Thursday, 7 July 2011

رازداری March 2011

ڈاکٹر عبدالرحمن العریفی
رازداری
پرانی کہاوت ہے: ’’ ہر وہ راز جو دو سے تجاوز کرجائے پھیل جاتا ہے۔‘‘
پوچھا گیا کہ دو سے کیا مراد ہے تو جواب آیا کہ دو سے مراد دونوں ہونٹ ہیں۔
میری عمر پینتیس سال ہے۔ ان پینتیس سالوں میں آج تک مجھے یاد نہیں کہ میں نے کسی آدمی کے کان میں کوئی راز کی بات کہہ کر اس سے رازداری کی درخواست کی ہو اور اس نے چند موٹی موٹی قسمیں کھاکر مجھے یقین نہ دلایا ہو کہ تمہارا راز ایک ایسے کنویں میں ڈال دیا گیا ہے جس کی گہرائی کی کوئی انتہا نہیں۔
اسی طرح مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ کسی نے میرا راز سن کر صاف صاف کہہ دیا ہو کہ ’’محمد بھائی معاف کرنا، میں آپ کے راز کو راز نہیں رکھ سکوں گا۔‘‘
اس کے برعکس ہر وہ شخص جسے آپ اپنا راز بتا رہے ہوں، سینے پر ہاتھ رکھ کر کہے گا، قسم ہے رب ذوالجلال کی! لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دیں۔ یا میری گردن پر تلوار رکھ کر کہیں کہ میں تمہارا راز افشا کردوں تو بھی نہ بتاؤں گا۔‘‘
پھر آپ اس کی باتوں سے مطمئن ہوجاتے ہیں اور بھروسہ کرکے اسے اپنے اسرار سے آگاہ کردیتے ہیں۔ وہ مہینہ دو مہینے بمشکل صبر کرتا ہے، پھر آپ کا راز کھول دیتا ہے۔راز لوگوں کے درمیان گھومتا رہتا ہے اور گھومتا گھومتا آپ تک جاپہنچتا ہے۔ دراصل قصور لوگوں کا نہیں، قصور آپ کا ہے۔ ابتدا آپ ہی نے کی۔ یہ کیوں کرمناسب تھا کہ آپ کا راز آپ کے ہونٹوں کے حدود پار کر جاتا۔
لوگوں پر اتنابوجھ ڈالنا چاہئے جتنا وہ اٹھا سکتے ہوں۔
اذا ضاق صدر المرء عن سر نفسہ
فصدر الذی یستودع السر اضیق
’’ جب آدمی کا سینہ اپنے ہی راز کیلئے تنگ پڑجائے تو اس شخص کا سینہ جسے وہ یہ راز سپرد کرے، زیادہ تنگ ہوگا۔‘‘
خود میں نے کئی لوگوں کو آزمایا اور انہیں ایسا ہی پایا ہے۔ آپ ان کے پاس کسی معاملے میں مشورہ کرنے جاتے ہیں ۔وہ آپ کومشورہ دے دیتے ہیں۔ پھر آپ کا راز فاش کردیتے ہیں اور آپ کی نظروں سے گرجاتے ہیں۔ آپ کو ان سے شدید نفرت ہوجاتی ہے۔ تاریخ میں اس سلسلے کا ایک دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے۔
’’معرکۂ بدر سے قبل جب رسول اللہ ﷺ نے یہ سنا کہ شام سے قریش کا ایک قافلہ آرہا ہے تو آپ نے اس پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا۔ آپ اپنے اصحاب کے ہمراہ قافلے کی جانب روانہ ہوئے۔ قافلے کے رہبر ابوسفیان کو مسلمانوں کی پیش قدمی کاپتہ چلا تو اس نے ضمضم بن عمرونامی ایک شخص کو اجرت پر مکے روانہ کیا اور کہا کہ فوراً جاؤ اور قریش کو صورت
حال سے آگاہ کرو۔ ضمضم نہایت برق رفتاری سے مکہ روانہ ہوا۔ مکہ پہنچنے کیلئے اسے کئی دنوں کا سفر طے کرنا تھا۔ اُدھراہل مکہ کو درپیش خطرے کی کوئی خبر نہ تھی اس دوران ایک رات عاتکہ بنت عبدالمطلب نے ایک پریشان کن خواب دیکھا۔ صبح ہوئی تو اس نے اپنے بھائی عباس بن عبدالمطلب کو بلا بھیجا۔ وہ آئے تو اس نے کہا یا اخی میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے جس نے مجھے گھبرا دیاہے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہیں اس خواب کے بعد آپ کی قوم پر کوئی مصیبت نہ آن پڑے۔ جو کچھ میں آپ سے کہوں اسے راز رکھئے گا اور کسی کو نہ بتائیے گا۔
عباس نے کہا ’’ہاں! ٹھیک ہے ! اب بتاؤ تم نے کیا دیکھا ہے؟‘‘
