ترتیب و تدوین:
مولانا عبداللہ محمدی
قرآن مجید میں حیرت انگیز سائنسی و دیگر پیشین گوئیاں
’’وہ پاک ذات ہے جس نے تمام مقابل قسموں (جوڑے) کو پیدا کیا۔ نباتات، زمین کے قبیل سے بھی اور ان (آدمیوں) میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جن کو لوگ نہیں جانتے‘‘ (36:36)
’’پاک ہے وہ ذات جس نے بنائے جوڑے سب چیزوں کے اس قسم سے جو اگتا ہے زمین سے اور خود ان میں سے اور ان چیزوں میں کہ جن کی ان کوخبر نہیں‘‘ (36:36)
ایک فرانسیسی ڈاکٹر موریس بگائے کی کتاب ’’بائبل قرآن اور سائنس‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔ موریس بگاؤ عیسائی تھا۔ اس نے بائبل میں دی گئی تمام آیات کا تجزیہ کیااور ثابت کیا کہ بائبل میں دی گئی تمام معلومات تخلیق کائنات اور تخلیق انسان کے بارے میں سائنس کی رو سے قطعی طور پر غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ اس نے قرآنی آیات کا بھی اس نظریہ سے متعلق جائزہ لیا اور اسے دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ تمام قرآنی آیات موجودہ سائنسی معلومات سے قطعی طور پر متفق اور ہم آہنگ ہیں۔ بالآخر اس نے اسلام قبول کرلیا۔
جن لوگوں نے کفر کیا ان کی مثال جیسے میدان میں ریت۔ کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے۔ (36:24)۔ یا ان کی مثال ایسی ہے جیسے عمیق سمندر میں اندھیرے۔ ہر طرف اندھیرے ہوں، ایک پر ایک چھایا ہوا اور اپنا ہاتھ بھی دکھائی نہ دے جس کو اللہ روشنی نہ دے اس کو کہیں بھی روشنی نہیں مل سکتی۔ (40-39:24)
کھالیں بدل دیں گے
دوزخ کے عذاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ ہمیشہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ (56:4)۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی بکھری ہوئی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟ ضرور کریں گے اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی (انگلیوں کی) پور پور درست کردیں۔ (4-3:75) کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا؟ پھر لوتھڑا ہوا۔ پھر اللہ نے اس کو بنایا پھر اس کے اعضاء کو درست کیا۔ پھر اس کی دو قسمیں بنائیں۔ مرد اور عورت کیا اس کو اس پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اٹھائے۔ (40-37:75) ان سے نباتات اور خود ان کے اور زمین سے نکلنے والی ہر چیز کے اور جن چیزوں کو تمہیں خبر نہیں سب کے جوڑے بنائے۔ (36:36) ہر چیز کے بنائے ہم نے جوڑے۔ (49:51) یہ تمام انکشافات کہ تکلیف کا احساس کھال میں ہوتا ہے۔ انسان کی قطعی شناخت ان کی انگلیوں کے پوروں سے ہوتی ہے اور دنیا میں کسی دو انسانوں کے انگوٹھے کے نشان آپس میں نہیں ملتے اور ہر چیز کے جوڑے ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں کا علم دنیا میں کسی کو نہیں تھا۔
دو دریاؤں کو ملا دیا
وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا۔ ایک کا پانی
شیریں ہے۔ پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری، چھاتی جلانے والا اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنادی۔ (53:25) اور دونوں دریا مل کر یکساں نہیں ہوجاتے۔ یہ تو میٹھا ہے پیاس بجھانے والا ہے۔ جس کا پانی خوشگوار ہے اور یہ کھاری ہے۔ کڑوا (12:35)اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں ۔ دو نوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ (20-19:55) اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا۔ (54:25) اور اللہ ہی ہے جس نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ (54:24)کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں۔ (44:21) ۔(41:13)
اے گروہ جن و انس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سواتم نکل سکتے ہی نہیں۔ (37:55)(33:55) ۔ اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور کوئی معبود ہوتے تو زمین و آسمان درہم برہم ہوجاتے۔ (22:21) تشکیل کائنات کے لئے یہ انکشاف کہ آسمان دھواں تھا بیسویں صدی کے سائنس دانوں کا نظریہ ہے۔ قرآن مجید میں ا س طرف بھی اشارہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کے کنارے سے نکل جاؤ گویا انسان کے فضائی سفر کی بھی پیشین گوئی ہے۔ یہ انکشاف کہ دو مغرب اور دو مشرق ہیں۔ یہ بھی معلومات قرآن مجید کے ذریعہ 1400سال قبل فراہم کی گئیں جب دنیا اس سے لاعلم تھی۔
