Friday, 8 July 2011

طہارت و نماز کی غلطیاں اورآداب مساجد کے منافی امور Apr-2011

تحریر: شیخ عبدالعزیز بن محمد السدحان
ترجمہ: شیخ محمد سلیم ساجد المدنی
طہارت و نماز کی غلطیاں اورآداب مساجد کے منافی امور
*دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض مقتدی ایسے امام پر تنقید شروع کردیتے ہیں جو قرآن پاک کی ترتیب کے خلاف سورتیں پڑھ لے، بعض نمازی تو اس حد تک تنقید کرتے ہیں کہ جیسے اس نے کوئی حرام کام کردیا ہے، یہ سراسر جہالت ہے، کیونکہ اس بات پر علماء کا اختلاف ہے کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے یا اجتہادی جسے صحابہ کرام نے ترتیب دیا ہے، امام ابن تیمیہ، ابن کثیر اور دیگر اہل علم کے نزدیک سورتوں کی ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجتہاد ہے۔
اس مسئلہ پر فتاویٰ کی دائمی کمیٹی کے سامنے درج ذیل سوال رکھا گیا:
سوال: ایک آدمی نے عشاء کی جماعت کراتے ہوئے پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ تبت پڑھی اور دوسری رکعت میں سورۂ فیل پڑھ لی تو کیا نماز میں ترتیب قرآن کے حوالے سے بعد والی سورت پہلی رکعت میں اور پہلے والی سورت بعد کی رکعت میں پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اس طرح کرنے میں کوئی حرج نہیں نماز درست ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ ترتیب قرآن کا خیال رکھا جائے، لہٰذا پہلی رکعت میں جو سورت پڑھی جائے تو دوسری رکعت میں اس کے بعد والی کوئی سورت پڑھ لی جائے، اللہ ہی نیکی کی توفیق دینے والا ہے۔
*یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب دو آدمی ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو ان میں سے امام مقتدی سے تھوڑا سا آگے ہوکر کھڑا ہوتا ہے، حالانکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس صورت میں امام اور مقتدی دونوں برابر کھڑے ہوں۔
امام بخاری نے اس موضوع پر باب باندھا ہے: ’’باب یقوم عن یمین الامام بحذاۂ سواء اذا کا ن اثنین‘‘ یعنی اگر دو نمازی ہوں تو مقتدی امام کے برابر دائیں جانب کھڑا ہو۔
انہوں نے اس عنوان کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک رات اپنی خالہ میمونہ کے گھر میں تھے ۔۔۔کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سوئے پھر اٹھے اور نماز پڑھنا شروع کردی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب نماز کی نیت کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کرلیا۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث کا لفظ ’’سواء‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ برابر کھڑے ہوئے، نہ آپ کے آگے نہ پیچھے۔
ابن جریج سے روایت ہے، کہتے ہیں میں نے عطاء سے پوچھا: دو آدمی جماعت سے نماز پڑھیں تو وہ کیسے کھڑے ہوں؟ انہوں نے کہا مقتدی امام کے دائیں طرف کھڑا ہو، میں نے پوچھا، کیا بالکل برابر کھڑا ہو جیسے صف ہوتی ہے، ایک دوسرے سے آگے پیچھے نہ ہوں؟ کہا: ہاں! میں نے کہا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملے ہوئے ہوں اور ان کے درمیان فاصلہ نہ ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں! (فتح الباری: ۲؍۱۹۰،۱۹۱)
*بے شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس وقت مسجد میں پہنچتے ہیں جب امام رکوع میں ہوتا ہے، لیکن وہ جس وقت اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جاتے ہیں امام سمع اللہ لمن حمدہ کہہ چکا ہوتا ہے اور وہ تھوڑی دیر زیادہ رکوع میں رہ کر کھڑے ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی رکعت مکمل ہوگئی۔ یہ جہالت ہے،ایسے آدمی کی رکعت نہیں ہوتی، کیونکہ اس نے امام کے ساتھ رکوع میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ اس کے رکوع میں جاتے جاتے امام اٹھ چکا تھا۔
