاضے) سے آگاہ اور باخبر کرو۔
قسم اللہ کی: اللہ تعالی تمہاری دعوت کی وجہ سے ایک انسان کو ہدایت عطا کردے تو یہ تمہارے لے سرخ چوپایوں(اونٹوں) سے بہتر رہے گا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی اس کے لئے اس کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے مانند اجر ہوگا۔ یہ ان متبعین ہدایت کے اجر و ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔
داعی کے اوصاف:
علم: داعی کو علم وفقہ فی الدین کی گہری معلومات ہونی چاہئے۔ ورنہ جہل کے ساتھ کسی داعی کی دعوت خالص توحید وسنت کی دعوت نہ ہوگی بلکہ بعض ایسے امور کی طرف وہ دعوت ہوگی جو خود منافی ایمان و توحید ہوں گے۔
بصیرت: دین و شریعت کی گہری سوجھ بوجھ کے ساتھ اس کے عواقب پر نظر ہونی چاہئے۔
رفق ولین: داعی کو دعوتی اسلوب میں رفق ونرمی اور گفتگو کی خوش بیانی سے کام لینا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ سخت کلامی سے احتراز کرنا چاہئے کہ اس سے فائدہ کی امید کم ہی ہوتی ہے۔
نرمی کا تعلق زبان کی گفتگو اور اسلوب سے ہے۔ ورنہ دعوت کے مضمون میں نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اصل دعوت توحید ہے تو اس کو بدل کر اصل دعوت اور اس کا موضوع إقامت اعراس اقامت مجالس موالید کو بنا لیا جائے۔
ایسی نرمی جس سے اصل مضمون دعوت ہی متاثر ہوجائے یہ تماشا ہے، دراصل دعوتی اسلوب مدعو کے حالات سے متاثر ہونا چاہئے، جیسا مدعو ہو ویسے اسلوب و انداز اختیار کیا جائے۔
اگر وہ خیرو صلاح کی طرف رغبت رکھتا ہے تو اس کو اساسیات دین و ایمان اور شعائر اسلام اور مکارم اخلاق کی باتیں سادہ و شیریں انداز میں بتا دی جائیں۔
اگر مدعو خیر و فلاح سے اعراض کرنے کی خو رکھتا ہے اسکا جھکاؤ شرور دفتن کی طرف زیادہ ہے تو اسکو بہتر مؤثر انداز میں موعظت کیجائے۔ اسے امور خیر و صلاح میں رغبت دلائی جائے ۔
اگر وہ خیر کی طرف راغب بھی نہیں ساتھ ہی بحث وتکرار کا خوگر ہے تو پھر اسکو دعوت پیش کرنے میں موعظت کے ساتھ بحث و جدال سے بھی کام لیا جائے گا۔ البتہ مسلم داعیہ کا طریقۂ بحث و جدال حسن و جمال کا آئینہ دار ہو۔
ایسے ہی سابقہ الذکر مدعوکے متعلق یہ آیت ہمیں سبق سکھاتی ہے( ادع إلی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی أحسن) اگر انسان اعراض و جہالت کا شکار ہو عناد و مخالفت اور استکبار و مکابرہ اور ظلم و عدوان پر آمادہ ہو تو ان کا معاملہ دیگر ہے ان سے حکومت وقت نپٹے گی اور وہ طریقہ اپنائے گی جو اسلام نے عطا کیا ہے۔ دعوت میں ترتیب اولویات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ الاہم فالأہم سے آغاز کیا جائے گا۔
دعوتی راہ کے مشکلات:دعوتی راہ ایک انتہائی مشکل ترین راہ ہے، اسمیں مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ تقدیری فیصلہ ہے کہ حق و باطل کی کشمکش جاری رہے گی۔ اسلئے دعوت حق کی راہ میں باطل پرست ہمیشہ روڑے اٹکاتے ہیں، شیطان اور اسکی ذریت کے علاوہ خود انسانوں بلکہ اسلام کے نام لیواؤں میں بہت سے طوائف وجماعات ہیں۔ یہ تمام درجہ بدرجہ دعوتی راہ میں مشکلات کے سبب ہیں۔
اساسی مشکلات اور بنیادی دشواریوں کا خلاصہ یہ ہے۔
۱۔ مسلمانوں کی اپنی ذات بھی بعض مشکلات پیدا کرتی ہے۔ انہیں میں منحرفین، شرک و بدعات کے رسیا، اخلاقیات میں پست، معاملات میں بہر نوع برائی کے شکار، بے نماز، نشہ خور، سودی کاروبار میں ملوث وغیرہ۔
۲۔ مسلمانوں کا آپسی اختلاف۔ مسلمانوں کے موجودہ عقائدی، مذہبی فقہی اختلاف نے دعوت پرسب سے زیادہ مضر اثر ڈالا ہے۔ غیر مسلم کبھی حیرت زدہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اسلام قبول کرے تو کس اعتقادی و فقہی مذہب کو اختیار کرے۔
۳۔ گمراہ اور باطل فرقوں کا وجود بھی راہ دعوت کا ایک بہت بڑا روڑا ہے، شیعیت۔ قبوریت و صوفیت اور اس سے بڑھ کر قادیانیت وغیرہ۔ دعوت إلی الاسلام کا وہ سنگ راہ ہے جو دعوت إلی اللہ کے لئے سم قاتل رہے۔
۴۔ دنیا میں اور بالخصوص بر صغیر میں مختلف دیانات کا وجود اس ارضی کائنات پر ان کی حرکت و نشاط اور اس راہ میں ان کی ہر طرح کی مالی اور مادی قربانیاں وغیرہ اور ان تمام کا صحیح دین، دین خالص توحید الوہیت سے حقدو عداوت دعوت کی راہ کا سب سے عظیم سنگ گراں ہے جو راہ حق میں حائل ہے۔
۵۔ اہل علم، اہل صلاح، اصحاب ورع، ارباب تقوی، گروہ علماء ودعاۃ کی قلت بھی کچھ کم مصیبت نہیں ہے، اسی لئے جہل کے مرکب اور قلت علم کے شکار، بلکہ بصیرت و تدبر سے عاری لوگ ضلال و اضلال کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔
۶۔ دنیاوی اعراض کے رسیا لوگوں کی بہتات ہے، ہر کوئی متاع الحیاۃ الدنیاکا بھوکا بھیڑیا ہے جس کو آسودگی ہونے والی نہیں ہے۔ اسی لئے ثمن قلیل کے عوض متاع دین اور علم الکتاب والسنۃ کی خریدو فروخت ہورہی ہے اور یہ سب کچھ دعوت وارشاد کے نام پرکھلے بندوں ہورہا ہے۔
اسی لئے پورا کاروبار دعوت کا خلاصہ’’عاملۃ ناصبہ‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔
No comments:
Post a Comment