Friday 8 July, 2011

تقریب نکاح editorial April 2011

شعور وآگہی
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری
تقريب نكاح
انسانی معاشرہ کی تشکیل اور اس کی بقا کے لئے توالد وتناسل کا سلسلہ ناگزیر ہے، اس مقصد کے حصول کی خاطر بنو آدم نے مختلف طریقے اختیار کررکھے ہیں۔
کفار مکہ کے وثنی سماج میں رائج نکاح کے بعض رسوم بڑے قبیح تھے، ایک شریف الطبع انسان جنہیں قبول کر ہی نہیں سکتا، پھربھی مکی معاشرہ ان کا عادی ہوچکا تھا۔
اسلام نے ان مذموم عادات و رسوم کو ختم کرکے نکاح کا وہ شریفانہ انداز برقرار رکھا جو ہمارے یہاں رائج ہے، جس کے مطابق طرفین میں سے کسی ایک کی جانب سے پیغام نکاح دیا جاتا ہے، جسے قبول کرنے کے بعد ایجاب و قبول کی مجلس منعقد کی جاتی ہے، دو معتبر گواہوں کی موجودگی، مہر کی تعیین اور ولی کی اجازت سے یہ تقریب اختتام کو پہونچتی ہے، پھر دولہا اپنے گھر ولیمہ کا اہتمام کرتا ہے، جس سے شادی کی متبرک سنت کی تکمیل ہوجاتی ہے۔
اگر اسی طور طریقہ کو ملحوظ رکھ کر کوئی شادی کی رسم پوری کرلے تو وہ ایک مسنون عقد کہلائے گی۔ لیکن اگر اسلامی اصول و ضوابط کو نظر انداز کرکے غیروں کے ناروا رسوم کو اپناتے ہوئے کوئی شادی انجام پائے تو اسے عقد مسنون کہنے کی جرأت کون کرسکے گا؟
کوئی شک نہیں ملت اسلامیہ تقریب نکاح کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار ہوگئی ہے، خلیجی ممالک میں نوجوانوں پر ایسا دباؤ ڈال دیا گیا ہے، جسے وہ بمشکل برداشت کرپارہے ہیں، شادی کی شرعی استطاعت رکھنے کے باوجود مسرفانہ رسوم کی انجام دہی سے قاصر رہنے کی وجہ سے عقد مسنون خواب بنتا جارہا ہے اور لڑکیاں دارزئ عمر کے عمیق گڈھے میں دفن ہوتی جارہی ہیں۔
برصغیر اور اس کی بناؤٹی مسلم تہذیب سے متاثر ممالک میں لڑکیوں کے سرپرست لڑکے والوں کے جبر کا شکارکچھ اس طرح ہوئے کہ بے جا مطالبات کمر توڑنے لگے اور اب وہ بے بسی کے عالم میں دن بہ دن پست ہوتے جارہے ہیں۔
نکاحی مشکلات میں مستقل اضافہ ہورہا ہے، لڑکے اور ان کے اہل خانہ کی طرف سے زیادتیاں بڑھتی جارہی ہیں، برات کی ناز یبا رسم نئے نئے رنگ اختیار کررہی ہے، جہیز کی مانگ معاشرے کی بگاڑ کے ہر روز نئے قصے سنارہی ہے۔
یہ وہ سخت حالات ہیں جن تقاضہ ہے کہ معاشرہ کے دیندار، بیدار مغز اور حساس افراد اس سماجی بگاڑکے ازالہ کی خاطر کمر بستہ ہوں، سادگی کو رواج دیں، اخراجات میں کمی لانے کی بھر پور کوشش کریں، نکاح کی اہمیت واضح کی جائے اور شادی کے لائق شباب اسلام کے لئے آبرومندانہ عائلی زندگی گذارنے کی سعی مشکورہو۔
ان شاء اللہ خیر وبرکت کے وہی ایام لوٹ آئیں گے جو آج معاشرے سے روٹھ کر بہت دور جاچکے ہیں۔

No comments:

Post a Comment