عاتکہ بولی: ’’ میں نے ایک شتر سوار آتے دیکھا۔ وہ آیا اور وادی ابطح میں ٹھہر کر بآواز بلند پکارا۔ ’’سنو ارے او بے وفاؤ! تین دن کے اندر اپنی اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاؤ۔‘‘
پھر میں دیکھتی ہوں کہ لوگ اس آدمی کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ اس کے بعد وہ چلتا ہوا مسجد میں داخل ہوگیا۔ لوگ بھی اس کے پیچھے پیچھے مسجد میں آگئے۔ دریں اثناء کہ لوگ اس کے چاروں طرف کھڑے تھے، اس کا اونٹ اپنے سوار کو لئے کعبہ کی چھت پر جا چڑھا۔ کعبہ پر کھڑے ہوکر اس آدمی نے پھر وہی اعلان کیا ’’ارے او بے وفاؤ! تین دن کے اندر اپنی اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاؤ۔‘‘
پھر وہ آدمی اونٹ پر سوار جبل ابوقبیس کی چوٹی پر چڑھ گیا۔ وہاں بھی اس نے وہی الفاظ دہرائے۔ ’’ارے او بے وفاؤ! تین دن کے اندر اپنی اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاؤ۔‘‘
پھراس نے ایک چٹان اٹھائی اور پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دی۔ چٹان لڑھکتی ہوئی پہاڑ کے دامن میں پہنچی تو ریزہ ریزہ ہوکر کنکروں میں بٹ گئی اور مکہ کا کوئی گھر ایسا نہ بچا جس میں چٹان کا کوئی کنکر نہ گرا ہو۔‘‘
خواب سن کر عباس بے قرار ہوگئے اور کہا ’’بخدا! یہ ایک اہم خواب ہے۔‘‘
پھر انہیں خدشہ ہوا کہ خواب کی بات کھل جائے گی، چنانچہ انہوں نے عاتکہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ’’تم بھی اس خواب کو پیٹ میں رکھنا اور کسی سے اس کا ذکر مت کرنا۔‘‘
پھر عباس خواب کے متعلق بے فکر ہوگئے۔ گھر سے نکلے تو راستے میں ان کا دوست ولید بن عتبہ انہیں ملا۔ عباس نے سارا خواب ولید کو کہہ سنایا اور ساتھ ہی تاکید بھی کی کہ اسے پوشیدہ ہی رکھنا اور کسی کو اس کی خبر نہ کرنا۔ ولید چلا گیا۔ اس کی ملاقات اپنے بیٹے عتبہ سے ہوئی تو اس نے خواب عتبہ کو بتا دیا، پھر زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ عتبہ نے اپنے چند ساتھیوں کو بھی خواب سے مطلع کردیا۔ ہوتے ہوتے سب لوگوں کو خواب کا پتہ چل گیا اور بات اہل مکہ میں پھیل گئی، حتی کہ قریش کی عام محفلوں میں بھی عاتکہ کے خواب کا تذکرہ ہونے لگا۔ چاشت کے وقت عباس کعبہ کا طواف کرنے گئے، ابوجہل کعبہ کے سائے میں قریش کی ایک ٹولی میں بیٹھا تھا۔ وہ لوگ عاتکہ کے خواب کے بارے میں تبادلۂ خیال کررہے تھے۔
ابوجہل نے عباس کو دیکھا تو کہا ’’ابوالفضل!طواف سے فارغ ہوجاؤ تو ہماری طرف آنا‘‘۔ عباس کو حیرانی ہوئی کہ ابوجہل کو ان سے کیا کام ہوسکتا ہے۔ انہیں بالکل توقع نہ تھی کہ ابوجہل ان سے عاتکہ کے خواب کے حوالے سے کوئی بات پوچھے گا۔ بہر کیف عباس نے طواف مکمل کیا اور ابوجہل کی مجلس کی جانب بڑھے۔ قریب آکر ان کے درمیان بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے ان سے کہا ’’بنو عبدالمطلب! یہ نبیہ (نبی عورت) تم میں کب پیدا ہوئی ہے؟
عباس نے پوچھا’’ کیا مطلب؟‘‘
اس نے کہا ’’وہ خواب عاتکہ نے دیکھا ہے‘‘
اس پر عباس ذرا گھبرائے اور انجان بنتے ہوئے سوال کیا ’’ کیا دیکھا ہے عاتکہ نے؟‘‘