فتاویٰ کی دائمی کمیٹی نے اس بارے میں یہ فتویٰ دیا ہے: جس نے امام کے رکوع سے اٹھتے وقت تکبیر تحریمہ کہی تو بیشک وہ اپنا رکوع کر بھی لے، اس کی یہ رکعت نہ ہوگی، اسی طرح جس نے تکبیر تحریمہ کہی، قیام کیا اور پھر رکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں جاہی رہا تھا کہ امام نے رکوع سے سر اٹھالیا تو اس کی یہ رکعت نہ ہوگی، کیونکہ اس نے امام کو رکوع کی حالت میں نہ پایا، رکعت تب ہوتی ہے جب مقتدی امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہوجائے۔ مذکورہ بالا حالتوں میں مقتدی کے لئے ضروری کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو اور رکعت مکمل کرے، البتہ جس آدمی نے امام کو رکوع میں پالیا یعنی تکبیر تحریمہ کہی پھر رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہوگیا اور سکون و اطمینان کے ساتھ رکوع کیا تو جمہور علماء کے نزدیک اس کی رکعت درست ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’جب تم نماز میں پہنچو اور ہم سجدے میں رہیں تو تم بھی سجدہ کرلیا کرو، لیکن اس کو کچھ بھی شمار نہ کرو، ہاں جس نے رکوع پالیا اس نے نماز پالی، یعنی اس کی رکعت ہوگئی‘‘ (ابوداؤد، حاکم، ابن خزیمہ)
ایک اور حدیث میں ہے :
’’جس نے نماز میں امام کے ساتھ رکوع پالیا اس نے نماز پالی‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)
*دورانِ نماز جب کسی کو یاد آئے کہ وہ بے وضو تھا یا وضو ٹوٹ گیا تو ایسی حالت میں نماز چھوڑنے کے لئے دائیں بائیں سلام پھیرنا درست نہیں ہے، چاہے نماز میں کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، کیونکہ سلام کا تعلق تو نماز کے خاتمہ کے ساتھ ہے، مذکورہ بالا حالت میں جب وضو ٹوٹ جائے یا یاد آجائے کہ وہ بے وضو ہے تو فوراً نماز چھوڑ دے اور وضو کے لئے چلا جائے، ایسے موقع پر سلام پھیرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ حدیث کی روشنی میں سلام کا تعلق نماز کے اختتام سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز شروع ہوتی ہے اور سلام کے ساتھ نماز ختم ہوجاتی ہے‘‘ (احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ)
*بعض نمازی آخری رکعت کا آخری سجدہ اتنا لمبا کردیتے ہیں کہ واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ سجدہ کسی خاص اہمیت کا حامل ہے، بسا اوقات تو یہ سجدہ پوری رکعت کے برابر تک لمبا کردیا جاتا ہے جو خلاف سنت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ میں تقریباً ایک جیسا وقت لگاتے تھے، البتہ بعض اوقات کوئی خاص وجہ ہو تو سجدہ کو لمبا کیا جاسکتا ہے، جیسے ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز پڑھائی تو سجدہ بہت لمبا کردیا، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک آپ نے اس نماز کے دوران اس قدر لمبا سجدہ کیا کہ ہم گمان کرنے لگے کہ کوئی خاص بات ہوگئی ہے یا پھر وحی آرہی ہے، آپ نے فرمایا: ایسی کوئی بات نہیں تھی بلکہ میرا یہ بچہ میرے اوپر بیٹھ گیا تھا، مجھے اچھا نہیں لگا کہ جلدی سے اتاردوں کہ اس کا اوپر چڑھنے کا مقصد ہی پورا نہ ہو۔ (صفۃ صلاۃ النبی، ص :۱۵۷)
مذکورہ بالا حالت تو سجدہ لمبا کرنے کا سبب بن گئی تھی لیکن خواہ مخواہ آخری رکعت کا آخری سجدہ لمبا کرنے کی عادت بنا لینا جائز نہیں، کیونکہ یہ خلاف سنت ہے۔
* ایک آدمی نماز میں تاخیر سے پہنچا اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوکر باقی نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک اور آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس مسبوق کے ساتھ جماعت کی نیت سے کھڑا ہوا، لیکن مسبوق صاحب نے اسے دھکے سے پرے کردیا اور انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ، حالانکہ یہ بالکل غلط انداز ہے، بعدکے لوگ اس طرح کی جماعت کرانے پر شدید تنقید کرتے ہیں، اس حوالے سے فتاویٰ کی دائمی کمیٹی کے سامنے یہ سوال کیا گیا:
سوال: ایک شخص کچھ رکعتیں گزرنے کے بعد جماعت میں شامل ہوااور جب امام نے سلام پھیرا تو وہ اٹھ کر باقی رکعتیں مکمل کررہا تھا، اسی اثناء میں ایک اور آدمی آگیا، کیا اس نئے آنے والے کے لئے جائز ہے کہ نماز پوری کرنے والے شخص کے ساتھ بطور مقتدی کھڑا ہوکر نماز پڑھ لے؟
جواب: ہاں! یہ جائز ہے کہ آخر میں آنے والا نمازی پہلے سے موجود اس نمازی کو امام بنالے جس کی کچھ رکعتیں جماعت سے رہ گئی تھیں اور وہ انہیں مکمل کررہا تھااور جب وہ سلام پھیرے تو اس کو امام بنانے والا مقتدی کھڑا ہوکر اپنی نماز مکمل کرلے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا:
’’کیا کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لے‘‘ (ابوداؤد، ترمذی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم)
امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں ایک مرتبہ اپنی خالہ میمونہ کے گھر سویا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور قیام اللیل شروع کردیا، میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا، لیکن میں بائیں جانب کھڑا ہوا تو آپ نے میرے سر کو پکڑ کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا۔ (صحیح بخاری و مسلم)
ان حدیثوں سے دلیل ملتی ہے کہ اکیلا نماز پڑھنے والا دوران نماز امام بن سکتا ہے اور فرض اور نفل میں کوئی فرق نہیں، صحیح رائے یہی ہے کہ جماعت کے بعد بقیہ نماز مکمل کرنے والا مسبوق شخص نئے آنے والوں کا امام بن سکتا ہے تاکہ وہ جماعت کا اجر پاسکے۔
*کبھی کبھار امام بھول کر زائد رکعت کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے، جیسے چار رکعت والی نماز میں پانچویں کے لئے یا دو رکعت والی نماز میں تیسری کے لئے یا تین رکعت والی نماز میں چوتھی رکعت کے لئے۔ اس بھول کے وقت اکثر لوگ امام کے پیچھے ہی لگے رہتے ہیں، حالانکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ امام بھول چکا ہے، ایسی حالت میں امام کی اقتداء درست نہیں ہے، جب کبھی ایسی صورت پیش آتی ہے تو مقتدی حضرات مختلف گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔
ایک قسم ایسے نمازیوں کی ہوتی ہے جنہیں صحیح علم نہیں ہوتا کہ امام کونسی رکعت میں ہے اور یہی گمان کرتے ہیں کہ امام ٹھیک ہی کررہا ہوگا، ایسے نمازیوں کو امام کی اتباع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوسری قسم ایسے مقتدیوں کی ہوتی ہے جو جانتے ہیں کہ امام زائد رکعت کے لئے کھڑا ہورہا ہے، اسے لقمہ بھی دیتے ہیں، لیکن اگر امام زائد رکعت کے لئے کھڑا ہوہی جاتا ہے تو یہ امام کی اتباع کی بجائے تشہد کے لئے بیٹھے رہ جاتے ہیں اور جب امام نماز پوری کرکے سلام پھیرتا ہے تو امام کے ساتھ سلام پھیرتے ہیں ان لوگوں کی نماز بھی صحیح ہوتی ہے۔
تیسری قسم کے لوگ بھی دوسری قسم کی طرح ہوتے ہیں، صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ امام کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اپنا سلام پھیردیتے ہیں ان کی نماز بھی درست ہوتی ہے لیکن دوسری قسم والے ان سے بہتر ہوتے ہیں یعنی امام کے ساتھ سلام پھیرنا افضل ہے۔
چوتھی قسم ایسے مقتدیوں کی ہوتی ہے جو یہ تو جانتے ہیں کہ امام زائد رکعت پڑھ رہا ہے پھر بھی امام کی اتباع کرتے رہتے ہیں، اس قسم کے لوگ غلطی پر ہوتے ہیں۔
اس بارے میں فتاویٰ کی دائمی کمیٹی نے فتویٰ دیا ہے کہ جب امام چار رکعت والی نماز میں پانچویں رکعت کے لئے کھڑ ا ہو اوراس کو یاد بھی کرایا جائے تب بھی پانچویں رکعت پڑھتا رہے تو ہر ایسے شخص پر جو سمجھ جائے کہ امام واقعی غلطی پر ہے، واجب ہے کہ امام کی اتباع نہ کرے بلکہ اپنی نماز پڑھ کر سلام پھیرلے یا بیٹھ کر انتظار کرتا رہے اور جب امام سلام پھیرے تو اس کے ساتھ سلام پھیرلے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ایسی حالت میں امام کی اتباع نہیں کرنی چاہئے بلکہ انتظار کرنا چاہئے، امام جب سلام پھیرے تو اس کے ساتھ سلام پھیرلے یہ زیادہ بہتر ہے، اور امام کے انتظار کئے بغیر بھی سلام پھیرا جاسکتا ہے۔ (مجموع فتاویٰ: ۲۳؍۵۳)