بیسویں صدی تک تمام دنیا کے سائنس دانوں کا نظریہ تھا کہ مادہ ناقابل فنا ہے یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ قرآن مجید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انکشاف کیا یہ کائنات دھواں تھی۔ (اب بیسویں صدی میں سائنس دان Big Bang Theory کے قائل ہوئے ہیں) اور یہ اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ تک بنائی۔ وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے۔ (17:55)وہ ذات پاک ہے جس نے جن چیزوں کی تمہیں خبر نہیں ہے جوڑے بنائے ایک نشانی ان میں رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں۔ سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتا رہتا ہے اور یہ اللہ غالب اور دانا کا مقررہ کیا ہوا اندازہ ہے ۔ اور چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کردیں۔ یہاں تک کہ گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے۔ نہ تو سورج ہی سے ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے۔ سب اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔ (40-36:36)
اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اس سے فرمادیتا ہے ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے۔ (82:36)مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے جدھر تم رخ کرو اس کی ذات ہے۔ (115:2) وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جو کوئی کام کرنا چاہے تو ارشاد فرمادیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے۔ اللہ وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان بنائے سورج اور چاند کو کام میں لگادیا۔ ہر ایک ایک معیاد متعین تک گردش کررہا ہے۔(2:13)غور کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (3:16)
کیا انہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کو حکمت اور ایک وقت مقررہ تک کے لئے پید ا کیا ہے اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں۔ (8:30)
اسی نے تمہارے لئے رات اور دن اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا۔ اور اسی کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سمجھنے والوں کے لئے اس میں قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ (12:16) بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں میں قفل لگے ہیں؟ (24:47)
فرعون کی لاش
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی سے ان کا تعاقب کیا۔یہاں تک کہ اس کو غرق کے عذاب نے آپکڑا تو کہنے لگا میں ایمان لایا، جواب ملا۔ اب ایمان لاتا ہے حالانکہ پہلے نافرمانی کرتا رہا۔ تو آج ہم تیرے بدن کو دریا سے نکال لیں گے تاکہ آئندہ آنے والوں کے لئے عبرت ہو۔ (92-90:10)
اول تو عرب قوم اس قصہ سے ہی ناواقف تھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امی (ان پڑھ) تھے۔ قرآن مجید ہدایت کی کتاب ہے اور اس قسم کی معلومات دینے سے اسلام کے فروغ میں کوئی مدد بھی نہیں ملتی تھی۔ بلکہ الٹا مذاق اڑایا جانا ممکن تھاکہ کہاں ہے وہ فرعون کی لاش اور 1300 سال بعد اس کا انکشاف ہوا کہ فرعون کی لاش محفوظ ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر فرعون (Ramses II)کی لاش بیسویں صدی کے شروع میں برآمد ہوئی۔ حکومت فرانس نے حکومت مصر سے فرعون کی ممی (Mumies) عاریتا لیں اور ان کا تجزیہ کیا تو Ranses IIکی لاش میں نمک کے اثرات تھے جس سے ثابت ہوا کہ وہ سمندر میں غرق ہوکر مرا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام خود یہودیوں اور مسلمانوں کے نزدیک ایک جلیل القدر پیغمبر ہیں تورات یہودیوں اور مسلمانوں کے نزدیک مقدس کتاب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس فرعون کے ہم عصر اور اس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے۔ مگر تورات میں یہ انکشاف موجود نہیں۔ کیا کسی انسان کو عرب کے دور دراز خطے میں فرعون کے غرق ہونے کے تقریباً 2000سال بعد یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ فرعون کی لاش محفوظ ہے۔ پوری دنیا میں کہیں اس حیرت انگیز انکشاف کا تذکرہ نہ تھااور قرآن مجید میں اس انکشاف کے 1300 سال بعد فرعون کی محفوظ لاش (Mummy Preserved)برآمد ہوئی۔ فرعون کے غرق ہونے کے تقریباً 3300 سال بعد۔
رومی غالب ہوں گے
تبلیغ اسلام کے بالکل ابتدائی مرحلے میں ایرانیوں نے رومیوں کو ایسی فیصلہ کن شکست دی کہ پوری رومی سلطنت کو تاخت و تاراج کردیا۔ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایرانی آتش پرست تھے یعنی کفار مکہ کے عقیدہ سے قریب تراور رومی اہل کتاب تھے یعنی اسلامی عقیدے سے قریب تر۔ کفار مکہ نے ایرانیوں کی اس فتح پر خوشیاں منائیں اور مسلمان اس سانحہ سے افسردہ تھے کفار مکہ خوش ہوکر مسلمانوں سے کہتے تھے کہ اس طرح تم بھی شکست کھاؤ گے۔ مسلمان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے ان پر کفار مکہ انتہائی مظالم ڈھا رہے تھے۔ گنتی کے چند لوگ ایمان لائے تھے۔ 30-40 کے قریب۔ اس وقت سورۂ روم کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
