ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائک
صرف
اسلام هى كى پيروى كيو ں؟
’’تمام مذاہب لوگوں کو اچھے کام کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، پھر ایک شخص کو
اسلام ہی کی پیروی کیوں کرنی چاہیے؟ کیا وہ کسی دوسرے مذہب کی پیروی نہیں
کرسکتا؟‘‘
تمام مذاہب بنیاوی طور پر انسان کو صحیح راہ پر چلنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن اسلام ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ ہمیں صحیح راہ پر چلنے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے برائی کو خارج کرنے میں عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام انسانی فطرت اور معاشرے کی پیچیدگیوں کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اسلام خود خالق کائنات کی طرف سے رہنمائی ہے، اسی لئے اسلام کو دین فطرت، یعنی انسان کا فطری دین کہا گیا ہے۔ اسلام اور دوسرے مذاہب کا بنیادی فرق درج ذیل امور سے واضح ہوتا ہے:
اسلام اور ڈاکہ زنی کا تدارک
تمام مذاہب کی تعلیم ہے کہ ڈاکہ زنی اور چوری ایک برا فعل ہے۔ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے، پھر اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ اسلام اس تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ کہ ڈاکہ زنی اور چوری برا کام ہے، ایسا سماجی ڈھانچا بھی فراہم کرتا ہے جس میں لوگ ڈاکے نہیں ڈالیں گے۔ اس کے لئے اسلام درج ذیل انسدادی اقدامات تجویز کرتا ہے:
*زکوٰۃ کا حکم:اسلام انسانی فلاح کے لئے زکوٰۃ کانظام پیش کرتا ہے۔ اسلامی قانون کہتا ہے کہ ہر وہ شخص جس کی مالی بچت نصاب، یعنی85گرام سونے یا اس کی مالیت کو پہونچ جائے تو وہ ہر سال اس میں سے اڑھائی فیصد اللہ کی راہ میں تقسیم کرے۔ اگر ہر امیر شخص ایمانداری سے اس پر عمل کرے تو اس دنیا سے غربت،جو ڈاکہ زنی کی اصل محرک ہے، ختم ہو جائے گی اور کوئی شخص بھی بھوک سے نہیں مرے گا۔
*چوری کی سزا: اسلام چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹنے کی سزادیتا ہے۔ سورۂ مائدہ میں ہے:
(وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوٓاْ أَیْدِیَہُمَا جَزَآءً بِمَا کَسَبَا نَکالاً مِّنَ اللہِ، وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمُ)
’’ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ اللہ کی طرف سے ان دونوں کے کئے ہوئے جرم کی سزا ہے۔ اور اللہ بہت طاقتور اور بہت حکمت والا ہے۔‘‘
اس پر غیر مسلم یہ کہہ سکتے ہیں کہ’’20ویں صدی میں ہاتھ کاٹے جائیں؟ اسلام تو ایک ظالم اور وحشیانہ مذہب ہے۔‘‘ لیکن اس کی یہ سوچ سطحی اور حقیقت سے بعید ہے۔
* عملی نفاذ: امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے وہاں جرائم،چوری،ڈکیٹی وغیرہ کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ فرض کریں کہ امریکہ میں اسلامی شریعت نافذ کی جاتی ہے اور ہر امیر آدمی نصاب کے مطابق، یعنی 85گرام سونے سے زائد مال پر ہر سال زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور ہر چور کا ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیا جاتا ہے تو کیا امریکہ میں چوری اور ڈکیتی کی شرح بڑھ جائے گی، کم ہوجائے گی یا اتنی ہی رہے گی؟ یقیناً یہ کم ہوگی۔ مزید برآں یہ سخت قانون ممکنہ چوروں کو ارتکاب جرم سے روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
