Friday, 8 July 2011

بڑے پیمانے پر خواتین کے ملازمت پیشہ ہونے کی وجہ سے کنبے سماج اور معیشت کا توازن بگڑ گیا ہے؟ Apr-2011

مولانا محمد مظہر اعظمیؔ
بڑے پیمانے پر خواتین کے ملازمت پیشہ ہونے کی
وجہ سے کنبے سماج اور معیشت کا توازن بگڑ گیا ہے؟
اردو زبان و ادب میں مرد عورت کے لئے دو خوبصورت تعبیر صنف قوی اور صنف نازک مشہور و معروف ہے، ان دونوں تعبیروں میں صنفی فرق کے ساتھ تخلیقی اور پیدائشی صلاحیت کی طرف اشارہ اور دونوں کے الگ الگ دائرہ کار کی ایک گونہ وضاحت بھی ہے، کیونکہ تخلیقی فرق علیحدہ علیحدہ دائرہ کار کا متقاضی ہوتاہے، جس کا تجربہ بیشتر لوگوں کو ہے کہ ایک تجربہ کار آدمی کسی کام کو سونپتے وقت متعلقہ شخص کی جسمانی طاقت و قوت کو ملحوظ رکھتا ہے، کسی بچہ سے وہی کام لیتا ہے جو اس کی عمر اور جسمانی طاقت و قوت کے مطابق ہو، کسی نوجوان کو بھی کوئی کام حوالہ کرتے وقت اس کی جوانی اور اس کے امنگ و حوصلہ کو ملحوظ رکھتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ’’عورت‘‘ میں عورت و مرد کے صنفی فرق کو واضح کیا ہے اور مختلف قسم کے فرق کو گنانے کے ساتھ لکھا ہے کہ ہندوستان میں ایک مرد کا اوسط وزن اڑتالیس کلو گرام ہوتا ہے جبکہ عورت اوسطاً بیالیس کلو گرام وزنی ہوتی ہے۔
قرآن کریم فطری اصولوں پر مبنی ہے، کیونکہ اس کا نازل کرنے والا انسان کا خالق اور اس کی فطرت سے واقف ہے، اس نے دونوں کے تخلیقی اور فطری فرق کو ملحوظ رکھا ہے، دونوں کا الگ الگ دائرہ کار متعین کیا اور دونوں کو اسی لحاظ سے ذمہ داریاں عطا کیں اور کہا کہ (الرجال قوامون علی النساء) یعنی مرد عورت پر قوام اور ذمہ دار ہیں، یہ بات اس پس منظر میں کہی گئی ہے کہ جب مرد و عورت ازدواجی زندگی کے مضبوط رشتہ میں جڑ جائیں گے تو دونوں کی ذمہ داریاں اور کام الگ الگ ہوں گے، صنف قوی کا کام اس کی طاقت و قوت کے لحاظ سے اور صنف نازک کی ذمہ داریاں اس کی نزاکت کے اعتبار سے۔
اس تمہیدی وضاحت کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ’’کیا بڑے پیمانے پر خواتین کے ملازمت پیشہ ہونے کی وجہ سے کنبے، سماج اور معیشت کا توازن بگڑ رہا ہے؟‘‘۔
سب سے پہلے ہم کنبہ کے توازن کا جائزہ لیں گے، مگر اس سے پہلے کنبہ کے مفہوم کی وضاحت ضروری ہے، یعنی سب سے چھوٹا کنبہ وہ ہوتا ہے جس میں میاں بیوی اور ان کے بچے ہوتے ہیں۔
اپنے معاشرہ کے اس چھوٹے سے کنبہ کا سنجیدگی سے جائزہ لیجئے جہاں میاں بیوی دونوں ملازمت سے جڑے ہوئے ہیں، بیوی حاملہ ہوتی ہے، مگر ملازمت اسے وقت پر آفس پہنچنے پر مجبور کرتی ہے،چاہے اس کی وجہ سے جس بھی قسم کی بیماریوں اور دقتوں سے دو چار ہو، کیسے کیسے وہ وقت گزارتی ہے اور آفس کے وقت کو کاٹتی ہے اسے وہی جانتی ہے، اس کا اندازہ ساحل پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو نہیں ہوسکتا ۔