مذکورہ صورت حال میں جس نے شرعی احکام سے جہالت کے سبب امام کی اتباع کی اس کی نماز درست ہے، اسی طرح وہ شخص جسے یہ پتہ ہی نہیں کہ امام زائد رکعت پڑھ رہا ہے اور اس نے امام کی اقتدا کی تو ایسے شخص کی بھی نماز صحیح مانی جائے گی۔
*پارکوں اور باغیچوں میں نماز کا وقت ہوجائے تو مسجد کو چھوڑ کر وہیں نماز ادا کرلینا بھی درست عمل نہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں جب جناب علامہ عبدالعزیز بن باز فرماتے ہیں: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ سیرگاہوں میں نماز ادا کرے، اگرچہ کسی موٹی مضبوط اور پاک چٹائی پر ہی کیوں نہ ہوبلکہ دوسرے نمازیوں کے ساتھ اللہ کے ان گھروں میں نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے، جس کے بارے میں رب کریم کا فرمان ہے:
(فی بیوت أذن اللہ أن ترفع ویذکر فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو والأصال* رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ وإقام الصلوۃ وإیتاء الذکوۃ یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب والأبصار * لیجزیھم اللہ أحسن ماعملوا ویزیدھم من فضلہ واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب)(سورۃ النور:۳۶۔۳۸)
’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ جائیں گی۔اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ اضافہ عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ جسے چاہے بے شمار روزیاں دیتا ہے‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے اذان سنی اور پھر بھی مسجد میں نہیں آیا تو اس کی کوئی نماز نہیں سوائے اس کے جسے کوئی عذر لاحق ہوجائے‘‘ (ابن ماجہ، دار قطنی، ابن حبان، حاکم و اسنادہ علی شرط مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نابیناصحابی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول میرے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں جو مجھے ہاتھ پکڑ کر مسجد لے آیا کرے، تو کیا میرے لئے اس بات کی رخصت ہے کہ میں گھر پر ہی نماز ادا کرلیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا آپ نماز کے لئے دی جانے والی اذان سنتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں! فرمایا: تو پھر نماز کے لئے حاضر ہوا کرو‘‘ (صحیح مسلم)
*بعض ائمہ کرام سلام پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کو بہت لمبا کھینچتے ہیں یہ دائیں جانب ہو یا بائیں جانب، ان کے اس فعل سے بعض مقتدی امام کے ساتھ ساتھ اور بعض پہلے ہی سلام پھیر دیتے ہیں، اس بارے میں فتاویٰ کی دائمی کمیٹی کے سامنے یہ سوال رکھا گیا۔
سوال: سلام پھیرنے میں امام کی اتباع کا کیا حکم ہے؟ کیا امام کے ساتھ ساتھ سلام پھیردینا چاہئے یا اس وقت سلام پھیرنا چاہئے جب امام دونوں طرف سلام پھیر کر فارغ ہوجائے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بلا شبہہ امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتدا کی جائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو‘‘ (صحیح بخاری، مسلم)
دونوں طرف سلام پھیرنا نماز کے ارکان میں سے ہے، اس لئے امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے سے پہلے پہلے مقتدی کا ایک طرف سلام پھیردینا جائز نہیں، کیونکہ اس طرح امام کی اتباع نہیں ہوتی بلکہ صحیح یہ ہے کہ امام دونوں طرف سلام پھیرلے تو پھر مقتدی دونوں طرف سلام پھیرے۔
*نماز کے بعد اجتماعی طور پر دعا مانگنا بھی بدعت ہے، اس بارے میں جب علامہ محمد عثیمین رحمہ اللہ سے یہ سوال کیا گیا : کہ نماز کے بعد امام کے لئے اجتماعی طور پر دعا مانگنا جائز ہے؟