میں اس بات سے متفق ہوں کہ اس وقت دنیا میں چوری کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر قطع ید کی سزا نافذ کی گئی تو لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے۔ لیکن یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ جونہی آپ اس قانون کو نافذ کریں گے، چوری کی شرح فوری طور پر کم ہوجائے گی، تا ہم اس سے پہلے اسلام کا نظامِ زکوٰۃ کار فرما ہو اور معاشرے میں صدقات و خیرات اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور غریبوں اور ناداروں کی مدد کا جذبہ فراواں ہو اور پھر سزاؤں کا نظام نافذ ہو تو چوری کرنے والا چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا کہ وہ اپنا ہاتھ کٹنے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔ عبرتناک سزا کا تصور ہی ڈاکوؤں اور چوروں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ بہت کم لوگ چوری کریںیا ڈاکہ ڈالیں گے، پھر چند ہی عادی مجرموں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور لاکھوں لوگ چوری اور ڈکیتی کے خوف کے بغیر سکون سے رہ سکیں گے۔ اس طرح اسلامی شریعت کے عملی نفاذ سے خوشگوار نتائج بر آمد ہوں گے۔
عورتوں کی عصمت دری کا سد باب
تمام بڑے مذاہب کے نزدیک عورتوں سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی عصمت دری ایک سنگین جرم ہے۔ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے، پھر اسلام اور دوسرے مذاہب کی تعلیمات میں فرق کیا ہے؟ فرق اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اسلام محض عورتوں کے احترام کی تلقین ہی نہیں کرتا اورخواتین سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی عصمت دری جیسے سنگین جرائم سے نفرت ہی نہیں کرتا بلکہ اس امر کی بھر پور رہنمائی بھی کرتا ہے کہ معاشرے سے ایسے جرائم کا خاتمہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ درج ذیل زریں اصول ملاحظہ کیجیے:
*مردوں کے لئے حجاب: اسلام کے حجاب کا نظام اپنی مثال آپ ہے۔ قرآن مجید پہلے مردوں کو حجاب کا حکم دیتا ہے اور پھر عورتوں کو۔ مردوں کے حجاب(پردہ) کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے:
(قُل لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُواْ فُرُوْجَہُمْ، ذَالِکَ أَزْکیٰ لَہُمْ، اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ)
’’( انے نبی!)مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے بہت پاگیزگی کی بات ہے۔ اور اللہ ان تمام باتوں سے بخوبی واقف ہے جو وہ کرتے ہے۔‘‘
اسلام کہتا ہے کہ ایک شخص کسی غیر محرم عورت کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ فوراً اپنی نگاہیں نیچی کرلے،عورتوں کے لئے حجاب: عورتوں کے حجاب کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے:
(وَقُل لِلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أبْصارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُو جَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَیٰ جُیُوْبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ ءَ ا بَآ ءِہِنَّ أَوْ ءَ ا بَآءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِہِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ اِخْوَٰ نِہِنَّ أَوْ بَنِیٓ إِخْوَٰنِہِنَّ أَوْبَنِیٓ أَخَوَٰتِہِنَّ أَوْ نِسآ ءَہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمٰنُہُنَّ أَوِالتّٰبِعِیْنَ غَیْرَ أُوْلِی اْلْأِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُواْ عَلَیٰ عَوْرَاتِ النِّسَآءِ)
’’ (اے نبی) مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی نمائش نہ کریں سوائے اس کے کہ جو از خود ظاہر ہو۔ اور ان کو چاہیے کہ اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہر پر یا اپنے باپ پر یا اپنے سسر پر یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی (مسلمان) عورتوں پر یا اپنے دائیں ہاتھ کی ملکیت (کنیزوں) پر یا عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے نوکروں پر یا عورتوں کی چھپی باتوں سے نا واقف لڑکوں پر۔ اور وہ (عورتیں) اپنے پاؤں زور زور سے زمین پر مارتی نہ چلیں کہ ان کی زینت ظاہر ہو جائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