اہل روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے چند ہی سال میں ۔ (9-10سال میں) پہلے بھی اور پیچھے بھی اللہ ہی کا حکم ہے۔ اور اس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔ (4-1:30)
ان حالات میں غور کریں جو اس وقت درپیش تھے۔ مشہور مؤرخ ایڈورڈگبن لکھتا ہے کہ ایرانیوں کی فتح اس قدر فیصلہ کن تھی کہ کسی کے تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ رومی دوبارہ غالب آجائیں گے۔ کفار کو اس قرآنی پیشین گوئی کے (نعوذ باللہ) غلط ہونے کا اس قدر پختہ یقین تھا کہ امیہ بن خلف نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے 100-100اونٹوں کی شرط لگائی کہ رومیوں کا غالب ہونا ناممکن ہے۔ اگر قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام ہوتا تو اس قسم کی شرط لگانے کا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی جواز تھانا ضرورت۔ اور نہ ہی کوئی ذریعہ۔ پھر اگر یہ پیشین گوئی نعوذ باللہ غلط ہوجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری جدوجہد اور اسلامی تبلیغ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا) یہ سب غلط ثابت ہوجاتا۔ مزید برآں قرآن مجید نے اس پیشین گوئی کا تذکرہ یوں بھی کردیا یعنی اس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔ انتہائی حیران کن طریقے سے رومن دوبارہ ایرانیوں کو ایسی فیصلہ کن شکست دینے میں کامیاب ہوگئے کہ اس کے بعد ہمیشہ کے لئے کسریٰ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
مزید ناقابل یقین پیشین گوئیاں
اے پیغمبر! کافروں سے کہہ دو کہ تم دنیا میں عنقریب مغلوب ہوجاؤ گے اور آخرت میں جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے۔ وہ بری جگہ ہے۔ (12:3)مزید کئی آیات اس مضمون کی۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب کل مسلمان گنتی کے تھے۔ ہاتھوں کی انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے اور مسلمانو ں پر سخت مظالم ڈھائے جارہے تھے۔ دور دور اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا کہ شہر مکہ میں بھی اسلام فروغ پاسکے گا۔
’’اور دیکھو بے دل نہ ہونا اور نہ کسی قسم کا غم کرنا۔ اگر تم مومن صادق ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ (139:3) یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب جنگ احد 3ہجری کو کافر عارضی طور پر مسلمانوں پر غالب آگئے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا تھا۔ 70اکابر صحابہؓ اس جنگ میں شہیدہوگئے تھے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوگئے تھے اور کفار کے سپہ سالار ابوسفیان کی بیوی نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا۔ ان کی لاش کے ناک کان کاٹ دیئے تھے اور ان کی بوٹیوں کا ہار بناکر گلے میں پہن لیا اور ان کا کلیجہ نکال کر کچا چبایا تھا۔
’’تو اے مشرکو! تم زمین پر چار مہینے چل پھر لو ۔ اور جان رکھو تم اللہ کو عاجز نہ کرسکوگے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے(2:9)اس آیات کے نزول کے 4ماہ بعد مکہ بغیر جنگ و خونریزی کے فتح ہوگیا اور اس کے بعد تمام کفار ایمان لے آئے۔ اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گااور تم کو ان پر غلبہ دے گا۔(14:9)مومنو! مشرک پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانۂ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو اللہ چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا اور حکمت والا ہے۔ (28:9) مکی آیات میں بھی ایسی ہی ناقابل یقین پیشین گوئیاں ہیں۔
اگر منافق جو مدینہ میں بری خبریں اڑایا کرتے ہیں اپنے کردار سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو ان کے پیچھے لگادیں گے۔ پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں گے۔ مگر تھوڑے دن۔ (60:33) اس کے بعد کچھ ہی عرصہ بعد سب یہودی جلاوطن کردیئے گئے۔
یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی نصیحت کی کتاب ہوتی تو ہم اللہ کے خالص بندے ہوتے۔ لیکن اب کرتے ہیں سو عنقریب ان کو اس کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندوں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ وہی مظفر و منصور رہیں گے اور ہمارا لشکر غالب رہے گا۔ تو اس وقت تک ان سے اعراض کرتے رہو اور انہیں دیکھتے رہو۔ یہ بھی عنقریب کفر کا انجام دیکھ لیں گے۔(سورۂ صفت (175-167:37)
یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے چراغ کی روشنی پھونک مار کر بجھادیں۔ حالانکہ اللہ اپنی روشنی کو پوری کرکے رہے گا۔ خواہ کافر ناخوش ہی ہوں۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت او ر دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے۔ خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔ (سورۂ صفت (9-8:51) یہ آیت کئی مقامات پر دہرائی گئی۔
سورۂ لہب۔ ۔۔۔ ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا اور اس کی جورو بھی۔ اس کے گلے میں مونج کی رسی۔ یہ بالکل ابتدائی مکی سورت ہے۔ ترتیب نزول میں چھٹی۔ ایک امریکن یہ سورت دیکھ کر ہی ایمان لے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اتنے ابتدائی مرحلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع کون دے سکتا تھا ابولہب حالت کفر میں مرے گا۔ اس سورت کے نزول کے وقت بمشکل 15-20 لو گ ایمان لائے تھے اور بالاخر سارا عرب ایمان لے آیا مگر ابولہب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سگا چچا تھا وہ مرتے دم ایمان نہیں لایا۔ اس امریکی کا کہنا تھا کہ ابولہب کے دل میں یہ بھی خیال نہیں آیا کہ نعوذ باللہ قرآن مجید کو غلط ثابت کرنے کے لئے صرف دکھانے کو ہی کلمہ پڑھ لیتا۔ (دل سے نہیں پڑھتا) کیونکہ اگر کوئی شخص صرف زبان سے کلمہ پڑھ لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ایمان لانا قبول کرلیتے تھے۔ کئی منافقین جو اسلام کے بدترین دشمن تھے انہوں نے زبان سے کلمہ ادا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مسلمان ہونا قبول کرلیا۔ سب سے بڑا منافق (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی تھا۔ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مسلمان ہونا تسلیم کرلیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ عبداللہ بن ابی منافق ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دل کا حال نہیں معلوم۔ اس کا فیصلہ کہ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا ہے یا دل سے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ روز حساب کرے گا۔ مجھے اختیار نہیں کہ کسی کلمہ گو کو (خواہ وہ دل سے اس پر ایمان نہ لائے) کافر قرار دینا میرے اختیار میں نہیں۔ قرآن کو غلط ثابت کرنے کے لئے ابولہب کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ دکھانے کو کلمہ پڑھ لے مگر وہ اور اس کی بیوی دونوں حالت کفر میں نہات اذیت ناک طریقے سے ہلاک ہوئے۔ خود ابولہب کا حال یہ تھا کہ اس سورت کے نزول کے بعد کسی بھی مہم پر مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہ ہوا بلکہ اپنے بدلے کسی اور کو اجرت دے کر جنگ بدر میں لڑنے بھیجا۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تو کہتا تھا کہ قرآن میں میری ہلاکت کی پیشین گوئی ہوچکی ہے جو کبھی غلط نہیں ہوسکتی۔ مگر اس کے بعد بھی ایمان نہیں لایا۔
سورۂ کوثر۔۔۔۔ ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تمہیں کوثر عطا فرمائی۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بے اولاد رہے گا‘‘ (3-1:108) یہ ترتیب نزول کے لحاظ سے پندرہویں سورت ہے۔ گویا بالکل ابتدائی سورت۔ اس کی شان نزول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب اولادیں نرینہ (بیٹوں) کا کم سنی میں ہی انتقال ہوگیا۔ ایک تو مکہ میں کفار کا ظلم وستم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا اس پر یہ اولاد کے انتقال کا غم۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کہ تمہارا اللہ کیسا ہے کہ تمہیں بیٹا بھی نہیں دے سکتا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں تھیں جو زندہ تھیں) تمہاری تو نسل بھی قائم نہیں رہے گی اور بے نام و نشان رہ جاؤ گے (نعوذ باللہ من تلک المھفوات) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے ذریعہ بتایا کہ تمہارا دشمن ہی بے نشان رہے گا۔ چنانچہ حالات سے ثابت ہوا کہ وہ دشمنان اسلام جو بڑے بڑے دولت مند سردار تھے اور کثرت اولاد رکھتے تھے۔ آج دنیا میں کوئی ان کا نام لینے والا نہیں اور اگر ان کا کوئی ذکر ہے تو وہ برے الفاظ میں۔ ان پر لعنت بھیجی جاتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔*
