Thursday, 7 July 2011

خوشگوار زندگی کا مفہوم March 2011

خوشگوار زندگی کا مفہوم
ایک انگریز مفکر کا قول ہے کہ ’’ جیل میں آہنی سلاخوں کے پیچھے سے بھی تمہارے لئے افق کے پار دیکھنا ممکن ہے اور یہ بھی کہ اپنی جگہ رہتے ہوئے جیب سے پھول نکال کر سونگھو اور مسکراؤ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم محل میں رہتے ہوئے دیبا و حریر پہن کر بھی چراغ پا ہوجاؤ ، ناراض رہواور بھڑکو اور اپنے گھر،کنبہ اوراہل خانہ پر ناراض ہوکر چلاؤ۔‘‘
خوش نصیبی کا تعلق زمان و مکان سے نہیں ایمان سے ہوتا ہے۔ اللہ کی اطاعت اور دل کی کیفیت میں خوشی کا راز پوشیدہ ہے۔ اللہ دل کو دیکھتا ہے۔ دل میں یقین ہوگا تو خوش نصیبی حاصل ہوگی جس سے دل و جان کو سکون ،راحت اور انشراح کی کیفیت حاصل ہوگی۔ پھر اس کا اثر پھیلے گا اور وسیع ہوگا اور پہاڑوں،وادیوں اور نخلستان تک دراز ہوگا۔
امام احمد بن حنبلؓ نے سعادت کی زندگی گزاری جب کہ ان کا کپڑا سفید اور پیوند لگا ہوتا تھا۔ اپنے ہاتھ سے اسے سی لیتے تھے۔ تین مٹی کے کمرے تھے جن میں سکونت تھی۔ غذاکیا تھی زیتون کے تیل کے ساتھ روٹی کے ٹکڑے، آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ سترہ سال تک جوتوں میں پیوند لگا کر اور ٹانک کر استعمال کرتے رہے۔ مہینہ میں ایک بارگوشت کھاتے زیادہ تر روزہ رکھتے، طلب حدیث میں کثرت سے سفر کرتے اس کے باوجود سکون و اطمنان قلب اور راحت حاصل تھی کیونکہ ثابت قدمی و خودداری تھی، انجام پر نظر، ثواب کی امید، اجر کے طالب، آخرت کے کوشاں اور جنت کے طلبگار تھے۔ آپ ہی کے زمانہ میں جن خلفاء نے ایک دنیا پر حکومت کی یعنی مامون، واثق ، معتصم اور متوکل نے، ان کے پاس محلات، قصر، سونا چاندی، خزانے، لشکر، جھنڈے، نشانات اور جائدادیں تھیں، خواہشات تھیں۔ اس کے باوجود زندگی کدورت بھری تھی، رنج و ملال، شورشیں، جنگیں، بغاوتیں اور شور و ہنگامے تھے۔ بعض سکرات موت میں اپنی کوتاہیوں پر نادم اور اللہ کے حضور سے شرمسار تھے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ شیخ الاسلام تھے۔ لیکن نہ بیوی بچے، نہ گھر بار، نہ کنبہ، نہ مال اور منصب، جامع بنی امیہ کے پاس ایک کمرے میں رہتے تھے۔ دن میں ایک روٹی کھاتے، دو کپڑے تھے جنہیں ادل بدل کر پہنا کرتے، کبھی مسجد میں سوجاتے، پھر بھی جیسا کہ خود ہی بیان فرماتے ہیں کہ ان کی جنت ان کے سینے میں تھی۔ ان کا قتل ان کے لئے شہادت تھا، جیل میں تنہائی میسر آتی، شہر سے ان کا اخراج سیاحت ہوگئی کیونکہ ان کے دل میں ایمان کا پودہ بڑھ کر تناور درخت بن گیا تھا اور برگ و بار لا رہا تھا۔ عنایت ربانی کا پانی اسے مل رہا تھا۔
’’ وہ ایسا چراغ ہے جو بغیر آگ کے چھوئے روشن ہورہا ہے۔ نور کے اوپر نور ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی ہدایت سے نوازتا ہے۔‘‘ ’’اللہ نے ان کی خطاؤں کا کفارہ کر دیا اور ان کا حال درست کردیا۔ ‘‘ ’’ جو ہدایت یاب ہوئے اللہ
نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا اور انہیں تقویٰ مرحمت فرمایا‘‘ ’’ تم ان کے چہروں میں نعمتوں کی شادابی پاؤگے۔‘‘
