Thursday, 7 July 2011

یہ سرپھرے حکمراں Editorial March 2011

شعور و آگہی
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری
یہ سرپھرے حکمراں
’’حکمراں بازار اور منڈی کی مانند ہوا کرتے ہیں، جس میں اگر سچائی، حسن عمل، انصاف پروری اور دیانت داری کے سامان فراہم کئے جائیں گے تو منفعت میں وہی سب کچھ حاصل ہوگا۔ لیکن اگر جھوٹ، گناہ،خیانت اور برائی کے سودوں کا چلن رہا تو وہی اشیاء واپس ملیں گی‘‘۔
آب زر سے لکھے جانے کے قابل یہ گراں قدر قول خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ہے، جسے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی ممتاز تصنیف ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ میں نقل فرمایا ہے۔
تیونس، مصراور لیبیا وغیرہ میں آنے والے انقلاب نے مجھے بے ساختہ اس قول زریں کی یاد دلا دی۔ واقعی مقام عبرت ہے، بیس، تیس اور چالیس برسوں تک مسلم ممالک پر حکمرانی کرنے والے لٹیرے: مصر کے حسنی مبارک، لیبیا کے معمر القذافی، تیونس کے زین العابدین بن علی اپنے اہل خاندان اور پارٹی کے گرگوں کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے اپنے ہی ملک کے برادران ملت کو لوٹتے رہے، آخر صبر کا پیمانہ جسے لبریز ہونا ہی تھا،وہ لبریز ہوا اور تخت و تاج کا جلال و شکوہ ، حکمرانی کی رفعت و عظمت اور ہوس اقتدار کی دلفریب لذت کچھ اس طرح خاک میں مل گئی کہ اب درست انداز میں نام لینا بھی کسی کو گوارہ نہیں۔
مذہب اسلام نے حکمرانی کے اصول و آداب متعین کئے ہیں، جن کی رعایت لازما ہونی چاہئے، ایک مسلمان حاکم، مِلک ، سلطان، امیر اور امام و رئیس کے لئے عادلانہ نظام کی ضمانت شرط اول ہے، وہ دین کی صحیح سمجھ رکھے، اس کے مطابق زندگی گذارے، معروف کو عملاً رواج دے اور منکر سے باز رکھنے کی پوری سعی کرے ،وہ ایسا دور اندیش اور صائب الرائے ہو کہ اپنے ملک کو دشمنوں کی اندورنی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ سکے۔
اگر اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھال سکا تو امید کی جانی چاہئے کہ امام عادل کے روپ میں اللہ کا محبوب ترین بندہ ۔أحب الخلق الی اللہ۔ (مسند احمد) قرار پائے گا۔ اسے عرش الٰہی کے سائے میں لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ (بخاری و مسلم)
وہ ’’سلطان مقسط‘‘ انصاف پرور حکمراں کی شکل میں جنت کی نعمتوں سے بھی سرفراز ہوگا۔ (صحیح مسلم)۔ اس کے برخلاف اگر وہ شر و فساد کا نمائندہ بن کر اتراتا رہا، حکمرانی کے زعم میں رعیت کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کا خوگر رہا، دین پسندوں کے لئے جینے کی راہ تنگ کرتا رہا، معروف و منکر کی تمیز سے بے پروا رہا، چراغ مصطفوی کی بجائے بولہبی کا شرارہ اسے عزیز رہا، تو پھر انجام وہی کچھ ہوگا جو آج ہم تیونس، مصر اور لیبیا وغیرہ میں دیکھ رہے ہیں۔
تیونس کا زین العابدین اپنے نام کے برعکس اسلام بیزار شخص تھا، اسلامی شعائر سے اسے چڑتھی، اس کے یہاں صلحاء و اتقیاء مبغوض تھے، اس کی بے وقعت سی ہیئر ڈریسر بیوی لیلیٰ دنیاداری کی چاہ میں مجنوں بن گئی تھی، جس کی پسند کے مطابق آئس کریم یورپ سے لانے کے لئے اس کا ذاتی بوئنگ جہاز تیار کھڑا رہتا تھا، انقلاب کے طوفان میں پھنس کر جان بچانے کے لئے بھاگتے ہوئے یہ شاطر خاتون ڈیڑھ ٹن سونے کا بوجھ بھی لاد لے گئی، اور اب یہ ٹھگ دیار غیر میں پناہ گزیں کی حیثیت سے مقیم ہیں۔
صدرحسنی مبارک مصر کا ناپسندیدہ حکمراں تھا۔ آتش و آہن کے زور پر اپنی تمام تر غلامانہ ذہنیت کے ساتھ اسلام پسندوں کے سینے پر سوار رہا، اسلام دشمنوں سے اس کی ہمیشہ سانٹھ گانٹھ رہی، وہ نوشتۂ دیوار پڑھ نہ سکا، اب نشان عبرت بن چکا ہے۔
کرنل معمر القذافی جیسا بے شعور حکمراں بھی عالم اسلام کے نصیب میں لکھا ہواتھا، درحقیقت یہ ایک سرپھرا انسان تھا،جسے معقولیت چھو بھی نہیں گئی تھی، یہ اپنی ’’کتاب اخضر‘‘۔ ہری کتاب ۔ کا سبزباغ دنیا کو دکھاتا رہا۔اپنے ملک کے ساتھ اشتراکیت۔کمیونزم ۔کا ٹانکا جوڑ رکھا تھا، اسے اپنی پاسبانی کے لئے نسوانی دست و بازو پر بھروسہ رہا، آج یہ محافظ خواتین اسے سہارا دینے کے لائق نہیں رہ گئی ہیں۔اس بددماغ نے اپنی حکمرانی کے طویل عرصے میں جو بویاتھا آج وہی کاٹ رہا ہے،مگروہ جو بھی کاٹ رہا ہے ظاہر ہے اس کے کھانے کے لائق نہیں ہوگا۔
عالم اسلام کے ان مسلم حکمرانوں کو ملت اسلامیہ کے درد کا درماں بننا تھا مگر یہ خود ہی ناسور بن گئے۔ ان مسلم ممالک میں آنے والے انقلاب کے اصل ذمہ دار ان کے بدنیت حکمراں رہے ہیں، مگر دشمنان اسلام کی عیاری وشہ زوری کہیں نہ کہیں اپنی جھلک دکھا رہی ہے، جو ان ملکوں کے لئے آنے والے ایام میں نقصان دہ ثابت ہوگی، جس پر مومنانہ بصیرت کے ساتھ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔اللہ عالم اسلام کو شروفساد سے محفوظ و مامون رکھے۔

No comments:

Post a Comment