مولانا عبداللہ محمدی
قرآن مجید میں حیرت انگیز سائنسی و دیگر پیشین گوئیاں
’’وہ پاک ذات ہے جس نے تمام مقابل قسموں (جوڑے) کو پیدا کیا۔ نباتات، زمین کے قبیل سے بھی اور ان (آدمیوں) میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جن کو لوگ نہیں جانتے‘‘ (36:36)
’’پاک ہے وہ ذات جس نے بنائے جوڑے سب چیزوں کے اس قسم سے جو اگتا ہے زمین سے اور خود ان میں سے اور ان چیزوں میں کہ جن کی ان کوخبر نہیں‘‘ (36:36)
ایک فرانسیسی ڈاکٹر موریس بگائے کی کتاب ’’بائبل قرآن اور سائنس‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔ موریس بگاؤ عیسائی تھا۔ اس نے بائبل میں دی گئی تمام آیات کا تجزیہ کیااور ثابت کیا کہ بائبل میں دی گئی تمام معلومات تخلیق کائنات اور تخلیق انسان کے بارے میں سائنس کی رو سے قطعی طور پر غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ اس نے قرآنی آیات کا بھی اس نظریہ سے متعلق جائزہ لیا اور اسے دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ تمام قرآنی آیات موجودہ سائنسی معلومات سے قطعی طور پر متفق اور ہم آہنگ ہیں۔ بالآخر اس نے اسلام قبول کرلیا۔
جن لوگوں نے کفر کیا ان کی مثال جیسے میدان میں ریت۔ کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے۔ (36:24)۔ یا ان کی مثال ایسی ہے جیسے عمیق سمندر میں اندھیرے۔ ہر طرف اندھیرے ہوں، ایک پر ایک چھایا ہوا اور اپنا ہاتھ بھی دکھائی نہ دے جس کو اللہ روشنی نہ دے اس کو کہیں بھی روشنی نہیں مل سکتی۔ (40-39:24)
کھالیں بدل دیں گے
دوزخ کے عذاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ ہمیشہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ (56:4)۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی بکھری ہوئی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟ ضرور کریں گے اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی (انگلیوں کی) پور پور درست کردیں۔ (4-3:75) کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا؟ پھر لوتھڑا ہوا۔ پھر اللہ نے اس کو بنایا پھر اس کے اعضاء کو درست کیا۔ پھر اس کی دو قسمیں بنائیں۔ مرد اور عورت کیا اس کو اس پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اٹھائے۔ (40-37:75) ان سے نباتات اور خود ان کے اور زمین سے نکلنے والی ہر چیز کے اور جن چیزوں کو تمہیں خبر نہیں سب کے جوڑے بنائے۔ (36:36) ہر چیز کے بنائے ہم نے جوڑے۔ (49:51) یہ تمام انکشافات کہ تکلیف کا احساس کھال میں ہوتا ہے۔ انسان کی قطعی شناخت ان کی انگلیوں کے پوروں سے ہوتی ہے اور دنیا میں کسی دو انسانوں کے انگوٹھے کے نشان آپس میں نہیں ملتے اور ہر چیز کے جوڑے ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں کا علم دنیا میں کسی کو نہیں تھا۔
دو دریاؤں کو ملا دیا
وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا۔ ایک کا پانی
شیریں ہے۔ پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری، چھاتی جلانے والا اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنادی۔ (53:25) اور دونوں دریا مل کر یکساں نہیں ہوجاتے۔ یہ تو میٹھا ہے پیاس بجھانے والا ہے۔ جس کا پانی خوشگوار ہے اور یہ کھاری ہے۔ کڑوا (12:35)اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں ۔ دو نوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ (20-19:55) اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا۔ (54:25) اور اللہ ہی ہے جس نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ (54:24)کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں۔ (44:21) ۔(41:13)
اے گروہ جن و انس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سواتم نکل سکتے ہی نہیں۔ (37:55)(33:55) ۔ اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور کوئی معبود ہوتے تو زمین و آسمان درہم برہم ہوجاتے۔ (22:21) تشکیل کائنات کے لئے یہ انکشاف کہ آسمان دھواں تھا بیسویں صدی کے سائنس دانوں کا نظریہ ہے۔ قرآن مجید میں ا س طرف بھی اشارہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کے کنارے سے نکل جاؤ گویا انسان کے فضائی سفر کی بھی پیشین گوئی ہے۔ یہ انکشاف کہ دو مغرب اور دو مشرق ہیں۔ یہ بھی معلومات قرآن مجید کے ذریعہ 1400سال قبل فراہم کی گئیں جب دنیا اس سے لاعلم تھی۔