حجاب کہ حد یہ ہے کہ تمام جسم ڈھکا ہوا ہو۔ صرف چہرہ اور ہاتھوں کی کلائیاں کھلی رکھی جا سکتی ہیں یہ بات قطعی طور پر غلط ہے چہرہ اور ہاتھوں کی کلائیاں بھی پردہ کے حکم میں داخل ہے اس کو چھپانا ضروری ہے ،اس لئے کہ چہرہ ہی مظہر حسن و جمال ہے اور کلائیوں کا حسن مشہور ہے اس لئے مضمون نگار کا کتاب وسنت کی کی کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ چہرہ اور ہتھیلی رکھی جائے، اس موضوع پر ثقہ علماء کرام کی تحریریں اور ان کے فتاوے موجود ہیں شیخ محمد صالح العثیمین اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہما اللہ وغیرھما(از: مدیر) ۔
اور اگر عورتیں چاہیں تو وہ ان اعضاء کو بھی ڈھانپ سکتی ہیں، تا ہم بعض علماء اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ چہرہ ڈھانپنا بھی لازم ہے۔( اور یہی موقف قرین صواب ہے)۔
*حفاظتی حصار: اللہ تعالیٰ حجاب کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اس کی وضاحت سورۂ احزاب کی مندرجہ ذیل آیت میں کی گئی ہے:
(یَٓأَیّْہَا اْلنَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَٰاجِکَ وَبَنَا تِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ، ذَالِکَ أَدْنَیٰ ٓ أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْ ذَیْنَ، وَکَانَ اللہُ غَفُورًا رَّحِیماً)
’’اے نبی! اپنی بیویوں اوراپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں اوڑھ لیا کریں (جب وہ باہر نکلیں) یہ( بات ) ان کے لیے قریب تر ہے کہ وہ (حیا دار مومنات کے طور پر) پہچانی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے (کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرسکے) اور اللہ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
قرآن کے مطابق حجاب کا حکم عورتوں کواس لئے دیا گیا ہے کہ وہ با حیا عورتوں کے طور پر پہچانی جا سکیں اور چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رہیں۔
* ایک مثال سے وضاحت: فرض کریں، دو جڑواں بہنیں ہیں، دونوں خوبصورت ہیں اور ایک گلی میں جارہی ہیں۔ ان میں سے ایک اسلامی حجاب میں ہے، جبکہ دوسری منی سکرٹ میں ملبوس ہے۔ نکڑ پر کوئی بد معاش کھڑا کسی لڑکی کو چھیڑنے کا منتظر ہے۔ وہ کس سے چھیڑ چھاڑ کرے گا؟ اسلامی حجاب میں ملبوس لڑکی سے یا منی سکرٹ میں ملبوس لڑکی سے؟ ایسا لباس جو جسم کو چھپانے کے بجائے نمایاں کردے وہ بالواسطہ طور پر مخالف جنس کو چھیڑ چھاڑ اور بد کاری کی دعوت دیتا ہے، لہذا قرآن صحیح کہتا ہے کہ حجاب، یعنی پردہ عورت کو چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھتا ہے۔
* عصمت دری کرنے والے کے لئے موت کی سزا: اسلامی شریعت عصمت دری کرنے والے کی سزا موت قرار دیتی ہے۔ غیر مسلم خوفزدہ ہوں گے کہ اتنی بڑی سزا! بہت سے لوگ اسلام کو وحشی اور ظالمانہ مذہب قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ سوچ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ میں نے یہ عام سوال سینکڑوں غیر مسلموں سے پوچھا ہے کہ فرض کیجیے خدا نخواستہ کوئی آپ کی بیوی، آپ کی ماں یا آپ کی بہن کی عصمت دری کرے اور آپ کو منصف بنایا جائے اور جرم کرنے والے کو آپ کے سامنے لایا جائے۔ آپ اس کے لئے کیا سزا تجویز کریں گے؟ سب نے کہا:’’ہم اسے قتل کردیں گے۔‘‘ اور کچھ اس حد تک گئے کہ ’’ ہم اس کے مرنے تک اسے تشدد سے تڑپاتے رہیں گے۔’‘ اب اگر کوئی اس کی بیوی یا بیٹی یا آپ کی ماں کی عصمت دری کرے تو آپ اس مجرم کو قتل کرنا چاہیں گے۔ لیکن جب کسی اور کی بیوی، بیٹی یا ماں کی عصمت دری کی جاتی ہے تو مجرم کیلئے سزائے موت کو وحشیانہ کیوں کہا جاتا ہے؟: آخر یہ دوہرا معیا ر کیوں؟