پیدائش کا وقت قریب آجاتا ہے، رخصت لے کر آرام کرتی ہے، پیدائش کے بعد سب سے پیچیدہ مسئلہ بچے کی پرورش کا ہوتا ہے، جو ابھی شیرخوار ہے، ملازمت اسے مجبور کرتی ہے کہ بچے کو ایک غیر مانوس اور اجنبی عورت کو حوالہ کرکے چلی جائے، ظاہر ہے یہ اجنبیہ زر خرید ملازمہ ہے، وہ ماں کی غیر موجودگی میں ماں کا رول تو ادا کرسکتی ہے مگر ماں نہیں ہو سکتی، اصل اور نقل کاجو فرق ہر جگہ رہتا ہے وہ یہاں پر بھی بدرجہ اولیٰ رہے گا، بچہ ماں کے آفس جانے کے بعد غیر مانوس گود میں کس طرح شام کرتا ہے، اس کی گریہ وزاری اور آواز میں ماں کی طلب کا جو درد ہوتاہے، اسے لفظوں کے قالب میں نہیں ڈھالا جاسکتا، دوسری طرف ماں آفس کی مفروضہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں مصروف و مشغول ضرور ہوتی ہے، مگر رہ رہ کر بچے کے بلکنے کی آواز اس کے کان میں گونج جاتی ہے، وہ مضطرب ہوجاتی ہے، چہرہ فق پڑجاتا ہے، مگر ملازمت کی زنجیر میں اس آزادیوں کو غلاموں کی طرح جکڑے ہوئے ہیں، بہرحال آفس کا وقت ختم ہوتا ہے اور وہ اپنے لخت جگر کو کلیجہ سے چمٹا لیتی ہے، کبھی کبھی کام زیادہ ہونے کی وجہ سے باس کا حکم ہوتا ہے کہ کام نمٹا کر ہی جانا ہے جس کے لئے آدھا گھنٹہ رکنا پڑتا ہے، ان زائد لمحات میں بچے اور ماں پر کیا گزرتی ہے اور وہ ایک ایک لمحہ کس طرح کاٹتی ہے، اس کا تعلق بیان سے نہیں بلکہ مشاہدہ سے ہے، اگر کسی نے مشاہدہ کیا ہوگا تو اسے اس کا خوب اندازہ ہوگا ۔
بچہ ماں کی کما حقہ ممتا سے محروم ہوکر بڑا ہوتا ہے، اور وہی اس کا مزاج بن جاتا ہے، مگر ممتا سے محرومی کا احساس اس کے کسی نہ کسی گوشہ دماغ میں محفوظ رہتا ہے، پھر وہ وقت آتا ہے جب والدین بچے کی شفقت کے محتاج ہوتے ہیں، مگر قانون فطرت کے مطابق جس طرح بچہ ماں کی شفقت سے محروم رہا اب وہ خود بچے کی شفقت سے محروم رہتے ہیں۔ ع
یہ قانون فطرت ہے کاٹوگے وہی جو بوؤگے
شیشے کی دیوار کے پیچھے بیٹھ کر مت پتھراؤ کرو
اس طرح کنبہ و خاندان میں ممتا کی بنیاد پر جو شفقت و مروت مطلوب ہے وہ مفقود ہوتا ہے، جس کا فقدان اس کی ہیئت و ہیولیٰ بدل دیتا ہے اور کنبہ اپنا فطری توازن کھودیتا ہے۔
مختلف زوجین اور ان کے بچوں کے مجموعہ کو سماج اور سوسائٹی کہا جاتا ہے ، سماج جو ہمارے موضوع کا دوسرا جز ہے ، اس سماج میں زوجین کی مثال ایک سائیکل کی ہے، سائیکل کے وجود اور اس کے چلنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہوں ،دونوں کو شانہ بشانہ کرنے کی صورت میں نہ سائیکل وجود میں آئے گی اور نہ ہی اس سے مطلوبہ مقصد حاصل ہوگا، بالکل ٹھیک اسی طرح زوجین کا معاملہ ہے، ضروری ہے کہ بیوی گھر رہے اورسائیکل