بیسویں صدی تک تمام دنیا کے سائنس دانوں کا نظریہ تھا کہ مادہ ناقابل فنا ہے یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ قرآن مجید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انکشاف کیا یہ کائنات دھواں تھی۔ (اب بیسویں صدی میں سائنس دان Big Bang Theory کے قائل ہوئے ہیں) اور یہ اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ تک بنائی۔ وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے۔ (17:55)وہ ذات پاک ہے جس نے جن چیزوں کی تمہیں خبر نہیں ہے جوڑے بنائے ایک نشانی ان میں رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں۔ سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتا رہتا ہے اور یہ اللہ غالب اور دانا کا مقررہ کیا ہوا اندازہ ہے ۔ اور چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کردیں۔ یہاں تک کہ گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے۔ نہ تو سورج ہی سے ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے۔ سب اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔ (40-36:36)
اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اس سے فرمادیتا ہے ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے۔ (82:36)مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے جدھر تم رخ کرو اس کی ذات ہے۔ (115:2) وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جو کوئی کام کرنا چاہے تو ارشاد فرمادیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے۔ اللہ وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان بنائے سورج اور چاند کو کام میں لگادیا۔ ہر ایک ایک معیاد متعین تک گردش کررہا ہے۔(2:13)غور کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (3:16)
کیا انہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کو حکمت اور ایک وقت مقررہ تک کے لئے پید ا کیا ہے اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں۔ (8:30)
اسی نے تمہارے لئے رات اور دن اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا۔ اور اسی کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سمجھنے والوں کے لئے اس میں قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ (12:16) بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں میں قفل لگے ہیں؟ (24:47)
فرعون کی لاش
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی سے ان کا تعاقب کیا۔یہاں تک کہ اس کو غرق کے عذاب نے آپکڑا تو کہنے لگا میں ایمان لایا، جواب ملا۔ اب ایمان لاتا ہے حالانکہ پہلے نافرمانی کرتا رہا۔ تو آج ہم تیرے بدن کو دریا سے نکال لیں گے تاکہ آئندہ آنے والوں کے لئے عبرت ہو۔ (92-90:10)
اول تو عرب قوم اس قصہ سے ہی ناواقف تھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امی (ان پڑھ) تھے۔ قرآن مجید ہدایت کی کتاب ہے اور اس قسم کی معلومات دینے سے اسلام کے فروغ میں کوئی مدد بھی نہیں ملتی تھی۔ بلکہ الٹا مذاق اڑایا جانا ممکن تھاکہ کہاں ہے وہ فرعون کی لاش اور 1300 سال بعد اس کا انکشاف ہوا کہ فرعون کی لاش محفوظ ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر فرعون (Ramses II)کی لاش بیسویں صدی کے شروع میں برآمد ہوئی۔ حکومت فرانس نے حکومت مصر سے فرعون کی ممی (Mumies) عاریتا لیں اور ان کا تجزیہ کیا تو Ranses IIکی لاش میں نمک کے اثرات تھے جس سے ثابت ہوا کہ وہ سمندر میں غرق ہوکر مرا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام خود یہودیوں اور مسلمانوں کے نزدیک ایک جلیل القدر پیغمبر ہیں تورات یہودیوں اور مسلمانوں کے نزدیک مقدس کتاب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس فرعون کے ہم عصر اور اس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے۔ مگر تورات میں یہ انکشاف موجود نہیں۔ کیا کسی انسان کو عرب کے دور دراز خطے میں فرعون کے غرق ہونے کے تقریباً 2000سال بعد یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ فرعون کی لاش محفوظ ہے۔ پوری دنیا میں کہیں اس حیرت انگیز انکشاف کا تذکرہ نہ تھااور قرآن مجید میں اس انکشاف کے 1300 سال بعد فرعون کی محفوظ لاش (Mummy Preserved)برآمد ہوئی۔ فرعون کے غرق ہونے کے تقریباً 3300 سال بعد۔
رومی غالب ہوں گے
تبلیغ اسلام کے بالکل ابتدائی مرحلے میں ایرانیوں نے رومیوں کو ایسی فیصلہ کن شکست دی کہ پوری رومی سلطنت کو تاخت و تاراج کردیا۔ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایرانی آتش پرست تھے یعنی کفار مکہ کے عقیدہ سے قریب تراور رومی اہل کتاب تھے یعنی اسلامی عقیدے سے قریب تر۔ کفار مکہ نے ایرانیوں کی اس فتح پر خوشیاں منائیں اور مسلمان اس سانحہ سے افسردہ تھے کفار مکہ خوش ہوکر مسلمانوں سے کہتے تھے کہ اس طرح تم بھی شکست کھاؤ گے۔ مسلمان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے ان پر کفار مکہ انتہائی مظالم ڈھا رہے تھے۔ گنتی کے چند لوگ ایمان لائے تھے۔ 30-40 کے قریب۔ اس وقت سورۂ روم کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