امریکہ میں عصمت دری کے روز افزوں واقعات:
امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ 1990ء کی ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق عصمت دری(Rape)کے1,02,555مقدمات درج کئے گئے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف 16فیصد مقدمات کا اندراج ہوا یا ان کی رپورٹ کی گئی۔ یوں 1990ء میں پیش آمدہ عصمت دری کے واقعات کی اصل تعداد معلوم کرنے کے لئے 16/100یعنی6.25 سے ضرب دی جائے تو وہ 6,40,968 بنتی ہے۔ اور اگر اس کی مجموعی تعداد کو سال کے 365دنوں سے تقسیم کیا جائے تو روزانہ اوسط1,756نکلتی ہے۔
بعد کی ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اس برس عصمت دری کے اوسطاً1900واقعات روزانہ پیش آئے۔ امریکی محکمہ انصاف کے نیشنل کرائم سروے بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 1996ء میں آبرو میزی کے 3,07,000واقعات کی رپورٹ کی گئی اور یہ اصل تعداد کا صرف 13فیصدتھی۔ اس طرح عصمت دری کے واقعات کی اصل تعداد 9,90,332بنتی ہے جو دس لاکھ کے قریب ہے۔ گویا امریکہ میں اس سال ہر 32 سیکنڈ کے بعد عصمت دری کا واقعہ پیش آیا۔ ہو سکتا ہے اب امریکہ میں ایسے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والے اور دلیر ہو گئے ہوں۔ 1990ء کی ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق وہاں عصمت دری کے جتنے واقعات کی رپورٹ کی گئی ان کے مجرموں میں سے صرف 10فیصد گرفتار کئے گئے جو زانیوں کی کل تعداد کا صرف1.6فیصد تھے۔ اور گرفتار شد گان میں سے بھی 50فیصد کو مقدمے کی نوبت آنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف 0.8فیصد مجرموں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرے لفظوں میں اگر ایک شخص 125مرتبہ یہ جرم کرتا ہے تو اسے صرف ایک بار سزا ملنے کا امکان ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 50فیصد لوگ جن کو ان مقدمات کا سامنا کرنا پڑا انہیں ایک سال سے بھی کم قید کی سزا سنائی گئی۔ اگر چہ امریکی قانون کے مطابق ایسے جرم کے مرتکب افراد کی سزا سات سال قید ہے مگر پہلی دفعہ ایسا گھناؤنا جرم کرنے والے کے ساتھ جج نرمی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک شخص125دفعہ یہ جرم کرتا ہے اور اس کے مجرم ٹھہرائے جانے کا امکان ایک فیصد ہوتا ہے اور اس میں بھی نصف مرتبہ جج نرمی کا رویہ اختیار کرنے ہوئے اسے ایک سال سے بھی کم کی سزادیتا ہے۔
اسلامی شریعت کی برکت:
فرض کریں امریکہ میں اسلامی شریعت کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی عورت کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اپنی نگاہ نیچی کرلیتا ہے۔ اور ہر عورت اسلامی حجاب، یعنی پردے میں رہتی ہے اور اس پورا جسم سوائے ہاتھوں اور چہرے کے ڈھکا ہوتا ہے۔ اس صورت حال کے باوجود اگر کوئی کسی کی عصمت دری کرتا ہے اور مجرم کی سزائے موت دی جاتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح عصمت دری کی شرح بڑھ جائے گی، وہی رہے گی یا کم ہوجائے گی؟ یقیناًشرح کم ہوجائے گی اور یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کا با برکت نتیجہ ہوگا۔
اسلام میں تمام مسائل کا عملی حل:
اسلام بہترین طرز زندگی ہے کیونکہ اس کی تعلیمات محض نظریاتی ہی نہیں بلکہ وہ انسانیت کو درپیش مسائل کے عملی حل بھی پیش کرتا ہیں، لہذا اسلام انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر بہتر نتائج حاصل کرتا ہے۔ اسلام بہترین طرز زندگی ہے کیونکہ یہ قابل عمل عالمگیر مذہب ہے جو کسی ایک قوم یا نسل تک محدود نہیں، اسی لئے دوسرے مذاہب کے مقابلے میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جس کو اپنا کر انسان اپنی شاہراہ حیات بالکل سیدھی بنا کر اخروی زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتا ہے۔ اور اخروی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے۔*