ابو ذرؓ مقام ربذہ کی طرف نکلے، اپنا خیمہ وہاں گاڑا، اپنی بیوی اور بیٹیوں کو وہا ں لے آئے۔ سال کے زیادہ دنوں میں روزہ رکھتے، اللہ کو یاد کرتے، خالق کی تسبیح بیان کرتے، عبادت کرتے، قرآن کی تلاوت کرتے اور اس میں غور فرماتے۔ دنیوی چیزوں میں ان کے پاس کیا تھا، ایک چادر، ایک خیمہ، چند بکریاں، ایک سینی، ایک پیالہ اور ایک ڈنڈا، ساتھیوں نے ایک روز زیارت کی اور کہنے لگے بھائی دنیا سے کوئی سرو کار نہیں؟ فرمایا: دنیا کی جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ میرے گھر میں ہے۔ نبی کریمﷺ ہمیں خبر دے چکے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک تنگ گھاٹی ہے جسے وہی پار کر سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ہلکا ہوگا۔
حضرت ابو ذرؓ شرح صدر کے ساتھ مطمئن دل والے تھے۔ اتنی دنیا رکھتے تھے جتنے کی ضرورت تھی۔ ضرورت سے زیادہ کو وہ بوجھ، ذمہ داری اور رنج و فکر کا باعث سمجھتے تھے۔ میں نے ایک قصیدہ لکھا ہے بہ عنوان’’ ابو ذرؓ فی القرن الخامس فی العشر‘‘ جس میں ابو ذرؓ کی غریب الوطنی، توحید اور روح و فکر کے باوجود ان کی خوش نصیبی کے بارے میں گفتگو کی ہے:
انہوں نے میرے ساتھ لطف کرم کیا میں نے ان کو دھمکایا۔ انہوں نے موت کی دھمکی دی میں نے لطف کا معاملہ کیا۔ انہوں نے مجھے سوار کیا میں اتر پڑا کہ اپنے ارادوں کو پورا کروں تو انہوں نے مجھے ارادہ سے روکا، میں حق کے راستے میں چل پڑا، میں موت کا پیچھا کررہا ہوں وہ بھاگ رہی ہے، میں موت کی گھاٹی کوعبور کرہا ہوں وہ سورہی ہے،صحرا میری غربت پر روتا ہے اور کہتا ہے ابو ذر ! ڈرو نہیں حوصلہ رکھو ۔ میں نے اس سے کہاجب تک میرا ایمان توانا اور مضبوط ہے میں مر نہیں سکتا۔ میں نے اپنے دوست اور آقاﷺ سے عہد کیا ہے اور ان سے تعلیم پائی ہے۔
خوش بختی کی حقیقت کیا ہے
’’ دنیا میں اجنبی اور مسافر رہو، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لئے، خوشبختی عبدالملک بن مروان کا محل، ہارون رشید کی فوجیں، ابن الجصاص کی کوٹھیاں، قارون کے خزانے، ابن سینہ کی کتاب الشفاء یا متنبی کا دیوان نہیں۔ نہ قرطبہ کی باغ اور الزہرا کی مر غزار ۔ خوش نصیبی صحابہؓ کے ہاں کم آمدنی، سادہ زندگی، قلت ذرایع اور کفایت شعاری تھی۔ خوش نصیبی ابن المسیب کے ہاں خدا سے محبت امام بخاری کے ہاں ان کی الصحیح حسن بصریؒ کے یہاں صدق اور امام شافعی ؒ کے یہاں اجتہاد امام مالک ؒ کے ہاں مراقبہ ، امام احمد بن حنبلؒ کے ہاں تقویٰ اور ثابت بنائیؒ کے ہاں عبادت تھی۔ ’’یہ اس لئے کہ انہیں اللہ کے راستے میں جو پیاس، تکان اور مشقت لاحق ہوئی اور کفار کو غیظ و غضب میں مبتلا کرنے والا جو بھی قدم اٹھا اور ان کا جو بھی نقصان ہوا اس کے بدلے ان کے حق میں عمل صالح کا اندراج کر لیا گیا۔ ‘‘
خوش بختی بھنائے جانے والے چیک میں نہیں ، خریدے جانے والے جانور میں نہیں۔ نہ وہ کوئی پھول ہے جسے سونگھا جائے، نہ تولا جانے والا گیہوں اور پھیلایا جانے والا کپڑا ہے۔ خوشی تو یہ ہے کہ دل اس حق پر مطمئن ہو جس کا آدمی حامل ہے۔ جو فکر اس نے اختیار کی ہے اس پر سینہ کھلا رہے اور قلب خیر کے کام پر راحت محسوس کرے۔