جواب: یہ بدعت ہے، نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا نہ ہی صحابہ میں سے کسی نے ایسا کیا، نماز کے بعد مقتدیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ذکر کرنا سنت ہے، یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا کرتا تھا اورصحابہ کرام اونچی آواز سے ذکر کرتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہوتے تو اونچی آواز سے ذکر کرتے۔
*نماز میں جب بھی کوئی ایسی آیت پڑھی جائے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے نام اور صفات کا ذکر ہو تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے رہنا درست نہیں ہے، جیسے (ھوا اللہ الذی لا إلہ إلا ھو عالم الغیب و الشہادۃ ھو الرحمن الرحیم) (سور ۃ الحشر: ۲۲)
یہ اشارہ نماز میں ایسا زائد عمل ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا جو بھی طریقہ ہم تک نقل ہوکر پہنچا ہے اس میں اس طرح شہادت کی انگلی ہلانا ثابت نہیں، نہ ہی اس بارے میں ہمیں لمبی تحقیق وبحث کے باوجود کوئی دلیل ملی ہے۔
*جب امام تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہتا ہے تو بعض لوگ پیچھے سے (عزوجل) کہتے ہیں، پھر تکبیر تحریمہ کہتے ہیں، یہ بدعت ہے اور رسول ﷺکی تعلیمات کے بالکل منافی ہے، آپ نے کبھی اس بات کاحکم نہیں دیا کہ جب میں تکبیر تحریمہ کہوں تو تم یہ الفاظ کہا کرو بلکہ آپ نے فرمایا: ’’بیشک امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہا کرو‘‘ (صحیح بخاری ومسلم)۔
*بعض مساجد میں دیکھا جاتا ہے کہ چھوٹے بچوں کے لئے مسجدکے بالکل آخری حصے میں صف بنادی جاتی ہے، جو خلاف شرع فعل ہے اور دو طرح سے یہ جہالت بھی ہے، ایک تو تمام بچوں کو اس طرح ایک صف میں بلا شرعی دلیل کے جمع کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے اور اگر یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ بچے نمازیوں کے درمیان شور کرتے ہیں اور باقی نمازیوں کی نماز خراب کرتے ہیں تو پھر ان کو اس طرح ایک جگہ جمع کردینا تو اور بھی خطرناک ہے، کیونکہ بچے اکھٹے ہوکر زیادہ شور و غل مچاتے ہیں،بلکہ علیحدہ علیحدہ ممکن ہے وہ زیادہ ہنگامہ نہ کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کو مسجد کے آخری کونے میں اس طرح جمع کرنا کہ درمیان میں کئی صفیں خالی ہوں، یہ بھی غلط فعل ہے، کیونکہ صفوں کو آپس میں جوڑنے اور مکمل کرنے کا حکم ہے۔
* سجدے کی حالت میں مٹھی بند کرکے زمین پر رکھنا بھی غلط ہے، صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں‘‘ (صحیح بخاری، مسلم)۔
رسول اللہ ﷺ سجدوں میں اپنی ہتھیلیاں زمین پر رکھتے تھے اور بچھادیتے تھے (ابوداؤود، حاکم) اور ہاتھوں کی انگلیاں باہم جوڑے رکھتے (ابن خزیمہ، بیہقی، حاکم) انگلیوں کا رخ قبلہ کی جانب ہوتا (بیہقی، ابن ابی شیبہ)۔
*بعض لوگ نمازمیں بہت بھاری غلطی کرتے ہیں، وہ غلطی یا تو جلد بازی کی وجہ سے یا لاعلمی اور لاپرواہی کی وجہ سے ہوتی ہے جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے، وہ بہت بڑی غلطی امام سے پہلے ہی تکبیر تحریمہ کہہ دینا ہے، اس فعل سے ایک تو نماز باطل ہوجاتی ہے، دوسرے یہ کہ امام سے سبقت کرنے کا بہت بڑا گناہ بھی نمازی کے سر پڑجاتا ہے، کیونکہ احادیث میں امام سے سبقت کرنے پر بڑی وعید آئی ہے اور یہ حرام ہے۔
علامہ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر مقتدی نے امام سے پہلے ہی تکبیر تحریمہ کہہ دی تو اس کی نماز شروع ہی نہیں ہوئی، اس لئے اسے نماز لوٹانا ہوگی، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، تو تم اس سے اختلاف نہ کرو (یعنی آگے پیچھے نہ ہو) پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو‘‘۔
یعنی امام کی تکبیر کہنے کے بعد تکبیر کہنے کا حکم ہے، اب جو آدمی امام کی تکبیر سے پہلے ہی تکبیر کہہ دے تو اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اتباع نہ کی۔
وہ تو مندرجہ ذیل حدیث کے زمرے میں آتا ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا عمل نہیں تو وہ مردود ہے‘‘۔
***

No comments:

Post a Comment