تمام مذاہب بنیاوی طور پر انسان کو صحیح راہ پر چلنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن اسلام ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ ہمیں صحیح راہ پر چلنے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے برائی کو خارج کرنے میں عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام انسانی فطرت اور معاشرے کی پیچیدگیوں کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اسلام خود خالق کائنات کی طرف سے رہنمائی ہے، اسی لئے اسلام کو دین فطرت، یعنی انسان کا فطری دین کہا گیا ہے۔ اسلام اور دوسرے مذاہب کا بنیادی فرق درج ذیل امور سے واضح ہوتا ہے:
اسلام اور ڈاکہ زنی کا تدارک
تمام مذاہب کی تعلیم ہے کہ ڈاکہ زنی اور چوری ایک برا فعل ہے۔ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے، پھر اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ اسلام اس تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ کہ ڈاکہ زنی اور چوری برا کام ہے، ایسا سماجی ڈھانچا بھی فراہم کرتا ہے جس میں لوگ ڈاکے نہیں ڈالیں گے۔ اس کے لئے اسلام درج ذیل انسدادی اقدامات تجویز کرتا ہے:
*زکوٰۃ کا حکم:اسلام انسانی فلاح کے لئے زکوٰۃ کانظام پیش کرتا ہے۔ اسلامی قانون کہتا ہے کہ ہر وہ شخص جس کی مالی بچت نصاب، یعنی85گرام سونے یا اس کی مالیت کو پہونچ جائے تو وہ ہر سال اس میں سے اڑھائی فیصد اللہ کی راہ میں تقسیم کرے۔ اگر ہر امیر شخص ایمانداری سے اس پر عمل کرے تو اس دنیا سے غربت،جو ڈاکہ زنی کی اصل محرک ہے، ختم ہو جائے گی اور کوئی شخص بھی بھوک سے نہیں مرے گا۔
*چوری کی سزا: اسلام چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹنے کی سزادیتا ہے۔ سورۂ مائدہ میں ہے:
(وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوٓاْ أَیْدِیَہُمَا جَزَآءً بِمَا کَسَبَا نَکالاً مِّنَ اللہِ، وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمُ)
’’ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ اللہ کی طرف سے ان دونوں کے کئے ہوئے جرم کی سزا ہے۔ اور اللہ بہت طاقتور اور بہت حکمت والا ہے۔‘‘
اس پر غیر مسلم یہ کہہ سکتے ہیں کہ’’20ویں صدی میں ہاتھ کاٹے جائیں؟ اسلام تو ایک ظالم اور وحشیانہ مذہب ہے۔‘‘ لیکن اس کی یہ سوچ سطحی اور حقیقت سے بعید ہے۔
* عملی نفاذ: امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے وہاں جرائم،چوری،ڈکیٹی وغیرہ کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ فرض کریں کہ امریکہ میں اسلامی شریعت نافذ کی جاتی ہے اور ہر امیر آدمی نصاب کے مطابق، یعنی 85گرام سونے سے زائد مال پر ہر سال زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور ہر چور کا ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیا جاتا ہے تو کیا امریکہ میں چوری اور ڈکیتی کی شرح بڑھ جائے گی، کم ہوجائے گی یا اتنی ہی رہے گی؟ یقیناً یہ کم ہوگی۔ مزید برآں یہ سخت قانون ممکنہ چوروں کو ارتکاب جرم سے روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