ہم سمجھا کرتے ہیں کہ جتنے زیادہ ہمارے پاس مکان ہوں گے۔ زیادہ چیزیں ہوں گی، مرغوبات اور پسندیدہ چیزیں میسر ہوں گی اتنا ہی ہم خوش و خرم اور شادمان ہوں گے، لیکن یہ چیزیں کدورت فکر اور اندازہ کا سبب ہی بنتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی چیز کدورت رنج، اندازہ اور مشقت کے بغیر نہیں ملتی۔
’’ اپنی آنکھیں ان دنیاوی اسباب کی طرف مت اٹھاؤ جو ہم نے ان کو دے رکھی ہیں تا کہ ہم انہیں آزمائیں۔‘‘ (۲۰:۱۳۱)
دنیا کے سب سے بڑے مصلح اور ہادی رسول اکرم ﷺ نے فقر کی زندگی گزاری، آپ بھوک سے کروٹیں بدلتے ۔ اتنی کھجوریں بھی نہ پاتے جس سے بھوک مٹ جائے۔ اس کے باوجود آپ جس نعمت، آرام، راحت، انبساط اور قلبی سکون و طمانیت کے ساتھ رہتے اس کی حد اللہ ہی جانتا ہے۔
’’ ہم نے تمہارا بوجھ اتار دیا جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی۔‘‘ ( ۹۴:۲۔۳) ’’ اللہ کا فضل آپ پر عظیم تھا‘‘ (۴:۱۱۳) ’’ اللہ کے علم میں ہے کہ رسول کسے بنایا جائے۔‘‘ (۶:۱۲۴)
حدیث صحیح میں ہے’’ نیکی حسن اخلاق کا نام ہے گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم یہ پسند نہ کرو کہ لوگ اسے جان لیں۔ ’’ نیکی سے ضمیر کو راحت اور نفس کو سکون ملتا ہے۔ حتی کہ بعض لوگوں نے کہا:
زمانہ کتنا ہی دراز ہوجائے نیکی باقی رہتی ہے۔ گناہ سب سے بری زاد راہ ہے ، حدیث میں یہ بھی ہے ’’ نیکی سے سکون اور گناہ سے خلش پیدا ہوتی ہے۔‘‘ نیکو کا رصاف طور پر اطمینان و سکون سے رہتا ہے اور شک و شبہ میں مبتلا آدمی حادثات، اندیشیوں اور حرکات و سکنات سے ہی خوفزدہ رہتا ہے۔‘‘ یہ ہر آواز کو اپنی ہی خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘ اس کا سبب بس اس کا گناہ ہے کیونکہ گنہگار کو تو قلق، اضطراب اور اندیشیوں کا گرفتار ہونا ہی ہے:
جب آدمی کے کام برے ہوں تو اس کے گمان بھی برے ہوجاتے ہیں۔ اور اسے جو وہم و گمان ہوتا ہے اسے وہ سچ سمجھ بیٹھتا ہے۔ خوشی کی جستجو کا ایک ہی نسخہ ہے کہ ہمیشہ بھلائی کی جائے اور برائی سے بچا جائے تا کہ امن چین ملے:
’’ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم(شرک) سے آلودہ نہیں کیا ایسوں کے لئے ہی امن ہے اور وہی ہدایت یاب ہیں۔‘‘ (۶:۸۲)
ایک سوار گھوڑا دوڑتا ہوا آیا اس کا سر بھی گرد وغبار سے اٹا ہوا تھا۔ اسے سعد بن ابی وقاصؓ کی تلاش بھی جنہوں نے جنگل میں ڈیرہ ڈال رکھا تھا جہاں شہر کے ہنگاموں اور تمدن کی آلودگیوں سے بالکل الگ تھلگ وہ اپنے بال بچوں اور بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ مقیم تھے۔ سوار قریب آیا تو پتہ چلا کہ وہ ان کا بیٹا عمر ہے۔ بیٹے نے باپ سے کہا ابا جان آپ بکریاں چرا رہے ہیں اور لوگ حکومت کے لئے چھینا جھپٹی میں لگے ہیں۔ فرمایا: شرک کرنے والوں سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بلا شبہ میں خلافت کا اس سے بھی زیادہ مستحق ہوں جتنا اس چادر کا جو میں نے اوڑھ رکھی ہے۔ لیکن میں نے اپنے آقاﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’ اللہ اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو صاحب تقویٰ بے نیاز اور گمنام ہو۔‘‘ مسلمان کے لئے ایمان کی سلامتی قیصرو کسریٰ کی شہنشاہیت سے بھی بڑی ہے۔ کیونکہ آپ کے ساتھ دین ہی رہے گا جو آپ کو جنت میں داخل کرا دے گا حکومت و سلطنت تو لا محالہ زائل ہو جائے گی۔
***

No comments:

Post a Comment