اہل روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے چند ہی سال میں ۔ (9-10سال میں) پہلے بھی اور پیچھے بھی اللہ ہی کا حکم ہے۔ اور اس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔ (4-1:30)
ان حالات میں غور کریں جو اس وقت درپیش تھے۔ مشہور مؤرخ ایڈورڈگبن لکھتا ہے کہ ایرانیوں کی فتح اس قدر فیصلہ کن تھی کہ کسی کے تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ رومی دوبارہ غالب آجائیں گے۔ کفار کو اس قرآنی پیشین گوئی کے (نعوذ باللہ) غلط ہونے کا اس قدر پختہ یقین تھا کہ امیہ بن خلف نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے 100-100اونٹوں کی شرط لگائی کہ رومیوں کا غالب ہونا ناممکن ہے۔ اگر قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام ہوتا تو اس قسم کی شرط لگانے کا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی جواز تھانا ضرورت۔ اور نہ ہی کوئی ذریعہ۔ پھر اگر یہ پیشین گوئی نعوذ باللہ غلط ہوجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری جدوجہد اور اسلامی تبلیغ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا) یہ سب غلط ثابت ہوجاتا۔ مزید برآں قرآن مجید نے اس پیشین گوئی کا تذکرہ یوں بھی کردیا یعنی اس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔ انتہائی حیران کن طریقے سے رومن دوبارہ ایرانیوں کو ایسی فیصلہ کن شکست دینے میں کامیاب ہوگئے کہ اس کے بعد ہمیشہ کے لئے کسریٰ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
مزید ناقابل یقین پیشین گوئیاں
اے پیغمبر! کافروں سے کہہ دو کہ تم دنیا میں عنقریب مغلوب ہوجاؤ گے اور آخرت میں جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے۔ وہ بری جگہ ہے۔ (12:3)مزید کئی آیات اس مضمون کی۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب کل مسلمان گنتی کے تھے۔ ہاتھوں کی انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے اور مسلمانو ں پر سخت مظالم ڈھائے جارہے تھے۔ دور دور اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا کہ شہر مکہ میں بھی اسلام فروغ پاسکے گا۔
’’اور دیکھو بے دل نہ ہونا اور نہ کسی قسم کا غم کرنا۔ اگر تم مومن صادق ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ (139:3) یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب جنگ احد 3ہجری کو کافر عارضی طور پر مسلمانوں پر غالب آگئے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا تھا۔ 70اکابر صحابہؓ اس جنگ میں شہیدہوگئے تھے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوگئے تھے اور کفار کے سپہ سالار ابوسفیان کی بیوی نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا۔ ان کی لاش کے ناک کان کاٹ دیئے تھے اور ان کی بوٹیوں کا ہار بناکر گلے میں پہن لیا اور ان کا کلیجہ نکال کر کچا چبایا تھا۔
’’تو اے مشرکو! تم زمین پر چار مہینے چل پھر لو ۔ اور جان رکھو تم اللہ کو عاجز نہ کرسکوگے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے(2:9)اس آیات کے نزول کے 4ماہ بعد مکہ بغیر جنگ و خونریزی کے فتح ہوگیا اور اس کے بعد تمام کفار ایمان لے آئے۔ اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گااور تم کو ان پر غلبہ دے گا۔(14:9)مومنو! مشرک پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانۂ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو اللہ چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا اور حکمت والا ہے۔ (28:9) مکی آیات میں بھی ایسی ہی ناقابل یقین پیشین گوئیاں ہیں۔
اگر منافق جو مدینہ میں بری خبریں اڑایا کرتے ہیں اپنے کردار سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو ان کے پیچھے لگادیں گے۔ پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں گے۔ مگر تھوڑے دن۔ (60:33) اس کے بعد کچھ ہی عرصہ بعد سب یہودی جلاوطن کردیئے گئے۔
یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی نصیحت کی کتاب ہوتی تو ہم اللہ کے خالص بندے ہوتے۔ لیکن اب کرتے ہیں سو عنقریب ان کو اس کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندوں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ وہی مظفر و منصور رہیں گے اور ہمارا لشکر غالب رہے گا۔ تو اس وقت تک ان سے اعراض کرتے رہو اور انہیں دیکھتے رہو۔ یہ بھی عنقریب کفر کا انجام دیکھ لیں گے۔(سورۂ صفت (175-167:37)
یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے چراغ کی روشنی پھونک مار کر بجھادیں۔ حالانکہ اللہ اپنی روشنی کو پوری کرکے رہے گا۔ خواہ کافر ناخوش ہی ہوں۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت او ر دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے۔ خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔ (سورۂ صفت (9-8:51) یہ آیت کئی مقامات پر دہرائی گئی۔
سورۂ لہب۔ ۔۔۔ ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا اور اس کی جورو بھی۔ اس کے گلے میں مونج کی رسی۔ یہ بالکل ابتدائی مکی سورت ہے۔ ترتیب نزول میں چھٹی۔ ایک امریکن یہ سورت دیکھ کر ہی ایمان لے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اتنے ابتدائی مرحلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع کون دے سکتا تھا ابولہب حالت کفر میں مرے گا۔ اس سورت کے نزول کے وقت بمشکل 15-20 لو گ ایمان لائے تھے اور بالاخر سارا عرب ایمان لے آیا مگر ابولہب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سگا چچا تھا وہ مرتے دم ایمان نہیں لایا۔ اس امریکی کا کہنا تھا کہ ابولہب کے دل میں یہ بھی خیال نہیں آیا کہ نعوذ باللہ قرآن مجید کو غلط ثابت کرنے کے لئے صرف دکھانے کو ہی کلمہ پڑھ لیتا۔ (دل سے نہیں پڑھتا) کیونکہ اگر کوئی شخص صرف زبان سے کلمہ پڑھ لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ایمان لانا قبول کرلیتے تھے۔ کئی منافقین جو اسلام کے بدترین دشمن تھے انہوں نے زبان سے کلمہ ادا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مسلمان ہونا قبول کرلیا۔ سب سے بڑا منافق (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی تھا۔ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مسلمان ہونا تسلیم کرلیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ عبداللہ بن ابی منافق ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دل کا حال نہیں معلوم۔ اس کا فیصلہ کہ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا ہے یا دل سے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ روز حساب کرے گا۔ مجھے اختیار نہیں کہ کسی کلمہ گو کو (خواہ وہ دل سے اس پر ایمان نہ لائے) کافر قرار دینا میرے اختیار میں نہیں۔ قرآن کو غلط ثابت کرنے کے لئے ابولہب کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ دکھانے کو کلمہ پڑھ لے مگر وہ اور اس کی بیوی دونوں حالت کفر میں نہات اذیت ناک طریقے سے ہلاک ہوئے۔ خود ابولہب کا حال یہ تھا کہ اس سورت کے نزول کے بعد کسی بھی مہم پر مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہ ہوا بلکہ اپنے بدلے کسی اور کو اجرت دے کر جنگ بدر میں لڑنے بھیجا۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تو کہتا تھا کہ قرآن میں میری ہلاکت کی پیشین گوئی ہوچکی ہے جو کبھی غلط نہیں ہوسکتی۔ مگر اس کے بعد بھی ایمان نہیں لایا۔
سورۂ کوثر۔۔۔۔ ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تمہیں کوثر عطا فرمائی۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بے اولاد رہے گا‘‘ (3-1:108) یہ ترتیب نزول کے لحاظ سے پندرہویں سورت ہے۔ گویا بالکل ابتدائی سورت۔ اس کی شان نزول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب اولادیں نرینہ (بیٹوں) کا کم سنی میں ہی انتقال ہوگیا۔ ایک تو مکہ میں کفار کا ظلم وستم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا اس پر یہ اولاد کے انتقال کا غم۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کہ تمہارا اللہ کیسا ہے کہ تمہیں بیٹا بھی نہیں دے سکتا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں تھیں جو زندہ تھیں) تمہاری تو نسل بھی قائم نہیں رہے گی اور بے نام و نشان رہ جاؤ گے (نعوذ باللہ من تلک المھفوات) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے ذریعہ بتایا کہ تمہارا دشمن ہی بے نشان رہے گا۔ چنانچہ حالات سے ثابت ہوا کہ وہ دشمنان اسلام جو بڑے بڑے دولت مند سردار تھے اور کثرت اولاد رکھتے تھے۔ آج دنیا میں کوئی ان کا نام لینے والا نہیں اور اگر ان کا کوئی ذکر ہے تو وہ برے الفاظ میں۔ ان پر لعنت بھیجی جاتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔*
No comments:
Post a Comment