ابوجہل بولا ’’بنوعبدالمطلب! کیا اس بات سے تمہارا دل نہیں بھرا تھا کہ تمہارے مرد نبوت کا دعویٰ کریں؟ اب تمہاری عورتیں بھی نبی ہونے کا دعویٰ کرنے لگی ہیں۔عاتکہ کہتی ہے کہ اس نے خواب میں دیکھا ہے، ایک آدمی کہہ رہا تھا ’’ارے او بے وفاؤ!تین دن کے اندر اپنی اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاؤ‘‘ ٹھیک ہے ہم تین انتظار کرتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہوئی تو ایسا ہوکر رہے گا اور اگر تین دن گزرنے کے بعد ایسی کوئی بات نہ ہوئی تو ہم تم لوگوں کے متعلق ایک تحریر لکھیں گے کہ تم عرب کا سب سے جھوٹا خاندان ہو۔‘‘
یہ سن کر عباس بہت پریشان ہوئے اور کوئی جواب نہ دیا، تاہم انہوں نے خواب کی تردید کی اور اس بات کا انکار کیا کہ عاتکہ نے کچھ دیکھا ہے۔ پھر مجلس برخاست ہوگئی ہے۔ عباس گھر آئے تو بنی عبدالمطلب کی تمام خواتین ان کے پاس نہایت غصے کی حالت میں آئیں اور ہر ایک نے یہی کہا: ’’اس فاسق خبیث (اشارہ ابوجہل کی طرف تھا) نے تمہارے مردوں کی بے عزتی کی اور تم چپ رہے۔ اب وہ تمہاری عورتوں کی بے عزتی کرنے پر اتر آیا ہے اور تم خاموش کھڑے سنتے رہتے ہو۔ تم لوگوں میں غیرت و حمیت نام کی بھی کوئی شئے ہے کہ نہیں؟‘‘
لعنت و ملامت سن کر عباس نے جوش اور غیرت میںآکر کہا :’’ واللہ ! ابوجہل نے دوبارہ ایسی بات کی تو میں اس کی ایسی تیسی کردوں گا۔‘‘
عاتکہ کے خواب کے تیسرے روز عباس مسجد میں آئے۔ وہ غصے میں تھے۔ مسجد میں انہوں نے ابوجہل کو دیکھا تو اس کے در پے ہوئے کہ وہ اپنی بات واپس لے۔ ابوجہل نے عباس کے تیور دیکھے تو مسجد سے دوڑ لگادی۔ عباس کو اس کی برق رفتاری پر بڑا تعجب ہوا۔ وہ تو آج ابوجہل سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے تیار ہوکر آئے تھے۔ عباس نے دل ہی دل میں کہا۔ ’’اللہ اس پر لعنت کرے ! اسے کیا ہوا؟ کیا یہ میری سرزنش کے ڈر سے بھاگا ہے؟‘‘۔
راستے میں ابوجہل کو ضمضم بن عمر و غفاری کی آواز سنائی دی جسے ابوسفیان نے اہل مکہ سے مدد مانگنے بھیجا تھا۔ ضمضم اونٹ پر سوار وادی میں شور مچاتا پھر رہا تھا۔ اس نے اونٹ کی ناک کاٹ رکھی تھی جس سے خون بہہ رہا تھا۔ ضمضم نے اپنا گریبان چاک کیا اور چلایا: ’’ اے اہل قریش! تجارتی قافلہ، تجارتی قافلہ، ابوسفیان کے پاس تمہارے مال و متاع پر محمد اور اس کے ساتھی حملہ کرنے والے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ تم وقت پر پہنچ کر انہیں روک لوگے۔‘‘
پھر ضمضم پوری طاقت سے چیخا‘ ’’مدد،مدد۔‘‘
اہل قریش نے فی الفور تیاری کی اور نکل کھڑے ہوئے۔بدر کے معرکے میں جو شکست اور ذلت ان کا مقدر بنی وہ سب کو معلوم ہے۔
یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ غیر معمولی احتیاط کے باوجود ایک لمحے میں جنگل کی آگ کی مانند پھیل گیا۔
اسی نوع کا ایک اور واقعہ سماعت کیجئے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انہوں نے چاہا کہ یہ بات پھیل جائے اور سب لوگ جان لیں کہ عمر مسلمان ہوگیا ہے۔ وہ قریش کے ایک آدمی کے پاس گئے جو ہر بات کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مشہور تھا اور اس سے کہا: ’’اے فلاں، میں تمہیں ایک راز کی بات بتانا چاہتا ہوں۔ اسے پوشیدہ رکھنا اور کسی سے نہ کہنا۔‘‘
وہ بولا: ’’ کیا بات ہے؟‘‘
عمر نے کہا: ’’میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ ہوشیار رہنا۔ اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔‘‘
یہ کہہ کر عمر واپس ہوگئے۔ ابھی وہ اس آدمی کی نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس نے لوگوں میں پھر پھر کر ہر ایک سے کہنا شروع کردیا:
’’کچھ خبر ہے؟ عمر مسلمان ہوگیا ہے۔ جانتے ہو عمر مسلمان ہوگیا ہے؟‘‘
ایک روز رسول اللہ ﷺ نے انس رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے بھیجا۔
راستے میں انہیں ان کی والدہ ملیں۔ انہوں نے انس سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے تجھے کس کام سے بھیجا ہے؟
انس نے جواب دیا: ’’واللہ! میں رسول اللہﷺ کا راز افشا نہیں کروں گا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کرام کو رازداری کی تربیت دی تاکہ وہ دور خلافت کی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہوسکیں۔
انس رضی اللہ عنہ صغر سنی ہی میں حفظ اسرار کے اس اصول پر سختی سے کاربند تھے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں۔ ان کی چال ہوبہو نبی ﷺ جیسی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مرحبا کہا اور انہیں اپنے دائیں یا بائیں بٹھا لیا، پھر آپ نے چپکے سے فاطمہ سے کوئی بات کہی، وہ سن کر رو پڑیں۔ میں نے ان سے کہا:
’’کیوں روتی ہو؟‘‘
رسول اللہ ﷺ نے پھر ان سے کوئی بات رازدارانہ کہی تو وہ ہنس پڑیں۔ میں نے کہا: میں نے ایسی خوشی آج تک نہیں دیکھی جو غم سے اتنی قریب ہو۔‘‘ میں نے فاطمہ سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے ان سے کیا کہا تھا۔ انہوں نے صاف جواب دیا: ’’میں رسول اللہ ﷺ کا راز فاش نہیں کرسکتی۔‘‘
نبی ﷺ کی وفات کے بعد میں نے فاطمہ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا: ’’رسول اللہ ﷺ نے پہلی بات یہ کہی تھی کہ جبریل مجھ سے سال میں ایک بار قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ اس مرتبہ انہوں نے دوبار قرآن کا دور کیا ہے۔ ان کے اس فعل سے میں نے یہی اندازہ لگایا ہے کہ میرا وقت اب قریب آگیا ہے۔ تم میرے گھرانے میں سب سے پہلے مجھ سے ملوگی۔یہ سن کر میں رو پڑی۔‘‘
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں پسند نہیں کہ اہل جنت یا مومنین کی عورتوں کی سردار (سیدہ) بنو۔‘‘ اس پر میں ہنس دی۔
جس قدر آپ راز کو راز رکھنا سیکھیں گے لوگ اسی قدر آپ پر اعتماد کریں گے اور آپ کیلئے اپنے دلوں کے قفل کھولیں گے۔ ان کے نزدیک آپ کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگا اور وہ آپ کو ثقہ و امانت دار سمجھیں گے۔
اس لئے نفس کو اپنے راز روک کر رکھنے اور دوسروں کے اسرار کی حفاظت کرنے کا عادی بنائیں۔
اہل دانش کا قول
’’جس نے تمہارا راز جان لیا اس نے گویا تمہیں اسیر کرلیا۔‘‘

2 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. Assalam o Alaikum wa Rahmatullah e wa Barakatoho,
    Ezzat M,aab Muhtram Shaikh sahib! I am student of PhD Islamic Studies
    in Sargodha University.My topic for PhD thesis is " PUNJAB MAEN ULOOM
    UL QURANWA TAFSEER UL QURAN PER GHAIR MATBOOA URDU MWAD'' please guide
    me and send me the relavent material.I will pray for your success and
    forgiveness in this world and the world hereafter.
    Jzakallah o khaira.
    hopful for your kindness.
    your sincerely and Islamic Salfi brother,
    RafiudDin
    Basti dewan wali street Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar.
    Email: drfi@ymail.com, rafiuddinqamar@gmail.com mob:03336750546,03016998303

    ReplyDelete