میں اس بات سے متفق ہوں کہ اس وقت دنیا میں چوری کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر قطع ید کی سزا نافذ کی گئی تو لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے۔ لیکن یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ جونہی آپ اس قانون کو نافذ کریں گے، چوری کی شرح فوری طور پر کم ہوجائے گی، تا ہم اس سے پہلے اسلام کا نظامِ زکوٰۃ کار فرما ہو اور معاشرے میں صدقات و خیرات اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور غریبوں اور ناداروں کی مدد کا جذبہ فراواں ہو اور پھر سزاؤں کا نظام نافذ ہو تو چوری کرنے والا چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا کہ وہ اپنا ہاتھ کٹنے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔ عبرتناک سزا کا تصور ہی ڈاکوؤں اور چوروں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ بہت کم لوگ چوری کریںیا ڈاکہ ڈالیں گے، پھر چند ہی عادی مجرموں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور لاکھوں لوگ چوری اور ڈکیتی کے خوف کے بغیر سکون سے رہ سکیں گے۔ اس طرح اسلامی شریعت کے عملی نفاذ سے خوشگوار نتائج بر آمد ہوں گے۔
عورتوں کی عصمت دری کا سد باب
تمام بڑے مذاہب کے نزدیک عورتوں سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی عصمت دری ایک سنگین جرم ہے۔ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے، پھر اسلام اور دوسرے مذاہب کی تعلیمات میں فرق کیا ہے؟ فرق اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اسلام محض عورتوں کے احترام کی تلقین ہی نہیں کرتا اورخواتین سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی عصمت دری جیسے سنگین جرائم سے نفرت ہی نہیں کرتا بلکہ اس امر کی بھر پور رہنمائی بھی کرتا ہے کہ معاشرے سے ایسے جرائم کا خاتمہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ درج ذیل زریں اصول ملاحظہ کیجیے:
*مردوں کے لئے حجاب: اسلام کے حجاب کا نظام اپنی مثال آپ ہے۔ قرآن مجید پہلے مردوں کو حجاب کا حکم دیتا ہے اور پھر عورتوں کو۔ مردوں کے حجاب(پردہ) کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے:
(قُل لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُواْ فُرُوْجَہُمْ، ذَالِکَ أَزْکیٰ لَہُمْ، اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ)
’’( انے نبی!)مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے بہت پاگیزگی کی بات ہے۔ اور اللہ ان تمام باتوں سے بخوبی واقف ہے جو وہ کرتے ہے۔‘‘
اسلام کہتا ہے کہ ایک شخص کسی غیر محرم عورت کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ فوراً اپنی نگاہیں نیچی کرلے،عورتوں کے لئے حجاب: عورتوں کے حجاب کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے:
(وَقُل لِلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أبْصارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُو جَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَیٰ جُیُوْبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ ءَ ا بَآ ءِہِنَّ أَوْ ءَ ا بَآءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِہِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ اِخْوَٰ نِہِنَّ أَوْ بَنِیٓ إِخْوَٰنِہِنَّ أَوْبَنِیٓ أَخَوَٰتِہِنَّ أَوْ نِسآ ءَہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمٰنُہُنَّ أَوِالتّٰبِعِیْنَ غَیْرَ أُوْلِی اْلْأِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُواْ عَلَیٰ عَوْرَاتِ النِّسَآءِ)
’’ (اے نبی) مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی نمائش نہ کریں سوائے اس کے کہ جو از خود ظاہر ہو۔ اور ان کو چاہیے کہ اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہر پر یا اپنے باپ پر یا اپنے سسر پر یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی (مسلمان) عورتوں پر یا اپنے دائیں ہاتھ کی ملکیت (کنیزوں) پر یا عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے نوکروں پر یا عورتوں کی چھپی باتوں سے نا واقف لڑکوں پر۔ اور وہ (عورتیں) اپنے پاؤں زور زور سے زمین پر مارتی نہ چلیں کہ ان کی زینت ظاہر ہو جائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