کے پچھلے پہیہ کی طرح اپنے دائرہ میں گھوم کر کا م کرے اور مرداگلے پہیہ کی طرح اپنے دائرہ میں رہ کر اپنا فریضہ انجام دے یعنی مرد باہر سے کسب معاش کا مسئلہ حل کرے اور عورت گھر میں رہ کرامور خانہ داری کو انجام دے، بچوں کی پرورش و پرداخت کرے، اس طرح سائیکل کی طرح دونوں اپنے اپنے دائرہ میں کام کریں گے تو جس طرح سائیکل کا وجود باقی رہے گا اسی طرح سماج کا توازن باقی رہے گا، اگر عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کردے گی اور دونوں کے حدود اور دائرہ عمل میں فرق نہیں رہے گا تو ایسی صورت میں سماج سماج نہیں بلکہ جنگل راج ہوجائے گا کیونکہ نہ کوئی حاکم ہوگا اور نہ ہی کوئی محکوم اور معاشرتی و سماجی توازن کے لئے حاکم و محکوم دونوں کا ہونا اور الگ الگ فرائض و ذمہ داریوں کا ہونا ضروری ہے۔
ہمارے موضوع کا تیسرا جز معیشت کے توازن کا مسئلہ ہے، تو اس حقیقت کو ذہن میں مرکوز رکھنا چاہئے کہ معیشت کی پوری ذمہ داری صنف قوی ہونے کے لحاظ سے مرد پر بالکل اسی طرح ہے جیسے عورت کے صنف نازک ہونے کی وجہ سے اس کی ذمہ داری گھر کی چہار دیواریوں میں بچوں کی پرورش و پر داخت ہے، مرد باہر سے کما کر لاتا ہے اور عورت و بال بچوں پر خرچ کرتا ہے، عورت حصول معاش کی فکر سے بے نیاز ہوکر نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ اپنی پوری صلاحیت و قوت صرف اور صرف بچوں کو سنوارنے اور بنانے میں صرف کرتی ہے، مرد بھی مطمئن ہے کہ روزی روٹی کی ذمہ داری میری ہے، برخلاف اس کے اگر عورت بھی ملازمت اختیار کرلیتی ہے اور معاشی فکر پال لیتی ہے تو سب سے پہلے بچوں کی تربیت متاثر ہوگی اور پھر اس کے بعد وہ خود کو کسی طرح اپنے شوہر سے کمتر نہیں سمجھے گی بلکہ بسا اوقات تو بیوی کی تنخواہ زیادہ اور مرد کی کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بیوی اپنے شوہر سے جوتی پر پالش کرواتی ہے اور گھر کے اخراجات کے لئے مرد کو غلام زر خرید بنالیتی ہے نتیجۃً تمام تر خرید و فروخت میں مرد عورت کا محتاج ہوتا ہے اپنی مرضی سے کوئی سامان خرید نہیں سکتا، حصول معیشت کے اس عدم توازن کا اثر شوہر، بچوں اور پورے کنبہ پر مرتب ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ عورت کی ملازمت کنبہ و سماج اور معیشت کے عدم توازن کا بہت بڑا سبب ہے، جس کا مشاہدہ ان دوکنبوں اور سماج کے موازنہ کے ذریعہ بھی ہوسکتا ہے جہاں عورتیں ملازمت پیشہ ہیں اور جہاں ملازمت پیشہ نہیں ہیں بلکہ گھر کی چہار دیواری میں رہ کر بچوں کو اچھا انسان اور ان کو سنوارنے کی دھن میں رہتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عدم توازن اور اس کے برے اثرات کو سمجھنے کی توفیق بخشے۔*

No comments:

Post a Comment