حجاب کہ حد یہ ہے کہ تمام جسم ڈھکا ہوا ہو۔ صرف چہرہ اور ہاتھوں کی کلائیاں کھلی رکھی جا سکتی ہیں یہ بات قطعی طور پر غلط ہے چہرہ اور ہاتھوں کی کلائیاں بھی پردہ کے حکم میں داخل ہے اس کو چھپانا ضروری ہے ،اس لئے کہ چہرہ ہی مظہر حسن و جمال ہے اور کلائیوں کا حسن مشہور ہے اس لئے مضمون نگار کا کتاب وسنت کی کی کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ چہرہ اور ہتھیلی رکھی جائے، اس موضوع پر ثقہ علماء کرام کی تحریریں اور ان کے فتاوے موجود ہیں شیخ محمد صالح العثیمین اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہما اللہ وغیرھما(از: مدیر) ۔
اور اگر عورتیں چاہیں تو وہ ان اعضاء کو بھی ڈھانپ سکتی ہیں، تا ہم بعض علماء اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ چہرہ ڈھانپنا بھی لازم ہے۔( اور یہی موقف قرین صواب ہے)۔
*حفاظتی حصار: اللہ تعالیٰ حجاب کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اس کی وضاحت سورۂ احزاب کی مندرجہ ذیل آیت میں کی گئی ہے:
(یَٓأَیّْہَا اْلنَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَٰاجِکَ وَبَنَا تِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ، ذَالِکَ أَدْنَیٰ ٓ أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْ ذَیْنَ، وَکَانَ اللہُ غَفُورًا رَّحِیماً)
’’اے نبی! اپنی بیویوں اوراپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں اوڑھ لیا کریں (جب وہ باہر نکلیں) یہ( بات ) ان کے لیے قریب تر ہے کہ وہ (حیا دار مومنات کے طور پر) پہچانی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے (کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرسکے) اور اللہ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
قرآن کے مطابق حجاب کا حکم عورتوں کواس لئے دیا گیا ہے کہ وہ با حیا عورتوں کے طور پر پہچانی جا سکیں اور چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رہیں۔
* ایک مثال سے وضاحت: فرض کریں، دو جڑواں بہنیں ہیں، دونوں خوبصورت ہیں اور ایک گلی میں جارہی ہیں۔ ان میں سے ایک اسلامی حجاب میں ہے، جبکہ دوسری منی سکرٹ میں ملبوس ہے۔ نکڑ پر کوئی بد معاش کھڑا کسی لڑکی کو چھیڑنے کا منتظر ہے۔ وہ کس سے چھیڑ چھاڑ کرے گا؟ اسلامی حجاب میں ملبوس لڑکی سے یا منی سکرٹ میں ملبوس لڑکی سے؟ ایسا لباس جو جسم کو چھپانے کے بجائے نمایاں کردے وہ بالواسطہ طور پر مخالف جنس کو چھیڑ چھاڑ اور بد کاری کی دعوت دیتا ہے، لہذا قرآن صحیح کہتا ہے کہ حجاب، یعنی پردہ عورت کو چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھتا ہے۔
* عصمت دری کرنے والے کے لئے موت کی سزا: اسلامی شریعت عصمت دری کرنے والے کی سزا موت قرار دیتی ہے۔ غیر مسلم خوفزدہ ہوں گے کہ اتنی بڑی سزا! بہت سے لوگ اسلام کو وحشی اور ظالمانہ مذہب قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ سوچ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ میں نے یہ عام سوال سینکڑوں غیر مسلموں سے پوچھا ہے کہ فرض کیجیے خدا نخواستہ کوئی آپ کی بیوی، آپ کی ماں یا آپ کی بہن کی عصمت دری کرے اور آپ کو منصف بنایا جائے اور جرم کرنے والے کو آپ کے سامنے لایا جائے۔ آپ اس کے لئے کیا سزا تجویز کریں گے؟ سب نے کہا:’’ہم اسے قتل کردیں گے۔‘‘ اور کچھ اس حد تک گئے کہ ’’ ہم اس کے مرنے تک اسے تشدد سے تڑپاتے رہیں گے۔’‘ اب اگر کوئی اس کی بیوی یا بیٹی یا آپ کی ماں کی عصمت دری کرے تو آپ اس مجرم کو قتل کرنا چاہیں گے۔ لیکن جب کسی اور کی بیوی، بیٹی یا ماں کی عصمت دری کی جاتی ہے تو مجرم کیلئے سزائے موت کو وحشیانہ کیوں کہا جاتا ہے؟: آخر یہ دوہرا معیا ر کیوں؟
امریکہ میں عصمت دری کے روز افزوں واقعات:
امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ 1990ء کی ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق عصمت دری(Rape)کے1,02,555مقدمات درج کئے گئے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف 16فیصد مقدمات کا اندراج ہوا یا ان کی رپورٹ کی گئی۔ یوں 1990ء میں پیش آمدہ عصمت دری کے واقعات کی اصل تعداد معلوم کرنے کے لئے 16/100یعنی6.25 سے ضرب دی جائے تو وہ 6,40,968 بنتی ہے۔ اور اگر اس کی مجموعی تعداد کو سال کے 365دنوں سے تقسیم کیا جائے تو روزانہ اوسط1,756نکلتی ہے۔
بعد کی ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اس برس عصمت دری کے اوسطاً1900واقعات روزانہ پیش آئے۔ امریکی محکمہ انصاف کے نیشنل کرائم سروے بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 1996ء میں آبرو میزی کے 3,07,000واقعات کی رپورٹ کی گئی اور یہ اصل تعداد کا صرف 13فیصدتھی۔ اس طرح عصمت دری کے واقعات کی اصل تعداد 9,90,332بنتی ہے جو دس لاکھ کے قریب ہے۔ گویا امریکہ میں اس سال ہر 32 سیکنڈ کے بعد عصمت دری کا واقعہ پیش آیا۔ ہو سکتا ہے اب امریکہ میں ایسے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والے اور دلیر ہو گئے ہوں۔ 1990ء کی ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق وہاں عصمت دری کے جتنے واقعات کی رپورٹ کی گئی ان کے مجرموں میں سے صرف 10فیصد گرفتار کئے گئے جو زانیوں کی کل تعداد کا صرف1.6فیصد تھے۔ اور گرفتار شد گان میں سے بھی 50فیصد کو مقدمے کی نوبت آنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف 0.8فیصد مجرموں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرے لفظوں میں اگر ایک شخص 125مرتبہ یہ جرم کرتا ہے تو اسے صرف ایک بار سزا ملنے کا امکان ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 50فیصد لوگ جن کو ان مقدمات کا سامنا کرنا پڑا انہیں ایک سال سے بھی کم قید کی سزا سنائی گئی۔ اگر چہ امریکی قانون کے مطابق ایسے جرم کے مرتکب افراد کی سزا سات سال قید ہے مگر پہلی دفعہ ایسا گھناؤنا جرم کرنے والے کے ساتھ جج نرمی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک شخص125دفعہ یہ جرم کرتا ہے اور اس کے مجرم ٹھہرائے جانے کا امکان ایک فیصد ہوتا ہے اور اس میں بھی نصف مرتبہ جج نرمی کا رویہ اختیار کرنے ہوئے اسے ایک سال سے بھی کم کی سزادیتا ہے۔
اسلامی شریعت کی برکت:
فرض کریں امریکہ میں اسلامی شریعت کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی عورت کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اپنی نگاہ نیچی کرلیتا ہے۔ اور ہر عورت اسلامی حجاب، یعنی پردے میں رہتی ہے اور اس پورا جسم سوائے ہاتھوں اور چہرے کے ڈھکا ہوتا ہے۔ اس صورت حال کے باوجود اگر کوئی کسی کی عصمت دری کرتا ہے اور مجرم کی سزائے موت دی جاتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح عصمت دری کی شرح بڑھ جائے گی، وہی رہے گی یا کم ہوجائے گی؟ یقیناًشرح کم ہوجائے گی اور یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کا با برکت نتیجہ ہوگا۔
اسلام میں تمام مسائل کا عملی حل:
اسلام بہترین طرز زندگی ہے کیونکہ اس کی تعلیمات محض نظریاتی ہی نہیں بلکہ وہ انسانیت کو درپیش مسائل کے عملی حل بھی پیش کرتا ہیں، لہذا اسلام انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر بہتر نتائج حاصل کرتا ہے۔ اسلام بہترین طرز زندگی ہے کیونکہ یہ قابل عمل عالمگیر مذہب ہے جو کسی ایک قوم یا نسل تک محدود نہیں، اسی لئے دوسرے مذاہب کے مقابلے میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جس کو اپنا کر انسان اپنی شاہراہ حیات بالکل سیدھی بنا کر اخروی زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتا ہے۔ اور اخروی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے۔*
No comments:
Post a Comment